Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 17

سورة يس

وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۷﴾

And we are not responsible except for clear notification."

اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And our duty is only to convey plainly. means, `all we have to do is to convey to you the Message with which we have been sent; if you obey, then happiness will be yours in this world and the Hereafter, and if you do not respond, you will soon know the consequences of that.' And Allah knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ : یعنی ہمارا فریضہ اتنا ہی ہے کہ ہم تمہیں اللہ کا پیغام صاف پہنچا دیں۔ رہا تمہیں مومن بنا لینا، یا تمہارے مطالبات کے مطابق معجزے دکھانا، یا تم پر عذاب لے آنا، تو یہ ہمارا کام نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۝ ١٧ بَلَاغ : التبلیغ، نحو قوله عزّ وجلّ : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم/ 52] ، وقوله عزّ وجلّ : بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف/ 35] ، وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس/ 17] ، فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد/ 40] . والبَلَاغ : الکفاية، نحو قوله عزّ وجلّ : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء/ 106] ، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة/ 67] ، أي : إن لم تبلّغ هذا أو شيئا مما حمّلت تکن في حکم من لم يبلّغ شيئا من رسالته، وذلک أنّ حکم الأنبیاء وتکليفاتهم أشدّ ، ولیس حكمهم كحكم سائر الناس الذین يتجافی عنهم إذا خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا، وأمّا قوله عزّ وجلّ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] ، فللمشارفة، فإنها إذا انتهت إلى أقصی الأجل لا يصح للزوج مراجعتها وإمساکها . ويقال : بَلَّغْتُهُ الخبر وأَبْلَغْتُهُ مثله، وبلّغته أكثر، قال تعالی: أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف/ 62] ، وقال : يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة/ 67] ، وقال عزّ وجلّ : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود/ 57] ، وقال تعالی: بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] ، وفي موضع : وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم/ 8] ، وذلک نحو : أدركني الجهد وأدركت البلاغ ۔ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : هذا بَلاغٌ لِلنَّاسِ [إبراهيم/ 52] یہ ( قرآن ) لوگوں کے نام ( خدا ) پیغام ہے ۔ بَلاغٌ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفاسِقُونَ [ الأحقاف/ 35]( یہ قرآن ) پیغام ہے سود اب وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے ۔ وَما عَلَيْنا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ [يس/ 17] اور ہمارے ذمے تو صاف صاف پہنچا دینا ہے ۔ فَإِنَّما عَلَيْكَ الْبَلاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسابُ [ الرعد/ 40] تمہارا کام ہمارے احکام کا ) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے ۔ اور بلاغ کے معنی کافی ہونا بھی آتے ہیں جیسے : إِنَّ فِي هذا لَبَلاغاً لِقَوْمٍ عابِدِينَ [ الأنبیاء/ 106] عبادت کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں ( خدا کے حکموں کی ) پوری پوری تبلیغ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ [ المائدة/ 67] اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کے پیغام پہنچانے میں قاصر رہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم نے یہ یا کوئی دوسرا حکم جس کا تمہیں حکم جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے نہ پہنچا یا تو گویا تم نے وحی الٰہی سے ایک حکم کی بھی تبلیغ نہیں کی یہ اس لئے کہ جس طرح انبیاء کرام کے درجے بلند ہوتے ہیں اسی طرح ان پر احکام کی بھی سختیاں ہوتی ہیں اور وہ عام مومنوں کی طرح نہیں ہوتے جو اچھے اور برے ملے جلے عمل کرتے ہیں اور نہیں معاف کردیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَإِذا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق/ 2] پھر جب وہ اپنی میعاد ( یعنی انقضائے عدت ) کو پہنچ جائیں تو ان کو ( زوجیت میں ) رہنے دو ۔ میں بلوغ اجل سے عدت طلاق کا ختم ہونے کے قریب پہنچ جا نامراد ہے ۔ کیونکہ عدت ختم ہونے کے بعد تو خاوند کے لئے مراجعت اور روکنا جائز ہی نہیں ہے ۔ بلغتہ الخبر وابلغتہ کے ایک ہی معنی ہیں مگر بلغت ( نفعیل ) زیادہ استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : أُبَلِّغُكُمْ رِسالاتِ رَبِّي [ الأعراف/ 62] تمہیں اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں ۔ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ [ المائدة/ 67] اے پیغمبر جو ارشادات خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں سب لوگوں کو پہنچا دو ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ ما أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ [هود/ 57] 1. اگر تم رو گردانی کردگے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ می نے تمہیں پہنچا دیا ہے ۔ 2. اور قرآن پاک میں ایک مقام پر : بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عاقِرٌ [ آل عمران/ 40] 3. کہ میں تو بوڑھا ہوگیا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔ آیا ہے یعنی بلوغ کی نسبت کبر کی طرف کی گئی ہے ۔ اور دوسرے مقام پر ۔ وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا [ مریم/ 8] 4. اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں ۔ ہے یعنی بلوغ کی نسبت متکلم کی طرف ہے اور یہ ادرکنی الجھد وادرکت الجھد کے مثل دونوں طرح جائز ہے مگر بلغنی المکان یا ادرکنی کہنا غلط ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ { وَمَا عَلَیْنَآ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ } ” اور نہیں ہے ہم پر کوئی اور ذمہ داری سوائے (اللہ کا پیغام) صاف صاف پہنچا دینے کے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 That is, "Our only duty is to convey to you the Message that Allah has entrusted us with. Then it is for you to accept it or reject it. We have not been made responsible to make you accept it forcibly; and if your do not accept it, we shall not be seized in consequence of your disbelief: you will yourselves be answerable for your crimes.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :13 یعنی ہمارا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ جو پیغام تم تک پہنچانے کے لیے رب العالمین نے ہمارے سپرد کیا ہے وہ تمہیں پہنچا دیں ۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ مانو یا نہ مانو ۔ یہ ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی گئی ہے کہ تمہیں زبردستی منوا کر ہی چھوڑیں ۔ اور اگر تم نہ مانو گے تو تمہارے کفر میں ہم نہیں پکڑے جائیں گے بلکہ اپنے اس جرم کی جواب دہی تم کو خود ہی کرنی پڑے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:17) وما علینا۔ اور ہم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ البلغ المبین۔ موصوف وصفت۔ بلاغ بلغ یبلغ (نصر) سے مصدر ہے ۔ البلاغ والبلوغ کے معنی مقصد اور منتہی کی آخری حد تک پہنچنے کے ہیں عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچنے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہا تک پہنچنے کے معنی میں ہے۔ حتی بلغ اشدہ وبلغ اربعین سنۃ (46:15) یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے۔ البلاغ کے معنی تبلیغ یعنی پہنچا دینے کے ہیں جیسے کہ قرآن مجید میں ہے ھذا بلغ للناس (14:52) یہ قرآن لوگوں کے نام خدا کا پیغام ہے۔ یا فانما علی کی البلغ وعلینا الحساب (13:40) تمہارا کام (ہمارے احکام کا) پہنچا دینا ہے اور ہمارا کام حساب لینا ہے المبین۔ اسم فاعل واحد مذکر ۔ صاف صاف، واضح طور پر پہنچا دینا۔ ایسی تبلیغ کہ جس میں ہر پہلو کی وضاحت کی گئی ہو۔ مبین ابانۃ سے (باب افعال) ظاہر۔ کھلا ہوا۔ ظاہر کرنے والا۔ کھلونے والا ( باب افعال سے لازم ومتعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے) ۔ بلاغ کے معنی کافی ہو بھی آتے ہیں جیسے ان فی ھذا لبلغا لقوم عبدین (21:106) عبادت کرنے والوں کے لئے اس میں (خدا کے حکموں میں ) پوری پوری اور کافی تبلیغ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ غرض یہ کہ ہم اپنا کام کر چلے، تم نہ مانو تو ہم مجبور ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور ہمارے ذمے تو صرف اللہ تعالیٰ کے پیغام کا صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ یعنی ان تینوں پیغامبروں نے توحید کے دلائل ان کو سنائے اور بتائے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ بہت سے بیماروں کو ان کی دعا سے شفاء بھی ہوئی تمام دلائل وبراہین دیکھنے کے بعد ان گائوں والوں نے ان کا رد کرنا شروع کردیا اور عام لوگوں کی طرح وہی بشریت کا اعتراض اٹھایا اور جملہ کتب سماویہ کا انکار کیا جیسا کہ ماانزل الرحمن من شئی سے ظاہر ہے جب پیغمبروں کی تکذیب میں گائوں والوں نے تاکید سے کام لیا تو انہوں نے مجبوراً اپنے کلام کو موکدبالقسم کرتے ہوئے فرمایا ربنا یعلم پیغمبروں کی اس سیدھی بات پر گائوں والوں نے جو اعتراض کیا وہ آگے مذکور ہے۔