16 "Associates" (shuraka') includes three kinds of beings:
(1) The angels, prophets, saints, martyrs and the righteous men, to whom the polytheists assigned divine attributes and powers in different ages and whom they worshipped as gods. On Resurrection Day, they will say to their worshippers, "You did whatever you did without our consent, rather against our teachings and guidance. Therefore, we have nothing to do with you. Do not place any hope in us that we will intercede for you before AIIah Almighty."
(2) Inanimate things like the moon, the sun, the planets, trees, stones, animals, etc. The polytheists worshipped them as gods, prayed to them, but the poor things themselves were unaware that the vicegerent of AIIah was worshipping them so humbly and devotedly. Evidently, none of these also will come forward to intercede for him.
(3) The arch-criminals, who by deception and fraud, or by use of force, compelled the servants of God to worship thetas, e.g. Satan, false religious guides, and tyrants and despots. They themselves will be in trouble there. Not, to speak; of interceding for others, they will rather try to prove before God that their worshippers and followers were themselves responsible for their crimes, and therefore, they should not be made to bear the burden of their deviation. Thus, the polytheists there will not get any intercession from anywhere.
17 That is, "The polytheists will themselves admit that they had wrongly held them associates of God. They will realize that none of them really had any ,hare in Godhead. Therefore, in the Hereafter they will disown the shirk on which they insist in the world.
سورة الروم حاشیہ نمبر : 16
شرکاء کا اطلاق تین قسم کی ہستیوں پر ہوتا ہے ۔ ایک ملائکہ ، انبیاء ، اولیاء اور شہداء و صالحین جن کو مختلف زمانوں میں مشرکین نے خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے کر ان کے آگے مراسم عبودیت انجام دیے ہیں ۔ وہ قیامت کے روز صاف کہہ دیں گے کہ تم یہ سب کچھ ہماری مرضی کے بغیر ، بلکہ ہماری تعلیم و ہدایت کے سراسر خلاف کرتے رہے ہو ، اس لیے ہمارا تم سے کوئی واسطہ نہیں ، ہم سے کوئی امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری شفاعت کے لیے خدائے بزرگ کے سامنے کچھ عرض معروض کریں گے ۔ دوسری قسم ان اشیاء کی ہے جو بے شعور یا بے جان ہیں ، جیسے چاند ، سورج ، سیارے ، درخت ، پتھر اور حیوانات وغیرہ ۔ مشرکین نے ان کو خدا بنایا اور ان کی پرستش کی اور ان سے دعائیں مانگیں ، مگر وہ بے چارے بے خبر ہیں کہ اللہ میاں کے خلیفہ صاحب یہ ساری نیاز مندیاں ان کے لیے وقف فرما رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بھی کوئی وہاں ان کی شفاعت کے لیے آگے بڑھنے والا نہ ہوگا ۔ تیسری قسم ان اکابر مجرمین کی ہے جنہوں نے خود کوشش کر کے ، مکر و فریب سے کام لے کر ، جھوٹ کے جال پھیلا کر ، یا طاقت استعمال کر کے دنیا میں خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے ، مثلا شیطان ، جھوٹے مذہبی پیشوا اور ظالم و جابر حکمراں وغیرہ ۔ یہ وہاں خود گرفتار بلا ہوں گے ، اپنے ان بندوں کی سفارش کے لیے آگے بڑھنا تو درکنار ان کی تو الٹی کوشش یہ ہوگی کہ اپنے نامہ اعمال کا بوجھ ہلکا کریں اور داور محشر کے حضور یہ ثابت کردیں کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہیں ، ان کی گمراہی کا وبال ہم پر نہیں پڑنا چاہیے ۔ اس طرح مشرکین کو وہاں کسی طرف سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی ۔
سورة الروم حاشیہ نمبر : 17
یعنی اس وقت یہ مشرکین خود اس بات کا اقرار کریں گے کہ ہم ان کو خدا کا شریک ٹھہرانے میں غلطی پر تھے ۔ ان پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ فی الواقع ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصہ نہیں ہے ، اس لیے جس شرک پر آج وہ دنیا میں اصرار کر رہے ہیں ، اسی کا وہ آخرت میں انکار کریں گے ۔