Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 11

سورة لقمان

ہٰذَا خَلۡقُ اللّٰہِ فَاَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ بَلِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱۱﴾٪  10

This is the creation of Allah . So show Me what those other than Him have created. Rather, the wrongdoers are in clear error.

یہ ہے اللہ کی مخلوق اب تم مجھے اس کے سوا دوسرے کسی کی کوئی مخلوق تو دکھاؤ ( کچھ نہیں ) بلکہ یہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هَذَا خَلْقُ اللَّهِ ... This is the creation of Allah. means, all that Allah has mentioned here of the creation of the heavens and earth and everything in between stems from His power of creation and control alone, and He has no partner or associate in that, Allah says: ... فَأَرُونِي مَاذَا خَلَقَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ ... So, show Me that which those besides Him have created. those idols and rivals whom you worship and call upon. ... بَلِ الظَّالِمُونَ ... Nay, the wrongdoers, means the idolators who associate others in worship with Allah. ... فِي ضَلَلٍ ... in error, means, they are ignorant and blind. ... مُّبِينٍ plain, means, it is clear and obvious, and not at all hidden.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111ھٰذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کی ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گذشتہ آیات میں ذکر ہوا۔ 112یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور انھیں مدد کے لیے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان و زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے ؟ کوئی ایک چیز تو بتلاؤ ؟ مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لیے پکارا جائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی جو کچھ اوپر بیان ہوا ہے وہ سب کچھ تو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اب جن چیزوں کو تم نے معبود بنا رکھا ہے۔ بتلاؤ انہوں نے کیا پیدا کیا ہے ؟ پھر ایک غیر خالق کو معبود بنا لینا سراسر گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ھٰذَا خَلْقُ اللّٰهِ فَاَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۔۔ : یعنی یہ ستونوں کے بغیر بلند آسمان، زمین میں گڑے ہوئے پہاڑ اور اس میں پھیلے ہوئے جانور، آسمان سے اترنے والا پانی اور اس کے ساتھ زمین سے پیدا ہونے والی ہر عمدہ اور نفیس قسم کی چیز، یہ سب کچھ تو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ اب مجھے دکھاؤ کہ وہ کون سی چیز ہے جو اس کے سوا کسی اور نے پیدا فرمائی ہے ؟ ظاہر ہے ایک بھی نہیں۔ تو پھر مشرکین اس کے سوا کسی اور کی عبادت کیوں کرتے ہیں، کیا ان کے پاس کوئی دلیل ہے ؟ فرمایا نہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ مشرک ظالم ہیں اور ظالم بھی ایسے جو واضح گمراہی میں مبتلا ہیں، شرک کی ظلمت اور اندھیرے میں انھیں سیدھا راستہ سوجھتا ہی نہیں، اس لیے وہ اس راستے پر چل رہے ہیں جو واضح طور پر غلط اور گمراہی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اس بات کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ پیدا کرنے والا صرف وہ ہے، تو پھر عبادت کسی اور کی کیوں ہو ؟ دیکھیے سورة بقرہ (٢١، ٢٢) ، رعد (١٦) ، نحل (١٧ تا ٢١) ، حج (٧٣، ٧٤) ، فاطر (٤٠) اور احقاف (٤، ٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ھٰذَا خَلْقُ اللہِ فَاَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖ۝ ٠ ۭ بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ١١ۧ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ( ماذا) يستعمل علی وجهين : أحدهما . أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی: وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل/ 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو میری مخلوق ہوئی جس کو میں نے بنایا اور پیدا کیا اب تم لوگ مجھ کو دکھاؤ کہ ان تمہارے بتوں نے کیا کیا چیزیں پیدا کی ہیں بلکہ یہ مشرکین کھلی گمراہی میں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (ہٰذَا خَلْقُ اللّٰہِ فَاَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ط) ” قرآن میں مشرکین کے اس عقیدے کا بار بار ذکر ہوا ہے کہ وہ اللہ کو اس کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق مانتے تھے۔ چناچہ یہاں ان سے یہ سوال ان کے اسی عقیدے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ (بَلِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ) ” دراصل اس دلیل کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عقیدے کے اعتبار سے اگرچہ وہ لوگ اپنے چھوٹے معبودوں کو کسی چیز کا خالق نہیں مانتے تھے ‘ لیکن وہ گمراہی میں اتنے دور جا چکے تھے کہ ایسی باتوں کی طرف کبھی متوجہ ہی نہیں ہوتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 "These others" 'the beings whom you havc set up as your deities, whom you regard as makers and un-makers of your destinies, whom you have been worshipping as such persistently" 16 That is, "When they do not point out in this universe any creation of anyone else than Allah, and obviously they cannot, their setting up the noncreators as associates in Godhead and bowing before them in worship and invoking them for help, is nothing but mere stupidity, because their foolish conduct cannot be explained in any other way. Unless a person has taken leave of his senses he cannot commit the folly that he should himself admit before you that his deities are non-creators and that AIIah alone is the Creator, and yet insist on their being the deities. If somebody has a little of the common sense, he will inevitably think how the one who has no power to create anything, and who has no share whatever in the creation of anything in the earth and heavens, can be our deity. Why should man bow before it and adore it as a deity? Does it possess any power that it could fulfil one's needs and requirements? Even if it hears one's prayers, whet could it do to answer them when it did not havc any power to create anything? For, evidently, afflictions can be removed only by him who can create something and not by him who can create nothing."

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :15 یعنی ان ہستیوں نے جن کو تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو ، جنہیں تم اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ رہے ہو ، جن کی بندگی بجا لانے پر تمہیں اتنا اصرار ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے آسمان زمین پہاڑ اور تمام مخلوقات کی پیدائش کا ذکر فرما کر اس آیت میں مشرکوں کو یوں قائل کیا ہے کہ اللہ کی قدرت سے تو یہ سب کچھ پیدا ہوا ہے اسی واسطے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ سوا اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں ہے کیوں کہ معبود تو وہ ہے جس میں قدرت ہے وہ اپنی قدرت کے سبب سے اپنے عبادت کرنے والوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے تم جو اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتے ہو اور اللہ کی عبادت میں بتوں کو شریک کرتے ہو اور قرآن کی نصیحت کے سننے سے جان بوجھ کر بہرے بنتے ہو تو بتلاؤ تمہارے جھوٹے معبودوں نے ان چیزوں میں سے کیا چیز پیدا کی ہے اور جب تم اپنے جھوٹے معبودوں کی پیدا کی ہوئی چیز ایسی نہیں بتلا سکتے جس سے تم کو آخرت میں یا دنیا میں کسی طرح کا فائدہ پہنچے تو تمہارے معبودوں کو کہاں سے یہ حق حاصل ہوگیا کہ تم ان کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اس پر بھی گروہ انسان میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرتے ہیں ان سے بڑھ کردیتا میں کوئی گنہگار نہیں۔ یہ حدیث ضلال مبین کی گویا تفسیر ہے کیونکہ اپنے خالق کو چھوڑ کر جو کوئی مخلوقات کو اپنا معبود ٹھہرادے نہ اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ ہوسکتا ہے نہ خالق اور مخلوق کو یکساں سمجھنے کی برابر دنیا میں کوئی گناہ ہوسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:11) بل۔ حرف اضراب ہے ماقبل کے ابطال اور مابعد کی تصحیح کے لئے آیا ہے۔ یعنی ان کے معبود ان باطل نے کچھ بھی تخلیق نہیں کیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں (مبتلا) ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ان لوگوں نے جنہیں تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو اور انہیں اپنی قسمت کا مالک سمجھتے ہو

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عظیم نشانیوں اور نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد مشرکین سے سوال۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے آسمان پیدا کیے اور زمین پر پہاڑ گاڑ دئیے۔ وہ آسمان سے بارش نازل کرتا اور اس کے ساتھ بیشمار عمدہ اناج اور نباتات پیدا کرتا ہے تم بتاؤ کہ تمہارے خداؤں نے کیا پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ خالق حقیقی کے ساتھ دوسروں کو معبود بنانے اور مشکل کشا، حاجت روا سمجھنے والے ظالم ہیں۔ اور یہ ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ دوسرے مقام پر ظالموں کو درج ذیل سوالات کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر دور کے مشرکوں کے پاس اس کے سوا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہوگا حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے، وہی خالق اور مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شرک کرنے والوں کو کئی مرتبہ ظالم قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات دوسروں میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں ظلم کا معنٰی ہے کہ کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھا جائے۔ مسائل ١۔ ساری کی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی نے کچھ بھی نہیں پیدا کیا۔ ٣۔ مشرک کھلی گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرکین سے سوالات : ١۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے کہتے ہیں اللہ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس : ٣١) ٢۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (یونس : ٣٤) ٣۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے ؟ کہتے ہیں اللہ ہی ہے۔ (الزمر : ٣٨) ٤۔ مشرکوں سے پوچھاجائے سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ؟ جواباً کہتے ہیں، اللہ ہی ہے۔ (المومنون : ٨٦۔ ٨٧) ٥۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیں۔ (المومنون : ٨٨۔ ٨٩) (العنکبوت : ٦١) ( لقمان : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ھذا خلق اللہ الخ۔ یہ تمام مذکورہ چیزیں تو اللہ کی مخلوق ہیں اے مشرکین ! اللہ کے سوا جن کو تم نے متصرف و کارساز سمجھ رکھا ہے ذرا دکھاؤ تو سہی انہوں نے کیا کچھ پیدا کیا ہے جب ساری کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالیی ہی ہے تو لامحالہ سب کا کارساز بھی وہی ہے اور وہی ہر قسم کی عبات اور پکار کا مستحق ہے اور معبودان باطلہ چونکہ ایک ذرے کے بھی خالق نہیں اس لیے وہ معبود اور کارساز ہونے کے لائق بھی نہیں۔ ماذا خلق الذین من دونہ مما اتخذتموھم شرکاء لہ سبحانہ فی العبادۃ حتی استحقوا بہ المعبودیۃ (روح ج 21 ص 82) ۔ بل الظلمون الخ یہ ماقبل سے اضراب ہے یعنی یہ بات نہیں کہ معبودان باطلہ کی کوئی مخلوق دیکھ کر انہوں نے ان کے مستحق عبادت ہونے پر استدلال کیا ہے بلکہ یہ صریح گمراہی میں ہیں اور ان سے قوت فہم سلب کرلی گئی ہے اور وہ ٖلالت و جہالت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ مخلوق کی عبادت اور پکار میں مصروف ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

11۔ یہ سب چیزیں تو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں اب تم لوگ ذرا مجھ کو یہ تو دکھائو اور بتائو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں نے کیا کیا بنایا اور پیدا کیا ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ مشرک کھلی اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ یعنی ان چیزوں کو جب سے یہ موجود ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ نے موجود فرمائی ہیں اور بنائی ہیں اور ان کا موجد ہی مستحق الوہیت ہے جس کے تم قائل نہیں تو اب بتائو کہ اس مستحق الوہیت کے علاوہ اوروں نے کیا بنایا ہے تا کہ شرک فی الالوہیت ثابت ہو۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس دلیل کے بعد شرک سے باز آجائے اور اپنی ہارمان لیتے لیکن اپنی ضد اور اصرار پر قائم ہیں اور یہ ظالم اور ناانصاف لوگ صریح گمراہی میں مبتلا ہیں کہ بغیر کسی دلیل کے شریک پر اڑے ہوئے ہیں۔