Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 16

سورة الأحزاب

قُلۡ لَّنۡ یَّنۡفَعَکُمُ الۡفِرَارُ اِنۡ فَرَرۡتُمۡ مِّنَ الۡمَوۡتِ اَوِ الۡقَتۡلِ وَ اِذًا لَّا تُمَتَّعُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۱۶﴾

Say, [O Muhammad], "Never will fleeing benefit you if you should flee from death or killing; and then [if you did], you would not be given enjoyment [of life] except for a little."

کہہ دیجئے کہ گو تم موت سے یا خوف قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہیں کچھ بھی کام نہ آئے گا اور اسوقت تم بہت ہی کم فائدہ اٹھاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُل لَّن يَنفَعَكُمُ الْفِرَارُ إِن فَرَرْتُم مِّنَ الْمَوْتِ أَوِ الْقَتْلِ ... Say: "Flight will not avail you if you flee from death or killing, Then Allah tells them that fleeing from battle will not delay their appointed demise or make their lives any longer; on the contrary, it may be the cause of their being taken sooner, and in a sudden manner. Allah says: ... وَإِذًا لاَّ تُمَتَّعُونَ إِلاَّ قَلِيلًإ and then you will enjoy no more than a little while! meaning, `after you run away and flee from battle.' قُلْ مَتَـعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالاٌّخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَى Say: "Short is the enjoyment of this world. The Hereafter is better for him who have Taqwa!" (4:77) Then Allah says: قُلْ مَن ذَا الَّذِي يَعْصِمُكُم مِّنَ اللَّهِ إِنْ أَرَادَ بِكُمْ سُوءًا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً وَلاَ يَجِدُونَ لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلاَ نَصِيرًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

161یعنی موت سے کوئی صورت مفر نہیں ہے۔ اگر میدان جنگ سے بھاگ کر آ بھی جاؤ گے تو کیا فائدہ ؟ کچھ عرصے بعد موت کا پیالہ تو پھر بھی پینا پڑے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢١] عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہت بہتر ہے :۔ موت کے متعلق چند اٹل حقائق ہیں۔ ایک یہ کہ موت اپنے وقت سے پہلے نہیں آتی۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو لوگ جنگ میں شریک ہوں اور نہایت خلوص سے جنگ کریں وہ سب کے سب شہید ہوجاتے ہیں ؟ دوسری حقیقت یہ ہے کہ موت آکے رہے گی اس سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اگر تم جنگ سے فرار کی راہ اختیار کرو گے تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا ہے کہ چند سال مزید جی لوگے۔ آخر تمہیں مرنا ہی ہے اور مر کر ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ یہ تو بہرحال ناممکن ہے کہ موت کی گرفت سے بچ سکو۔ مگر ایسی زندگی پر لعنت ہے جو بدنامی اور ذلت سے گزرے۔ کیونکہ عزت کے ساتھ مرنا ذلت کے ساتھ جینے سے بہرحال بہتر ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ ۔۔ : یعنی فرار سے تمہاری عمر کچھ بڑھ نہیں جائے گی، نہ ہی فرار اختیار کرنے سے تم قتل سے یا موت سے بچ جاؤ گے، کیونکہ موت کا وقت تو مقرر ہوچکا ہے۔ پھر مرنا ہی ہے تو کیوں نہ اللہ کی راہ میں لڑ کر عزت کی موت مرو اور شہادت کا رتبہ پاؤ۔ وَاِذًا لَّا تُمَـتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا : یعنی اگر تم نے فرار اختیار کیا اور تمہاری کچھ عمر باقی ہوئی تب بھی دنیا کی لذتوں سے تم تھوڑا ہی فائدہ اٹھا سکو گے، کیونکہ ایسے بزدلوں کا مقدر دشمن کے غلبہ کی صورت میں ذلت اور غلامی ہوتا ہے اور اگر اس سے بچ بھی گئے تو کتنی دیر زندہ رہ لو گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّنْ يَّنْفَعَكُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ وَاِذًا لَّا تُمَـتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِيْلًا۝ ١٦ نفع النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] ( ن ف ع ) النفع ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان/ 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔ فر أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه : الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل ( ف ر ر ) الفروالفرار ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] کہ اگر تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة/ 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے نبی کریم آپ بنی حارثہ کے منافقین سے فرما دیجیے کہ تمہیں بھاگنا کچھ نفع نہیں دے سکتا اور اس صورت میں دنیاوی زندگی سے تم چند ہی دنوں کے لیے ہی فائدہ اٹھا سکتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦{ قُلْ لَّنْ یَّنْفَعَکُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِّنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے) کہہ دیجیے کہ تمہارا یہ بھاگنا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا ‘ اگر تم لوگ موت یا قتل سے بھاگ رہے ہو “ موت سے بھلا کوئی کیسے بھاگ سکتا ہے ؟ موت تو ہر جگہ اپنے شکار کا پیچھا کرسکتی ہے۔ { وَاِذًا لَّا تُمَتَّعُوْنَ اِلَّا قَلِیْلًا } ” اور (اگر بھاگو گے) تب بھی تم (زندگی کے سازوسامان سے) فائدہ نہیں اٹھا سکو گے مگر تھوڑا سا۔ “ اگر وقتی طور پر کوئی شخص ایک جگہ سے بھاگ کر اپنی جان بچا نے میں کامیاب ہو بھی جائے تو بھی وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ تو نہیں ہوسکتا۔ اس کی یہ کوشش اسے اس سے زیادہ بھلا کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے کہ کچھ عرصہ وہ مزید جی لے گا۔ آخر ایک نہ ایک دن تو اسے موت کے منہ میں جانا ہی ہے۔ وہ دنیا کی زندگی کا بس اسی قدر لطف اٹھا سکتا ہے جتنا اس کے لیے مقدر ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 That is, "This flight of yours will not add anything to your life. In no case will you live for ever and gain the whole wealth of the world. Hardly a few years will you live after your flight and enjoy life only as long as it is destined for you.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :28 یعنی اس فرار سے کچھ تمہاری عمر بڑھ نہیں جائے گی ۔ اس کا نتیجہ بہرحال یہ نہیں ہو گا کہ تم قیامت تک جیو اور روئے زمین کی دولت پالو ۔ بھاگ کر جیو گے بھی تو زیادہ سے زیادہ چند سال ہی جیو گے اور اتنا ہی کچھ دنیا کی زندگی کا لطف اٹھا سکو گے جتنا تمہارے لیے مقدر ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:16) لن ینفعکم۔ مضارع نفی تاکید بلن صیغہ واحد مذکر غائب۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ تمہیں ہرگز نہیں نفع دیگا۔ (کیونکہ تقدیر کا لکھا تو ہو کر ہی رہے گا تم بستر پر ناک رگڑ رگڑ کر مرو گے یا جہاد میں شہید ہوگے۔ سب مقدر ہوچکا ہے اس سے کوئی مفر نہیں ہے) واذا تب بھی۔ اس صورت میں بھی۔ اذا اصل میں اذن تھا وقف کی صورت میں نون کو الف سے بدلا ۔ حرف جزاء ہے جملہ شرط محذوف۔ ای ان نفغکم الفرارکم یکن ذلک الا لزمان قلیل۔ لاتمتعون۔ مضارع منفی مجہول جمع مذکر حاضر۔ تم کو فائدہ حاصل کرنے نہیں دیا جائیگا۔ تم کو فائدہ نہیں دیا جائے گا۔ تمتع (تفعل) مصدر ۔ فائدہ اٹھانا۔ قلیلا : ای زمانا قلیلا۔ بہت تھوڑی ہی مدت کے لئے یعنی عمر مقدر کا بقیہ حصہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 آخر کار مرنا ہے اور خدا کے حضور حاضر ہونا ہے تو کیوں نہ اللہ کی راہ میں لڑ کر عزت کی موت مرو اور شہادت کا مرتبہ پائو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی بھاگ کر عمر نہیں بڑھ سکتی، کیونکہ اس کا وقت مقدر ہے اور جب مقدر ہے تو اگر نہ بھاگتے تو بھی وقت سے پہلے مر نہیں سکتے، پس نہ قرار بالقاف سے کوئی ضرر نہ فرار بالفاء سے کوئی نفع پھر بھاگنا محض بےعقلی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو مزید دو چیلنج۔ اس سے پہلے منافقین کو یہ وارننگ دی گئی کہ تمہاری وعدہ خلافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ تم سے ضرور بازپرس کرے گا اب ان کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ ان سے فرما دیجیے اگر تم موت یامیدان جنگ میں مارے جانے سے ڈرتے ہو تو اس بھاگنے کا تمہیں معمولی فائدہ ہوگا کیونکہ بالآخر تم موت سے بچ نہیں پاؤ گے۔ انہیں یہ بھی فرمادیجیے کہ جس نقصان سے بچنے کے لیے تم جنگ سے فرار اور بدعہدی کرتے ہو اگر اللہ تعالیٰ تمہیں نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرلے تو دنیا کی کونسی طاقت تمہیں اس سے بچا سکتی ہے اگر تم پر اپنی رحمت فرمانا چاہے تو کون اس کی رحمت کو ہٹا سکتا ہے یہ لوگ نقصان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہیں پاسکتے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہے وہ مومنوں کے لیے خاص ہے۔ منافق منافقت سے توبہ کیے بغیر اللہ کی رحمت کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو خوب جانتا ہے جو مسلمانوں کو جہاد سے روکتے ہیں اور خود بھی جہاد کے لیے نہیں نکلتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ابن عباس کو نصیحت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّيْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بچے ! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔ “ مسائل ١۔ طبعی یا غیر طبعی موت کا ایک دن مقرر ہے۔ ٢۔ ” اللہ “ کی پکڑ سے کوئی طاقت بچا اور چھڑا نہیں سکتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اپنی رحمت فرمانا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کا کوئی مددگار اور خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قل لن ینفعکم ۔۔۔۔۔۔ ولیا ولا نصیرا (16 – 17) حقیقت یہ ہے کہ تمام واقعات اللہ کے نظام قضا و قدر کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ نظام قضا و قدر ان واقعات و نتائج کو آگے بڑھاتا جاتا ہے اور ہر معاملہ اس نظام کے مطابق انجام کو پہنچتا ہے۔ موت اور قتل ایک تقدیر ہے ، اس سے تو کوئی قرار ممکن نہیں ہے ۔ یہ وقت پر آتی ہے۔ ایک لحظہ پہلے اور بعد میں نہیں آتی۔ فرار کی وجہ سے موت موخر نہیں ہوتی۔ اگر کوئی جنگ سے بھاگ گیا تو اپنی موت مرجائے گا جس کا وقت بہت قریب ہے۔ دنیا کا تو ہر عرصہ قریب ہی ہے۔ نیز دنیا کا ہر سازوسامان بھی قلیل ہوتا ہے۔ بچانے والا کوئی نہیں ہے صرف یہ کہ اللہ کی مشیت کسی کی موت کی راہ میں حائل ہوجائے۔ یہ اللہ ہی ہے جو کسی کے بارے میں برائی کا فیصلہ کرتا ہے اور کسی کے بارے میں اچھائی کا فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی والی اور مددگار نہیں ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جو کسی کو تقدیر الٰہی سے بچالے۔ لہٰذا سپردگی ، سپردگی ہے ، اطاعت ، اطاعت ہے ، وفا ، وفا ہے ، خواہ وہ سہولیات کے دور میں ہو یا مشکلات کے دور میں۔ تمام معاملات اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اللہ پر توکل کرنا چاہئے۔ وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے۔ اب بات کا رخ ان لوگوں کی طرف مڑ جاتا ہے جو جنگ میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں جو جہاد سے لاپرواہ ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اور جو دوسروں کو بھی جہاد سے روکتے ہیں اور کہتے ہیں۔ لا مقام لکم فارجعوا (33: 13) ” تمہارے ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ، لوٹ جاؤ “۔ اور ان کی عجیب تصویر یہاں کھینچی جاتی ہے۔ یہ تصویر سچی تصویر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین کارٹون ہے اور اس قسم کے لوگ ہر دور میں پائے جاتے ہیں ، بزدل ، پیچھے ہٹنے والے ، بہت چیخنے اور چلانے والے ، شدید حالات میں جزع و گزع کرنے والے اور پر امن حالات میں تیز و طرار بات کرنے والے ، ہر بھلائی کے معاملے میں کنجوس ، جدوجہد سے فراری۔ اگر ذرا بھی ڈر کا خطرہ ہو ، اگرچہ دور ہو تو ایک دم مضطرب ہونے والے۔ قرآن کا انداز تعبیر ایسا دلکش ہے کہ اس تصویر کے کسی رنگ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ ذرا خود قرآنی رنگ میں پڑھئے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پانچویں اور چھٹی آیت میں راہ فرار اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ اگر تم موت سے یا قتل کے ڈر سے بھاگ گئے تو تمہارا یہ بھاگنا تمہیں نفع نہ دے گا، اگر بھاگ گئے تو کتنا جیو گے ؟ اجل مقررہ کے مطابق موت تو آہی جائے گی اور عمر کا جو بقیہ حصہ ہے اس سے بھی زیادہ نفع حاصل نہیں کرسکتے، بھاگ کر عمر نہیں بڑھ سکتی کیونکہ اس کا وقت مقرر ہے۔ مزید فرمایا کہ ہر چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے اگر تم بھاگ گئے اور جہاں پہنچے وہاں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہلاک فرما دیا تو تمہیں اللہ سے کون بچا سکتا ہے ؟ اور وہ تم پر اپنا فضل فرمائے مثلاً تمہیں زندہ رکھے جو کہ ایک دنیاوی رحمت ہے تو اسے اس سے کون روک سکتا ہے ؟ ساتویں اور آٹھویں آیت میں بھی ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو دوسروں کو شرکت جہاد سے روک رہے تھے اور مسلمانوں کے حق میں اپنے قول اور فعل سے برا کردار ادا کر رہے تھے، ارشاد فرمایا اللہ ان لوگوں کو جانتا ہے جو دوسروں کو جنگ میں شریک ہونے سے روکتے ہیں اور اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آجاؤ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ ایک مخلص مسلمان غزوۂ خندق کے موقع پر اپنے سگے بھائی کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ وہ بھنا ہوا گوشت کھا رہا ہے اور اس کے پاس نبیذ (کھجوروں کا میٹھا پانی) پڑا ہے، یہ شخص منافق تھا، مخلص مسلمان (اس کا بھائی) جو اس کے پاس سے گزر رہا تھا، نے اس سے کہا تو یہاں ہے ؟ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیزوں اور تلواروں کے درمیان ہیں، اس پر بھنا ہوا گوشت کھانے والے شخص نے کہا کہ تو بھی میرے پاس آجا کہ اب تو تم لوگ ایسے گھیرے میں آگئے ہو کہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے، مخلص مسلمان نے کہا کہ تو جھوٹا ہے اللہ کی قسم میں تیری بات کی اطلاع رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کردوں گا، یہ صاحب امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت عالی میں پہنچے تو دیکھا کہ جبریل (علیہ السلام) یہ آیت کریمہ (قَدْ یَعْلَمُ اللّٰہُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ ) لے کر نازل ہوچکے ہیں۔ اور صاحب معالم التنزیل نے (جلد ٣ صفحہ ٥١٨) لکھا ہے کہ یہودیوں نے منافقوں کو کہلا بھیجا کہ تم لوگ ابو سفیان اور اس کی جماعت اور دوستوں کے ہاتھ پر کیوں اپنی جان کو تباہ کر رہے ہو، اگر اس مرتبہ انہوں نے تم پر قابو پالیا تو تم میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے، ہمیں تم پر ترس آ رہا ہے تم ہمارے بھائی ہو اور پڑوسی ہو ہمارے پاس آجاؤ، (اس صورت میں اخوان سے برادر نسبتی نہیں بلکہ برادر وطنی مراد ہوں گے) یہود کی باتوں سے متاثر ہو کر رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مومنین و مخلصین کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں جنگ کرنے سے روکنے لگے اور خوف زدہ کرنے لگے کہ دیکھو اگر ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں نے تم پر قابو پالیا تو تم میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے، تمہیں محمد (e) سے کس خیر کی امید ہے اس کی جنگ کا تو یہ حاصل ہے کہ ہم سب یہیں مقتول ہوجائیں گے، چلو ہم اپنے یہودی بھائیوں کے پاس چلے چلیں، منافقوں کی یہ بات سن کر اہل ایمان کا ایمان اور مضبوط ہوگیا اور ان میں ثواب کی امید اور زیادہ پکی ہوگئی۔ (وَلَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًا) (اور یہ لوگ یعنی منافقین لڑائی کے موقع پر جو حاضر ہوجاتے ہیں ان کا یہ حاضر ہونا بس ذرا سا نام کرنے کو ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ قل لن ینفعکم الخ ان راہ فرار ڈھونڈنے والوں سے کہہ دیجئے کہ بھاگ کر تم تقدیر الٰہی سے نہیں بچ سکتے۔ موت یا قتال جو بھی تمہارے مقدر میں ہے اس سے تم کہیں بھی بھاگ نہیں سکتے اور اگر جہاد سے فرار ہو کر تم نے اپنی جان بچا بھی لی، تم کو اس بچاؤ سے صرف چند روزہ فائدہ ہوگا۔ ہمیشہ کے لیے موت سے تھوڑا ہی بچ جاؤ گے آخر موت اپنے وقت پر لامحال آئے گی تو بھاگنے سے کیا فائدہ ؟

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

16۔ اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم موت یا قتل اور مارے جانے کے خوف سے بھاگنا چاہتے ہو تو یہ بھاگنا تم کو ہرگز نفع نہ دے گا اور ایسی حالت میں تم سوائے تھوڑے دنوں کے کوئی خاص فائدہ نہیں پاسکتے۔ یعنی یہ فرار کا ارادہ کرنے والے اگر موت یا قتل کے خوف سے بھاگ بھی جائیں گے تو موت ایک دن ضرور آنی ہے سوائے اس کے کہ جتنے دنوں کی زندگی مقدر ہے اتنے دنوں کوئی فائدہ حاصل کرلو اس سے زیادہ تو کوئی پھل نہیں پاسکتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس کی قیمت میں موت ہے اس کو بچائو نہ ہوگا بھاگے سے اور اگر موت نہیں تو بھاگ کر بچا کے دن ۔ 12 یعنی موت نہیں تو نہ فرار سے کوئی ضرر اور نہ فرار سے کوئی نفع ۔