Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 30

سورة فاطر

لِیُوَفِّیَہُمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ اِنَّہٗ غَفُوۡرٌ شَکُوۡرٌ ﴿۳۰﴾

That He may give them in full their rewards and increase for them of His bounty. Indeed, He is Forgiving and Appreciative.

تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دے بیشک وہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ... That He may pay them their wages in full, and give them (even) more, out of His grace. meaning, that He may give them a reward for what they have done, and multiply it by adding more, such as has never occurred to them. ... إِنَّهُ غَفُورٌ ... Verily, He is Oft-Forgiving, means, He forgives their sins, ... شَكُورٌ ...  Most Ready to appreciate. means, He appreciates even a little of their good deeds.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

30۔ 1 یعنی یہ تجارت مندے سے اس لئے محفوظ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال صالحہ پر پورا اجر عطا فرمائے گا۔ یا فعل محذوف کے متعلق ہے کہ یہ نیک اعمال اس لئے کرتے ہیں یا اللہ نے انہیں ان کی طرف ہدایت کی تاکہ وہ انہیں اجر دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٥] اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے اعمال کی قدردانی & پیاسے کو پانی پلانے اور راہ سے کانٹے ہٹانے پر بخشش :۔ یعنی اللہ کا اپنے بندوں سے معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا ایک تنگ ظرف آقا کا معاملہ اپنے ملازم سے ہوتا ہے۔ جو بات بات پر اپنے ملازم پر گرفت تو کرتا ہے مگر اس کی خدمات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ الل... ہ کا اپنے بندوں سے معاملہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ وہ اپنے بندوں کی چھوٹی موٹی غلطیاں معاف کردیتا ہے اور ان سے ان کی باز پرس بھی نہیں کرتا اور انسان جو نیک اعمال بجا لاتا ہے ان کا ان کے اجر سے بہت زیادہ بدلہ عطا فرماتا ہے۔ اسے اپنے بندے کی کوئی بھی ادا پسند آجائے تو اسے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔ چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : && ایک شخص نے ایک کتا دیکھا جو پیاس کے مارے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس نے اپنا موزا اتارا اور اس میں پانی بھر بھر کر اس کو پلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ سیر ہوگیا۔ اللہ نے اس کے اس کام کی قدر کی اور اس کو جنت عطا فرمائی && (بخاری۔ کتاب الوضوئ۔ باب اذاشرب الکلب فی الانائ) نیز سیدنا ابوہریرہ (رض) ہی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ : && ایک مرتبہ ایک شخص کہیں جارہا تھا اس نے راستہ میں کانٹوں والی ایک ٹہنی دیکھی جسے اس نے راہ سے ہٹادیا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ کام بہت پسند آیا اور اسے بخش دیا && (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب فضل التھجیر الی الظھر)   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لِيُوَفِّيَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَيَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ۭ :” لِيُوَفِّيَهُمْ “ میں لام عاقبت کا ہے، یعنی اہل علم کی تلاوت کتاب، اقامت صلاۃ اور خرچ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اجر پورے دے گا اور اپنے فضل سے مزید بھی دے گا۔ یہ لام علت اور وجہ بیان کرنے کے لیے بھی ہوسکتا ہے، یعن... ی علم والے لوگ قرآن کی تلاوت، اقامت صلاۃ اور اللہ کے عطا کردہ میں سے خرچ کرتے ہیں، تاکہ وہ انھیں ان کے اجر پورے دے اور اپنے فضل سے مزید بھی عطا فرمائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْهِمْ اُجُوْرَهُمْ وَيَزِيْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ۚ ) [ النساء : ١٧٣ ] ” پھر جو لوگ تو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے سو وہ انھیں ان کے اجر پورے دے گا اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ بھی دے گا۔ “ اپنے فضل سے مزید عطا کرنے میں ایک نیکی کو سات سو نیکیوں تک یا اس سے بھی زیادہ بڑھانا ہے، پھر چند روزہ زندگی کے عمل پر ہمیشہ کی جنت عطا کرنا ہے، پھر جنت کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت اپنا دیدار عطا فرمانا ہے، جیسا کہ فرمایا : (لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ ) [ یونس : ٢٦ ] ” جن لوگوں نے نیکی کی انھی کے لیے نہایت اچھا بدلا اور کچھ زیادہ ہے۔ “ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ (آمین) اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ : یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کے گناہوں پر بیحد پردہ ڈالنے والا اور ان کے نیک اعمال کی بیحد قدر کرنے والا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِيُوَفِّيَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَيَزِيْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ۝ ٣٠ اسْتِيفَاؤُهُ : تناوله وَافِياً. قال تعالی: وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] ، وقال : وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] ، ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ [ البقرة/ 281] ، إِ... نَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] ، مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] ، وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] ، فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] اور توفیتہ الشیئ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی پورا پورادینے کے ہیں اور استیفاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ [ آل عمران/ 25] اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ وَإِنَّما تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ [ آل عمران/ 185] اور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا ۔ إِنَّما يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا ۔ مَنْ كانَ يُرِيدُ الْحَياةَ الدُّنْيا وَزِينَتَها نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمالَهُمْ فِيها[هود/ 15] جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دتیے ہیں ۔ وَما تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ [ الأنفال/ 60] اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیاجائے گا : ۔ فَوَفَّاهُ حِسابَهُ [ النور/ 39] تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکا دے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي : ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

تاکہ اللہ تعالیٰ جنت میں ان کے اعمال کا ثواب ان کو پورا دیں اور اپنے فضل سے اور زیادہ بھی دیں کہ ایک نیکی پر دس گنا ثواب عطا کریں۔ وہ ان کے بڑے گناہوں کا بخشنے والا اور معمولی نیکیوں کا قبول کرنے والا ہے کہ ذرا سی نیکی کو قبول فرماتا ہے اور اس پر زیادہ ثواب دیتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠{ لِیُوَفِّیَہُمْ اُجُوْرَہُمْ وَیَزِیْدَہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖط اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ} ” تاکہ اللہ ان کو ان (کے اعمال) کے بھرپور اجر دے اور اپنے فضل سے انہیں مزید عطا کرے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا ‘ بہت قدر دان ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی غلطیوں کو معاف کرنے والا اور ان کے اعمال کی...  بہت قدر افزائی فرمانے والا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 This kind of conduct and practice of the believers has been likened to a trade bargain because in trade a man invests his money and labour and capabilities in the hope that he will not only get his capital back and his wages for the time and energy spent but in addition some profit as well. Likewise, a believer also invests his wealth and his time and his labour and capabilities in carrying out...  Allah's Commands and in His service and worship and in the struggle to promote the cause of His Religion in the hope that he will not only get his full rewards for it but Allah will bless him with much more from His bounty as well. But there is a great difference between the two kinds of bargains. In the worldly trade bargains there is the risk of loss also along with the hope of profits. Contrary to this, in the bargain that a sincere servant makes with his God there is : no risk of any loss whatever. 52 That is, "Allah's relation with the sincere believers is not that of a miserly master who checks his servant on trivialities and brings all his services and loyalties to nought on account of a minor error. But Allah is the Most Beneficent. and Generous Master. He overlooks the errors of His obedient servant and appreciates whatever service he might be able to render. "  Show more

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :51 اہل ایمان کے اس عمل کو تجارت سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ آدمی تجارت میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ نہ صرف اصل واپس ملے گا ، اور نہ صرف وقت اور محنت کی اجرت ملے گی ، بلکہ کچھ مزید منافعہ بھی حاصل ہوگا ۔ اسی طرح ایک مومن بھی خدا کی فرمانبردا... ری میں ، اس کی بندگی و عبادت میں ، اور اس کے دین کی خاطر جدوجہد میں ، اپنا مال ، اپنے اوقات ، اپنی محنتیں اور قابلیتیں اس امید پر کھپا دیتا ہے کہ نہ صرف ان سب کا پورا پورا اجر ملے گا بلکہ اللہ اپنے فضل سے مزید بہت کچھ عنایت فرمائے گا ۔ مگر دونوں تجارتوں میں فرق اور بہت بڑا فرق اس بنا پر ہے کہ دنیوی تجارت میں محض نفع ہی کی امید نہیں ہوتی ، گھاٹے اور دیوالے تک کا خطرہ بھی ہوتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو تجارت ایک مخلص بندہ اپنے خدا کے ساتھ کرتا ہے اس میں کسی خسارے کا اندیشہ نہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :52 یعنی مخلص اہل ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ اس تنگ دل آقا کا سا نہیں ہے جو بات بات پر گرفت کرتا ہو اور ایک ذرا سی خطا پر اپنے ملازم کی ساری خدمتوں اور وفا داریوں پر پانی پھیر دیتا ہو ۔ وہ فیاض اور کریم آقا ہے ۔ جو بندہ اس کا وفادار ہو اس کی خطاؤں پر چشم پوشی سے کام لیتا ہے اور جو کچھ بھی خدمت اس سے بن آئی ہو اس کی قدر فرماتا ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:30) لیوفیہم۔ یوفی مضارع واحد مذکر غائب منصوب بوجہ عمل لام تولیۃ تفعیل مصدر۔ پورا پورا دینا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ان کو پورا پورا دے گا۔ ان کو پورا پورا دے۔ لام کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) یہ لام تعلیل کا ہے اور اس کا تعلق فعل محذوف سے ہے یعنی فعلوا ما فعلوا لیوفیہم یعنی وہ ایسا اس واسطے کرتے...  ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا پورا پورا ثواب ان کو دے۔ (2) یہ لام عاقبت کا ہے اور اس کا تعلق یرجون سے ہے (یعنی اس امید تجارت کا نتیجہ یہ ہوگا) کہ اللہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا۔ ویزیدہم من فضلہ۔ اور اپنے فضل سے ان کے اجر میں مزید اضافہ کرے گا۔ انہ غفور شکور بیشک وہ بڑی مغفرت کرنے والا (لغزشوں کو معاف کرنے والا) بڑا قدردان (طاعتوں کی قدر افزائی کرنے والا ہے) یہ بندوں کے اعمال صالحہ کا پورا پورا بدلہ دینے اور اس پر مزید اپنے فضل و کرم سے عطا کرنے کی علت ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی ان کے گناہوں کو بخشنے والا اور ان کی اطاعت کی قدر کرنے والا ہے۔ یہاں تک تو توحید کا بیان تھا اب آگے رسالت کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ ( کبیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(30) چونکہ اللہ تعالیٰ خود ہی اس تجارت کا حامی ہے تو اس میں نفع ہی نفع کی وجہ یہ ہے کہ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اجر اور صلے پورے پورے عطا فرمائے اور اپنی مہربانی اور فضل سے ان کو اور بڑھتی اور زیادہ بھی دے بیشک وہ بڑا بخشنے والا بڑا قدرداں ہے۔ یعنی ثواب اور ان کے اعمال کی اجرتیں تو حسب وعدہ ان ک... و دی ہی جائیں گی جس کا بیان آگے آئے گا لیکن مقررہ ثواب کے علاوہ اور زیادہ بھی عطا ہوگی۔ سورۂ یونس میں گزرا ہے۔ للذین احسنوا الحسنی وزیادۃ یعنی بھلائی کرنے والوں کو بھلی چیز یعنی جنت ملے گی اور جنت کے علاوہ اور زیادہ بھی عطا ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ثواب موعود کے علاوہ ایسی چیزیں دی جائیں گی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنی وہ بڑی بخشش کا مالک یعنی غفور ہے اور بڑا قدرداں یعنی شکور ہے۔  Show more