Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 15

سورة الأحزاب

وَ لَقَدۡ کَانُوۡا عَاہَدُوا اللّٰہَ مِنۡ قَبۡلُ لَا یُوَلُّوۡنَ الۡاَدۡبَارَ ؕ وَ کَانَ عَہۡدُ اللّٰہِ مَسۡئُوۡلًا ﴿۱۵﴾

And they had already promised Allah before not to turn their backs and flee. And ever is the promise to Allah [that about which one will be] questioned.

اس سے پہلے تو انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ تعالٰی سے کئے ہوئے وعدہ کی باز پرس ضرورہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ كَانُوا عَاهَدُوا اللَّهَ مِن قَبْلُ لاَ يُوَلُّونَ الاَْدْبَارَ ... And if the enemy had entered from all sides, and they had been exhorted to Al-Fitnah, they would surely have committed it and would have hesitated thereupon but little. And indeed they had already made a covenant with Allah not to turn their backs, Allah tells us about those who said: يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِن يُرِيدُونَ إِلاَّ فِرَارًا ("Truly, our homes lie open." And they lay not open. They but wished to flee). If the enemy had entered upon them from every side of Al-Madinah and from every direction, then demanded that they become disbelievers, they would have promptly done so. They would not have adhered to their faith or remained steadfast in it if they were faced with the slightest fear. This is how it was interpreted by Qatadah, Abdur-Rahman bin Zayd and Ibn Jarir. This is a condemnation of them in the clearest terms. Then Allah reminds them of the promise they had made to Him before this fear struck them, that they would not turn their backs or flee from the battlefield. ... وَكَانَ عَهْدُ اللَّهِ مَسْوُولاً and a covenant with Allah must be answered for. means, Allah will inevitably ask them about that covenant.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151بیان کیا جاتا ہے کہ یہ منافقین جنگ بدر تک مسلمان نہیں ہوئے۔ لیکن جب مسلمان فاتح ہو کر اور مال غنیمت لے کر واپس آئے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کا اظہار کیا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ آئندہ جب بھی کفار سے معرکہ پیش آیا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ضرور لڑیں گے، یہاں ان کو وہی عہد یاد کرایا گیا ہے۔ 152یعنی اسے پورا کرنے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا اور عدم وفا پر سزا کے مستحق ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٠] منافقوں کا اپنے عہد سے انحراف :۔ یہ عہد ان منافقوں نے جنگ احد کے بعد کیا تھا کہ اگر آئندہ کوئی آزمائش کا موقع آیا تو ہم اپنے سابقہ قصور کی تلافی کردیں گے۔ پھر جب دو ہی سال بعد آزمائش کا موقعہ آگیا تو ان لوگوں نے پہلے سے بھی زیادہ بزدلی دکھائی اور جنگ سے فرار کی راہیں سوچنے لگے بلکہ دوسروں کی بھی حوصلہ شکنی کرنے لگے۔ حتیٰ کہ سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ اپنے عہد میں کس قدر مخلص تھے۔ اب ان کے اصل جرم کے علاوہ اس بدعہدی کی بھی بازپرس ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ ۔۔ : یہ عہد ان منافقوں نے احد کے موقع پر جنگ سے گریز اور پسپائی کے بعد کیا تھا کہ اگر آئندہ آزمائش کا کوئی موقع آیا تو ہم اپنی سابقہ کوتاہی کی تلافی کریں گے اور لڑائی سے پیٹھ نہیں پھیریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں وہ عہد یاد دلایا کہ اسے کوئی لمبی مدت نہیں گزری، بلکہ غزوۂ احزاب سے کچھ ہی پہلے انھوں نے وہ عہد کیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ کو صرف زبانی عہد کے ساتھ دھوکا نہیں دیا جاسکتا، بلکہ وہ آزمائش کا کوئی موقع لا کر پوچھتا ضرور ہے کہ تمہارا وعدہ سچا تھا یا جھوٹا۔ اس کے علاوہ قیامت کے دن وہ ایمان کے عہد سے لے کر لڑائی سے فرار نہ کرنے تک کے ہر عہد کے متعلق بھی پوچھے گا کہ پورا کیا یا نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ كَانُوْا عَاہَدُوا اللہَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ۝ ٠ ۭ وَكَانَ عَہْدُ اللہِ مَسْـُٔــوْلًا۝ ١٥ عهد العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً. قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] ( ع ھ د ) العھد ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء/ 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة/ 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل «3» ، وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ، أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ «1» ( وأَدْبَار النّجوم) «2» ، فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

حالانکہ یہی لوگ غزوہ احزاب سے پہلے اللہ سے عہد کرچکے تھے کہ مشرکین کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عہد توڑنے والے سے قیامت کے دن اس نقض عہد کے بارے میں بارز پرس ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { وَلَقَدْ کَانُوْا عَاہَدُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ لَا یُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ } ” حالانکہ اس سے قبل وہ اللہ سے وعدہ کرچکے تھے کہ وہ کبھی پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ “ اس سے پہلے وہ بحیثیت مسلمان اللہ سے عہد کرچکے تھے کہ وہ باطل کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے۔ { وَکَانَ عَہْدُ اللّٰہِ مَسْئُوْلًا } ” اور اللہ سے کیے گئے عہد کی باز پرس تو ہونی ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, "They had felt regret at the weakness they had shown on the occasion of the Battle of Uhud and pledged to Allah that they would compensate for their error in any trial that they would confront in the future. But Allah cannot be deceived by empty words. He puts to one or the other test everyone who makes a pledge with Him so that his sincerity of intention or otherwise is found out. Therefore, just after two years of the Battle of Uhud, He made them confront an even more serious danger and discovered how far they were sincere in their pledge."

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :27 یعنی جنگ اُحُد کے موقع پر جو کمزوری انہوں نے دکھائی تھی اس کے بعد شرمندگی و ندامت کا اظہار کر کے ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اب آزمائش کا کوئی موقع پیش آیا تو ہم اپنے اس قصور کی تلافی کر دیں گے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو محض باتوں سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا ۔ جو شخص بھی اس سے کوئی عہد باندھتا اس کے سامنے کوئی نہ کوئی آزمائش کا موقع وہ ضرور لے آتا ہے تاکہ اس کا جھوٹ سچ کھل جائے ۔ اس لیے وہ جنگ احد کے دو ہی سال بعد اس سے بھی زیادہ بڑا خطرہ سامنے لے آیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 قتادہ (رح) کہتے ہیں یہ لوگ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوئے تھے لیکن جب بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تو انہوں نے عہد کیا کہ اب اگر آزمائش کا موقع آیا تو ہم ضرور مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔ ( شوکانی) ۔8 یعنی قیامت کے دن ان سے ضرور باز پرس ہوگی کہ تم نے جو عہد کرلیا تھا اسے پورا کیوں نہ کیا ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ عہد اس وقت کیا تھا جبکہ بدر میں بعض شرکت سے رہ گئے تھے، تو بعض منافقین بھی مفت کرم داشتن کے طور پر کہنے لگے کہ افسوس ہم نہ شریک ہوئے، ایسا کرتے ویسا کرتے، جب وقت آیا ساری قلعی کھل گئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد کانوا عاھدوا ۔۔۔۔۔۔ عھد اللہ مسئولا (15) ابن ہشام نے ابن اسحاق کی روایت اپنی سیرۃ میں نقل کی ہے کہ یہ لوگ بنو حارثہ تھے۔ یہی لوگ تھے جو احد کے دن بھی بھاگنا چاہتے تھے اور بنو مسلمہ اور ان دونوں نے واپسی کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ لیکن بعد میں انہوں نے اللہ کے ساتھ عہد کرلیا تھا کہ وہ ایسا ہرگز نہ کریں گے۔ یہاں یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ تم نے خود یہ عہد اللہ کے ساتھ کیا تھا کہ آئندہ ایسا نہ کریں گے۔ احد کے دن تو اللہ کے فضل و کرم سے وہ بچ گئے تھے۔ اللہ نے ان کو ثابت قدمی دے دی تھی۔ اور ان کو فرار کے نتائج سے بچا لیا تھا۔ ابتدائی زمانے میں جہاد کے اسباق میں سے یہ ایک سبق تھا لیکن آج تو تحریک اسلامی پر طویل دورگزر گیا ہے۔ کافی تجربات ہوگئے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم ان پر سخت تبصرہ کرتا ہے۔ آج جب انہوں نے عہد توڑ دیا۔ آج وہ خطرے سے بچنے کیلئے اور خوف کی حالت سے بھاگنے کے لیے عہد توڑ چکے ، تو قرآن کریم ان کو بتاتا ہے اور ہر وقت بتاتا ہے کہ اسلامی نظریہ حیات میں اعلیٰ قدر کیا ہے اور اسلامی تصور حیات میں موت اور زیست کا تصور کیا ہے۔ کیا فرار اور نقص عہد زندگی کا ضمان ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چوتھی آیت میں بھی انہیں لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے گھروں کے خالی ہونے کا بہانہ کرکے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اجازت طلب کی تھی، ارشاد فرمایا : (وَلَقَدْ کَانُوْا عَاھَدُوا اللّٰہَ مِنْ قَبْلُ ) (الآیۃ) یعنی ان لوگوں نے اس سے پہلے عہد کیا تھا کہ پشت پھیر کر نہ جائیں گے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں بنو حارثہ کا ذکر ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے قبیلہ بنو سلمہ مراد ہے، یہ لوگ غزوہ احد کے موقع پر بزدلی دکھا چکے تھے پھر توبہ کرکے شریک ہوگئے تھے اور خندق کا واقعہ پیش آنے سے پہلے عہد کیا تھا کہ راہ فرار اختیار نہ کریں گے۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ میں ان منافقوں کا ذکر ہے جو غزوۂ بدر کی شرکت سے رہ گئے تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے وہاں مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور کافروں کو بری طرح شکست دی تو یہ کہنے لگے افسوس ہم شریک نہ ہوئے، اگر ہم شریک ہوتے تو یوں کرتب دکھاتے اور ایسا ویسا کرتے، آئندہ جب کوئی جہاد کا موقع ہوگا تو ہم اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے، جب غزوۂ خندق کا موقع آیا تو ان کے سارے دعوے اور معاہدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور فرار کی راہیں اختیار کرنے لگے، (وَکَانَ عَھْدُ اللّٰہِ مَسْءُوْلًا) (اور اللہ سے جو عہد کیا جاتا ہے اس کی باز پرس ہوگی) عہد کی خلاف ورزی اور عہد شکنی کرکے سزا کے مستحق ہوچکے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ولقد کانوا الخ، حالانکہ یہ منافقین جو اس وقت راہ فرار تلاش کر رہے ہیں اللہ سے عہد کرچکے ہیں کہ آئندہ وہ میدان جہاد سے کبھی پیٹھ نہیں پھیریں گے اور عہد و پیمان کو توڑنا کہ اب اگر اللہ نے ہمیں کبھی جہاد کا موقع دیا تو ہم کبھی پیچھے نہ رہیں گے اور نہ میدان جہاد سے بھاگیں گے لیکن اب غزوہ خندق میں بھاگنے کے بہانے تراش رہے ہیں قال قتادۃ وذالک انہم غابوا عن بدر وراو ما اعطی اللہ اھل بدر من الکرامۃ والنصر فقالوا لئن اشھدنا اللہ قتالا لنقاتلن (قرطبی ج 14 ص 150) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15۔ اور ان کی حالت یہ ہے کہ بلا شبہ یہ لوگ اس غزوۂ احزاب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرچکے تھے کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کی باز پرس ہونی ہے۔ یعنی یہی بنو حارثہ اور بنو سلمہ غزوۂ احد کے بعد اور غزوۂ خندق سے پہلے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرچکے تھے کہ ہم جہاد سے نہیں بھاگیں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے لیکن باوجود عہد کے پھر کمزوری دکھا رہے ہیں اور گھروں کا بہانہ بنا کر بھاگنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جنگ احد کے بعد یہ اقرار کیا تھا کہ پھر ہم ایسی حرکت نہ کریں گے۔ 12 اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کا توڑنے پر باز پرس کا مطلب یہ ہے کہ عہد شکنی کی سزا ملے گی ۔