The Bad State in which the Idolators will be on the Day of Resurrection
Allah says;
وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُوُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ
...
And if you only could see when the criminals shall hang their heads before their Lord, (saying):
Allah tells us the state of the idolators on the Day of Resurrection and what they will say when they see the Resurrection and are standing before Allah -- may He be glorified -- humiliated and brought low, with their heads bowed, i.e., in shame.
They will say:
...
رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا
...
Our Lord! We have now seen and heard,
meaning, `now we hear what You say and we will obey You.'
This is like the Ayah,
أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا
How clearly will they see and hear, the Day when they will appear before Us! (19:38)
And they will blame themselves when they enter the Fire, and will say:
لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِى أَصْحَـبِ السَّعِيرِ
"Had we but listened or used our intelligence, we would not have been among the dwellers of the blazing Fire!" (67:10)
Similarly, here they are described as saying:
...
رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا
...
Our Lord! We have now seen and heard, so send us back, (to the world),
...
نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
that we will do righteous good deeds. Verily, we now believe with certainty.
means, `now we are sure and we believe that Your promise is true and that the meeting with You is true.'
But the Lord, may He be exalted, knows that if He were to send them back to this world, they would behave as they did previously, and they would reject and disbelieve in the signs of Allah and would go against His Messengers, as He says:
وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا
If you could but see when they will be held over the (Hell) Fire! They will say: "Would that we were but sent back! Then we would not deny the Ayat of our Lord," (6: 27)
And Allah says here:
ناعاقبت اندیشو اب خمیازہ بھگتو
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت وحقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہوگئیں کان کھل گئے ۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہوجائیں گے ۔ سب اندھا و بہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے ۔ لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے ۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے ۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27 ) 6- الانعام:27 ) میں ہے ۔ اسی لئے یہاں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے جیسے فرمان ہے ۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مومن بن جاتا ۔ لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہوچکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے ۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورپورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے ۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں ۔ دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو ۔ اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو ۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والا کیا کرتا ہے ۔ اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے ۔ اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے ۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے ۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے آیت ( وَقِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا وَمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 34 ) 45- الجاثية:34 ) آج ہم تمہیں بھول جاتے جیسے اور آیت میں ہے ( لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا 24ۙ ) 78- النبأ:24 ) وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سوا ئے گرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہوگا ۔