Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 55

سورة الأحزاب

لَا جُنَاحَ عَلَیۡہِنَّ فِیۡۤ اٰبَآئِہِنَّ وَ لَاۤ اَبۡنَآئِہِنَّ وَ لَاۤ اِخۡوَانِہِنَّ وَ لَاۤ اَبۡنَآءِ اِخۡوَانِہِنَّ وَ لَاۤ اَبۡنَآءِ اَخَوٰتِہِنَّ وَ لَا نِسَآئِہِنَّ وَ لَا مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ ۚ وَ اتَّقِیۡنَ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدًا ﴿۵۵﴾

There is no blame upon women concerning their fathers or their sons or their brothers or their brothers' sons or their sisters' sons or their women or those their right hands possess. And fear Allah . Indeed Allah is ever, over all things, Witness.

ان عورتوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں اور اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی ( میل جول کی ) عورتوں اور ملکیت کے ماتحتوں ( لونڈی غلام ) کے سامنے ہوں ( عورتو! ) اللہ سے ڈرتی رہو ۔ اللہ تعالٰی یقیناً ہرچیز پر شاہد ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Relatives before Whom a Woman does not need to observe Hijab Allah says: لاَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي ابَايِهِنَّ وَلاَ أَبْنَايِهِنَّ وَلاَ إِخْوَانِهِنَّ وَلاَ أَبْنَاء إِخْوَانِهِنَّ وَلاَ أَبْنَاء أَخَوَاتِهِنَّ وَلاَ نِسَايِهِنَّ وَلاَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ... It is no sin on them before their fathers, or their sons, or their brothers, or their brother's sons, or the sons of their sisters, or their own (believing) women, or their (female) slaves. And (O ladies) have Taqwa of Allah. Verily, Allah is Ever All-Witness over everything. When Allah commands women to observe Hijab in front of men to whom they are not related, He explains who are the relatives before whom they do not need to observe Hijab. This is like the exceptions stated in Surah An-Nur, where Allah says: وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَأيِهِنَّ أَوْ ءَابَأءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَأيِهِنَّ أَوْ أَبْنَأءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِى إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِى أَخَوَتِهِنَّ أَوْ نِسَأيِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـنُهُنَّ أَوِ التَّـبِعِينَ غَيْرِ أُوْلِى الاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُواْ عَلَى عَوْرَتِ النِّسَأءِ And not to reveal their adornment except to their husbands, or their fathers, or their husbands' fathers, or their sons, or their husbands' sons, or their brothers, or their brothers' sons, or their sisters' sons, or their women, or their right hand possessions, or the Tabi`in among men who do not have desire, or small children who are not aware of the nakedness of women. (24:31) The Ayah contains more detail than this, which we have already discussed in the Tafsir of the Ayah and do not need to repeat here. Ibn Jarir recorded that Ash-Sha`bi and Ikrimah said concerning the Ayah, لاَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي ابَايِهِنَّ (It is no sin on them before their fathers...), I said, "What about the paternal uncle and the maternal uncle -- why are they not mentioned!" He said: "Because they may describe her to their sons, so it is disliked for a woman to remove her covering in front of her paternal uncle or maternal uncle." وَلاَ نِسَايِهِنَّ (or their own women), means that they do not have to observe Hijab in front of other believing women. وَلاَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ (or their (female) slaves. Sa`id bin Al-Musayyib said: "This means female slaves only." This was recorded by Ibn Abi Hatim. ... وَاتَّقِينَ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا And (O ladies) have Taqwa of Allah. Verily, Allah is Ever All-Witness over everything. means, and fear Him in private and in public, for He witnesses all things and nothing is hidden from Him, so think of the One Who is always watching.

پردہ کی تفصیلات چونکہ اوپر کی آیتوں میں اجنبیوں سے پردے کا حکم ہوا تھا اس لئے جن قریبی رشتہ داروں سے پردہ نہ تھا ان کا بیان اس آیت میں کر دیا ۔ سورہ نور میں بھی اسی طرح فرمایا کہ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں ، باپوں ، سسروں ، لڑکوں ، خاوند کے لڑکوں ، بھائیوں ، بھتیجوں ، بھانجوں ، عورتوں اور ملکیت جن کی ان کے ہاتھوں میں ہو ۔ ان کے سامنے یا کام کاج کرنے والے غیر خواہشمند مردوں یا کمسن بچوں کے سامنے ۔ اس کی پوری تفسیر اس آیت کے تحت میں گذر چکی ہے ۔ چچا اور ماموں کا ذکر یہاں اس لئے نہیں کیا گیا کہ ممکن ہے وہ اپنے لڑکوں کے سامنے ان کے اوصاف بیان کریں ۔ حضرت شعبی اور حضرت عکرمہ تو ان دونوں کے سامنے عورت کا دوپٹہ اتارنا مکروہ جانتے تھے ۔ نسائھن سے مراد مومن عورتیں ہیں ۔ ماتحت سے مراد لونڈی غلام ہیں ۔ جیسے کہ پہلے ان کا بیان گذر چکا ہے اور حدیث بھی ہم وہیں وارد کر چکے ہیں ۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں اس سے مراد صرف لونڈیاں ہی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو ۔ اللہ ہر چیز پر شاہد ہے ۔ چھپا کھلا سب اسے معلوم ہے ۔ اس موجود اور حاضر کا خوف رکھو اور اس کا لحاظ کرتی رہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 جب عورتوں کے لئے پردے کا حکم نازل ہوا تو پھر گھروں میں موجود اقارب یا ہر وقت آنے جانے والے رشتے داروں کی بابت سوال ہوا کہ ان سے پردہ کیا جائے یا نہیں ؟ چناچہ اس آیت میں ان اقارب کا ذکر کردیا گیا جن سے پردے کی ضرورت نہیں۔ اس کی تفصیل (وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ) 24 ۔ النور :31) میں بھی گزر چکی ہے، اسے ملاحظہ فرما لیا جائے۔ 55۔ 2 اس مقام پر عورتوں کو تقوٰی کا حکم دے کر واضح کردیا کہ اگر تمہارے دلوں میں تقوٰی ہوگا تو پردے کا جو اصل مقصد، قلب و نظر کی طہارت اور عصمت کی حفاظت ہے، وہ یقینا تمہیں حاصل ہوگا، ورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمہیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچاسکیں گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٤] کون کون سے رشتہ دار محرم ہیں ؟۔ اس آیت میں ان محرم رشتہ داروں کا ذکر ہے۔ جو نبی کے گھر میں آجاسکتے ہیں اور ان سے پردہ کی ضرورت نہیں۔ یا لونڈی غلام وغیرہ اور ان کی تفصیل پہلے سورة نور کی آیت ٣١ کے حواشی کے تحت گزر چکی ہے۔ پھر ان میں رضاعی رشتے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پردہ کا حکم اترنے کے بعد ابو القُعَیْس کے بھائی افلح نے (جو میرے رضاعی چچا تھا) مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ میں نے جواب دیا کہ میں نبی اکرم سے پوچھے بغیر اجازت نہیں دے سکتی۔ کیونکہ افلح کے بھائی ابو القعیس نے تو مجھے دودھ نہیں پلایا تھا بلکہ اس کی بیوی نے پلایا تھا۔ جب آپ تشریف لائے تو میں نے عرض کیا &&: یارسول اللہ ! ابو القعیس کے بھائی افلح نے مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگی تھی تو میں نے اسے کہا کہ جب تک آپ سے پوچھ نہ لوں اجازت نہیں دے سکتی && آپ نے فرمایا : && تم نے اپنے چچا کو اجازت کیوں نہ دی ؟ && میں نے عرض کیا :&& یارسول اللہ ! مجھے دودھ مرد نے تو نہیں پلایا وہ تو ابو القعیس کی بیوی نے پلایا تھا && آپ نے فرمایا : && تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ اسے اندر آنے کی اجازت دو ، وہ تمہارا چچا ہے && عروہ بن زبیر (سیدہ عائشہ (رض) کے بھانجے) کہتے ہیں کہ اسی لئے سیدہ عائشہ (رض) کہتی تھیں کہ && جتنے رشتے خون کی وجہ سے حرام سمجھتے ہو دودھ کی وجہ سے بھی وہ حرام ہیں && (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٩٥] یعنی اللہ یہ چیز دیکھ رہا ہے کہ جو احکام تمہیں پردہ سے متعلق دیئے جارہے ہیں۔ اللہ سے ڈر کر ان پر کس قدر عمل پیرا ہوتی ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـهِنَّ ۔۔ : یعنی ان رشتہ داروں کے سامنے آنے اور حجاب کے بغیر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے محرم رشتہ داروں کا بھی یہی حکم ہے، خواہ نسبی ہوں یا رضاعی۔ پردے کے متعلق امہات المومنین کا حکم بھی وہی ہے جو عام مسلمان عورتوں کا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نور کی آیت (٣١) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا جُنَاحَ عَلَيْہِنَّ فِيْٓ اٰبَاۗىِٕـہِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗىِٕہِنَّ وَلَآ اِخْوَانِہِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اِخْوَانِہِنَّ وَلَآ اَبْنَاۗءِ اَخَوٰتِہِنَّ وَلَا نِسَاۗىِٕـہِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُنَّ۝ ٠ ۚ وَاتَّـقِيْنَ اللہَ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدًا۝ ٥٥ جناح وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ «1» في غير موضع، وجوانح الصدر : الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (لا جناح علیھن فی ابآء ھن ولا ابنآئھن ان (رسول کی ازواج) پر کوئی گناہ نہیں (سامنے آنے میں) اپنے باپوں کے ، اپنے بیٹوں کے) تاآخر آیت ۔ قتادہ کا قول ہے کہ آیت مذکورہ افراد سے ازواج مطہرات کو کنار کش نہ رہنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے محرم رشتہ داروں اور ملنے جلنے والی خواتین کا ذکر کیا ہے۔ ان خواتین سے ۔ واللہ اعلم۔ آزاد عورتیں مراد ہیں (ولا ماملکت ایمانھن۔ اور نہ اپنی لونڈیوں کے) اس سے لونڈیاں مراد ہیں۔ کیونکہ عورتوں پر نظر ڈالنے کی اباحت کی جو صورتیں ہیں ان میں غلام اور لونڈی دونوں کا حکم یکساں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ازواج مطہرات پر اور عام مسلمانوں کی عورتوں پر اپنے باپوں کے سامنے آنے کے بارے میں اور بالمشافہ ان سے بات چیت کرنے میں کوئی گناہ نہیں اور اسی طرح کوئی گناہ نہیں ہے، اپنے بیٹوں اور بھائیوں اور اپنے بھتیجوں اور بھانچوں اور اپنی عورتوں اور اپنی باندیوں کے سامنے آنے میں اور ان سے گفتگو کرنے میں۔ باقی ان تمام احکام کے پورے کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو وہ تمہارے تمام کاموں سے باخبر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { لاَ جُنَاحَ عَلَیْہِنَّ فِیْٓ اٰبَآئِہِنَّ } ” کوئی حرج نہیں اُن (ازواجِ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے باپوں کے معاملے میں “ جیسے حضرت ابوبکر صدیق (رض) اگر چاہیں تو اپنی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے گھر میں آئیں یا حضرت عمرفاروق (رض) اپنی بیٹی حضرت حفصہ (رض) کے گھر میں آئیں ‘ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ { وَلَآ اَبْنَآئِہِنَّ وَلَآ اِخْوٰنِہِنَّ } ” اور نہ (کوئی حرج ہے) ان کے بیٹوں کے بارے میں ‘ اور نہ ان کے بھائیوں کے بارے میں “ { وَلَآ اَبْنَآئِ اِخْوٰنِہِنَّ وَلَآ اَبْنَآئِ اَخَوٰتِہِنَّ } ” اور نہ ان کے بھائیوں کے بیٹوں کے بارے میں اور نہ ان کی بہنوں کے بیٹوں کے بارے میں “ { وَلَا نِسَآئِہِنَّ وَلَا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ } ” اور نہ ان کی جان پہچان کی عورتوں کے بارے میں اور نہ ہی ان کی ِملک یمین کے بارے میں۔ “ لغوی مفہوم کے اعتبار سے ” ملک یمین “ میں غلام اور باندیاں سب شامل ہیں ‘ لیکن اکثر و بیشتر اہل سنت علماء کے نزدیک یہاں اس سے صرف باندیاں مراد ہیں۔ اس آیت میں واضح طور پر عورتوں کے لیے محرم مردوں کی ایک فہرست فراہم کردی گئی ہے ‘ جیسے کہ سورة النساء کی آیت ٢٣ میں مردوں کے لیے محرم عورتوں کی فہرست دی گئی ہے۔ اس کو یوں سمجھئے کہ اس مضمون کا مرکزی نقطہ (nucleus) زیر نظر آیت میں ہے ‘ جبکہ سورة النساء کی مذکورہ آیت میں اس کی مزید تفصیل فراہم کر کے ” محرماتِ ابدیہ “ کی فہرست کو مکمل کردیا گیا ہے جن سے کبھی بھی کسی صورت میں بھی نکاح جائز نہیں ہے۔ بہر حال آیت میں مذکور رشتوں کے علاوہ متعلقہ عورتوں کے لیے باقی تمام مرد غیر محرم ہیں اور انہیں گھر کے اندر زنان خانے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی غیر محرم مرد کو گھر کی کسی خاتون سے کوئی بات کرنی ہو تو وہ پردے کے پیچھے رہ کر بات کرے اور اگر کسی وجہ سے کسی غیر محرم مرد کا گھر کے اندر داخلہ ناگزیر ہو تو بھی اہتمام کیا جائے کہ کسی خاتون سے اس کا سامنا نہ ہو۔ اسلامی طرز معاشرت کا یہی طریقہ ہے۔ اس حوالے سے قبل ازیں آیت ٥٣ کی تشریح کے ضمن میں حضرت عائشہ (رض) کی مثال بیان ہوچکی ہے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شخص کو حجرہ مبارک کے اندر آنے کی اجازت مرحمت فرماتے تو علیحدہ جگہ نہ ہونے کے باعث حضرت عائشہ (رض) ایک کونے میں دیوار کی طرف رخ کیے بیٹھی رہتی تھیں تا وقتیکہ وہ صاحب چلے جاتے۔ { وَاتَّقِیْنَ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدًا } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویو ! ) تم اللہ سے ڈرتی رہو۔ یقینا اللہ ہرچیز پر گواہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

102 For explanation, see E.N.'s 38 to 42 of Surah An-Nur. 'Allama Alusi's commentary in this connection is also noteworthy. He says, "Brothers and sons of brothers and sisters include aII those relatives who are unlawful for a woman, whether they are blood relations or foster relations. This list does not mention the paternal and maternal uncles because they are like the parents to the woman, or perhaps they have been left out because there was no need to mention them after mentioning their sons, For the reason for not observing purdah from the brother's son and sister's son is the same as of not observing it from the paternal and maternal uncles." (Ruh al-Ma ani.) 103 For explanation, see E. N. 43 of An-Nur. 104 For explanation, see E. N. 44 of An-Nur. 105 It means this: After the coming down of this absolute Command no person outside the circle of the relatives, who have been made an exception, should be allowed to enter the houses without purdah being observed from them, " Another meaning is: "The woman should never adopt the attitude that they should observe purdah when the husband is present, but should appear without purdah before the other men, when he is away. Such a conduct may remain hidden from the husband but not from Allah.

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :102 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورہ نور حواشی نمبر ۳۸ تا ٤۲ ۔ اس سلسلے میں علامہ آلوسی کی یہ تشریح بھی قابل ذکر ہے کہ بھائیوں ، بھانجوں ، اور بھتیجوں کے حکم میں وہ سب رشتہ دار آجاتے ہیں جو ایک عورت کے لیے حرام ہوں ، خواہ وہ نَسَبی رشتہ دار ہوں یا رضاعی ۔ اس فہرست میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ عورت کے لیے بمنزلۂ والدین ہیں ۔ یا پھر ان کے ذکر کو اس لیے ساقط کر دیا گیا کہ بھانجوں اور بھتیجوں کا ذکر آ جانے کے بعد ان کے ذکر کی حاجت نہیں ہے ، کیونکہ بھانجے اور بھتیجے سے پردہ نہ ہونے کی جو وجہ ہے وہی چچا اور ماموں سے پردہ نہ ہونے کی وجہ بھی ہے ۔ ( رعحالمعانی ) سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :103 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ٤۳ ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :104 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ٤٤ ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :105 اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم قطعی کے آ جانے کے بعد آئندہ کسی ایسے شخص کو گھروں میں بے حجاب آنے کی اجازت نہ دی جائے جو ان مستثنیٰ رشتہ داروں کے دائرے سے باہر ہو ۔ دوسرا مطلب یہ بھی کہ خواتین کو یہ روش ہرگز نہ اختیار کرنی چاہیے کہ وہ شوہر کی موجودگی میں تو پردے کی پابندی کریں مگر جب وہ موجود نہ ہو تو غیر محرم مردوں کے سامنے پردہ اٹھا دیں ۔ ان کا یہ فعل چاہے ان کے شوہر سے چھپا رہ جائے خدا سے تو نہیں چھپ سکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

46: جیسا کہ سورۂ نور (۲۴:۳۱) میں گذر چکا ہے، بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں، لہٰذا غیر مسلم عورتوں سے بھی پردہ ضروری ہے، لیکن چونکہ متعدّد احادیث سے ثابت ہے کہ غیر مسلم عورتیں ازواجِ مطہراتؓ کے پاس جایا کرتی تھیں، اس لئے امام رازی ؒاور علامہ آلوسیؒ نے اِس بات کو ترجیح دی ہے کہ ’’اپنی عورتوں‘‘ سے مراد اپنے میل جول کی عورتیں ہیں، چاہے مسلمان ہوں یا کافر، اُن سے پردہ واجب نہیں ہے۔ جن مزید لوگوں سے پردہ واجب نہیں ہے، ان کی تفصیل سورۂ نور کی مذکورہ آیت میں گذر چکی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٥۔ جب اللہ نے اجنبی آدمیوں سے پردہ کا حکم کردیا تو فرمایا کہ ان رشتہ داروں سے پردہ وہ واجب نہیں ہے جس طرح سورة نور میں گزر چکا حاصل یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے باپ بیٹے بھائی بھتیجے بھانجے مسلمانوں کی عورتوں اور غلام سے پردہ نہیں ہے سورة نور میں پردہ کی تفصیل زیادہ ہے پھر فرمایا اللہ کے رسول کی بیویوں کو ان حکموں کی پابندی میں ظاہر اور باطن میں اللہ سے ڈرنا چاہئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو ظاہر اور باطن کا سب حال معلوم ہے ‘ ابوداؤد بیہقی اور تفسیر ابن مردویہ میں انس بن مالک (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے (٣ ؎ نیل الاو طار ص ٢٤٥ ج ٦ نبز دیکھئے مشکوۃ باب النظرالی المخطوبہ وبیان العورات فصل دوسری۔ ) جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غلام حضرت فاطمہ (رض) کہ ہبہ کیا تھا جب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غلام کو حضرت فاطمہ (رض) کے پاس لائے تو حضرت فاطمہ اس سبب سے شرمانے لگیں کہ ان کے اوڑھنے کی چادر چھوٹی تھی اس پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس وقت یہاں تمہارے باپ یا غلام دوہی شخص ہیں شرمانے کی کوئی بات نہیں ہے اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابوجمع سالم بن دنیاء ہے جن کو بعضے علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ابن معین سالم بن دنیار کو ثقہ قرار دیا ہے ‘ یحییٰ بن معین (رح) امام احمد (رح) بخاری (رح) مسلم (رح) اور ابوداؤد (رح) کے استاد ہیں راویوں کے باب میں بڑا اعتبار ہے اس واسطے یہ روایت معتبر ہے اس حدیث اور اسی مضمون کی اور حدیثوں کے موافق حضرت عائشہ (رض) سعید بن مسیب امام شافع اور ایک قول میں امام احمد (رح) کا یہ مذہب ہے کہ غلام سے پردہ نہیں ہے لیکن اکثر سلف غلام سے پردہ کرنے کے قائم ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جن حدیثوں میں غلاموں سے پردہ نہ کرنے کا ذکر ہے وہ چھوٹی عمر کے غلام تھے بالغ نہیں تھے ان لوگوں کے نزدیک ماملکت ایمانکم کی تفسیر میں بھی وہی چھوٹی عمر کے غلام لیے گئے ہیں زیادہ تفصیل اس مسئلہ کی بڑی کتابوں میں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:55) ولا جناح علیھن فی ابائہن۔ لا اثم علیہن فی ترک الحجاب من ابائہن۔ یعنی باپ بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے کے سامنے مسلمان عورتیں اور لونڈیاں بلا حجاب آجا سکتی ہیں۔ نسائہن ان کی (شریک دین) عورتیں۔ عام مسلمان عورتیں۔ اتقین۔ فعل امر جمع مونث حاضر۔ (اتقاء ) (افتعال) مصدر۔ وقی مادہ۔ تم عورتیں ڈرتی رہو۔ پرہیزگار بنی رہو۔ خطاب ازواج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے غیبت سے خطاب کی طرف التفات تقوی کی اہمیت کو ذہن نشین کرانے کے لئے ہے۔ شھیدا کان کی خبر ہے۔ گواہ، شاہد۔ نگران۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اور ان کی اقتدا میں تمام مسلمان عورتوں کو۔8 ان کے حکم میں تمام وہ رشتہ دار آجاتے ہیں جو عورت کے محارم میں سے ہیں۔ تشریح کیلئے دیکھئے۔ ( سورة نور : 31) اس فہرست میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا کہ وہ بمنزلہ والدین کے ہیں۔ (شوکانی) ۔ ہاں چچا و ماموں، خالہ اور پھوپھی سے پردہ ضروری ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی بیوی کے چچا زاد بھائی گو اسکے پاس آنے سے منع فرما دیا تھا۔ ) ابن جریر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 55 تا 58 لا جناح : کوئی گناہ نہیں ہے اتقین : ڈرتی رہیں یصلون : رحمتیں بھیجتے ہیں۔ درود بھیجتے ہیں سلموا : سلام بھیجو تسلیما : خوب سلما بھیجنا یوذون : تکلیف پہنچاتے ہیں لعن : اس نے لعنت کی ۔ رحمت سے دور کیا اکتسبوا : تم نے کمائی کی۔ تم نے کمایا احتملوا : انہوں نے اٹھا لیا بھتان : بہتان ۔ الزام اثما مبینا : کھلا گناہ تشریح آیت نمبر 55 تا 58 اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےانتہا ادب و احترام کرنے کے احکامات ارشاد فر مائے ہیں ۔ اور اس زمانہ کے رواج کے برخلاف یہ فرمایا تھا کہ جب تک ان کو گھروں پر آنے کی دعوت نہ دی جائے تو اس وقت تک وہ بغیر اجازت کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں داخل نہ ہو اور اگر وہ آئیں اور ان کی ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے سوال کریں ۔ حجاب کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے تمام صحابیات (رض) نے بھی اپنے گھروں پر پردے لٹالئے تھے۔ حجاب کے اس حکم کے تحت سوائے محرم رشتہ داروں کے ہر ایک رشتہ دار اور تعلقات والوں پر پردے کی پابندی لگا دی گئی تھی۔ زیر مطالعہ آیات میں سب سے پہلے ان محرم رشتہ داروں کی تفصیل بیان کی گئی ہے جن سے پردہ نہیں ہے اور پھر اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ، عظمت اور آپ کا ادب و احترام سکھایا گیا ہے۔ فرمایا کہ باپ، بیٹا ، بھائی ، بھتیجہ، بھانجہ، مسلمان عورتیں اور کنیزیں ان سب کو گھروں میں آنے اور جانے کی اجازت ہے ان پر کوئی پابندی نہیں ہے ۔ اس کی کچھ تفصیل سورة نور میں بھی گذر چکی ہے۔ ان ہی آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات سے اور ان کے واسطے سے پوری امت کی خواتین سے فرمایا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں خوف الہی کا دامن تھامے رہیں اور اپنے ہر عمل کی نگرانی کرتی رہیں کیونکہ اللہ سے ان کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ ہر ایک کے احوال سے پوری طرح واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب احترام اور تعظیم و تکریم کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک آپ کی شان عظمت اتنی زیادہ ہے کہ اللہ ان پر دن رات اپنی رحمتوں کی بارش فر ما رہا ہے اس کے پاکیزہ فرشتے ہر آن ان کے لئے دعائے رحمت کر رہے ہیں لہذا اہل ایمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اللہ کے محبوب نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کثرت سے صلوۃ وسلام بھیجنے کی سعادت حاصل کریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے اللہ کو اور اس کے رسول کو ذہنی ، جسمانی یا روحانی اذیت پہنچنے کا امکان بھی ہو کیونکہ جو لوگ ایسا کریں گے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنتیں برستی رہیں گی۔ ان آیات کی کچھ وضاحتیں : (1) باپ ، بھائی، اور بھانجوں کے حکم میں وہ سب رشتہ دار شامل ہیں جو ایک عورت کے لئے محرم کا درجہ رکھتے ہیں خواہ وہ نسب کے اعتبار سے رشتہ دار ہوں یا رضاعی (دودھ شریک ) لحاظ سے ہوں ۔ (محرم اس کو کہتے ہیں جس سے ہمیشہ کے لئے نکاح کرنا حرام ہو) ان آیات میں دادا ، چچا اور ماموں کا ذکر نہیں ہے حالانکہ وہ بھی ایک عورت کے محرم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک عورت کے لئے ماں اور باپ کا درجہ رکھتے ہیں ۔ جب بھانجوں اور بھتیجوں کا ذکر فرمادیا تو اب ان کا نام لینے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ بھتیجے اور بھانجے سے پردہ نہ کرنے کا جو سبب ہے وہی چچا اور ماموں سے پردہ نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ (2) قرآن کریم میں لفظ صلوۃ آیا ہے جس کا ترجمہ ہم فارسی زبان کے ایک لفظ ” درود “ سے کرتے ہیں اور عام طور پر اس آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو ! تم بھی ان پر خوب درود سلام بھیجو۔ یہ ترجمہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک صلوۃ کا ترجمہ صرف درود شریف ہے حالانکہ لفظ صلوۃ اپنے اندر بہت سے معنی کی وسعت رکھتا ہے ۔ رحمت، دعا ، نماز ، درود وغیرہ ۔ اس لفظ کی نسبت اگر عبادت کی طرف کی جائے گی تو اس سے نماز مراد ہوگی۔ اسی طرح اگر اس لفظ کی نسبت اللہ کی طرف ہوگی تو اس سے مراد رحمتیں بھیجنا ، فرشتوں کی طرف ہوگی تو اس کے معنی دعائے رحمت کے ہوتے ہیں اور جب اس لفظ کی نسبت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہوگی تو اس سے مراد درود شریف ہوگا اور اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا جائے گا کہ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمتیں بھیجتے اور فرشتے دعائے رحمت کرتے ہیں اے مومنو ! تم بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خوب کثرت سے سے درود وسلام بھیجو۔ یہ کہ ترجمہ اللہ اور اس کے فرشتے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں یہ ترجمہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے فائدہ اٹھا کر اہل بدعت نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام اللہ سے بھی بڑھا کر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ (3) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ، شان اور رتبہ کا اظہار کرنے کے لئے فرمایا کہ اللہ آپ پر بہت مہربان ہے اور آپ کی تعریف فرماتا ہے لہذا اب ہر مومن پر یہ واجب ہے کہ وہ آپ کے لئے صلوۃ یعنی دعا اور ان کی مدح و ثنا جتنی کرسکتا ہو وہ کرے اور آپ پر خوب سلام بھیجنے کی سعادت حاصل کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا بلند رتبہ اور عظیم مقام عطا فرمایا ہے کہ اکثر نماز ، اذان ، اقامت اور کلمہ طیبہ وغیرہ میں آپ کا ذکر مبارک شامل فرمایا ہے۔ اللہ نے آپ کو دین اسلام کے وہ زرین اصول عطا فرمائے ہیں جنہیں آپ نے تمام مذاہب پر غالب کر کے دکھایا اور ان اصولوں کو پھیلانے میں آپ نے دن رات جدو جہد فرمائی اور کفار و مشرکین کی شدید مزاحمت کے باوجود آپ نے صحابہ کرام (رض) کی ایک ایسی پاکیزہ جماعت تیار فرمائی جن پر کائنات کی تمام طاقتوں کو ناز ہے۔ اللہ نے آپ کو قرآن کریم کے ذریعہ جن زرین اصولوں کی تعلیم دی ہے اس کی حفاظت کا خود ہی ذمہ لیا ہے اور آپ کی برکت سے شریعت کے تمام اصولوں پر قیامت کے دن تک عمل ہوتا رہے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارے رسولوں اور نبیوں کے آخر میں بھیج کر آپ کر سر پر ختم نبوت کا تاج سجادیا ہے جس سے آپ کا رتبہ و مقام اللہ کے بعد ساری مخلوق سے زیادہ ہوگیا ہے ۔ قیامت کے ہولناک دن جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی اور کوئی کسی کو نہ پوچھے گا اس وقت آپ نہ صرف اپنی امت کی بلکہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کی اللہ کی بارگاہ میں شفاعت فرمائیں گے۔ اللہ نے آپ کو مقام محمود عطا فرمایا ہے جہاں آپ اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ ایسے پیارے اور محبوب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دن رات تعریف و توصیف نہ کرنا ایک بہت بڑی محرومی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رتبہ اور مقام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ان آیات کے آخر میں فرمایا کہ جو لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب و احترام نہیں کرتے اور اپنے طرز عمل سے ان کو دکھ پہنچاتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ نہ صرف دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے بلکہ ان کے لئے ایک ایسا عذاب تیار کر رکھا ہے جو ان کو دنیا اور آخرت میں ذلیل و رسوا کر کے چھوڑ گا۔ اسی طرح وہ مومن مر اور مومن عورتیں جو بےقصور ہیں جن کو یہ کفار ستاتے ، ان پر تہمتیں لگاتے اور انہیں دکھ پہنچاتے ہیں اور انہیں اپنی جھوٹی اور من گھڑت باتوں سے نیچا دکھانا چاہتے ہیں تو ایسے لوگ در حقیقت اپنی گردن پر گناہوں کے بوجھ رکھتے چلے جا رہے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں ایسے لوگوں کی سزا مقرر کردی گئی ہے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ (4) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ وہ شخص ذلیل و رسوا ہوجائے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔ (ترمذی) اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ وہ شخص کنجوس ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ پر ہے۔ (ترمذی) پوری زندگی میں ایک مرتبہ درود شریف پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ اور جب بھی آپ کا نام مبارک آئے تو اسی وقت آپ پر درود بھیجنا مستحب ہے ۔ ” (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ کہنے سے بھی حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ جو شخص نماز پڑھتاوہ التحیات میں سلام بھیجتا ہے اور آخر میں درود شریف پڑھتا ہے لہذا جو شخص بھی نماز ادا کرتا ہے وہ اس حکم کی تعمیل کر کے درود سلام بھیجتا ہے اور جو نماز نہیں پڑھتا یا نماز کا منکر ہے وہی درود سلام کا منکر ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی اس سے کوئی امر مخفی نہیں، پس خلاف میں احتمال سزا کا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں پردے کا ذکر ہوا۔ اب ان رشتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پہلی آیت میں ازواج مطہرات کے حوالے سے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پردے میں رہ کر ان سے سوال کیا کریں۔ بظاہر یہ حکم امّہات المومنین کے متعلق دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں امت کی ماؤں کو مخاطب کر کے پو ری امت کی عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس میں یہ وضاحت موجود نہ تھی کہ کون سے مردوں سے پردہ نہیں کرنا چاہیے۔ اب ان رشتوں کی وضاحت کی جاتی ہے جن سے پردہ نہیں کرنا۔ اگر خاوند، باپ اور بھائی کے علاوہ ہر کسی سے پردہ کرنا عورت کے لیے واجب ہوتا تو اس سے عورت ایک طرح کی قیدی بن کر رہ جاتی۔ اسلام نے جائز حد تک عورت کو آزادی عنایت فرمائی ہے۔ اس لیے یہ حکم نازل ہوا کہ عورتوں پر اپنے باپوں اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی عورتوں اور غلاموں سے کوئی پردہ نہیں۔ عورتوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگران ہے۔ ” وَلَانِسَآءِہِنَّ “ کے بارے میں اہل علم کے تین مؤقف ہیں۔ 1 عورت کو عورت سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ 2 مسلمان عورت کو غیر رشتہ دار عورتوں سے پردہ کرنا چاہیے۔ 3 مسلمان عورتوں کو ان عورتوں سے بھی پردہ کرنا چاہیے جو معاشرے میں بےحیائی پھیلاتی ہیں تاکہ ان کے ساتھ نفرت کا اظہار کرنے کے ساتھ ان کے شر سے بچا جاسکے۔ (کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّہُ بَلَغَنِی أَنَّ نِسَاءً مِنْ نِسَاءِ الْمُسْلِمِینَ یَدْخُلْنَ الْحَمَّامَاتِ وَمَعَہُنَّ نِسَاءُ أَہْلِ الْکِتَابِ فَامْنَعْ ذَلِکَ ۔۔ )[ رواہ البیھقی : باب مَا جَاءَ فِی إِبْدَاءِ الْمُسْلِمَۃِ زینَتَہَا لِنِسَاءِہَا دُونَ الْکَافِرَاتِ قَال اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ (أَوْ نِسَاءِہِنَّ )] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو عبیدہ بن جراح (رض) کو ایک خط میں یہ بات لکھی کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ مسلمان عورتیں اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ حمام میں اکٹھی غسل کرتی ہیں لہٰذا میں اس سے منع کرتا ہوں۔ “ پردہ کی اہمیت : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ )[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی کَرَاہِیَۃِ الدُّخُولِ عَلَی الْمُغِیبَاتِ ] ” جناب عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی عورت بےپردہ باہر نکلتی ہے تو شیطان صفت لوگ اس کو اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ہے (١) ایک گروہ وہ جن کے ہاتھوں میں بیل کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے اور وہ ان کوڑوں کے ساتھ بلاجواز لوگوں کو ماریں گے۔ (٢) اور دوسراگروہ ان عورتوں کا ہے جنہوں نے بظاہر لباس پہنا ہوا ہوگا۔ لیکن حقیقت میں ان کے بدن ننگے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور مٹک مٹک کر چلنے والی ہوں گی۔ ان کے سر لمبی گردنوں والے اونٹوں کی کوہانوں کی طرح اٹھے ہوئے ہوں گے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی۔ بلکہ جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکیں گی۔ جبکہ جنت کی خوشبو اتنے اور اتنے فاصلے سے محسوس کی جائے گی۔ “ [ رواہ مسلم : باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] مسائل ١۔ باپ، بیٹے، بھائی، بھتیجے، اور بھانجے سے پردہ نہیں۔ ٢۔ جس طرح نسبی رشتوں سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اسی طرح رضاعی رشتوں سے بھی پردہ نہ کرنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :” یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَایَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ “ (رواہ البخاری : باب مَا یَحِلُّ مِنَ الدُّخُولِ وَالنَّظَرِ ۔۔” رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کے لحاظ سے حرام ہیں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لاجناح علیھن ۔۔۔۔۔ کل شئ شھیدا (55) ” “۔ یہ وہی محرم ہیں جن کے سامنے تمام مسلمان عورتوں کو حجاب نہ کرنے کی اجازت ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ ان دو آیات میں سے کون سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ یعنی یہ آیت جو ازواج نبی کے ساتھ مخصوص ہے یا سورة نور کی وہ عام آیت جو تمام مسلم عورتوں کے لیے ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ پہلے حکم ازواج مطہرات کے لیے آیا اور پھر عام مسلم عورتوں کے لیے اور یہ اللہ کی طرف سے فرائض عائد کیے جانے کے مزاج کے مطابق ہے۔ اس اجازت کو بھی خدا کے خوف کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ اللہ سے ڈرو ، اللہ ہر چیز سے خبردار ہے۔ تقویٰ اور اللہ کی نگرانی کو ذہن میں رکھنا ایسے مقامات پر بالعموم زکوہ ہوتا ہے کیونکہ تقویٰ ہر برائی سے بچنے کی آخری ضمانت ہے۔ یہ وہ نگران ہے جو ہر وقت دل و دماغ کی نگرانی کرتا ہے۔ سیاق کلام لوگوں کو اس بات سے ڈرانے میں ذرا مزید آگے بڑھتا ہے کہ وہ رسول اللہ کو اذیت نہ دیں ۔ نہ آپ کی ذات کے معاملے میں اور نہ آپ کے خاندان کے معاملے میں۔ اس کام کے گھناؤ نے پن کو مزید وضاحت سے بیان کیا جاتا ہے اور یہ بات دو طریقوں سے بیان کی جاتی ہے۔ پہلے طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم اللہ کے ہاں کس قدر بلند مرتبہ ہیں اور دوسرا طریقہ یہ کہ براہ راست یہ کہا گیا کہ حضور اکرم کو ایذا دینے والے دراصل اللہ کو ایذا دیتے ہیں اور اس کی سزا اللہ کے ہاں یہ ہے کہ ان کو اللہ کی رحمت سے دور کردیا جاتا ہے اور وہ دنیا اور خرت میں محروم ہوں گے اور ان کو یہ عذاب دیا جائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

عورتوں کو اپنے محرموں کے سامنے آنے کی اجازت ہے روح المعانی میں لکھا ہے کہ جب آیت حجاب نازل ہوئی تو ازواج مطہرات کے آباو ابنا اوراقارب نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا ہم بھی ان سے پردہ کے پیچھے سے بات کیا کریں، اس پر آیت بالا نازل ہوئی اور ازواج مطہرات کو اجازت دے دی گئی کہ اپنے باپوں اور بیٹوں اور اپنے بھائیوں کے بیٹوں اور بہنوں کے بیٹوں کے سامنے آسکتی ہیں۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : (وفی حکمھم کل ذی رحم محرم من نسب اور ضع علی ماروی ابن سعد عن الزھری) (ج ٢٢: ص ٧٤) یعنی آیت کریمہ میں چار رشتوں کا ذکر ہے، دوسرے جو محرم ہیں نسب سے ہوں یا رضاع سے ان کا بھی یہی حکم ہے۔ پھر لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں چچا اور ماموں کا ذکر نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں والدین کی طرح سے ہیں۔ محرموں سے پردہ نہ کرنے کی اجازت کے ساتھ ہی (وَلَا نِسَآءِھِنَّ ) فرمایا ہے یعنی مسلمان عورتوں سے بھی ان کا کوئی پردہ نہیں ہے البتہ کافر عورتوں کے سامنے نہ آئیں اگرچہ کتابیہ یعنی یہودیہ یا نصرانیہ ہوں۔ مزید فرمایا (وَلَا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ ) اور جن کے مالک ہیں ان کے دائیں ہاتھ ان کے سامنے آنے میں بھی پردہ نہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رض) نے فرمایا کہ اس سے باندیاں مراد ہیں، اپنے غلاموں کے سامنے بھی آنا جائز نہیں ہے۔ سورة نور کی آیت (وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ ) میں بھی ان رشتہ داروں کا ذکر ہے جن سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے وہاں چند مزید رشتے ذکر فرمائے سورة نور کی آیت کی تفسیر ملاحظہ کرلی جائے۔ سورة نور میں جو (اَوْ نِسَآءِھِنَّ ) اور یہاں سورة احزاب میں (وَلاَ نِسَآءِھِنَّ ) فرمایا ہے اس میں جو ضمیر مضاف الیہ ہے اس سے واضح ہو رہا ہے کہ مسلمان عورت کو کافر عورت کے سامنے آنا جائز نہیں۔ (وَاتَّقِیْنَ اللّٰہَ ) (اور اللہ سے ڈرتی رہو) اس میں التفات ہے جو غیوبت سے خطاب کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ نے خطاب کے صیغے کے ساتھ ازواج مطہرات (رض) کو خطاب فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو کیونکہ تقویٰ ہی ہر نیکی کی بنیاد ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدًا) (بلاشبہ اللہ ہر چیز پر حاضر ہے یعنی وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے) اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، درحقیقت یہ یقین اور استحضار کہ اللہ تعالیٰ حاضر ناظر ہے دلوں میں تقویٰ پیدا ہونے اور اس کے استحضار کے لیے بڑا اکسیر ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 58:۔ لا جناح الخ، یہاں ان رشتہ داروں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے ازواج مطہرات پر حجاب لازم نہ تھا۔ اور وہ یہ ہیں، باپ، بیٹا، بھائی، بھتیجا، بھانجہ، ایمان والی عورتیں اور باندیاں واتقین اللہ۔ اس میں خطاب ازواج مطہرات سے ہے۔ فرمایا تم بھی اللہ سے ڈرتی رہو اور اللہ کے اوامرو نواہی میں اس کی اطاعت کرتی رہو۔ اللہ تعالیی ہر چیز سے باخبر ہے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

55۔ نبی کی عورتوں پر اپنے باپوں کے اور اپنے بیٹیوں کے اور اپنے بھائیوں کے اور اپنے بھتیجوں کے اور اپنے بھانجوں کے اور اپنی عورتوں یعنی مسلمان عورتوں کے اور اپنی لونڈیوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ نہیں اور اے پیغمبر کی عورتوں ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہو بیشک اللہ تعالیٰ ہر شے پر حاضرو ناظر ہے۔ باپ بیٹے ، بھائی ، بھتیجے ، بھانجے ، مسلمان عورتیں اور ما ملکت سے مراد باندیاں ہیں ۔ مشہور قول کے موافق اور یہ مستثنیٰ کا حکم ان لوگوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ محارم نسبی اور محرمات رضاعی سب اس میں داخل ہیں جس طرح چچا اور ماموں کا ذکر نہیں مگر وہ محرمات میں ہیں یہاں تک آپ کی ازواج مطہرات کی بحث تھی اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرف اور حضور کے مراتب علیا اور آپ پر درود سلام بھیجنے کی تاکید ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اپنی عورتوں کا اور ہاتھ کے مال کا ذکر ہوچکا سورة نور میں ہے۔ 12