Surat Faatir

Surah: 35

Verse: 8

سورة فاطر

اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۫ ۖفَلَا تَذۡہَبۡ نَفۡسُکَ عَلَیۡہِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ ﴿۸﴾

Then is one to whom the evil of his deed has been made attractive so he considers it good [like one rightly guided]? For indeed, Allah sends astray whom He wills and guides whom He wills. So do not let yourself perish over them in regret. Indeed, Allah is Knowing of what they do.

کیا پس وہ شخص جس کے لئے اس کے برے اعمال مزین کر دیئے گئے ہیں پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے ( کیا وہ ہدایت یافتہ شخص جیسا ہے ) ( یقین مانو ) کہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے ۔ پس آپ کو ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنی چا ہیے ، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے یقیناً اللہ تعالٰی بخوبی واقف ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَفَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَاهُ حَسَنًا ... Is he, then, to whom the evil of his deeds is made fair seeming, so that he considers it as good! meaning, `such as disbelievers or immoral persons who do evil deeds and believe that they are doing something good, i.e., a person who is like that has been misguided by Allah, so what can you do for him? You cannot help him at all.' ... فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء ... Verily, Allah sends astray whom He wills and guides whom He wills. means according to His decree. ... فَلَ تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ... So destroy not yourself in sorrow for them. means, do not grieve about that, for Allah is Wise in His decree and He leaves astray whomsoever He leaves astray, and He guides whomsoever He guides, and in doing so He has perfect knowledge and wisdom. Allah says: ... إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ Truly, Allah is the All-Knower of what they do!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 جس طرح کفار و بدکار ہیں، وہ کفر و شرک فسق اور بدکاری کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔ پس ایسا شخص، جس کو اللہ نے گمراہ کردیا ہو، اس کے بچاؤ کے لئے آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے ؟ یا یہ اس شخص کے برابر ہے جسے اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے ؟ جواب نفی میں ہی ہے، نہیں یقینا نہیں۔ 8۔ 2 اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی رو سے اپنی سنت کے مطابق اس کو گمراہ کرتا ہے جو مسلسل اپنے کرتوتوں سے اپنے کو اس کا مستحق ٹھہرا چکتا ہے اور ہدایت اپنے فضل وکرم سے اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔ 8۔ 3 کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت پر اور علم تام پر مبنی ہے اس لیے کسی کی گمراہی پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں۔ 8۔ 4 یعنی اس سے کوئی قول یا فعل مخفی نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ان کے ساتھ معاملہ علیم وخبیر اور ایک حکیم کی طرح ہے عام بادشاہوں کی طرح کا نہیں ہے جو اپنے اختیارات کا الل ٹپ استعمال کرتے ہیں، کبھی سلام کرنے سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی دشنام پر ہی خلعتوں سے نواز دیتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ١٢] کافروں کے ایمان نہ لانے پر آپ کا پریشان رہنا :۔ اس آیت میں ایک جملہ مخدوف ہے جسے قاری کے فہم و بصیرت پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اور یہ فصاحت و بلاغت کی دلیل ہوتی ہے۔ اور قرآن میں ایسے محذوفات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ یہاں سوال یہ کیا گیا ہے کہ بھلا ایسا شخص جس کے ذہن میں اتنا بگاڑ پیدا ہوچکا ہو کہ اس کے نزدیک نیکی اور بدی کی تمیز ہی ختم ہوجائے اور اسے اپنی بداعمالیاں ہی اچھے اعمال نظر آنے لگیں، اس سوالیہ جملے کا اگلا حصہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی گمراہی کا کوئی ٹھکانا ہے ؟ جیسا کہ ترجمہ میں (بریکٹوں میں لکھ دیا گیا ہے) اور دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا ایسے بگڑے ہوئے ذہن والا آدمی اس آدمی کی طرح ہوسکتا ہے جس کا ذہن بالکل درست ہو جو برے کام کو برا ہی سمجھتا ہو اور اچھا صرف اسے سمجھتا ہو جو فی الواقع اچھا ہو ؟ اور اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ مقصود یہ ہے کہ جس شخص کا ذہن اس قدر بگڑ چکا ہو کہ اس میں بدی کو بدی سمجھنے کی اہلیت ہی باقی نہ رہ گئی ہو ایسے شخص کو اللہ کبھی ہدایت کی راہ نہیں دکھاتا۔ اللہ تو صرف اسے ہدایت کی راہ دکھاتا ہے جو کم از کم بدی کو بدی سمجھتا تو ہو۔ اور ان مشرکین مکہ کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ مسلمانوں پر جس قدر بھی ظلم ڈھائیں۔ وہ اپنے اس ظلم و تشدد کو خوبی اور اچھا کام ہی سمجھتے ہیں۔ پھر انہیں ہدایت کیسے مل سکتی ہے لہذا ایسے ذہنی بگاڑ میں مبتلا مریضوں کی ہدایت کی فکر میں اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں۔ ایسے لوگوں پر افسوس کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے وہ خود ان سے نمٹ لے گا اور مسلمانوں کے لئے ان ظالموں کے ظلم سے نجات کی راہ خود پیدا کردے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا : اس کا جواب محذوف ہے : ” أَيْ کَمَنْ لَیْسَ کَذٰلِکَ “ یعنی کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا تو اس نے اسے اچھا سمجھا، وہ اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ ایسا شخص اس شخص کی طرح نہیں ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت عطا ہوئی ہو اور وہ اس پر عمل کرتا ہو۔ دوسری جگہ یہ بات واضح الفاظ میں فرمائی : (اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ كَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ وَاتَّبَعُوْٓا اَهْوَاۗءَهُمْ ) [ محمد : ١٤ ] ” تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہے، اس شخص کی طرح ہے جس کے لیے اس کے برے اعمال مزیّن کردیے گئے اور انھوں نے اپنی خواہشوں کی پیروی کی۔ “ مطلب یہ کہ کافر اور مومن برابر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزیّن کیا گیا تو اس نے اسے اچھا سمجھا، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اگرچہ برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے، اچھا نہیں۔ ظاہر ہے یہ دونوں شخص بھی برابر نہیں ہوسکتے، کیونکہ ایک شخص جو برا کام کرتا ہے اور اسے برا ہی سمجھتا ہے، اس کے متعلق تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی راہ راست پر آجائے گا، لیکن جو شخص برا کام کرتا ہے مگر اسے اچھا سمجھ کر کرتا ہے تو اس کے راہ راست پر آنے کی کبھی امید نہیں کی جاسکتی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا ١٠٣؁ۭ اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ١٠ 4 ۔ ) [ الکہف : ١٠٣، ١٠٤ ] ” کہہ دے کیا ہم تمہیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال میں سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ وہ لوگ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں۔ “ اس آیت میں برے عمل سے مراد کفرو شرک ہے، جیسا کہ سورة کہف کی آیت کے بعد فرمایا : (اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ وَلِقَاۗىِٕهٖ ) [ الکہف : ١٠٥ ] ” یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا۔ “ البتہ آیت کے الفاظ عام ہونے کی وجہ سے بدعتی لوگ بھی اس میں شامل ہیں، کیونکہ وہ بدعت کو نیکی سمجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے چوری، زنا اور قتل وغیرہ کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنے آپ کو گناہ گار سمجھتا ہے، اس لیے امید ہے کہ وہ توبہ کرلے گا، مگر خود ساختہ دین پر عمل کرنے والا، مثلاً اپنے یا لوگوں کے بنائے ہوئے ورد و وظائف یا دوسرے کام کرنے والا شخص تو جو کچھ کر رہا ہے نیکی سمجھ کر کرتا ہے، اسے توبہ کی توفیق کیسے ہوسکتی ہے ؟ اس لیے جب شیطان کسی کو کافر بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا تو اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اسے کسی بدعت پر لگا دے، جسے وہ نیکی سمجھ کر کرتا رہے گا اور جتنی محنت سے کرے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوتا جائے گا، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں ہے۔ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ڮ : یعنی ایسے لوگوں کا وجود اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہی کی وجہ سے ہے اور بعض کا گمراہ ہونا اور بعض کا ہدایت پانا اس کی حکمت کا نتیجہ ہے، وہ چاہتا تو سب ہدایت پا جاتے مگر وہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اگرچہ اس کا ہدایت دینا یا گمراہ کرنا بھی آدمی کے عمل یا استعداد کا نتیجہ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَمَا يُضِلُّ بِهٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ ) [ البقرۃ : ٢٦ ] ” اور وہ اس کے ساتھ گمراہ نہیں کرتا مگر فاسقوں کو۔ “ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ۭ : ” حَسَرٰتٍ ۭ“ واحد ” حَسْرَۃٌ“ کسی چیز کے ہاتھ سے نکلنے پر شدید غم اور افسوس، یعنی آپ کا کام دعوت اور پیغام پہنچانا ہے، انھیں راہ راست پر لے آنا آپ کے بس میں نہیں۔ اس لیے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے ایمان نہ لانے پر حسرت و افسوس کی وجہ سے آپ کی جان ہی نکل جائے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ کفار کا کفر پر قائم رہنا اللہ کی مشیّت سے ہے، آپ اپنا کام سر انجام دیں، لوگوں کا ایمان لانا آپ کی ذمہ داری نہیں۔ اس آیت سے اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے ایمان نہ لانے پر کس قدر افسوس اور صدمہ ہوتا تھا، حتیٰ کہ قریب تھا کہ آپ اس غم میں جان ہی سے گزر جائیں، جیسا کہ فرمایا : (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا) [ الکہف : ٦ ] ” پس شاید تو اپنی جان ان کے پیچھے غم سے ہلاک کرلینے والا ہے، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ “ اور فرمایا : (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ) [ الشعراء : ٣ ] ” شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ “ اِنَّ اللّٰهَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ : اس جملے میں دھمکی ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انھیں ان کے برے اعمال کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا مجرم کو یہ کہنا کہ میں تمہاری حرکتوں سے خوب واقف ہوں، دراصل اسے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ تمہیں اس کی سزا دے کر رہوں گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Imam al-Baghawi has reported on the authority of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Abbas (رض) that the verse: فَإِنَّ اللَّـهَ يُضِلُّ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ (The fact, therefore, is that Allah lets go astray whomsoever He wills , and leads to the right path whomsoever He wills.- 8) was revealed at a time when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had made the prayer: &0 Allah, bless Islam with prestige and power, through ` Umar Ibn al-Khattab, or Abu Jahl.& Out of the two, Allah Ta’ ala showed the right path to Sayyidna &Umar (رض) and made him the cause of Islam&s prestige and power, while Abu Jahl remained as astray as he was. (Mazhari)

(آیت) فان اللہ یضل من یشاء۔ امام بغوی نے حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی تھی کہ یا اللہ اسلام کو عزت وقوت عطا کر دے، عمر بن خطاب کے ذریعہ یا ابوجہل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے عمر بن خطاب کو ہدایت دے کر اسلام کی عزت و قوت کا سبب بنادیا اور ابوجہل اپنی گمراہی میں رہا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ زُيِّنَ لَہٗ سُوْۗءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَـنًا۝ ٠ ۭ فَاِنَّ اللہَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ۡ ۖ فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُكَ عَلَيْہِمْ حَسَرٰتٍ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِـيْمٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۝ ٨ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ حسر الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال : حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء/ 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) . ( ح س ر ) الحسر ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔ صنع الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] ، ( ص ن ع ) الصنع ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو ایسا شخص جس کو اس کا عمل بد اچھا کر کے دکھلا دیا گیا پھر وہ اس کو اچھا سمجھنے لگا جیسا کہ ابو جہل تو کہیں یہ ایسے شخص کی برابری کرسکتا ہے جس کو ہم نے ایمان و اطاعت کے ساتھ سرفرازی عطا فرمائی جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ جو گمراہی کا اہل ہوتا ہے اسے اپنے دین سے گمراہ کرتے ہیں یعنی ابو جہل وغیرہ اور جو ہدایت کا مستحق ہوتا ہے اسے ہدایت کرتے ہیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق۔ لہٰذا اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان کی تباہی و بربادی پر حسرت کر کے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے۔ یہ اپنی کفریہ حالت میں جو دار الندوہ میں رسول اکرم کو نقصان پہنچانے کی جو تدابیر و مشورے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کو ان سب سے باخبر ہے۔ شان نزول : اَفَمَنْ زُيِّنَ لَهٗ سُوْۗءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَـنًا (الخ) جبیر نے بواسطہ ضحاک حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جبکہ رسول اکرم نے فرمایا تھا الہ العالمین اپنے دین کو عمر بن الخطاب یا ابوجہل بن ہشام کے ذریعے سے عزت عطا فرما تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروق کو ہدایت دی اور ابو جہل کو گمراہ کیا ان دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہٗ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا } ” تو کیا وہ شخص جس کے لیے مزین ّکر دی گئی ہو اس کے عمل کی برائی اور وہ اسے اچھاسمجھ رہا ہو (ہدایت پاسکتا ہے) ! “ آج من حیث القوم ہمارا بھی یہی معاملہ ہے۔ آج ہم فحاشی اور بےحیائی کو کلچر اور ثقافت کے خوبصورت ناموں کے ساتھ نہ صرف معاشرے میں ترویج دے رہے ہیں بلکہ اس ” ترقی “ پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ٹیوی ‘ کیبل اور انٹر نیٹ نے اس فحاشی کو گھر گھر میں پہنچا دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ کسی کو اس ” اشاعت ِفاحشہ “ میں کوئی قباحت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ امریکہ میں تو ایسی societies nudists بھی پائی جاتی ہیں جن سے تعلق رکھنے والے لوگ نہ صرف لباس کو محض ایک تکلف سمجھتے ہیں بلکہ مادرزاد برہنہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی حالت میں مخلوط محفلیں بھی سجاتے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان بھی فحاشی اور بےحیائی کی زندہ مثال ہے۔ ہم جنس پرست مرد (gays) ہوں یا عورتیں (lesbians) وہ نہ صرف انتہائی بےشرمی اور بےباکی سے اس فعل شنیع میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے باقاعدہ تنظی میں بنا رکھی ہیں اور ان تنظیموں کے پلیٹ فارم سے وہ سر عام اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں اور اپنے قانونی و معاشرتی ” حقوق “ کے لیے سینہ تان کر مظاہرے کرتے ہیں۔ بہر حال آج کی دنیا میں بیشمار لوگ اس آیت کے الفاظ کا مصداق نظر آتے ہیں جن کے برے اعمال ان کی نگاہوں میں مزین کردیے گئے ہیں اور وہ ان برے اعمال کو نہ صرف اچھا سمجھتے ہیں بلکہ ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ { فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ } ” تو اللہ گمراہ کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ “ یہاں پر ” مَنْ “ کا تعلق دو طرفہ ہے۔ چناچہ اس کے دوسرے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے اور گمراہ کرتا ہے اسے جو گمراہ ہونا چاہتا ہے۔ { فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرٰتٍ } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کی جان نہ گھلے ان لوگوں پر رنج کی وجہ سے۔ “ اب جبکہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے انجام کے تصور سے ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنی جان مت گھلائیں ‘ اپنے آپ کو ہلکان نہ کریں ۔ - ۔ یہ مضمون سورة الکہف میں بایں الفاظ بیان ہوا ہے : { فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا۔ ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ شاید اپنے آپ کو غم سے ہلاک کرلیں گے ان کے پیچھے ‘ اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات (قرآن) پر “۔ پھر یہی مضمون سورة الشعراء میں بھی مذکور ہے : { لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) شاید آپ ہلاک کردیں گے اپنے آپ کو ‘ اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے۔ “ { اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ } ” یقینا اللہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ کہ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

15 Verses 3-7 were addressed to the common people. In this paragraph mention has been made of the standard-bearers of error and deviation, who were exerting their utmost to frustrate and defeat the mission of the Holy Prophet. 16 That is, one kind of perverted person is he who commits evil but knows and understands that he is committing evil. Such a person can be reformed by counsel and advice, and sometimes his own conscience also pricks and brings him to the right path, for his habits only are perverted, not hIS mind But there is another kind of a person whose mentality has been perverted, who has lost the discrimination between good and evil, far whom the life of sin has become alluring and lustrous, who abhors good and takes evil for civilization and culture, who regards goodness and piety as things of the past, and sinfulness and wickedness as progressiveness, and for whom guidance becomes error and error guidance. Such a person is not amenable to any advice, any admonition. He neither takes warning from his own follies, nor listens to a well-wisher. It is useless to waste ones tube and energy for the reformation of such a person Instead, the inviter to the truth should turn his attention towards those whose consciences may still be alive and who may still be inclined to listen to the truth. 17 The insertion of the words "Allah lends astray whomsoever He pleases and shows the Right Way to whomsoever He pleases", between the preceding and this sentence, clearly gives the meaning that Allah deprives, of the grace of guidance, those who become so perverted mentally, and leaves them to wander aimlessly in the ways in which they themselves wish to remain lost. After making the Holy Prophet realize this fact Allah exhorts him to the effect: "It is not within your power to bring such people to the right path; therefore, have patience in their regard. Just as Allah is indifferent about them, so should you also avoid being unduly anxious about their reformation." Here, one should bear in mind two things very clearly. First, the people being mentioned here were not the conunon people, but the chiefs of Makkah. who were employing every falsehood, every fraud and every trick to defeat the mission of the Holy Prophet. These people were in fact not involved in any misunderstanding about the Holy Prophet. They knew full well what he was calling theta to and what were the evils and moral weaknesses which they themselves were striving to maintain. After knowing and understanding All this they had firmly resolved not to Iet him succeed in his object, and for this purpose they did not feel any hesitation in using any mean or petty device. Now, evidently the people who deliberately and after annual consultation invent a new falsehood every next day and spread it against a person, can deceive the whole world but as for themselves they know that they are the liars and that the person whom they have accused is free of every blame. Then, if the person against whom the false propaganda is being made also does not react and respond in a way opposed to truth and righteousness, the unjust people also cannot help realizing that their opponent is a truthful and honest man. If in spite of this the people do not feel ashamed of their misconduct and continue to oppose and resist the truth with falsehood. their conduct itself testifies that they are under Allah's curse and they can no longer discriminate between good and evil. Secondly, if Allah had only meant to make His Prophet understand the supreme truth, He could have secretly made him aware of this. There was no need to proclaim it openly in the Revelation. To mention it in the Qur'an and to proclaim it to the world was in fact meant to warn the conunon people that the leaders and the religious guides whom they were following blindly were the people of perverted mentality. whose mean conduct was itself an evidence that they were under the curse of Allah. 18 This sentence in itself contains the threat that a time is coming when Allah will punish them for their misdeeds. When a ruler says that he is fully aware of the misdeeds of a culprit, it does not only mean that the ruler has the knowledge of his misconduct, but it necessarily contains the warning that he will also punish him for this certainly.

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :15 اوپر کے دو پیرا گراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے ۔ اب اس پیرا گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :16 یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے ۔ ایسا شخص سمجھانے سے بھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں ۔ ذہن نہیں بگڑا ۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے ، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی ، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے ، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے ، جو صلاح و تقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے ، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے ۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی ۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کر دیتا ہے ۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے ۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کر لیے ہوں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :17 پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں ۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے ۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کر لو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو ۔ اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں ۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے ۔ یہ لوگ درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے ۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے ۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے ۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں ، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مدمقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے ۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑ چکی ہے اور ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے ۔ دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا تو وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا ۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی ۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود دراصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :18 اس فقرے میں آپ سے آپ یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا ۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں ، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، زبردستی گمراہ کردیتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص ہٹ دھرمی سے خود گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو گمراہی میں ہی مبتلا رکھ کر اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ دیکھئے سورۂ بقرہ :7

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨۔ تفسیر ضحاک بن مزاحم میں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت ١ ؎ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ مکہ میں جب کہ اہل اسلام کم تھے اور مشرکوں کا زور تھا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ٹانگی تھی کہ یا اللہ عمر بن خطاب یا ابوجہل بن ہشام ان دونوں میں سے کسی کے اسلام لانے سے اسلام نہ لانے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل رفمائی اور فرمایا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا۔ اے نبی اللہ کے ایسی باتوں سے تم کو غمگین نہیں ہو چاہئے۔ تمہارا کام فقط اتنا ہے کہ تم یکساں سب کو خدا کا حکم پہنچا دو پھر ہدایت اللہ کے اختیار ہے جو لوگ علم الٰہی میں بد قرار باچکے ہیں شیطان کے بہکانے سے ان کو برے کام اچھے نظر آتے ہیں لیکن اللہ کو ان کے سب کاموں کی خبر ہے وقت مقررہ پر وہ اپنے عملوں کی سزا پاویں گے بعضے ١ ؎ مفسروں نے جو یہ لکھا ہے (١ ؎ ایضا و تفسیر فتح البیان ص ٧٠٤ ج ٣۔ ) کہ یہ آیت بدعتیوں کی شان میں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ بدعتیوں کے حق میں یہی اس آیت کا مضمون صادق آتا ہے کہ جس طرح ابوجہل کفر کی گمراہی میں پھنسا ہوا تھا یہ لوگ بدعت کی گمراہی میں پھنسے ہوئے ہیں ورنہ صحیح شان نزول وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے کیوں کہ لیث بن سلیم۔ ضحاک محمد بن سائب یہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ اگرچہ حدیث میں ان کی روایت ضعیف ہے لیکن تفسیر میں ان لوگوں کی روایت مقبول ہے اور بعضے مفسروں نے ضحاک بن مزاحم کی تفسیر کی روایتوں پر یہ جو اعتراض کیا ہے کہ ضحاک بن مزاحم کی روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے منقطع ہے کیوں کہ ضحاک بن مزاحم کی ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نہیں ہوئی اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ضحاک بن مزاحم نے تفسیر کی روایتیں حاصل کی ہیں اس لیے جس طرح علی بن طلحہ کی روایت تفسیر میں مقبول ہے اسی طرح ضحاک کی بھی روایت مقبول ہے کسی لیے کہ علی بن طلحہ کی بھی ملاقات حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نہیں ہوئی جو کچھ تفسیر کی روایتیں علی بن طلحہ کو پہنچی ہیں وہ مجاہد اور سعید بن جبیر سے پہنچی ہیں اور حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں فیصلہ کردیا ہے کہ جب درمیان کا اوسط معلوم ہوگیا کہ ثقہ شخص کا واسطہ ہے تو روایت منقطع میں جو عیب تھا وہ جاتا رہا ‘ صحیح بخاری کے حوالہ سے حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) کی روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ قوم نوح میں کے کچھ نیک لوگ مرگئے تھے جن کی جدائی کا رنج قوم کے لوگوں کو بہت تھا شیطان نے قوم کے لوگوں کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ ان لوگوں کی موتیں بنا کر رکھ لی جاویں تاکہ ان مورتوں کے پیش نظر رہنے سے ان نیک لوگوں کی جدائی کا رنج کچھ ہلکا ہوجاو شیطان کے اس وسوسہ کے موافق وہ مورتی بنائی گئیں اور کئی پشت کے بعد پھر رفتہ رفتہ ان مورتیوں کی پوجا ہونے لگی ‘ آیت میں یہ جو ذکر ہے کہ شیطان برائی کو زیب وزینت دے کر بھلائی کی صورت میں لوگوں کو دکھلاتا ہے اس کا مثال اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ بت پرستی جیسی برائی کو اس ملعون نے کس طرح بھلائی کا لباس پہنا یا اصل عبارت یوں تھی افمن زین لہ سوء عملہ فراہ حسنا ذھبت نفسک علیھم حسرات ‘ ذھبت نفسک علیھم حسرٰت کو فلا تذھب نفسک علیھم حسرات کے ذکر کرنے کے بعد ضروری نہیں سمجھا گیا حاصل مطلب یہ ہے کہ جو لوگ علم اٰہی میں گمرہ ٹھہر چکے ہیں ان کی گمراہی کے افسوس میں اے رسول اللہ کے تم اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہو ایسا نہ کرو اور ان لوگوں کا معاملہ اللہ پر سونپ دو اللہ کو ان لوگوں کے سب کا معلوم ہیں کہ یہ لوگ شیطان کے بہکانے سے برے کاموں کو کہا تک اچھا جان رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(35:8) اب متذکرہ بالا (آیتہ 7) دونوں گروہوں کے مابین فرق کو مزید واضح کرنے کے لئے استفہامیہ ارشاد ہوتا ہے۔ کیا وہ شخص جس کے لئے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا ہو اور وہ اس کو خوبصورت نظر آیا اور اس نے باطل کو حق جانا اس شخص کے مانند ہوسکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت نصیب کی اور جس نے حق کو حق اور باطل کو باطل ہی سمجھا ؟ گویا تقدیر کلام ہے افمن زین لہ سوء عملہ فراہ حسنا ورای الباطل حقا کمن ھداہ اللہ فرای الحق حقا والباطل باطلا۔ ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے مراد یہ کہ یہ دونوں شخص ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ فراہ حسنا کے بعد عبارت محذوف ہے (قرآن مجید میں حذف و تقدیر کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں) ۔ اس کے جواب میں گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” لا “ (نہیں) تو خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ فان اللہ یضل من یشاء ویھدی من یشاء فلا تذھب نفسک علیہم حسرات۔ بیشک اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ہدایت بخشتا ہے جس کو چاہتا ہے پس نہ گھلے آپ کی جان ان کے لئے فرط غم میں۔ ایسے ہی دو گروہوں کے متعلق اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ افمن کان علی بینۃ من ربہ کمن زین لہ سوء عملہ (47:14) تو کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے کھلے راستے پر چل رہا ہو وہ اس کی مانند ہوسکتا ہے جس کے اعمال بد اسے اچھے کر کے دکھائے جائیں۔ زین ماضی مجہول۔ واحد مذکر غائب۔ تزیین (تفعیل) مصدر۔ سنوارا گیا۔ مزین کیا گیا۔ اچھا کر کے دکھایا گیا۔ فراہ میں ضمیر واحد مذکر غائب سو عمل کی طرف راجع ہے ! حسنا۔ حسن سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ اچھا۔ عمدہ۔ خوب۔ فراہ حسنا۔ زین کے مضمون کی تاکید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جس کو بےمدد چھوڑ دیا ہو اور اس کا وہم فہم پر اور جذبات نفسانی عقل پر غالب آگئے ہوں اچھے کو برا اور باطل کو حق سمجھنے لگا ہو وہ اس شخص کی طرح کیسے ہوسکتا ہے جس کو اللہ نے ہدایت یاب کردیا ہو اور حق کو باطل سے تمیز کرنے کی صلا حیت رکھتا ہو۔ فان اللہ۔ میں ف عطف کے لئے ہے اور اس کا عطف کلام محذوف پر ہے۔ لا تذھب۔ فعل نہی واحد مؤنث غائب (ضمیر کا مرجع نفسک ہے۔ علیہم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب۔ کفار۔ گمراہان کی طرف راجع ہے۔ جو من زین لہ سوء عملہ کے زمرہ میں آتے ہیں۔ لا تذھب نفسک۔ ذھاب نفس۔ موت سے کنایہ ہے جیسے کہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے ان یشا یذھبکم ویات بخلق جدید (14:19) اگر وہ چاہے تو تمہیں ختم کر دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق پیدا کر دے۔ حسرات۔ مفعول لہ ہے اور بدیں وجہ منصوب ہے۔ یہ حسرۃ کی جمع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ افسوس کرنے کی وجہ سے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے۔ جمع کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ گمراہ کافروں کے احوال پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بکثرت افسوس ہوتا تھا۔ یا یہ وجہ کہ ان کفار کی بد اعمالیاں بہت کثرت سے تھیں جو افسوس کی (الگ الگ) متقاضی ہوتی تھیں۔ یصنعون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ صنع مصدر (باب) فتح جو وہ کرتے ہیں ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 وہ اس شخص جیسا ہوسکتا ہے کہ اگرچہ برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے بھلا نہیں سمجھتا ؟ ظاہر ہے کہ یہ دونوں شخص برابر ہوسکتے، ایک شخص جو برا کام کرتا ہے لیکن اسے برا ہی سمجھتا ہے اس کے متعلق تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی راہ راست پر آجائے گا لیکن جو شخص برا کام کرتا ہے مگر اسے اچھا سمجھ کر کرتا ہے، اس کے راہ راست پر آنے کی کبھی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے بعض سلف (رح) کا قول ہے کہ گناہ گاہ کے توبہ کرنے کی امید تو کی جاسکتی ہے لیکن بدعتی اپنی بدعت باز نہیں آسکتا کیونکہ وہ بدعت کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔ یہاں سو عمل سے شرک، بدعت اور گمراہی سبھی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ یہ آیت عاص بن وائل سہمی وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ( قرطبی)8 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ رہی ہدایت اور گمراہی تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی کام اس کی مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا لیکن یہ نتیجہ خود آدمی کے اپنے عمل کا ہوتا ہے۔9 کیونکہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس میں نہیں ہے۔10 لہٰذا یہ نہ سمجھئے کہ وہ اس کی پکڑ سے محفوظ رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 6 ۔ آیات 8 تا 14: اسرار و معارف : کچھ لوگ جب اللہ سے منہ موڑ لیتے ہیں تو ان پر اللہ کا یہ غضب ہوتا ہے کہ ان کی سوچ الٹ جاتی ہے اور انہیں برائی کے کام بھلے لگنے لگتے ہیں اور یوں وہ کرتے چلے جاتے ہیں اور جس کو اللہ چاہتا ہے یعنی جس کے دل میں اللہ سے ہدایت کی طلب پیدا ہوجائے اسے ہدایت عطا فرما دیتا ہے لہذا آپ ان کی گمراہی کے دکھ کو اس قدر شدت سے محسوس نہ کیجیے کہ یہ ان کا اپنا انتخاب کردہ راستہ ہے اور اللہ ان کے کردار اور قلبی ارادوں تک سے خوب واقف ہے۔ سبحان اللہ جس رسول رحمتکو کفار کا کفر پہ رہنا دکھی کردیتا ہے اسے مسلمانوں کا کفار کے سے اعمال کرنا کس قدر دکھ پہنچاتا ہوگا۔ اللہ ہمیں اپنے غضب سے اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ ان کی عقل الٹ نہ گئی ہوتی تو یہ بھلا قیامت کا انکار کیوں کرتے جبکہ ان کے سامنے زمین مردہ اور بےآب وگیاہ ہوجاتی ہے پھر وہ قادر مطلق ہواؤں کو چلاتا ہے جو بادلوں کو اڑا لاتی ہیں اور امنڈ امنڈ کر آنے والے بادل برس کر جل تھل کردیتے ہیں تو مردہ زمین میں زندگی کی بہار آجاتی ہے اور ہر ذرے سے زندگی پھوٹنے لگتی ہے ہر تنکا ہر پھول اور پتہ یہ گواہی دے رہا ہوتا ہے کہ اسی طرح سے ہر شے کو وہ روز حشر پھر سے پیدا فرما دے گا۔ لوگ دنیا اور اس کی نعمتوں میں اقتدار و اختیار میں اپنے لیے عزت تلاش کرتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے کہ ساری عظمت صرف اللہ کے لیے ہے اسے چھوڑ کر کوئی معزز نہیں ہوسکتا ہاں اسی میں فنا ہو کر عزت پا سکتا ہے اور اس کی طرف اٹھتا ہے ہر نیک کلمہ یعنی برائی اس کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہوسکتی بلکہ ان نیک کلمات کو بھی نیک عمل اس کی بارگاہ میں پہنچانے کا سبب بنتا ہے یہ نیک عمل یا عمل صالح کیا ہے جو وجہ قبولیت بن جاتا ہے اس پہ مفسرین کرام نے بہت لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ہر کام جو شریعت کے مطابق ہو وہ بیشک عمل صالح ہے مگر سب کی قبولیت کا سبب جو نیک کام ہے وہ خلوص قلبی ہے جو ذکر قلبی اور ذکر دوام نصیب ہوتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے ہوشیار ہیں اور بظاہر اپنی اچھائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر برائی کرنے میں لگے ہیں انہیں بہت سخت عذاب ہوگا اور ان کے اس فریب کا پردہ بھی چاک ہوجائے گا اور ان کی ہوشیاری تباہ ہوجائیگی۔ بھلا رب جلیل کے ساتھ انسان کیا ہوشیاری کرلے گا جس نے اسے مٹی سے بنایا اور کہاں کہاں سے ذرات جمع فرما کر انہیں ایک قطرہ میں جمع کردیا اور پھر وہاں سے انسان بنا کر مرد و زن پیدا فرما دئیے اس کے بعد بھی جو جہاں ہوتا ہے حتی کہ کوئی پشت پدر میں ہے یا رحم مادر میں یا کوئی جب پیدا ہوتا ہے تو ہر ایک کا ہر حال اللہ کے علم میں ہے اگر کسی کی عمر طویل ہوتی ہے تو یہ اس کی اپنی ہوشیاری نہیں یا کم ہوتی ہے تو محض اتفاق نہیں بلکہ اللہ کا علم تو بہت وسیع ناپید اکنار ہے۔ یہ سب تو معمولی باتیں ہیں جو لوگ مھفوظ تک میں لکھی ہوئی ہیں اللہ کریم کے علم کے مقابلے میں تو یہ بہت چھوٹی ہیںٰ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ پھر بھلا اسے کون دھوکہ دے سکے گا۔ اب ذرا ایک ہی زمین میں یا اس کے اوپر ایک ہی فضا میں دو طرح کا پانی دیکھ لو کیسا قادر ہے کہ ایک کو میٹھا بنا دیا جو پیاس بجھاتا ہے اور کس قدر مفرح ہے اس کا پینا مگر دوسرے کو نمکین اور کھارا بنا دیا۔ پھر اس کی قدرت کاملہ کو جہاں میٹھے پانی کے دریاؤں میں مچھلی وغیرہ کی صورت میں گوشت ذخیرہ کردیا وہاں کھاری اور سمندری پانی میں بھی یہ دولت رکھ دی اور جہاں سمندروں کی تہہ میں موتی رکھ دئیے وہاں دریاؤں کا دامن بھی زروجواہر سے بھر دیا کہ تم گوشت بھی حاصل کرتے اور زیب وزینت کا سامان بھی اور اس نے تمہیں عقل اور قوت دی کہ تم نے بحری جہاز بنا لیے جو سمندروں کے سینے شق کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں جن کے باعث تم اپنا رزق تلاش کرتے ہو یہ سب عنایات تو تقاضا کرتی ہیں کہ تم پیشہ اس کا شکر ادا کرتے رہو۔ پھر سارے نظام حیات کو دیکھو جو شب و روز کا محتاج ہے موسموں اور بارش کا محتاج ہے بھلا اس نظام کو کون چلاتا ہے صرف اللہ کی ذات ہے جو رات کو دن اور دن کو رات کرتی ہے۔ سورج چاند یعنی نظام شمسی کو اس نے کام پہ لگا رکھا ہے کہ ہر ایک اپنے وقت مقررہ تک اپنے کام پر لگا ہوا ہے یہ شان اور عظمت ہے اس ذات کی جو تم سب کا پروردگار اور پالنہار ہے اور ساری کائنات میں صرف اس کی حکمرانی ہے اور اس کا حکم جاری ہے اسے چھوڑ کر کفار جن کو اپنا معبود مان لیتے ہیں اس سارے نظام میں تو کوئی معمولی شے یعنی کھجور کی گٹھلی پہ جو چھلکا ہوتا ہے وہ بھی ان کی ذاتی ملکیت نہیں کہ اس پہ اپنی مرضی سے تصر کرسکیں اور بغیر اللہ کے سنوانے کے از خود کچھ سن بھی نہیں سکتے اگر اللہ انہیں سنوا بھی دے تو کچھ کر نہیں سکتے کہ سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ بلکہ بت ہوں یا اللہ کی برگزیدہ ہستیاں کفار نے جن کو بھی معبود بنا رکھا ہے قیامت کے دن سب اس کا انکار کردیں گے اور کوئی بھی ان کے مشرک ہونے کا ذمہ نہ لے گا۔ یہ وہ حقائق جو رب خبیر بتا رہا ہے کہ اس جیسی خبر اور کوئی نہیں دے سکتا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن ( آیت نمبر 8 تا 10) زین (خوبصورت بنا دیا گیا) سوئ (برائی) را (اس نے دیکھا) یصنعون (وہ بناتے ہیں) تثیر (اٹھاتی ہے) سقنا ( ہم نے سیراب کردیا) بلد (شہر ، بستی ( ب ۔ ل د) النشور (قیامت میں) دوبارہ اٹھایا جانا) یصعد ( وہ چڑھتا ہے) الکلم (باتیں ، اعمال) یرفع (وہ بلند کرتا ہے) یمکرون ( وہ فریب دیتے ہیں) یبور ( برباد ہوتا ہے ، اکارت جائے گی) تشریح : آیت نمبر 8 تا 10 :۔ اس سے پہلی آیات میں فرمایا گیا تھا کہ اللہ نے اپنے بندوں سے جو بھی وعدے کئے ہیں وہ سچے ہیں اور پورے ہو کر رہیں گے لیکن شیطان اپنے جھوٹے وعدوں میں لوگوں کو پھنسا کر اپنے ساتھ جہنم میں لے جانا چاہتا ہے ۔ اس کی تدبیریں اس قدر پر فریب ہوتی ہیں کہ انسان ان کو مشکل کشا سمجھنے لگتا ہے لہٰذا اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ شیطان کا سب سے بڑا فریب یہ ہے کہ وہ انسان کو برے اعمال پر اکساکر یہ سمجھاتا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو وہی سب سے بہتر اور نیک کام ہے۔ وہ آدمی ان کاموں کو کرتے کرتے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ واقعی وہی صحیح راستے پر ہے اور اس کا ہر عمل بر حق ہے یہ وہ دھوکہ ہے کہ جو بھی اس میں پھنس جاتا ہے وہ گمراہی کو ہدایت ، اندھیرے کو روشنی اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے اور بھٹک کر اللہ کی رحمتوں سے بہت دور نکل جاتا ہے لیکن جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کرلیتے ہیں وہ دنیا اور آخرت کی ہر کامیابی حاصل کرلیتے ہیں ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ جب ہدایت و گمراہی ، حق و باطل ایک جیسے نہیں ہو سکتے تو ان دونوں کا انجام بھی یکساں نہیں ہو سکتا لہٰذا آپ اس حسرت اور افسوس میں اپنی جان نہ گھلائیں کہ لوگ راہ مستقیم کو چھوڑ کر گمراہی کی دلدل میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں ۔ فرمایا کہ اللہ کو ان جیسے لوگوں کے سارے کرتوت اچھی طرح معلوم ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہے ؟ فرمایا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا انہیں کائنات کے اس نظام پر غور کرنا چاہیے کہ جب زمین خشک ، بنجر اور بےرونق ہو کر رہ جاتی ہے اور ہر طرف دھول اڑنے لگتی ہے تو اللہ سمندروں میں ایسی کیفیت پیدا کردیتا ہے کہ اس سے مون سون اٹھتا ہے اور وہ بادلوں کی شکل اختیار کر کے ایک اختیار زمین پر برستا ہے تو اس مردہ زمین میں دوبارہ ایک نئی زندگی پیدا ہوجاتی ہے اور خشک زمین سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح جب تمام کائنات کے جان دار مر چکے ہوں گے تو اللہ کی یہ قدرت ہے کہ وہ تمام لوگوں کو زندہ کر کے میدان حشر میں جمع کرے گا اور ان سے زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب لے گا ۔ اس بات پر یقین کامل رکھنے والوں کو آخرت کی عزت نصیب ہوگی کیونکہ ساری عزت و عظمت اللہ ہی کے پاس ہے۔ فرمایا کہ انسان اچھے یا برے جیسے بھی اعمال کرتا ہے وہ اللہ کی طرف بلند کئے جاتے ہیں اور فیصلے بھی وہیں سے آتے ہیں ۔ گناہ گاروں کو شدید عذاب دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور نیکو کاروں کو ان کا بہترین بدلہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ برائیاں اختیار کرنے والے فوری برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ پہلے شخص سے مراد کافر جو اغوا شیطانی سے باطل کو حق اور رضا کو نافع سمجھتا ہے، اور دوسرے شخص سے مراد مومن جو اتباع انبیاء و مخالفت شیطان سے باطل کو باطل، حق کو حق، ضار کو ضار اور نافع کو نافع جانتا ہے، یعنی یہ دونوں برابر کہاں ہوئے ؟ بلکہ ایک جہنمی اور ایک جنتی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کے جہنم میں جانے کی بنیادی وجہ۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ شیطان انسان کے سامنے برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ جو لوگ فکری طور پر گمراہ ہوچکے ہوتے ہیں انہیں ایسے اعمال اور حرکات بہت اچھی لگتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے دور میں بیشمار نوجوان ہیں جو عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال رکھتے ہیں اور الٹی سلائی والے لباس پہنتے ہیں۔ دیکھنے والے کو ان کی شکل و صورت اور لباس اس قدر مکروہ نظر آتے ہیں کہ شریف آدمی دوبارہ دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ لیکن ایسے نوجوانوں کو بالکل حیا نہیں آتی بلکہ وہ اس تہذیب پر فخر کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور اور معاشرے میں فیشن کے نام پر نئے سے نئے ڈیزائن اپنائے جاتے ہیں جو دیکھنے میں انتہائی برے لگتے ہیں لیکن شیطان برے لوگوں کے لیے ایسے کاموں کو فیشن بنا دیتا ہے۔ ابتدا میں یہ باتیں کچھ لوگوں کے ضمیر پر بوجھ ہوتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ شیطان ان کے ضمیر پر اس طرح مسلط ہوجاتا ہے کہ جو کام کل انہیں برے محسوس ہوتے تھے اگلے دن وہی کام ان کے لیے خوبصورت بن چکے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ ہدایت کے مقابلے میں گمراہی، اچھائی کے بدلے برائی پسند کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو اس سے ہدایت چاہتا ہے اسے ہدایت مل جاتی ہے اور جو گمراہی کا طلبگار ہوتا ہے اسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس اصول کے پیش نظر اللہ تعالیٰ گمراہی اور ہدایت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہدایت واضح ہونے کے باوجود ان لوگوں نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کرلیا ہے تو آپ کو ان کی حالت پر حد سے زیادہ غمگین نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ انہیں خبردار کرتے رہیں کہ جو کچھ یہ کہتے اور کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ گویا کہ ان الفاظ میں ان کے لیے ایک انتباہ ہے تاکہ یہ لوگ اپنے افکار و اعمال پر نظر ثانی کریں۔ (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ عَلَی آَثَارِہِمْ إِنْ لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہَذَا الْحَدِیْثِ أَسَفًا) [ الکھف : ٦] ” شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرنے والے ہیں، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ “ (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) [ الشعراء : ٣] ” اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ “ مسائل ١۔ برے لوگوں کے لیے شیطان ان کے اعمال خوبصورت بنا دیتا ہے۔ ٢۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٣۔ برے لوگوں کے اعمال پر حد سے زیادہ افسردہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کن لوگوں کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دیتا ہے : ١۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٣۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤) ٤۔ قوم عاد وثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٥۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٦۔ شیطان نے کہا میں ضرور ان کے اعمال ان کے سامنے مزین کر کے پیش کروں گا اور انہیں گمراہ کرونگا۔ (الحجر : ٣٩) ٧۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال ان کے لیے مزین کیے جاتے ہیں۔ (یونس : ١٢) ٨۔ انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دیا ان کے لیے برے اعمال مزین کر دئیے گئے۔ (التوبۃ : ٣٧) ٩۔ کفار کے لیے ان کی تدابیر کو مزین کردیا گیا تو انہوں نے اللہ کی راہ سے روکنا شروع کردیا۔ (الرعد : ٣٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افمن زین ۔۔۔۔۔ بما یصنعون (8 ( شرکا دروازہ اور اس کی کنجی یہ ہے کہ انسان کے لیے اس کے برے اعمال کو اچھا بنادیا جائے ۔ شیطان یہی کام کرتا ہے کہ انسان کے لیے اس کے برے اعمال اچھے بنادیئے جاتے ہیں اور وہ برے کاموں کو اچھے کام سمجھتا ہے ۔ وہ جس قدر برے افعال کرتا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ وہ اچھا کررہا ہے اور وہ کام اسے لگتے بھی اچھے ہیں ۔ ایسا شخص کبھی اپنے اعمال کا جائزہ بھی نہیں لیتا کہ ان میں کیا کیا غلطی کے مقامات ہیں کیونکہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ غلطی نہیں کرتا۔ اسے پختہ یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ کہتا اور کرتا ہے ، وہ درست ہے ۔ وہ اپنے قول وعمل پر اتراتا ہے اور اپنے کاموں سے اسے عشق ہوجاتا ہے ۔ اسے یہ خیال بھی نہیں آتا ہے کہ وہ اپنے کسی کام پر نظر ثانی کرے یا اپنا محاسبہ خود کرے ۔ لہٰذا وہ اپنے کسی خیال اور کسی عمل سے رجوع نہیں کرتا ۔ کیونکہ جب کوئی سمجھے کہ وہ اچھا کررہا ہے تو وہ کس طرح اسے چھوڑسکتا ہے کیونکہ اچھے کام کبھی نقصان وہ نہیں ہوتے ۔ افمن زین۔۔۔۔۔۔۔ حسنا (35: 8) ” بھلا ہے کچھ ٹھکانا اس شخص کی گمراہی کا جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنادیاجائے گیا ہو “۔ یہ ہے وہ عظیم مصیبت جو انسان پر شیطان لادتا ہے اور یہ ہے وہ مقام جہاں تک شیطان انسان کی راہنمائی کرکے اسے لے جاتا ہے ۔ پہلے اسے گمراہ کرتا ہے ، پھر اسے ہلاکت کے گڑھے میں گراتا ہے ۔ جس شخص کے لیے اللہ ہدایت اور بھلائی لکھ دیتا ہے اس کے دل میں احساس ، شعور ، احتیاط اور غور وفکر کی عادت ڈال دیتا ہے ۔ وہ اللہ کی تدبیروں سے غافل نہیں رہتا۔ اور نہ اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ اللہ انسان کے دل کو کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ نہ وہ انسان کی فطرت کمزوری ، تزلزل اور خطاکاری سے غافل رہتا ہے ۔ نہ وہ انسان کے فطری نقص اور عاجزی کو نظر انداز کرسکتا ہے ۔ ایسا شخص ہر وقت اپنے اعمال پر نظر رکھتا ہے ۔ ہر وقت اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے ۔ اپنے بارے میں بہت حساس رہتا ہے ۔ وہ شیطان سے ہر وقت ڈرتا ہے اور ہر وقت اللہ کی مدد اور نصرت کا امید وار ہوتا ہے ۔ یہ ہے مقام امتیاز اور جدائی ہدایت وضلالت اور فلاح اور بربادی کے درمیان ۔۔۔۔ یہ ایک گہری نفسیاتی حقیقت ہے جس کی تصویر کشی قرآن کریم ان الفاظ میں کرتا ہے ۔ افمن ذین ۔۔۔۔۔ حسنا (35: 8) ” بھلا کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہاہو “۔ یہ ہے نمونہ اس گمراہ شخص کا جو تباہ وبرباد ہوگیا اور آخر کار وہ ہلاکت کے برے انجام تک پہنچ گیا اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اس کے لیے اس کے برے اعمال کو مزین بنا دیا گیا۔ اس خوشنمائی کی وجہ سے وہ مغرور ہوگیا ۔ یوں اس شخص کے دل پر اور آنکھوں پر پردے پڑجاتے ہیں اور وہ صحیح راہ کو دیکھ ہی نہیں سکتا ۔ ایسا شخص کوئی اچھا کام بھی نہیں کرسکتا اس لیے کہ وہ خوداپنے کام کو اچھاسمجھتا ہے ۔ ایسا شخص اپنی غلطی کی اصلاح بھی نہیں کرسکتا اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے غلطی سرزد ہی نہیں ہوسکتی ۔ وہ کسی فاسد کام کی اصلاح بھی نہیں کرسکتا کیونکہ بزعم خود اس سے فاسد کام کا صدور ہی نہیں ہوسکتا ۔ ایسا شخص ایک حد پر جا کر رکتا بھی نہیں کیونکہ وہ اپنی ہر قدم کو اصلاح سمجھتا ہے۔ غرض شیطان کا صرف یہی کام تمام فسادوں کا دروازہ ہے اور آخرہی گمراہی کی چابی ہے۔ یہاں اللہ سوال فرماتے ہیں کہ اس شخص کی گمراہی کی کیا حد ہوگی جس کے لیے اس کے برے اعمال خوبصورت بنا دئیے گئے ہیں اور وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے ؟ اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس لیے کہ اس کا کوئی جو جواب بھی دے وہی جواب ہوگا۔ کیا ایسے شخص کی اصلاح کی امید کی جاسکتی ہے ؟ کیا یہ شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے۔ کیا یہ شخص اللہ سے ڈرنے والوں جیسا ہو سکتا ہے۔ غرض اس سوال کا اب جو جواب بھی دیں وہی جواب ہوگا۔ یہ وہ اسلوب ہے جو قرآن کریم میں بہت آتا ہے۔ لیکن اس میں ان جوابات میں سے ایک جواب کی طرف بالواسطہ اشارہ کردیا گیا ہے۔ فان اللہ یضل ۔۔۔۔۔ علیھم حسرت (35: 8) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے ، گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ، راہ راست دکھاتا ہے “۔ گویا یہ جواب دیا گیا کہ جس شخص کے لئے شیطان اس کے اعمال کو خوشنما بنا دے ایسے شخص پر ضلالت لکھ دی جاتی ہے۔ اس کے لیے اللہ نے ضلالت کا راستہ کھول دیا ہے۔ وہ اس کے اندر چلا گیا ہے ، اس کی واپسی کی کوئی امید نہیں ہے۔ اللہ کا اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت دے دے اور جسے چاہے ، ضلالت دے دے۔ یوں کہ جو شخص طالب ضلالت ہوتا ہے اسے ضلالت ملتی ہے اور جو طالب ہدایت ہوتا ہے ، اسے ہدایت مل جاتی ہے۔ ضلالت کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ برے اعمال کو اچھا دکھاتی ہے اور ہدایت کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ ہدایت پانے والا ہر معاملے میں محتاط ہوتا ہے ، ڈرتا ہے ، محاسبہ کرتا ہے اور یہی فرق ہے ہدایت اور ضلالت کا۔ اور جب فیصلہ یہی ہے۔ فلا تذھب نفسک علیھم حسرت (35: 8) ” آپ اپنی جان کو ان لوگوں کے غم میں نہ کھلائیں “۔ یہ معاملہ ہدایت و ضلالتر کا معاملہ ہے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگرچہ یہ بشر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ دل اللہ کی انگلیوں کے درمیان رہیں اور اللہ مقلب القلوب ہے۔ اس طرح اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہیں۔ تاکہ آپ کا رحیم و شفیق دل قرار پکڑے کیونکہ آپ سے ان لوگوں کی گمراہی دیکھی نہ جاتی تھی۔ جبکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ ان بیچاروں کا کس قدر برا انجام ہونے والا ہے اس لیے آپ کا دل جوش مارتا تھا کہ آپ ان کے سامنے جو حق پیش کر رہے ہیں وہ اسے تسلیم کرلیں۔ یہ انسانی حرص ہے ہر شخص جانتا ہے کہ انسان جس چیز کو پسند کرتا ہے ، وہ چاہتا ہے کہ سب لوگ اسے قبول کرلیں اور اللہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمدردی ہے کہ ان کے احساسات پر یہ ناحق بوجھ ہے کیونکہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار اور استطاعت ہی میں نہیں ہے کہ وہ سب کو ہدایت میں لے آئیں ، یہ کام اللہ کا ہے۔ تمام مخلص داعیوں کو اس کیفیت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ وہ اپنی دعوت کی اہمیت ، خوبصورتی اور افادیت کو دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب عوام کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ وہ اس خوبصورتی ، افادیت اور حسن کو محسوس نہیں کرسکتے جو داعی محسوس کرتا ہے۔ اس عدم احساس کی وجہ سے یہ اس دعوت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ لہٰذا ایسے مخلص داعیوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کی اس ہدایت کو پلے باندھ لیں۔ اپنی پوری قوت دعوت میں جھونک دیں اور پھر لوگوں کو اللہ کے سپرد کردیں۔ اگر کسی قوم کے لیے اللہ نے سچائی کو مقدر نہ کیا ہو تو اسے اپنے حال پر چھوڑ دیں اور مایوس نہ ہوں۔ ان اللہ علیم بما یصنعون (35: 8) ” جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے “۔ وہی ہدایت کی تقسیم کرتا ہے اور کسی کے لیے ضلالت مقدر کرتا ہے۔ یہ سب کام اس کے علم اور اس کی حکمت کے مطابق ہوتا ہے۔ اللہ ان باتوں کو اس وقت سے جانتا ہے جب ان کا صدور بھی نہیں ہوا ہوتا۔ اسے پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہوگا۔ یہ تقسیم اس نے علم ازلی سے کرلی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ اپنے علم ازلی کی بنیاد پر سزا نہیں دیتا۔ سزا اس وقت دیتا ہے جب ان سے اس معصیت کا صدور ہوتا ہے۔ یہاں دوسرا سبق ختم ہوتا ہے۔ اس سبق اور پہلے سبق کے درمیان گہرا ربط ہے اسی طرح آنے والے سبق سے بھی ربط ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

برے عمل کو اچھا سمجھنے والا اچھے عمل والے کے برابر نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کو جانتا ہے یہ دو آیتوں کا ترجمہ ہے، پہلی آیت میں یہ بتایا کہ بہت سے لوگ برے عمل کرتے ہیں کفر اختیار کیے ہوئے ہیں اور شیطان نے اور ان کے ماحول نے اور ان کے نفوس نے کفر ہی کو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہی کو ان کے سامنے اچھا کرکے پیش کیا ہے جس کی وجہ سے کفر کو اور برے اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں اور ایمان سے اور اعمال صالحہ سے بچتے ہیں اور ان کو قبیح جانتے ہیں، ارشاد فرمایا ایسا شخص جس کے لیے برے اعمال کو مزین بنا دیا گیا ہو اور اس نے برے اعمال ہی کو اچھا سمجھ لیا ہو کیا یہ شخص اور وہ آدمی دونوں برابر ہوسکتے ہیں جو برے اعمال کو برا جانتا ہو اور اچھے اعمال کو اچھا سمجھ کر اپنی زندگی میں اختیار کیے ہوئے ہو۔ یہ استفہام انکاری ہے، مطلب یہ ہے کہ جس کے لیے برے اعمال کو اچھا بنا کر پیش کردیا گیا اور اس نے برے عمل کو اچھا سمجھ لیا یہ شخص اور اس کا مقابل وہ شخص جو برے اعمال کو برا اور اچھے اعمال کو اچھا سمجھتا ہو دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ (فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ) (پس اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ ) (فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ ) (سو ان پر حسرتیں کرنے کی وجہ سے آپ کی جان نہ جاتی رہے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی بڑی حرص تھی کہ ساری امت دعوت مسلمان ہوجائے لیکن مخاطبین کی طرف سے تکذیب تھی اور عناد تھا اور اس سے آپ کو رنج ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں پر افسوس کرکے آپ کی جان نہ جاتی رہے، جیسا کہ سورة الشعراء میں فرمایا : (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) (کیا ایسا ہونے کو ہے کہ آپ اپنی جان کو اس وجہ سے ہلاک کردیں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ) پھر فرمایا : (اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ ) (بلاشبہ اللہ کو ان کے کاموں کا خوب علم ہے) وہ اپنے علم و حکمت کے مطابق بدلہ دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ افمن زین الخ : یہ زجر ہے۔ جب آدمی ضد وعناد میں آکر حق کا انکار کرتا ہے تو اس کا دل قبول حق کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے اس کی فطرت ایسی مسخ ہوجاتی ہے کہ اسے اپنی تمام بد اعمالیاں نیکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ اور مشرکانہ اعمال کو برا سمجھنے کے بجائے اچھا سمجھنے لگتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی صفت قہار کا اثر ہے اور اس کو مہر جباریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ افمن زین کی جزاء محذوف ہے ای فمن یھدیہ یعنی جس شخص کو اللہ کے قہر و غضب سے اپنی برائیں نیکیاں نظر آئیں اسے کون راہ راست پر لاسکتا ہے ؟ قالہ الشیخ (رح) یا مقدر ہے کمن لم یزین لہ (مدارک) یا کمن ہداہ اللہ (مدارک، خازن، معالم) ۔ فان اللہ یضل الخ : جو لوگ ضد وعناد سے حق کا انکار کریں ان کو توفیق ہدایت نصیب نہیں ہوتی جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا وما یضل بہ الا الفاسقین (بقرہ) ۔ اور جو لوگ انابت کرتے ہیں اور سچے دل سے حق کے طالب ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ 12:۔ فلا تذھب الخ : اس لیے جو ضدی اور معاند لوگ گمراہی پر قائم ہیں۔ اور راہ راست پر نہیں آتے آپ ان کی وجہ سے اپنی جان کو غم و ایذاء میں نہ ڈالیں۔ ذہاب کے تین معنی ہیں رفتن (جانا) گذشتن (گذرنا) بردن (لے جانا) ۔ اس کے تین معنے ہوسکتے ہیں۔ اول متعدی یعنی نہ لیجائے تیرا نفس ان کے پیچھے حسرتوں کو اس صورت میں حسرات مفعول لہ ہوگا۔ حسرات مفعول لہ یعنی فلا تھلک نفسک للحسرات (مدارک) ۔ سوم لاتذھب بمعنی لاتغتم باعتبار تضمین، یہ نہ غمناک ہو جان تیری ان کے کفر کی وجہ سے در آنحالیکہ تو افسوس کرنے والا ہو۔ والمعنی لاتغتم بکفرھم وھلاکہم ان لم یومنوا (خازن ج 5 ص 244) ۔ اس آیت کا مفہوم دوسری جگہ اس طرح مذکور ہے۔ لعلک باخع نفسک علی آثارہم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا (کہف رکوع 1) ان اللہ علیم بما یصنعون، یہ ماقبل کے لیے بمنزلہ علت ہے اور معاندین کے لیے تخویف اخروی کی طرف اشارہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) بھلا کیا وہ شخص جس کا برا عمل اس کے لئے خوش نما اور آراستہ و مزین کردیا گیا ہو پھر وہ اس عمل بد کو اچھا سمجھ رہا ہو تو کیا یہ شخص اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو برے کو برا سمجھتا اور دیکھتا ہو کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بےراہ اور گمراہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور اے پیغمبر ان منکرین دین حق پر حسرت اور افسوس کرتے کرتے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کاموں کی جو وہ کرتے ہیں سب خبر ہے۔ یعنی دین حق کے منکروں کو ان کے برے اعمال کفروشرک وغیرہ اچھے دکھائی دیتے ہیں ان برے اعمال کو ان کی نگاہ میں شیطان آراستہ و پیراستہ کر کے اور مزین کر کے دکھاتا ہے۔ شاید یہ آیت ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی یا اہل بدعت اور خوارج کے حق میں نازل ہوئی ہو پھر جو برے عمل کو اچھا اور بدنما کو حسین سمجھے وہ شخص اس حقیقت آشنا کے برابر کیسے ہوسکتا ہے جو توحید اسلامی کو اچھا اور شرک کو برا جان کر اس سے بیزار ہے۔ اس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہے کہ مومن اور کافر برابر نہیں ہے اس پر یہ شبہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص برے فعل کو اچھا کس طرح سمجھ سکتا ہے۔ اس کا جواب ہے کہ حضرت حق تعالیٰ جس بدنصیب سے چاہیں اپنے دامن ہدایت کو سمیٹ لیں اور اپنی رہنمائی سے اس کو محروم کردیں اور جس خوش نصیب کے لیے اپنی رہنمائی کے دامن وسیع کردیں اور اس کی رہنمائی فرما دیں اور ان کی رہنمائی کرنے کا یہ اثر ہے کہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا سمجھتا ہے اور ان کا اپنی رہنمائی کے دامنوں کو سمیٹ لینے کا اثر یہ ہے کہ انسان برے کاموں کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ پس اے پیغمبر ایسے عقل کے دشمنوں اور شیطان کے فریب خوردہ لوگوں پر غم نہ کیجئے اور پچتا پچتا کر اپنی جان نہ کھو بیٹھئے ان کی تمام کارروائیوں سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور واقف حال ہے۔ آگے دلائل توحید اور قیامت کا پھر ذکر ہے۔