Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 12

سورة السجدة

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الۡمُجۡرِمُوۡنَ نَاکِسُوۡا رُءُوۡسِہِمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ رَبَّنَاۤ اَبۡصَرۡنَا وَ سَمِعۡنَا فَارۡجِعۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا اِنَّا مُوۡقِنُوۡنَ ﴿۱۲﴾

If you could but see when the criminals are hanging their heads before their Lord, [saying], "Our Lord, we have seen and heard, so return us [to the world]; we will work righteousness. Indeed, we are [now] certain."

کاش کہ آپ دیکھتے جب کہ گناہگار لوگ اپنے رب تعالٰی کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے ، کہیں گے اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Bad State in which the Idolators will be on the Day of Resurrection Allah says; وَلَوْ تَرَى إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُوُوسِهِمْ عِندَ رَبِّهِمْ ... And if you only could see when the criminals shall hang their heads before their Lord, (saying): Allah tells us the state of the idolators on the Day of Resurrection and what they will say when they see the Resurrection and are standing before Allah -- may He be glorified -- humiliated and brought low, with their heads bowed, i.e., in shame. They will say: ... رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا ... Our Lord! We have now seen and heard, meaning, `now we hear what You say and we will obey You.' This is like the Ayah, أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ يَوْمَ يَأْتُونَنَا How clearly will they see and hear, the Day when they will appear before Us! (19:38) And they will blame themselves when they enter the Fire, and will say: لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِى أَصْحَـبِ السَّعِيرِ "Had we but listened or used our intelligence, we would not have been among the dwellers of the blazing Fire!" (67:10) Similarly, here they are described as saying: ... رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا ... Our Lord! We have now seen and heard, so send us back, (to the world), ... نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ that we will do righteous good deeds. Verily, we now believe with certainty. means, `now we are sure and we believe that Your promise is true and that the meeting with You is true.' But the Lord, may He be exalted, knows that if He were to send them back to this world, they would behave as they did previously, and they would reject and disbelieve in the signs of Allah and would go against His Messengers, as He says: وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ فَقَالُواْ يلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِـَايَـتِ رَبِّنَا If you could but see when they will be held over the (Hell) Fire! They will say: "Would that we were but sent back! Then we would not deny the Ayat of our Lord," (6: 27) And Allah says here:

ناعاقبت اندیشو اب خمیازہ بھگتو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ گنہگار اپنا دوبارہ جینا خود اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور نہایت ذلت وحقارت کے ساتھ نادم ہو کر گردنیں جھکائے سر ڈالے اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہماری آنکھیں روشن ہوگئیں کان کھل گئے ۔ اب ہم تیرے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر طرح تیار ہیں اس دن خوب سوچ سمجھ والے دانا بینا ہوجائیں گے ۔ سب اندھا و بہرا پن جاتا رہے گا خود اپنے تئیں ملامت کرنے لگیں گے اور جہنم میں جاتے ہوئے کہیں گے ہمیں پھر دنیا میں بھیج دے تو ہم نیک اعمال کر آئیں ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ تیری ملاقات سچ ہے تیرا کلام حق ہے ۔ لیکن اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اگر دوبارہ بھی بھیجے جائیں تو یہی حرکت کریں گے ۔ پھر سے اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے دوبارہ نبیوں کو ستائیں گے ۔ جیسے کہ خود قرآن کریم کی آیت ( وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ 27؀ ) 6- الانعام:27 ) میں ہے ۔ اسی لئے یہاں فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے جیسے فرمان ہے ۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کا ایک ایک رہنے والا مومن بن جاتا ۔ لیکن اللہ کا یہ فیصلہ صادر ہوچکا ہے کہ انسان اور جنات سے جہنم پر ہونا ہے ۔ اللہ کی ذات اور اس کے پورپورے کلمات کا یہ اٹل امر ہے ۔ ہم اس کے تمام عذابوں سے پناہ چاہتے ہیں ۔ دوزخیوں سے بطور سرزنش کے کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کی فراموشی کا مزہ چکھو ۔ اور اس کے جھٹلانے کا خمیازہ بھگتو ۔ اسے محال سمجھ کر تم نے وہ معاملہ کیا کہ جو ہر ایک بھولنے والا کیا کرتا ہے ۔ اب ہم بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گے ۔ اللہ کی ذات حقیقی نسیان اور بھول سے پاک ہے ۔ یہ تو صرف بدلے کے طور پر فرمایا گیا ہے ۔ چنانچہ اور روایت میں بھی ہے آیت ( وَقِيْلَ الْيَوْمَ نَنْسٰـىكُمْ كَمَا نَسِيْتُمْ لِقَاۗءَ يَوْمِكُمْ ھٰذَا وَمَاْوٰىكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ 34؀ ) 45- الجاثية:34 ) آج ہم تمہیں بھول جاتے جیسے اور آیت میں ہے ( لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا 24؀ۙ ) 78- النبأ:24 ) وہاں ٹھنڈک اور پانی نہ رہے گا سوا ئے گرم پانی اور لہو پیپ کے اور کچھ نہ ہوگا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

121یعنی اپنے کفر و شرک اور معصیت کی وجہ سے مارے ندامت کے۔ 122یعنی جس کو جھٹلایا کرتے تھے، اسے دیکھ لیا، جس کا انکار کرتے تھے، اسے سن لیا۔ یا تیری وعیدوں کی سچائی کو دیکھ لیا اور پیغمبروں کی تصدیق کو سن لیا، لیکن اس وقت کا دیکھنا، سننا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ 123لیکن اب یقین کیا تو کس کام کا ؟ اب تو اللہ کا عذاب ان پر ثابت ہوچکا جسے بھگتنا ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٣] ان کا یہ مطالبہ بھی بالکل عبث ہوگا کیونکہ انسان کو عقل و شعور تو اس لئے دیا گیا تھا کہ ان سے کام لیتے ہوئے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور یہی ایمان بالغیب کا مطلب ہے۔ اور اسی چیز کا انسان سے مطالبہ ہے۔ پھر جب انسان نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ لیا تو اس کا ایمان اضطراری ہوا، اختیاری نہ رہا۔ نہ ہی اسے ایمان بالغیب کہ سکتے ہیں۔ اس مقام پر ان کے اس مطالبہ پر جواب نہیں دیا گیا۔ جبکہ ایک دوسری جگہ پر یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگر دوبارہ دنیا میں بھیجنا انسان کا دستور نہیں تاہم بفرض محال اگر ہم انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو پھر یہ لوگ ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کرکے آئے ہیں۔ یہ لوگ پھر دنیا اور اس کی دلفریبیوں پر ویسے مفتون ہوجائیں گے جیسا کہ پہلے تھے۔ اور پہلی سی شرارتیں پھر شروع کردیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ : پچھلی آیت میں جو فرمایا ” ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ “ (پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) اب اس حالت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے۔ ” نَکَسَ یَنْکُسُ “ (ن) کا معنی کسی چیز کو سر کے بل الٹا کرنا ہے، مراد ذلت، شرمندگی اور غم کے ساتھ سروں کو جھکانا ہے۔ ” المجرمون “ کے لفظ کے ساتھ ان کے اس انجام کا سبب صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا : یہاں ” یَقُوْلُوْنَ “ کا لفظ مقدر ہے، یعنی وہ سر جھکائے ہوئے یہ بات کہہ رہے ہوں گے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اگر انھیں دوبارہ واپس بھیج بھی دیا جائے تو اپنی پرانی روش ہی پر چلیں گے، فرمایا : (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا يُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ۭ وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ) [ الأنعام : ٢٧، ٢٨ ] ” اور کاش ! تو دیکھے جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے اے کاش ! ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں سے ہوجائیں۔ بلکہ ان کے لیے ظاہر ہوگیا جو وہ اس سے پہلے چھپاتے تھے اور اگر انھیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ “ کفار کے اس اظہار حسرت و ندامت کا ذکر متعدد آیات میں آیا ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٣) اور مومنون (٩٩، ١٠٠) ۔ اِنَّا مُوْقِنُوْنَ : مگر اس وقت یقین ہوجانے کا کیا فائدہ ؟ جو وقت یقین کے فائدہ دینے کا تھا (یعنی دنیا میں) وہ تو انھوں نے گنوا دیا۔ دیکھیے سورة مومن (٨٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 15 وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝ ٠ ۭ رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۝ ١٢ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ نكس النَّكْسُ : قَلْبُ الشیءِ عَلَى رَأْسِهِ ، ومنه : نُكِسَ الوَلَدُ : إذا خَرَجَ رِجْلُهُ قَبْلَ رَأْسِهِ ، قال تعالی: ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 65] والنُّكْسُ في المَرَضِ أن يَعُودَ في مَرَضِهِ بعد إِفَاقَتِهِ ، ومن النَّكْسِ في العُمُرِ قال تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] وذلک مثل قوله : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] وقرئ : ننكسه «3» ، قال الأخفش : لا يكاد يقال نَكَّسْتُهُ بالتَّشْدِيدِ إلّا لما يُقْلَبُ فيُجْعَلُ رأسُهُ أسْفَلَهُ «4» . والنِّكْسُ : السَّهْمُ الذي انكَسَرَ فوقُه، فجُعِلَ أَعْلَاهُ أسْفَلُه فيكون رديئاً ، ولِرَدَاءَتِهِ يُشَبَّهُ به الرَّجُلُ الدَّنِيءُ. ( ن ک س ) النکس ( ن ) کے معنی کسی چیز کو الٹا کردینے کے ہیں اور اسی سے نکس الولد ہے ۔۔ یعنی ولات کے وقت بچے کے پاؤں کا سر سے پہلے باہر نکلنا ۔ ثُمَّ نُكِسُوا عَلى رُؤُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 65] پھر شرمندہ ہوکرسر نیچا کرلیا ۔ النکس صحت یابی کے بعد مرض کا عود کر آنا۔ اور نکس فی العسر العمر کے متعلق فرمایا : وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس/ 68] اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں ۔ اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلى أَرْذَلِ الْعُمُرِ [ النحل/ 70] اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں ۔ اور ایک قرات میں ننکسہ ہے ۔ اخفش کا قول ہے ۔ کہ ننکسہ وبتشدید الکاف ) کے معنی کسی چیز کو سرنگوں کردینے کے ہوتے ہیں ۔ اور نکس اس تیرے کو کہتے ہیں جس کا فوتہ ٹوٹ گیا ہو اور اس کے اوپر کے حصہ کو نیچے لگا دیا گیا ہو ۔ ایسا تیر چونکہ روی ہوجاتا ہے ۔ اس لئے تشبیہ کے طور پر کمینے آدمی کو بھی نکس کہاجاتا ہے ۔ رأس الرَّأْسُ معروف، وجمعه رُؤُوسٌ ، قال : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] ، وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، ويعبّر بِالرَّأْسِ عن الرَّئِيسِ ، والْأَرْأَسُ : العظیم الرّأس، وشاة رَأْسَاءُ : اسودّ رأسها . ورِيَاسُ السّيف : مقبضه . ( ر ء س ) الراس سر کو کہتے ہیں اور اس کی جمع رؤوس آتی ہے ۔ قرآم میں ہے : وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْباً [ مریم/ 4] اور سر بڑاھاپے ( کی آگ ) سے بھڑک اٹھا ہے ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اپنے سر نہ منڈاؤ اور کبھی راس بمعنی رئیس بھی آتا ہے اور ارء س ( اسم تفصیل ) کے معنی بڑے سر والا کے ہیں اور سیاہ سر والی بکری کو شاۃ راساء کہتے ہیں اور ریاس السیف کے معنی دستہ شمشیر کے ہیں ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح يقن اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة/ 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما . ( ی ق ن ) الیقین کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية/ 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات/ 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة/ 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء/ 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور اگر آپ قیامت کے دن ان مشرکین کی حالت دیکھیں جب کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں گے۔ اور کہتے ہوں گے کہ ہمارے پروردگار بس جو چیز ہمیں معلوم نہ تھی وہ اب معلوم ہوگئی اور جس کا یقین نہیں کرتے تھے اب یقین ہوگیا۔ تو ہمیں پھر واپس بھیج دیجیے ہم وہاں جاکر آپ پر ایمان لائیں گے اور خوب نیک کام کیا کریں گے اب ہمیں آپ پر اور آپ کی کتاب اور رسول پر بعث بعد الموت پر پورا یقین آگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاکِسُوْا رُءُ وْسِہِمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ط) (رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا) اب ہم نے روزمحشر کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ اب حقیقت ہم پر منکشف ہوگئی ہے۔ (فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ) نوٹ کیجیے یہاں پر کفار کے حوالے سے ایمان کا نہیں بلکہ یقین کا ذکر ہوا ہے جو ایمان سے آگے کا درجہ ہے۔ ان کے دلوں میں یقین کی یہ کیفیت آنکھوں سے دیکھنے اور کانوں سے سننے کے بعد پیدا ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 This will be the scene when after returning to its Lord the human 'ego' will be standing before Him to render an account of its deeds.

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :22 اب اس حالت کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے جب اپنے رب کی طرف پلٹ کر یہ انسانی اَنا اپنا حساب دینے کے لئے اس کے حضور کھڑی ہو گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٢ تا ١٥۔ ان آیتوں میں یہ ارشاد ہے کہ اب تو منکرین حشر دوبارہ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے سے منکر ہیں لیکن جب مرتے ہی ان کو حشر کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اور اس نتیجہ کے ظہور کے لیے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے روبرو قیامت کے دن کھڑے ہوں گے تو ان کا اس وقت کا حال دیکھنے کے قابل ہوگا کہ وہ اپنے رب کے روبرو حقیرو ذلیل ہو کر کھڑے ہوں گے اور شرم کے مارے گردنوں کو نیچا کر کے زبان سے کہیں گے کہ اے پروردگار ہمارے ہم نے اور سنا اب ہم تیرے حکم کو مانتے ہیں دیکھا اور سنا کا مطلب یہ ہے کہ دوزخ کا عذاب آنکھوں سے دیکھ لیا اور رسولوں کے بیان کی صداقت یا اللہ خود تیری زبان سے بالمشافہ سن لی پھر کہیں گے بھیج دے دوبارہ اے پروردگار ہم کو دنیا میں ہم نیک عمل کریں گے کیونکہ اب ہم کو یقین ہوگیا تیرا وعدہ سچا اور برحق ہے لیکن خدا تعالیٰ کو معلوم ہے اگر ان کو پھر دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہ پہلے کی طرح پھر کفر کریں گے خدا کی آیتوں اور رسولوں کو جھٹلادیں گے جیسا کہ سورة انعام میں گزر چکا ہے ولو ترا اذ وقفوا علی النار فقالوا یالیتنا نردو ولانکذب بایات ربنا ونکون من المؤمنین بل بدا لھم ما کانوا یخفون من قبل ولوردوا لعادوا لمانھوعنہ وانھم لکاذبون جس کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول اللہ کے اگر تم دیکھوں ان لوگوں کو جبکہ وہ کھڑے کئے جاویں گے دوزخ پر تو کہیں گے (اے کاش) ہم بھیج دئے جاویں دنیا کی طرف تاکہ ہم ایمان لانے والوں میں سے ہوجاویں یہ بات وہ لوگ اس لیے کہیں گے کہ ان کو ظاہر ہوجاوے گا کہ دنیا جس سے روکے گئے ہیں کیونکہ دوزخ کو دیکھ کر یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں پھر فرمایا اگر ہم چاہتے تو ہر ایک شخص کو ہدایت دیتے جاوے گا اور جب انہیں دوزخ میں جھونکا جاوے گا تو تبنیہ کے طور پر اہل دوزخ سے کہا جاوے گا یہ چکھو عذاب بسبب اس کے کہ بھول گئے تم اس دن کو اور بعید جانتے تھے اس کو اس لیے ہم نے بھی بھلا دیا تم کے مطلب یہ کہ ہم بھی وہ معاملہ تمہارے ساتھ کریں گے جو بھلا دینے والے سے ہوتا ہے پھر فرمایا چکھو عذاب ہمیشہ کا بہ سبب اس کے کہ تھے تم دنیا میں برے گر پڑتے ہیں مطلب یہ کہ وہ قرآن کی آیتوں کو کان لگا کہ سنتے ہیں اور ہر ایک امر میں اس کی تابعداری کرتے ہیں وسجو ابحمد ربھم وھم لایستکبرون اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکی بیان کرتے ہیں اپنے پروردگار کی اس کی خوبیوں کے ساتھ اور تکبر اور بڑانی نہیں کرتے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں یہ لکھ لیا ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد کتنے جس دانسان جنت میں جانے کے قابل کام کریں گے اور کتنے دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل کام کریں گے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی وہ حدیث بھی گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی نصیحت کی مثال مینہ کے پانی کی اور اچھے برے جنات اور انسان علم الٰہی میں دوزخ کے قابل قرار پاچکے ہیں دنیا کی زندگی بھر قرآن کی نصیحت ان کے حق میں ایسی رائگاں ہے جیسے برڑ زمین میں مہنے کا پانی رائگاں جاتا ہے جس سے مرتے دم تک وہ راہ راست پر نہ آویں گے اور مجبور کر کے انہیں راہ راست پر لانا اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں ہے اس لیے دوبارہ زندہ ہونے اور دوزخ کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد وہ اپنی اس حالت پر پچتاویں گے اور دنیا میں دوبارہ آن کر راہ راست پر زندگی بسر کرنے کے تمنا ظاہر کریں گے لیکن یہ بےوقت کی تمنا ان کے کچھ کام نہ آوئے گی اسی طرح علم الٰہی میں جو لوگ نیک قرار پاچکے ہیں وہ قرآن کی نصیحت کے موافق عمل کر کے قیامت کے دن جنت میں داخل ہوں گے ‘ معتبر سند سے تفسیر ابن منذر میں حضرت علی (رض) ١ ؎ سے اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ٢ ؎ سے جو روایتیں ہیں (١ ؎ حضرت علی (رض) کا قول الدر المنثور ص ١٧١ ج (٥) میں بحوالہ ابن ابی شیبہ ہے) ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة میں وھم لا یستکبرون پر سجدہ کرنا تاکیدی ہے ‘ تلاوت کے سب سجدے جمہور کے نزدیک سنت ہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک واجب ہیں زیادہ تفصیل ہر ایک مذہب کی فقہ کی کتابوں میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:12) لو تری۔ یہاں لو بطور حرف تمنائی استعمال ہوا ہے۔ کاش تو دیکھے۔ المجرمون سے مراد وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیںء اذا ضللنا فی الارض ۔۔ الخ۔ ناکسوا رؤسھم : ناکسوا اسم فاعل جمع مذکر۔ نکسر (باب نصر) مصدر سے اصل میں نکسون تھا۔ اضافت کی وجہ سے نون گرگیا۔ مضاف۔ سروں کو جھکانے والے رؤسھم مضاف مضاف الیہ مل کر ناکسوا کا مضاف الیہ۔ اپنے سروں کو جھکانے والے۔ ناکش واحد۔ سر جھکانے والا۔ ربنا ۔۔ موقنون : ای یقولون ربنا ۔۔ الخ جملہ حالیہ ہے یعنی جب مجرمین اپنے رب کے حضور سر جھکائے ہوئے ہوں گے اور حال ان کا یہ ہوگا کہ وہ کہہ رہے ہوں گے ربنا ۔۔ موقنون۔ ابصرنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ابصار (افعال) مصدر سے۔ ہم نے دیکھ لیا (اپنی آنکھوں سے) وسمعنا اور ہم نے سن لیا (اپنے کانوں سے) ۔ یعنی اب اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور اپنے کانوں سے سن کر ہم جان گئے ہیں کہ تیرے سارے وعدے اور وعیدیں۔ تیرے رسل اور ان کے ارشادات سب سچے تھے اور ہم ہی دنیا میں اندھے اور بہرے تھے کہ حقیقت کو نہ پاسکے۔ فارجعنا : ای فارجعنا الی الدنا۔ لعمل۔ مضارع مجزوم جمع متکلم مجزوم بوجہ جواب امر۔ فارجعلنا نعمل صالحا۔ پس تو (ایک بار) ہمیں واپس (دنیا میں) بھیج دے۔ ہم (ضرور) نیک عمل کریں گے۔ انا موقنون ۔ اسم فاعل جمع مذکر موقن واحد۔ ایقان (افعال) مصدر یقین کرنے والے۔ یعنی اب ہم کو یقین آگیا ہے۔ (کیونکہ ہم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور اپنے کانوں سے سن لیا ہے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 مگر اس سوقت یقین ہوجانے کا کیا فائدہ ؟ جو وقت یقین کے فائدہ دینے کا تھا ( یعنی دنیا میں) وہ تو انہوں نے گنوا دیا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 12 تا 22 اسرارومعارف اور اے مخاطب مجرموں کو اللہ کی پیشی میں دیکھے یعنی ضرور دیکھے گا کہ ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے اور یہ فریاد کر رہے ہوں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے حقیقت حال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور سب کچھ سن بھی لیا اب مہربانی فرما کر ہمیں پھر سے دنیا میں واپس کر دے کہ اب جاکر ہم نیک اعمال کرسکیں۔ اب ہمیں ان تمام باتوں پر اعتبار آگیا ہے اگر اللہ چاہتے تو سب انسانوں کو ہی راہ راست دکھا دیتے اور سب درست راستے پر چلتے مگر اللہ نے اس کا انتخاب انسان پر چھوڑ دیا اور اللہ کی بات سچی ہوگئی کہ جنوں اور انسانوں میں ان کی اپنی پسند سے اس قدر لوگ بےراہ ہوں گے کہ اللہ ان سے جہنم کو بھر دیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ تم اس دن کو اور حساب کتاب کو بھولے ہوئے تھے اس کے منکر تھے اب اس کا مزہ چکھو آج ہم بھی تمہارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو بھولی بسری چیزوں سے کیا جاتا ہے کہ ان کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی نہ کبھی خبر گیری کی جاتی ہے لہذا اپنے کفریہ اعمال کے باعث اب ہمیشہ ہمیشہ اسی جہنم میں رہو۔ بیشک اللہ کی باتوں پے یقین اور ایمان کی دولت تو ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کے دلوں میں اللہ کی عظمت پیدا ہوجائے کہ ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے یا اللہ کی اطاعت کو دعوت دی جائے تو سجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اس کی تعریف اور حمد و ثنا کرتے ہیں اور ان میں ہرگز کوئی تکبر نہیں ہوتا بلکہ ان کے پہلو اپنے بستر سے جدا رہتے ہیں یعنی راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ تہجد : رات کو سو کر اٹھے اور نوافل ادا کرے تو اس کو تہجد کہا جاتا ہے اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ اٹھ نہ سکے گا اور تہجد پڑھ کر سوئے تو بھی درست ہے مگر افضل صورت یہ ہے کہ سو کو اٹھے اور ادا کرے اس کے بیشمار فضائل تمام کتب میں دیے گئے ہیں اور جو لوگ عشاء باجماعت ادا کر کے فجر باجماعت ادا کرنے کے لیے اٹھ جاتے ہیں وہ بھی اس نوید میں شامل ہیں اور یوں راتوں کو اٹھ اٹھ کو اللہ کی بخشش و عطا کی امید اور اپنی خطاؤں سے ڈرتے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ نیز جو نعمتیں اللہ نے بخشی ہیں انہیں اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔ تو ان طاعات کا کس قدر اور کتنا اعلی بدلہ دیا جائے گا کہ اس سے آنکھیں ٹھنڈی ہوں یہ کوئی نہیں جانتا یعنی عقل کی رسائی اور انسانی علوم سے بالاتر ہے۔ مومن و فاسق : تو اب جب دونوں فریقوں کا انجام واضح ہوگیا تو اے مخاطب سمجھ لے کہ مومن اور نافرمان کبھی ایک جیسے نہیں ہوسکتے یہاں ایمان کو فسق اور نافرمانی کے مقابل لایا گیا ہے جس سے مقصود ہے کہ مومن کبھی نافرمان نہیں ہوتا خطا ہوجانا اور بات ہے مگر توبہ کرتا ہے مسلسل برائی پہ نہیں جم رہتا بلکہ جو لوگ ایمان لائے عقیدہ درست کیا اور اعمال کی اصلاح کرلی نیک کام کیے ان کے لیے تو مہمانی ہوگی اور جنت میں ان کا قیام ہوگا کہ یہی ان کے اعمال کا صلہ ہے اور جن لوگوں نے دنیا میں نافرمانی کا راستہ اپنایا ان کا گھر جہنم میں ہوگا جہاں سے اگر نکلنا بھی چاہیں گے تو واپس دھکیل دیے جائیں گے اور انہیں کہا جائے گا کہ جس جہنم اور اس کی آگ کا انکار کرتے تھے اب اسی کا مزہ چکھو۔ دنیا میں مصیبت آئے اور بندہ توبہ کرلے تو وہ بھی انعام ہی کہلائے گی : اس عظیم عذاب سے قبل دنیا میں بھی انہیں چھوٹے موٹے عذاب دیے جاتے ہیں کہ وہ توبہ کرلیں گویا دنیا کی مصیبت میں بھی انہیں چھوٹے موٹے عذاب دیے جاتے ہیں کہ وہ توبہ کرلیں گویا دنیا کی مصیبت میں بھی اگر توبہ اور اصلاح نصیب ہوجائے تو وہ مصیبت بھی راحت اور رحمت ہے ورنہ عذاب الہی ہے اور اس سے بڑھ کر جرم کیا ہوگا کہ کسی کو اللہ کے احکام قبول کرنے کی نصیھت کی جائے اور وہ اس سے لاپرواہی کرے تو ہم ایسے مجرموں سے ضرور انتقام لیں گے گویا مجرم دنیا میں بھی کسی نہ کسی صورت عذاب پاتے ہیں اور آخرت میں تو یقینا پائیں گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (12 تا 17) ۔ ناکسوا (جھکانے والے) ۔ موقنون (یقین کرنے والے) ۔ حق القول (سچی بات ثابت ہونا) ۔ املٔن (میں ضرور بھردوں گا) ۔ ذوقوا (تم چکھو) ۔ نسیتم (تم نے بھلادیا) ۔ خروا (وہ گر پڑے) ۔ تتجافی (الگ رہتی ہے) ۔ جنوب (جنب) (پہلو) ۔ المضاجع (آرام کی جگہ) ۔ اخفی (چھپا دیا گیا) ۔ قرۃ (ٹھنڈک) ۔ اعین (عین) (آنکھیں) ۔ تشریح : آیت نمبر (12 تا 17) ۔ ” اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ چیزوں میں اختیار دیا ہے اور کچھ چیزوں میں مجبور بنایا ہے۔ قیامت کے دن فیصلہ اس کے اختیار کئے ہوئے راستے اور اعمال پر ہوگا۔ اگر کسی نے ہدایت آنے کے باوجود غلط اور گمراہی کا راستہ اختیار کیا تو قیامت کے دن جب وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا وہ شرمندگی کے مارے اپنا سر نہ اٹھا سکے گا اور یہی کہے گا کہ الہی اب تو میں نے سب کچھ اپنی آنکھ سے دیکھ لیا اور سب کچھ سن بھی لیا۔ مجھے پورا یقین حاصل ہوگیا ہے بس مجھے ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانے کا موقع دے دیجئے میں وہاں جا کر ایمان اور عمل صالح اختیار کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اگر ہم چاہتے تو سب کو سیدھے راستے پر قائم کردیتے یعنی اس کو کسی طرح کا اختیارنہ دیتے لیکن جب دنیا میں اس نے اپنے اختیار کا غلط انداز قائم کیا تو اب فیصلے کا دن ہے اور پیغمبروں کے ذریعہ جس بات کو پہنچایا گیا تھا اب وہ بات سچی ہو کر رہے گی اور میں نافرمانوں، گناہ گاروں اور کفر وشرک اختیار کرنے والوں سے جہنم کو بھردوں گا۔ ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ جس طرح تم نے قیامت کے دن اللہ سے ملاقات کو بھلا دیا تھا آج ہم تمہیں بھلا دیتے ہیں۔ اب جہنم کے عذاب کا مزہ چکھو ۔ یہ عذاب تمہارے کئے ہوئے غلط کاموں کے بدلے میں دائمی عذاب کی شکل میں دیا جا رہا ہے۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ (1) جو اللہ کی آیتوں پر کامل یقین رکھنے والے تھے (2) جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی تھیں تو وہ سجدوں میں گر کر اپنے پروردگار کی حمد وثناء کرتے تھے (3) کسی طرح کا تکبر اور غرور نہ کرتے تھے (4) جو راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر اللہ کی عبادتوں میں مشغول رہتے تھے (5) جو خوف اور اس کی رحمت کی امید پر اپنے رب کو پکارتے تھے (6) اور اللہ نے ان کو جو کچھ عطا فرمایا تھا اس میں کنجوسی کے بجائے اسے اللہ کے بندوں پر خرچ کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کے بدلے ایسی جنتیں عطا کی جائیں گی جن کا اس دنیا میں تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کو یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اللہ نے کہاں چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ ایسے اہل ایمان کا ہو عمل اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو جنت کی ابدی اور دائمی راحتیں عطا فرمائیں گے جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کے سکون کا ذریعہ ہوں گی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کے متعلق ارشاد فرمایا ہے کہ جنت وہ ہے جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ اس کا تصور کسی کے دل پر گذرا ہے۔ یعنی وہ جنتیں کیا ہوں گی اس دنیا میں رہ کر ان کو تصور ، خیال اور فکر ممکن ہی نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اور معلوم ہوگیا کہ پیغمبروں نے جو کچھ کہا سب حق تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ مر کر جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن ان کی حالت دیدنی ہوگی۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منکرین قیامت اس بات پر جھگڑا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد کسی نے زندہ نہیں ہونا حالانکہ قرآن مجید نے مرنے کے بعد جی اٹھنے کے درجنوں دلائل دئیے ہیں جن میں ثبوت کے طور پر عزیر (علیہ السلام) اور ان کے گدھے کا زندہ کیا جانا، ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے چار پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا، اصحاب کہف کا (٣٠٩) تین سو نوسال بعد جی اٹھنا، موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے مقتول کا زندہ ہونا بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا۔ (البقرہ آیت ٢٥٩) عیسیٰ ( علیہ السلام) کا مردوں کو زندہ کرنا۔ (المائدہ : ١١٠) اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ پیدا فرما کر اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا جب منکرین قیامت اس کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو وہ ذلّت اور خوف کی وجہ سے اپنے رب کے سامنے گردنیں جھکائے ہوئے فریاد پر فریاد کریں گے۔ اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھ لی اور سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا ہے اب ہمیں واپس جانے دیجیے تاکہ ہم نیک عمل کریں کیونکہ اب ہمیں یقین ہوچکا ہے کہ قیامت برحق ہے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن ذلّت اور خوف کی وجہ سے مجرم سرجھکائے ہوئے ہوں گے۔ ٢۔ مجرم دنیا میں واپس لوٹنے کی فریاد کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرمین کی فریادیں : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٢۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧۔ المومنون : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولو تری اذ المجرمون ۔۔۔۔۔۔ بما کنتم تعلمون (12 – 14) یہ ایک ایسا منظر ہے جس میں منکرین قیامت نہایت ہی شرمندگی کے ساتھ اعتراف کر رہے ہیں۔ اب وہ اس سچائی کو مان رہے ہیں جس کا وہ انکار کرتے تھے۔ وہ یہ درخواست کریں گے کہ ہمیں ایک بار پھر زمین پر لوٹا دیا جائے اور وہ اب کی بار اس کمی کو پورا کردیں گے جو پہلی بار ہوگئی۔ یہاں شرمندگی کی وجہ سے وہ سرنگوں کھڑے ہوں گے۔ اب یہ لوگ اپنے اس رب کے پاس (عند ربھم) ہوں گے جس کے پاس حاضر ہونے کا وہ انکار کرتے تھے۔ لیکن ان کی یہ سب باتیں بعد از وقت ہوں گی اور اب اعتراف اور اعلان ان کو کوئی فائدہ نہ دے گا۔ قبل اس کے کہ ان کی اس شرمندگی پر کوئی تبصرہ کیا جائے ، یہ بتا دیا جاتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں فیصلہ کن قوت کون سی ہے اور وہ کون سی قوت ہے جو لوگوں کے آخری انجام کا فیصلہ کرنے والی ہے۔ ولو شئنا لاتینا ۔۔۔۔۔ والناس اجمعین (32: 13) ” اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا “۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی راہ پر ڈال دیتا۔ اور یہ تھا طریقہ ہدایت ، جس طرح اس مخلوقات کا طریقہ ایک ہے جو الہام فطرت کے مطابق زندگی بسر کرتی ہے اور وہ پوری زندگی ایک ہی طرح سے گزارتی ہے جیسے حشرات الارض پرندے اور زمین پر چلنے والے جانور یا وہ مخلوق جو اطاعت شعار ہے مثلاً فرشتے ، لیکن اللہ کی مشیت کا تقاضا یوں ہوا کہ انسانوں کا ایک خاص مزاج اور ماہیت ہو۔ اس کے اختیار میں ہو کہ وہ ہدایت اختیار کرے یا ضلالت اختیار کرے اور وہ اپنی اس مخصوص طبیعت کے ساتھ اس جہاں میں ایک مخصوص کردار ادا کرے جس کے لئے اللہ نے اسے اس کرہ ارض پر بھیجا ہے اور ایک منصوبے کے مطابق بھیجا ہے۔ چناچہ اس منصوبے کے تقاضے کے طور پر اللہ نے لکھ دیا کہ جنوں اور انسانوں سے وہ جہنم کو بھر دے گا ان لوگوں سے جو جنوں اور انسانوں میں سے ضلالت کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ جس راہ کا انجام جہنم ہے۔ یہ لوگ جو اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش کیے گئے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اختیار اور خوشی سے جہنم کی راہ اختیار کی۔ اب وہ اللہ کے سامنے سرجھکائے شرمندہ کھڑے ہیں۔ چناچہ کہا جاتا ہے : فذوقوا بما نسیتم لقآء یومکم ھذا (32: 14) ” اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا “۔ یہ ہے تمہارا دن جو حاضر کیونکہ اس منظر میں ہم اسے حاضر دیکھ رہے ہیں۔ تم نے چونکہ اس دن کو بھلا دیا تھا۔ اب اس کا مزہ چکھو۔ تمہارے پاس کافی وقت تھا مگر تم نے اس کے لئے تیاری نہ کی۔ ان نسینکم (32: 14) ” ہم نے بھی تمہیں بھلا دیا ہے “۔ اللہ تو کسی کو نہیں بھلاتا۔ لیکن ان کے ساتھ معاملہ اس طرح کرتا ہے کہ گویا وہ نسیا منسیا کر دئیے گئے ہیں۔ یہ ایسا سلوک ہے جس میں انہیں توہین آمیز انداز میں نظر انداز کردیا گیا ہے۔ وذوقوا عذاب الخلد بما کنتم تعملون (32: 14) ” چکھو ، اب ہمیشگی کے عذاب کا مزہ اپنے کرتوتوں کی پاداش میں “۔ اب اس منظر پر پردہ گر جاتا ہے۔ فیصلہ کن بات کردی جاتی ہے اور مجرموں کو ان کے برے انجام میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ منظر قرآن کے پڑھنے والے کے پردہ فکر پر یوں نقش ہوتا ہے کہ گویا اب یہ لوگ وہاں اسی حال میں چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ تو وہ وہاں ہی کھڑے ہیں جہاں چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ یہ ہے قرآن کی اندر کی تصویر کشی۔ اب اس مشاہدہ و منظر پر پردہ گرتا ہے اور ایک دوسرا منظر سامنے آتا ہے ، اس دوسرے منظر کا ماحول اور فضا مختلف ہے۔ یہ ایک دوسری ہی عطر آمیز اور فرحت بخش فضا ہے جس میں دل اڑا جا رہا ہے ، یہ مومنین کا منظر ہے۔ وہ لوگ جو اللہ سے ڈرتے ہیں ، نہایت یکسوئی سے اس کی عبادت کرتے ہیں ، وہ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل کے اندر خدا کا خوف بیٹھا ہے۔ ان کے دل کانپ رہے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے فضل و کرم کی امیدیں لیے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کے لئے رب ذوالجلال نے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن مجرمین کی بدحالی اور دنیا میں واپس ہونے کی درخواست کرنا یہ تین آیات کا ترجمہ کیا گیا ہے، پہلی آیت میں مجرمین کی ایک حالت بتائی ہے کہ یہ لوگ دنیا میں وقوع قیامت کا انکار کرتے تھے اور یوں کہتے تھے : (وَقَالُوْٓاءَ اِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَ اِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ) جب یہ لوگ قیامت کے دن حاضر ہوں گے اور بارگاہ الٰہی میں پیشی ہوگی تو رسوائی اور ذلت کے مارے ہوئے سر جھکائے ہوں گے اور یوں کہیں گے کہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا جس بات کے منکر تھے وہ سمجھ میں آگئی لہٰذا ہمیں دنیا میں واپس بھیج دیجیے اب واپس ہو کر اچھے عمل کریں گے، ہمیں پوری طرح ان باتوں کا یقین آگیا جو حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے نائبین سناتے اور سمجھاتے تھے۔ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو ہر نفس کو ہدایت دے دیتے لیکن میری طرف سے یہ بات محقق ہوچکی ہے کہ دوزخ کو جنات سے اور انسانوں سے بھر دینا ہے، دونوں گروہ کے افراد کثیر تعداد میں دوزخ میں جائیں گے جنہوں نے دنیا میں کفر اختیار کیا یہ لوگ وہاں اکٹھے ہوں گے، یہ بات ازل سے طے شدہ ہے اور کافروں کے لیے مقدر ہے۔ جب ابلیس نے (لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ) کہا تھا اس وقت اللہ جل شانہٗ نے فرما دیا تھا (لَاَمْلَءَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ ) (کہ اے ابلیس میں تجھ سے اور جو تیرا اتباع کرے گا ان سب سے دوزخ کو بھر دوں گا۔ ) ہدایت یعنی اراء ۃ الطریق تو سب ہی کے لیے ہے لیکن ہدایت بمعنی ایصال الی المطلوب سب کے لیے نہیں ہے، دوزخ کو بھی بھرنا ہے اور جنت کو بھی، اور جو شخص دوزخ میں جائے گا وہ اپنے اختیار کو غلط استعمال کرنے کی وجہ سے جائے گا۔ اسے دنیا میں ایمان اور کفر کے دونوں راستے دکھا دئیے گئے، اسے اختیار دے دینے کی وجہ سے کسی کو ایمان یا کفر پر مجبور نہیں کیا گیا، جیسا کہ سورة کہف میں فرمایا (وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ ) (اور آپ فرما دیجیے کہ تمہاری طرف حق آچکا ہے سو تم میں سے جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے) بہرحال اللہ تعالیٰ نے اختیار بھی دیا ہے اور قضاء اور قدر کا فیصلہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ کافر ہوں گے اور بہت سے لوگ مومن ہوں گے اور کافر دوزخ میں جائیں گے اور اہل ایمان جنت میں۔ جو امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ ہے اس کا وجود میں آنا ضروری ہے۔ کفار جو وہاں کہیں گے کہ ہمیں واپس کردیا جائے ہم نیک بنیں گے، ان کا یہ وعدہ غلط ہوگا، سورة انعام میں فرمایا (لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَانُھُوْا عَنْہُ وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) (اور اگر واپس کردئیے جائیں تو پھر لازم طور پر وہی کام کریں گے جن سے منع کیا گیا ہے اور بلاشبہ وہ جھوٹے ہیں) اور سورة فاطر میں ہے کہ ان کے واپس لوٹا دئیے جانے کی درخواست کے جواب میں یوں ارشاد ہوگا : (اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآءَ کُمُ النَّذِیْرُ ) (کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرلیتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا۔ ) تیسری آیت میں فرمایا کہ مجرمین کی واپسی کی درخواست کے جواب میں ان سے کہا جائے کہ تم آج کے دن کی ملاقات کو جو بھول گئے تھے (اور اسی بھولنے کی وجہ سے نافرمانی پر تلے ہوئے تھے) اس بھولنے کی وجہ سے عذاب چکھ لو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ولو تری الخ یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن یہ مجرمین یعنی منکرین بعث ندامت اور شرمساری کی وجہ سے سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ بارے خدایا ! آج ہم نے قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اب ہم تیرے پیغمبروں کی باتیں دل وجان سے سنیں گے ہمیں ایک بار دنیا میں واپس بھیجدے ہم نیک عمل کریں گے آج ہمیں حشر و نشر اور حسان کتاب کا پورا پورا یقین ہوگیا ہے۔ ابصرنا البعث و ما وعدتنا بہ و سمعنا قول الرسل ای سمعناہ سمع طاعۃ (روح ج 21 ص 127) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

12۔ اور اے پیغمبر اگر آپ ان گناہ گاروں کو اس وقت دیکھیں اور ملاحظہ فرمائیں تو عجب حال دیکھیں جس وقت یہ اپنے پروردگار کی پیشی میں سر جھکائے ہوئے کہتے ہوں گے ، اے ہمارے پروردگار ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن لیا اور ہمارے کان اور ہماری آنکھیں کھل گئیں سب آپ ہم کو پھر لوٹا دیجئے اور ہم کو دنیا میں واپس بھیج دیئے آئندہ ہم نیک اور شائستہ عمل کیا کریں گے اب ہم پورا یقین کرنیوالے ہیں اور ہم کو پوری طرح یقین آگیا ۔ یعنی جب ان کی واپسی ہوگی اور پروردگار کے سامنے حاضری ہوگی تو اس وقت کی حالت کو آگ ان کی دیکھیں تو عجیب ہولناک منظر دیکھیں کہ یہ منکرین بعث سب سر جھکائے ہوئے کہہ رہے ہوں گے اب ہم نے خوب دیکھ لیا اور سن اے پروردگار اب تو ہم کو واپس بھیج دے تو ہم آئندہ خوب نیک اعمال کریں گے ہم کو تو اب پوری طرح یقین ہوگیا ۔