Surat Saba

Surah: 34

Verse: 37

سورة سبأ

وَ مَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُکُمۡ بِالَّتِیۡ تُقَرِّبُکُمۡ عِنۡدَنَا زُلۡفٰۤی اِلَّا مَنۡ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ۫ فَاُولٰٓئِکَ لَہُمۡ جَزَآءُ الضِّعۡفِ بِمَا عَمِلُوۡا وَ ہُمۡ فِی الۡغُرُفٰتِ اٰمِنُوۡنَ ﴿۳۷﴾

And it is not your wealth or your children that bring you nearer to Us in position, but it is [by being] one who has believed and done righteousness. For them there will be the double reward for what they did, and they will be in the upper chambers [of Paradise], safe [and secure].

اور تمہارا مال اور اولاد ایسے نہیں کہ تمہیں ہمارے پاس ( مرتبوں ) سے قریب کر دیں ہاں جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ان کے لئے ان کے اعمال کا دوہرا اجر ہے اور وہ نڈر و بے خوف ہو کر بالا خانوں میں رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلاَ أَوْلاَدُكُم بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِندَنَا زُلْفَى ... And it is not your wealth, nor your children that bring you nearer to Us, meaning, `these things are not a sign that We love you or care for you.' Imam Ahmad, may Allah have mercy on him, recorded that Abu Hurayrah, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: إِنَّ اللهَ تَعَالَى لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ إِنَّمَا يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُم Allah does not look at your outward appearance or your wealth, rather He looks at your hearts and your deeds. Muslim and Ibn Majah also recorded this. Allah says: ... إِلاَّ مَنْ امَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ... but only he who believes, and does righteous deeds; meaning, `only faith and righteous deeds will bring you closer to Us.' ... فَأُوْلَيِكَ لَهُمْ جَزَاء الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا ... as for such, there will be multiple rewards for what they did, means, the reward will be multiplied for them between ten and seven hundred times. ... وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ امِنُونَ and they will reside in the high dwellings in peace and security. means, in the lofty dwellings of Paradise, safe from all misery, fear and harm, and from any evil they could fear. Ibn Abi Hatim recorded that Ali, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا In Paradise there are lofty rooms whose outside can be seen from the inside and whose inside can be seen from the outside. A Bedouin asked, "Who are they for?" He said: لِمَنْ طَيَّبَ الْكَلَمَ وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ وَأَدَامَ الصِّيَامَ وَصَلَّى بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَام For those who speak well, feed the hungry, persist in fasting and pray at night while people are asleep.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی یہ مال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اور ہماری بارگاہ میں تمہیں خاص مقام حاصل ہے۔ 37۔ 2 یعنی ہماری محبت اور قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تو صرف ایمان اور عمل صالح ہے جس طرح حدیث میں فرمایا ' اللہ تعالیٰ تمہاری شکلیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے (صحیح مسلم) 37۔ 3 بلکہ کئی کئی گنا، ایک نیکی کا اجرکم از کم دس گنا مزید سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٥٥] اس جملہ کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکیں۔ بلکہ یہی چیزیں اکثر انسانوں کے لئے اللہ کے تقرب کے بجائے الٹا اس کے غضب اور غصہ کا سبب بن جاتی ہیں اور اسے لے ڈوبتی ہیں۔ اس کے بجائے اللہ کے ہاں تقریب کا معیار ایمان اور اعمال صالحہ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان لائے اور اعمال صالحہ بھی لائے تو یہی مال اور اولاد اس کے لئے اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وہ یوں کہ اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے اور اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کرکے اسے اللہ کا فرمانبردار بنادے۔ [ ٥٦] ضَعُفَ (ضد نصف یعنی آدھا) یعنی کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور (مفردات القرآن) پھر یہی لفظ کئی گنا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کتاب و سنت کی صراحت کے مطابق یہ دس گنا بھی ہوسکتا ہے۔ سات سو گنا بھی بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ [ ٥٧] اس میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ ایماندار جنت کے ان بالاخانوں میں دائمی اور ابدی طور پر قیام پذیر رہیں گے۔ کیونکہ اگر ٹھکانہ عارضی ہو تو انسان کو امن و چین اور اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ ۔۔ : اس جملے کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ مال و اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکیں، بلکہ یہی چیزیں اکثر انسانوں کے لیے تقرب کے بجائے الٹا اس کے غضب اور غصے کا سبب بن جاتی ہیں اور اسے لے ڈوبتی ہیں۔ اس کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب کا معیار ایمان اور اعمال صالحہ ہیں۔ ” اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا “ کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایمان لائے اور اعمال صالحہ بھی لائے تو یہی مال اور اولاد اس کے لیے اللہ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ وہ یوں کہ اپنے مال و دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے اور اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کر کے اسے اللہ کا فرماں بردار بنا دے۔ (تیسیرالقرآن) فَاُولٰۗىِٕكَ لَهُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا : ” الضِّعْفِ “ ” نِصْفٌ“ کی ضد ہے، یعنی کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور، پھر یہی لفظ کئی گنا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، جو دس گنا بھی ہوسکتا ہے، سات سو گنا بھی، بلکہ اس سے زیادہ بھی۔ دیکھیے سورة بقرہ (٢٦١) ۔ وَهُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ : ” اَلْغُرْفَۃُ “ بلند و بالا عمارت، بالا خانہ۔ ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ یَتَرَاءَ وْنَ أَہْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوْقِہِمْ کَمَا یَتَرَاءَ وْنَ الْکَوْکَبَ الدُّرِّيَّ الْغَابِرَ فِي الْأُفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَہُمْ ، قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! تِلْکَ مَنَازِلُ الْأَنْبِیَاءِ لَا یَبْلُغُہَا غَیْرُہُمْ ، قَالَ بَلٰی، وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ ! رِجَالٌ آمَنُوْا باللّٰہِ وَ صَدَّقُوا الْمُرْسَلِیْنَ ) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ ۔۔ : ٣٢٥٦ ] ” جنتی لوگ اپنے سے اوپر بالا خانوں میں رہنے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ اس ستارے کو دیکھتے ہیں جو آسمان کے کنارے پر مشرق یا مغرب میں گزر رہا ہوتا ہے، کیونکہ ان میں سے بعض بعض سے افضل ہوگا۔ “ لوگوں نے کہا : ” اے اللہ کے رسول ! یہ تو انبیاء کے گھر ہوں گے، جہاں ان کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکے گا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیوں نہیں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ لوگ (وہاں پہنچیں گے) جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور انھوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔ “ وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ فِيْٓ اٰيٰتِنَا : بےخوف اس لیے ہوں گے کہ جنت کی نعمتیں ابدی اور دائمی ہوں گی اور ان کا دنیا والا خوف دور ہوجائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the last sentence of verse فَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُ‌فَاتِ آمِنُونَ (Therefore, such people will have the double reward for what they did, and they will be at peace in the upper chambers (of Paradise). - 34:37), mentioned there is the state of the people of &Iman (faith) and good deeds for they are the ones acceptable with Allah. Whether or not they are recognized in this world, their return in the Hereafter will be double or manifold. The word: ضِعف (di` f) with a kasrah of the letter: (dad) is a verbal noun which means &like a thing& or &the likes of a thing&. The sense is that the way wealthy people keep amassing their wealth in the worldly life, Allah Ta’ ala would increase the return for His accepted people in the Hereafter many times over. For example, the return for one deed would be ten of its likes, or ten times as much. Then, it is not so restricted either. Granted the person&s sincerity in deed and in view of other causes and considerations, the return of one such deed can go up to seven hundred times. That returns at this high scale would also be given as stands proved from Sahih ahadith. It is interesting that this too is not restricted. It could be more than that. In short, these people of faith and good deed shall be residing in the elevated chambers of Paradise in perfect peace and forever shielded against all sorrows. The word: غُرُفَات (ghurufat) is the plural form of: غُرفَۃ (ghurfah). It denotes a part of the mansion considered distinct and high as compared to other parts.

(آیت) فاؤ لئک لہم جزاء الضعفب بما عملوا وہم فی الغرفات امنون، یہ ایمان و عمل صالح والوں کا حال بتلایا گیا ہے، کہ اللہ کے نزدیک مقبول یہی لوگ ہیں، دنیا میں کوئی ان کی قدر پہچانے یا نہ پہچانے، آخرت میں ان کو جزائے ضعف ملے گی۔ ضعف بکسر ضاد مصدر ہے جس کے معنی ایک شے کے مثل یا امثال کے آتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں دولت والے اپنی دولت کو بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی جزاء کو آخرت میں بڑھا دیں گے، کہ ایک عمل کی جزاء اس کے دس امثال ہوں گے اور اس میں بھی منحصر نہیں، اس کے اخلاص عمل اور دوسرے اسباب سے ایک عمل کی جزا اس کے سات سو گنا تک ملنا بھی احادیث صحیحہ میں ثابت ہے۔ اور اس میں بھی حصر نہیں، اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ لوگ جنت کے غرفوں میں مامون اور ہمیشہ کے لئے ہر رنج و غم سے محفوظ رہیں گے۔ غرفات غرفہ کی جمع ہے، مکان کا جو حصہ دوسرے حصوں سے ممتاز اور اعلیٰ سمجھا جائے اس کو غرفہ کہتے ہیں۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَآ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِيْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓي اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا۝ ٠ ۡفَاُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ جَزَاۗءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَہُمْ فِي الْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ۝ ٣٧ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ، ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ( ق ر ب ) القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے زلف الزُّلْفَةُ : المنزلة والحظوة «2» ، وقوله تعالی: فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک/ 27] وقیل لمنازل اللیل : زُلَفٌ قال : وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود/ 114] ( ز ل ف ) الزلفۃ اس کے معنی قریب اور مرتبہ کے ہیں چناچہ آیت : ۔ فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً [ الملک/ 27] سو جب وہ قریب دیکھیں گے ۔ اور منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَزُلَفاً مِنَ اللَّيْلِ [هود/ 114] اور رات کے کچھ حصوں میں۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ ضعف ( دوگنا) ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ «1» ، ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] ، وقال : مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] ، والمُضَاعَفَةُ علی قضيّة هذا القول تقتضي أن يكون عشر أمثالها، وقیل : ضَعَفْتُهُ بالتّخفیف ضَعْفاً ، فهو مَضْعُوفٌ ، فَالضَّعْفُ مصدرٌ ، والضِّعْفُ اسمٌ ، کا لثَّنْيِ والثِّنْيِ ، فَضِعْفُ الشیءِ هو الّذي يُثَنِّيهِ ، ومتی أضيف إلى عدد اقتضی ذلک العدد ومثله، نحو أن يقال : ضِعْفُ العشرةِ ، وضِعْفُ المائةِ ، فذلک عشرون ومائتان بلا خلاف، وعلی هذا قول الشاعر : 293- جزیتک ضِعْفَ الوِدِّ لمّا اشتکيته ... وما إن جزاک الضِّعف من أحد قبلي «3» وإذا قيل : أعطه ضِعْفَيْ واحدٍ ، فإنّ ذلک اقتضی الواحد ومثليه، وذلک ثلاثة، لأن معناه الواحد واللّذان يزاوجانه وذلک ثلاثة، هذا إذا کان الضِّعْفُ مضافا، فأمّا إذا لم يكن مضافا فقلت : الضِّعْفَيْنِ فإنّ ذلك يجري مجری الزّوجین في أنّ كلّ واحد منهما يزاوج الآخر، فيقتضي ذلک اثنین، لأنّ كلّ واحد منهما يُضَاعِفُ الآخرَ ، فلا يخرجان عن الاثنین بخلاف ما إذا أضيف الضِّعْفَانِ إلى واحد فيثلّثهما، نحو : ضِعْفَيِ الواحدِ ، وقوله : فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ، وقوله : لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] ، فقد قيل : أتى باللّفظین علی التأكيد، وقیل : بل المُضَاعَفَةُ من الضَّعْفِ لا من الضِّعْفِ ، والمعنی: ما يعدّونه ضِعْفاً فهو ضَعْفٌ ، أي : نقص، کقوله : وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم/ 39] ، وکقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] ، وهذا المعنی أخذه الشاعر فقال : زيادة شيب وهي نقص زيادتي وقوله : فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] ، فإنهم سألوه أن يعذّبهم عذابا بضلالهم، وعذابا بإضلالهم كما أشار إليه بقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] ، وقوله : لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] ، أي : لكلّ منهم ضِعْفُ ما لکم من العذاب، وقیل : أي : لكلّ منهم ومنکم ضِعْفُ ما يرى الآخر، فإنّ من العذاب ظاهرا و باطنا، وكلّ يدرک من الآخر الظاهر دون الباطن فيقدّر أن ليس له العذاب الباطن . ( ض ع ف ) الضعف الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب/ 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء/ 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام/ 160] سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ضعفتہ ضعفا فھوا مضعوف ۔ تخفیف عین کے ساتھ آتا ہے اس صورت میں ضعف مصدر ہوگا اور ضعف اسم جیسا کہ شئی اور شئی ہے اس اعتبار سے ضعف الشئی کے معنی ہیں کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور جس سے وہ چیز دوگنی ہوجائے اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد یعنی چند مراد ہوتا ہے لہذا ضعف العشرۃ اور ضعف المابۃ کے معنی بلا اختلاف بیس اور دو سو کے ہوں گے چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) جز نیتک ضعف الواد لما اشتیتہ وما ان جزاک الضعف من احد قبلی جب تونے محبت کے بارے میں شکایت کی تو میں نے تمہیں دوستی کا دو چند بدلہ دیا اور مجھ سے پہلے کسی نے تمہیں دو چند بد لہ نہیں دیا ۔ اور اعطہ ضعفی واحد کے معنی یہ ہیں کہ اسے سر چند دے دو کیونکہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہا یک اور اس کے ساتھ دو اور دے دو اور یہ کل تین ہوجاتے ہیں مگر یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب ضعف کا لفظ مضاعف ہو ورنہ بدوں اضافت کے ضعفین کے معنی تو زوجین کی طرح دوگنا ہی ہوں گے ۔ لیکن جب واحد کی طرف مضاف ہوکر آئے تو تین گنا کے معنی ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ/ 37] ایسے لوگوں کو دوگنا بدلہ ملے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف/ 38] تو ان کی آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے ۔ میں دوگنا عذاب مراد ہے یعنی دوزخی بار تعالٰ سے مطالیہ کریں گے کہ جن لوگوں نے ہمیں کمراہ کیا تھا انہیں ہم سے دو گناہ عذاب دیا جائے گا ایک تو انکے خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے ، ہمیں گمراہ کرنے کا جیسا کہ آیت کریمہ : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل/ 25] یہ قیامت کے ادن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف/ 38] کہہ کر بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کو تم سے دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ بعض نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ تم اور ان میں سے ہر ایک کو اس سے دگنا عذاب ہور ہا ہے جتنا کہ دوسرے کو نظر آرہا ہے ۔ کیونکہ عذاب دو قسم پر ہے ظاہری اور باطنی ، ظاہری عذاب تو ایک دوسرے کو نظر آئے گا مگر باطنی عذاب کا ادراک نہیں کرسکیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی اندرونی طور پر کچھ بھی عذاب نہیں ہورہا ہے ( حالانکہ وہ باطنی عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے ۔ اور آیت ؛لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران/ 130] بڑھ چڑھ کر سود در سود نہ کھاؤ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اضعافا کے بعد مضاعفۃ کا لفظ بطور تاکید لایا گیا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ مضاعفۃ کا لفظ ضعف ( بفتح الضاد ) سے ہے جس کے معنی کمی کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود جسے تم افزونی اور بیشی سمجھ رہے ہو یہ ، دراصل بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے جیسے فرمایا : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة/ 276] کہ اللہ تعالیٰ سود کو کم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (286) زیادۃ شیب وھی نقض زیادتی کہ بڑھاپے کی افرزونی دراصل عمر کی کمی ہے غرف الْغَرْفُ : رفع الشیء وتناوله، يقال : غَرَفْتُ الماء والمرق، والْغُرْفَةُ : ما يُغْتَرَفُ ، والْغَرْفَةُ للمرّة، والْمِغْرَفَةُ : لما يتناول به . قال تعالی:إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة/ 249] ، ومنه استعیر : غَرَفْتُ عرف الفرس : إذا جززته «3» ، وغَرَفْتُ الشّجرةَ ، والْغَرَفُ : شجر معروف، وغَرَفَتِ الإبل : اشتکت من أكله «4» ، والْغُرْفَةُ : علّيّة من البناء، وسمّي منازل الجنّة غُرَفاً. قال تعالی: أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان/ 75] ، وقال : لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت/ 58] ، وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ/ 37] . ( غ ر ف ) الغرف ( ض) کے معنی کسی چیز کو اٹھانے اور کڑنے کے ہیں جیسے غرفت الماء لنا لمرق ہیں نے پانی یا شوربہ لیا ) اور غرفۃ کے معنی چلو پھر پانی کے ہیں اور الغرفۃ ایک مرتبہ چلو سے پانی نکالنا المخرفۃ چمچہ وغیرہ جس سے شوربہ وغیرہ نکال کر برتن میں ڈالا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ [ البقرة/ 249] ہاں اگر کوئی ہاتھ سے چلو پھر پانی لے لے ( تو خیر) اسی سے ابطورہستعارہ کہاجاتا ہے غرفت عرف الفرس میں نے گھوڑے کی پیشانی کے بال کاٹ ڈالے غرفت الشجرۃ میں نے درخت کی ٹہنیوں کو کاٹ ڈالا ۔ الغرف ایک قسم کا پودا جس سے چمڑے کو دباغت دی جاتی ہے ) غرفت الابل اونٹ غرف کھا کر بیمار ہوگئے ۔ الغرفۃ بلا خانہ ( جمع غرف وغرفات قرآن میں ) جنت کے منازل اور درجات کو الغرف کہا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : أُوْلئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِما صَبَرُوا[ الفرقان/ 75] ان صفات کے لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیئے جائیں گے ۔ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً [ العنکبوت/ 58] ان کو ہم بہشت کے اونچے اونچے محلوں میں جگہ دیں گے ۔ وَهُمْ فِي الْغُرُفاتِ آمِنُونَ [ سبأ/ 37] اور وہ خاطر جمع سے بالا خانوں میں بیٹھے ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مکہ والو تمہارے اموال اور اولاد کی زیادتی ایسی چیز نہیں جو تمہیں درجہ میں ہمارا مقرب بنا دے البتہ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور نیک اعمال کرے تو اس کا ایمان و نیک اعمال اسے اللہ تعالیٰ کا قرب نصیب کردیں گے۔ سو ایسے لوگوں کے لیے جو انہوں نے حالت ایمانی میں نیکیاں کی ہیں ان کا دگنا صلہ ہے اور وہ بالاخانوں میں موت وزوال سے بےخوف ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ { وَمَآ اَمْوَالُکُمْ وَلَآاَوْلَادُکُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُکُمْ عِنْدَنَا زُلْفٰٓی } ” اور (دیکھو ! ) تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایسی چیزیں نہیں کہ وہ تمہیں مرتبے میں ہمارا مقرب ّبنا دیں “ { اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا } ” سوائے اس شخص کے جو ایمان لایا اور اس نے نیک اعمال کیے۔ “ { فَاُولٰٓئِکَ لَہُمْ جَزَآئُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَہُمْ فِی الْْغُرُفٰتِ اٰمِنُوْنَ } ” تو ایسے لوگوں کے لیے ان کے اعمال کا دو گنا اجر ہے اور وہ بالا خانوں میں امن سے رہیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

57 This can have two meanings and both are correct: (1) That which brings the people nearer to Allah is not wealth and children but faith and righteous deeds; and (2) wealth and children can become a means of nearness to Allah only for that believing, righteous person, who spends his wealth in the way of Allah and tries to make his children God-conscious and righteous by good education and training. 58 Here there is also a subtle allusion that their blessing shall be imperishable, and their reward endless. For one cannot enjoy with full satisfaction of the heart a reward which is likely to perish or withdrawn suddenly at any time.

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :57 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ سے قریب کرنے والی چیز مال اور اولاد نہیں ہے بلکہ ایمان و عمل صالح ہے ۔ دوسرے یہ کہ مال اور اولاد صرف اس مومن صالح انسان ہی کے لیے ذریعہ تقرُّب بن سکتے ہیں جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت سے خدا شناس اور نیک کردار بنانے کی کوشش کرے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :58 اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ ان کی یہ نعمت لازوال ہو گی اور اس اجر کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا ۔ کیونکہ جس عیش کے کبھی ختم ہو جانے کا خطرہ ہو اس سے انسان پوری طرح مطمئن ہو کر لطف اندوز نہیں ہو سکتا ۔ اس صورت میں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ معلوم کب یہ سب کچھ چھن جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:37) بالتی بمعنی التی صیغہ واحد مؤنث غائب اموال واولاد کے لئے آیا ہے دونوں جمع مکسر کے صیغے ہیں اور جمع مکسر ذوی العقول اور غیر ذوی العقول کے لئے ضمیر واحد مؤنث آئے گی۔ تقربکم تقرب تقریب (تفعیل) سے مضارع صیغہ واحد مؤنث غائب اور یہاں اموال واولاد کے لئے استعمال ہوا ہے کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر ہے وہ تم کو قریب کردیں گے۔ قرب سے یہاں مراد قرب منزلت ہے۔ زلفی۔ درجہ۔ مرتبہ۔ قربت۔ قدرومنزلت، زلف وزلف وزلفی مصدر ہیں زلف (باب نصر) بمعنی آگے ہونا۔ قریب ہونا۔ ازلف باب افعال قریب کرنا۔ قریب لانا۔ مثلاً وازلفت الجنۃ للمتقین (50:21) اور بہشت پرہیزگاروں کے نزدیک لائی جائے گی منازل لیل یعنی رات کے حصوں کو بھی زلف کہا گیا ہے مثلاً وزلفا من الیل (11:114) اور رات کے کچھ حصوں میں۔ ایک شاعر نے کہا ہے طی اللیالی زلفا فزلفا۔ راتوں کا تھوڑا تھوڑا کر کے گذرنا۔ وما اموالکم ولا اولادکم بالتی تقربکم عندنا زلفی تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کوئی بھی) ایسی چیز نہیں جو تم کو کسی درجہ میں ہمارے قریب (قدرومنزلت میں کر دے۔ جزاء الضعف۔ اضافۃ المصدر الی مفعولہ (مصدر کی اپنے مفعول کی طرف اضافت کی مثال ہے) ۔ دوگنی جزا۔ دوگنا صلہ۔ مادہ ضعف سے الضعف (کمزوری) القوۃ کے بالمقابل باب کرم سے بمعنی کمزور ہونا آتا ہے مثلاً ضعف الطالب والمطلوب (22:73) طالب بھی کمزور بےبس، اور مطلوب بھی (کمزور وبے بس) ۔ اسی سے ضعیف (کمزور) الضعف رائے کی کمزوری پر بھی بولا جاتا ہے اور بدن اور حالت کی کمزوری پر بھی۔ اس میں ضعف وضعف دو لغت ہیں۔ باب نصر سے بھی مصدر۔ ضعف وضعف سے ان ہی معنوں میں آیا ہے۔ اسی مادہ سے با تفعیل (ضعف یضعف تضعیف) اور باب مفاعلہ (ضاعف یضاعف مضاعفۃ) سے بمعنی دو چند کرنا۔ یا کئی گناہ کرنا آتا ہے۔ باب تفاعل سے (فعل لازم) بمعنی دو چند ہونا۔ بڑھنا اور زیادہ ہونا۔ ضعف (دوگنا) کی جمع اضعاف کئی گناہ۔ دونے پر دونا۔ یہ نصف اور زوج کی طرح الفاظ متضائفہ میں سے ہے جن میں سے کسی ایک کا وجود دوسرے کے وجود کا مقتضی ہوتا ہے۔ یہ لفظ جب بغیر اضافت کے آئے تو زوجین کی طرح ” دوگنا “ کے معنی میں آتا ہے۔ اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد مراد ہوتا ہے لہٰذا ضعف العشرۃ وضعف المائۃ کے معنی بیس اور دو صد کے ہوں گے۔ لیکن جب یہ واحد کی طرف مضاف ہو کر آئے تو تین گناہ کے معنی ہوں گے۔ مثلاً اعطہ ضعفی واحد کے معنی یہ ہیں کہ اسے سہ چند دے دو ۔ جزاء الضعف دوگنا یا کئی گنا صلہ۔ بما۔ میں باء سببیہ ہے اور ما موصولہ۔ الغرفت۔ الغرفۃ کی جمع۔ اونچے مکان۔ بالا خانے، منازل عالیہ۔ جنت کے اندر شاندار منزلیں۔ امنون۔ اسم فاعل جمع مذکر امن سے۔ امن والے۔ بےخوف ۔ مطمئن۔ دل جمع ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مطلب یہ ہے کہ محض کسی شخص کا صاحب مال و اولاد ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقرب اور پسندیدہ ہونے کی علامت نہیں ہوسکتا۔ ہاں اگر مال و اولاد کو عمل صالح کا ذریعہ بنایا جائے تو بیشک یہ چیزیں قرب الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔2 یعنی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ دیکھئے سورة بقرہ آیت 261( ابن کثیر)3 یہاں ” عرفات “ سے مراد منازل و درجات ہیں اور ” کوئی فکر نہ ہوگی “ کیونکہ جنت کی نعمتیں ابدی اور دائمی ہوں گی۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 5 ۔ آیات 37 ۔ تا۔ 45 اسرار و معارف : دنیا کی نعمتوں میں مال اور اولاد بیشک بہت بڑی نعمت ہیں لیکن یہ سب کچھ طاقتور اقتدار اور صحت وغیرہ سب عظیم نعمتیں ہیں مگر انہیں اللہ کی رضا مندی کی دلیل سمجھ لینا سب سے بڑی جہالت ہے کہ یہ سب سب کچھ تو کفار و مشرکین کے پاس بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ وہ اپنی حکمت سے تقسیم فرماتا ہے اور اس کی حکمت سے وہ خود ہی واقف ہے ہاں اس کی رضامندی کی دلیل یہ ہے کہ ایمان کامل نصیب ہو اور نیک اعمال کی توفیق ارزاں ہو ایسے لوگوں کو یقینا ان کے اعمال سے کئی گنا زیادہ اجر دیا جائے گا اور یہ لوگ خوبصورت بالا خانوں کے جھروکوں میں مزے سے بیٹھے ہوں گے بغیر کسی قسم کے خوف یا اندیشے کے جبکہ ایسے لوگ جو دنیا میں نہ صرف گمراہ رہے بلکہ احکام الہی اور دین اسلام کو روکنے کی کوشش بھی کرتے رہے اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ جہاں تک رزق کا تعلق ہے تو یہ محض اس کی اپنی تقسیم ہے جسے چاہے زیادہ عطا کردے اور جسے چاہے اپنے ہی بندوں میں سے تھوڑا عطا کرے یعنی مومنین میں بھی جو اس کے پسندیدہ اور نیک بندے ہیں ، ان میں بھی ایسے بندے ہیں ، ان میں بھی ایسے بندے ہیں جنہیں وہ دوسروں کی نسبت کم دولت دیتا ہے۔ اس سے پہلے کی آیت میں عمومی تذکرہ تھا کہ دولت و غربت وہ اپنی مرضی سے اور آزمائش و امتحان کے لیے بانٹتا ہے یہاں عبادہ فرما کر یہ ظاہر فرما دیا کہ مومونین میں بھی امارت و غربت دونوں باتیں ہوسکتی ہیں اور آج کے عہد کا یہ تصور کہ اچھے مسلمان کو ضرورت غریب ہی ہونا چاہیے باطل ٹھہرا حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی بہت دولت مند لوگ تھے اور حضرت عثمان تو دولت مندوں کے سردار تھے پھر جب فتوحات نصیب ہوئیں مال غنیمت آیا تو حضرت علی اور حضرت حسن و حسین سب بہت امیر لوگ تھے اور یہ اللہ کا انعام تھا بلکہ ایمان کے ساتھ دولت اور قوت نصیب ہو اور بندہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اسے مزید دولت نصیب ہوتی ہے کہ آخرت کی بخشش جو بہت بڑی دولت ہے وہ تو ملتی ہی ہے اکثر دنیا میں بھی مال اور طاقت میں زیادتی نصیب ہوتی ہے ہاں جو خرچ ناجائز کاموں میں کیا جائے اس میں بدلہ دینے کا وعدہ نہیں ہے اور یہ قانون بھی ارشاد ہوگیا کہ دنیا میں بھی جس چیز کا خرچ جتنا بڑھ جائے اللہ کریم وہ شئے اتنی زیادہ پیدا فرما دیتے ہیں اور جس کی ضرورت کم ہوتی جائے وہ شے کم ہوتی جاتی ہے اور اسے روز مرہ کے استعمال کی چیزوں میں دیکھا جاسکتا ہے اگر عضو بدن کو کام سے روک دیں بےکار ہوجائے گا کام کریں تو قوت پائے گا یا جیسے کتے بلی وغیرہ کہ متعدد بچے دیتے ہیں اور گائے بھیڑ بکری ایک یا دو مگر ہمیشہ تعداد میں گائے بکریاں ریوڑ کے ریڑ اور کتے بلی کم ہوتے ہیں۔ جہاں تک ان کے مشرکانہ عقائد کا تعلق ہے تو ایک روز تو سب لوگوں کو یکجا جمع کیا ہی جائے گا اگر اب نہیں مان رہے تو تب انہیں ضرور تسلی ہوجائے گی کہ جب ان کے روبرو فرشتوں تک سے پوچھا جائے گا یعنی یہ کسی انسان کی یا فرشتوں تک کی پوجا کرتے تھے تو ان کے روبرو بات ہوجائے گی جیسے دوسری جگہ انبیاء کرام سے پوچھنے کی بات ہے کہ کیا یہ لوگ دنیا میں تمہاری پوجا کیا کرتے تھے تو وہ عرض کریں گے اے اللہ تو ہر قسم کے باطل عقائد سے بہت بلند اور پاک ہے اور ہماری زندگی تو تیری معیت میں تیرے بھروسے تیری عبادت و اطاعت میں گزری یہ تو کبھی ہمارے ساتھ نہ تھے بلکہ یہ تو شیاطین کی پوجا کرتے تھے اور حق یہ ہے کہ اگر کوئی انبیاء صلحاء یا فرشتوں کی پوجا کرتا ہے تو وہ تو اس کی بات پر ہرگز راضی نہیں ہیں نہ ایسا کرنے کو کہتے ہیں یہ بات بھی اسے شیطان ہی سکھاتا ہے اور دراصل وہ شیطان ہی کی عبادت کرتا ہے اور کچھ لوگ واقعی جنوں اور شیاطین کو پوجتے ہیں۔ کچھ اعمال میں ان کی اطاعت کرکے اور کچھ عملیات میں کفر و شرک میں مبتلا ہو کر اور یوں دنیا کا مفاد حاصل کرنے کی امید میں لگے رہتے ہیں لیکن روز حشر ارشاد ہوگا کہ آج تو بات واضح ہوگئی کہ تم میں سے کوئی بھی کسی کے لیے کچھ نہیں کرسکتا نہ تو نفع ہی پہنا سکتا ہے اور نہ نقصان ہی کرسکتا ہے۔ یہ بہت عجیب بات ارشاد ہوئی کہ اکثر لوگ تو دنیا کے نفع کی امید پر عملیات باطلہ اور اعمال بد میں مبتلا ہوتے ہیں پھر یہ بھی مشاہدہ ہے کہ جنات لوگوں کو ایذا اور نقصان پہناتے ہیں تو حق یہ ہے کہ اگر دنیا میں ان کے باعث چند ٹکے مل بھی تو وہ نقصان ہی ہے کہ آخرت میں سزا کا سبب بنے گا اور اگر راہ حق پر چلتے ہوئے کسی کافر سے ایذا پہنچی وہ جن ہو یا انسان تو نقصان نہیں ہے کہ آخرت میں انعام اور مغفرت کا سبب بنے گا لہذا یہ بات آج بھی واضح ہے ارشادات نبوی میں موجود مگر کفار کو یقین نہیں تو روز حشر سامنے دیکھ کر یقین بھی کرلیں گے بلکہ تب تو دوزخ کو بھی مان لیں گے کہ سب کفار کو جن و شیاطین ہوں یا ان کے پجاری حکم ہوگا کہ اب آگ کا عذاب چکھو اور اس میں داخل ہوجاؤ جب کہ زندگی بھر تم اسے ماننے سے انکار کرتے رہے۔ جب ان لوگوں کے سامنے اللہ کی آیات اور اس کے ارشادات بیان کیے جائیں تو یہ بدبخت اس پہ غور نہیں کرتے بلکہ انہیں یہ فکر گھیر لیتی ہے کہ قبول کرنے سے ہمارا اقتدار جاتا رہے گا جبکہ رسومات باطلہ میں تو یہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرتے ہیں تو کہنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ بندہ ہمیں باپ دادا کی رسومات اور مذہب سے ہٹا کر اپنے پیچھے لگانا چاہتا ہے تاکہ اس طرح اسے ہم پر اقتدار حاصل ہوجائے اور یہ جو کچھ کہتا ہے اس میں سچائی کی کوئی بات نہیں بلکہ اس نے سب کچھ اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے پھر جب حقائق ارشاد ہوتے ہیں جنہیں عقلاً اور نقلاً جھٹلانا ممکن نہیں رہتا نیز معجزات کا ظہور ہوتا ہے تو کہہ اٹھتے ہیں بلکہ یہ سب جادو ہے کس قدر بدبخت ہیں کہ انہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کبھی ایسی کتاب نصیب ہوئی نہ ایسا صاحب کتاب۔ کہ پہلے انبیاء بھی اللہ کا بہت بڑا احسان تھا اور پہہلی کتب بھی اس کا انعام مگر نزول قرآن اور بعثت آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بہت بہی بڑا اور بیحد و شمار احسان ہے جس کی یہ قدر کرتے اور جس پر قربان ہونے کو قابل فخر جانتے مگر انہوں نے انکار کی راہ اپنائی اور جن لوگوں نے انکار کی راہ اپنائی ہے وہ ذرا پہلی امتوں کو دیکھ لیں ان کے حالات پڑھ لیں کہ انہوں نے انبیاء کا انکار کیا تو کس انجام بد سے دو چار ہوئے جبکہ یہ لوگ تو قوت اور اقتدار میں ان کے ہزارویں حصے کو بھی نہیں پہنچے یعنی طاقت و اقتدار میں ان سے بہت کم ہیں اور آپ کی شان ان پہلوں کے انبیاء سے کس قدر بلند تو یہ سوچ لیں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وما اموالکم ولا اولادکم ۔۔۔۔۔۔ فی العذاب محضرون (27 – 28) نہایت صراحت کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ رزق کی فراوانی کے ذریعہ کوئی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوجاتا۔ ہاں اگر کوئی اپنی دولت میں سے فی سبیل اللہ خرچ کرتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں مفید ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ایک قاعدہ کلیہ بیان فرمایا (وَمَآ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ ) (الآیۃ) ارشاد فرمایا کہ تمہارے اموال اور اولاد تمہیں ہمارا مقرب بنانے والے نہیں ہیں، جو کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ چونکہ میرے پاس مال اولاد زیادہ ہے اس لیے اللہ کا مقرب ہوں، اور اپنے اعمال کو نہیں دیکھتا وہ شخص احمق ہے اور گمراہ ہے، (اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا) اللہ تعالیٰ کے ہاں تو وہ مقرب ہے جو ایمان لایا اور اعمال صالحہ میں لگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

39:۔ وما اموالکم الخ یہ زجر ہے۔ زلفی، تقرب کا مفعول مطلق ہے من غیر لفظہ۔ یہ خطاب کفار سے ہے یعنی مال و اولاد کی کثرت اللہ تعالیی کی بارگاہ میں قرب و کرامت کی دلیل نہیں ہے۔ الا من امن الخ : استثناء منقطع ہے اور یہ مومنین کے لیے بشارت اخروی ہے۔ فاولئک کی خبر محذوف ہے۔ ای مقربون اور لھم جزاء الضعف الخ جملہ ماقبل کا معلول ہے قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے وہ خدا کے یہاں مقرب ہیں اور اسی وجہ سے انہیں ان کے اعمال کی دگنی جزاء ملے گی۔ اور وہ جنت کے بالا خانوں میں امن و سکون سے رہیں گے۔ جزاء الضعف میں اضافت بیانیہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جو درجے اور مرتبے میں تم کو ہم سے قریب کردیں اور تم کو ہمارا مقرب بنادیں مگر ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرتا رہے تو یہ ایمان اور عمل صالح بیشک ہم سے قریب ہونے اور ہمارے مقرب ہونے کا ذریعہ اور سبب ہیں سو ایسے لوگوں کو ان کے اعمال کا دوگنا یعنی عمل سے زیادہ صلہ ملے گا اور وہ جنت کے بالاخانوں میں بےخوف بیٹھے ہوں گے۔ یعنی جو لوگ کثرت اموال و اولاد پر نازاں ہو کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اموال و اولاد ہم کو خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں مقرب بنادیں گے ان کی غلطی اور جہالت کا اظہار فرمایا اور بتایا کہ اصل چیزیں تو ایمان اور عمل صالح ہیں جو ہم سے قریب کرتے اور ایک انسان کو ہمارا پسندیدہ بناتے ہیں۔ دگنے کا یہ مطلب ہے کہ عمل سے زیادہ بدلا پائیں گے خواہ وہ دوگنا ہو یا دوگنے سے زیادہ ہو۔ اگر دل میں ایمان نہیں اور نہ نیک اعمال کا جذبہ تو مال اور اولاد بیکار ہیں اور ان کا کوئی نفع نہیں البتہ ایمان ہو اور نیک عمل ہو پھر مال نیک کاموں میں خرچ کیا جائے اور اولاد کو اچھی تربیت دی جائے اور وہ ماں باپ کی مغفرت کیلئے دعا کریں تو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ غرفات میں پرامن ہوں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ ان فی الجنۃ غرفاً یری ظاھرھا من باطنھا و باطنھا من ظاہرھا یعنی جنت میں کچھ بالاخانے ہیں جو اپنی صفائی کے اعتبار سے اتنے شفاف ہیں جن کے اندر سے باہر کی تمام چیزیں نظر آتی ہیں اور باہر سے اندر کی تمام چیزیں دکھائی دیتی ہیں یہ بالاخانے ان مسلمانوں کیلئے ہیں جو نرم کلام کرتے ہیں اور فقراء کو کھانا کھلاتے ہیں اور پے در پے روزے رکھتے ہیں اور رات میں جب لوگ سوتے ہیں تو وہ نماز پڑھتے ہیں یعنی تہجد کی نماز پڑھا کرتے ہیں۔