Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 22

سورة فاطر

وَ مَا یَسۡتَوِی الۡاَحۡیَآءُ وَ لَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ ﴿۲۲﴾

And not equal are the living and the dead. Indeed, Allah causes to hear whom He wills, but you cannot make hear those in the graves.

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے اللہ تعالٰی جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا يَسْتَوِي الاَْحْيَاء وَلاَ الاَْمْوَاتُ ... Not alike are the blind and the seeing. Nor are (depths of) darkness and light. Nor are the shade and the sun's heat. Nor are the living and the dead. Allah says that these antonyms are clearly not equal, the blind and the seeing are not equal, there is a difference and a huge gap between them. Darkness and light are not equal, neither are shade and the sun's heat. By the same token, the living and the dead are not equal. This is the parable Allah makes of the believers who are the living, and the disbelievers who are the dead. This is like the Ayat: أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَـهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِى النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَـتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَلِكَ Is he who was dead and We gave him life and set for him a light (of belief) whereby he can walk amongst men -- like him who is in the (depths of) darkness from which he can never come out. (6:122) مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالاٌّعْمَى وَالاٌّصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلً The parable of the two parties is as that of the blind and the deaf and the seer and the hearer. Are they equal when compared? (11:24) The believer sees and hears, and walks in the light upon a straight path in this world and the Hereafter, until he comes to settle in Gardens (Paradise) wherein is shade and springs. The disbeliever is blind and deaf, walking in darkness from which he cannot escape, he is lost in his misguidance in this world and the Hereafter, until he ends up in fierce hot wind and boiling water, and shadow of black smoke, neither cool nor good. ... إِنَّ اللَّهَ يُسْمِعُ مَن يَشَاء ... Verily, Allah makes whom He wills to hear, means. He guides them to listen to the proof and accept it and adhere it. ... وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ but you cannot make hear those who are in graves. means, `just as the dead cannot benefit from guidance and the call to truth after they have died as disbelievers and ended up in the graves, so too you cannot help these idolators who are decreed to be doomed, and you cannot guide them.' إِنْ أَنتَ إِلاَّ نَذِيرٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 احیاء سے مومن اور اموات سے کافر یا علماء اور جاہل یا عقلمند اور غیر عقلمند مراد ہیں۔ 22۔ 2 یعنی جسے اللہ ہدایت سے نواز نے والا ہوتا ہے اور جنت اس کی مقدر ہوتی ہے، اسے حجت یا دلیل سننے اور پھر اسے قبول کرنے کی تو فیق دے دیتا ہے۔ 22۔ 3 یعنی جس طرح قبروں میں مردہ اشخاص کی کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی اسی طرح جن لوگوں کے دلوں کو کفر نے موت سے ہمکنار کیا اے پیغمبر تو انہیں حق کی بات نہیں سنا سکتا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح مرنے اور قبر میں دفن ہونے کے بعد مردہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح کافر و مشرک جن کی قسمت میں بدبختی لکھی ہے دعوت و تبلیغ سے انہیں فائدہ نہیں ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٨] یہاں زندہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہیں۔ جو بدی کو بدی ہی سمجھتے ہیں اور نیکی کی راہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اور مردہ سے مردہ دل لوگ یا کافر ہیں۔ ان کے ضمیر اور ان کے دل اس قدر مرچکے ہیں کہ ہدایت کی بات ان کے دل تک پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ اسے سننا گوارا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کا ایسے لوگوں کو نصیحت کرنا بےسود ہے۔ [ ٢٩] سماع موتی کا رد :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ قبروں میں پڑے لوگوں سے مراد یہی مردہ دل کافر لوگ ہیں مگر الفاظ کے ظاہری معنوں کا اعتبار کرنا زیادہ صحیح ہوگا۔ یعنی جو لوگ قبروں میں جاچکے ہیں انہیں اللہ تو سنا سکتا ہے آپ نہیں سنا سکتے۔ کیونکہ قبروں میں پڑے ہوئے لوگ عالم برزخ میں جا پہنچے ہیں۔ عالم دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک سویا ہوا شخص اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی گفتگو نہیں سن سکتا۔ اس لیے عالم خواب الگ عالم ہے۔ اور عالم بیداری الگ عالم ہے۔ حالانکہ یہ دونوں عالم، عالم دنیا سے ہی متعلق ہیں مگر عالم برزخ دنیا سے متعلق نہیں بالکل الگ عالم ہے۔ لہذا قبروں میں پڑے ہوئے لوگ بدرجہ اولیٰ دنیا والوں کی بات سن نہیں سکتے۔ یہ آیت سماع موتی کا کلیتاً رد ثابت کرتی ہے۔ رہا قلیب بدر کا واقعہ جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ کہ جنگ بدر میں ستر مقتول کافروں کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔ تو تیسرے دن رسول اللہ نے اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : && تمہارے مالک نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا ؟ && لوگوں نے عرض کیا : && یارسول اللہ ! کیا آپ مردوں کو سناتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے && (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل۔۔ بخاری کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) اور سیدنا قتادہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا کہ اللہ نے اس وقت ان مردوں کو جلا دیا تھا ان کی زجز و توبیخ، ذلیل کرنے، بدلہ لینے اور شرمندہ کرنے کے لیے && (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل) گویا یہ ایک معجزہ تھا اور فی الحقیقت سنانے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ اور یہ اس آیت کا مفہوم ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۭ : یہ ایمان لانے والوں کی اور ایمان نہ لانے والوں کی مثال ہے کہ ایمان لانے والے زندوں کی طرح ہیں اور ایمان نہ لانے والے مردوں کی طرح۔ ابن کثیر (رض) نے فرمایا، جس طرح یہ باہم متضاد اور مختلف چیزیں برابر نہیں ہیں کہ اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں، بلکہ دونوں کے درمیان بہت سا فرق اور بعد ہے اور جس طرح اندھیرے اور روشنی برابر نہیں اور سایہ اور لو برابر نہیں، اسی طرح زندہ اور مردے برابر نہیں۔ یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بیان فرمائی ہے کہ وہ زندہ ہیں اور کافروں کے لیے کہ وہ مردہ ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ وَجَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِهٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۭ ) [ الأنعام : ١٢٢ ] ” اور کیا وہ شخص جو مردہ تھا، پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایسی روشنی بنادی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کا حال یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں ہے، ان سے کسی صورت نکلنے والا نہیں۔ “ اور فرمایا : (مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِيْرِ وَالسَّمِيْعِ ۭ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ ) [ ھود : ٢٤ ] ” دونوں گروہوں کی مثال اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے اور سننے والے کی طرح ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں ؟ “ چناچہ مومن سننے اور دیکھنے والا ہے، دنیا اور آخرت کے اندر روشنی میں صراط مستقیم پر چلتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے سایوں اور چشموں والی جنتوں کے ٹھکانے میں پہنچا دیتا ہے اور کافر اندھا اور بہرا ہے، اندھیروں میں چلتا ہے، ان سے کسی طرح نہیں نکلتا۔ دنیا اور آخرت میں اپنی سرکشی اور گمراہی میں بھٹکتا پھرتا ہے، یہاں تک کہ یہ سفر اسے جہنم کی لو اور گرم پانی تک پہنچا دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَّظِلٍّ مِّنْ يَّحْمُوْمٍ لَّا بَارِدٍ وَّلَا كَرِيْمٍ ) [ الواقعۃ : ٤٣، ٤٤ ] ” اور سیاہ دھوئیں کے سائے میں ہوں گے۔ جو نہ ٹھنڈا ہے اور نہ باعزت۔ “ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚ : سنانے کا مطلب سوچنے، سمجھنے اور قبول کرنے کی توفیق کے ساتھ سنانا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور چاہنے کی تو بات ہی دوسری ہے، وہ جسے چاہے سنا دے، چاہے تو بےجان پتھروں کو سنا دے، کسی اور میں یہ قدرت نہیں، نہ یہ رسول کے بس کا کام ہے کہ جن لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو حق کی آواز سنا سکے، وہ تو انھی کو سنا سکتا ہے جو معقول بات سننے اور اس پر غور کے لیے آمادہ ہوں۔ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ : یہ مشرکین کی مثال ہے کہ وہ مردوں کی طرح ہیں جو سنتے نہیں، یعنی جس طرح تیرے بس میں یہ بات نہیں کہ تو قبروں میں دفن مردوں کو اپنی بات سنا سکے اسی طرح جن لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہیں تو انھیں بھی اللہ کی آیات نہیں سنا سکتا، نہ انھیں راہ راست پر لاسکتا ہے۔ یہ آیت مردوں کے نہ سننے کی بھی واضح دلیل ہے۔ دیکھیے سورة نمل (٨٠، ٨١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

At the beginning of the verse: وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ‌ (And you cannot make hear those who are in the graves - 22.), disbelievers have been likened to the dead and believers, to the living. In congruence to this, the expression: (those in the graves) here means the disbelievers. The sense is that &the way you cannot make the dead hear you, you can also not make these living disbelievers hear you.& This verse has itself clarified it that, at this place, making someone hear means the kind of listening that is going to be useful, effective and beneficial. Otherwise, the effort to make disbelievers listen, in the absolute sense, has remained an exercise in futility since ever. It has even been a matter of common observation that a call was beamed at them, and they did listen to it. Therefore, the verse means that &the way you cannot bring the dead to the right path by making them hear the Divine Word because they have shifted from the avenue of deeds in the world to the arena of recompense in the Hereafter where, even if they confess to their faith, it will not be deemed as trustworthy, similar to that is the condition of the disbelievers. This proves that the negation of making the ( dead hear referred to in this verse means a particular listening that is beneficial, something because of which the listener forsakes the false and takes to the true. From this presentation, it becomes clear that the present verse has nothing to do with the issue of the ability of the dead to hear. Whether or not the dead hear the living is a different issue in its own place. A detailed discussion about it has appeared in the commentary on Surah Ar-Rum and Surah An-Naml (Ma’ ariful-Qur’ an, Volume VI).

(آیت) وما انت بمسمع من فی القبور، اس آیت کے شروع میں کفار کی مثال مردوں سے اور مومنین کی زندوں سے دی گئی ہے۔ اسی کی مناسبت سے یہاں من فی القبور سے مراد کفار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ان زندہ کافروں کو بھی نہیں سنا سکتے۔ اس آیت نے خود یہ بات واضح کردی کہ یہاں سنانے سے مراد وہ سنانا ہے جو مفید وموثر اور نافع ہو، ورنہ مطلق سنانا تو کفار کو ہمیشہ ہوتا ہی رہا، اور مشاہدہ میں آتا رہا ہے کہ ان کو تبلیغ کرتے اور وہ سنتے تھے۔ اس لئے مراد اس آیت کی یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو کلام حق سنا کر راہ حق پر نہیں لا سکتے کیونکہ وہ دنیا کے دارالعمل سے آخرت کے دار الجزاء میں منتقل ہوچکے ہیں، وہاں اگر وہ ایمان کا اقرار بھی کرلیں تو معتبر نہیں، اسی طرح کفار کا حال ہے اس سے ثابت ہوا کہ مردوں کے سنانے کی جو نفی اس آیت میں کی گئی ہے اس سے مراد خاص اسماع نافع ہے جس کی وجہ سے سننے والا باطل کو چھوڑ کر حق پر آجائے۔ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ سماع مولیٰ سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں، یہ مسئلہ اپنی جگہ مستقل ہے کہ مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں یا نہیں۔ اس کی مفصل تحقیق سورة روم میں اور سورة نمل میں گزر چکی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَسْتَوِي الْاَحْيَاۗءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ۝ ٢٢ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ قبر القَبْرُ : مقرّ الميّت، ومصدر قَبَرْتُهُ : جعلته في القَبْرِ ، وأَقْبَرْتُهُ : جعلت له مکانا يُقْبَرُ فيه . نحو : أسقیته : جعلت له ما يسقی منه . قال تعالی: ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] ، قيل : معناه ألهم كيف يدفن، والْمَقْبَرَةُ والْمِقْبَرَةُ موضع الْقُبُورِ ، وجمعها : مَقَابِرُ. قال : حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] ، كناية عن الموت . وقوله : إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] ، إشارة إلى حال البعث . وقیل : إشارة إلى حين كشف السّرائر، فإنّ أحوال الإنسان ما دام في الدّنيا مستورة كأنّها مَقْبُورَةٌ ، فتکون القبور علی طریق الاستعارة، وقیل : معناه إذا زالت الجهالة بالموت، فكأنّ الکافر والجاهل ما دام في الدّنيا فهو مَقْبُورٌ ، فإذا مات فقد أنشر وأخرج من قبره . أي : من جهالته، وذلک حسبما روي : ( الإنسان نائم فإذا مات انتبه) «2» وإلى هذا المعنی أشار بقوله : وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] ، أي : الذین هم في حکم الأموات . ( ق ب ر ) القبر کے معنی میت کو دفن کرنے جگہ کے ہیں اگر یہ قبرتہ ( ضرب ونصر ) کا مصدر ہو تو اس کے میت کو قبر میں دفن کر نیکے ہوتے ہیں ۔ اوراقبرتہ کے معنی کیس کیلئے قبر مہیا کرنے کے ہیں تاکہ اسے دفن کیا جائے جیسے اسقینہ کے معنی پینے کے لئے پانی مہیا کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقْبَرَهُ [ عبس/ 21] پھر اس کو موت دی ۔ پھر قبر میں دفن کرایا ۔ بعض نے اقبرہ کے معنی یہ کئے ہیں کہ اسے الہام کردیا کہ کس طرح میت کو دفن کیا جائے ۔ المقبرۃ والمقبرۃ ( قبر ستان ) جمع مقابر قرآن میں سے : ۔ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابِرَ [ التکاثر/ 2] یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ یہ موت سے کنایہ ہے اور آیت کریمہ : ۔ إِذا بُعْثِرَ ما فِي الْقُبُورِ [ العادیات/ 9] کہ جو مردے قبروں میں ہیں وہ باہر نکال لئے جائیں گے ۔ میں حیات بعد الممات یعنی موت کے بعد زندہ ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ دلوں کے اسرار ظاہر کردینے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جب تک انسان دنیا میں رہتا ہے اس کے بھید مستور رہتے ہیں گویا قبر میں مدفون ہیں تو یہاں قبور سے مجازا دل مراد ہیں بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جب موت کی وجہ سے جہالت کا پردہ اٹھ جائے گا گو یا کا فر اور جاہل جب تک دنیا میں رہتے ہیں جہالت کی قبروں میں مدفون رہتے ہیں چونکہ مرنے کے بعد وہ جہالت دور ہوجاتی ہے ۔ تو گویا وہ قبر جہالت سے دوبارہ زندہ کر کے نکالے گئے ہیں ۔ جیسا کہ مروی ہے الانسان نائم اذا مات کہ انسان دنیامیں سویا رہتا ہے جب موت آکر دستک دیتی ہے تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَما أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ [ فاطر/ 22] اور تم ان کو جو قبروں میں مدفون ہیں نہیں سنا سکتے ۔ یعنی جو لوگ جہالت کے گڑھے میں گرنے کی وجہ سے مردوں کے حکم میں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَلَا الْاَمْوَاتُ } ” اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندہ اور مردہ لوگ۔ “ یہاں مردوں سے مراد وہ مردے نہیں جو قبروں میں دفن ہیں ‘ بلکہ یہ ان جیتے جاگتے انسانوں کا تذکرہ ہے جن کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں۔ اگرچہ جسمانی اعتبار سے تو ایسے لوگ زندوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ چلتے پھرتے مقبرے اور تعزیے ہیں ‘ کیونکہ ان کی انسانیت مر کر ان کے جسموں کے اندر دفن ہوچکی ہے۔ اسی طرح یہاں زندوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی روحیں اور جن کے دل زندہ ہیں۔ زندگی کے اس فلسفے کو میر در ؔد نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے ! اگر کسی شخص کا دل مرگیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اس کی روح دم توڑ گئی تو انسانی سطح پر اس شخص کی موت واقع ہوگئی۔ اب اگر وہ زندہ ہے تو حیوانی سطح پر زندہ ہے۔ جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں اور زندگی کی دوسری ضروریات و خواہشات پوری کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح اب وہ بھی زندگی بسر کر رہا ہے ‘ مگر یہ زندگی ایک انسان کی زندگی ہرگز نہیں ہے۔ مثلاً ابو جہل بظاہر اچھی بھلی زندگی بسر کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا انسان چونکہ زندہ نہیں تھا اس لیے نہ تو وہ آفتابِ نبوت کو دیکھ سکا ‘ نہ اس کی تمازت محسوس کرسکا اور نہ ہی اس کی روشنی سے مستفیض ہوسکا۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُط وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْْقُبُوْرِ } ” یقینا اللہ سناتا ہے جس کو چاہتا ہے ‘ اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ نہیں سنا سکتے انہیں جو قبروں کے اندر ہیں۔ “ قبروں میں مدفون سے مراد یہاں وہی لوگ ہیں جن کے جسم اپنی ُ مردہ روحوں کے چلتے پھرتے مقبرے بن چکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

42 In these comparisons the present and the future of a believer and a disbeliever have been contrasted. There is a person who has closed his eyes to the realities and does not care to see as to what truth the whole system of the universe and his own existence itself are pointing. There is the other person, whose eyes are open and who clearly sees that everything outside and inside himself bears evidence to the Unity of God and to man's answerability before him. There is a person, who is wandering blindly in the superstitions of ignorance and the darknesses of presumptions and speculations, and is not inclined to benefit by the light of the candle lit by the Prophet. There is the other person, whose eyes are open and who, as soon as the light spread by the Prophet appears before him, comes to realize that All the ways being followed by the polytheists and the disbelievers and the atheists lead to destruction, and the way to success is only that which has been shown by the Messenger of God. Now how can it be possible that the attitude of the two persons be the same in the world and the two may follow one and the same path together ? And how can this also be possible either that the two should meet the same end and should both end up in the dust after death ? Neither should one be punished for his wrongdoings, nor the other be rewarded for his righteous conduct. The sentence, "the cool shade and the heat of the sun are not alike", points to the same fate. The one will be provided shelter tinder the shade of Allah's mercy and the other will bum in the fire of Hell. Thus, the notions that the two will ultimately meet the same end is utterly false. In the end, the believer has been likened to the living and the stubborn disbeliever to the dead. That is, the believer is he whose feeling, understanding and perception are alive and whose conscience is making him aware of the distinction between the good and the evil every moment. Contrary to this, the person who has been, wholly lost in the prejudices of disbelief is even worse than the blind person who is wandering about in darkness. Nay, he is like a dead person who has no sense or feeling left in him. 43 That is, "As for the powers of Allah, they are unlimited. He can even make the stones to hear. But it is not within the power of the Messenger to make those people to listen to him whose consciences have become dead and whose ears deaf to every call to the truth. He can only make those people to hear him, who are inclined to listen to every reasonable thing. "

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :42 ان تمثیلات میں مومن اور کافر کے حال اور مستقبل کا فرق بتایا گیا ہے ۔ ایک وہ شخص ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ کائنات کا سارا نظام اور خود اس کا اپنا وجود صداقت کی طرف اشارے کر رہا ہے ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کے باہر اور اندر کی ہر چیز خدا کی توحید اور اس کے حضور انسان کی جوابدہی پر گواہی دے رہی ہے ۔ ایک وہ شخص ہے جو جاہلانہ اوہام اور مفروضات و قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور پیغمبر کی روشن کی ہوئی شمع کے قریب بھی پھٹکنے کے لیے تیار نہیں ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور پیغمبر کی پھیلائی ہوئی روشنی سامنے آتے ہی اس پر یہ بات بالکل عیاں ہو گئی ہے کہ مشرکین اور کفار اور دہریے جن راہوں پر چل رہے ہیں وہ سب تباہی کی طرف جاتی ہیں اور فلاح کی راہ صرف وہ ہے جو خدا کے رسول نے دکھائی ہے ۔ اب آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہو اور دونوں ایک ساتھ ایک ہی راہ پر چل سکیں؟ اور آخر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا انجام یکساں ہو اور دونوں ہی مر کر فنا ہو جائیں ، نہ ایک کو بد راہی کی سزا ملے ، نہ دوسرا راست روی کا کوئی انعام پائے؟ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہے کا اشارہ اسی انجام کی طرف ہے کہ ایک اللہ کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والا ہے اور دوسرا جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہے ۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ آخر کار دونوں ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے ۔ آخر میں مومن کو زندہ سے اور ہٹ دھرم کافروں کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ یعنی مومن وہ ہے جس کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور موجود ہے اور اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہے ۔ اور اس کے بر عکس جو شخص کفر کے تعصب میں پوری طرح غرق ہو چکا ہے اس کا حل اس اندھے سے بھی بدتر ہے جو تاریکی میں بھٹک رہا ہو ، اس کی حالت تو اس مردے کی سی ہے جس میں کوئی حس باقی نہ رہی ہو ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :43 یعنی اللہ کی مشیت کی تو بات ہی دوسری ہے ، وہ چاہے تو پتھروں کو سماعت بخش دے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس کا یہ کام نہیں ہے کہ جن لوگوں کے سینے ضمیر کے مدفن بن چکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو صدائے حق سنا سکے ۔ وہ تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو معقول بات پر کان دھرنے کے لیے تیار ہوں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :44 یعنی تمہارا کام لوگوں کو خبردار کر دینے سے زائد کچھ نہیں ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمرا ہیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: جن لوگوں نے ضد اور ہٹ دھرمی سے حق بات ماننے کے تمام دروازے اپنے اوپر بند کرلئے ہیں، ان کو پہلے اندھوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اور ان کے کفر کو اندھیروں سے، اور اس کی سزا میں انہیں دوزخ کے جس عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اس کو دھوپ سے۔ اس کے مقابلے میں حق پرستوں کو دیکھنے والوں سے، ان کے دین کو روشنی سے، اور جنت کی جو نعمتیں انہیں حاصل ہوں گی، ان کو سائے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پھر فرمایا گیا ہے کہ جن لوگوں نے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم کرلی ہے، وہ تو مردوں جیسے ہیں، اور مردوں کو آپ اپنی مرضی سے کچھ سنا نہیں سکتے۔ اس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر یہ لوگ حق کو قبول نہیں کر رہے تو آپ زیادہ رنجیدہ نہ ہوں اور آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:22) الاحیائ۔ الحی کی جمع ہے۔ زندہ لوگ۔ مراد اہل علم۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی اسی طرح مومن اور کافر برابر نہیں ہوسکتے۔ مومن کا ٹھکانہ جنت اور کافر کا جہنم شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی سب خلق برابر نہیں جن کو ایمان دینا ہے انہیں کو ملے گا تو بتھری آرزوکرے تو کیا ہوتا ہے ؟ “ (موضح)9 یعنی مردوں کو مراد وہ کافر ہیں جن کے دل مردہ ہوچکے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ قبروں میں مردہ میں انہیں کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی۔ یہ ایک عام حقیقت ہے جس سے صرف وہ صورتیں مستثنیٰ ہیں جو دلیل ( کتاب و سنت) سے ثابت ہوں۔ (دیکھئے سورة نمل آیت 80) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ جب یہ مردے ہیں، تو مردوں کو زندہ کرنا خدا کی قدرت میں ہے بندہ کی قدرت میں نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شرک اور التوحید کا ایک اور موازنہ۔ جس طرح اندھا اور بینا، اندھیرے اور روشنی، دھوپ اور سایہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے۔ توحید اور شرک کے درمیان موازنہ فرما کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ توحید کا عقیدہ رکھنے والے زندہ ہیں اور شرک میں مبتلا ہونے والے مردہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے سننے کی توفیق بخشتا ہے۔ اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ قبروں میں دفن لوگوں کو نہیں سنا سکتے۔ آپ تو لوگوں کو ان کے برے اعمال کے نتیجہ سے ڈرا نے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ آپ حق قبول کرنے والوں کو خوشخبری سنائیں اور انکار کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرائیں۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی امت ایسی نہیں چھوڑی جن میں ڈرانے والا مبعوث نہ کیا ہو۔ یہ بات ” فہم القرآن “ کے کئی مقامات پر بیان ہوچکی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت دو نتائج پر مبنی ہے۔ تسلیم کرنے والوں کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشیر تھے اور انکار کرنے والوں کے لیے آپ نذیر بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ اس نے ہر زمانے کے لوگوں میں اپنا رسول مبعوث فرمایا جو لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈراتا اور ایمان والوں کو ان کے روشن مستقبل کی خوشخبری دیا کرتا تھا۔ ہر زمانے اور ہر امت میں رسول بھیجنے کا یہ مفہوم ہے کہ جہاں اور جب تک نبی کی شریعت اصل حالت میں موجود رہتی ہے۔ اس وقت تک وہاں نبی مبعوث نہیں کیا جاتا۔ جب پہلے نبی کی شریعت اپنی حالت میں نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ اس نبی کے دور اور علاقے میں ایک اور نبی مبعوث فرماتارہا۔ تاآنکہ خاتم المرسلین مبعوث کردئیے گئے۔ اب قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ دین مکمل ہوا جو اصل حالت میں ہمیشہ رہے گا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے علماء یہ فرض ادا کرتے رہیں گے۔ آیت ٢٢ میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مردوں کو نہیں سنا سکتے تھے۔ ہاں ! اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنوا سکتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بدر کے مردوں کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ عُمَرَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ أَخَذَ یُحَدِّثُنَا عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بالْأَمْسِ قَالَ ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاء اللّٰہُ غَدًا قَالَ عُمَرُ وَالَّذِی بَعَثَہُ بالْحَقِّ مَا أَخْطَءُوا تیکَ فَجُعِلُوا فِی بِءْرٍ فَأَتَاہُمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَادٰی یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا فَإِنِّی وَجَدْتُّ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا فَقَالَ عُمَرُ تُکَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاح فیہَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب أرواح المؤمنین ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر میں تھے وہ ہمیں اہل بدر کے متعلق بتانے لگے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ جگہیں ہمیں دکھائیں جہاں اگلے دن کافروں نے قتل ہونا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے چاہا تو فلاں فلاں کے قتل ہونے کی یہ یہ جگہ ہے۔ عمر (رض) فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ کافر مقررہ جگہوں سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر نہیں قتل ہوئے انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا۔ کنویں کے پاس نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور انہیں آواز دیتے ہوئے فرمایا اے فلاں بن فلاں، اے فلاں بن فلاں کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچ پایا ہے۔ بلاشبہ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچ پا یا ہے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لاشوں کو مخاطب فرمایا حالانکہ یہ مرچکے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ان سے کہہ رہا ہوں یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں۔ “ تفسیر بالقرآن مردے نہیں سنتے : ١۔ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے جو قبروں میں ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نہیں سنا سکتے۔ (فاطر : ٢٢۔ النمل : ٨٠) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہروں کو نہیں سنا سکتے۔ (یونس : ٤٢) ٣۔ مدفون نہیں سنتے وہ قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کا انکار کریں گے۔ (فاطر : ١٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان اللہ یسمع ۔۔۔۔۔ فکیف کان نکیر (22 – 26) ” اس کائنات کی حقیقت اور نفس انسانی کی ماہیت میں امتیازات حقیقی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا مزاج مختلف ہوتا ہے اور دعوت اسلامی کے حوالے سے ان کا ردعمل بھی جدا ہوتا ہے اس طرح جس طرح بصارت اور اندھے پن کا ، سائے اور دھوپ کا ، اندھیروں اور روشنی کا اور حیات اور موت کا ، اور ان تمام معاملات کی پشت پر اللہ کی حکمت اور قدرت کام کر رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا رسول صرف نذیر ہوتا ہے۔ اس کی انسانی طاقت محدود ہوتی ہے۔ وہ قبروں کے اندر پڑے مردوں تک دعوت نہیں پہنچا سکتا۔ نہ ایسے چلتے پھرتے مردوں کو وہ دعوت دے سکتا ہے یا سنا سکتا ہے۔ وہ اصل میں حقیقی مردوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اللہ ہی ہے جو ہر اس شخص کو سنا دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ جب چاہے ، جس طرح چاہے۔ لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی گمراہ ہوتا ہے تو کیوں ہوتا ہے۔ اگر کوئی منہ پھیرتا ہے تو پھیرے بشرطیکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت دے دی ہو اور رسالت کی ڈیوٹی ادا کردی ہو۔ لہٰذا جو سنتا ہے ، سنے ، اور جو اعراض کرتا ہے ، اعراض کرے۔ اس سے قبل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ وما یستوی الاحیاء الخ۔ احیاء (زندے) سے مراد مومنین اور اموت (مردے) سے مراد کفار ہیں۔ دل کی زندگی اور موت ایمان اور کفر ہے اس لیے مومنوں کو زندوں سے اور کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ضد وعناد کی وجہ سے ان کافروں کے دلوں پر مہر جباریت ثبت ہوچکی ہے اور ان کے دلوں سے قبول حق کی صلاحیت سلب کرلی گئی ہے۔ اس لیے تبلیغ و انذار سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا ای کما لا تسمع من مات کذالک لا تسمع من مات قلبہ (قرطبی ج 14 ص 340) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اور نہ زندے اور مردے دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی سب خلق برابر نہیں جن کو ایمان دیا ہے انہی کو ملے گا تو بہتیری آرزو کرے تو کیا ہوتا ہے اور یہ جو فرمایا اندھیرا نہ اجالا یعنی نہ اندھیرا برابر اجالے کے اور نہ اجالا برابر اندھیرے کے اور فرمایا تو نہیں سناتا قبروں میں پڑوں کو۔ حدیث میں آیا ہے کہ مردوں سے سلام علیک کرو وہ سنتے ہیں اور بہت جگہ مردے کو خطاب کیا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے اور قبر میں پڑا ہے دھڑ وہ نہیں سن سکتا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین اور منکرین کے فہم اور ادراک کا فرق اور دونوں کے انجام اور ثمرات کا فرق بیان فرمایا منکر کو اندھا اور مؤمن کو بصیر فرمانے میں یہ بات ظاہر فرمائی کہ اس نے خداداد فہم سے اسلام کی حقیقت کو سمجھ کر اسے قبول کرلیا اور منکر کا فہم اندھوں کی طرح ٹٹولتا رہا اور اسلام کی حقانیت کو نہ معلوم کرسکا۔ اسی طرح منکر کفر کی تاریکیوں میں مبتلا رہا اور مومن نے اپنی بصارت سے حقیقی نور اور روشنی پا لی۔ پھر دونوں کے انجام اور ثمرات کا فرق بیان فرمایا کہ سایہ اور ٹھنڈک اور بادسموم اور گرم لوئیں برابر نہیں یعنی جنت جو ایمان کا ثمرہ ہے اور جہنم جو انکار کا ثمرہ ہے، دونوں برابر نہیں۔ پھر منکر کو روحانیت سے خالی ہونے کی بنا پر مردہ اور مومن چونکہ اسلام کی روحانی سے مستفید ہے۔ اس کو زندہ فرمایا پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور اطمینان دلایا کہ جن کے دل اور جن کا صحیح فہم مردہ ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ان کو سننے کی توفیق عطا کرسکتا ہے اور سننے کے ساتھ قبول کرنے کی توفیق بھی عطا کرسکتا ہے۔ ورنہ آپ ان لوگوں کو جو قبروں میں پڑے ہوئے ہیں یعنی مردہ ہوچکے ہیں ان کو نہیں سنا سکتے یعنی ان کو مردہ سمجھو جس طرح مردے میں سننے کی صلاحیت نہیں اسی طرح یہ بھی صحیح سماع سے محروم ہیں تو آپ ان کے سننے نہ سننے کی فکر نہ کیجئے۔