Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 31

سورة فاطر

وَ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ ہُوَ الۡحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیۡرٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿۳۱﴾

And that which We have revealed to you, [O Muhammad], of the Book is the truth, confirming what was before it. Indeed, Allah , of His servants, is Acquainted and Seeing.

اور یہ کتاب جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے طور پر بھیجی ہے یہ بالکل ٹھیک ہے جو کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی تصدیق کرتی ہےاللہ تعالٰی اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والا خوب دیکھنے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Qur'an is The true Book of Allah Allah says: وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ... And what We have revealed to you -- O Muhammad, ... مِنَ الْكِتَابِ ... of the Book, i.e., the Qur'an , ... هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ... it is the (very) truth confirming that which was (revealed) before it. means, of the previous books. It confirms them just as they bore witness to the coming of the Qur'an and that it would be sent down from the Lord of the worlds. ... إِنَّ اللَّهَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ Verily, Allah is indeed All-Aware and All-Seer of His servants. means, He is All-Aware of them and knows who deserves to receive the blessing which He may give to him and not to others. The Prophets and the Messengers are favored above the rest of mankind, and some of the Prophets were given more than others and given higher status than others. The position given to Muhammad is higher than that of all the others, may the blessings and peace of Allah be upon them all.

فضائل قرآن قرآن اللہ کا حق کلام ہے اور جس طرح اگلی کتابیں اس کی خبر دیتی رہی ہیں یہ بھی ان اگلی سچی کتابوں کی سچائی ثابت کر رہا ہے ۔ رب خبیر و بصیر ہے ۔ ہر مستحق فضیلت کو بخوبی جانتا ہے ۔ انبیاء کو انسانوں پر اس نے اپنے وسیع علم سے فضیلت دی ہے ۔ پھر انبیاء میں بھی آپس میں مرتبے مقرر کر دیئے ہیں اور علی الاطلاق حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے بڑا کر دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے تمام انبیاء پر درود و سلام بھیجے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 یعنی جس پر تیرے اور تیری امت کے لئے عمل کرنا ضروری ہے۔ 31۔ 2 تورات اور انجیل وغیرہ کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اس اللہ کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں، جب ہی تو دونوں ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ 31۔ 3 یہ اس کے علم و خبری کا نتیجہ ہے کہ اس نے نئی کتاب نازل فرما دی، کیونکہ وہ جانتا ہے، پچھلی کتابیں ردو بدل کا شکار ہوگئی ہیں اور اب وہ ہدایت کے قابل نہیں رہی ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٦] قرآن کے حق ہونے کا مطلب زندگی کے حقائق کا لحاظ رکھنا ہے :۔ وہ حق اس لئے ہے کہ وہ اس ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جس نے انسان کو بنایا ہے۔ جتنا وہ انسان کی فطرت سے واقف ہوسکتا ہے دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کتاب کے جملہ احکام و ارشادات انسان کی فطرت کے مطابق بھی ہیں اور پوری انسانیت کے مصالح پر مبنی ہیں۔ اور بنی نوع انسان کی فلاح کے ضامن بھی ہیں۔ وہ ذات اپنے بندوں کی فطرت اور ان کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لئے اس کے بعض احکام تو غیر متبدل اور دائمی ہیں جو سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ اسی لحاظ سے یہ قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے۔ اور بعض نئے احکام بھی ہیں۔ بعض میں تبدیلی بھی کی گئی ہے اور یہ سب کچھ بندوں کے حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ پھر وہ اپنے کمزور اور معذور بندوں کو رخصتیں بھی عطا فرماتا ہے۔ اور حالات کے مطابق احکام میں رعایتیں بھی ملحوظ رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے سب بندوں کے حالات سے پوری طرح باخبر ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ : اس کا عطف ” اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ “ پر ہے۔ کتاب اللہ کی تلاوت کرنے والے علماء کی فضیلت بیان کرنے کے بعد فرمایا : ” اور یہ کتاب جو ہم نے آپ کی طرف وحی فرمائی ہے، کامل حق یہی ہے۔ “ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کے احکام پر مشتمل جتنی کتابیں ہیں ان میں سے جو لوگوں کی تصنیف کردہ ہیں ان میں حق کا کچھ حصہ ہے بھی تو اکثر حصہ باطل ہے اور جو اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، مثلاً تورات و انجیل تو ان کے اندر بعد میں تحریف اور کمی بیشی کی وجہ سے کچھ باطل چیزیں بھی شامل ہوگئی ہیں، ان کی جو باتیں حق ہیں یہ کتاب ان کی تصدیق کرتی ہے اور جو باطل ہیں ان کی تردید کرتی ہے، اس لیے یہ ان کے اصل اور صحیح مضامین کی محافظ ہے۔ اب کامل حق چونکہ صرف اسی کتاب میں ہے، اس لیے آپ کو اور آپ کی امت کو صرف اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ : یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ضروریات کی پوری خبر رکھنے والا اور ان کے اعمال کو پوری طرح دیکھنے والا ہے۔ اس نے آپ پر یہ کتاب ان کی اور ان کے زمانے کی تمام ضروریات کو مدنظر رکھ کر نازل فرمائی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ ہُوَالْحَــقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ۝ ٣١ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ خبیر والخَبِيرُ : الأكّار فيه، والخبر : المزادة العظیمة، وشبّهت بها النّاقة فسمّيت خبرا، وقوله تعالی: وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] ، أي : عالم بأخبار أعمالکم، ( خ ب ر ) الخبر کسان کو ِِ ، ، خبیر ، ، کہاجاتا ہے ۔ الخبر۔ چھوٹا توشہ دان ۔ تشبیہ کے طور پر زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی کو بھی خبر کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِما تَعْمَلُونَ [ آل عمران/ 153] اور جو کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی حقیقت کو جانتا ہے ۔ بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ قرآن حکیم جو ہم نے آپ پر بذریعہ جبریل امین نازل کیا ہے بالکل ٹھیک ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی توحید اور بعض احکام میں تصدیق کرتا ہے اللہ تعالیٰ مومن وغیر مومن سب کی حالت کی پوری خبر رکھنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١{ وَالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) ہم نے جو وحی بھیجی ہے آپ کی طرف کتاب میں سے ‘ وہی حق ہے ‘ تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس (کتاب) کی جو اس سے پہلے موجود ہے۔ “ { اِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہٖ لَخَبِیْرٌم بَصِیْرٌ} ” یقینا اللہ اپنے بندوں سے خوب باخبر ‘ انہیں دیکھنے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53 It means: This Book is not presenting anything new which might be opposed to the teaching brought by the former Prophets, but it is presenting the same eternal Truth which all the Prophets have been presenting from the very beginning. " 54 The object of mentioning these attributes of Allah here is to arouse the people to the aims and ideals in which their true well being lies, to the principles which alone can afford the right guidance and to the rules and regulations which are precisely in accordance with them. None can know these except Allah, because He alone is aware of the nature of His servants and its demands, and He alone watches over their well-being and affairs. The people do not know their own selves as much as their Creator knows them. Therefore, the truth is that, and can only be that, which He has taught by Revelation.

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :53 مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی نرالی بات نہیں پیش کر رہی ہے جو پچھلے انبیاء کی لائی ہوئی تعلیمات کے خلاف ہو ، بلکہ اسی ازلی و ابدی حق کو پیش کر رہی ہے جو ہمیشہ سے تمام انبیاء پیش کرتے چلے آرہے ہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :54 اللہ کی ان صفات کو یہاں بیان کرنے کا مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ بندوں کے لیے خیر کس چیز میں ہے ، اور ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کیا اصول موزوں ہیں ، اور کون سے ضابطے ٹھیک ٹھیک ان کی مصلحت کے مطابق ہیں ، ان امور کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا ، کیونکہ بندوں کی فطرت اور اس کے تقاضوں سے وہی باخبر ہے ، اور ان کے حقیقی مصالح پر وہی نگاہ رکھتا ہے ۔ بندے خود اپنے آپ کو اتنا نہیں جانتے جتنا ان کا خالق ان کو جانتا ہے ۔ اس لیے حق وہی ہے اور وہی ہو سکتا ہے جو اس نے وحی کے ذریعہ سے بتا دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:31) الکتب۔ ای القران۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4( حال موکد لکونہ حقا) یعنی یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس دعوت کو پیش کرتی ہے جو پچھلی کتابوں میں پیش کی گئی تھی۔ پچھلی کتابوں سے مراد توراۃ و انجیل وغیرہ کی وہ اصل عبارتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی تھیں نہ کہ ان کی موجودہ تحری شدہ عبارتیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 31 تا 37 :۔ اور ثنا ( ہم نے وارث بنایا) اصطفینا (ہم نے منتخب کرلیا) مقتصد (اعتدال اختیار کرنے والا) سابق (آگے بڑھنے والا) اساور (کنگن ، سونے کا ایک زیور) لولو ( موتی) حریر (ریشم) احلنا (ہم نے بسایا ، آباد کیا) دارالمقامۃ (رہنے کا گھر) نصب ( محنت ، مشقت) لغوب ( کام کے بعد کی تھکاوٹ) لا یقضی (فیصلہ نہ کیا جائے گا) لا یخفف (کمی نہ کی جائے گی) یطر خون (وہ چیخیں گے ، چلائیں گے) نعمر (ہم نے عمر دی تھی) نصیر (مدد گار) تشریح : آیت نمبر 31 تا 37 :۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے امت کو اور ساری دنیا کے لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کتاب قرآن مجید آپ کی طرف نازل کی گئی ہے وہ نہ صرف ” بر حق “ ہے بلکہ اس کے ذریعہ ان کتابوں کے سچا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جو آپ سے پہلے ناز ل کی گئی تھیں۔ نصاری ( عیسائی) اور یہودی ( بنی اسرائیل) جن کو اہل کتاب ہونے پر ناز تھا وہ ایک دوسرے کی کتابوں کو ماننے سے انکار کرتے تھے لیکن قرآن کریم کے ذریعے توریت ، زبور اور انجیل کے سچا ہونے کی تصدق کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگرچہ لوگوں نے اپنے معمولی اور گھٹیا مقاصد کے لئے ان کتابوں میں بہت سی باتیں خود گھڑ کر شامل کردی ہیں لیکن وہ کلام جو اللہ نے نازل کیا تھا وہ بالکل سچا کلام تھا اور اسی کی تصدیق قرآن کریم کی طرف سے کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم جیسی عظیم کتاب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس امت کی طرف نازل کی گئی ہے جو تمام امتوں میں ” خیر امت “ ہے۔ اب وہی اس کے وارث اور ذمہ دار ہیں وہی اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت پر مقرر کردیئے گئے ہیں ۔ فرمایا کہ بیشک اس قرآن کریم کی ذمہ داریاں اٹھانے والے بعض اعمال کی وجہ سے ذرا مختلف ہوں گے لیکن اس قرآن کریم کی برکت سے ان سب کی نجات ہوگی ۔ (1) ۔ بعض تو وہ لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کو پوری طرح ماننے کے باوجود اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوں گے یعنی گناہوں اور خطائو میں ملوث ہوں گے لیکن ان کے اندر یہ احساس زندہ رہے گا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ غلط ہے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں اس احساس کے زندہ ہونے سے کبھی نہ کبھی توبہ کی توفیق مل ہی جائے گی کیونکہ جو بالکل بےحس ہوجائے کہ اپنے گناہوں پر بھی شرمندہ نہ ہو اس کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوا کرتی۔ ( 2) دوسرے ’ مقتصد “ ہیں یعنی درمیانہ درجہ کے اعمال کرنے والے کچھ اعتدال و تو ازن رکھنے والے یعنی جو لوگ نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف زیادہ رغبت رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اگرچہ تقویٰ کا اعلیٰ مقام نہیں ملتا لیکن بہر حال وہ اپنا ایک درجہ اور مقام رکھتے ہیں۔ (3) لیکن وہ لوگ جو ” سابق الخیرات “ یعنی ہر نیکی اور بھلائی کے کام کی طرف بےتابانہ دوڑتے اور لپکتے ہیں ۔ اللہ کے کامل بندے اور اللہ و رسول کی مکمل اطاعت رکنے والے ، فرائض و واجبات کی پابندی کرنے والے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ کے ہاں بہت اعلیٰ مقام اور جنت کی ابدی راحتوں سے ہم کنار کیا جائے گا ۔ یہ تینوں طبقے جو ” وارثین کتاب “ ہیں سب کے سب جنت میں جائیں گے۔ اسی بناء پر ہمارے علماء اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر ایک شخص مومن اور وارث کتاب ہے اور اس سے گناہ بھی ہوجاتے ہیں تو وہ معمولی فرق کے ساتھ جنت میں ضرور جائے گا ۔ حضرت ابو دردا (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل کئے جائیں گے اور جو مقتصد یعنی درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہیں ان سے ہلکا سکا حساب لیا جائے گا ۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہوگا وہ بھی جنت میں جائیں گے مگر بہت طویل انتظار کے بعد ۔ جب ان کو نجات کا پروانہ ملے گا تو وہ کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں شدید رنج و غم سے نجات عطاء فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جنت جس میں ان لوگوں کو داخل کیا جائے گا ان کا شاہانہ انداز ہوگا ریشم کا بہترین لباس ، موتیوں اور ہیرے جواہرات کے جڑے ہوئے تاج ، سر مئی آنکھیں ، بھر پور جوانی اور اس کی لذتیں اور ہم عمر خوبصورت حوریں یہ سب انعام کے طور پر ان کو ہمیشہ کے لئے دی جائیں گی اس پر وہ لوگ اللہ کا شکر ادا کریں گے اور کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے بغیر محنت و مشقت کے یہ تمام نعمتیں عطاء فرمائی ہیں اسی نے رنج و غم سے ہمیں نجات عطاء فرما دی ہے۔ اس کے بر خلاف وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہوگا ان کو ایسی جہنم میں جھونک دیا جائے گا جہاں وہ عذب الٰہی کو دیکھ کر اس کی خواہش کریں گے اس سے تو انہیں موت ہی آجاتی لیکن ان کی حسرت کی انتہاء یہ ہوگی کہ وہ اس جہنم میں مرنا بھی چاہیں گے تو ان کی موت نہ آئے گی اور ان سے عذاب جہنم کو ہلکا بھی نہیں کیا جائے گا ۔ وہ روئیں گے چلائیں گے مگر ان ظالموں کی فریاد تک سننے والا کوئی نہ ہوگا وہ کہیں گے الٰہی ہمیں اس عذاب سے نکا لئے اب ہم دنیا میں دوبارہ جا کر وہی کچھ کریں گے جس کا ہمیں اللہ و رسول نے حکم دیا ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا جائے گا کہ اب رونے چلانے سے کیا فائدہ اور دنیا میں دوبارہ جانے کی تمنا فضول ہے کیونکہ تمہیں زندگی کا ایک طویل عرصہ دیا گیا تھا جب تم نے اس زندگی میں کفر و شرک اختیار کیا تو اب تم سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے جب کہ تمہارے پاس اللہ کے وہ رسول بھی آئے جنہوں نے تمہیں اس دن کے عذاب سے آگاہ بھی کردیا تھا مگر تم نے ان باتوں کی کبھی پروا نہیں کی لہٰذا اب اپنے کرتوتوں کا مزہ چکھوآج تم ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں ہے اور اس طرح ان کو جہنم کی ابدی آگ میں جھونک دیا جائے گا ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہ اللہ تعالیٰ کی قدر افزائی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے بندوں میں کچھ بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا جس کے ” من جانب اللہ “ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ قرآن واقعتا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا یہ حقیقی اور ٹھوس دلائل پر مبنی ہے۔ اس کے ارشادات سچے ہیں اس کی تعلیمات پہلی آسمانی کتابوں کی تائید کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہر بات سے باخبر اور ان کے ہر کام کو دیکھنے والا ہے۔ وہی لوگوں میں سے اپنے بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنانے والا ہے جن میں سے کچھ اپنے آپ پر زیادتی کرنے والے ہیں۔ کچھ ان میں میانہ رو ہیں اور کچھ ان میں سے اپنے رب کی توفیق سے نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکل جانے والے ہیں۔ جن لوگوں کو نیکی میں سبقت کرنے کی توفیق مل جائے ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔ اسے لوگوں تک پہنچانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کی وفات کے بعد اس پر عمل کرنا اور لوگوں تک پہنچانا امّتِ محمدیہ کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جس معاشرے اور قوم میں نیکی اور اچھائی کے کاموں میں مسابقت کا جذبہ مفقود ہوجائے وہ معاشرہ اور قوم بالآخر مردہ ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو مردگی سے بچانے اوراقوام عالم کی قیادت پر فائز کرنے کے لیے کئی بار حکم دیا کہ اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو یہی ترقی کا راز اور اجتماعی زندگی کا جوہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تین طبقات میں شمار فرمایا ہے۔ 1 مسلمان ہیں مگر ان سے کبیرہ گناہ بھی سرزد ہوجاتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کتاب مبین کے وارث ہونے کے باوجود انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ یہاں ظلم سے مراد چھوٹے بڑے گناہ ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے 2 مسلمانوں میں دوسرا طبقہ وہ ہے جو فرائض پورے کرتا ہے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے لیکن نفلی کاموں میں بڑھ چڑھ کر زیادہ حصہ نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے بندوں میں شمار فرمایا ہے۔ 3 امت محمدیہ کا آخری اور بہترین طبقہ وہ ہے جو فرائض کو بطریق احسن انجام دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے نفلی کاموں میں بھی دوسرے مسلمانوں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگ نیکی کے معاملہ میں امت محمدیہ کا سرخیل اور ہر اوّل دستہ ہیں۔ جن میں صحابہ کرام ] پوری امت کے امام اور پیش رو ہیں اور ان کے بعد ان کی اولادیں پوری امت سے افضل ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ، ثُمَّ یَجِیءُ مِنْ بَعْدِہِمْ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَتَہُمْ )[ رواہ البخاری : باب مَا یُحْذَرُ مِنْ زَہْرَۃِ الدُّنْیَا وَالتَّنَافُسِ فیہَا ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر ان کے بعد والے، پھر جو ان کے بعد والے۔ اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جن کی گواہی ان کی قسم پر اور قسم ان کی شہادت پر سبقت لے جائے گی۔ “ (یعنی انہیں قسم اور گواہی کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ ) کچھ مفسرین نے تین طبقات سے مراد اہل کتاب لیے ہیں ان میں سے ایک طبقہ کھل کر دین کی مخالفت کرکے اپنے آپ پر ظلم ڈھارہا ہے۔ دوسرا طبقہ مسلمانوں کی مخالفت تو کرتا ہے لیکن اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو تمام قسم کے تحفظات اور مخالفتوں کی پروا کیے بغیر دین اسلام کو قبول کرتا ہے۔ (عَنْ مُّعَاوِےَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَےْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّےْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ ےُعْطِیْ ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین ] ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ مجھے عنا یت فرمانے والا ہے۔ “ (یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ) [ البقرۃ : ٢٦٩] ” وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیر کثیر عطا کردی گئی نصیحت تو صرف عقل مندہی قبول کرتے ہیں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں اپنے بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنایا ہے۔ ٢۔ مسلمانوں میں سب سے بہترین طبقہ وہ ہے جو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنیوالا ہے۔ ٣۔ نیکی میں سبقت کرنیوالے پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیکیوں میں سبقت کرنے کا حکم اور سبقت کرنے والوں کی فضیلت : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فا طر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعۃ : ١٠، ١١) ٥۔ اللہ کی جنت اور بخشش میں سبقت کرو۔ ( آل عمران : ١٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذی اوحینا۔۔۔۔۔ لخبیر بصیر (31) سچائی کے دلائل اس کتاب کے مضامین میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں۔ یہ کتاب اس کائنات کے حقائق کی ترجمان ہے۔ بلکہ یہ کتاب اس کائنات کا وہ صفحہ ہے جو پڑھا جاتا ہے اور پوری کائنات وہ صفحہ ہے جو خاموش ہے اور اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب تصدیق کرتی ہے ان کتابوں کی جو اللہ نے پہلے بھی بھیجی ہیں کیونکہ دونوں کا مصدر اور سرچشمہ ایک ہے۔ اور سچائی ہمیشہ ایک ہوتی ہے ۔ اس میں تعدد نہیں ہوتا۔ اس کتاب کے نازل کرنے والے نے اسے لوگوں کے لیے بھیجا ہے اور وہ لوگوں کا خالق ہے اور وہ اچھی طرح لوگوں کو جانتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کس چیز میں ان کی مصلحت ہے اور کس چیز کے ذریعہ ان کی اصلاح ممکن ہے۔ ان اللہ بعبادہ لخبیر بصیر (35: 31) ” بیشک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے “۔ یہ تو ہے حقیقت اس کتاب کی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد قرآن مجید کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے جو کچھ آپ کو وحی بھیجی ہے وہ حق ہے، ان کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئی تھیں، بلاشبہ اللہ اپنے بندوں کی پوری طرح خبر رکھنے والا ہے پوری طرح دیکھنے والا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

30:۔ والذی اوحینا الخ : یہ توحید پر دلیل وحی ہے ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے وہ سراپا حق ہے اس میں ہم نے مسئلہ توحید کو ضاحت سے بیان کیا ہے اور ہم ہی نے آپ کو مسئلہ توحید بیان کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کتاب کتب سابقہ میں بیان شدہ عقائد اور اصول احکام کی تصدیق و تائید کرتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ توحید کتب سابقہ میں بھی مذکور تھا۔ ان اللہ بعبادہ لخبیر بصیر : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام ظاہری اور باطنی احوال کو جانتا ہے اس نے آپ کو مستحق اور لائق جان کر ہی آپ پر یہ سراپا حق کتاب نازل فرمائی ہے۔ جو کتب سابقہ کے لیے معیار اور کسوٹی ہے۔ فعلمک وابصر احوالک و راک اھلا لان یوحی الیک مثل ھذا الکتاب المعجز الذی ھو معیار علی سائر الکتب (مدارک) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) اور اے پیغمبر جو کتاب ہم نے آپ کی جانب وحی کی ہے وہ سراسر حق ہے اس کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق بھی کرنیوالی ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پوری خبر رکھنے والا اور ان کو خوب دیکھنے والا ہے۔ مصدق کے دو معنی ہیں جن کو ہم نے ہمیشہ بیان کیا ہے ایک تو یہ کہ ان کتابوں کو منزل من اللہ بتاتا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چونکہ اس کتاب کی سابقہ کتب سماویہ میں پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ اس لئے اس کتاب نے آ کر تمام کتب سمادیہ کی پیشین گوئیوں کی تصدیق کردی۔ چونکہ وہ بندوں کی حالت سے خبردار اور ان کی مصالح سے واقف ہے۔ اس لئے آخری دور میں ایک ایسی کامل کتاب نازل فرمائی جس پر عمل کرنے سے آدمی درجات کے کمال کو حاصل کرلیتا ہے۔