Surat Luqman

Surah: 31

Verse: 9

سورة لقمان

خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقًّا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۹﴾

Wherein they abide eternally; [it is] the promise of Allah [which is] truth. And He is the Exalted in Might, the Wise.

جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ کا سچا وعدہ ہے ، وہ بہت بڑی عزت و غلبہ والا اور کامل حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خَالِدِينَ فِيهَا ... for them are Gardens of Delight. To abide therein. means, there they will enjoy all kinds of delights and pleasures, food, drink, clothing, dwelling-places, means of transportation, women, a light of beauty and delightful sounds, which have never crossed the mind of any human being. They will stay there forever, never leaving and never desiring change. ... وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ... It is a promise of Allah in truth. meaning, this will undoubtedly come to pass, for it is a promise from Allah, and Allah never breaks His promise, because He is the Most Generous Bestower Who does what He wills and is able to do all things. ... وَهُوَ الْعَزِيزُ ... And He is the All-Mighty, Who has subjugated all things and to Whom all things submit, ... الْحَكِيمُ the All-Wise. in what He says and what He does, Who has made this Qur'an a guidance to the believers. قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَأءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى Say: "It is for those who believe, a guide and a healing. And as for those who disbelieve, there is heaviness (deafness) in their ears, and it is blindness for them. (41:44) وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَأءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُوْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا And We send down of the Qur'an that which is a healing and a mercy to those who believe, and it increases the wrongdoers nothing but loss. (17:82)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91یعنی یہ یقینا پورا ہوگا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وَاللّٰہُ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] یعنی اللہ نے مومنوں سے جن جن نعمتوں اور باغات دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ انھیں دینے پر قادر بھی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ نعمتیں مومنوں کو مل نہ سکیں۔ اور وہ حکیم بھی ہے نہ تو وہ کسی مستحق کو محروم رکھے گا اور نہ ہی غلط بخشیوں کا ہی وہاں کچھ امکان ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

خٰلِدِيْنَ فِيْهَا : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة کہف (١٠٧، ١٠٨) ۔ وَعْدَ اللّٰهِ حَقًّا : جنت کے وعدے کی ضمانت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا نام ذکر فرمایا کہ یہ کسی ایرے غیرے کا وعدہ نہیں، بلکہ ساری کائنات کے مالک اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو سب سے بڑا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ” حَقًّا “ کے ساتھ مزید یقین دلایا ہو کہ وعدہ بھی ایسا ہے جو بالکل سچا ہے، جس سے زیادہ سچا کوئی وعدہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : اس میں مزید یقین دہانی ہے کہ یہ وعدہ کرنے والا وہ ہے جو سب پر غالب ہے، کوئی قوت اسے وعدہ پورا کرنے سے روک نہیں سکتی اور وہ کمال حکمت والا ہے۔ اس نے یہ وعدہ اندھا دھند اور بےموقع نہیں فرمایا، بلکہ حکمت کے مطابق فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝ ٠ ۭ وَعْدَ اللہِ حَقًّا۝ ٠ ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٩ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ وہاں موت آئے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ وہ اپنی سلطنت اور بادشاہت میں زبردست اور حکم و فیصلہ میں حکمت والا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے جنت کا سچا وعدہ فرمایا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 That is, "Nothing can withhold Him from fulfilling His promise, and whatever He does, He does strictly according to the demands of wisdom and justice. The object of mentioning these two attributes of Allaln after saying: This 'is a true promise of AIIah", is to stress that AIIah neither violates His promise wilfully nor is there in this universe any such power as can prevent Him from fulfilling His promise. Therefore, there can be no chance that one may not receive what AIIah has promised to give as a reward for faith and righteous deeds. Moreover, Allah's open promise to bestow this reward is wholly based on His wisdom and His justice. He does not misjudge: it cannot be that He may deprive a deserving person of his reward, and reward a non-deserving one instead. The people characterised by taste faith and righteous deeds indeed deserve this reward and AIIah will bestow this on them only."

سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :11 یعنی کوئی چیز اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی ، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو بالارادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہو سکتی ہو ، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے ۔ نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسر اس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے ۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اور غیر مستحق کو نواز دیا جائے ۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحق ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(31:9) وعد اللہ : وعدا مصدر مؤکد لنفسہ ۔ لہم جنت النعیم کے معنی ہیں کہ :۔ وعدہم اللہ جنت النعیم۔ اس وعدہ کی تاکید میں مصدر مؤکدہ لایا گیا ہے چونکہ یہ وعدہ لفظا موجود نہیں صرف معنی ہے اس تاکید کو تاکید معنوی کہتے ہیں اور مصدر مؤکدہ لنفسہ کہلائے گا۔ اس کی مثال 30:6 میں ملاحظہ ہو۔ حقا بھی مصدر مؤکدہ ہے وعدہ کی تاکید کے لئے آیا ہے لہٰذا ہر دو عد اور حقا وعدہ لہم جنت النعیم کی تاکید کے لئے ہیں۔ دونوں مصدر مؤکدہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں ۔ العزیز۔ غالب ۔ زبردست۔ قوی۔ گرامی قدر۔ عزۃ سے فعیل کے وزن پر بمنعی فاعل مبالغہ کا صیغہ ہے۔ الحکیم۔ ذوالحکمۃ۔ حکمت والا۔ جس کا ہر کام حکمت اور مصلحت پر مبنی ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ پس کمال قدرت سے وعدہ اور وعید کو واقع کرسکتا ہے اور حکمت سے اس کو حسب وعدہ واقع کرے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9۔ وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے یہ وعدہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے وعدہ سچا اور وہی کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ یعنی اہل ایمان جو نیک اعمال کیا کرتے ہیں ان کے لئے گونا گوں نعمتوں کے باغ ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ان کو وہاں سے نکالا نہ جائے گا یہ اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ پورا ہی ہو کر رہتا ہے کیونکہ وہ کمال قوت و حکمت کا مالک ہے۔