Surat ul Ahzaab

Surah: 33

Verse: 71

سورة الأحزاب

یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِیۡمًا ﴿۷۱﴾

He will [then] amend for you your deeds and forgive you your sins. And whoever obeys Allah and His Messenger has certainly attained a great attainment.

تاکہ اللہ تعالٰی تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے ، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ... He will direct you to do righteous good deeds and will forgive you your sins. He promises them that if they do that, He will reward them by making their deeds righteous, i.e., enabling them to do righteous deeds, and He will forgive them their past sins. With regard to whatever sins they may commit in the future, He will inspire them to repent from them. Then He says: ... وَمَن يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا And whosoever obeys Allah and His Messenger, he has indeed achieved a great victory. meaning, he will be saved from the fire of Hell and will enjoy everlasting delights (in Paradise).

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71۔ 1 یہ تقویٰ اور قول کا نتیجہ ہے کہ تمہارے عملوں کی اصلاح ہوگی اور مزید تو فیق سے نوازے جاؤ گے اور کچھ کمی کوتاہی رہ جائیگی، تو اسے اللہ معاف فرما دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] راست بازی کے فوائد :۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا میں کامیاب زندگی کا ایک زرین اصول بیان فرما دیا جو کسی انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ بات سیدھی اور صاف کہا کرو جس میں جھوٹ نہ ہو۔ کوئی ایچ پیچ اور ہیرا پھیرا بھی نہ ہو۔ کسی کی جانبداری بھی نہ ہو۔ بات جتنی ہی ہو اتنی ہی کرو اس پر حاشیے نہ چڑھاؤ۔ اور اپنی طرف سے کمی بیشی بھی نہ کرو۔ اسی کا دوسرا نام راست بازی ہے۔ راست بازی سے بعض دفعہ اپنی ذات کو، اپنے اقرباء کو اور اپنے دوست احباب کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ برداشت کرو لیکن راست بازی کا دامن نہ چھوڑو۔ اس لئے کہ اس کے نتائج بڑے مفید اور دوررس ہوتے ہیں۔ اس سے انسان کا وقار قائم ہوتا ہے۔ عزت ہوتی ہے، ساکھ بنتی ہے پھر اس ساکھ سے انسان کو بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تو دنیوی فوائد ہوئے اور روحانی فوائد یہ ہیں کہ اس سے انسان کے اعمال خود بخود درست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں شہادتین کا اقرار کرتا ہوں مگر اسلام لانے کی اپنے آپ میں جرأت نہیں پاتا کیونکہ مجھ میں فلاں عیب بھی ہے اور فلاں عیب بھی اور فلاں بھی۔ آپ نے اسے فرمایا : && کیا تم مجھ سے جھوٹ چھوڑنے کا اقرار کرتے ہو ؟ && وہ کہنے لگا ہاں۔ آپ نے فرمایا تمہارا اسلام منظور ہے۔ چناچہ جب بھی وہ کوئی قصور کرنے لگتا تو اسے خیال آتا کہ فلاں آدمی یا اللہ کا رسول مجھ سے پوچھے گا یا قیامت کو اللہ پوچھے گا تو اب میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا پھر کیا ہوگا۔ اس خیال سے وہ اس عیب سے باز رہتا۔ آہستہ آہستہ اس کے تمام اعمال درست ہوگئے۔ یہ تو صرف جھوٹ چھوڑنے کی بات تھی جبکہ قول سدید جھوٹ ترک کرنے سے بہت اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ پھر اس سے انسان کے اعمال کیوں درست نہ ہوں گے۔ اور جب اس کے اعمال درست ہوگئے تو سابقہ گناہ اللہ تعالیٰ خود ہی حسب وعدہ معاف فرما دیں گے اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ وہ اللہ سے ڈرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کا مطیع فرمان ہو۔ اور ایسے شخص کی اخروی زندگی بھی بہرحال بہت کامیاب زندگی ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ : اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور سیدھی صاف بات کہنے کے دو فائدے بیان فرمائے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور دوسرا یہ کہ گناہوں پر پردہ ڈال دے گا۔ عام طور پر لوگ بگڑے ہوئے کاموں کو درست کرنے کے لیے جھوٹ بولتے اور چالاکی و ہوشیاری سے کام لیتے ہیں۔ ان کے ایچ پیچ اور غلط بیانی کی وجہ سے سننے والے مزید بھڑکتے اور بدگمان ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ کام مزید بگڑتے ہیں اور کبھی درست نہیں ہوتے، مگر جب آدمی اللہ سے ڈرے اور سیدھی صاف بات کہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ سارے کام درست بھی ہوجائیں گے اور گزشتہ گناہوں کی مغفرت بھی ہوجائے گی۔ کیونکہ سیدھی بات دلوں سے کدورت ختم کرنے اور باہمی صلح صفائی کا باعث بن جاتی ہے اور سیدھا ہوجانے پر اللہ تعالیٰ بھی درگزر فرماتا ہے۔ 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح اور دوسری حاجات کے موقع پر پڑھے جانے والے جس خطبہ کی تعلیم دی اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار آیات پڑھتے تھے، جن میں سے دو یہ ہیں۔ کیونکہ اللہ سے ڈرنا اور سیدھی بات کہنا ہر معاملے میں ضروری ہے، خصوصاً میاں بیوی کے معاملے میں تو اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے، کیونکہ ان کے درمیان معاملات کا کوئی گواہ نہیں ہوتا، صرف اللہ کا خوف اور سیدھی بات ان کے معاملات کو درست رکھ سکتی ہے اور معمولی سی چالاکی اور غلط بیانی باہمی اعتماد کو ختم کر کے گھر برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے ۔ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : کیونکہ اصل کامیابی جنت کا حصول اور جہنم سے نجات ہے، جو صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ دیکھیے سورة نساء (١٣، ١٤) اور آل عمران (١٨٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Correct use of one&s power of speech is an effective source of correcting all deeds issuing forth from other parts of the body The basic command given to all Muslims in this verse is: اِتَّقُوا اللہَ (Take to taqwa, that is, fear Allah and act accordingly). The reality of taqwa lies in one&s total obedience to all Divine injunctions whereby one carries out everything enjoined and abstains from everything declared prohibited and repugnant. And it is obvious that doing so is no easy task for human beings. Therefore, immediately after the main guideline of اتَّقُوا اللَّـهَ (ittaqullah: Fear Allah and act accordingly), there appears an instruction to start doing something particular, that is, the correction and reform of one&s speech. Though, this too is nothing but a part of taqwa itself, yet it is one such part of it that, should this thing come under control, all other remaining components of the comprehensive requirement of taqwa would start becoming achievable automatically, as the verse itself has promised that, as a result of one&s making his or her speech truthful and straight, Allah will correct his deeds. In other words it means that, &should you succeed in holding your tongue and avoiding errors of speech and get used to saying what is correct, straight and right, Allah Ta’ ala will correct every other deed you do and make all of them better.& Then, concluding the verse, another promise was made and it was said: يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ (and He will forgive for you your sins). It means: &One who gains control over his tongue, learns to harness his or her power of speech and becomes used to saying what is true and right, then, Allah Ta` a1a will take care of the rest of his or her deeds, have them corrected and made better as well as forgive any errors or slips made therein.& Injunctions of the Qur&an were made easy to follow Deliberation in the general style of the noble Qur&an shows that at a place where acting upon a Qura&nic injunction seems to be difficult, a method has also been suggested along with it to make it easy. And since taqwa is the essence of the entire religion of Islam and fulfilling its dictates on all counts is very hard indeed, therefore, speaking generally, wherever the command to observe taqwa (&ittaqullah& ) has been given, there appears soon after, the suggestion to do something that facilitates acting in accordance with the rest of the elements of Taqwa, something that comes from the side of Allah as His grace and taufiq. An apt and ready at hand example of it lies in this very verse where the suggestion of: قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (say the right thing) follows soon after the command of: اتَّقُوا اللَّـهَ (ittaqullah: Fear Allah). And immediately earlier too, in verse 69, after saying: اتَّقُوا اللَّـهَ ittaqullah:( Fear Allah), it was said: |"Do not be like those who caused pain to Musa) whereby people were reminded that causing pain to righteous and favoured servants of Allah is the most serious impediment in the achievement of taqwa and, once this impediment was removed, the way to taqwa will become easy. Similarly in another verse the command to observe Taqwa has been supplemented by the direction of having the company of &truthful persons& (9.118) which means that the easiest way to acquire the quality of taqwa is to remain in the company of righteous people. At another place the command of taqwa is followed by the direction of pondering on what one has sent ahead for the Hereafter, because it leads one to observe Taqwa (59.18). Saying what is right leads to doing what is right both here and Hereinafter Shah ` Abdul-Qadir of Delhi (رح) has translated this verse in a way that leads to the conclusion that the promise of correction and betterment of deeds made to those who get used to speaking in straight forward manner is not restricted to religious deeds alone. In fact, everything one does in this material world is also included therein. Anyone who gets used to saying the right thing - that is, never lies, speaks with deliberation without erring or wavering, does not deceive anyone and does not say what would hurt - shall find his spiritual deeds for his eternal life in the Hereafter, also come out right for him. As for the things he must do to live in this mortal world, these too will turn for the better. (The Urdu speaking readers should refer to the original translation of Shah Abdul Qadir to have a taste of its sweetness-editor)

زبان کی اصلاح باقی سب اعضاء و اعمال کی اصلاح میں موثر ذریعہ ہے : اس آیت میں اصل حکم سب مسلمانوں کو یہ دیا گیا ہے کہ اتقوا اللہ یعنی تقویٰ اختیار کرو جس کی حقیقت تمام احکام آلہیہ کی مکمل اطاعت ہے کہ تمام اوامر کی تعمیل کرے اور تمام منہیات و مکروہات سے اجتناب کرے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام انسان کے لئے آسان نہیں، اس لئے اتقوا اللہ کے بعد ایک خاص عمل کی ہدایت ہے، یعنی اپنے کلام کی درستی اور اصلاح۔ یہ بھی اگرچہ تقویٰ کا ہی ایک جز ہے مگر ایسا جز ہے کہ اس پر قابو پا لیا جائے تو باقی اجزاء تقویٰ خود بخود حاصل ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ خود آیت مذکورہ میں قول سدید اختیار کرنے کے نتیجہ میں (آیت) یصلح لکم اعمالکم کا وعدہ ہے یعنی اگر تم نے اپنی زبان کو غلطی سے روک لیا اور کلام درست اور بات سیدھی کہنے کے خوگر ہوگئے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کی اصلاح فرمائیں گے، اور سب کو درست کردیں گے اور آخر آیت میں یہ وعدہ فرمایا کہ یغفرلکم ذنوبکم یعنی جس شخص نے اپنی زبان پر قابو پا لیا، راست گوئی اور سیدھی بات کا عادی بن گیا، اللہ تعالیٰ اس کے باقی اعمال کی بھی اصلاح فرما دیں گے اور جو لغزشیں اس سے ہوئی ہیں ان کو معاف فرما دیں گے۔ قرآنی احکام میں تسہیل کا خاص اہتمام : قرآن کریم کے عام اسلوب میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کوئی حکم ایسا دیا گیا جس کی تعمیل میں کچھ مشقت و دشواری ہو تو ساتھ ہی اس کے آسان کرنے کا طریقہ بھی بتلا دیا گیا ہے۔ اور چونکہ سارے دین کا خلاصہ تقویٰ ہے اور اس میں پورا اترنا بڑی مشقت ہے، اس لئے عموماً جہاں اتقوا اللہ کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے پہلے یا بعد میں کوئی ایک عمل ایسا بتلا دیا ہے جس کے اختیار کرنے سے تقویٰ کے باقی ارکان پر عمل منجانب اللہ آسان کردیا جاتا ہے۔ اسی کی ایک نظر اس آیت میں اتقوا اللہ کے بعد قولوا قولاً سدیداً کی تلقین ہے، اور اس سے پہلی آیت میں اتقوا اللہ سے پہلے (آیت) ولا تکونوا کالذین اذا واموسیٰ فرما کر اس بات کی طرف ہدایت فرما دی کہ تقویٰ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اللہ کے نیک اور مقبول بندوں کو ایذاء دینا ہے اسے چھوڑ دو تو تقویٰ آسان ہوجائے گا۔ ایک آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) اتقوا اللہ وکونوامع الصدقین، اس میں تقویٰ کو آسان کرنے کے لئے ایسے لوگوں کی صحبت ومجالست کی تلقین فرمائی جو بات کے سچے ہوں اور عمل کے بھی سچے ہوں، جس کا حاصل ولی اللہ ہونا ہے۔ اور دوسری آیت میں اتقوا اللہ کے ساتھ (آیت) ولتنظر نفس ماقدمت لغد بڑھا دیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر انسان کو اس کی فکر چاہئے کہ اس نے کل یعنی روز محشر کے لئے کیا سامان بھیجا ہے ؟ جس کا خلاصہ فکر آخرت ہے اور یہ فکر تقویٰ کے تمام ارکان کو آسان کردینے والی چیز ہے۔ زبان و کلام کی درستی دین و دنیا دونوں کے کام درست کرنیوالی ہے : حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی (رح) نے جو ترجمہ اس آیت کا کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں جو سیدھی بات کا عادی ہونے پر اصلاح اعمال کا وعدہ ہے وہ صرف دینی اعمال ہی نہیں، بلکہ دنیا کے سب کام بھی اس میں داخل ہیں، جو شخص قول سدید کا عادی ہوجائے یعنی کبھی جھوٹ نہ بولے، سوچ سمجھ کر کلام کرے جو خطاء و لغزش سے پاک ہو، کسی کو فریب نہ دے، دل خراش بات نہ کرے، اس کے اعمال آخرت میں بھی درست ہوجائیں گے اور دنیا کے کام بھی بن جائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب کا ترجمہ یہ ہے کہ (کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تم کو تمہارے کام) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝ ٠ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا۝ ٧١ صلح والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] ( ص ل ح ) الصلاح اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء/ 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ ذنب والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] ، الذنب ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧١ { یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ } ” اللہ تمہارے سارے اعمال درست کردے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا۔ “ اگر بھول کر یا جذبات کی رو میں تم سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی تو اللہ اسے معاف کر دے گا۔ { وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا } ” اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر کاربند ہوگیا تو اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ “ یہاں کامیابی کا معیار بیان کردیا گیا کہ اہل ایمان کی کامیابی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں ہے۔ اس سورت کی یہ دو آیات (آیت ٧٠ اور ٧١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ نکاح میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیں کہ ان دو آیات کے علاوہ مندرجہ ذیل آیات بھی خطبہ نکاح میں شامل ہیں : { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔ (النساء) ۔ { یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ } (آل عمران) ۔ - ۔ خطبہ نکاح میں مذکورہ چار آیات کا ُ لب ّلباب ” تقویٰ “ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧٣۔ اس آیت سے پہلی آیت میں امانت کا ذکر تھا آیت کے پہلے ٹکڑے میں جس امانت کا ذکر تھا آیت کے اس مخری ٹکڑے میں اس مانت کا یہ نتیجہ بیان فرمایا کہ جو منافق اور مشرک لوگ اس امانت میں خیانت کریں گے ان پر عذاب ہوگا اور جو ایماندار لوگ اس امانت کی شرط کو پورا کریں گے وہ اللہ کی رحمت کے قابل ٹھہریں گے منافق وہ تھے جو ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے اور باطن میں اسلام کے بدخواہ تھے مشرک وہ جو ظاہر اور باطن میں کھلم کھلا اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے پر اور اس کے رسول مقبول صلے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے پر ہر وقت آمادہ و تیار رہتے تھے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے معاذبن جبل (رض) کی حدیث ١ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (١ ؎ بحوالہ مشکوۃ کتاب الایمان فصل اول۔ ) جس میں اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں پھر اس حق کے ادا ہونے کے بعد بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہوگا کہ وہ اپنے ایسے بندوں کی مغفرت فرماوے ‘ حضرت عبداللہ اللہ بن عباس (رض) نے آیت میں کے لفظ امانت کی جو تفسیر فرمائی ہے اس صحیح حدیث سے اس تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ شرک اور نفاق کی خیانت سے بچنے کی جو شرط حق الٰہی کے ساتھ حدیث میں ہے وہی ہر طرح کی خیانت سے پچنے کی شرط امانت میں ہوا کرتی ہے اس حدیث اور آیت کو ملانے کے بعد پوری آیت کی تفسیر کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کا گیا کہ جو شخص بشریت کے تقاضے سے حق الٰہی کے ساتھ حدیث میں ہے وہی ہر طرح کی خیانت سے بچنے کی شرط امانت میں ہوا کرتی ہے اس حدیث اور آیت کو ملانے کے بعد پوری آیت کی تفسیر کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ جو شخص بشریت کے تقاضے سے حق الٰہی کی امانت میں کچھ خیانت کر بیٹے گا اور پھر خالص دل سے توبہ کر کے امانتداری کی حالت پر جم جاوے گا تو اللہ غفور رحیم ہے وہ اس کی مغفرت فرماوے گا ہاں جو شخص مرتے دم تک شرک ونفاق کی خیانت حق الٰہی میں کرے گا وہ آخرت کے عذاب میں پکڑا جاوے گا کس لیے کہ انتظام الٰہی کے موافق دنیا کے پیدا ہونے کی بنیاد اس جزا وسزا کے فیصلہ پر قائم ہوئی ہے یہی انتظام آسمان زمین اور پہاڑوں کو جتلایا گیا تھا جب انہوں نے ذمہ داری سے ڈر کر اس انتظام کو اپنے ذمہ نہیں لیا اور سب بنی آدم کے باپ آدم ( علیہ السلام) نے اس انتظام کو اپنے ذمہ لے لیا تو سب بنی آدم کو اس عہد پر قائم رہنا چاہئے کیوں کہ الست بربکم کے جواب میں سب بنی آدم ( علیہ السلام) نے بھی عہد کا اقرار کیا ہے جس کا ذکر سورة الاعراف میں گزر چکا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(33:71) یصلح مضارع مجزوم واحد مذکر غائب اصلاح (افعال) مصدر۔ وہ درست کر دے گا۔ وہ قبول کرلے گا۔ ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔ اوپر آیا ہے (اتقوا اللہ) مضارع مجزوم بوجہ جواب امر ہے۔ تم اللہ ڈرو اور درستی اختیار کرو۔ تمہارے اعمال درست کر دے گا یا قبول کرلے گا۔ یغفر۔ مضارع مجزوم (بوجہ جواب امر) واحد مذکر غائب۔ (تمہارے گناہ) معاف کر دے گا۔ فاز فوزا عظیما۔ فاز ماضی واحد مذکر غائب فوز مصدر۔ وہ کامیاب ہوا۔ اس نے کامیابی حاصل کرلی۔ اس نے اپنا انتہائی مقصد پالیا۔ اس نے فتح پائی۔ عظیما فوزا کی صفت ہے بہت بڑی کامیابی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی تقویٰ کی راہ اختیار کرنے سے تو تمہاری عملی زندگی درست ہوگی اور سیدھی بات کہنے سے گناہ معاف ہوں گے۔ ( کبیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر تقویٰ اختیار کرنے اور ٹھیک بات کہنے کا انعام بتایا (یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو قبول فرمالے گا اور تمہارے گناہوں کی مغفرت فرما دے گا۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں کامیابی ہے : اس کے بعد فرمایا (وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا) (اور جو شخص اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے تو وہ بڑی کامیابی کے ساتھ کامیاب ہوگا۔ ) لوگوں میں کامیابی کے بہت سے معیار معروف ہیں، کوئی شخص مال زیادہ ہونے کو کامیابی سمجھتا ہے اور کوئی شخص بادشاہ بن جانے کو، کوئی شخص وزارت مل جانے کو اور کوئی شخص جائیداد بنا لینے کو اور کوئی شخص زیادہ پیسوں والی ملازمت مل جانے کو کامیابی سمجھتا ہے، اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا معیار بتادیا کہ کامیاب وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ خطبہ نکاح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہادتین کے بعد آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ) (الآیۃ) اور آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ ) (الآیۃ) اور آیت کریمہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا) پڑھا کرتے تھے، (پورا خطبہ حصن حصین میں مذکور ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ نکاح میں جو تین آیات اختیار فرمائیں ان میں چار جگہ تقویٰ کا حکم ہے اس سے تقویٰ کی اہمیت اور ضرورت معلوم ہوگئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(71) اللہ تعالیٰ تمہارے نیک اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے کام درست کر دے گا اور سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا کہنا مانا تو یقینا وہ بہت بڑی کامیابی کو پہنچا۔ اوپر کی آیت میں پیغمبر کو ایذا پہنچانے سے منع فرمایا تھا اور اس معاملہ میں بنی اسرائیل کی مسابہت نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ پھر عام طور پر تقوے کا حکم فرمایا کیونکہ تقویٰ تمام بھلائیوں کی جڑ اور بنیاد ہے۔ قول سدید کے مفسرین نے بہت سے معنی کئے ہیں ہم نے سیدھی اور پختہ ترجمہ کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عدل اور اعتدال سے متجاوز نہ ہو۔ ابن عباس (رض) نے ترجمہ صواب کیا ہے قتادہ نے عدل کیا ہے حضرت حسن نے صدق کیا ہے۔ حضرت مکرمہ نے لاالہ الا اللہ کیا ہے، اصلاح اعمال سے مراد عمل کی سنوار اور درستی ہے اور یہی مقبولیت کی علامت ہے پھر اطاعت کرنیوالوں کو بخشش گناہ کی بشارت بھی ہے۔ آخر میں اللہ اور رسول کی اطاعت پر کامیابی کا اعلان فرمایا جو فرمانبرداروں کے لئے موجب اطمینان اور موجب مسرت ہے۔