Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 10

سورة لقمان

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا وَ اَلۡقٰی فِی الۡاَرۡضِ رَوَاسِیَ اَنۡ تَمِیۡدَ بِکُمۡ وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ؕ وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍ کَرِیۡمٍ ﴿۱۰﴾

He created the heavens without pillars that you see and has cast into the earth firmly set mountains, lest it should shift with you, and dispersed therein from every creature. And We sent down rain from the sky and made grow therein [plants] of every noble kind.

اسی نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا ہے تم انہیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین میں پہاڑوں کو ڈال دیا تاکہ وہ تمہیں جنبش نہ دے سکے اور ہر طرح کے جاندار زمین میں پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی برسا کر زمین میں ہر قسم کے نفیس جوڑے اگا دیئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Proofs of Tawhid Thus Allah explains His mighty power in creating the heavens and the earth, and everything that is within them and between them. He says: خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ... He has created the heavens without any pillars that you see, Al-Hasan and Qatadah said, "It does not have any pillars, visible or invisible." ... وَأَلْقَى فِي الاْأَرْضِ رَوَاسِيَ ... and has set on the earth firm mountains, means, the mountains which stabilize and lend weight to the earth, lest it should shake with its water. Allah says: ... أَن تَمِيدَ بِكُمْ ... lest it should shake with you. ... وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ ... And He has scattered therein moving creatures of all kinds, means, He has placed throughout it all kinds of animals, the total number of whose kinds and colors is known to no one except the One Who created them. When Allah tells us that He is the Creator, He also reminds us that He is the Provider, as He says: ... وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ And We send down water from the sky, and We cause (plants) of every goodly kind to grow therein in pairs, meaning, every kind of good produce in pairs, i.e., they are beautiful to look at. Ash-Sha`bi said: "People are also produce of the earth, so whoever enters Paradise is goodly and whoever enters Hell is vile."

پہاڑوں کی میخیں اللہ سبحان وتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ زمین وآسمان اور ساری مخلوق کا خالق صرف وہی ہے ۔ آسمان کو اس نے بےستوں اونچا رکھا ہے ۔ واقع ہی میں کوئی ستوں نہیں ۔ گو مجاہد کا یہ قول بھی ہے کہ ستوں ہمیں نظر نہیں آتے ۔ اس مسئلہ کا پورا فیصلہ میں سورۃ رعد کی تفسیر میں لکھ چکا ہوں اس لئے یہاں دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ زمین کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہلے جلنے سے بچانے کے لئے اس نے اس میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ وہ تمہیں زلزلے اور جنبش سے بچالے ۔ اس قدر قسم قسم کے بھانت بھانت کے جاندار اس خالق حقیقی نے پیدا کئے کہ آج تک ان کا کوئی حصر نہیں کرسکا ۔ اپنا خالق اور اخلق ہونا بیان فرما کر اب رازق اور رزاق ہونا بیان فرما رہا ہے کہ آسمان سے بارش اتار کر زمین میں سے طرح طرح کی پیداوار اگادی جو دیکھنے میں خوش منظر کھانے میں بےضرر ۔ نفع میں بہت بہتر ۔ شعبی کا قول ہے کہ انسان بھی زمین کی پیداوار ہے جنتی کریم ہیں اور دوزخی لئیم ہیں ۔ اللہ کی یہ ساری مخلوق تو تمہارے سامنے ہے اب جنہیں تم اس کے سوا پوجتے ہو ذرا بتاؤ تو ان کی مخلوق کہاں ہے؟ جب نہیں تو وہ خالق نہیں اور جب خالق نہیں تو معبود نہیں پھر ان کی عبادت نرا ظلم اور سخت ناانصافی ہے فی الواقع اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں سے زیادہ اندھا بہرا بےعقل بےعلم بےسمجھ بیوقوف اور کون ہوگا ؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

101تَرَوْنَھَا، اگر عَمَد کی صفت ہو تو معنی ہونگے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔ 102رواسی راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لیے آگے فرمایا ان تمید بکم یعنی کراھۃ ان تمید (تمیل) بکم او لئلا تمید یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔ 103یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔ 104زوج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ستون ہیں تو سہی مگر تمہیں نظر نہیں آتے اور دوسرا یہ کہ تم دیکھ تو رہے ہو کہ ستون وغیرہ کچھ نہیں اور ستونوں کے سہاروں کے بغیر ہی قائم ہیں۔ اس مقام پر دو تین امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ جس جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کا اکٹھا ذکر کیا ہے وہ اس سے مراد پوری کائنات اور نظام کائنات لیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ لفظ آسمان کے لئے عربی میں دو لغت ہیں ایک فلک (ج افلاک) دوسرا سماء (ج سماوات) فلک سے مراد سیاروں کے مدارات ہیں جن پر وہ گھوم رہے ہیں۔ اور سماء مراد بلندی بھی ہے اور آسمان کا وجود بھی جسے اللہ تعالیٰ نے ایک ٹھوس حقیقت اور جسم رکھنے والی چیز کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ اور یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ موجودہ نظریہ ہیئت کے مطابق آسمان کوئی چیز نہیں بلکہ فقط حد گناہ کا نام ہے۔ جبکہ آسمانوں کا ذکر قرآن میں متعدد بار اور اس کے علاوہ احادیث میں بھی ہے۔ اور اس سورت میں آیا ہے کہ آسمانوں میں دروازے بھی ہیں۔ لہذا لفظ سماء کی تحقیق ضروری ہے۔ سماء کا لفظ بلندی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے یعنی ہر چیز جو ہمارے سر پر سیاہ فگن ہو وہ سماء ہے۔ سماء کی ضد ارض ہے جس کے معنی زمین بھی ہے اور پستی بھی۔ اور یہ دونوں الفاظ اسمائے نسبیہ میں سے ہیں۔ یعنی ایک ہی چیز اپنے سے پست چیز کے مقابلہ میں سماء بھی ہے اور وہی چیز اپنے سے بلند چیز کے مقابلہ ارض بھی۔ یعنی ہماری زمین ارض ہے تو پہلا آسمان اس کے مقابلہ میں اسماء ہے۔ اور یہی پہلا آسمان دوسرے آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے اور تیسرے آسمان کے مقابلہ میں دوسرا آسمان ارض (نمبر ٣) ہوئی۔ گویا اس لحاظ سے سات آسمانوں کے مقابلہ سات زمینیں بھی آگئیں جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ (اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا 12۝ۧ) 65 ۔ الطلاق :12) یعنی اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور ویسی ہی زمینیں پیدا کیں۔ پھر یہ بلندی تھوڑی سی ہو تب بھی اس پر سماء کے لفط کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جیسے ارشاد باری ہے۔ (وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً 22؀) 2 ۔ البقرة :22) (اور اس نے آسمان سے مینہ برسایا) یہاں سماء سے مراد بال ہیں جو میل ڈیڑھ میل کی بلندی پر اڑتے پھرتے ہیں اور اس معمولی سی بلندی کے لئے بھی سماء (آسمان) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جبکہ درج ذیل آیت : (اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَةِۨ الْكَـوَاكِبِ ۝ ۙ ) 37 ۔ الصافات :6) (بیشک ہم نے ہی آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے مزین کیا) میں اتنی زیادہ بلندی مراد ہے جتنی دوری پر ستارے چمکتے ہیں۔ خواہ وہ دوری لاکھوں میل پر مشتمل ہو یا کروڑہا اور ارب ہا میلوں پر اور درج ذیل آیت میں سماء (آسمان) کا لفظ یعنی بہت ہی زیادہ بلندی، اتنی بلندی جو سات آسمانوں سے بھی زیادہ ہو یعنی لامحدود بلندی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے۔ (ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ۭ وَھُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ 29؀ ) 2 ۔ البقرة :29) (پھر اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انھیں ٹھیک سات آسمان بنادیا) موجودہ ہیئت دان کسی آسمان کے قائل نہیں ہیں ہم ان سے گذارش کریں گے کہ ان کی تمام تر تحقیقات کی رسائی ابھی پہلے آسمانی یعنی آسمان دنیا تک بھی نہیں ہوسکی تو پھر وہ اس کی تردید کیونکر کرسکتے ہیں ؟ ان کی تحقیق خواہ کتنی طاقتور اور جدید قسم کی دوربینوں سے ہو خواہ وہ پلوٹو کی دوری ہو یا الف قنطورس کی یا قلب عقرب کی یہ سب کچھ آسمان دنیا کی زینت بنے گا۔ اور جو کچھ ابھی مزید تحقیق کے دائرہ میں آئے گا وہ بھی آسمان دنیا تک ہی محدود ہوگا۔ باقی چھ آسمان اس آسمان دنیا سے ماوراء اور ان تک دسترس انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ ان تک رسائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوئی۔ اور وحی کے ذریعہ ہی ہمیں سات آسمانوں، ان جسامت اور ان میں در بلندی کا علم ہوا ہے۔ آج کا ہیئت دان بھی جب کائنات کی وسعت کا خیال کرے ورطہ حیرت میں پھنس جاتا ہے تو دبی زبان سے اس کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن سے اس علم وحی کی تائید ہوتی ہے اور وہ برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس لامحدود کائنات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ جتنی طاقتور دوربینیں وہ ایجاد کرتے ہیں۔ کائنات اس کے سامنے اور بھی زیادہ وسیع ہوتی جاتی ہے۔ [ ١١] تشریح کے لئے دیکھئے سورة نحل کی آیت نمبر ١٥ کا حاشیہ نمبر ١٥ اور سورة انبیاء کا آیت نمبر ٣١ کا حاشیہ نمبر ٢٧ [ ١٢] جدید تحقیق کے مطابق جانداروں کی دس لاکھ انواع کا علم انسان کو حاصل ہوچکا ہے۔ اور اسی طرح دو لاکھ کے لگ بھگ نباتات کی انواع کا۔ جانداروں کی طرح نباتات، پودوں اور درختوں میں نر اور مادہ موجود ہوتے ہیں۔ اور ان معاملات میں جتنی بھی تحقیق ہورہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ عجائبات قدرت یا اللہ کی نشانیاں انسان کے علم میں آرہی ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۔۔ : اس میں اللہ تعالیٰ کی عزت و حکمت کی چند نشانیوں کا ذکر فرما کر اس کی توحید کو اجاگر فرمایا، جو قرآن مجید کا سب سے بڑا اور اصل موضوع ہے۔ ” بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا “ کی تفسیر سورة رعد (٢) میں اور ” وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ “ کی تفسیر سورة حجر (١٩) اور سورة انبیاء (٣١) میں دیکھیے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Verse 10 opens with the words: خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا (He has created the skies without the pillars that you may see). Another verse on the same subject: الَّذِي رَ‌فَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ‌ عَمَدٍ تَرَ‌وْنَهَا (Allah is the One who raised the heavens without pillars. You see them. 13:2) has appeared earlier in Surah Ar-Ra` d ( with a different translation). Analyzed grammatically, the text admits two alternative meanings. 1. If we were to take تَرَ‌وْنَهَا (tarawnah to be the attribute of عَمَدٍ ( ‘am-ad) and revert its pronoun to &amad, it would mean that Allah Ta` a1a created the skies without pillars that you may see, that is, had the pillars been there, you would have seen them. When pillars are not seen, it is clear that this great roof of the sky has been erected without pillars. This explanation has been reported from Sayyidna Hasan and Qatadah. (Ibn Kathir) 2. And if we were to take the pronoun of: تَرَ‌وْنَهَا (tarawnaha) as reverting to: السَّمَاوَاتِ (as-samawat: the skies) and this sentence as standing independently, then, it would mean that &Allah Ta’ ala created the skies without pillars as you see.& Then, there is yet another option in the case of the first grammatical analysis whereby it could also be taken to mean that &The skies stand on pillars that you cannot see - they are invisible.& This last explanation has been reported from Sayyidna Ibn ` Abbas, ` Ikrimah and Mujahid (رض) (IbnKathir). No matter what the option, the verse does point out to the particular sign of the perfect power of Allah Ta’ ala that He has made this extensive, high and magnificent roof in a way that no column and pillar is seen there-under.

خلاصہ تفسیر :۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بلا ستون بنایا (چنانچہ) تم ان کو دیکھ رہے ہو اور زمین میں (بھاری بھاری) پہاڑ ڈال رکھے ہیں کہ وہ تم کو لے کر ڈانوا ڈول نہ ہونے لگے اور اس (زمین) میں ہر قسم کے جانور پھیلا رکھے ہیں اور ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس زمین میں ہر طرح کے عمدہ اقسام (نباتات کے) اگائے (اور ان لوگوں سے جو کہ شرک کرتے ہیں کہئے کہ) یہ تو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزیں ہیں (سو اگر تم دوسروں کو شریک الوہیت قرار دیتے ہو تو) اب تم لوگ مجھ کو دکھاؤ کہ اس کے سوا جو (معبود تم نے بنا رکھے) ہیں انہوں نے کیا کیا چیزیں پیدا کی ہیں (تاکہ ان کا استحقاق الوہیت ثابت ہو اور اس دلیل کا مقتضیٰ یہ تھا کہ وہ لوگ ہدایت پر آجاتے، مگر انہوں نے ہدایت کو قبول نہیں کیا) بلکہ یہ ظالم لوگ (بدستور) صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔ معارف و مسائل (آیت) خلق السموٰت بغیر عمد ترونہا، اسی مضمون کی ایک آیت سورة رعد کے شروع میں گزر چکی ہے، (آیت) اللہ الذی رفع السموٰت بغیر عمد ترونہا، ترکیب نحوی کے اعتبار سے اس عبارت کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ ترونہا کو عمد کی صفت قرار دیا جائے اور اس کی ضمیر عمد کی طرف راجع کی جائے تو معنے یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور بغیر ستونوں کے جن کو تم دیکھتے ہو، یعنی اگر ستون ہوتے تو تم ان کو دیکھتے، جب ستون نظر نہیں آتے تو معلوم ہوا کہ یہ آسمان کی عظیم الشان چھت بغیر ستونوں کے بنائی گئی ہے، یہ تفسیر حضرت حسن اور قتادہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر) دوسری صورت یہ ہے کہ ترونہا کی ضمیر سموات کی طرف راجع ہو اور یہ جملہ مستقل قرار دیا جائے۔ معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا کیا، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ اور پہلی ترکیب کی صورت میں ایک معنی یہ بھی کئے جاسکتے ہیں کہ آسمان ستونوں پر قائم ہیں ان کو تم دیکھ نہیں سکتے وہ غیر مرئی ہیں۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور عکرمہ اور مجاہد سے منقول ہے۔ (ابن کثیر) بہر صورت اس آیت نے حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی یہ نشانی بتلائی کہ آسمان کی اتنی وسیع و عریض اور اتنی بلند عظیم الشان چھت کو ایسا بنایا ہے کہ اس میں کوئی عمود اور ستون نہیں دیکھا جاتا ہے۔ ایک سوال و جواب : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آسمان جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں اور عام طور پر مشہور ہے کہ ایک کرہ یعنی گول چیز ہے، اور ایسے گول کرہ میں وہ جہاں بھی ہو عادةً عمود اور ستون نہیں ہوتے، تو آسمان کی کیا خصوصیت ہے ؟ اس کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے اکثر مواقع میں زمین کو فراش فرمایا، جو گول اور کرہ ہونے کے بظاہر منافی ہے۔ مگر اس کی وسعت کی وجہ سے وہ عام نظروں میں ایک سطح کی طرح دیکھی جاتی ہے، اسی طرح تخیل کی بناء پر قرآن کریم نے اس کو فراش فرمایا، اسی طرح آسمان ایک چھت کی طرح نظر آتا ہے جس کے لئے عادةً ستونوں اور عماد کی ضرورت ہوتی ہے، اس عام خیال کے مناسب اس کا بلا ستون ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ اور درحقیقت قدرت کاملہ کے ثبوت کے لئے اتنے بڑے عظیم الشان کرہ کی تخلیق ہی کافی ہے۔ اور بعض مفسرین ابن کثیر وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ آسمان اور زمین کا مکمل کرہ ہونا قرآن و سنت کی رو سے ثابت نہیں، بلکہ بعض آیات و روایات سے اس کا ایک قبہ کی شکل میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک صحیح حدیث میں جو ہر روز آفتاب کا تحت العرش پہنچ کر سجدہ کرنا مذکور ہے وہ اسی صورت پر ہوسکتا ہے کہ آسمان مکمل کرہ نہ ہو، اسی صورت میں اس میں فوق و تحت یعنی اوپر نیچے کی جہت متعین ہو سکتی ہے، مکمل کرہ میں کسی جہت و سمت کو اوپر یا نیچے نہیں کہہ سکتے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَبَثَّ فِيْہَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّۃٍ۝ ٠ ۭ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَنْۢبَتْنَا فِيْہَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيْمٍ۝ ١٠ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے عمد العَمْدُ : قصد الشیء والاستناد إليه، والعِمَادُ : ما يُعْتَمَدُ. قال تعالی: إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] ، أي : الذي کانوا يَعْتَمِدُونَهُ ، يقال : عَمَّدْتُ الشیء : إذا أسندته، وعَمَّدْتُ الحائِطَ مثلُهُ. والعَمُودُ : خشب تَعْتَمِدُ عليه الخیمة، وجمعه : عُمُدٌ وعَمَدٌ. قال : فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ [ الهمزة/ 9] وقرئ : فِي عَمَدٍ ، وقال : بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ، وکذلک ما يأخذه الإنسان بيده مُعْتَمِداً عليه من حدید أو خشب . ( ع م د ) العمد کے معنی کسی چیز کا قصد کرنے اور اس پر ٹیک لگانا کے ہیں اور العماد وہ چیز ہے جس پر ٹیک لگائی جائے یا بھروسہ کیا جائے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِرَمَ ذاتِ الْعِمادِ [ الفجر/ 7] جو ارم ( کہلاتے تھے اتنے ) دراز قد ۔ میں العماد سے وہ چیزیں مراد ہیں جن پر انہیں بڑا بھروسہ تھا محاورہ ہے ۔ عمدت الشئی کسی چیز کو سہارا دے کر کھڑا کرنا عمدت الحائط دیوار کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور العمود اس لکڑی ( بلی ) کو کہتے ہیں جس کے سہارے خیمہ کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی جمع عمد آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ، [ الهمزة/ 9] ( یعنی آگ کے ) لمبے لمبے ستونوں میں ۔ اور ایک قرات میں فی عمد ہے نیز فرمایا : ۔ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ستونوں کے بغیر جیسا کہ تم دیکھتے ہو ۔ نیز العمود ہر اس لکڑی یا لوہے کو کہتے ہیں جس پر سہارا لگا کر انسان کھڑا ہوتا ہے رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ رسا يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] ، ( ر س و ) رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات/ 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات/ 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ ميد المَيْدُ : اضطرابُ الشیء العظیم کا ضطراب الأرض . قال تعالی: أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل/ 15] ، أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء/ 31] . ومَادَتِ الأغصان تمید، وقیل المَيَدانُ في قول الشاعر : 432- نعیما ومَيَدَاناً من العیش أخضرا وقیل : هو الممتدُّ من العیش، وميَدان الدَّابة منه، والمائدَةُ : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] «2» ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان . ( م ی د ) المید ۔ زمین کی طرح کی کسی بڑی چیز کا مضطرب ہونا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل/ 15] کہ تم کو نے کر کہیں جھک نہ جائے ۔ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء/ 31] تاکہ لوگوں ( کے بوجھ سے ہلنے اور جھکنے نہ لگے ۔ مادت اکا غصان تمید شاخوں کا مضطرب ہونا بعض نے کہا ہے کہ شاعر کے کلام ( 417 ) فعیما ومیدا انا من العیش اخضرا نعمتیں اور سر سبز لہلہاتی ہوئی زندگی میں بھی میدا نا مادت الا غصبان سے ہے اور اس کے معنی کشادہ زندگی کے ہیں اور اسی سے میدان الدابۃ ہے جس کے منعی جانور کے کھلے میدان میں پھرنے کے ہیں ۔ المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ہم پر آسمان سے خواں نازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔ بث أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل . ( ب ث ث) البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے دب الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] ( د ب ب ) دب الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود/ 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے نبت النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] ( ن ب ت ) النبت والنبات ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ/ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس/ 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا چناچہ تم ان کو دیکھ رہے ہو یا یہ کہ ایسے ستونوں کے ساتھ بنایا جن کو تم نہیں دیکھ رہے اور زمین میں بھاری بھاری پھاڑ بنائے جو زمین کے لیے میخیں ہیں کہ وہ تمہیں لے کر ڈانواں ڈول نہ ہونے لگے اور اس زمین پر ہر قسم کے جانور پھیلا رکھے ہیں۔ اور ہم نے آسمان سے بارش برسائی پھر اس سے زمین سے ہر طرح کے عمدہ اقسام کی چیزیں اگائیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ ) ” یعنی زمین کا توازن (isostasy) برقرار رکھنے کے لیے اس میں پہاڑ گاڑ دیے۔ م (وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ ) ” آج کی سائنس ” نباتات کے جوڑوں “ کی بہتر طور پر تشریح کرسکتی ہے۔ بہر حال دوسرے جانداروں کی طرح پودوں اور نباتات میں بھی نر اور مادہ کا نظام کار فرما ہے اور ان کے ہاں باقاعدہ خاندانوں اور قبیلوں کی پہچان اور تقسیم بھی پائی جاتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 After the above introductory sentence, the discourse now turns to the real theme, i.e.., the refutation of shirk and the invitation to Tauhid. 13 The actual words bi -ghair i amad-in tarauna-ha in the Text may havc two meanings: (1) "You can see for yourself that they stand without pillar"; and (2) 'they stand on the pillars which you cannot see" Ibn 'Abbas and Mujahid havc favoured the second meaning, and many other commentators take the first meaning. If the meaning is expressed in terms of the natural sciences of the present day, it can be said that the countless stars and planets in the heaven have been established in their positions and orbits without any visible support and prop: there are no strings and wires which might have tied them together; there are no iron bars which might be withholding them from falling on one another. It is the law of gravitation which is supporting the system. This interpretation is according to the present-day knowledge. It may be that tomorrow some new addition to our knowledge enables us to interpret the reality better. 14 For explanation, see E. N . 12 of Surah An-Nahl .

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :12 اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدعا ، یعنی تردید شرک اور دعوت توحید پر کلام شروع ہوتا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :13 اصل الفاظ ہیں بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ کہ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے ، اور بہت سے دوسرے مفسرین پہلا مطلب لیتے ہیں ۔ موجودہ زمانے کے علوم طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام عالم افلاک میں یہ بے حد و حساب عظیم الشان تارے اور سیارے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں ۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو ۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گر جانے سے روک رہی ہوں ۔ صرف قانون جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے ۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اور اضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جا سکے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :14 تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ۲ ، صفحہ ۵۳۰ ، حاشیہ نمبر ۱۲ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: آسمانوں کا پورا نظام کسی ایسے ستونوں پر نہیں کھڑا جو انسان کو نظر آسکیں، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے محج اپنی قدرت کے سہارے قائم فرمایا ہے جو معنوی ستون ہیں، نظر نہیں آتے۔ آیت کی یہ تفسیر حضرت مجاہد سے منقول ہے، جیسا کہ سورۃ رعد :2 میں بھی گذر چکا ہے 3: یہ مضمون بھی قرآن کریم میں کئی جگہ آیا ہے کہ زمین کو پانی پر ڈگمگانے سے بچانے کے لیے پہاڑ پیدا کیے گئے ہیں۔ دیکھئے پیچھے سورۃ رعد :3 سورۃ حجر :19 سورۃ نحل : 15: سورۂ انبیاء : 31 اور سورۂ حم السجدہ : 10، سورۂ ق : 7 اور سورۂ مرسلات : 27

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:10) عمد۔ ستون۔ ومعد اور عماد کی جمع۔ ترونھا۔ تردن مضارع جمع مذکر حاضر۔ رؤیۃ مصدر (باب فتح) ہا ضمیر واحد مذکر غائب کے دو مرجع ہوسکتے ہیں :۔ (1) آسمان۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا ۔ اور تم دیکھ رہے یو کہ آسمان ستونوں کے بغیر پیدا کئے ہیں۔ (2) عمد۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا۔ کہ اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا فرمایا۔ جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی اگر ہوں تو ضرور نطر آئیں۔ یا اس نے آسمانوں کو پیدا کیا ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ ستون ہوں لیکن اگر وہ ہوں تو ایسے ہیں کہ تم دیکھ نہیں سکتے ۔ رواسی : راسیۃ کی جمع ہے بمعنی بوجھ۔ پہاڑ۔ رواسی کا استعمال ٹھہرے ہوئے پہاڑوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ان تمید بکم ای لئلا تمید بکم تاکہ تمہیں لے کر وہ ڈولتی نہ رہے تمید مضارع واحد مؤنث غائب وہ ہلتی ہے وہ جھکتی ہے مید مصدر (باب ضرب) کسی بڑی چیز کا ہلنا ۔ یا جھکنا۔ بث۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے بکھیرا۔ اس نے پھیلایا۔ بث مصدر (باب ضرب ، نصر) دابۃ۔ جانور۔ پاؤں پر چلنے والے۔ رینگنے والے جانور۔ اسم فاعل کا صیغہ ہے دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ فیہا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب الارض کے لئے ہے۔ زوج کریم۔ موصوف وصفت۔ شریف و کثیر المنفعت اقسام یا جوڑے۔ اس میں حیوانات، نباتات، جمادات سب شامل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب ” ترونھا من ” ھا “ کی ضمیر آسمانوں کے لئے قرار دی جائے اور اگر یہ ستونوں کے لئے سمجھی جائے تو ترجمہ یوں ہوگا۔” اور اس نے آسمانوں کو ایسے ستونوں کے بغیر بنایا جنہیں تم دیکھ سکتے ہو۔ “ گویا آسمانوں کے ستون ہیں مگر وہ تمہیں نظر نہیں آتے واللہ اعلم (نیز دیکھیے سورة رعد آیت 2)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ “ کفار کو عذاب الیم دے گا اور ایمان داروں کو جنت عطا فرمائے گا اس کی شان یہ ہے کہ اس نے بغیر ستونوں کے آسمان ٹھہرائے اور بلند وبالا پہاڑ بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی دو عظیم قدرتوں اور دو بڑی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے ایک دوسرے پر آسمان کھڑے کیے ہیں۔ جن کے بارے میں اب تک سائنسدانوں کا خیال ہے کہ صرف ایک ہی آسمان ہے اور وہ بھی ٹھوس میٹریل سے بنا ہوا نہیں بلکہ اکثر سائنسدان کہتے ہیں کہحدِّ نظر کا نام آسمان ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا نقطہ نظر ہے کہ آسمان موجود ہے۔ لیکن یہ ٹھوس چھت ہونے کی بجائے ایک دھواں ہے جس تک ہماری نظر نہیں پہنچ سکتی۔ حالانکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں ان کے درمیان فاصلے ہیں اور ان میں دروازے میں جن سے ملائکہ زمین پر آتے جاتے ہیں۔ کچھ اہل علم نے یہ بھی ترجمہ اور مفہوم لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے ستون ہیں لیکن انسان انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ پہاڑوں کے بارے میں جدید تحقیقات جاننے کے لیے فہم القرآن کی جلد ٣ سورة الرّعد آیت : ٣ ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے یہاں ” زَوْجٌ کَرِیْمٌ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ قرآن مجید نے دنیا کو پہلی بار اس حقیقت سے آگاہ فرمایا کہ جاندار چیزوں کے نر اور مادہ کی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔ جس طرح کھجور کے درخت میں نر اور مادہ ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے درختوں میں بھی نر اور مادہوتے ہیں۔ ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا جب آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا ‘ اے بنو تمیم ! خوشخبری قبول کرو۔ انہوں نے کہا آپ ہمیں خوشخبری دیتے ہیں، لیکن کچھ ہمیں عطا بھی کریں۔ ان کے بعد اہل یمن کے کچھ لوگ آئے آپ نے فرمایا کہ اے اہل یمن ! خوشخبری قبول کرو ‘ آپ سے پہلے بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہم قبول کرتے ہیں آپ کی خدمت میں ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ ہم دین کی سمجھ حاصل کریں اور ہم آپ سے کائنات کی ابتداء کے بارے میں پوچھیں کہ سب سے پہلے کیا چیز تھی ؟ آپ نے فرمایا کہ ” اللہ “ تھا ‘ اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اس کا عرش پانی پر تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا۔ پھر لوح محفوظ میں تمام امور لکھے۔ عمران (رض) کہتے ہیں پھر ایک شخص میرے پاس آیا، اس نے کہا، اے عمران ! اپنی اونٹنی کو تلاش کروکیون کہ وہ بھاگ گئی ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے نکلا اللہ کی قسم مجھے یہ زیادہ پسند تھا کہ اونٹنی چلی جاتی ‘ لیکن میں نہ اٹھتا۔ “ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ )] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے آسمان کھڑے کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑ گاڑ دئیے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نباتات، پھل اور ہر قسم کا اناج پیدا کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات کے بھی جوڑے پیدا کیے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں پہاڑوں کا ذکر : ١۔ اللہ نے تمہارے لیے سایہ دار چیزیں بنائیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی ہے۔ (النحل : ٨١) ٢۔ کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا ؟ (النباء : ٦، ٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑگاڑ دیے۔ (النازعات : ٣٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں راستے بنائے ہیں۔ (الانبیاء : ٣١) ٥۔ تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوبصورت گھر بناتے ہو۔ (الشعراء : ١٤٩) ٦۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ (النمل : ٦١) ٧۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کیا اور وہ بھی صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے۔ (الانبیاء : ٧٩) ٨۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز، چاند، سورج اور ستارے، پہاڑ، درخت اور چوپائے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الحج : ١٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

خلق السموت بغیر ۔۔۔۔۔۔۔ فی ضلل مبین (10 – 11) یہ آسمان ، بغیر اس کے کہ ان کے بارے میں ہم جدید پیچیدہ سائنسی معلومات پیش کریں ، اپنی ظاہری حالت میں جب ہمارے حواس کے سامنے آتے ہیں تو یہ بہت ہی عظیم لگتے ہیں۔ یہ آسمان ستارے اور سیارے ہوں ، یا کہکشاں اور سدم ہوں۔ جو بلندیوں میں تیر رہے ہیں اور ان کے ھقیقی راز سے صرف اللہ ہی واقف ہے یا آسمان سے مراد یہ قبہ ہو جسے ہم دیکھتے ہیں اور جس کی حقیقت سے اللہ ہی خبردار ہے۔ غرض آسمان سے مراد جو بھی ہو ، بہرحال یہ عظیم کر ات بغیر سہارے اور ستونوں کے کھڑے ہیں۔ انسان رات اور دن ان سماوات کو دیکھتے ہیں اور جس چھوٹے سے ستارے پر انسان سوار ہیں ، اس تک ہم جس قدر دوریاں قریب کردیں اس عالم کا محض تصور ہی سر کو چکرا دیتا ہے کہ یہ عالم کس قدر عظیم اور ہولناک ہے جس کے حدود وقیود انسان کے ادراک سے ابھی تک باہر ہیں۔ پھر جب ایک انسان سوچتا ہے کہ اس عظیم کائنات کو ایک منظم نظام میں باندھ دیا گیا ہے کہ اس کی حرکت میں ایک سیکنڈ کا فرق بھی نہیں آتا۔ پھر اس عالم کو کس قدر خوبصورت بنایا گیا ہے کہ انسان دیکھتا ہی رہ جائے۔ دل سوچتا ہی رہے اور نہ تھکے۔ نظریں بھرتی ہی رہیں اور اس کے نظارے سے ملوک نہ ہوں اور جب اسنان یہ سوچے کہ اس گول آسمان میں جو چھوٹے چھوٹے نکتے نظر آتے ہیں ان میں سے ایک ایک ستارہ زمین سے ہزاروں گنا ہڑا ہے (مثلاً مشتری ایک ہزار گنا) لاکھوں گنا بڑا ہے تو کسی بھی عقلمند انسان کے لئے یہی کافی دلیل ہے۔ فضائے کائنات کے اس لا انتہا سفر سے واپس آئیے ، یہ تو قرآن نے ایک سرسری اشارہ ہی کیا ہے۔ خلق السموت بغیر عمد ترونھا (31: 10) ” اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا کیا جو تم کو نظر آئیں “۔ اب اسی زمین کی طرف ، اور ذرا جم کر دیر تک اس کے نظاروں کو غور سے دیکھئے۔ یہ چھوٹی سی زمین ، کائنات کا ایک ذرہ ، اس عظیم کائنات میں تو یہ ایک ذرہ ہی ہے جو فضا میں اڑ رہا ہے۔ ہم اس پر واپس آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ زمین بہت وسیع اور طویل و عریض ہے۔ انسان اپنی مختصر زندگی میں اس کی سیر بھی نہیں کرسکتا۔ اگرچہ وہ پوری عمر اس چھوٹے سے ڈرے کے سیروسفر میں گزار دے۔ انسان کو کہا جاتا ہے کہ ذرا اسی کا مطالعہ کھلی آنکھوں سے کرو ، اور طویل الضت اور بار بار دیکھنے کی وجہ سے انسان سے اس کا انوکھا پن گم ہوگیا ہے۔ ذرا اس کے عجائبات کو دیکھو۔ والقی فی ۔۔۔۔ تمید بکم (31: 10) ” اور اس نے زمین میں پہاڑ جما دئیے کہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔ رواسی معنی پہاڑ۔ علمائے طبقات الارض یہ کہتے ہیں کہ پہاڑ دراصل زمین کے چھلکے کی شکئیں ہیں۔ جب زمین کا چھلکا سرد ہوگیا اور اس کے اندر کی گیس سکڑ گئیں تو زمین کا حجم کم ہوتا گیا جس کی وجہ سے زمین کے چھلکے کے اندر شکنیں پیدا ہوگئیں اور اس طرح زمین کے اوپر بلندیاں اور پستیاں اور نشیب و فراز پیدا ہوگئے۔ جس قدر جہاں زیادہ سکیڑ کا عمل ہوا اسی قدر پہاڑ بلند ہوگئے۔ اب چاہے علمائے طبقات الارض کا یہ نظریہ درست ہو یا غلط ہو ، لیکن اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے۔ اللہ نے پہاڑ جما دئیے تاکہ زمین کی رفتار کے اندر توازن ہو اور انسان اس کی سطح پر رک سکے اور اس کے اندر ڈولنے کا عمل نہ ہو۔ علمائے طبقات الارض کا یہ نظریہ درست ہو سکتا ہے اور وہ اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین کی رفتار محوری کے اندر وہ توازن نہ ہوتا جو ہے اور اللہ کا حکم ہر حالت میں بلند ہے اور رہے گا کیونکہ اللہ تمام متکلمین میں سے سچا اور صادق ہے۔ صدق اللہ العظیم۔ وبث فیھا من کل دآبۃ (31: 10) ” اور اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دئیے “۔ اس عظیم کائنات کے عجائبات میں سے یہ ایک حیرت انگیز عجوبہ ہے کہ اس زمین کے اوپر اللہ نے رنگا رنگ زندگی کو پھیلایا ہے۔ آج تک کوئی شخص راز حیات ہی کو نہیں پاسکا اس کی یہ بو قلمونی اور رنگا رنگی تو بڑی چیز ہے۔ انسان اس حیات کی سادہ ترین صورت کو بھی نہیں پاسکا چہ جائیکہ وہ زندگی کی اعلیٰ اقسام ، اس کی رنگارنگی اور مختلف ضخامتیں ، اور خوبصورت جانور اور پرندوں کو جان سکے جن کی تعداد کا بھی انسان کو علم نہیں ہے۔ بےحد افسوس ہے کہ بعض لوگ علم کے باوجود ان عجائبات پر آنکھیں بند کرکے گزر جاتے ہیں گویا وہ ایک بالکل معمولی چیز دیکھ رہے ہیں۔ یہی انسان جب انسان کی بنائی ہوئی ایک چھوٹی سی مشین کو دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے اور بار بار الٹ پلٹ کر اسے دیکھتا چلا جاتا ہے حالانکہ یہ مشین اللہ کے پیدا کردہ ایک سادہ خلیے سے زیادہ پیچیدہ نہیں ہوسکتی اور ان خلیوں کے جو دقیق اور پیچیدہ تصرفات ہیں ، وہ سب اعجوبے ہیں۔ ہم صرف سادہ خلیے کے عجائبات کی بات کرتے ہیں۔ رہے وہ پیچیدہ تخلیق والے بڑے انسان جن کے جسم میں سینکڑوں کیمیاوی تجربہ گاہیں اور لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں جن کے اندر سینکڑوں سٹورز ہیں جہاں مواد جمع ہوتے ہیں اور تقسیم ہوتے ہیں اور جن کے اندر ایک عجیب مواصلاتی نظام ہے جو لاسلکی کے طور پر پیغامات لیتا ہے اور ارسال کرتا ہے اور سینکڑوں دوسرے عوامل ہزار ہا فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ وانزلنا من ۔۔۔۔۔ زوج کریم (31: 10) ” اور آسمانوں سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں “۔ آسمانوں سے پانی برسایا عجائبات تکوینی میں سے ایک اعجوبہ ہے لیکن چونکہ یہ اکثر ہمارے سامنے دہرایا جاتا ہے اس لیے ہم اس پر سے غفلت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ یہ پانی جس سے نہریں ہوکر بہتی ہیں جس سے بحیرے بھر جاتے ہیں جس کے ساتھ زمین میں چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہ پانی ایک نہایت ہی پیچیدہ نظام کے تحت آسمانوں سے برستا ہے۔ یہ آسمانوں کے نظام کے ساتھ مربوط ہے۔ اس کا مزاج ، اس کی تشکیل اور کر ات کی دوریوں سے یہ مربوط ہے۔ پھر پانی کے نزول کے بعد زمین کے اندر مختلف النوع اور مختلف اور مختلف الشکل نباتات ، ذائقے مختلف ، رنگ مختلف ، حجم مختلف ، خواص مختلف۔ ان کے اندر ایسے ایسے عجائبات کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے نباتات میں زندگی اور نمو ان کا تنوع ، ان کی وراثتی خصوصیات جو چھوٹے سے بیج کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا بیج اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ پودا ، پھول اور درخت کی شکل اختیار کرت ا ہے۔ ایک ہی پھول کے اندر رنگوں کی تقسیم کا مطالعہ ہی انسان کو خالق کائنات کی عظیم قوتوں کی طرف کھینچ لیتا ہے اور انسان کا ایمان گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر قرآن تصریح کرتا ہے کہ اللہ نے نباتات میں بھی بوڑے پیدا کیے۔ من کل زوج کریم (31: 10) ” عمدہ قسم کے جوڑے “۔ یہ وہ عظیم حقیقت ہے کہ سائنس کو بہت ہی قریب زمانے میں اس کا علم اور تجربہ ہوسکا ہے۔ ہر پورے میں نر اور مادہ خلیے ہوتے ہیں۔ یہ خلیے ایک ہی پھول میں یا ایک ہی شاخ کے دو پھولوں میں ہوتے ہیں یا یہ خلیے دو درختوں میں علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور کوئی پودا اس وقت پھل نہیں دیتا جب تک نر اور مادی خلیے باہم ملتے نہیں ہیں۔ جیسا کہ انسانوں اور حیوانوں کے توالد کا نظام واضح ہے۔ اور زوج کے ساتھ کریم کی صفت ، یہاں اس لفظ کے استعمال کے ذریعے ایک خاص تاثر دینا مطلوب ہے کہ یہ اللہ کریم کی تخلیق ہے اور یہ بہت ہی اہم اعجوبہ ہے جسے دیدہ عبرت سے دیکھا جانا چاہئے اور اس کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ اس لیے بھی لایا گیا ہے کہ اللہ نے تو یہ عمدہ کام کیے ہیں اور جن ہستیوں کو تم الٰہ سمجھے ہوئے ، ذرا بتاؤ انہوں نے کیا کام کیے ہیں ۔ یہ تو ہے ھذا خلق ۔۔۔۔۔۔ من دونہ (31: 11) ” یہ تو ہے اللہ کی تخلیق اب ذرا مجھے دکھاؤ ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے “۔ زوج کریم کے بعد یہ چیلنچ اور اب یہ نتیجہ بل الظلمون فی ضلل مبین (31: 11) ” اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں “۔ اور شرک سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ اس عظیم کائنات کا یہ معجزہ ہمارے ساتھ ہے۔ یہاں پہلا سفر ختم ہوتا ہے اور نہایت ہی روداد الفاظ پر۔ اس کے بعد اب دوسرا راؤنڈ شروع ہوتا ہے ۔ یہ بالکل جدید ترتیب سے ہے۔ یہ بالواسطہ ہدایت اور حکایتی انداز تلقین ہے۔ موضوع بحث اللہ وحدہ کا شکر ادا کرنا ہے۔ اور اللہ کو ہر قسم کے شرک سے پاک قرار دینا ہے۔ اس حکایت کے درمیان آخرت اور اعمال اور ان کی جزا کی بات کی گئی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمان و زمین اور پہاڑ سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اس کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا یہ دو آیتیں ہیں، پہلی آیت میں آسمان کی تخلیق اور زمین کے بعض احوال بیان فرمائے، اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے پیدا فرمایا ہے تم آسمان کو دیکھ رہے ہو کہیں بھی کوئی ستون نہیں ہے اتنے بڑے اور بھاری ساتوں آسمان محض اللہ تعالیٰ کی قدرت سے قائم ہیں انہیں قائم رکھنے کے لیے اسے ستون بنانے اور ان پر قائم رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد پہاڑوں کی تخلیق کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں بڑے بڑے بھاری بھاری پہاڑ ڈال دئیے تاکہ وہ تمہیں لے کر حرکت نہ کریں اگر یہ پہاڑ نہ ہوتے تو سمندر کے پانیوں کی وجہ سے جو اسے گھیرے ہوئے ہیں اور سخت تیز ہواؤں کی وجہ سے زمین حرکت کرتی رہتی جب وہ حرکت کرتی تو بنی آدم بھی اس کے ساتھ متحرک ہوتے گرتے پڑتے اور کوئی کام نہ کر پاتے، یوں تو اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ پہاڑوں کے بغیر بھی زمین کو ہلنے جلنے سے محفوظ رکھے لیکن اس نے اسباب کے طور پر اس پر پہاڑ پیدا فرما دئیے۔ اسی لیے جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے تو پہاڑوں کے ہوتے ہوئے بھی زمین میں زلزلہ آجاتا ہے اور قیامت کے دن تو زمین میں پوری طرح بھونچال آنا ہی ہے جسے (اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا) میں بیان فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ آیت کریمہ میں جس حرکت کی نفی فرمائی ہے اس سے زلزلہ جیسی حرکت مراد ہے، اگر زمین کی حرکت مستدیرہ ہو جیسا کہ اہل سائنس کہنے لگے ہیں تو آیت کریمہ میں اس کی نفی نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر طرح کے چوپائے پیدا فرما دئیے، یہ چوپائے زمین پر پھیلے ہوئے ہیں، چرتے پھرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں اور انسانوں کی ضرورت میں کام آتے ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے آسمان سے زمین پر پانی برسایا جو بار ہا برستا ہے اور برستا رہتا ہے، اس پانی کی وجہ سے مختلف انواع کی چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جو انسانوں کے بھی کام آتی ہیں اور ان کے چوپایوں کو بھی ان میں سے چارہ ملتا ہے۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ جو اوپر مذکور ہوا یہ سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے، جو ان چیزوں کا خالق ہے صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے سوا جو معبود تجویز کر رکھے ہیں وہ تو عاجز محض ہیں اگر انہوں نے کوئی چیز پیدا کی ہو تو دکھاؤ وہ کیا ہے۔ جب کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور تمہارے تجویز کیے ہوئے باطل معبود بھی اس کی مخلوق ہیں اور ان کے عاجز ہونے کا یہ عالم ہے کہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے (لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وََّ لَو اِجْتَمَعُوْا لَہٗ ) تو انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا معبود تجویز کرنا صریح گمراہی ہے، اس بات کو واضح فرمانے کے لیے آیت کریمہ کو (بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ) پر ختم فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ خلق السموت الخ تمہید کے بعد توٰد پر پہلی عقلی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو پیدا کیا اور ستونوں کے بغیر ان کو تھام رکھا ہے، زمین پر پہاڑ رکھ دئیے تاکہ وہ ڈانواں ڈول نہ ہو اور اس پر ہر قسم کی مخلوق پیدا کی اور آسمان سے بارش برسا کر زمین سے انواع و اقسام کی عمدہ اور نفع بخش نباتات پیدا کی۔ بغیر عمد ترونہا۔ یعنی وہاں سرے سے ستون ہیں ہی نہیں اس لیے نظر کیا آئیں۔ ان تمید بکم بمعنی لئلا تمید بکم (قرطبی ج 14 ص 58) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا چناچہ تم ان کو دیکھتے ہو اور اسی نے زمین میں بھاری بھاری پہاڑ ڈال دیئے اور رکھ دیئے تا کہ کہیں تم کو زمین لیکر ہلنے نہ لگے اور ڈانو ڈول نہ ہونے لگے اور اسی نے زمین میں ہر قسم کے حیوانات پھیلائے اور ہم نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا ۔ پھر ہم نے زمین میں ہر قسم کی عمدہ اقسام کی نباتات اگائیں ۔ یعنی بلا کسی ٹیک کے آسمان بنائے زمین پر پہاڑ رکھے ہر قسم کے جاندار حیوانات پھیلانے آسمان سے پانی برسا کر بھانت بھانت کی نباتات اگائیں ہر قسم کی اچھی اچھی اور عمدہ عمدہ نباتات پیدا کیں نبابات میں بھی جوڑے ہوتے ہیں یہی نباتات کی قسمیں ہیں ان موالید ثلاثہ ( حیوانات ، نباتات ، جمادات ) کے جوڑے سب اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا فرمائے ہیں ۔ آگے معبود ان باطلہ کے پرستاروں سے مطالبہ ہے کہ تم بتائو تمہارے معبودوں نے کیا پیدا کیا ہے۔