Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 25

سورة الروم

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ تَقُوۡمَ السَّمَآءُ وَ الۡاَرۡضُ بِاَمۡرِہٖ ؕ ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمۡ دَعۡوَۃً ٭ۖ مِّنَ الۡاَرۡضِ ٭ۖ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ تَخۡرُجُوۡنَ ﴿۲۵﴾

And of His signs is that the heaven and earth remain by His command. Then when He calls you with a [single] call from the earth, immediately you will come forth.

اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں ، پھر جب وہ تمہیں آواز دے گا صرف ایک بار کی آواز کے ساتھ ہی تم سب زمین سے نکل آؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمِنْ ايَاتِهِ أَن تَقُومَ السَّمَاء وَالاَْرْضُ بِأَمْرِهِ ... And among His signs is that the heaven and the earth stand by His command. This is like the Ayat: وَيُمْسِكُ السَّمَأءَ أَن تَقَعَ عَلَى الاٌّرْضِ إِلاَّ بِإِذْنِهِ He withholds the heaven from falling on the earth except by His leave. (22: 65) إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ أَن تَزُولاَ Verily, Allah grasps the heavens and the earth lest they should move away from their places. (35:41) Whenever Umar bin Al-Khattab, may Allah be pleased with him, swore an emphatic oath, he would say, "No, by the One by Whose command the heaven and the earth stand," i.e., they stand firm by His command to them and His subjugation of them. Then, when the Day of Resurrection comes, the Day when the earth will be exchanged with another earth and the dead will come forth from their graves, brought back to life by His command and His call to them, ... ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الاَْرْضِ إِذَا أَنتُمْ تَخْرُجُونَ Then afterwards when He will call you by a single call, behold, you will come out from the earth. This is like the Ayat: يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ وَتَظُنُّونَ إِن لَّبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلً On the Day when He will call you, and you will answer with His praise and obedience, and you will think that you have stayed but a little while! (17:52) فَإِنَّمَا هِىَ زَجْرَةٌ وَحِدَةٌ فَإِذَا هُم بِالسَّاهِرَةِ But it will be only a single Zajrah. When behold, they find themselves on the surface of the earth alive after their death. (79:13-14) إِن كَانَتْ إِلاَّ صَيْحَةً وَحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ It will be but a single Sayhah, so behold they will all be brought up before Us! (36:53)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

251یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو آسمان و زمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہوجائے گا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اللہ تعالیٰ نے جہاں آسمان اور زمین کا ذکر کیا تو اس سے مراد کائنات کا نظام ہوتا ہے۔ جس میں لاتعداد اجرام فلکی محو گردش ہیں۔ اور موجودہ نظریہ کے مطابق ہماری زمین اور چاند اور کئی دیگر سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ عموماً سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہر سیارے کی کشش ثقل اسے ایک مخصوص مقام پر جکڑے ہوئے ہے۔ مگر بات صرف اتنی نہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج ہی سب سے بڑا ستارہ اور سیارہ ہے۔ لہذا اس کی کشش ثقل یا قوت جاذبہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ہر سیارہ کو اپنی طرف کھینچ لے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ لہذا ضروری ہے کہ کوئی ایسی مقتدر اور قادر مطلق ایسی ہستی موجود ہو جو باوجود قوت جاذبہ کی کشش کے ان سیاروں کو اپنے اپنے مدارات پر قائم رکھ سکے کوئی سبب طبیعی ایسا نہیں بتلایا جاسکتا جس نے تمام کواکب کو کھلی فضا میں جکڑ بند کردیا ہے کہ وہ سب سورج کے گرد چکر لگانے میں ہمیشہ معین مدارات پر ایک خاص حیثیت میں بھی حرکت کریں جس میں کبھی تخلف نہ ہو۔ پھر کواکب کی حرکات اور درجات سرعت میں ان کی اور سورج کی درمیانی مسافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو دقیق تناسب اور عمیق توازن قائم رکھا گیا ہے کوئی سبب طبیعی نہیں جن سے ان منظم و مربوط سیاروں کو وابستہ کرسکیں۔ ناچار اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ سارا نظام کسی ایسے زبردست حکیم وعلیم کے تحت ہے جو ان تمام اجرام سماویہ کے مواد اور ان کی ماہیت سے پورا واقف ہے وہ جانتا ہے کہ کسی مادہ کی کس قدر مقدار سے کتنی قوت جاذبہ صادر ہوگی اس نے اپنے زبردست اندازہ سے کواکب اور سورج کے درمیان مختلف مسافتیں اور حرکت کے مختلف مدارج مقرر کئے ہیں تاکہ ایک دوسرے تضادم اور تزاحم نہ ہو اور سارا عالم ٹکرا کر تباہ نہ ہوجائے۔ [ ٢٤] اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسرافیل کے صور پھونکنے کو اپنی پکار سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی جتنے انسان مرچکے یا قیام قیامت تک مریں گے۔ سب اللہ کی ایک پکار پر اپنی اپنی قبروں سے زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف چل کھڑے ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرمایا، اب فرماتے ہیں کہ اس کی نشانیوں میں سے یہ بات بھی ہے کہ اتنے عظیم آسمان و زمین اور ان میں موجود سورج، چاند اور ستارے کسی ستون یا تھامنے والی چیز کے بغیر محض اس کے امر کے ساتھ اپنی اپنی جگہ قائم ہیں اور اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٣٣ ] ” سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔ “ اس نے ہر ایک میں اپنی کمال حکمت کے ساتھ نہایت باریک اور درست حساب کے ساتھ جذب و دفع کی ایسی قوت رکھ دی ہے کہ کوئی دو جسم آپس میں نہیں ٹکراتے۔ اللہ تعالیٰ کے اس نظام میں کبھی باہمی تصادم نہیں ہوتا۔ اگر اس کا حکم نہ ہو تو نہ آسمان اپنی جگہ قائم رہ سکے اور نہ زمین۔ دیکھیے سورة حج (٦٥) اور سورة فاطر (٤١) ۔ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً ۔۔ : پھر یہ نہ سمجھو کہ یہ نظام دائمی یا ابدی ہے اور جو مرگیا ہمیشہ مردہ ہی رہے گا۔ نہیں، پھر (ثم) ایک وقت آرہا ہے جب وہ تمہارے زمین میں دفن ہونے کی حالت میں تمہیں ایک ہی آواز دے گا تو تم یک لخت زمین سے باہر نکل آؤ گے۔ مراد اس سے دوسرا نفخہ ہے، جیسا کہ فرمایا : (ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ ) [ الزمر : ٦٨ ] ” پھر اس (صور) میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو اچانک وہ کھڑے دیکھ رہے ہوں گے۔ “ اس کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے بنی اسرائیل (٥٢) ، یٰس (٥٣) اور نازعات (١٣، ١٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sixth sign of divine omnipotence Existence of the sky and earth is by the command of Allah. When He will command the breakup of this system, this strong arrangement, which is working since thousands of years perfectly without a slight depreciation, will end up in no time. Then by the command of Allah all the dead will assemble in the plain for reckoning. The sixth sign of divine omnipotence is in fact the sum and substance of the previous five signs, and they were in fact revealed to explain and elaborate this verse. The subject of this verse continues in the next few verses.

چھٹی آیت قدرت یہ ہے کہ آسمان و زمین کا قیام اللہ ہی کے امر سے ہے، اور جب اس کا امر یہ ہوگا کہ یہ نظام توڑ پھوڑ دیا جائے تو یہ سب مضبوط مستحکم چیزیں جن میں ہزاروں سال چل کر بھی کہیں کوئی نقصان یا خلل نہیں آتا، دم کے دم میں ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہوجائیں گی اور پھر اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے دوبارہ سب مردے زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔ یہ چھٹی آیت قدرت درحقیقت پہلی سب آیات کا ماحصل اور مقصد ہے، اسی کے سمجھانے کے لئے اس سے پہلی پانچ آیتیں بیان فرمائی ہیں اور اس کے بعد کئی آیات تک اسی مضمون کا ذکر فرمایا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ۝ ٠ ۭ ثُمَّ اِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَۃً۝ ٠ ۤۖ مِّنَ الْاَرْضِ۝ ٠ ۤۖ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ۝ ٢٥ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں پھر جب قیامت کے دن اللہ عالی تمہیں اسرافیل (علیہ السلام) کی زبانی قبروں سے بلائے گا تو تم ایک دم نکل پڑو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ تَقُوْمَ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِہٖ ط) ” ہماری زمین ‘ سورج ‘ نظام شمسی اور چھوٹے بڑے بیشمار ستاروں اور سیاروں کا ایک عظیم الشان اور لامتناہی نظام بھی اس کی قدرت کے مظاہر میں سے ہے۔ آج کا انسان جانتا ہے کہ اس نظام کے اندر ایسے ایسے ستارے بھی ہیں جن کے مقابلے میں ہمارے سورج کی جسامت کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ یہ اتنے بڑے بڑے اجرام سماویہ اللہ ہی کے حکم سے اپنے اپنے مدار پر قائم ہیں اور یوں اس کی مشیت سے کائنات کا یہ مجموعی نظام چل رہا ہے۔ (ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃً ق مِّنَ الْاَرْضِق اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ ) ” قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ کی شان ” کُن فیکُون “ کا ظہور ہوگا اور اس کے ایک ہی حکم سے پوری نسل انسانی زمین سے باہر نکل کر اس کے حضور حاضر ہوجائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36 That is, "Not only have they come into being by His Command, but their continuous existence and the functioning in them of a grand workshop of life constantly is also due to His Command. If His Command dces not sustain them even for a moment, the entire system should break down at once." 37 That is, "It is not at all difficult for the Creator and Controller of the universe to raise you back to life; for this He will have to make no preparation. His one call will be enough to raise and muster together from every corner of the earth all human beings who have been born since the beginning of creation and will be born in the future. "

سورة الروم حاشیہ نمبر : 36 یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ اس کے حکم سے ایک دفعہ وجود میں آگئے ہیں ، بلکہ ان کا مسلسل قائم رہنا اور ان کے اندر ایک عظیم الشان کارگاہ ہستی کا پیہم چلتے رہنا بھی اسی کے حکم کی بدولت ہے ۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اگر اس کا حکم انہیں برقرار نہ رکھے تو یہ سارا نظام یک لخت درہم برہم ہوجائے ۔ سورة الروم حاشیہ نمبر : 37 یعنی کائنات کے خالق و مدبر کے لیے تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا کوئی ایسا بڑا کام نہیں ہے کہ اسے اس کے لیے بہت بڑی تیاریاں کرنی ہوں گی ، بلکہ اس کی صرف ایک پکار اس کے لیے بالکل کافی ہوگی کہ آغاز آفرینش سے آج تک جتنے انسان دنیا میں پیدا ہوئے ہیں اور آئندہ پیدا ہوں گے وہ سب ایک ساتھ زمین کے ہر گوشے سے نکل کھڑے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:25) ان تقوم السماء والارض بامرہ میں ان مصدریہ ہے۔ ای قیام السماء والارض بامرہ۔ تقوم مضارع واحد مؤنث غائب ۔ وہ کھڑی ہے۔ وہ قائم ہے۔ یعنی آسمان اور زمین اس کے حکم سے کھڑے ہیں۔ یا قائم ہیں۔ ثم اذا دعاکم دعوۃ من الارض اذا انتم تخرجون : ثم عطف کے لئے ہے اذا شرطیہ ہے اور دوسرا اذا مفاجاتیہ ہے۔ پہلا جملہ شرطیہ ہے دوسرا جزائیہ ہے یہ ساری عبارت معطوف ہے اور اس کا عطف جملہ ماقبل پر ہے۔ ؎ کانہ قیل : ومن ایتہ قیام السماء والارض بامرہ ثم خروجکم من قبورکم بسرعۃ اذا دعاکم۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس کے حکم سے آسمان اور زمین کا کھڑے رہنا اور اس کے بلانے پر قبروں سے تمہارا فورا نکل آنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اس نے ایسی کشش رکھی ہے کہ ہر چیز اپنے مرکز ثقل پر قائم ہے اور ایک جسم دوسرے جسم کو اس طرح کھینچے ہوئے ہے کہ وہ جسم آپس میں ٹکراتے نہیں۔ اگر اس کا حکم نہ ہو تو سب جسم ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں اور یہ نظام درہم برہم ہوجائے۔ 2 یعنی جس قادر مطلق نے یہ محیر العقول نظام قائم کیا ہے اس کے لئے یہ ہرگز مشکل نہیں ہے کہ وہ تمہیں یک بارگی پکارے اور تم اس کی آواز سن کر فوراً کھڑے نہ ہوجائو۔ یہاں پکارنے سے مراد ” نغمہ ثانیہ “ یعنی نغمہ بعث ہے۔ جیسے فرمایا : ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس میں بیان ہے ان کے ابقاء کا، اور اوپر خلق السموات والارض میں ذکر تھا ان کے حدوث کا، اور یہ تمام نظام عالم جو مذکور ہوا یعنی تمہارا سلسلہ توالد و تناسل کا جاری ہونا اور باہم ازدواج ہونا اور آسمان و زمین کا بہیت کذائیہ موجود و قائم ہونا اور السنہ و الوان کا اختلاف اور لیل و نہار کے انقلاب میں خاص مصلحتوں کا ہونا اور بارش کا نزول اور اس کے مبادی آثار کا ظہور۔ یہ سب اسی حیوة اولی کے بقاء سلسلہ تک ہے، اور ایک روز یہ سب ختم ہوجاوے گا۔ 2۔ اور دوسرا نظام شروع ہوجاوے گا جو مقصد و مقام ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بارہویں نشانی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات عظیم المرتبت ہے اسی طرح اس کی قدرت اور کام عظیم اور عدیم المثال ہیں۔ زمین و آسمان پر غور فرمائیں کہ آسمان کسی سہارے کے بغیر قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔ زمین پانی پر بچھائی گئی ہے۔ اس کے باوجود نہ اس میں جھول ہے اور نہ ہی کسی مقام سے پانی میں غرق ہوئی ہے۔ زمین و آسمان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم ہیں اور اس کے حکم ثانی تک قائم رہیں گے۔ قیامت کے دن زمین و آسمان کو بدل دیا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اسرافیل کو صور میں پھونک مارنے کا حکم دے گا۔ اسرافیل کے صور پھونکنے کے ساتھ ہی لوگ اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑے ہوں گے۔ کوئی اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ زمین و آسمانوں میں ہر چیز ” اللہ “ کی ملک اور اس کے تابع فرمان ہے۔ اسی نے مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے بالکل آسان ہے۔ کیونکہ وہی زمین و آسمان پر غالب اور بلند وبالا ہے اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ اس فرمان میں یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اے انسان غور کر کہ جس زمین پر تیرا ٹھکانہ ہے اور جس آسمان تلے تو زندگی گزارتا ہے وہ اور ان کی ہر چیز اپنے رب کی تابع فرمان ہے۔ مگر تو اس کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ شریک بنانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا حالانکہ تو نے مر کر اپنے رب کے حضور حاضرہونا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

“۔ ومن ایتہ ان ۔۔۔۔۔۔۔۔ کل لہ قنتون (30: 25 – 26) آسمانوں اور زمین کا انتظام و قیام نہایت ہی سلیم و متین انتظام ہے جس کی حرکات متعین ہیں اور ان میں ایک سیکنڈ کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ یہ اللہ جل شانہ کی تدبیر سے ہے۔ کوئی مخلوق یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ وہ یا اس کے سوا کوئی اور یہ انتظام کر رہا ہے اور کوئی عقلمند شخص اس بات کا قائل نہیں ہوسکتا کہ یہ سب کچھ بغیر کسی کرنے والے مدبر کے ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ یہ زمین و آسمان اللہ کے کھڑے کرنے سے کھڑے ہیں۔ اللہ کے احکام کی تعمیل کر رہے ہیں ، اس کے مطیع فرمان ہیں۔ ان میں کوئی سرتابی ، انحراف اور اضطراب نہیں ہے۔ ثم اذا دعا کم ۔۔۔۔۔ تخرجون (30: 25) ” پھر جونہی کہ اس نے تمہیں زمین سے پکارا پس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے “۔ جو سائنس دان بھی اللہ کے اس نظام اور ان اندازوں اور ان قدرتوں پر غور کرے وہ اللہ کی اس دعوت کے جواب میں لبیک ہی کہہ سکتا ہے کہ جب اللہ پکارے گا تو لوگ خود کار طریقوں سے نکل آئیں گے۔ اب یہاں اس باین اور مضمون کا خاتمہ آتا ہے اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ انسان ، حیوان ، نباتات و جمادات سب کے سب اللہ کے مطیع فرمان ہیں۔ ولہ من فی السموت والارض کل لہ قنتون (30: 26) ” اور آسمان و زمین میں جو ہیں اس کے بندے ہیں۔ سب کے سب اس کے تابع فرمان ہیں “۔ مطلب یہ ہے کہ زمین و آسمان میں جو مخلوق بھی ہے وہ اللہ کے بندے ہیں ، طوعاً و کرہا مطیع فرمان ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی سنت کے مطابق چلتے ہیں اور ان میں نہ مختلف ہو سکتا ہے اور نہ انحراف ہو سکتا ہے۔ سب چیزیں اللہ کی سنت اور مشیت کی محکوم ہیں۔ دینی اعتبار سے وہ مومن ہوں یا کافر ہوں۔ اگرچہ ان کا دل اور دماغ کافر ہوتا ہے لیکن ان کا پورا جسم اور ان کے گرد پھیلی ہوئی یہ پوری کائنات اللہ کی مطیع ہے۔ جس طرح کائنات کی دوسری اشیاء سنت الہیہ کے لیے قانت اور مطیع ہیں اسی طرح انسان بھی ہے۔ رب کائنات کا یہ گہرا ، طویل اور عظیم سفر آخری اور اہم بات پر ختم ہوتا ہے کہ ایک دن تم نے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے لیکن تم اس دن سے غافل ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

نہم اور دہم : یہ فرمایا کہ آسمان اور زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں۔ تین آیات میں پہلے آسمان اور زمین کے پیدا فرمانے کا تذکرہ تھا اور اس آیت کریمہ میں آسمان اور زمین کی بقا کا تذکرہ ہے، جب تک ان کے باقی رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے اس وقت تک باقی رہیں گے اور جب قیامت کے دن ان کا حال بدلنے کا ارادہ ہوگا تو اس وقت ان کی حالت بدل جائے گی، آسمان پھٹ پڑیں گے اور زمین میں زلزلہ آجائے گا، آسمان کو اپنی مقررہ جگہ پر اور موجودہ حالت پر قائم رکھنا اور زمین کو اس کی مقررہ جگہ پر اور موجودہ حالت پر باقی رکھنا یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہے اس میں کسی اور کا کچھ بھی کوئی دخل نہیں۔ سورة فاطر میں فرمایا : (اِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا وَ لَءِنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَکَھُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْ بَعْدِہٖ ) (بلاشبہ اللہ آسمان اور زمین کو اس سے روکے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹیں اور اگر وہ اپنی جگہ سے ہٹیں تو اس کے علاوہ کوئی بھی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔ ) یہ آسمان قائم ہے، اس کے نیچے جتنے لوگ ہیں زمین کے اوپر بستے ہیں، اس کے بقا کی اللہ تعالیٰ کے علم میں ایک مدت مقرر ہے وہ جب تک اس دنیا کو باقی رکھے گا باقی رہے گی، جب فنا کرنا چاہے گا فنا ہوجائے گی، صور پھونکا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا بلاوا ہوگا، قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور حساب کے میدان میں جمع ہوجائیں گے اسی کو فرمایا : (ثُمَّ اِذَا دَعَاکُمْ دَعْوَۃًمِّنَ الْاَرْضِ اِذَآ اَنْتُمْ تَخْرُجُوْنَ ) (پھر جب وہ تمہیں بلائے گا زمین سے اچانک تم نکل آؤ گے) پھر فرمایا : (وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ ) (آسمانوں میں اور زمین میں جو بھی کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ ہی کی مخلوق ہے اور سب اس کے حکم کے تابع ہیں، تکوینی طور پر وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ یہ توحید پر چھٹی عقلی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی عظمت و وحدانیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سارا نظام کائنات اسی کے حکم سے قائم ہے اور دنیا کی میعاد ختم ہونے کے بعد قیامت کے دن جب وہ تمہیں بلائے گا یعنی اس کے حکم سے قائم ہے۔ اور دنیا کی میعاد ختم ہونے کے بعد قیامت کے دن جب وہ تمہیں بلائے گا یعنی اس کے حکم سے جب اسرافیل صور پھونکے گا تو تم سب زندہ ہو کر قبروں سے باہر نکل آؤ گے۔ ولہ من فی السموات الخ یہ ساتویں عقلی دلیل ہے۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق کا وہی خالق ومالک ہے اور تمام جن و انس انبیاء (علیہم السلام) اور ملائکہ کرام سب اس کے مطیع فرمانبردار ہیں اور سب خالصۃً اسی کو کارساز سمجھ کر پکارتے ہیں لہذا وہی سب کا کارساز اور حاجت روا ہے۔ قانتون مخلصون (روح) کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی وحدانیت کی گواہی دے رہا ہے۔ قانتون قائمون بالشھادۃ علی وحدانیتہ تعالیٰ کما قال الشاعر۔ و فی کل شیء لہ ایۃ تدل علی انہ واحد۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi