Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 14

سورة الروم

وَ یَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ یَوۡمَئِذٍ یَّتَفَرَّقُوۡنَ ﴿۱۴﴾

And the Day the Hour appears - that Day they will become separated.

اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن ( جماعتیں ) الگ الگ ہوجائیں گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And on the Day when the Hour will be established -- that Day shall (all men) be separated. Qatadah said: "By Allah, this refers to the separation after which there will be no reunion." In other words, if one person is taken up to the highest heights and another is sent down to the lowest depths of Hell, that is the last they will ever see of one another. Allah says: فَأَمَّا الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مومنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہوجائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہوگا۔ چناچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جارہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ : دنیا میں مومن و کافر اور موحد و مشرک اکٹھے رہ رہے ہیں، ان کے درمیان وطن، نسب، کاروبار، پیشے اور دوستی وغیرہ کے تعلقات بھی ہوتے ہیں، مگر قیامت کے دن ان کے درمیان ایسی جدائی واقع ہوجائے گی کہ پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے، چناچہ کہا جائے گا : (وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ ) [ یٰس : ٥٩ ] ” اور الگ ہوجاؤ آج اے مجرمو ! “ اور تمام اہل محشر دو گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے، فرمایا : (فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ ) [ الشورٰی : ٧ ] ” ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ بھڑکتی آگ میں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ يَوْمَىِٕذٍ يَّتَفَرَّقُوْنَ۝ ١٤ ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ تَّفْرِيقُ ( فرقان) أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] ، وقرئ : فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] ، أي : يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] ، قيل : أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] . والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين . التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه/ 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة/ 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة/ 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام/ 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف/ 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة/ 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء/ 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء/ 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ الفرقان یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال/ 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال/ 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة/ 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان/ 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء/ 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے الفرق کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة/ 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور قیامت کے دن سب جدا جدا ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَءِذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ ) ” بنی نوع انسان کی یہ تقسیم (polarization) کس بنیاد پر ہوگی ؟ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 That is, "All communities and groups that have been formed in the world on the basis of race, country, language, tribe and clan, and economic and political interests, will break, and the people will be re-grouped on the basis of true belief, morality and character. On the one hand, all the believing and righteous people will be separated froth all the nations of mankind and put in one group, and on the other, people professing every false ideology and committing every kind of crime in the world will be sorted out severally from the multitudes of mankind and put into separate groups. In other words, the thing which Islam regards as the real basis of separation and union in the world and which the worshippers of ignorance refuse to accept, will become the basis of separation and union in the Hereafter. Islam says that the real thing which joins men together or divides them is the belief and morality. Those who believe and build the system of life on Divine guidance are one community, whether they belong to any race, any country and any region. The two cannot belong to one nation. They can neither walk together on a common path of life in the world, nor can meet with the same end in the Hereafter. Froth the world to the Hereafter they tread separate paths and have separate destinations. Contrary to this, the worshippers of falsehood have heen insisting in every age, and still insist, that mankind should be classified and grouped on the bases of race and country and language. The people who have a common race and country and language should constitute a separate nation, regardless of their religion and belief, and should offer a common front against the other similar nations. And this nation should have such a system of life which should bind the followers of Tauhid and the polytheists and the atheists together: The same was the concept of Abu Jahl and Abu Lahab and the chiefs of the Quraish. That is why they accused the Holy Prophet Muhammad (may Allah's peace he upon him) again and again of having stirred up divisions in their nation. That is why the Qur'an is warning that the groups made in the world on wrong bases will ultimately break and mankind will be permanently divided on the basis of the belief and the philosophy of life and morality and character on which Islam wants to build it in the world. The people who do not have a common destination cannot follow a common way of life.

سورة الروم حاشیہ نمبر : 18 یعنی دنیا کی وہ تمام جتھ بندیاں جو آج قوم ، نسل ، وطن ، زبان ، قبیلہ و برادری ، اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں ، اس روز ٹوٹ جائیں گی ، اور خالص عقیدے اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر نئے سرے سے ایک دوسرے گروہ بندی ہوگی ۔ ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور ان سب کا ایک گروہ ہوگا ۔ دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے ، اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ ولگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کر الگ نکال لیے جائیں گے اور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے ۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیز کو اس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہے اور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننے سے انکار کرتے ہیں ، آخرت میں اسی بنیاد پر تفریق بھی ہوگی اور اجتماع بھی ۔ اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اور اخلاق ہے ۔ ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پر نظام زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیں ، خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں اور کفر و فسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسرے امت میں ، خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو ۔ ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہوسکتی ۔ یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہ زندگی بنا کر ایک ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا انجام ایک ہوسکتا ہے ۔ دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے ۔ جاہلیت کے پرستار اس کے برعکس ہر زمانے میں اصرار کرتے رہے ہیں اور آج بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ جتھ بندی نسل اور وطن اور زبان کی بنیادوں پر ہونی چاہیے ، ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کر دوسرے ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے ، اور اس قومیت کا ایک ایسا نظام زندگی ہونا چاہیے جس میں توحید اور شرک اور دہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کر چل سکیں ۔ یہی تخیل ابوجہل اور ابو لہب اور سرداران قریش کا تھا ، جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام رکھتے تھے کہ اس شخص نے آکر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیا ہے ۔ اسی پر قرآن مجید یہاں متنبہ کررہا ہے کہ تمہاری یہ تمام جتھ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پر کر رکھی ہیں آخر کار ٹوٹ جانے والی ہیں ، اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اسی عقیدے اور نظریہ حیات اور اخلاق و کردار کی بنیاد پر ہونے والی ہے جس پر اسلام دنیا کی اس زندگی میں کرنا چاہتا ہے ۔ جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہوسکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤ تا ١٦۔ جس طرح دنیا میں نیک و بدسب ایک جگہ مل کر رہتے ہیں اسی طرح حشر میں حساب و کتاب تک تو سب نیک و بد ایک ہی جگہ ہوں گے پھر بغیر حساب و کتاب کے ستر ہزار آدمی امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میں کے جنت میں داخل ہوں گے جس کا ذکر صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ١ ؎ سے ہے اس کے بعد حساب و کتاب ہوگا اور حساب و کتاب کہ بعد جو لوگ جنت میں داخل ہونے کے قابل ہوں گے وہ جنت میں اور جو لوگ دوزخ میں جانے کے قابل ہوں گے وہ دوزخ میں چلے جاویں گے اس کے بعد وہ گنہگار لوگ جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان سے انبیاء اور ملائکہ اور نیک لوگوں کی شفاعت سے دوزخ میں سے نکالے جا کر جنت میں داخل کئے جاویں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ملائکہ اور انبیاء اور نیک مسلمان تو شفاعت کرچکے اب ارحم الراحمن کی باری ہے یہ فرما کر ایسے لوگوں کو جنہوں نے عمر بھر کوئی نیک کام نہیں کیا لپ بھر کر دوزخ سے نکالے گا اور جنت میں داخل فرماوے گا اس کا ذکر صحیح بخاری ومسلم کی ابو سعید خدری (رض) کی شفاعت کی حدیث میں ہے اب دوزخ میں وہ لوگ وہ جاویں گے جو ہمیشہ دوزخ میں رہنے کے قابل ہیں پھر جنت اور دوزخ کے مابین میں موت کو ذبح کیا جا کر جنتیوں کو ہمیشہ جنت میں اور دوزخیوں کو ہمیشہ دوزخ میں رہنے کا حکم سنا دیا جائے گا جس کا ذکر صحیح بخاری ومسلم کی ابو سعید خدری (رض) کی روایت سے ایک جگہ گزر ٢ ؎ چکا ہے غرض اس کے بعد جنتی اور دوزخی ایسے الگ الگ ہوجاویں گے کہ پھر کبھی ایک جگہ نہ ہوں گے ہر ایک فریق کے اسی وقت کے علیحدہ ہوجانے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن لوگ متفرق ہوجاویں گے پھر اس کا تفسیر فرمائی ہے کہ جنتیوں کی ٹکڑی حبت کے باغوں اور طرح طرح کی خوشی کے سامان میں ہوگی اور دوزخیوں کی ٹکڑی طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہوگی معتبر سند سے مستدرک حاکم میں جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے کہ جن لوگوں کی نیکیاں بدیوں سے زیادہ ہوں گی وہ بغیر حساب کے جنت میں چلے جاویں گے اور جن کی نیکیاں اور بدیاں برابر ہوں گی ان کا حساب آسانی سے ہو کر وہ بھی جنت میں داخل ہوجاویں گے اور جن کی بدیاں نیکیوں سے زیادہ ہوں گی ان کا حساب سختی سے ہو کر وہ دوزخ میں جاویں گے اور پھر شفاعت کے بعد دوزخ سے نکل کر جنت میں جاویں گے اس حدیث سے بغیر حساب کے جنت میں جانے والوں کی اور آسانی سے حساب ہو کر جنت اور شفاعت کے بعد دوزخ سے نکل کر جنت میں جانے والوں کی تفصیل اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ (١ ؎ مشکٰوۃ ص ٤٥٢ باب التوکل والصبر نیز دیکھئے فتح الباری ص ١٨٢ ج ٦ باب ید خل الجنۃ سبعون الفاظ بغیر حساب۔ ) (٢ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ ص ٤٩٠ باب الحوض والشفاعۃ) (٣ ؎ فتح الباری ص ١٦٩ ج ٦ باب من نوقش الحساب ‘ عذب۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:14) یتفرقون۔ مضارع جمع مذکر غائب تفرق (تفعل) مصدر ۔ وہ الگ ہوجائیں گے۔ یعنی مومن الگ۔ کافر الگ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ فرقے یعنی گروہ، چناچہ ایک گروہ مومنوں کا ہوگا جو جنت میں جائے گا اور دوسرا کافروں، منافقوں اور مشرکوں کا جو ابدا ً جہنم میں جائے گا۔ فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر (شوریٰ :7) یہ حساب و کتاب مکمل ہوجانے کے بعد کی کیفیت ہے۔ چناچہ قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ اس کے بعد یہ دونوں گروہ آپس میں کبھی نہ ملیں گے، چناچہ آگے اسی کی تفصیل آرہی ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن نہ صرف عابد اپنے معبودوں کی عبادت کے انکاری ہوں گے بلکہ وہ ان سے اپنا دامن بھی بچالیں گے۔ قیامت کے دن عابد اپنے معبودوں سے الگ ہوجائیں گے۔ ان الفاظ کے دو مفہوم لیے جاسکتے ہیں۔ دونوں کا ثبوت قرآن مجید میں موجود ہے۔ 1 مشرک دنیا میں اپنے معبودوں کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر تعظیم کرتے ہیں۔ اس تعظیم میں ان کے سامنے مؤدّب ہو کر کھڑے ہونا، ہاتھ جوڑنا جھکنا، سجدہ کرنا اور نذرونیاز پیش کرنا شامل ہے یہی تو عبادت ہے۔ جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے۔ مگر اکثر مشرک اسے بزرگوں کی تعظیم کے طور پر اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید نے اس سے باربار منع کیا اور اسے شرک قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود مشرک جن کو ” اللہ “ کے سوا وسیلہ بناتے ہیں زندگی بھر ان کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ قیامت کے دن عابد اور معبود۔ طالب اور مطلوب، ساجد اور مسجود کو الگ الگ کردیا جائے گا اور کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا۔ 2 مجرموں کو ان کے گناہوں اور جرائم کے اعتبار سے الگ الگ کردیا جائے گا۔ جو لوگ سچے دل سے ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ انہیں جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے گا۔ وہ وہاں ہر طرح خوش و خرم ہوں گے۔ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ جل جلالہ کے ارشادات کی تکذیب کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کو جھٹلایا وہ عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا واللَّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ )[ الانعام : ٢٣] ” پھر ان کا فریب اس کے سواکچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے اللہ کی قسم ! اے ہمارے رب ! ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔ “ مسائل ١۔ کافر اور مشرک کی کوئی بھی سفارش نہیں کر پائے گا۔ ٢۔ قیامت کی ہولناکیاں دیکھ کر مشرک اپنے معبودوں کا انکار کریں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرموں سے مومنوں کو ممتاز کیا جائے گا اور مجرموں کی درجہ بندی کی جائے گی۔ ٤۔ خالص عقیدہ رکھنے اور نیک اعمال کرنے والے خراماں خراماں جنت میں داخل ہوں گے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی ملاقات کو جھٹلانے والے جہنم میں ذلیل و خوار ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کے انعامات : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بےخار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ : ٢٣) ٥۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کریں گے۔ ( الزمر : ٨٩) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٣١) جہنمیوں کی سزائیں : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کے ابرو پاؤں کے انگوٹھے کے بالوں سے باندھ دیے جائیں گے۔ (الرحمن : ٤١) ٥۔ بیشک مجرم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ یہ قیامت کے دن مومنوں اور کافروں کے انجام کی تفصیل ہے۔ یتفرقون یعنی اہل جنت اور اہل جہنم جدا جدا ہوجائیں گے۔ ای یتمیز اھل الجنۃ من اھل النار (خازن و معالم ج 5 ص 169) ۔ فاما الذین امنوا الخ بشارت اخروی ہے اس میں ایمان والوں کے انجام کا ذکر ہے کہ وہ جنت میں انعام واکرام سے نوازے جائیں گے اور وہاں خوش و خرم رہیں گے۔ واما الذین کفروا الخ یہ تخویف اخروی ہے اس میں منکرین توحید اور جاحدین آخرت کا انجام مذکور ہے کہ وہ عذاب جہنم میں مبتلا کیے جائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14۔ اور جس دن قیامت قائم ہوگی اس دن سب لوگ متفرق اور جدا جدا ہوجائیں گے۔ یعنی ابرار اور فجازیا اہل جنت اور اہل جہنم الگ الگ ہوجائیں گے آگے اسی کی تفصیل ہے۔