Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 21

سورة السجدة

وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۱﴾

And we will surely let them taste the nearer punishment short of the greater punishment that perhaps they will repent.

بالیقین ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تاکہ وہ لوٹ آئیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الاَْدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الاَْكْبَرِ ... And verily, We will make them taste of the near lighter torment prior to the greater torment, Ibn Abbas said, "The near torment means diseases and problems in this world, and the things that happen to its people as a test from Allah to His servants so that they will repent to Him." Something similar was also narrated from Ubayy bin Ka`b, Abu Al-Aliyah, Al-Hasan, Ibrahim An-Nakha`i, Ad-Dahhak, Alqamah, Atiyah, Mujahid, Qatadah, Abd Al-Karim Al-Jazari and Khusayf. ... لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ in order that they may return.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21ا۔1عذاب ادنی (چھوٹے سے یا قریب کے بعض عذاب) سے دنیا کا عذاب یا دنیا کی مصیبتیں اور بیماریاں وغیرہ مراد ہیں۔ بعض کے نزدیک وہ قتل اس سے مراد ہے، جس سے جنگ بدر میں کافر دوچار ہوئے یا وہ قحط سالی ہے جو اہل مکہ پر مسلط کی گئی تھی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں۔ تمام صورتیں ہی اس میں شامل ہوسکتی ہیں۔ 21ا۔2یہ آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب بھیجنے کی علت ہے کہ شاید وہ کفر و شرک اور معصیت سے باز آجائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَنُذِيْـقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى ۔۔ : یعنی ہم اس بڑے عذاب سے پہلے، جس کا ابھی ذکر ہوا انھیں ایک ادنیٰ عذاب ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ باز آجائیں۔ مراد آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا کا عذاب ہے، جیسا کہ طبری نے معتبر سند کے ساتھ عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے : ” اس سے مراد دنیا کی مصیبتیں، بیماریاں اور آزمائشیں ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ بندوں کو مبتلا کرتا ہے، تاکہ وہ توبہ کرلیں۔ “ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ يَذَّكَّرُوْنَ ) [ التوبۃ : ١٢٦ ] ” اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ بیشک وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ “ اور فرمایا : (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) [ الروم : ٤١ ]” خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا کچھ مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے، تاکہ وہ باز آجائیں۔ “ کفار مکہ کے لیے اس سے مراد وہ قتل بھی ہے جس سے وہ جنگ بدر میں دو چار ہوئے اور وہ قحط سالی بھی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے ان پر مسلط ہوئی۔ بعض مفسرین نے ” العذاب الادنی “ سے مراد عذاب قبر لیا ہے، مگر آیت کے آخری الفاظ ” لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ “ (تاکہ وہ پلٹ آئیں) سے ظاہ رہے کہ یہ تفسیر درست نہیں، کیونکہ عذاب قبر کے بعد توبہ اور واپس پلٹنے کا کوئی موقع نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 21: وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ‌ لَعَلَّهُمْ يَرْ‌جِعُونَ (And We will certainly make them taste the nearer punishment before the greater punishment, so that they may return), the word: أَدْنَىٰ (adna) has been used in the sense of &nearer& and الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ (al adhab-ul-adna) denotes diseases, sufferings and calamities of the world that are made to befall a lot of people by Allah Ta&ala in order to warn them against their sins. The purpose is to chasten and alert them enough so that they leave off their sins and thus earn their deliverance from the Great Punishment of the Hereafter. Hence, this verse seems to tell us that all these sufferings, accidents, diseases and pains that inflict sinners in the world are nothing but a sort of mercy for them in as much as they help them get out of their heedlessness and save themselves from the punishment of the &Akhirah. However, for people who take no lesson even from such unwelcome happenings and fail to turn to Allah, for them, this punishment becomes twofold - first, the cash punishment right here in this world and then, the other being the Great Punishment of the Hereafter. As for the hardships of many kinds that come upon prophets and men of Allah, that is a separate matter. These hardships are a trial for them and trials are the source through which their ranks are raised. At is the hallmark of this trial? How do you recognize the quality of their response? If one were to observe such people even under the stress of calamities and hardships, it will be noticed that they have a kind of peace and tranquility emanating from their trust in Allah Ta’ ala. And it is Allah who knows best.

(آیت) ولنذ یقنہم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر، لعلہم یرجون، ادنیٰ بمعنی اقرب ہے، اور عذاب ادنیٰ سے مراد دنیا کے مصائب و آفات اور امراض وغیرہ ہیں، اور عذاب اکبر سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ دنیا کے مصائب ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کریں : مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ان کے گناہوں پر متنبہ کرنے کے لئے دنیا میں ان پر امراض اور مصائب و آفات مسلط کردیتے ہیں، تاکہ یہ متنبہ ہو کر اپنے گناہوں سے باز آجائیں اور آخرت کے عذاب اکبر سے نجات پائیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ گنہگاروں کے لئے دنیا کے مصائب و آفات اور امراض و تکالیف بھی ایک قسم کی رحمت ہی ہیں کہ غفلت سے باز آ کر عذاب آخرت سے بچ جائیں۔ البتہ جو لوگ آفات پر بھی اللہ کی طرف رجوع نہ ہوں ان کے لئے یہ دوہرا عذاب ہوجاتا ہے، ایک اسی دنیا میں نقد اور دوسرا آخرت کا عذاب اکبر۔ اور انبیاء و اولیاء اللہ پر جو آفات و مصائب آتے ہیں ان کا معاملہ ان سب سے الگ ہے، وہ ان کے امتحان اور امتحان کے ذریعہ رفع درجات کے لئے ہوتے ہیں، اور پہچان اس کی یہ ہے کہ ان لوگوں کو امراض و آفات کے وقت بھی ایک قسم کا قلبی سکون و اطمینان اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَنُذِيْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝ ٢١ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] ، دنا اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم ان کفار مکہ کو دنیا کا عذاب بھی یعنی قحط بھوک خشکی قتل وغیرہ یا یہ کہ عذاب قبر بھی دوزخ کے عذاب سے پہلے چکھا دیں گے اور ان کو اس لیے ڈرایا جاتا ہے تاکہ یہ کفر سے باز آئیں اور توبہ کریں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ) اس آیت کی سورة الروم کی آیت ٤١ کے ساتھ خاص مناسبت ہے : (ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ) بحر و بر میں فساد رونما ہوچکا ہے لوگوں کے اعمال کے سبب ‘ تاکہ اللہ انہیں مزہ چکھائے ان کے بعض اعمال کا ‘ تاکہ وہ لوٹ آئیں۔ دونوں آیات کے مضمون کا تعلق دراصل اللہ تعالیٰ کے اس انتہائی اہم قانون سے ہے جس کے تحت دنیا میں لوگوں کے کرتوتوں کے سبب ان پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد انہیں خبردار کرنا ہوتا ہے کہ شاید اس طرح وہ خواب غفلت سے جاگ کر توبہ کی روش اپنا لیں اور بڑے عذاب سے بچ جائیں۔ اس قانونِ الٰہی کا ذکر قرآن میں بہت تکرار کے ساتھ آیا ہے۔ مثلاً سورة الانعام میں اس سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا : (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلآی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰہُمْ بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ ) اور ہم نے بھیجا (دوسری) امتوں کی طرف بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل (رسولوں کو) ‘ پھر ہم نے پکڑا انہیں سختیوں اور تکلیفوں سے ‘ شاید کہ وہ عاجزی کریں۔ اسی طرح سورة الاعراف میں اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ اس قانون کی یوں وضاحت کی گئی : (وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ الآَّ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ ) اور ہم نے نہیں بھیجا کسی بھی بستی میں کسی بھی نبی کو مگر یہ کہ ہم نے پکڑا اس کے بسنے والوں کو سختیوں سے اور تکلیفوں سے تاکہ وہ گڑ گڑائیں ( اور ان میں عاجزی پیدا ہوجائے ) ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 "The greater torment" is the torment of the Hereafter, which will be imposed on the guilty ones in consequence of disbelief and disobedience. "The lesser torment", in contrast, implies those calamities which afflict man even in this world, e.g., diseases in the life of individuals, deaths of the near and dear ones, serious accidents, losses, failures, etc. and storms, earthquakes, floods, epidemics, famines, riots, wars and many other disasters, in collective life, which affect hundreds of thousands of the people simultaneously. The reason given for sending these calamities is that the people should take heed even before they are involved in the "greater torment" and give up the attitude and way of life in consequence of which they will have to suffer the greater torment ultimately. In other words, it means this: Allah has not kept man in perfect security in the world so that he may live in full peace, and become involved in the misunderstanding that there is no power above him, which can cause him harm. But Allah has so arranged things that He sends disasters and calamities on individuals as well as en nations acrd t countries from time to time, which give man the feeling that he is helpless and that there is about him an All-Powerful Sovereign Who is ruling His universal Kingdom. These calamities remind each individual and group and nation that there is another Power above him Who is controlling their destinies. Everything has not been placed at man's disposal. The real Power is in the hand of the Sovereign. When a calamity from Him descends on man, you can neither evert it by any artifice, nor can escape from it by invoking a jinn, or a spirit, or a god or goddess, or a prophet or saint. Considered in this light, these calamities are not mere calamities but warnings of God, which are sent to make man conscious of the reality and to remove his misunderstandings. If man learns a lesson from these and corrects his belief and conduct here in the world, he will not have to face the greater torment of God in the Hereafter."

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :33 عذاب اکبر سے مراد آخرت کا عذاب ہے جو کفر و فسق کی پاداش میں دیا جائے گا ۔ اس کے مقابلہ میں عذاب ادنیٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد وہ تکلیفیں ہیں جو اسی دنیا میں انسان کو پہنچتی ہیں ۔ مثلاً افراد کی زندگی میں سخت بیماریاں ، اپنے عزیز ترین لوگوں کی موت ، المناک حادثے ، نقصانات ، ناکامیاں وغیرہ ۔ اور اجتماعی زندگی میں طوفان ، زلزلے ، سیلاب ، وبائیں ، قحط ، فسادات ، لڑائیاں اور دوسری بہت سی بلائیں جو ہزاروں ، لاکھوں ، کروڑوں انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں ۔ ان آفات کے نازل کرنے کی مصلحت یہ بیان کی گئی ہے کہ عذاب اکبر میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیں اور اس طرز فکر و عمل کو چھوڑ دیں جس کی پاداش میں آخر کار انہیں وہ بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا ۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل بخیریت ہی نہیں رکھا ہے کہ پورے آرام و سکون سے زندگی کی گاڑی چلتی رہے اور آدمی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ اس سے بالا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد پر بھی اور قوموں اور ملکوں پر بھی ایسی آفات بھیجتا رہتا ہے جو اسے اپنی بے بسی کا اور اپنے سے بالا تر ایک ہمہ گیر سلطنت کی فرمانروائی کا احساس دلاتی ہیں ۔ یہ آفات ایک ایک شخص کو ، ایک ایک گروہ کو اور ایک ایک قوم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ اوپر تمہاری قسمتوں کو کوئی اور کنٹرول کر رہا ہے ۔ سب کچھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دے دیا گیا ہے ۔ اصل طاقت اسی کارفرما اقتدار کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی طرف سے جب کوئی آفت تمہارے اوپر آئے تو نہ تمہاری کوئی تدبیر اسے دفع کر سکتی ہے ، اور نہ کسی جن ، یا روح ، یا دیوی اور دیوتا ، یا نبی اور ولی سے مدد مانگ کر تم اس کو روک سکتے ہو ۔ اس لحاظ سے یہ آفات محض آفات نہیں ہیں بلکہ خدا کی تنبیہات ہیں جو انسان کو حقیقت سے آگاہ کرنے اور اس کی غلط فہمیاں رفع کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں ۔ ان سے سبق لے کر دنیا ہی میں آدمی اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک کر لے تو آخرت میں خدا کا بڑا عذاب دیکھنے کی نوبت ہی کیوں آئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اسی دنیا میں انسان کو چھوٹی چھوٹی مصیبتیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرکے اپنے گناہوں سے باز آجائے، سبق یہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے، اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢١‘ ٢٢ تفسیر سدی تفسیر عطاء بن یسار اور تاریخ ابن عسا کر وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے جو شان نزول ان ہوگئی ولید نے حضرت علی (رض) سے کہا تم میرے آگے کے بچے ہو میں تم کو کیا سمجھتا ہوں حضرت علی (رض) نے ولید کو جواب دیا تو خدا کا منکر کافر ہے میں تجھ کو کیا سمجھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیتیں نازل فرما کر فرمایا کہ اللہ کے نزدیک کافر اور ایماندار لوگ برابر نہیں ہوسکتے ایمانداروں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ وہ نعمتیں رکھی ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا کہ نہ کی آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سنی اسی ذکر میں اب یہ فرمایا کافروں کے لیے دنیا میں بھی دیکھ بیماری تنگی قحط سالی یہ طرح طرح کے عذاب ہیں تاکہ وہ پنے کفر سے باز آویں اس پر نہ ان کو موت ہے نہ کہیں بھاگنے کا موقع ہے کس لیے کہ ان ظالموں کو اب اللہ کے کلام سے اللہ کے رسول نصیحت کی باتیں سناتے ہیں تو یہ لوگ مکڑائیاں کرتے ہیں مرنے کے بعد ان کی مکڑا ئیوں کا بدلہ ان کو اچھی طرح مل جاوے گا۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن مسعود (رض) کی حدیث ایک جگہ گر چکی ہے کہ جب مشرکین مکہ نے قرآن کی نصیحت کے سننے سے بہت مکڑائی کی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نے ان پر قحط کی بلا نازل ہونے کی بددعا کی اور آپ کی بدعاء سے مکہ ایسا قحط پڑا کہ مکہ کے لوگ مردہ جانوروں کی ہڈیاں تک کھاگئے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث بھی گزر چکی ہے کہ بد کی لڑائی میں جب کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تم لوگوں نے سچاپا لیا قرآن شریف کی نصیحت کے سننے سے مکڑائی کرنے والوں سے دنیا اور عقبیٰ کے عذاب کا وعدہ جو ان آیتوں میں تھا اس وعدہ کے ظہور کی یہ حدیثیں گویا تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:21) لنذیقنھم مضارع بلام تاکید و نون ثقیلہ تاکید۔ صیغہ جمع متکلم ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ۔ ہم ان کو ضرور چکھائیں گے۔ من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر اس میں من تبعیضیہ ہے اور دون معنی پہلے۔ العذاب الادنی سے مراد اس دنیا کا عذاب۔ از قسم قحط۔ قتل۔ قید ، شکست ، وبا وغیرہ۔ عذاب الاودنی کی تفسیر عذاب اصغر یا ہلکے عذاب سے بھی کی گئی ہے وقیل الاقل (روح) اور ظاہر ہے کہ دنیا کا عذاب ہر صورت میں عذاب آخرت سے ہلکا ہی ہے ذکر یہاں مختلف عذابوں کا ہے ایک عذاب الاودنی دوسرا عذاب الاکبر۔ لیکن تقابل کے لئے ہم وزن الفاظ یا عذاب الاصغر و عذاب الاکبر ہونا تھے یا پھر عذاب الادنی اور عذاب الاقصی۔ پھر قرآن مجید میں بجائے ان کے مقابلہ کے لئے ایک طرف صفت ادنی (بمعنی قریب) اور دوسری طرف صفت اکبر کو کیوں رکھا ؟ امام رازی (رح) نے سوال پیدا کرکے حسب معمول نکتہ سبخی سے جواب دیا ہے کہ ذکر عذاب سے مقصود تخویف (خوف دلانا) ہے اور یہ اثر پیدا نہیں ہوسکتا ہے اگر دنیا کے عذاب کو ہلکا عذاب ، یا آخرت کے عذاب کو ” دور کا عذاب “ کہہ کر پیش کیا جائے تو اس صورت میں ایک عذاب کا ہلکا پن اور دوسرے عذاب کی دوری گہرے اثر تخویف کے منافی ہے۔ اس لئے قرآن مجید نے بکمال بلاغت دونوں عذابوں کے وہی خصوصیات چن لئے جو اثر تخویف کو بڑھانے والے ہیں۔ یعنی دنیوی عذاب گونسبۃ ہلکا ہو لیکن قریب کتنا ہے بس آیا ہی سمجھو۔ اسی طرح عذاب آخرت گوبجائے آج کے کل آئے گا لیکن اس سے کس قدر شدید ! ایک ہی قرب کا خیال رکھا دوسرے میں شدت کا۔ اللہ تعالیٰ امام علیہ الرحمہ کی تربت کو رحمت کے پھولوں سے بھر دے۔ (تفسیر الماجدی) لعلہم یہ لنذیقنھم سے متعلق ہے۔ یعنی ہم ان کو عذاب الاکبر سے پہلے عذاب الٰہی چکھاتے رہیں گے تاکہ وہ (فسق و فجور) سے باز آجائیں۔ یرجعون : ای یرجعون من الفسق وہ باز آجائیں۔ وہ لوٹ آویں (توبہ کرلیں) رجح رجوح (باب ضرب) مصدر سے مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1” اور توبہ کریں “۔ چھوٹے عذاب سے مراد دنیا کا عذاب ( قتل و غارت) ، قید و ہند، قحط اور دوسرے مصائب و آلام بھی ہوسکتا ہے اور وہ عذاب بھی جو کافروں اور نافرمانوں کو قبر ( یعنی بزرخی زندگی) میں دیا جائے۔ مگر یہ آخری جملہ عذاب قبر مراد لینے کی تصنیف کر رہا ہے (شوکانی) ہاں قبر کے عذاب کا ثبوت بعض دوسری آیتوں سے ملتا ہے۔ دیکھئے سورة غافر آیت 46، سورة انعام آیت 93، 94 اور صحیح احادیث میں تو اسے پوری صراحت و تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ جیسے امراض و اسقام و مصائب۔ 2۔ پھر جو نہ باز آوے اس کے لئے عذاب اکبر ہے ہی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کی آخرت سے پہلے دنیا میں سزا۔ جو لگ اپنے رب کے احکام کا انکار کرتے ہیں اور قیامت کے حساب و کتاب کو جھٹلاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان سے اعراض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض کرنے والا شخص بڑا ظالم ہوتا ہے ان مجرموں سے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں انتقام لیں گے قیامت کو انہیں بڑا عذاب ہوگا لیکن دنیا میں بھی چھوٹے چھوٹے عذابوں کے ساتھ ان سے انتقام لیا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک آخرت کے عذاب سے یہ کبھی چھٹکارا نہیں پائیں گے لیکن دنیا کے چھوٹے عذاب سے انہیں اکثر اوقات اس لیے نجات دی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں۔ آخرت اور دنیا کے عذاب میں یہ فرق ہے کہ آخرت کا عذاب کافر، مشرک پر ہلکا نہیں ہوگا۔ لیکن دنیا کے عذاب میں سزا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی شامل ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے عذاب سے نجات پانے کے لیے اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما کر قیامت کے بڑے عذاب سے بچا لے اس طرح دنیا کے عذاب میں شفقت کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ بڑے عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہے اور دنیا میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے بعد بڑا عذاب بھی آسکتا ہے۔ مسائل ١۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتا ہے وہ بڑا ظالم ہے۔ ٢۔ ظالموں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انتقام لیتا ہے۔ ٣۔ دنیا میں سزا دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے تاکہ بندہ اپنے رب سے معافی مانگ لے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب دیتا ہے تاکہ لوگ اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ ٥۔ دنیا کے عذاب اللہ تعالیٰ اس کی شفقت پنہاں ہوتی ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ارشاد فرمایا (وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ) (اور ہم انہیں ضرور ضرور بڑے عذاب سے پہلے قریب والا عذاب چکھا دیں گے تاکہ وہ باز آجائیں) بڑے عذاب سے مراد آخرت کا عذاب اور قریب والے عذاب سے دنیا کا عذاب مراد ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے اس کی تفسیر میں دو باتیں منقول ہیں، اول یہ کہ اہل مکہ کو جو چند سال قحط میں مبتلا کیا اس سے وہ عذاب مراد ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مشرکین مکہ کا غزوہ بدر میں مقتول ہونا اور شکست کھانا مراد ہے۔ اگر (وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ ) کی ضمیر منصوب مشرکین مکہ کی طرف راجع ہو تو یہ دونوں تفسیر اس کے مناسب ہیں، اور اگر عمومی طور پر سب ہی کافر اس ضمیر کا مرجع قرار دئیے جائیں تو پھر دنیا کے مصائب اور امراض مراد ہوں گے، حضرت ابن عباس (رض) سے یہ تیسرا قول بھی مروی ہے۔ دنیا کا یہ عذاب ایمان کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہوتا ہے تاکہ تنبہ ہوجائے اور توبہ کی طرف رجوع کرلیں۔ (روح المعانی جلد ٢١ ص ١٣٤، ١٣٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ولنذیقنہم الخ۔ یہ تخویف دنیوی ہے عذاب ادنای سے مصائب دنیا اور عذاب اکبر سے عذاب جہنم مراد ہے یعنی ہم دنیا میں ان فساق و کفار کو مبتلائے مصائب کریں گے تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں اور توبہ کر کے راہ ہدایت اختیار کرلیں۔ قال الحسن و ابو العالیۃ والضحاک و ابی بن کعب و ابراہیم النخعی العذاب الادنی مصائب الدنیا واسقامھا مما یبتلی بہ العبید حتی یتوبوا وقالہ ابن عباس ولا خلاف انا العذاب الاکبر عذاب جہنم الخ (قرطبی ج 14 ص 107) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

21۔ اور ہم ان کفار مکہ کو اس بڑے عذاب موعود سے پہلے دنیا کے قریبی عذاب کا بھی ضرور مزا چکھائیں گے تاکہ شاید یہ لوگ کفر سے باز آجائیں ۔ یعنی عذاب اکبر فرمایا آخرت کے عذاب کو اس سے پہلے تھوڑا سا عذاب یعنی دنیوی مصائب و آلام خواہ وہ قحط ہو ، بیماری ہو یا جہاد میں قتل و قید ہو ۔ غرض دنیا میں بھی ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے مختلف مصائب سے ان منکروں کو دو چار کروں گا تا کہ یہ کفر سے باز آجائیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دنیا میں لوٹ مار بندی دیکھ لیں گے۔ 12