Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 17

سورة الأحزاب

قُلۡ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَعۡصِمُکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ سُوۡٓءًا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ رَحۡمَۃً ؕ وَ لَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿۱۷﴾

Say, "Who is it that can protect you from Allah if He intends for you an ill or intends for you a mercy?" And they will not find for themselves besides Allah any protector or any helper.

پوچھئے!تو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی برائی پہنچانا چاہے یا تم پر کوئی فضل کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہیں بچا سکے ( یا تم سے روک سکے؟ ) اپنے لئے بجز اللہ تعالٰی کے نہ کوئی حمائتی پائیں گے نہ مدد گار ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Say: "Who is he who can protect you from Allah if He intends to harm you, or intends mercy on you!" And they will not find, besides Allah, for themselves any protector or any helper. meaning, they have no one else except Allah to respond to their cries.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

171یعنی تمہیں ہلاک کرنا، بیمار کرنا، یا مال و جائداد میں نقصان پہنچانا یا قحط سالی میں مبتلا کرنا چاہے، تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے ؟ یا اپنا فضل و کرم کرنا چاہے تو وہ روک سکے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٢] یعنی موت وحیات بھی سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دنیا میں عیش و آرام کرنا یا تکلیفیں اٹھانا بھی۔ اگر تمہارے مقدر میں موت آچکی ہے تو جنگ سے فرار کے بعد آہی جائے گی۔ اسی طرح اگر چند دن عیش و آرام تمہاری قسمت میں ہے تو تبھی تمہیں نصیب ہوسکتا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو ایک مخلص مومن کو بےپناہ جرأت عطا کرتا ہے۔ مگر منافق صرف ظاہری اسباب پر نظر رکھتے اور انھیں پر بھروسا کرتے ہیں۔ انھیں صرف دنیوی مفادات ہی عزیز ہوتے ہیں مگر اس حقیقت سے غافل ہیں انھیں وہی کچھ مل سکتا ہے جو اللہ انھیں دینا چاہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یونس (١٠٧) اور سورة زمر (٣٨) یعنی اپنے خیال میں تم نے عرب کے مشرکین سے بچنے کے لیے فرار اختیار کیا، لیکن اگر اللہ حکم دے اور مسلمان تمہیں اب قتل کردیں تو تمہیں کون بچائے گا، یا وہ تم پر رحم کا ارادہ کرے تو کون اس کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے ؟ بہرحال اللہ کی گرفت سے انھیں کوئی حمایتی یا مددگار نہیں بچا سکے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللہِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْۗءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَۃً۝ ٠ ۭ وَلَا يَجِدُوْنَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا۝ ١٧ عصم العَصْمُ : الإمساکُ ، والاعْتِصَامُ : الاستمساک . قال تعالی: لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] ، أي : لا شيء يَعْصِمُ منه، ( ع ص م ) العصم کے معنی روکنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ [هود/ 43] آج خدا کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بعض نے لاعاصم کے معنی کا معصوم بھی کئے ہیں یعنی آج اللہ کے حکم سے کوئی بیچ نہیں سکے گا رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

آپ ان سے فرما دیجیے کہ وہ کون ہے جو تمہیں عذاب خداوندی سے بچا سکے اگر وہ تمہیں قتل کے ذریعے سے عذاب دینا چاہے اور اگر وہ تمہیں قتل سے بچانا چاہے تو وہ کون ہے جو تم سے اللہ کے اس فضل کو روک سکے اور یہ بنی حارثہ والے عذاب خداوندی کے مقابلہ میں نہ کوئی اپنا محافظ پائیں گے کہ وہ ان کی مدد کرسکے اور نہ کوئی مددگار جو عذاب الہی سے ان کو بچا سکے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ قُلْ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَعْصِمُکُمْ مِّنَ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَ بِکُمْ سُوْٓئً ا اَوْ اَرَادَ بِکُمْ رَحْمَۃً } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ کون ہے وہ جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہے اگر وہ ارادہ کرے تمہارے ساتھ نقصان کا ؟ یا (اُس کی رحمت کو روک سکتا ہے) اگر وہ ارادہ کرے تمہارے ساتھ رحمت کا ؟ “ وہ تمہارے ساتھ جیسا بھی معاملہ کرنا چاہے کوئی اس کے آڑے نہیں آسکتا۔ { وَلَا یَجِدُوْنَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلَا نَصِیْرًا } ” اور یہ لوگ نہیں پائیں گے اپنے لیے اللہ کے مقابلے میں کوئی حمایتی اور نہ کوئی مدد گار۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:17) قل ای قل یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یعصمکم : یعصم مضارع واحد مذکر غائب عصم مصدر (باب ضرب) وہ بچائے گا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ (کون) بچائے گا تم کو۔ عصمۃ۔ حفاظت۔ بچاؤ۔ گناہوں سے پاکیزگی۔ لہم۔ ان کے لئے ، اپنے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مثلا وہ تم کو ہلاک کرنا چاہے تو کیا تم کو کوئی بچا سکتا ہے جیسا تم فرار کو نافع خیال کرتے ہو۔ 6۔ مثلا وہ زندہ رکھنا چاہے جو کہ رحمت دنیویہ ہے، تو کوئی اس کا مانع نہیں ہوسکتا، جیسا تمہارا خیال ہے کہ ثبات فی المعرکہ کو قاطع حیات سمجھتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ قل من الِ اس آیت میں حذف ہے از قبیل علفتہا تبنا و ماء باردا، اصل میں تھا۔ او من ذا الذی یمنع رحمۃ اللہ منکم ان اراد بکم رحمۃ (روح ج 21 س 163) ۔ اس آیت میں پہلی آیت ہی کے مضمون کو ایک نئے انداز میں اور ذرا تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر کے آگے کسی کا بس نہیں چل سکتا۔ اللہ کی طرف سے تمہارے لیے جو تکلیف اور دکھ مقدر ہے اس سے تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اور نہ اللہ کی رحمت ہی سے تمہیں کوئی محروم کرسکتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کا کارساز اور یار و مددگار نہیں جو تکلیف اور مصیبت سے کسی کو بچا سکے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17۔ آپ ان سے فرمایئے اگر اللہ تعالیٰ تم کو کوئی برائی پہنچانی چاہے یا وہ تم پر کوئی مہربانی کرنی چاہے تو وہ کون ہے جو اس برائی سے تم کو بچا لے یا اس کی مہربانی کو تم سے روک دے اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کو اپنا حمایتی پائیں گے نہ مدد گار ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اگر کوئی چیز نازل کرنی چاہے اور اتارنی چاہے خواہ وہ کوئی برائی اور سختی ہو جیسے قتل وغیرہ کا کوئی عذاب یا نعمت جیسے عمر کی درازی وغیرہ تو اللہ تعالیٰ کو اس کی مشیت اور ارادہ سے کون روک سکتا ہے اور ہٹا سکتا ہے اور تم اس سختی سے کس طرح بچ سکتے ہو یا اس کی مہربانی سے کس طرح محروم رہ سکتے ہو اس کے سوا نہ کوئی تمہارا حمایتی ہے اور نہ مدد گا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عرب کی مخالفت سے ڈرتے ہو اگر اللہ حکم دے تو مسلمان اب تم کو قتل کر ڈالیں۔ 12 مسئلہ قدر کے پیش نظر یہ بات سمجھائی کہ میدان جنگ میں ٹھہرے رہنا زندگی کے منافی نہیں اور معرکہ جنگ سے بھاگ جانا زندگی کے لئے مفید نہیں پھر بھاگنے کی فکر کیوں کرتے ہو آگے پھر منافقوں پر تنقید فرمائی۔