Surat Assajdah

Surah: 32

Verse: 27

سورة السجدة

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا نَسُوۡقُ الۡمَآءَ اِلَی الۡاَرۡضِ الۡجُرُزِ فَنُخۡرِجُ بِہٖ زَرۡعًا تَاۡکُلُ مِنۡہُ اَنۡعَامُہُمۡ وَ اَنۡفُسُہُمۡ ؕ اَفَلَا یُبۡصِرُوۡنَ ﴿ؓ۲۷﴾

Have they not seen that We drive the water [in clouds] to barren land and bring forth thereby crops from which their livestock eat and [they] themselves? Then do they not see?

کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم پانی کو بنجر غیر آباد زمین کی طرف بہا کر لے جاتے ہیں پھر اس سے ہم کھیتیاں نکالتے ہیں جسے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں کیا پھر بھی یہ نہیں دیکھتے ؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاء إِلَى الاَْرْضِ الْجُرُزِ ... Have they not seen how We drive water to the dry land, Here Allah explains His kindness and goodness towards them by His sending water to them, whether from the sky or from water flowing through the land, water carried by rivers down from the mountains to the lands that need it at particular times. Allah says: إِلَى الاَْرْضِ الْجُرُزِ (to the dry land) which means the land where nothing grows, as in the Ayah, وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَيْهَا صَعِيداً جُرُزاً And verily, We shall make all that is on it a bare dry soil. (18:8) i.e., barren land where nothing grows. Allah says here: أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاء إِلَى الاَْرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنفُسُهُمْ أَفَلَ يُبْصِرُونَ Have they not seen how We drive water to the dry land that has no vegetation, and therewith bring forth crops providing food for their cattle and themselves. Will they not then see! This is like the Ayah, فَلْيَنظُرِ الاِنسَـنُ إِلَى طَعَامِهِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَأءَ صَبّاً Then let man look at his food: We pour forth water in abundance. (80:24-25) Allah says here: أَفَلَ يُبْصِرُونَ Will they not then see!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

271پانی سے مراد آسمانی بارش اور چشموں نالوں اور وادیوں کا پانی ہے، جسے اللہ تعالیٰ بنجر زمین کے علاقوں کی طرف بہا کرلے جاتا ہے اس سے پیداوار ہوتی ہے جو انسان کھاتے ہیں اور جو بھوسا چارہ ہوتا ہے وہ جانور کھاتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص زمین یا علاقہ مراد نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ جر ہر بےآباد، بنجر اور چٹیل زمین کو شامل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٩] یعنی بارش کا ریلا یا نہروں کا پانی جب بنجر زمین کو سیراب کرتا ہے تو بےآب وگیاہ اور بنجر زمین بھی لہلہانے لگتی ہے۔ اس پربہار آجاتی ہے۔ جس سے ہر قسم کے جانداروں کو رزق مہیا ہوتا ہے۔ بعینہ یہی صورت وحی الٰہی کی بارش کی بھی ہوتی ہے۔۔۔ خطہ عرب جس میں توحید کی آواز نکالنا بھی اپنے لئے مصائب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ اور لوگوں کے دل حق کی دعوت کو قبول کرنے کے سلسلہ میں بالکل مردہ ہوچکے ہیں۔ اگر بارش کا ریلا بنجر زمین کو لہلہاتے کھیت میں تبدیل کرسکتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خطہ وحی کی بارش سے توحید کی اواز سے لہلہانے لگے مردہ لوگوں میں زندگی عود کر آئے۔ لوگ سمجھنے سوچنے لگ جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ اسلام کو اتنا فروغ بخشے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ پھر اسلام کی برکات سے صرف انسان ہی نہیں اللہ کی ساری مخلوق مستفید اور سرشار ہوجائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ ۔۔ : یہ توحید و رسالت کے ساتھ سورت کے تیسرے بنیادی مضمون کا تذکرہ ہے، یعنی کیا ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے بارش کے پانی کے ساتھ بنجر زمین سے کھیتیوں کو پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا، جن میں سے وہ بھی کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی ؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمام مردوں کو دوبارہ زندگی بخش کر حساب کے لیے سامنے لا کر کھڑا کرے گا۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٧) ، روم (٥٠) اور یٰس (٣٣ تا ٣٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: جُرُز (al-juruz) in verse 27: أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْ‌ضِ الْجُرُ‌زِ فَنُخْرِ‌جُ (Have they not seen that We drive water to the dry land, then We bring forth crops thereby - 27) means barren land where trees do not grow. A wise system of irrigation Usually the Qur&an mentions the irrigating of dry lands and the growing of crops therein by saying that the land receives rain, and becomes moist and growth-worthy. But, there is no mention of rain in this verse. Instead of that, it has been said that water itself is directed to move aground towards the dry land and thereby bring forth the growth of trees. In other words, the rain is made to fall on some other land and it is from there that water is directed to move in the form of carrier channels on the ground all the way to the dry land that receives no rain. There is a hint embedded here. Some lands are so soft that they cannot withstand rains. If regular rains were made to fall there, buildings may collapse or trees may be uprooted. Therefore, nature has made its own arrangements for such lands. As for the rain itself, it is sent on a land which is capable of holding it. After that, water is made to flow from here all the way to such lands which cannot withstand rains - like the land of Egypt. And there are commentators who have pointed out to some lands of Yaman and Syria as being referred to in this verse. (as reported from Ibn ` Abbas and Al-Hasan) And as for the correct position, this subject includes all such lands, with the inclusion of the land of Egypt known for scanty rains particularly. But, water from the rains in the Abyssinian territory of Africa comes into Egypt through the Nile bringing with it particles of the indigenous red soil which is good for the growth of crops. Therefore, the people of Egypt, despite that they have no rains in their country, do benefit by a supply of new water and soil every year. فَتَبَارَ‌كَ اللَّـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (So, glorious is Allah, the Best of creators - 23:14).

(آیت) اولم یرو انا نسوق الماء الی الارض الجرز فنخرج بہ زرعاً ، ” یعنی کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی کو (بعض مواقع میں) زمین پر چلا کرلے جاتے ہیں، جس سے ان کی کھیتیاں اگتی ہیں “ جرز خشک زمین کو کہتے ہیں جس میں درخت نہیں اگتے۔ زمین کی آب پاشی کا ایک خاص حکیمانہ نظام : خشک زمین کو سیراب کرنے اور اس میں نباتات اگانے کا ذکر قرآن کریم میں جا بجا اس طرح آیا ہے کہ اس زمین پر بارش برستی ہے، اس سے زمین تروتازہ ہو کر اگانے کے قابل ہوجاتی ہے۔ مگر اس آیت میں بارش کے بجائے پانی کو زمین پر چلا کر خشک زمین کی طرف لے جانے اور اس سے درخت اگانے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی بارش کسی دوسری زمین پر نازل کی جاتی ہے وہاں سے ندی نالوں کے ذریعہ زمین پر چلا کر پانی کو خشک زمین کی طرف لے جایا جاتا ہے جہاں بارش نہیں ہوتی۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ بعض زمینیں ایسی خام اور نرم ہوتی ہیں جو بارش کی متحمل نہیں ہوتیں، اگر وہاں پوری بارش برسائی جائے تو عمارتیں منہدم ہوجائیں، درخت اکھڑ جائیں۔ اس لئے قدرت نے ایسی زمینوں کے لئے یہ نظام بنایا ہے کہ بارش تو اس زمین پر نازل کی جاتی ہے جو اس کی متحمل ہے، پھر یہاں سے پانی بہا کر ایسی زمینوں کی طرف لے جایا جاتا ہے جو بارش کی متحمل نہیں، جیسے مصر کی زمین ہے۔ اور بعض مفسرین نے یمن اور شام کی بعض زمینوں کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ (کما روی عن ابن عباس و الحسن) اور صحیح یہ ہے کہ یہ مضمون ایسی تمام زمینوں کو شامل ہے، اور مصر کی زمین خصوصیت سے اس میں شامل ہے، جہاں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ مگر بلاد حبشہ افریقہ کی بارشوں کا پانی دریائے نیل کے ذریعہ مصر میں آتا ہے اور وہاں کی سرخ مٹی ساتھ لاتا ہے جس میں انبات کا مادہ زیادہ ہے۔ اس لئے مصر کے لوگ اپنے ملک میں بارش نہ ہونے کے باوجود ہر سال نئے پانی اور نئی مٹی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوْقُ الْمَاۗءَ اِلَى الْاَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا تَاْكُلُ مِنْہُ اَنْعَامُہُمْ وَاَنْفُسُہُمْ۝ ٠ ۭ اَفَلَا يُبْصِرُوْنَ۝ ٢٧ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ سُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ . اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے جرز قال عزّ وجل : صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف/ 8] ، أي : منقطع النبات من أصله، وأرض مَجْرُوزَة : أكل ما عليها، والجَرُوز : الذي يأكل ما علی الخوان، وفي المثل : لا ترضی شانئة إلا بِجَرْزَة «5» ، أي : باستئصال، والجَارِز : الشدید من السّعال، تصوّر منه معنی الجرز، والجَرْزُ : قطع بالسیف، وسیف جُرَاز . ( ج ر ز) جرز ۔ وہ زمین جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا ہو فرمایا ؛ صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف/ 8] بنجر میدان ۔۔ یعنی جس پر گھاس درخت وغیرہ کوئی چیز نہ ہو ۔ ارض مجروزۃ زمین جس سے گھاس چر کر ختم کردیا گیا ہو ۔ الجروز جو دسترخوان کو صاف کرڈٖالے ۔ مثل مشہور ہے ۔ لا ترضی شانیہ الا بجرزہ یعنی اس کے دشمن اس کا استیصال کئے بغیر خوش نہیں ہوں گے ۔ الجارز سخت کھانسی ( اس میں معنی جرز کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الجراز تلوار سے کاٹنا ۔ سیف جراز شمشیر بزان خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا کفار مکہ نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ ہم خشک بنجر زمین کی طرف پانی پہنچاتے ہیں پھر اس ذریعے سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے مویشی اور وہ خود کھاتے ہیں۔ کیا پھر بھی نہیں جانتے کہ یہ سب چیزیں اللہ کی طرف سے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 Keeping the context in view it becomes obvious that this thing has not been mentioned here for the sake of providing an argument for the life-after-death, as generally found in the Qur'an, but in this context its object is different. This, in fact, contains a subtle allusion to this effect: "Just as a person seeing a barren land cannot imagine that it will ever bloom and swell with vegetation, .but a single shower of the rain sent by God changes its color altogether, so is the case with the message of Islam at this juncture. People think that it is not going to gain ground, but a single manifestation of Allah's power and grace will cause it to gain such glory that people will be amazed at its progress."

سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :40 سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں یہ ذکر حیات بعدالموت پر استدلال کرنے کے لیے نہیں کیا گیا ہے ، جیسا کہ قرآن میں بالعموم ہوتا ہے ، بلکہ اس سلسلۂ کلام میں یہ بات ایک اور ہی مقصد کے لیے فرمائی گئی ہے ۔ اس میں دراصل ایک لطیف اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح ایک بنجر پڑی ہوئی زمین کو دیکھ کر آدمی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ یہ بھی کبھی لہلہاتی کشت زار بن جائے گی ، مگر خدا کی بھیجی ہوئی برسات کا ایک ہی ریلا اس کا رنگ بدل دیتا ہے ، اسی طرح یہ دعوت اسلام بھی اس وقت تم کو ایک نہ چلنے والی چیز نظر آتی ہے ، لیکن خدا کی قدرت کا ایک ہی کرشمہ اس کو وہ فروغ دے گا کہ تم دنگ رہ جاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(32:27) نسوق مضارع جمع متکلم۔ ساق یسوق (نصر) سوق مصدر سے۔ ہم چلاتے ہیں۔ ہم رواں کرتے ہیں۔ ہم ہانک کر لیجاتے ہیں۔ المای پانی ، ندی نالوں کی صورت ، بادلوں کی صورت۔ الی الارض الجرز۔ موصوف و صفت۔ الجرز اس زمین کو کہتے ہیں جو ویسے تو زرخیر ہو مگر پانی دستاب نہ ہونے سے بنجر ہوگئی ہو۔ گھاس اور چارہ جڑ سے اکھڑ کر رہ گیا ہو۔ یا اونٹوں اور بکریوں نے اسے چر کر ختم کردیا ہو۔ اور اب وہاں سبز تنکا تک دکھائی نہ دیتا ہو۔ ارض مجروزۃ۔ وہ زمین جس سے گھاس چر کر ختم کردیا گیا ہو۔ اور جگہ آیا ہے صعیدا جرزا (18:8) چٹیل ۔ بےآب وگیاہ زمین۔ رزعا۔ مصدر۔ اسم ۔ زرع یزرع (فتح) کھیتی کرنا۔ کھیتی اگانا۔ بطور اسم بمعنی کھیتی۔ زراعۃ کاشتکاری۔ زرعۃ۔ قابل کاشت زمین ، مزروع۔ بوئی ہوئی (زمین یا غلہ) ۔ منہ ای من زرع۔ اس اگی ہوئی کھیتی سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی اقوام کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتے تھے یہاں تاریخی اور جغرافیائی نشانیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد بارش سے سبق حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں اقوام کے تباہ شدہ کھنڈرات سے عبرت حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اب بارش اور اس کے پانی سے اگنے والی نباتات پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے دیکھو اور غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بارش نازل کرتا ہے اور پھر اس پانی سے زمین کو سیراب کرتا اور فصلیں اگاتا ہے اس سے تمہارے چوپائے بھی کھاتے اور تم بھی اپنی خوراک حاصل کرتے ہو لیکن پھر بھی تم عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ! بارش بذات خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور اس کی رحمت کا سرچشمہ ہے اس سے کیڑے مکوڑے، درند، پرند، چوپائے اپنے حسب حال اور ضرورت مستفید ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے نباتات، انگوریاں اور فصلیں پیدا کرتا ہے جس سے دوسری مخلوق کے ساتھ چوپائے اور انسان اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔ بارش کے فوائد ذکر کرنے کے ساتھ یہ بتانا مقصود ہے کہ بارش کی وجہ سے زمین سے نباتات اگتی ہے اسی طرح ایک دن آئے گا جب تمہاری موت کے بعد تمہیں بھی اٹھا لیاجائے گا۔ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود آپ سے سوال کرتے ہیں کہ فیصلے کا دن کب آئے گا ؟ اس سوال کے پہلے بھی جواب دئیے گئے ہیں یہاں صرف یہ بتلایا ہے کہ آپ انہیں فرمادیں کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں یہ قیامت دیکھنے کے بعد ایمان لائیں گے۔ لیکن ان کا ایمان اس دن انہیں فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی اگر یہ لوگ اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ ان کا خیال چھوڑ دیں آپ بھی انتظار فرمائیں اور یہ بھی انتظار کریں۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو دنیا میں ان کی پکڑ کرے گا ورنہ قیامت کے دن ان سے ضرور پوچھا جائے گا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن کفار کا ایمان لانا انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ ٢۔ ضدی لوگوں کے ساتھ الجھنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ہٹ دھرم اور جہالوں اعراض کرنے کا حکم : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف : ١٩٩) ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ : ٦٧) ٣۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : ٤٦) ٤۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : ٦٣) ٥۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع فرما دیتا پس آپ جاہلوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام : ٣٥) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاہلوں سے اعراض کریں اور اللہ پر بھروسہ کریں کیونکہ اللہ ہی نگہبان ہے۔ (النساء : ٨١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اولم یروا انا ۔۔۔۔۔ افلا یبصرون (27) یہ مردہ زمین ، تباہ حال زمین ، یہ دیکھتے ہیں کہ قدرت خداوندی اس کی طرف پانی چلاتی ہے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ یہی مردہ زمین سرسبز و شاداب ہو کر زندگی سے بھرپور ہوگئی ہے اور لہلہاتی ہے۔ فصلیں اگتی ہیں۔ لوگ بھی کھاتے ہیں اور ان کے مویشی بھی کھاتے ہیں۔ مردہ زمین کا منظر جس پر بارش برستی ہے اور وہ زندہ و تابندہ ہوجاتی ہے۔ یہ منظر دراصل دلوں کے بند دروازوں کو کھولنے کے لیے نہایت ہی موثر منظر ہے۔ دیکھو ہر طرف زندگی اور نباتات کا اگاؤ اور لوگوں اور مویشیوں کی خوشیاں اور ان کا استقبال۔ زندگی کی مٹھاس اور تروتازگی کا شعور۔ پھر اس سرسبز زندگی اور خوبصورت اور تروتازہ ماحول کی خوبصورتی۔ قرب اور محبت کی فضا میں زمزمے ، جن میں اللہ کی قدرت کا جمال ہر طرف نظر آتا ہے اور اس کی صنعت کاریوں کے نمونے جابجا بکھرے پڑے ہیں اور جن سے اس کائنات کے صفحات پر ہر طرف زندگی اور خوبصورتی کے مناظر نظر آتے ہیں۔ یوں قرآن مجید دل انسان کو زندگی کے مختلف نشیب و فراز کی سیر کراتا ہے۔ جہاں زندگی بھی ہے اور نشوونما بھی ہے اور سرسبزی و شادابی بھی ہے اور اقوام سابقہ کی ہلاکتوں کے میدان اور آثار بھی ہیں۔ ہر جگہ قرآن کریم کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح قلب انسانی کے اندر حرکت پیدا ہو ، وہ جاگے اور اسے اس جہان کے ساتھ الفت پیدا ہو۔ اس جہاں اور اس کی بوقلمونیوں پر سے محض غافل ہو کر نہ گزرے۔ آنکھوں پر سے پردے دور کر دے۔ ان مشاہد اور مناظر قدرت کے اسرار و رموز کو جاننے کی کوشش کرے۔ واقعات سے عبرت حاصل کرے اور تاریخ سے برہان اور دلائل حاصل کرے۔ آخر میں اس طویل سیاحت کے بعد سورة کا مقطع آتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اس عذاب کے آجانے میں جلدی کرتے ہیں ، جس سے انہیں ڈرایا جاتا ہے۔ دراصل یہ لوگ اس ڈراوے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی نصیحت کو مشکوک بات سمجھتے ہیں ان کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ جس چیز سے تمہیں ڈرایا جا رہا ہے ، وہ حق ہے اور حقیقت بننے والی ہے۔ اس دن ان کا ایمان ان کو کوئی نفع نہ دے گا۔ اور اس وقت ان سے جو غلطی ہوچکی ہوگی اس کی تلافی ممکن نہ ہوگی اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جاتا ہے کہ ان کو چھوڑ دیا جائے وہ اپنے حتمی انجام تک پہنچنے والے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

25:۔ اولم یروا الخ۔ یہ توحید پر دوسری عقلی دلیل ہے اور حشر و نشر پر بھی دلیل ہے کیا یہ لوگ مشاہدہ نہیں کرتے کہ ہم بےآب وگیاہ زمین پر مینہ برسا کر اس میں لہلہاتے کھیت پیدا کردیتے ہیں اور اس طرح ان کے اور ان کے مویشیوں کے لیے روزی مہیا کرتے ہیں۔ مینہ برسانا اور کھیتیاں اگانا جس خدائے قادر وقیوم کے اختیار و تصرف میں ہے وہی ساری کائنات کا کارساز ہے اور جو زمین سے انواع و اقسام نبات پیدا کرسکتا ہے وہ مردوں کو بھی دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27۔ کیا ان دین حق کے منکروں نے اس بات پر غور نہیں کیا اور اس بات کو دیکھا نہیں کہ ہم ایک خشک زمین تک پانی کو پہنچاتے ہیں پھر اس پانی کے ذریعہ کھیتی پیدا کرتے ہیں جس میں سے ان کے مواشی بھی چرتے ہیں اور وہ خود بھی اس میں سے کھاتے ہیں تو کیا اس بات کو یہ لوگ دیکھتے نہیں ۔ یعنی خشک زمین پر پانی کا پہنچانا خواہ و بارش کے ذریعے ہو یا نہر اور رجبہوں سے اور نالیوں سے ہو بہر حال خشک زمین پر پانی پہنچانا پھر اس پانی کے ذریعے خشک زمین میں کھیتی کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں پھر اس کھیتی میں سے تمہارے چوپائے بھی کھاتے اور چرتے ہیں جیسے بھوسا اور چری وغیرہ اور تم بھی کھاتے ہو جیسے گیہوں ، جو ، چنا اور جوار و باجرہ وغیرہ تو کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ جس طرح مردہ اور خشک زمین زندہ ہوسکتی ہے اسی طرح مرے ہوئے انسان بھی دوبارہ زندہ ہوسکتے ہیں ۔