Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 20

سورة لقمان

اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمۡ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً ؕ وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا ہُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ ﴿۲۰﴾

Do you not see that Allah has made subject to you whatever is in the heavens and whatever is in the earth and amply bestowed upon you His favors, [both] apparent and unapparent? But of the people is he who disputes about Allah without knowledge or guidance or an enlightening Book [from Him].

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی نے زمین اور آسمان کی ہرچیز کو تمارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Reminder of Blessings Here Allah says: أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَْرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ... See you not that Allah has subjected for you whatsoever is in the heavens and whatsoever is on the earth, and has completed and perfected His graces upon you, apparent and hidden! Allah reminds His creation of the blessings He bestows upon them in this world and the Hereafter. In the heavens He has subjugated for them the stars which give them light during the night and during the day, and He has created clouds, rain, snow and hail, and made the heavens a canopy which covers and protects them. On earth He has created for them stability and rivers, trees, crops and fruits; He has completed and perfected His graces upon them, apparent and hidden, by sending Messengers, revealing Books and removing doubts and excuses. Yet despite all this, not all the people believe, and indeed there are those who dispute concerning Allah, that is, His Tawhid, and His sending the Messengers. Their dispute is without knowledge and they have no sound evidence or valid inherited Book. Allah says: وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلاَ هُدًى وَلاَ كِتَابٍ مُّنِيرٍ Yet of mankind is he who disputes about Allah without knowledge or guidance or a Book giving light! meaning clear and unambiguous. Allah says:

انعام واکرام کی بارش اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کا اظہار فرما رہا ہے کہ دیکھو آسمان کے ستارے تمہارے لئے کام میں مشغول ہیں چمک چمک کر تمہیں روشنی پہنچا رہے ہیں بادل بارش اولے خنکی سب تمہارے نفع کی چیزیں ہیں خود آسمان تمہارے لئے محفوظ اور مضبوط چھت ہے ۔ زمین کی نہریں چشمے دریا سمندر درخت کھیتی پھل یہ سب نعمتیں بھی اسی نے دے رکھی ہیں ۔ پھر ان ظاہری بیشمار نعمتوں کے علاوہ باطنی بیشمار نعمتیں بھی اسی نے تمہیں دے رکھی ہیں مثلا رسولوں کا بھیجنا کتابوں کانازل فرمانا شک وشبہ وغیرہ دلوں سے دور کرنا وغیرہ ۔ اتنی بڑی اور اتنی ساری نعمتیں جس نے دے رکھی ہیں حق یہ تھا کہ اس کی ذات پر سب کے سب ایمان لاتے لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ اب تک اللہ کے بارے میں یعنی اس کی توحید اور اس کے رسولوں کی رسالت کے بارے میں الجھ رہے ہیں اور محض جہالت سے ضلالت سے بغیر کسی سند اور دلیل کے اڑے ہوئے ہیں ۔ جب ان سے کہاجاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ وحی کی اتباع کرو تو بڑی بےحیائی سے جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اپنے اگلوں کی تقلید کریں گے گو ان کے باپ دادے محض بےعقل اور بےراہ شیطان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے اور اس نے انہیں دوزخ کی راہ پر ڈال دیا تھا یہ تھے ان کے سلف اور یہ ہیں ان کے خلف ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو ' یہاں کام سے لگا دیا ' سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوقْ ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنادیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنادینا ہے۔ چناچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنادیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں، گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر) 202ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کرسکتا۔ 203یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] تسخیر کائنات کے دو مطلب ہیں ایک کہ کائنات کی ہر چیز انسان کی خادم ہے اور انسان مخدوم ہے۔ زمین، سمندر، پانی، ہوائیں، پہاڑ، چاند، سورج، ستارے یہی موٹی موٹی اشیائے کائنات گنی جاتی ہیں۔ ان کے انسان کا خادم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہو تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ مگر انسان کے بغیر ان چیزوں میں سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگڑتا۔ اور اس کا دورا مطلب یہ ہے کہ زمین میں جتنی بھی اشیاء موجود ہیں۔ خواہ وہ جمادات ہو یا نباتات ہو یا حیوانات ہوں اللہ نے انسان کو اتنی عقل عطا فرما دی ہے کہ وہ ان میں سے جس کو چاہے اپنے قابو میں لاسکتا ہے اور اس سے حسب ضرورت فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہیں وہ چیزیں جن کا تعلق زمین سے نہیں مثلاً سورج، چاند، ستارے اور ہوائیں وغیرہ تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے قوانین بنا دیئے ہیں اور انھیں ایسے نظم و ضبط سے جکڑ رکھا ہے کہ انسان ان سے فائدے اٹھا سکتا ہے۔ اور اپنے معمولات زندگی اور کاروبار وغیرہ ٹھیک طرح سے سرانجام دے سکتا ہے۔ وہ مدتوں پہلے یہ معلوم کرسکتا ہے کہ سورج گرہن یا چاند گرہن کب لگے گا۔ بحر و بر کی تاریکیوں میں وقت اور راستے اور سمتیں معلوم کرسکتا ہے یعنی کہ ہزارہا سال بعد تک کے لئے تقویم بھی تیار کرسکتا ہے۔ اور نت نئی سے نئی ایجادات بھی وجود میں لاسکتا ہے اور یہی تسخیر کائنات کا مطلب ہے۔ تسخیر کائنات کا یہ منطلب ہرگز نہیں کہ انسان پہلے اپنی قریبی سیارہ چاند پر پہنچنے کی کوشش کرتے پھر دوسرے سیاروں پر پہنچنے میں اپنی قیمتی عمر برباد کرے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ : تو کار جہاں رانکو ساختی کہ باآسمان نیز پرداختی ؟ یعنی اس دنیا میں جو تیرے کرنے کے کام تھے کیا تو انھیں بخوبی سرانجام دے چکا ہے کہ اب تجھے آسمان پر اڑنے کی فکر پڑگئی ہے۔ [ ٢٧] ظاہری نعمتیں وہ ہیں جن کو ہم حواس خمسہ کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں۔ اور ان کا تعلق ہماری مادی زندگی اور معاشیات وغیرہ سے ہے۔ اور یہ بھی لاتعداد ہیں۔ اور باطنی سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن سے ہماری اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور روح کا تزکیہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی لاتعداد اور ان کا ذریعہ معلومات وحی الٰہی ہے۔ پھر کچھ ایسی نعمتیں ہیں جن کا تعلق دونوں سے ہے۔ مثلاً آنکھ سے ہم دیکھتے ہیں یہ آنکھ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن قوت باصرہ کا علم اس سے علیحدہ چیز ہے اسی طرح انسان کی قوت سامعہ، قوت ہانسمہ، قوت متخیلہ، قوت رافعہ وغیرہ بیشمار قوتیں انسان کے جسم کے اندر کام کر رہی ہیں۔ اگر یہ ٹھیک کام کرتی رہیں تو انسان تندرست رہتا ہے اگر ان میں سے کسی ایک میں بھی گڑ بڑ ہوجائے تو انسان بیمار پڑجاتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے۔ یہی وہ قسما قسم کی نعمتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا کہ && اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا چاہو بھی تو کبھی ان کو شمار نہ کرسکو گے && (١٤: ٢٤، ١٦: ١٨) [ ٢٨] یعنی اللہ کی ان گنت نعمتوں کے باوجود کچھ لوگ ایسے نمک حرام ہیں کہ اللہ کے بارے میں بحث کرنے لگتے ہیں کہ اللہ کی ذات موجود بھی ہے یا نہیں یا اس کی صفات اور قدرتوں میں جھگڑا کرنے لگتے ہیں۔ اس آیت کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة حج کی آیت نمبر ٨ کا حاشیہ نمبر ٨)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ : ” اَلَمْ تَرَوْا “ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمُوْا “ (کیا تم نے جانا) ہے، کیونکہ انسان نے آسمان و زمین کی ہر چیز کو اپنی آنکھوں سے اپنی خاطر مسخر شدہ نہیں دیکھا، مگر اس کے لیے دیکھنے کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا کہ یہ بات اتنی واضح ہے جیسے آنکھوں سے دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے۔ (بقاعی) ” سخر لکم “ میں لام انتفاع کا ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ” تمہاری خاطر مسخر کردیا “ کیونکہ چند چیزیں اگر انسان کے کسی حد تک تابع فرمان ہیں، جیسے چوپائے وغیرہ کہ انسان ان سے جس طرح چاہے فائدہ اٹھا سکتا ہے، تو بیشمار چیزیں ایسی ہیں جن پر انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ انھیں انسان کی خاطر مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں پابند کردیا ہے کہ وہ سب اس کے فائدے اور خدمت کے لیے کام کریں، جیسے سورج، چاند، ستارے بلکہ فرشتے بھی جو اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ موذی جانور بھی آخر کار کسی نہ کسی طرح انسان کے فائدے کے لیے ہیں، حتیٰ کہ ابلیس بھی کہ وہ نہ ہوتا تو نہ آزمائش کا سلسلہ ہوتا، نہ اس میں کامیاب ہو کر انسان ہمیشہ کی جنت کا وارث بن سکتا۔ وہ لوگ اپنی حیثیت سے بہت بڑھ کر بولتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آدمی سائنس کے ساتھ کائنات کو مسخر کرسکتا ہے۔ کائنات تو بہت دور کی بات ہے، یہ حضرات اپنے دل کی دھڑکن ہی کو مسخر کر کے دکھائیں، یا بچپن سے جوانی، پھر بڑھاپے کی منزلوں کو تابع فرمان بنا کردکھائیں، چلیں موت ہی کو مسخر کرلیں۔ : (كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا ) [ الکہف : ٥ ] ”(یہ بات) بولنے میں بڑی ہے، جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ سراسر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔ “ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی دلیل ” خلق السموات بغیر عمد ترونھا :۔۔ “ بیان فرمائی تھی، اب زمین و آسمان کی ہر چیز کو انسان کے فائدے کے لیے مسخر کرنے کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پر بیان فرمایا کہ سوچو ! اس خلق یا تسخیر میں تمہارے کسی معبود کا ذرہ برابر بھی دخل ہے ؟ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جن کا انسان اپنے حواس سے مشاہدہ کرتا ہے، یا وہ عقل سے معلوم ہوتی ہیں، یا اسے کسی کے بتانے سے معلوم ہوتی ہیں اور چھپی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کے جسم کے اندر یا باہر اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں، جن کا اسے شعور تک نہیں کہ اس کے پروردگار نے اس کے رزق، اس کی نشو و نما اور حفاظت کے لیے کیا کچھ سامان فراہم کر رکھا ہے۔ مثلاً انسان کھانا کھا کر فارغ ہوجاتا ہے، اسے کچھ خبر نہیں کہ اس کے اندر کتنی مشینیں اسے ہضم کرنے، جزو بدن بنانے اور اس کے فضلے کو خارج کرنے کے لیے پوری مستعدی کے ساتھ مصروف عمل ہوجاتی ہیں۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں جیسے جیسے تحقیق آگے بڑھتی جا رہی ہے اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں انسان کے سامنے بےنقاب ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ تو ہوئیں دنیوی اور مادی نعمتیں، دینی اور روحانی نعمتیں جو ظاہر اور پوشیدہ ہیں، وہ ان کے علاوہ ہیں اور ان سے کہیں زیادہ ہیں، جیسا کہ اسلام، قرآن، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ تعالیٰ کی بےپایاں رحمت وغیرہ۔ رازی نے ” ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً “ کی ایک سادہ سی پُر لطف توجیہ کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ” ظاہری نعمتوں سے مراد اعضائے انسانی کا سلامت ہونا ہے اور باطنی نعمتوں سے مراد وہ قوتیں ہیں جو ان اعضا میں ودیعت کی گئی ہیں۔ دیکھیے آنکھ، کان، ناک اور زبان سب چربی، گوشت، ہڈی اور پٹھوں سے بنے ہیں، جو صاف نظر آتے ہیں، مگر ان میں دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور بولنے کی قوتیں باطنی نعمتیں ہیں۔ بعض اوقات باطنی نعمت مثلاً بینائی، شنوائی ختم ہوجاتی ہے، جب کہ ظاہری عضو، مثلاً آنکھ یا کان سلامت رہتا ہے۔ یہی حال ہر عضو کا ہے۔ “ ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ ۔۔ : یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو خلق، تسخیر اور دوسری بیشمار ظاہری و باطنی نعمتوں کے دلائل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو چکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات میں جھگڑتے اور بحثیں کرتے ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ موجود بھی ہے یا نہیں ؟ اور ہے تو ایک ہے یا اس کے ساتھ دوسرے بھی خدائی میں شریک ہیں ؟ اور اس کی صفات کیا ہیں ؟ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ : علم حاصل کرنے کے تین مراتب ہیں، پہلا اپنی جدوجہد اور غور و فکر سے معلوم کرنا، دوسرا کسی علم والے سے رہنمائی حاصل کرلینا اور تیسرا کسی درست کتاب کے مطالعہ سے علم حاصل کرلینا۔ مشرکین کا حال یہ ہے کہ نہ ان کے پاس خود کوئی علم یا سمجھ بوجھ ہے جس کی بنا پر وہ حقیقت کو سمجھ سکیں، نہ انھیں کسی سچے راہ نما کی راہ نمائی حاصل ہے اور نہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کوئی کتاب موجود ہے جس سے انھوں نے یہ عقیدہ اخذ کیا ہو۔ بلکہ علم کے تینوں ذرائع سے محرومی کے بعد ان کی کل کائنات تقلید آباء ہے اور وہ اندھا دھند ان کے پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ حافظ صاحبان یاد رکھیں کہ ” الم تروا “ قرآن مجید میں صرف دو جگہ آیا ہے، ایک اس آیت میں اور دوسرا سورة نوح میں : (اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا) [ نوح : ١٥ ] ان کے علاوہ ہر جگہ واحد کے صیغے کے ساتھ ”“ ہی آیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary At the beginning of the Surah, the Kafirs and the Mushriks were admonished for still persisting with their Kufr and Shirk despite that they had seen the manifestations of the all-encompassing knowledge and the most perfect power of Allah Ta’ ala. And in contrast to their condition, obedient believers were praised and mention was made of their good end. In between, the description of the bequests (wasaya of Luqman, peace on him, was in a way a complement of the same subject. In the verses cited above, the text reverts to the subjects of Allah Ta’ ala&s all-encompassing knowledge and power, His bounties and favors showered on the creations with an exhortation to believe in the principle of His Oneness. The expression: سَخَّرَ‌ لَكُم (sakhkhara lakum: translated as &subjugated for you& ) in verse 20: سَخَّرَ‌ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ (Allah has subjugated for you what is in the heavens and what is on the earth) is well known and means to make something subservient to someone. This raises a question at this place. Is it not that, first of all, not even everything on the earth is subservient to human will and command? In fact, there are many things that act counter to human choice. As for things of the heavens particularly, there exists just about no probability of their being subservient to human beings. The answer is that &subjugation& really means to force something into doing a particular job in a state of virtual compulsion. So, subjugating the entire creation of the heavens and the earth for human beings means that the whole range of such creations was yoked in their service to bring all sorts of benefits to them. Out of these things, many were put in their service by subjecting them to their command as well, in that they could use them as and when they wished. But, there are other things that have been, of course, commissioned to serve them - which they are doing all right - but, such was the dictate of Divine wisdom, that they were not made subject to the command of human beings, for example, the heavenly creations, planets, stars, lighting, rains and similar others. Had they been subjugated to follow human orders, these elements of creation would have been affected by human temperaments, tastes and varying conditions. One human being would have wanted the sun to rise early while the need of the other would have it rise later. Someone would have asked for rains while the other, being in travel through an open field, would have opted for no rains. So, these divergent demands would have triggered operational malfunction in the workings of the universal heavenly system. Therefore, Allah Ta` a1a did put all these things into the service of human beings but did not make them subject to their will and command. This too is, in a way, subjugation. Allah knows best. The word: اسباغ (isbagh) in the next sentence of verse 20: وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَ‌ةً وَبَاطِنَةً (and has perfected His blessings on you, both outward and inward) means to perfect, make complete, provide in great abundance to the last fill. The Arabic word: نِعَم (ni&am) means &blessings& which human beings recognize through their senses, for instance, the beauty of shape and the symmetry of human limbs made into such proportion as would allow maximum functional movement causing no disfigurement of one&s shape and looks. Similarly, provisions, property; wealth, avenues of economic opportunity, health and well being arh also outward and perceived blessings. In the same way, making the religion of Islam easy to follow, being enabled to obey Allah and His Rasul (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the ascendancy of Islam over other faiths and the support given to Muslims encountering enemies also come under the same outward blessings. As for inward blessings, they relate to the human heart, such as, &Iman (faith), knowing Allah (ma&rifah), intellect, reason, good morals, the good fortune of having one&s sins left unexposed and of one&s crimes not punished instantly and many others. The manifestations of Allah&s knowledge, power and blessings are endless. These cannot by encompassed by anyone through speech, nor can any pen write them comprehensively.

خلاصہ تفسیر کیا تم لوگوں کو (مشاہدہ دلائل سے) یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو (بواسطہ یا بلاواسطہ) تمہارے کام میں لگا رکھا ہے جو کچھ آسمانوں میں (موجود) ہیں اور جو کچھ زمین میں (موجود) ہیں اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں (ظاہری وہ کہ آنکھ کان وغیرہ سے معلوم ہوں اور باطنی وہ جو کہ عقل سے سمجھی جائیں، اور مراد نعمتوں سے وہ نعمتیں ہیں جو تسخیر سموات و ارض پر مرتب ہوتی ہیں پس اس سے سب مخاطبین کا مشرف باسلام ہونا لازم نہیں ہوتا) اور باوجودیکہ (اس دلیل سے توحید ثابت ہوتی ہے مگر) بعضے آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں (یعنی اس کی توحید میں) بدون واقفیت (یعنی علم ضروری) اور بدون دلیل (یعنی علم استدلال عقلی) اور بدون کسی روشن کتاب (یعنی علم استدلال نقلی) کے جھگڑا کرتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کا اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے (یعنی حق کو ثابت کرنے والے دلائل میں غور کر کے ان کا اتباع کرو) تو (جواب میں) کہتے ہیں کہ (ہم اس کا اتباع) نہیں (کرتے) ہم (تو) اسی کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے بڑوں کو پایا ہے، (آگے ان پر رد ہے کہ) کیا اگر شیطان ان کے بڑوں کو عذاب دوزخ کی طرف (یعنی گمراہی کی طرف جو کہ سبب ہے عذاب دوزخ کا) بلاتا رہا ہو تب بھی (انہی کا اتباع کریں گے، مطلب یہ کہ ایسے معاند ہیں کہ باوجود اس کے کہ ان کی دلیل کی طرف بلایا جاتا ہے مگر پھر بھی بلا دلیل بلکہ خلاف دلیل محض گمراہ باپ دادا کی راہ پر چلتے ہیں یہ حالت تو اہل ضلالت کی ہوئی) اور جو شخص (حق کا اتباع کر کے) اپنا رخ اللہ کی طرف جھکا دے (یعنی فرمانبرداری اختیار کرے عقائد میں بھی اعمال میں بھی، مراد اسلام و توحید ہے) اور (اس کے ساتھ) وہ مخلص بھی ہو (یعنی محض ظاہری اسلام نہ ہو) تو اس نے بڑا مضبوط حلقہ تھام لیا (یعنی وہ اس شخص کے مشابہ ہوگیا جو کہ کسی مضبوط رسی کا حلقہ ہاتھ میں تھام کر گرنے سے مامون رہتا ہے، اسی طرح یہ شخص ہلاکت و خسران سے محفوظ ہوگیا) اور آخر سب کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف پہنچے گا (پس یہ اعمال یعنی اتباع باطل و اتباع حق بھی اسی کے حضور میں پیش ہوں گے، پس وہ ہر ایک کو مناسب جزاء وسزا دے گا) اور جو شخص (حق کو ثابت کرنے والے دلائل کے باوجود) کفر کرے سو آپ کے لئے اس کا کفر باعث غم نہ ہونا چاہئے، (یعنی آپ غم نہ کریں) ان سب کو ہمارے ہی پاس لوٹنا ہے سو ہم ان سب کو جتلا دیں گے جو جو کچھ وہ (دنیا میں) کیا کرتے تھے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ کو (تو) دلوں کی باتیں (تک) خوب معلوم ہیں (تو ظاہری اعمال کا معاملہ ظاہر ہے، پس ہم سے کوئی امر مخفی نہیں سب جتلا دیں گے اور مناسب سزا دیں گے، اس لئے آپ کچھ غم نہ کریں اور یہ لوگ اگر محض چند روزہ عیش پر پھول رہے ہیں تو ان کی بڑی غلطی ہے، کیونکہ یہ دائمی نہیں بلکہ ہم ان کو چند روزہ عیش دیئے ہوئے ہیں پھر ان کو کشاں کشاں ایک سخت عذاب کی طرف لے آویں گے (پس اس پر ناز کرنا جہالت ہے) اور (ہم جس توحید کی طرف ان کو بلا رہے ہیں اس کے مقدمات کو خود یہ لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں، مگر اس سے صحیح نتیجہ تک پہنچنے کا کام نہیں لیتے چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور یہی جواب دیں گے کہ اللہ نے (اس پر) آپ کہئے کہ الحمد للہ (جو مقدمہ مہتم بالشان تھا وہ تو تمہارے اعتراف سے ثابت ہوا اور دوسرا مقدمہ نہایت ہی ظاہر ہے کہ جو خود مخلوق و مصنوع ہو وہ مستحق عبادت نہیں پس مطلوب ثابت ہوگیا، مگر یہ لوگ مطلوب کو نہیں مانتے) بلکہ ان میں اکثر (تو مجموعہ مقدمات کو بھی) نہیں جانتے (چنانچہ دوسرے مقدمہ جلیہ کی طرف بھی توجہ نہیں کرتے کہ معبود ہونا صرف خالق کا حق ہے اور اللہ کی وہ شان ہے کہ) جو کچھ آسمان و زمین میں موجود ہے سب اللہ ہی کا (مملوک) ہے (پس سلطنت تو ان کی ایسی) اور بیشک اللہ تعالیٰ (خود اپنی ذات میں بھی) بےنیاز (اور) سب خوبیوں والا ہے (پس سزا دار الوہیت وہی ہے) اور (اس کی خوبیاں اس کثرت سے ہیں کہ) جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں (یعنی متعارف قلم کے برابر ان کے اجزاء کے قلم بنا لئے جائیں اور ظاہر ہے کہ اس طرح ایک ایک درخت میں ہزاروں قلم تیار ہوں) اور یہ جو سمندر ہیں اس کے علاوہ سات سمندر (روشنائی کی جگہ) اس میں اور شامل ہوجائیں (اور پھر ان قلموں اور اس روشنائی سے حق تعالیٰ کے کمالات لکھنا شروع کریں) تو (سب قلم روشنائی ختم ہوجائیں اور) اللہ کی باتیں (یعنی وہ کلمات جن سے اللہ تعالیٰ کے کمالات کی حکایت ہوتی ہو) ختم نہ ہوں، بیشک اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے (کہ وہ قدرت میں بھی کامل ہے اور علم میں بھی، اور یہ دونوں صفتیں چونکہ تمام صفات و افعال سے تعلق رکھتی ہیں، شاید اس لئے بعد عموم کے ان کو خصوصاً بیان فرما دیا اور اس کمال صنف قدرت کی ایک فرع عالم آخرت بھی ہے، جس کو بدفہم دشوار سمجھ رہے ہیں، حالانکہ وہ ایسا قادر ہے کہ) تم سب کا (پہلی بار) پیدا کرنا اور (دوسری بار) زندہ کرنا (اس کے نزدیک) بس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا (پیدا کرنا اور زندہ کرنا۔ گو یہاں مقصود قرینہ مقام سے بعث کا ذکر فرمانا ہے، لیکن ذکر خلق سے استدلال اور قوی ہوگیا ہے) بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے، (پس جو لوگ باوجود ان دلائل کے قیامت کا انکار کر رہے ہیں اور اس جرأت پر فسق و فجور کرتے ہیں ان سب کو سن رہا ہے دیکھ رہا ہے ان کو سزا دے گا، آگے پھر توحید کا بیان ہے، کہ) اے مخاطب کیا تجھ کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ رات (کے اجزاء) کو دن میں اور دن (کے اجزاء) کو رات میں داخل کردیتا ہے، اور اس نے سورج اور چاند کو کام میں لگا رکھا ہے کہ ہر ایک مقررہ وقت تک (یعنی قیامت تک) چلتا رہے گا اور (کیا تجھ کو) یہ (معلوم نہیں) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب عملوں کی پوری خبر رکھتا ہے (پس اس کمال علمی و عقلی کا مقتضٰی یہ ہے کہ شرک چھوڑ دیا جائے اور اوپر جو ان افعال مذکورہ کا اختصاص حق تعالیٰ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے) یہ (اختصاص) اس سبب سے ہے کہ اللہ ہی ہستی میں کامل (اور واجب الوجود) ہے اور جن چیزوں کی اللہ کے سوا یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں بلکہ ہی لچر ہیں اور اللہ ہی عالی شان اور (سب سے) بڑا ہے (اس لئے یہ سب تصرفات اسی کے لئے مختص ہیں، البتہ اگر دوسرے موجودات باطل اور فانی اور ممکن نہ ہوتے، بلکہ نعوذ باللہ کوئی اور بھی واجب الوجود ہوتا تو پھر یہ تصرفات حق تعالیٰ کے ساتھ مختص نہ ہوتے، چناچہ ظاہر ہے) ۔ اے مخاطب کیا تجھ کو (توحید کی) یہ (دلیل) معلوم نہیں کہ اللہ ہی کے فضل سے کشتی دریا میں چلتی ہے، تاکہ تم کو اپنی (قدرت کی) نشانیاں دکھلا دے (چنانچہ ہر ممکن کا وجود اپنے پیدا کرنے والے کے وجود کی دلیل ہے، اسی طور پر) اس میں (بھی قدرت کی) نشانیاں ہیں ہر ایسے شخص کے لئے جو صابر و شاکر ہو (مراد اس سے مومن ہے کہ صبر و شکر میں کامل ہونا اسی کی صفت ہے، نیز صبر و شکر محرک ہے تذکر و تدبر عالم کو اور استدلال کے لئے تذکر و تفکر ضروری ہے، اسی لئے یہ دونوں وصف یہاں مناسب ہوئے بالخصوص کشتی کی حالت کے اعتبار سے کہ موجوں کا اٹھنا محل صبر ہے، اور بسلامت کنارہ پر جا لگنا محل شکر ہے، پس جو لوگ ان سب واقعات میں فکر کرتے رہتے ہیں استدلال کی توفیق انہی کو ہوتی ہے) اور (جیسا اوپر آیت ولئن سالتھہم میں مقدمات دلیل کا اعتراف ان کفار کی طرف سے ثابت ہے، بعض اوقات خود نتیجہ دلیل یعنی توحید کا بھی اعتراف کرتے ہیں جس سے توحید خوب ہی واضح ہوگئی چنانچہ) جب ان لوگوں کو موجیں سائبانوں (یعنی بادلوں) کی طرح (محیط ہو کر) گھیر لیتی ہیں تو وہ خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں، پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے، سو بعضے تو ان میں اعتدال پر رہتے ہیں (یعنی کجی سڑک کو چھوڑ کر توحید کو جو کہ اعدل الطرق ہے اختیار کرلیتے ہیں) اور (بعضے پھر ہماری آیتوں کے منکر ہوجاتے ہیں اور) ہماری آیتوں کے بس وہی لوگ منکر ہوتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہیں (کہ کشتی میں جو عہد توحید کا کیا تھا اس کو توڑ دیا اور خشکی میں آنے کا مقتضی تھا شکر کرنا اس کو چھوڑ دیا) ۔ معارف ومسائل شروع سورة میں کفار و مشرکین کو اس پر تنبیہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے علم محیط اور قدرت مطلقہ کے مظاہر دیکھنے کے باوجود یہ لوگ اپنے کفر و شرک پر مصر ہیں، اور ان کے بالمقابل اطاعت شعار مومنین کی مدح اور ان کے انجام خیر کا ذکر تھا۔ درمیان میں حضرت لقمان (علیہ السلام) کی وصایا کا ذکر بھی ایک حیثیت سے انہی مضامین کی تکمیل تھی۔ آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ کے علم وقدرت کے محیط ہونے اور مخلوق پر اس کے انعامات و احسانات کا ذکر کر کے پھر توحید کی طرف دعوت ہے۔ سخرلکم ما فی السموٰت وما فی الارض، یعنی مسخر کردیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں۔ مسخر کرنے کے مشہور معنی کسی چیز کو کسی کے تابع فرمان بنا دینے کے ہیں۔ یہاں اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اول تو زمین کی سب چیزیں بھی انسان کے تابع فرمان نہیں بلکہ بہت سی چیزیں اس کے مزاج کے خلاف کام کرتی ہیں۔ خصوصاً جو چیزیں آسمانوں میں ہیں ان میں تو انسان کے تابع فرمان ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں۔ جواب یہ ہے کہ دراصل تسخیر کے معنی کسی چیز کو زبردستی کسی کام میں لگا دینا اور اس پر مجبور کردینا ہے۔ آسمان و زمین کی سب مخلوقات کو انسان کے لئے مسخر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام مخلوقات کو انسان کی خدمت اور نفع رسانی میں لگا دیا۔ ان میں بہت سی چیزوں کو تو اس طرح خدمت میں لگایا کہ ان کو انسان کا تابع فرمان بھی بنادیا وہ جس وقت جس طرح چاہے ان کو استعمال کرتا ہے۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو انسان کے کام میں تو لگا دیا گیا ہے کہ وہ انسان کی خدمت میں لگی ہوتی ہیں، مگر بتقاضائے حکمت ربانی ان کو انسان کے تابع نہیں بنایا گیا، جیسا کہ آسمانی مخلوق اور سیارات اور برق و باراں وغیرہ، کہ ان کو انسان کے حکم کا تابع بنادیا جاتا تو انسانوں کی طبائع اور مزاجوں اور حالات کے اختلافات کا ان پر اثر پڑتا۔ ایک انسان چاہتا کہ آفتاب جلدی طلوع ہوجائے دوسرے کی ضرورت اس پر موقوف ہوتی کہ اس میں دیر لگے، ایک شخص بارش مانگتا دوسرا سفر میں ہے کھلے میدان میں ہے وہ چاہتا کہ بارش نہ ہو، تو یہ متضاد تقاضے آسمانی کائنات کے عمل میں تضاد اور خلل پیدا کرتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا مگر اس کا تابع حکم نہیں بنایا، یہ بھی ایک قسم کی تسخیر ہی ہے۔ واللہ اعلم۔ (آیت) واسبغ علیکم نعمہ ظاہرةً وباطنةً ، اسباغ کے معنی مکمل کرنے کے ہیں معنی یہ ہیں کہ مکمل کردیا اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنی ظاہری نعمتوں کو اور باطنی نعمتوں کو۔ ظاہری نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان اپنے حواس خمسہ سے محسوس اور معلوم کرلیتا ہے، مثلاً حسن صورت، اعضائے انسانی کا اعتدال اور ہر عضو کو ایسے تناسب سے بنانا جو انسان کے عمل میں زیادہ سے زیادہ معین بھی ہو اور اس کی شکل و صورت کو بھی نہ بگاڑے۔ اسی طرح رزق مال و دولت، اسباب معیشت، تندرستی اور عافیت یہ سب ظاہری نعمتیں اور محسوس نعمتیں ہیں۔ اسی طرح دین اسلام کو سہل کردینا اور اللہ و رسول کی اطاعت کی توفیق ہونا اور اسلام کا دوسرے ادیان پر غالب آنا اور دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی مدد ہونا بھی انہی نعمائے ظاہرہ میں داخل ہیں۔ اور باطنی نعمتیں وہ ہیں جو انسان کے قلب سے متعلق ہوں، جیسے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور علم و عقل، حسن اخلاق، گناہوں کی پردہ پوشی، اور جرائم پر فوری سزا نہ ملنا وغیرہ ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 12 اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً۝ ٠ ۭ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيْرٍ۝ ٢٠ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ سخر التَّسْخِيرُ : سياقة إلى الغرض المختصّ قهرا، قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] ( س خ ر ) التسخیر ( تفعیل ) کے معنی کسی کو کسی خاص مقصد کی طرف زبر دستی لیجانا کے ہیں قرآن میں ہے وَسَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَما فِي الْأَرْضِ [ الجاثية/ 13] اور جو کچھ آسمان میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اس نے ( اپنے کرم سے ) ان سب کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ سبغ درع سَابِغٌ: تامّ واسع . قال اللہ تعالی: أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ [ سبأ/ 11] ، وعنه استعیر إِسْبَاغُ الوضوء، وإسباغ النّعم قال : وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] . ( س ب غ ) درع سابغ پوری اور وسیع زرہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ [ سبأ/ 11] کہ کشادہ ( اور پوری پوری ) زرہیں بناؤ ۔ اسی سے استعارہ کے طور پر اسباغ الوضوء ( پورا وضو کرنا ) اور اسباغ النعم ( پورا پورا انعام کرنا ) کا محاور استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کیا ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ ظَاهَرَ وظَهَرَ الشّيءُ أصله : أن يحصل شيء علی ظَهْرِ الأرضِ فلا يخفی، وبَطَنَ إذا حصل في بطنان الأرض فيخفی، ثمّ صار مستعملا في كلّ بارز مبصر بالبصر والبصیرة . قال تعالی: أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ، إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] ، يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] ، أي : يعلمون الأمور الدّنيويّة دون الأخرويّة، والعلمُ الظَّاهِرُ والباطن تارة يشار بهما إلى المعارف الجليّة والمعارف الخفيّة، وتارة إلى العلوم الدّنيوية، والعلوم الأخرويّة، وقوله : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقوله : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] ، أي : كثر وشاع، وقوله : نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] ، يعني بالظَّاهِرَةِ : ما نقف عليها، وبالباطنة : ما لا نعرفها، وإليه أشار بقوله : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] ، وقوله : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] ، فقد حمل ذلک علی ظَاهِرِهِ ، وقیل : هو مثل لأحوال تختصّ بما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، وقوله : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] ، أي : لا يطلع عليه، وقوله : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] ، يصحّ أن يكون من البروز، وأن يكون من المعاونة والغلبة، أي : ليغلّبه علی الدّين كلّه . وعلی هذا قوله : إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] ، وقوله تعالی: يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] ، فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] ، وصلاة الظُّهْرِ معروفةٌ ، والظَّهِيرَةُ : وقتُ الظُّهْرِ ، وأَظْهَرَ فلانٌ: حصل في ذلک الوقت، علی بناء أصبح وأمسی «4» . قال تعالی: وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] ظھر الشئی کسی چیز کا زمین کے اوپر اس طرح ظاہر ہونا کہ نمایاں طور پر نظر آئے اس کے بالمقابل بطن کے معنی ہیں کسی چیز کا زمین کے اندر غائب ہوجانا پھر ہر وہ چیز اس طرح پر نمایاں ہو کہ آنکھ یابصیرت سے اس کا ادراک ہوسکتا ہو اسے ظاھر کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسادَ [ غافر/ 26] یا ملک میں فساد ( نہ ) پیدا کردے ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأعراف/ 33] ظاہر ہوں یا پوشیدہ ۔ إِلَّا مِراءً ظاهِراً [ الكهف/ 22] مگر سرسری سی گفتگو ۔ اور آیت کریمہ : يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الروم/ 7] یہ دنیا کی ظاہری زندگی ہی کو جانتے ہیں کے معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ صرف دنیو یامور سے واقفیت رکھتے ہیں اخروی امور سے بلکل بےبہر ہ ہیں اور العلم اظاہر اور الباطن سے کبھی جلی اور خفی علوم مراد ہوتے ہیں اور کبھی دنیوی اور اخروی ۔ قرآن پاک میں ہے : باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] جو اس کی جانب اندورنی ہے اس میں تو رحمت ہے اور جو جانب بیرونی ہے اس طرف عذاب ۔ اور آیت کریمہ : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم/ 41] خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ۔ میں ظھر کے معنی ہیں زیادہ ہوگیا اور پھیل گیا اور آیت نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَباطِنَةً [ لقمان/ 20] اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں ۔ میں ظاہرۃ سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو ہمارے علم میں آسکتی ہیں اور باطنۃ سے وہ جو ہمارے علم سے بلا تر ہیں چناچہ اسی معنی کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها [ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ اور آیت کریمہ : قُرىً ظاهِرَةً [ سبأ/ 18] کے عام معنی تو یہی ہیں کہ وہ بستیاں سامنے نظر آتی تھیں مگر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بطور مثال کے انسانی احوال کیطرف اشارہ ہو جس کی تصریح اس کتاب کے بعد دوسری کتاب ہیں ) بیان کریں گے انشاء اللہ ۔ اظھرہ علیہ اسے اس پر مطلع کردیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً [ الجن/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنے غائب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا اور آیت کریمہ : لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ [ التوبة/ 33] میں یظھر کے معنی نمایاں کرنا بھی ہوسکتے ہیں اور معاونت اور غلبہ کے بھی یعنی تمام ادیان پر اسے غالب کرے چناچہ اس دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف/ 20] اگر وہ تم پر دسترس پالیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ يا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ [ غافر/ 29] اے قوم آج تمہاری ہی بادشاہت ہے اور تم ہی ملک میں غالب ہو ۔ فَمَا اسْطاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ [ الكهف/ 97] پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس کے اوپر چڑھ سکیں ۔ صلاۃ ظھر ظہر کی نماز ظھیرۃ ظہر کا وقت ۔ اظھر فلان فلاں ظہر کے وقت میں داخل ہوگیا جیسا کہ اصبح وامسیٰ : صبح اور شام میں داخل ہونا ۔ قرآن پاک میں ہے : وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ [ الروم/ 18] اور آسمان اور زمین میں اسی کیلئے تعریف ہے اور سہ پہر کے وقت بھی اور جب تم ظہر کے وقت میں داخل ہوتے ہو ۔ بطن أصل البَطْن الجارحة، وجمعه بُطُون، قال تعالی: وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ [ النجم/ 32] ، وقد بَطَنْتُهُ : أصبت بطنه، والبَطْن : خلاف الظّهر في كلّ شيء، ويقال للجهة السفلی: بَطْنٌ ، وللجهة العلیا : ظهر، وبه شبّه بطن الأمر وبطن الوادي، والبطن من العرب اعتبارا بأنّهم کشخص واحد، وأنّ كلّ قبیلة منهم کعضو بطن وفخذ وكاهل، وعلی هذا الاعتبار قال الشاعر : 58- النّاس جسم وإمام الهدى ... رأس وأنت العین في الرأس «1» ويقال لكلّ غامض : بطن، ولكلّ ظاهر : ظهر، ومنه : بُطْنَان القدر وظهرانها، ويقال لما تدرکه الحاسة : ظاهر، ولما يخفی عنها : باطن . قال عزّ وجلّ : وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] ، ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ، والبَطِين : العظیم البطن، والبَطِنُ : الكثير الأكل، والمِبْطَان : الذي يكثر الأكل حتی يعظم بطنه، والبِطْنَة : كثرة الأكل، وقیل : ( البطنة تذهب الفطنة) «2» . وقد بَطِنَ الرجل بَطَناً : إذا أشر من الشبع ومن کثرة الأكل، وقد بَطِنَ الرجل : عظم بطنه، ومُبَطَّن : خمیص البطن، وبَطَنَ الإنسان : أصيب بطنه، ومنه : رجل مَبْطُون : علیل البطن، والبِطانَة : خلاف الظهارة، وبَطَّنْتُ ثوبي بآخر : جعلته تحته . ( ب ط ن ) البطن اصل میں بطن کے معنی پیٹ کے ہیں اس کی جمع بطون آتی ہے قرآں میں ہے ؛{ وَإِذْ أَنْتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ } ( سورة النجم 32) اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے ۔ بطنتۃ میں نے اس کے پیٹ پر مارا ۔ البطن ہر چیز میں یہ ظھر کی ضد ہے اور ہر چیز کی نیچے کی جہت کو بطن اور اویر کی جہت کو ظہر کہا جاتا ہے اسی سے تشبیہ کہا جاتا ہے ؛۔ بطن الامر ( کسی معاملہ کا اندرون ) بطن الوادی ( وادی کا نشیبی حصہ ) اور بطن بمعنی قبیلہ بھی آتا ہے اس اعتبار سے کہ تمام عرب کو بمنزلہ ایک شخص کے فرض کیا جائے ہیں اور ہر قبیلہ بمنزلہ بطن مخذ اور کاہل ( کندھا) وغیرہ اعضاء کے تصور کیا جائے ۔ اسی بناء پر شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (57) الناس جسم اومامھم الھدیٰ راس وانت العین فی الراس ( کہ لوگ بمنزلہ جسم ہیں اور امام ہدی بمنزلہ سر ہے مگر تم سر میں آنکھ ہو ۔ اور ہر پیچیدہ معاملہ کو بطن اور جلی اور یہاں کو ظہر کہا جاتا ہے ۔ اسی سے بطنان القدر وظھرانھا کا محاورہ ہے ۔ یعنی دیگ کی اندرونی اور بیرونی جانب ۔ ہر اس چیز کو جس کا حاسہ بصر سے ادراک ہو سکے اسے ظاہر اور جس کا حاسہ بصر سے ادراک نہ ہوسکے اسے باطن کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ وَذَرُوا ظاهِرَ الْإِثْمِ وَباطِنَهُ [ الأنعام/ 120] اور ظاہری اور پوشیدہ ( ہر طرح کا ) گناہ ترک کردو ۔ ما ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ [ الأنعام/ 151] ظاہری ہوں یا پوشیدہ ۔ البطین کلاں شکم ۔ البطن بسیار خور المبطان جس کا بسیار خوری سے پیٹ بڑھ گیا ہو ۔ البطنۃ بسیارخوری ۔ مثل مشہور ہے ۔ البطنۃ نذھب الفطنۃ بسیار خوری ذہانت ختم کردیتی ہے ۔ بطن الرجل بطنا شکم پری اور بسیار خوری سے اتراجانا ۔ بطن ( ک ) الرجل بڑے پیٹ والا ہونا ۔ مبطن پچکے ہوئے پیٹ والا ۔ بطن الرجل مرض شکم میں مبتلا ہونا اس سے صیغہ صفت مفعولی مبطون مریض شکم آتا ہے ۔ البطانۃ کے معنی کپڑے کا استریا اس کے اندورنی حصہ کے ہیں اور اس کے ضد ظہارۃ ہے ۔ جس کے معنی کپڑے کا اوپر کا حصہ یا ابرہ کے ہیں اور بطنت ثوبی باٰ خر کے معنی ہیں میں نے ایک کپڑے کو دوسرے کے نیچے لگایا ۔ نوس النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] ( ن و س ) الناس ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس/ 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ جدل الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] ( ج د ل ) الجدال ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل/ 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا تم لوگوں کو قرآن کریم کے ذریعے یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، ستارے، بادل و بارش درخت اور جانور تمام چیزوں کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں یعنی توحید و معرفت عطا کر رکھی ہے اور کہا گیا کہ ظاہری نعمتیں تمہاری وہ نیکیاں ہیں جن کا دوسروں کو علم ہو اور باطنی تمہاری وہ برائیاں ہیں جو لوگوں کے علم میں نہ آسکیں یا یہ کہ ظاہری تو کھانے پینے کی چیزیں اور مال و دولت ہے اور باطنی نعمتیں پھل اور نباتات، بارش، پانی وغیرہ ہے یا یہ کہ ظاہری سے مراد وہ نعمتیں کہ جس سے تمہیں عزت حاصل ہو اور باطنی سے مراد وہ جس کے ذریعے تمہاری حفاظت ہو۔ مگر بعض آدمی جیسا کہ نضر بن حارث ایسے ہیں جو دین الہی میں بغیر علم اور بغیر دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠ (اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ) ” تم لوگ غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی ساری مخلوق کو تمہاری خدمت کرنے اور تمہیں سہولیات بہم پہنچانے پر مامور کردیا ہے۔ مثلاً سورج کو دیکھو جو تمہارے لیے تمازت اور روشنی مہیا کرتا ہے۔ اسی سے ہواؤں اور بارشوں کا نظام ترتیب پاتا ہے اور زمین پر فصلوں اور پھلوں کی پرورش ممکن ہوتی ہے۔ زمین کو دیکھو جسے اللہ تعالیٰ نے ایک بچھونے کی طرح بچھا کر تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے اور یوں تمہاری تمام ضرورتیں پوری کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ (وَاَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّبَاطِنَۃً ط) ” اللہ کی ان نعمتوں سے ہم دن رات مستفیض ہو رہے ہیں۔ ان میں سے کئی نعمتیں تو ایسی ہیں جنہیں ہم دیکھتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں مگر اس کی بیشمار نعمتوں کے بارے میں ہمیں کبھی احساس بھی نہیں ہوا۔ مثلاً ہمارے وجود کے اندر اللہ کی قدرت سے کیسے کیسے نظام خود بخود مصروف عمل ہیں ‘ لیکن عام طور پر ہمیں ان کے بارے میں احساس نہیں ہوتا۔ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ) ” اس سے پہلے یہ مضمون سورة الحج کی آیت ٣ میں بھی بالکل انہی الفاظ میں آچکا ہے۔ ایسے لوگ اللہ کی ذات ‘ اس کی آیات اور اس کے احکام کے بارے میں طرح طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں ‘ منفی انداز میں بحث وتمحیص کرتے ہیں ‘ لیکن اس کے بارے میں ان کے پاس نہ تو کوئی علمی دلیل ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی الہامی ثبوت۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

35 A thing can be subjected to somebody in two ways: (11 The thing may be made subordinate to him and he may be authorised to use and exploit it as he likes, and 12) the thing may be subjected to a law and system so that it becomes useful for him and serves his interests accordingly. AIIah has not subjected everything in the earth and heavens to man in one and the same sense, but has subjected certain things in the first sense and certain others in the second sense. For example, He has subjected the air, water, earth, fire, vegetation, minerals, cattle and many other things in the first sense, and the sun, the moon, etc. in the second sense. 36 "Visible favours" imply those favours which are perceived by man in one way or the other, or arc known to him. And the "invisible favours" arc those which are neither perceived by him nor arc known to him. There are countless things in mans own body and in the world outside him, which are working in his interest, but man is utterly unaware of the means which his Creator has provided for his protection and safety, for his development and provision of sustenance to him, and for his well-being and happiness. Research of man in the different branches of science is revealing many such favours of God as were hidden from him before. And the favours and blessings which have so far been revealed are insignificant as against those which still lie hidden froth man. 37 °Who wrangle about AIIah": Who wrangle and dispute aborts questions such as these: Dces AIIah exist or not? Is He One God alone, or are there other gods also? What are His attributes and what is their nantre? What is the nantre of His relationship with His creations etc.? 38 That is, `They neither have any means of knowledge by which they might themselves have observed or experienced the reality directly, nor do they have the guidance of a guide available to them, who might have guided them after observing the reality, nor do they possess a Divine Book, which might be the basis of their belief."

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :35 کسی چیز کو کسی کے لیے مسخر کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ چیز اس کے تابع کر دی جائے اور اسے اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے اور جس طرح چاہے اسے استعمال کرے ۔ دوسری یہ کہ اس چیز کو ایسے ضابطہ کا پابند کر دیا جائے جس کی بدولت اس شخص کے لیے نافع ہو جائے اور اس کے مفاد کی خدمت کرتی رہے ۔ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایک ہی معنی میں مسخ نہیں کر دیا ہے ، بلکہ بعض چیزیں پہلے معنی میں مسخر کی ہیں اور بعض دوسرے معنی میں ۔ مثلاً ہوا ، پانی ، مٹی ، آگ ، نباتات ، معدنیات ، مویشی وغیرہ بے شمار چیزیں پہلے معنی میں ہمارے لیے مسخر ہیں ، اور چاند ، سورج ، وغیرہ دوسرے معنی میں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :36 کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو آدمی کو کسی نہ کسی طرح محسوس ہوتی ہیں ، یا جو اس کے علم میں ہیں ۔ اور چھپی ہوئی نعمتوں سے وہ نعمتیں مراد ہیں جنہیں آدمی نہ جانتا ہے نہ محسوس کرتا ہے ۔ بے حد و حساب چیزیں ہیں جو انسان کے اپنے جسم میں اور اس کے باہر دنیا میں اس کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہیں ، مگر انسان کو ان کا پتہ تک نہیں ہے کہ اس کے خالق نے اس کی حفاظت کے لیے ، اس کی رزق رسانی کے لیے ، اس کے نشو و نما کے لیے ، اور اس کی فلاح کے لیے کیا کیا سر و سامان فراہم کر رکھا ہے ۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں انسان تحقیق کے جتنے قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے ، اس کے سامنے خدا کی بہت سی وہ نعمتیں بے نقاب ہوتی جا رہی ہیں جو پہلے اس سے بالکل مخفی تھیں ، اور آج تک جن نعمتوں پر سے پردہ اٹھا ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں درحقیقت کسی شمار میں بھی نہیں ہیں جن پر سے اب تک پردہ نہیں اٹھا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :37 یعنی اس طرح کے مسائل میں جھگڑے اور بحثیں کرتے ہیں کہ مثلاً اللہ ہے بھی یا نہیں؟ اکیلا وہی ایک خدا ہے یا دوسرے خدا بھی ہیں؟ اس کی صفات کیا ہیں اور کیسی ہیں؟ اپنی مخلوقات سے اسکے تعلق کی کیا نوعیت ہے ؟ وغیرہ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :38 یعنی نہ تو ان کے پاس کوئی ایسا ذریعۂ علم ہے جس سے انہوں نے براہ راست خود حقیقت کا مشاہدہ یا تجربہ کرلیا ہو ، نہ کسی ایسے رہنما کی رہنمائی انہیں حاصل ہے جس نے حقیقت کا مشاہدہ کر کے انہیں بتایا ہو ، اور نہ کوئی کتاب الٰہی ان کے پاس ہے جس پر یہ اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: حضرت لقمان کی بنیادی نصیحت میں توحید پر جو زور دیا گیا تھا، اب اس کے وہ دلائل بیان فرمائے جا رہے ہیں جو اس کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں، اور انسان ذرا غور کرے تو ان سے اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے سوا کوئی اور نتیجہ معقولیت کے ساتھ نہیں نکالا جاسکتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ظاہر اور باطن نعمتوں کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی تفسیر میں علمائے مفسرین نے بہت سے قول لکھے ہیں اور اس مقام پر جس قدر کثرت سے قول علماء مفسرین نے لکھے ہیں وہ بجا بھی ہیں کیونکہ انسان پر اللہ کی جو نعمتیں ہیں انکا کچھ حد و حساب ہی نہیں پھر جس طرح بےحدو حساب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں اسی طرح بےحد و حساب ان نعمتوں کی تفسیر بھی ہے اسی واسطے جو اللہ تعالیٰ نے سورة ابراہیم ( علیہ السلام) میں اپنی نعمتوں کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا جس کے حاصل معنے یہ ہیں کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو درکنار انسان اگر اللہ کی نعمتوں کی فقط گنتی بھی کرے تو نہیں ہوسکتی جب خود اللہ تعالیٰ کی تفسیر کی رو سے اللہ کی نعمتوں کی تفصیل اور تفسیر انسان کی قدرت سے باہر ہے تو مفسرین نے دس بارہ قول جو اس آیت کی تفسیر میں لکھے ہیں ان سے اللہ کی نعمتوں کی کیا تفسیر ہوسکتی ہے لیکن بیہقی اور دیلمی وغیرہ نے امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ایک صحیح قول جو اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے وہ ذکر کردیا جاتا ہے تاکہ آیت کی کسی قدر تفسیر ہوجائے وہ قول یہ ہے کہ عطاء بن رباح جو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے مشہور شاگردوں میں ہیں اور تابعین میں سید التابعین علماء نے ان کو لکھا ہے وہ کہتے ١ ؎ ہیں ایک روز میں نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ خود میں نے بھی اس آیت کی تفسیر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ظاہری نعمتوں سے اللہ کی مثلا ایک یہی کتنی بڑی نعمت ہے کہ ہاتھ پیر آنکھوں ناک سب اعضا اللہ تعالیٰ نے تیرے صحیح سالم پیدا کئے اور تندرستی عطا کی اور باطن کی نعمتوں میں یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ تیرے ایسے برے کام اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے چھپائے کہ اگر آج وہ سب لوگوں پر ظاہر ہوجاویں تو خود تیرے گھر والے تیرے دشمن ہوجاویں غیروں کا تو کیا ٹھکانا حاصل کلام یہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے سمجھانے کی غرض سے ایک نعمت ظاہری اور ایک نعمت باطنی اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی بےگنتی نعمتوں میں سے مثال کے طور پر بیان فرما دی اس طرح قرآن اور حدیث سے نکال کر ہزاروں لاکھوں کروڑوں نعمتیں اللہ کی بیان کی جاویں تو ممکن ہیں مگر اس ہزاروں لاکھوں کروڑوں کی گنتی سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی گنتی پوری ہوگئی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے موافق یہ بات انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی پوری کی جاوے اس لیے مفسروں نے اپنی اپنی تفسیر میں جو کچھ اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے وہ سب مثال کے طور پر خیال کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر انسان کو کم ہے اس واسطے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات میں طرح طرح کی نصیحت بھی فرمائی ہے مثلا ابوہریرہ (رض) کی صحیح مسلم کی روایت ١ ؎ میں فرمایا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ تندرستی اور خوشحالی میں جو کم درجہ ہو ایسے شخص پر نظر ڈالے جو شخص اپنے سے بڑھتی درجہ میں ہو اس پر کبھی نظر نہ ڈالے تاکہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری لازم نہ آوے حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں مثلا سورج چاند مینہ زمین میں کھیتی باغ انسان کی یہ سب ضرورت کی چیزیں پیدا کیں اس پر بھی بعضے ناشکر لوگ نادانی سے اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے میں بغیر کسی کے طرح طرح کی حجتیں نکالتے ہیں۔ “ (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ١٢٧ ج ٥‘ تفسیر فتح البیان ص ٥٦٠ ج ٣۔ ) (١ ؎ مشکوٰۃ ص ٤٤٧ باب فضل الفقراء الخ۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:20) الم تروا۔ ہمزہ استفہامیہ ہے۔ لم تروا مضارع نفی جحد بلم۔ کیا تم نے نہیں دیکھا۔ سخر۔ ماضی واحد مذکر غائب ۔ اس نے تابع کردیا۔ اس نے کام میں لگا دیا۔ کسی چیز کو جبرا وقہرا کسی خاص مقصد کے لئے مصروف کردینے کو تسخیر کہتے ہیں ۔ جیسے کذلک سخرنھا لکم لعلکم تشکرون (22:36) ہم نے یوں ان (جانوروں) کو تمہارے بس میں کردیا ہے۔ سخر تسخیر (تفعیل) مصدر۔ مسخر وہ ہے جسے کسی کام پر مجبور کرکے لگایا جائے۔ سخر مادہ۔ لیکن اسی مادہ سے باب سمع (سحر یسخر) سے ٹھٹھا کرنا کے معنی میں آتا ہے جیسے ان تسخروا منا فانا نسخر منکم کما تسخرون (11:38) اگر (آج) تم ہم پر ہنستے ہو تو جس طرح تم (ہم پر) ہنستے ہو (اسی طرح) ہم (ایک دن) تم پر ہنسیں گے۔ اسبغ۔ ماضی واحد مذکر غائب (سباغ (افعال) مصدر۔ اس نے مکمل کیا۔ اس نے پورا کردیا۔ درع سابغ پوری اور وسیع زرد جیسے ان اعمل سبغت (34:11) کشادہ اور پوری پوری زرہیں بناؤ۔ اس سے استعارہ کے طور پر اسباغ الوضوء (پورا وضو کرنا۔ اور اسباغ النعم (پورا پورا انعام کرنا) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔ آیت ہذا میں اسبغ علیکم نعمہ اس نے تم پر اپنی نعمتیں تمام کردی ہیں۔ ظاہرۃ وباطنۃ۔ یعنی ظاہری و باطنی۔ محسوسہ و غیر محسوسہ۔ معروف وغیر معروف منصوب بوجہ نعمہ سے حال ہونے کے۔ ومن الناس۔ میں واؤ حالیہ ہے اور جملہ ضمیر اللہ تعالیٰ ماقبل سے موضع حال میں ہے ۔ ای الم تروا ان اللہ سبحانہ فعل ما فعل من الامور الدالۃ علی وحدۃ سبحانہ وتعالیٰ وقدرتہ عزوجل والحال من الناس من ینازع یخاصم فی اللہ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ سبحانہ نے مختلف النوع نعمتیں عطا کیں جو اس کی قدرت و وحدت پر دلالت کرتی ہیں اور حال یہ ہے کہ لوگوں میں وہ شخص بھی جو نزاع اور جھگڑا کرتا ہے اللہ کے بارے میں (یعنی) اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے) فی اللہ ای فی توحیدہ۔ یجادل۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ مجادلۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ جدال بھی اس کا مصدر ہے۔ جھگڑا کرتا ہے۔ بغیر علم ولا ھدی ولا کتب منیر قاعدہ ہے کہ غیر کے بعد مستثنیٰ مجرور ہوتا ہے جیسے بغیر علم۔ اور جب فقرہ میں غیر کی تکرار درکار ہو تو اس کی بجائے لا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد بھی مستثنیٰ مجرور ہوگا۔ جیسے ولا ھدی ولا کتب منیرہ۔ منیر صفت ہے کتب کی اور اپنے اعراب میں موصوف کے تابع ہوگی۔ اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں : غیر المغضوب علیہم ولا الضالین (1:7) ایک اور مثال : اعرفہ غیر حسود ولا ظلوم : میں اسے جانتا ہوں نہ یہ حاسیہ ہے اور نہ ظالم۔ منیر۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ انارۃ (افعال) مصدر۔ نور مادہ۔ باب افعال کے خواص میں سے تعدیہ ہے یعنی فعل کو متعدی بنانے کی صفت۔ جیسے خرج (وہ نکلا) سے اخرج (اس نے نکالا) اور دیگر خاصیت تعبیر ہے یعنی کسی چیز کو صاحب ماخذ بنانا۔ لہٰذا پہلی صورت میں منیر کا مطلب ہوگا روشن کرنے والا۔ اور دوسری صورت میں روشنی والا۔ خود روشن۔ لہٰذا منیرخود روشن ، روشن کرنے والی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 بعض چہروں کو ایسے ضابطہ کا پابند بنایا کہ وہ خود ہی تمہارے مفاد اور خدمت کے کام کر رہی ہیں، جیسے سورج، چاند، ساترے بلکہ فرشتے بھی جو تمہارے حفاظت کرتے ہیں اور بعض کو تمہارے اختیار میں دے دیا کہ ان میں سے جس سے چاہو اور جیسے چاہو فائدہ اٹھائو جیسے جانور زمین اور اس کی تمام چیزیں بہرحال تسخیر کے معنی یہ ہیں کہ تم ان سے مستفید و متمتع ہو رہے ہو۔ ان چیزوں کا انسان کے زیر تصرف ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ تسخیر کے مفہوم سے خارج ہے۔ (شوکانی)6 کھلی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جنہیں آدمی اپنی عقل یا جو اس سے جانتا اور محسوس کرتا ہے اور چھپی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کے علم و احساس سے بالا ہیں مگر وہ اس کے جسم میں اور باہر کی دنیا میں اس کے مفاد، خدمت اور حفظ و بقا کے لئے کام کر رہی ہیں۔ (شوکانی و کبیر)7 یعنی خلق و تسخیر اور انعام و احسان وغیرہ دلائل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہو چکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید وصفات میں جھگڑتے اور بحثیں کرتے ہیں کہ خدا ہے بھی کہ نہیں ؟ اور ہے تو ایک ہے یا اس کے ساتھ دوسرے بھی خدائی میں شریک ہیں ؟ اس کی صفات کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔8 یعنی نہ ان کے پاس خود کوئی علم ہے جس کی بنا پر وہ خدا کی حقیقت اور اس کی صفات کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ان کے پاس خود خدا کی بھیجی ہوئی کوئی ایسی کتاب ہے جس سے انہوں نے یہ عقیدہ اخذ کیا ہو بلکہ محض ضد وعناد سے یا تو سرے سے خدا ہی کے منکر ہو رہے ہیں یا پھر خدا کی صفات کی من مانی عقلی تاویلیں کر رہے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 20 تا 30 کیا تم اس بات سے بیخبر ہو کہ اللہ نے سب آسمانی اور زمینی مخلوق کو تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے اور یہ بات سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ جس قدر ستارے یا سیارے معلوم ہوئے سب کی توجہات کا مرکز زمین ہے اور ان کی حرکات یا روشنی و گرمی سے زمین میں مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں چاند و سورج کی روشنی و گردش بھی زمین میں حیات آفرینی کی خدمت پر مامور ہے اور یہ سب کچھ انسان کی ہی خدمت کر رہا ہے اسی طرح آسمانی فرشتے بھی کچھ امور حیات انجام دینے پہ لگے ہیں تو عبادات کرنے والے انسانوں کے لیے دعاؤں پہ مامور ہیں۔ ظاہری و باطنی نعمتیں : پھر اس نے تمام ظاہری و باطنی نعمتوں سے انسان کو نوازا ہے ظاہری نعمتیں تمام وہ علوم و فنون جو عقل کی رسائی میں ہیں ان کی سب سے اعلی سمجھ انسان کو عطا کی اور باطنی نعمت نبوت و رسالت جو اللہ کی معرفت کا واحد ذریعہ ہے بھی انسانوں کو عطا ہوئی اور ان سب ظاہری و باطنی انعامات سے ہر انسان فائدہ حاصل کرسکتا ہے اتنے انعامات کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ کی ذات کو ماننے میں تامل ہی نہیں جھگڑا کرتے ہیں اور ایمان لانے سے انکار کرتے ہیں حالانکہ کفر پر جھگڑا بغیر کسی علمی دلیل بغیر کسی حق اور درست بات کے اور بغیر کسی کتاب روشن کے کرتے ہیں کہ حق پر علمی عقلی اور نقلی دلائل موجود جن میں سے ان کے پاس کوئی بھی نہیں بلکہ جب حق کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور کہا جاتا کہ وا کلام جو اللہ نے نازل فرمایا اسے مانو اس کی اطاعت اختیار کرو تو جواب میں کہتے ہیں ہم تو باپ دادا کی رسومات کا اتباع کرتے ہیں خواہ ان رسومات کے پیچھے لگا کر شیطان انہیں دوزخ کے عذاب میں لیے جارہا ہو۔ پھر قبول کر کے انہوں نے کسے پہ احسان تو نہیں کرنا بلکہ جو بھی خالص اللہ ہی کی اطاعت کے لیے سر تسلیم خم کردیتا ہے اور پھر عملا اس پر کاربند رہتا ہے اور خلوص کے ساتھ اللہ کی اطاعت اختیار کرتا ہے تو اس نے ایک بہت مضبوط حلقے کو تھام لیا اور نقصان و خسران کے ڈر سے محفوظ ہوگیا کہ تمام انبیاء اور رسل صحابہ و مجاہد اولیاء اور صلحاء کے ہاتھ اس حلقے کو تھامے ہوئے ہیں یعنی وہ بہت ہی مضبوط جماعت میں شامل ہوگیا۔ اب ہر کام کا انجام تو اللہ کریم کے دست قدرت میں ہے۔ یعنی دنیا کی کوئی طاقت اس جماعت کو نقصان نہیں پہنچا سکتی اور جو کفر کی راہ اپنائے تو آپ اس کے اس فیصلے پر افسردہ نہ ہوں کہ اسے یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا ہے پھر اس کو پلٹ کر اللہ کی بارگاہ میں ہی حاضر ہونا ہے جہاں اس سے اس کے اس فیصلے پر خوب بات ہوگی اس لیے کہ وہ اللہ سے کچھ بھی تو نہ چھپا سکے گا اللہ تو دلوں کے اندر چھپے بھیدوں سے بھی خوب واقف ہے۔ انہیں چند روزہ فرصت نصیب ہے جس میں اللی کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں یہ پکڑے جائیں گے اور انہیں نہایت غلیظ عذاب کی طرف کھینچ لے جا یا جائے گا۔ آپ ان پر بھی سوال کیجیے کہ ارض و سماء اور اس نظام عالم کا بنانے والا کون ہے تو انہیں مجبورا ہی کہنا پڑے گا کہ اللہ۔ کہ اور کوئی جواب بن ہی نہیں پڑتا تو کہیے واقعی سب تعریفیں اور ساری خوبیاں اللہ ہی کو سزاوار ہیں اور لوگوں کی اکثریت جو اس حقیقت سے بیخبر ہے وہ جہالت میں مبتلا ہے۔ زمین میں یا آسمانوں میں جو کچھ بھی ہے یا جو نطام بھی ہے جس شے میں جو کمال بھی ہے سب کچھ اللہ کا ہے اس کی عطا ہے اور وہی چلا رہا ہے جبکہ اللہ خود ہر شے سے بےنیاز اور لائق ستائش ہے ہر شے اس کی محتاج ہے وہ کسی شے کا محتاج نہیں۔ اللہ کی حمد و ثنا اور عظمت کے بیان کے لیے دنیا بھر کے درختوں کی اگر قلمیں بن سکیں سمندر کو سات گناہ اور بھی بڑھا کر سیاہی بنا دی جائے اور کوئی ہمیشہ لکھتا ہی چلا جائے تو اللہ کے علوم و کمالات اور اوصاف ختم ہونے میں نہ آئیں گے جبکہ لکھنے والی قلمیں کاغذ سیاہیاں تمام ہوجائیں گی بیشک اللہ سب سے بالا تر اور حکمت والا ہے۔ تمہیں پیدا کرنا اور موت دے کر دوبارہ زندہ کرنا اسے ایسا ہی آسان ہے جیسا ایک جان کو پیدا کرنا اس کی قدرت کے لیے کچھ مشکل نہیں اور کسی کی بات یا ذات اس سے بھولی ہوئی نہیں ہر شے اور ہر بات کو جانتا ہے اور سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے۔ اے مخاطب تو نہیں دیکھتا کہ اللہ رات کو اور اس کے اجزاء و اوقات کو دن میں اور دن کے اجزا کو رات میں شامل اور تبدیل فرماتا ہے چاند اور سورج کو مقرر راستوں پر چلا دیا ہے مقرر اور معین اوقات پر کہ اگر وقت یا راستے میں ذرہ برابر فرق آئے تو نطام عالم تباہ ہوجائے مگر ہر شے درست چل رہی ہے تو جس رب العالمین کو اتنے وسیع نظام کی لمحہ لمحہ کی باریکیوں کی خبر ہے وہ یقینا تمہارے اعمال سے بھی باکبر ہے۔ اور یہ دلوئل ہیں اس بات پر کہ بیشک اللہ حق ہے اور اس کے علاوہ اس کے مقابل جس کو بھی لایا جائے وہ باطل ہے اور اللہ ان سب باتوں سے بہت ہی بلند اور سب سے بڑا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (20 تا 24) اسبغ (اس نے پورا کیا۔ پھیلایا) ۔ یجادل (وہ جھگڑتا ہے) ۔ منیر (روشن۔ منور) ۔ یدعوا (بلاتا ہے) ۔ السعیر (بھڑک دار (جہنم) ۔ یسلم (وہ جھکا دیتا ہے) ۔ استمسک (اس نے تھام لیا) ۔ العروۃ (گرہ۔ حلقہ) ۔ الوثقیٰ (مضبوط) ۔ نمتع (ہم سامان دیں گے) ۔ نضطر (ہم کھینچیں گے) ۔ غلیظ (سخت۔ بدترین) ۔ تشریح : آیت نمبر (20 تا 24) ۔ ” اگر انسان اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ کر ذرا بھی غور و فکر سے کام لے تو اس کو اس نتیجے تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں ہر چیز کو اس کے کام میں لگا رکھا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے چیزوں کو استعمال کرتا ہے۔ اس طرح اللہ نے ظاہری اور باطنی نعمتوں کو اس پر مکمل فرمادیا ہے۔ اللہ کی نعمتوں کا اقرار کر کے اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اس کی طرف سے جو بھی حکم دیا جائے اس پر عمل کرنا چاہیے۔ جو اللہ کے نیک اور صالح بندے ہیں وہ ہر آن اللہ کا شکر ادا کرکے ایمان اور عمل صالح کی زندگی گذارتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو بغیر علم و ہدایت اور روشن کتاب کے اللہ کے بارے میں ہی جھگڑتے رہتے ہیں اور اس کی نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں۔ جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجی گئی وحی کے مطابق اپنی زندگی گذاریں تو وہ رسم و رواج کا سہارا لے کر کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا جس طرح عبادت و بندگی کرتے تھے ہم بھی اسی کے پابند ہیں اور ان کے طریقوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے سوال کیا ہے کہ اچھا اگر شیطان نے انہیں جہنم کی آگ کی طرف بلایا ہوا ور وہ شیطان کے بہکائے میں آکر اس غلط راستے پر چل پڑے ہوں کیا وہ پھر بھی باپ دادا کی اندھی تقلید کرتے رہیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصل چیز باپ دادا کی رسمیں نہیں ہیں بلکہ اللہ کے سامنے مکمل طور پر اپنی گردن جھکا کر اس کی اطاعت و فرماں برداری کرنا ہے۔ یقینا یہ وہ مضبوط اور مستحکم سہارا، حلقہ یا گرہ ہے جس کو تھام کر انسان گمراہی کی گندگی میں گرنے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ تمام بہتر کاموں کا انجام اللہ ہی کے پاس ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کفار کی نافرمانیوں اور غلط عقیدوں سے رنجیدہ نہ ہوں بلکہ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہیے وہ وقت دور نہیں ہے جب تمام لوگوں کو اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں ان کو بتادیا جائے گا کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا کوئی عمل اللہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے وہ دلوں کے اندر کے بھید کو بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے ان کو زندگی گذارنے کو جو سامان دے رکھا ہے جس پر وہ اترا رہے ہیں بہت جلد ان کو ایک بدترین عذاب میں کھینچا اور گھسیٹا جائے گا۔ اس وقت دنیا کا یہ سازوسامان ان کے کسی کام نہ آسکے گا۔ ان آیات کی مزیدوضاحت کے لئے چند باتیں عرض ہیں۔ (1) اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے ہر چیز کا انسان کے لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس سے پوری طرح فائدے حاصل کرسکے یہ اللہ کی نعمتیں ہیں جن کی قدر کرنا ہر انسان پر فرض ہے۔ ان میں بہت سی نعمتیں تو وہ ہیں جن کو انسان اپنی کھلی آنکھیں سے دیکھتا ہے اور بعض نعمتیں وہ ہیں جن کو دل اور ایمان کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہر روز سورج نکلتا ہے، چاند چمکتا ہے، ستارے اپنی روشنی بکھیرتے ہیں، بلندی سے بادل برس کر انسان اور حیوانوں کی پیاس بجھانے اور مردہ زمین کو زندہ کرنے کا سبب بنتا ہے، کھیت لہلہانے لگتے ہیں، پھل اور پھول اور سبزہ، سبزی کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے۔ اسی پانی سے نہریں، دریا اور ندی نالے بہتے ہیں غرضیکہ ہزاروں نعمتیں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ تو ظاہری نعمتیں ہیں لیکن ہزاروں وہ نعمتیں بھی ہیں جو آنکھوں سے تو نظر نہیں آتیں مگر دل کی نظروں سے وہ صاف نظر آتی ہیں مثلاً اللہ کی ذات وصفات کی صحیح طور پر پہچان، وحی کے ذریعہ انسانوں کی ہدایت کا سامان، انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تشریف آوری، دین کے غلبہ کے لئے ان کی کوششیں اور جدوجہد، فہم و فراست، عقل و بصیرت، سوچ سمجھ اور دور اندیشی یہ سب کی سب باطنی نعمتیں ہیں۔ ہم سب کے لئے سب سے بڑی نعمت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بابرکات ہے جن کے ذریعہ قیامت تک آنے والوں کی وہ رہنمائی ہوئی ہے کہ اب آپ کے بعد کسی دوسرے نبی کی ضرورت باقی نہیں ہے۔ اللہ کا یہ کتنا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتی بنایا۔ (2) سب سے بڑے بد قسمت لوگ وہ ہیں جو اللہ کے احسانات ماننے کے بجائے بغیر کسی علم و ہدایت اور روشن دلیلوں کے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ اس پر وہ اڑے بیٹھے ہیں اور کفرو شرک کے بد ترین راستے کو اپنائے ہوئے ہیں حالانکہ ان کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے کوئی واضح دلیل اور ثبوت موجود نہیں ہے۔ (3) دوسری بد نصیبی یہ ہے کہ جب بھی ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کی پیروی کریں۔ اسی کے مطابق اپنی زندگی گذاریں اور صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں تو ان کا جاہلانہ جواب یہی ہوتا ہے کہ ہم کسی حال میں اپنے باپ دادا کے طریقوں کو نہیں چھوڑسکتے جس راستے پر وہ چلتے آئے ہیں ہم بھی اسی راستے پر چلیں گے۔ حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں ہے لیکن وہ لوگ یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن کرلیتے ہیں اور زندگی پھر رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑے رہتے ہیں۔ اس جگہ تقلید کرنا یا نہ کرنا اس بحث کی گنجائش تو نہیں ہے لیکن موقع کی مناسبت سے اتنا ضرور سمجھ لیا جائے کہ رسم اور دین کیا ہے۔ عرض ہے کہ رسم اس کو کہتے ہیں جس کے پیچھے کوئی دلیل نہیں ہوتی لیکن دین بہترین دلائل کی روشنی میں ایک سچائی کا نام ہے۔ جو لوگ رسموں میں پھنسے رہتے ہیں ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اندھی تقلید کر رہے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن وہ لوگ جو دین پر چلنے والے ہیں وہ سچائی کی پیروی کرنے والے ہیں جس طرح صحابہ کرام (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقلید اور اتباع کی۔ تابعین نے صحابہ کرام (رض) کی تقلید کر کے اپنے دلوں کو قرآن و سنت کے نور سے روشن ومنور کیا اور اسی طرح آئمہ مجتھدین نے اپنے سے پہلے گذرے ہوئے صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کی پیروی اور تقلید۔ لہذا اگر آج ہم ان چاروں اماموں کو قابل تقلید سمجھ کر کسی ایک کی تقلید کرتے ہیں تو اس کو اندھی تقلید نہیں کہا جائے گا بلکہ ایسی تقلید کرنا عین شریعت ہے اور قرآن و سنت کے تقاضوں کی تکمیل ہے۔ (4) خوش نصیب لوگ وہ ہیں جو اپنی ذات اور جذبات کو اللہ کے سامنے جھکا دیتے ہیں اور ہر اس کام میں سب سے آگے ہوتے ہیں جو نیکی اور بھلائی کا کام ہے۔ درحقیقت ایسے لوگ اس مضبوط اور مستحکم گرہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں جو ان کو گمراہی کے گہرے گڑھوں میں گرنے سے بچا لیتی ہے۔ یہ تقلید شخصیتوں کی ہنسی بلکہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقلید ہے۔ (5) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر کفار ان سچائیوں کو نہیں مانتے اور انکار کرتے چلے جارہے ہیں تو آپ اس سے رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ آخر کار ایسے منکرین کا بد ترین انجام ہے اور وہ عذاب الہی سے نہیں بچ سکتے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ ظاہری وہ کہ حواس سے مدرک ہوں اور باطنی وہ جو عقل سے مدرک ہوں، اور مراد نعمتوں سے وہ نعمتیں ہیں جو تسخیر سموات وارض پر مرتب ہوتی ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت لقمان کی وصیتوں میں سر فہرست وصیت ” اللہ “ کی توحید ہے۔ توحید سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غوکرے۔ کیا انسان اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو ان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں کہ ان کا شکر ادا کرنا تو درکنار انہیں شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ انسان اپنے رب کی شکر گزاری اور تابعداری کرنے کی بجائے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے۔ کافر اپنے رب کی ذات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک بناکر جھگڑا کرتا ہے۔ اگر ان کو سمجھایا جائے تو یہ اپنے رب کی ذات اور صفات کے خلاف من گھڑت دلیلیں ہی نہیں دیتے بلکہ موحد کے ساتھ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ کافر اور مشرک کے پاس اپنے باطل عقیدہ کی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کسی حقیقی علم، آسمانی ہدایت اور کتاب الٰہی کی دلیل کے بغیر جھگڑتے ہیں۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تعلق ہے ان میں کھلی نعمتیں تو انسان کے سامنے ہیں۔ جن نعمتوں کا انسان تصور نہیں کرسکتا تھا وہ بھی ظاہر کی جا رہی ہیں۔ کیا آج سے کچھ مدّت پہلے کا انسان گیس، بجلی، ہوائی جہاز، ٹرانسپورٹ اور بیشمار موجودہ ایجادات کو جانتا تھا ؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے انسانوں کو، کونسی نعمتوں سے نوازنے والا ہے۔ لیکن نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے جو ہمارے رب نے ہم پر مکمل کردیا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 186 تشریح آیات 20 ۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 34 یہ اس سورة کا تیسرا راؤنڈ ہے۔ اس کا آغاز تکوینی دلیل کے بیان سے ہوتا ہے جس کا تعلق لوگوں سے اور ان کی زندگی کی سہولیات و مفادات سے ہے کہ اللہ نے ان پر کیا کیا انعامات کیے ، جو ظاہر بھی ہیں اور باطن بھی ہیں ، جن سے وہ رات اور دن فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن ان کے باوجود انہیں شرم نہیں آتی کہ وہ ایسے منعم ، فضل و کرم کرنے والے ، داتا کے بارے میں جھگڑتے ہیں اور اس کے بعد وہی مسئلہ توحید بیان ہوتا ہے جو اس سے قبل دونوں اسفار میں بیان ہوا۔ الم تروا ان اللہ ۔۔۔۔۔۔ الی عذاب السعیر (20 – 21) ” ۔ یہ وہ نظارہ ہے جسے ہم روز دیکھتے ہیں۔ جسے قرآن کریم بار بار نقل کرتا ہے اور ہر بار منظر کائنات پڑھنے والے کو نیا نظر آتا ہے کیونکہ یہ عظیم کائنات اور اس کے کسی پہلو پر بھی اگر غور کیا جائے ، جب بھی غور کیا جائے اور اس کے اسرار و رموز پر تدبر کیا جائے اور اس کے عجائبات دیکھے جائیں تو یہ نیا نظر آتا ہے۔ اور اس کے اسرار اور عجائبات ختم نہیں ہوتے۔ انسان اپنی محدود عمر میں وہ پوری معلومات حاصل نہیں کرسکتا۔ جب بھی کوئی دریافت ہوتی ہے عقل دنگ رہ جاتی ہے اور جب بھی ہم از سر نو غور کرتے ہیں اسے جدید پاتے ہیں۔ یہاں قرآن کریم اس کائنات کے اس پہلو کو پیش کرتا ہے کہ اللہ نے یہ کائنات ہمارے لیے مسخر کردی ہے اور یہ ہر طرف سے انسانی ضروریات کو پورا کر رہی ہے۔ پھر جب اس کائنات کے اندر پائے جانے والی تمام چیزوں کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی ترکیب بڑی عجیب ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے کسی مدبر انجینئر نے بنایا ہے اور یہ یونہی اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوگئی۔ لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ ایک ارادہ اس پوری کائنات کے پیچھے کام کر رہا ہے اور وہ اللہ مدبر ہے ، جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس کائنات کی تمام چیزوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا اور پھر اس کرہ ارض کی تو ہر چیز کو خدمت انسان میں لگا دیا۔ جہاں تک اس ہولناک کائنات کا تعلق ہے ، یہ زمین اس کا ایک چھوٹا سا ذرہ ہے اور اس زمین پر پھر انسان ایک چھوٹی سی ضعیف مخلوق ہے بمقابلہ حجم زمین اور بمقابلہ ان قوتوں کے جو اس زمین کے اندر قدرت نے رکھی ہیں جو زندہ بھی ہیں اور مردہ بھی ہیں۔ ان قوتوں کے مقابلے میں انسان اپنے حجم ، طاقت اور وزن کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں۔ لیکن اللہ نے انسان کو فضیلت دی اور اس کے جسم میں اپنی روح پھونکی اور اسے اپنی مخلوقات کے ایک بڑے حصے پر فضیلت دے دی۔ اللہ کا یہ فضل و کرم ہی تاھ جس کا تقاضا یہ ہوا کہ اس مخلوق کی اس کرہ ارض پہ اہمیت ہو۔ اور اس کا سب مخلوق سے بلند مقام ہو۔ اس کے اندر یہ قوت اور صلاحیت ہو کہ وہ اس دنیا کے وسائل کو کام میں لائے اور اس کے اندر یہ قوت اور صلاحیت ہو کہ وہ اس دنیا کے وسائل کو کام میں لائے اور اس کے قدرتی ذخائر کی تلاش کرے۔ اس آیت میں جس تسخیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، وہ یہی ہے کیونکہ تسخیر کائنات ہی میں اللہ کی ظاہری اور پوشیدہ نعمتوں کا شمار ہوتا ہے۔ یہ تسخیر اس کے علاوہ ہے جو اللہ نے سماوات کی قوتوں کو بھی انسان کے لیے مفید بنایا ہے۔ انسان کا وجود ہی اللہ کا فضل ہے اور پھر انسان کو اس قدر قوت و صلاحیت دی جاتی ہے کہ وہ اس کائنات کی سرکش قوتوں کو مسخر کرے۔ یہ اللہ کا دوسرا فضل ہے اور پھر اس کی ہدایت کے لیے رسولوں کو بھیجنا ، اللہ کا مزید فضل ہے۔ ہر وہ سانس جو وہ لیتا ہے ، دل کی ہر دھڑکن جو اس کے جسم میں خون دوڑاتی ہے۔ اس دنیا کا ہر منظر جسے وہ دیکھتا ہے ، ہر وہ آواز جو اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے ، ہر وہ خیال جو اس کے ضمیر میں آتا ہے ، ہر نئی فکر جو وہ تخلیق کرتا ہے۔ یہ سب اللہ کے وہ انعامات ہیں جن میں ایک کا شکر بھی انسان اپنی پوری زندگی میں ادا نہیں کرسکتا ۔ یہ سب اللہ کے فضل ہی فضل ہیں۔ اس انسانی مخلوق کے لیے اللہ نے ان تمام قوتوں کو مسخر کیا ہے جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں۔ سورج کی کرنوں کو اس کی خدمت میں لگا دیا۔ چاند کے نور کو اس کے لیے مفید کردیا ، ستاروں سے اس کیلئے سمندروں میں راہنمائی فراہم کی۔ بارش ، ہوا ، پرندے اور چرندے اس کے مفید مطلب بتا دئیے گئے۔ اس کے اندر جو کچھ ہے اس کے لیے مفید اور مسخر ہوگئے۔ یہ تو ہم بڑی سہولت سے دیکھ سکتے ہیں۔ ان پر تو ہمیں رات اور دن تدبر کرنا چاہئے۔ اس طویل و عریض کرہ ارض پر اسے خلیفہ بنایا گیا اور زمین کے تمام خزانوں پر اس کا کنڑول قائم کردیا گیا۔ بعض خزانے ظاہر ہیں اور بعض باطن ہیں۔ بعض ایسے ہیں جن کے آثار و اثرات اس کے ادراک میں ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو ابھی اس کے ادراک سے باہر ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ ان سے وہ استفادہ کرتا رہا لیکن اسے ان کا علم ہی نہ تھا۔ غرض انسان ہے کہ رات اور دن کے ہر لمحے میں اس پر اللہ کے فضل و کرم کی بارش ہو رہی ہے اور وہ اللہ کی رحمتوں میں غرق ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ ان رحمتوں کی انتہا کیا ہے۔ اس کے انواع و اقسام کیا کیا ہیں لیکن ان سب امور کے باوجود لوگوں میں سے ایک فریق ایسا ہے جو اللہ کی ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا ، ان پر غور نہیں کرتا ، اپنے ماحول میں غوروفکر کرکے یقین نہیں رکھتا۔ ومن الناس ۔۔۔۔۔ ولا کتٰب منیر ( 2:31 ) ” اس کے باوجود حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو یا کوئی ہدایت یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب “۔ اللہ کے بارے میں یہ مجادلہ عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے جبکہ یہ کائنات اور اس کی بوقلمونیاں ہمارے سامنے ہیں اور ان وافر نعمتوں کی تعداد ہی ہمیں معلوم نہیں ۔ ایسے حالات میں یہ انکار اور یہ تکذیب نہایت قبیح ، نہایت مذموم ، قابل نفرت اور فطرت کے خلاف ہے ۔ اور انسان اگر غور کرے تو مارے خوف کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا یہ انکار کرنے والا شخص دراصل فطرتاًمخرف ہے ۔ اس کے اندر فطری بگاڑ پیدا ہوگیا ہے ۔ وہ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کی پکار کو نہیں سن رہا ہے اور وہ اس قدر جری اور بےشرم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ایسے منعم کے بارے میں گستاخی کرتا ہے ۔ پھر اس شخص کا یہ مجادلہ اور یہ انکار کسی علم سائنس پر بھی مبنی نہیں ہے ۔ محض جہالت پر مبنی ہے۔ پھر ایسے شخص کے پاس نہ کوئی کتابی ثبوت ہے اور نہ دلیل منیر ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھرپور ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا ہے، منکرین آباء و اجداد کی تقلید میں گمراہ ہوئے، اہل ایمان نے مضبوط کڑے کو پکڑ رکھا ہے حضرت لقمان کی نصائح کا تذکرہ ختم کرنے کے بعد پھر توحید کا مضمون شروع فرمایا۔ ارشاد فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخر فرما دیا جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں آسمانوں و زمین میں پیدا فرمائی ہیں انہیں تمہارے کام میں لگا دیا ہے، ان میں بعض چیزیں تو وہ ہیں جو انسان کے حکم کے تابع ہیں اور جو تابع نہیں ہیں وہ بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانوں کے لیے فائدہ مند ہیں، ان کا وجود کسی نہ کسی طرح سے انسان کے منافع کا ذریعہ ہے، انسان اگر غور کرے اور اپنے واقعی نفع و ضرر کو پہچانے تو یہ بات اس کی سمجھ میں آجائے گی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں انڈیل دی ہیں یعنی بھرپور نعمتیں عطا فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی زیادہ نعمتیں دی ہیں جن کو شمار بھی نہیں کرسکتا اور یہ نعمتیں جسمانی بھی ہیں اور روحانی بھی، ظاہری بھی اور باطنی بھی، اہل ایمان کے لیے تو ایمان بہت بڑی نعمت ہے بلکہ سب سے بڑی نعمت ہے جو آخرت میں ابدی نعمتیں ملنے کا ذریعہ ہے۔ تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے جسم دیا ہے، صحت و عافیت عطا فرمائی ہے، طرح طرح کی غذائیں دی ہیں، حواس خمسہ (یعنی قوت سامعہ اور باصرہ اور شامہ اور ذائقہ اور لامسہ) عطا فرمائی اور عقل و فہم سے نوازا ہے، اچھی صورت دی ہے، جسم میں جوڑ رکھے ہیں جن کے ذریعہ اٹھتا بیٹھتا اور لیٹتا ہے اور چلتا پھرتا ہے اور ضرورت کی چیزوں کو پکڑتا اور استعمال کرتا ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔ ظاہری نعمتوں سے کون سی نعمتیں مراد ہیں اور باطنی نعمتیں کون سی ہیں ؟ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں، ایک قول یہ ہے کہ ظاہری نعمتوں سے اسلام کا غالب ہونا اور دشمنوں کے مقابلے میں فتح یاب ہونا اور باطنی نعمتوں سے فرشتوں کی امداد آنا مراد ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ نعم ظاہرہ سے دنیاوی نعمتیں اور نعم باطنہ سے اخروی نعمتیں مراد ہیں۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ظاہری نعمتوں سے سمع، بصر، زبان اور تمام اعضاء مراد ہیں اور باطنی نعمتوں سے قلب اور عقل و فہم مراد ہیں، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ظاہری نعمتیں وہ ہیں جو سب کے سامنے ہیں اور باطنی نعمتیں وہ ہیں جو ہر شخص کے ساتھ مخصوص ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ الم تر الخ، یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے جس سے نفی شرک فی التصرف مقصود ہے تم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت سے زمین و آسمان کی ہر چیز کو تمہارے کاموں میں لگا دیا ہے اور تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں بتمام و کمال تمہیں عطاء فرمائی ہیں ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں لہذا وہی سب کا کارساز ہے اور وہی عبادت اور پکار کے لائق ہے اور کوئی نہیں۔ 20:۔ ومن الناس الخ، یہ معاندین پر زجر ہے یعنی ہم تو مسئلہ توحید کو عقل و نقل کے دلائل واضحہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں لیکن لوگ ماننے کے بجائے الٹا توحید میں مجادلہ کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس نہ عقل و نقل کی کوئی دلیل ہے نہ وحی کی۔ فی اللہ، یعنی اللہ کی توحید اور اس کے کمال قدرت میں ای فی توحیدہ عز وجل و صفاتہ جل شانہ کالمشرکین المنکرین وحدتہ سبحانہ و عموم قدرتہ جلت قدرتہ وشمولہا للبعث (روح ج 21 ص 94) ۔ علم سے دلیل عقلی، حدی سے دلیل وحی اور کتاب منیر دلیل نقلی مراد ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20۔ کیا تم لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوئی اور تم نے یہ بات نہیں دیکھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کو جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور تمہارے لئے ان سب چیزوں کو مسخر کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کر رکھی ہیں اور لوگوں میں سے بعض آدمی ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدوں کسی واقفیت اور بغیر کسی دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے جھگڑا کرتا ہے۔ یعنی آسمان میں سورج اور چاند اور سیارے یعنی پورا نظام شمسی جس کی تسخیر پر مخلوق کی زندگی کا دارومدار ہے اور زمین کی چیزیں مویشی اور زمین کی کھیتی باڑی ، دریا ، پہاڑ ، غرض کوئی ایسی چیزجو انسانی منافع اور کسی گوشہ زندگی سے وابستہ نہ ہو۔ ان سب چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی ضروریات زندگی کیلئے مسخر کر رکھا ہے ، ظاہری نعمت سے یا تو وہ چیزیں ہیں جو اس سے جانی جائیں اور سمجھی جائیں یا جسمانی اور مادی نعمتیں مراد ہوں اور باطنی نعمتیں وہ جن کو سمجھنا محض عقل سے ہو یا روحانی نعمتیں مراد ہوں جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی وساطت سے حاصل ہوں یہ جھگڑا لو شخص یا تو نضر بن حارض ہے جس کا ذکرسورۂ حج کے شروع میں گزر چکا ہے یا کوئی یہودی ہے جو بغیر کسی بد یہی علم اور بغیر ہدایت یعنی عقلی اور کتاب یعنی دلیل نقلی کے جھگڑا کرتا اور مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں الجھتا رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ علم سے مراد دلیل ہو اور ھدی سے مراد رسول کا قول ہو اور کتاب منیر سے مراد کتب سماوی ہو۔ بہر حال نہ استدلال عقلی ، نہ کسی پیغمبر کا قول نہ کسی آسمانی کتاب کی شہادت اور باوجود اس تہی دامنی کے کٹ حجتی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے بارے میں بحث مباحثہ اور جھگڑا کرتا رہتا ہے۔