Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 22

سورة يس

وَ مَا لِیَ لَاۤ اَعۡبُدُ الَّذِیۡ فَطَرَنِیۡ وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۲﴾

And why should I not worship He who created me and to whom you will be returned?

اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا لِي لاَ أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي ... And why should I not worship Him Who has created me! means, `and what is there to stop me from sincerely worshipping the One Who has created me, and worshipping Him Alone, with no partner or associate.' ... وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ and to Whom you shall be returned. means, `on the Day of Resurrection, when He will requite you for your deeds: if they are good then you will be rewarded and if they are evil then you will be punished.'

راہ حق کا شہید ۔ وہ نیک بخت شخص جو اللہ کے رسولوں کی تکذیب و تردید اور توہین ہوتی دیکھ کر دوڑا ہوا آیا تھا اور جس نے اپنی قوم کو نبیوں کی تابعداری کی رغبت دلائی تھی وہ اب اپنے عمل اور عقیدے کو ان کے سامنے پیش کر رہا ہے اور انہیں حقیقت سے آگاہ کرکے ایمان کی دعوت دے رہا ہے ، تو کہتا ہے کہ میں تو صرف اپنے خالق مالک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی قدرت کی ہی عبادت کرتا ہوں جبکہ صرف اسی نے مجھے پیدا کیا ہے تو میں اس کی عبادت کیوں نہ کروں؟ پھر یہ نہیں کہ اب ہم اس کی قدرت سے نکل گئے ہیں؟ اس سے اب ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا ہو؟ نہیں بلکہ سب کے سب لوٹ کر پھر اس کے سامنے جمع ہونے والے ہیں ۔ اس وقت وہ ہر بھلائی برائی کا بدلہ دے گا ۔ یہ کیسی شرم کی بات ہے کہ میں اس خالق و وقار کو چھوڑ کر اوروں کو پوجوں جو نہ تو یہ طاقت رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی کسی مصیبت کو مجھ پر سے ڈال دیں ، نہ یہ کہ ان کے کہنے سننے کی وجہ سے مجھے کوئی برائی پہنچے ، اللہ اگر مجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو یہ اسے دفع نہیں کرسکتے روک نہیں سکتے نہ مجھے اس سے بچاسکتے ہیں ، اگر میں ایسے کمزوروں کی عبادت کرنے لگوں تو مجھ سے بڑھ کر گمراہ اور بہکا ہوا اور کون ہو گا ؟ پھر تو نہ صرف مجھے بلکہ دنیا کے ہر بھلے انسان کو میری گمراہی کھل جائے گی ۔ میری قوم کے لوگو! اپنے جس حقیقی معبود اور پروردگار سے تم منکر ہوئے ہو ۔ سنو میں تو اس کی ذات پر ایمان رکھتا ہوں اور یہ بھی معنی اس آیت کے ہوسکتے ہیں کہ اس اللہ کے بندے مرد صالح نے اب اپنی قوم سے روگردانی کرکے اللہ کے ان رسولوں سے یہ کہا ہو کہ اللہ کے پیغمبرو! تم میرے ایمان کے گواہ رہنا! میں اس اللہ کی ذات پر ایمان لایا جس نے تمہیں برحق رسول بناکر بھیجا ہے ، پس گویا یہ اپنے ایمان پر اللہ کے رسولوں کو گواہ بنا رہا ہے ۔ یہ قول بہ نسبت اگلے قول کے بھی زیادہ واضح ہے واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ بزرگ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ تمام کفار پل پڑے اور زدوکوب کرنے لگے ۔ کون تھا جو انہیں بچاتا ؟ پتھر مارتے مارتے انہیں اسی وقت فی الفور شہید کردیا ( رضی اللہ عنہ وارضاہ ) یہ اللہ کے بندے یہ سچے ولی اللہ پتھر کھا رہے تھے لیکن زبان سے یہی کہے جا رہے تھے کہ اللہ میری قوم کو ہدایت کر یہ جانتے نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 اپنے مسلک توحید کی وضاحت کی، جس سے مقصد اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان کی صحیح رہنمائی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی قوم نے اس سے کہا ہو کہ کیا تو بھی اس معبود کی عبادت کرتا ہے، جس کی طرف یہ مرسلین ہمیں بلا رہے ہیں اور ہمارے معبودوں کو تو بھی چھوڑ بیٹھا ہے ؟ جس کے جواب میں اس نے کہا۔ مفسرین نے اس شخص کا نام حبیب نجار بتایا۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٤] تیسری بات جو مرد صالح نے سمجھائی۔ اس میں قوم کو مخاطب نہیں کیا تاکہ وہ چڑ نہ جائیں بلکہ اسے اپنی ذات سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ عبادت کی مستحق وہی ہستی ہوسکتی ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی لئے میں صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ اور اللہ کے سوا جن ہستیوں کو تم نے اپنا حاجت روا قرار دے رکھا ہے ان کا میرے پیدا کرنے اور رزق دینے میں کچھ حصہ ہی نہیں تو آخر میں انہیں کیوں پکاروں اور کیوں ان کی عبادت کروں۔ [ ٢٥] چوتھی بات ان کے انجام سے متعلق انہیں سمجھائی کہ آخر تم سب نے مرنا ہے۔ اور تم سب کی روحیں اللہ کے قبضہ میں ہیں۔ اور تمہیں اس ہستی کی طرف لوٹ کر جانا ہے جس کی بندگی کی دعوت پر آج تمہیں اعتراض ہے اور جو تمہیں یہ بات سمجھائے اس کے درپے آزار ہوجاتے ہو۔ پھر تم خود ہی سوچ لو کہ تمہارا انجام کیا ہوسکتا ہے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ : توحید کی دعوت دیتے ہوئے اس مرد صالح نے نہایت حکیمانہ اسلوب اختیار کیا کہ انھیں مخاطب کرنے کے بجائے اپنے آپ کو مخاطب کرلیا، تاکہ وہ چڑ نہ جائیں۔ یعنی آخر مجھے کیا ہے کہ میں اس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور ان کی عبادت کروں جنھوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا، بلکہ خود لوگوں نے انھیں بنایا ہے۔ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : اور یہ بھی نہ سمجھنا کہ اس نے ہمیں پیدا کر کے آزاد چھوڑ دیا ہے، اب اس کا کوئی تعلق واسطہ ہم سے نہیں رہا، بلکہ تم سب کو مرنے کے بعد اسی کے پاس واپس لے جایا جائے گا، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَالِيَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِيْ فَطَرَنِيْ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٢٢ عبادت العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . والعِبَادَةُ ضربان : عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود . وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ عبادۃ دو قسم پر ہے (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة/ 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء/ 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں ۔ اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اس پر حبیب نجار کہنے لگے میرے پاس کون سا عذر ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور مرنے کے بعد تم سب کو اسی کے سامنے پیش ہونا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ { وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ } ” اور مجھے کیا ہے کہ میں عبادت نہ کروں اس ہستی کی جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹا دیے جائو گے۔ “ دیکھو ! یہ لوگ جو دعوت دے رہے ہیں وہ یہی تو ہے کہ تم اس اکیلے معبود کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم سب لوگوں نے پلٹ کر بھی جانا ہے۔ چناچہ مجھے تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ میں اس اللہ کی عبادت نہ کروں جو میرا خالق ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 This sentence has two parts. The first part is a masterpiece of reasoning, the second of the wisdom of preaching. In the first part he says: "To worship the Creator is the demand of both reason and nature; it would be highly unreasonable that one should worship those who have not created him and should deny to be the servant of Him Who has created him." In the second part he warns his people to the effect: "All of you ultimately have to die and return to that God adoption of Whose service you object to. Therefore, you should consider for yourselve's as to what goodness you could expect by turning away from Him."

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :18 اس فقرے کے دو حصے ہیں ۔ پہلا حصہ استدلال کا شاہکار ہے ، اور دوسرے حصے میں حکمت تبلیغ کا کمال دکھایا گیا ہے ۔ پہلے حصے میں وہ کہتا ہے کہ خالق کی بندگی کرنا تو سراسر عقل و فطرت کا تقاضا ہے ۔ نامعقول بات اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ آدمی ان کی بندگی کرے جنہوں نے اسے پیدا نہیں کیا ہے ، نہ یہ کہ وہ اس کا بندہ بن کر رہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ۔ دوسرے حصے میں وہ اپنی قوم کے لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مرنا آخر تم کو بھی ہے ، اور اسی خدا کی طرف جانا ہے جس کی بندگی اختیار کرنے پر تمھیں اعتراض ہے ۔ اب تم خود سوچ لو کہ اس سے منہ موڑ کر تم کس بھلائی کی توقع کر سکتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:22) وما لی۔ واو عاطفہ ہے۔ جملہ ہذا کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ ما نافیہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں ترجمہ ہوگا ! میرے پاس کوئی عذر نہیں۔۔ اور ما استفہامیہ بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں یہ استفہام انکاری کے لئے ہے ترجمہ ہوگا ! میرے پاس عذر ہی کیا ہے کہ۔۔ (یعنی میرے پاس کوئی عذر ہی نہیں ہے) ۔ لا اعبد مضارع منفی واحد متکلم۔ (کہ ) میں عبادت نہ کروں۔ فطرنی۔ فطر ماضی واحد مذکر غائب فطر مصدر ( باب ضرب ونصر) بمعنی عدم سے وجود میں لانا۔ نیست سے ہست کرنا۔ پیدا کرنا۔ فطر کے معنی میں پھاڑنے کا مفہوم ضرور ہونا چاہیے ۔ ن وقایہ ی ضمیر واحد متکلم اس نے مجھے پیدا کیا۔ وہ عدم کے پردہ کو بھاڑ کر مجھے وجود میں لایا ۔ ترجعون۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ رجع (باب ضرب) مصدر بمعنی لوٹانا۔ یا (بطور فعل لازم ) لوٹنا۔ تم لوٹائے جائو گے۔ علامہ پانی پتی (رح) صاحب تفسیر مظہری رقمطراز ہیں :۔ اس کلام میں لطیف طرز میں ہدایت کی ہے اپنے نفس کو نصیحت کرنے کے پیرایہ میں دوسروں کو خالص نصیحت کی ہے کہ دوسروں کو بھی اسی بات کو اختیار کرنا چاہیے جو ناصح نے اپنے لئے اختیار کی ہے۔ حقیقت میں کفار کو اس امر پر زجر کرنا مقصود ہے کہ انہوں نے اپنے خالق کی عبادت کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت پسند کی ہے۔ اور بعض کے نزدیک وما لی لا اعبد الذی فطرنی والیہ ترجعون جواب ہے، سوال محذوف کا۔ سوال کے متعلق دو روایات ہیں : (1) جب اقصا المدینۃ سے آنے والے نے آکر کر اپنی قوم سے کہا۔ یقوم اتبعوا المرسلین ۔۔ الخ تو قوم والوں نے کہا کہ :۔ کیا تو ہمارے مذہب کا مخالف ہوگیا ہے اور ان رسولوں کے مذہب کا پیرو ہوگیا ہے تو اس نے کہا ومالی لا اعبد۔۔ الخ۔ (2) بعض اہل روایت کا بیان ہے کہ جب اس شخص نے یقوم اتبعوا۔۔ کہا تو لوگ اس کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے بادشاہ نے اس سے کہا کیا تو ان رسولوں کا پیرو ہوگیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا :۔ وما لی ۔۔ الخ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 مقصود قوم کو توجہ دلانا ہے کہ جس طرح میرے لئے یہ صحیح نہیں ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کی عبادت نہ کروں اسی طرح تمہارے لئے بھی صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے باز رہو، کیونکہ میں ہوں یا تم سب کا پیدا کرنے والاوہی اللہ ہے۔2” اور اپنے اعمال کا بدلہ پانا چاہیے “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 2 ۔ آیات 22 تا 32: اسرار و معارف : اس کی بات کیا مانتے الٹا اسے بھی کہنے لگے کہ تم بھی یہ نیا دین کیوں اپنا رہے ہو بھلا باپ دادا کا مذہب خراب تھا کیا یا وہ سب گمراہ تھے تو اس نے کہا کہ میرے پاس تو ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ میں اس ذات کریم کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا اور مجھے قائم رکھا ہے نیز اس کے یہی احسانات تم سب پر بھی ہیں اور پھر بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی سب کو پلٹ کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور اپنے کردار و عمل کا حساب دینا ہے پھر کتنی احمقانہ بات ہے کہ میں اس اتنے بڑے مہربان کو چھوڑ کر کسی بھی دوسرے کو معبود بنا لوں کہ اگر وہ ناراض ہو کر مجھے سزا دے تو یہ بت یا وہ جس کی اس کے علاوہ میں اطاعت اختیار کروں اس کے مقابلے میں مجھے کچھ بھی کام نہ آسکے چھڑانا تو درکنار میری سفارش بھی نہ کرسکے کہ اس کے ہاں سفارش بھی اسی کی ہوگی جس کی اس نے اجازت دی ہو اور اس کے مقرب ہی کرسکیں گے ہر کوئی تو سفارش کی جرات بھی نہ کرسکے گا۔ یہ سب تو کھلی گمراہی ہے کہ میں دیکھتی آنکھوں کفر کے اندھے کنویں میں گر جاؤ انہوں نے غلط بحث کی طرف لا کر الجھانے کی کوشش کی جس کا جواب یہاں ارشاد ہوا کہ اللہ کے اس بندے نے کج بحثی میں الجھنے کی بجائے پھر دلیل سے بات کی اور ساتھ یہ اعلان بھی کردیا کہ اپنے پروردگا جو تمہارا پالنے والا بھی ہے ایمان رکھتا ہوں اور اچھی طرح جان لو کہ مجھے تمہارا کافرانہ عقائد سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں۔ مفسرین کے مطابق قوم نے اسے ظلما شہید کردیا تو ارشاد ہوا کہ اے میرے بندو جنت میں داخل ہوجا گویا جنت اس کی راہ دیکھ رہی تھی۔ یہ سوال کہ جنت کا داخلہ تو حشر کے بعد ہوگا درست مگر حدیث شریف کے مطابق ہر قبر یا جنت کا باغ ہے اور یا دوزخ کا گڑھا کہ برزخ میں جو قیام کی جگہ ہے وہ بھی یا جنت سے متعلق ہے یا دوزخ سے اور دوسری رائے مفسرین کی یہ ہے کہ انبیاء کی صحبت میسر آنے سے اس کی قوت مشاہدہ اور کشف عود کر آئی اور اسے جنت دنیا میں ہی دکھا دی گئی کہ یہ تیرا گھر ہے اور یہ ممکن بھی ہے اور صحابہ کرام اور اولیاء اللہ سے یہ مشاہدہ ثابت بھی۔ تو اس نے کہا کاش میری قوم کو اس کی خبر ہوجائے کہ میرے پروردگار کی بخشش نے میرا دامن بھر دیا اور مجھے اپنے قرب سے نواز کر بہت ہی عزت عطا فرمائی۔ جب یہ دلیل بھی ان پہ اثر نہ کرسکی تو اللہ نے انہیں مہلت نہ دی اور ان کے لیے کوئی خاص لشکر تیار نہ کرنا پڑا کہ آسمانوں سے اتارا جائے نہ ہی اللہ ایسی باتوں کا محتاج ہے وہاں تو صرف ایک کڑک اس زور کی پڑی کہ وہ سب چراغ سحر کی لو کی طرح تھرا کر بجھ گئے اور ساری بستی زندگی کی رعنائیوں سے محروم ہو کر عبرت کا سامان بن گئی ایک ہیبت ناک آواز نے سب کو تباہ کردیا۔ وائے حسرت ہے ایسے بندوں پر جن کے پاس اللہ کا رسول آئے اور وہ اس کا مذاق آرائیں دین سے اور دین لانے والے نبی سے مذاق غضب الہی کو دعوت دینے والی بات ہے جبکہ یہ دیکھ رہے ہی کہ ان سے پہلے اس جرم میں کتنی قومیں تباہ ہوگئیں جو اب واپس صفحہ ہستی پر نہ آسکیں گی اور پھر بات اس تباہی و بربادی پہ تمام نہ ہوئی بلکہ ان سب کو بیک وقت جمع ہو کر ہماری بارگاہ میں حاضر نہ ہونا اور جواب دینا ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ اصل مطلب یہی ہے کہ تم کو کون سا عذر ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مضافات شہر سے آنے والے صالح انسان کا اپنی قوم کو خطاب جاری ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ اور ان کی اتباع کی تلقین کرنے کے بعد صالح انسان نے اپنا عقیدہ قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس کیا عذر ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں ؟ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم نے بھی لوٹ کرجانا ہے کیا میں اسے چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لوں جبکہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی انسان کے نفع و نقصان کا مالک ہے۔ اگر رب رحمن میرے نقصان کا فیصلہ کرے تو جن کی تم عبادت کرتے ہو ان کی سفارش نہ مجھے فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی یہ کسی مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں اگر میں انہیں عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھوں تو میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ میں اس رب پر ایمان لایا ہوں جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اس لیے میری بات پر توجہ فرماؤ۔ اس صالح انسان نے اپنے خطاب میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر فرمایا ہے جو انسان کی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پوری کائنات اور انسان کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہر انسان یہ بھی عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر مہربان ہے۔ ہر کوئی مانتا ہے کہ نفع و نقصان اللہ کے اختیار میں ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں یہی شرک کی بنیاد ہے کہ مشرک سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں کو اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اور یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہیں کہ ان کی سفارش کو اللہ تعالیٰ مسترد نہیں کرسکتا۔ اس باطل عقیدہ کی تردید اور مشرک کی تیز مزاجی کو سمجھتے ہوئے مخاطب کی ضمیر استعمال کرنے کی بجائے صالح اور سمجھ دار مبلّغ نے اپنے آپ کو خطاب کیا اور دوسروں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر ربٍ رحمٰن مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو تمہارے سفارشی مجھے چھڑا اور بچا نہیں سکتے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بڑا ہی گمراہ کن عقیدہ ہے اگر میں اس عقیدہ کو اختیار کروں تو میرے گمراہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ جس رب نے مجھے اور تمہیں پیدا کیا ہے میں اس پر ایمان لایا اور تمہیں بھی اس بات کی دعوت دیتا ہوں۔ اس دعوت پر توجہ فرماؤ تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی کائنات اور انسان کو پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ ہر شخص نے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے مشکل میں مبتلا کرے اسے کوئی چھڑانے اور بچانے والا نہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھنا پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ ٦۔ توحید کے مبلّغ کو اپنی دعوت سمجھداری کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : ١۔ ” اللہ “ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ ” اللہ “ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پارہ ۔۔۔۔ 23 سورة یسین۔ 36 آیات 22 ۔۔۔ تا۔۔۔ 83 وما لی لا اعبد۔۔۔۔۔ امنت بربکم فاسمعون (22 – 25) ” “۔ یہ سوچ اور یہ سوالات ایک ایسی فطرت کے ہیں جسے خالق کائنات کا شعور حاصل ہوچکا ہو ، جو اپنے مقصد و جود کو پا چکی ہو اور اس کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہوچکی ہو۔ پھر اس کی پکار یہ ہوتی ہے۔ ومالی لا اعبد الذی فطرنی (36: 22) ” آخر کیوں نہ میں اس ہستی کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا “۔ آخر میں اس فطری منہاج سے کیوں ہٹ جاؤں جو میرے دل میں پیوست ہوچکا ہے۔ کیونکہ انسان کے اندر اس ذات کی کشش ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ سب سے پہلے انسانی فطرت خدا اور خالق کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اور اگر فطرت اس راہ سے انحراف کرتی ہے تو اس کے اسباب خارجی ہوتے ہیں اور یہ گمراہ کن اسباب اور موثرات انسانی طبیعت کے اندر نہیں ہوتے۔ اور خالق کی طرف توجہ فطرت کا پہلا اور بہترین داعیہ ہوتا ہے۔ یہ فطرت کے اندر ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی بیرونی محرک یا موثر کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ نفس انسانی فطری طور پر اس کی طرف مائل ہوتا ہے جب کسی کے دل میں ایمان داخل ہوجاتا ہے کہ تو نفس کے اندر گہرائیوں میں وہ اپنے خالق کو محسوس کرتا ہے۔ اسی رجل مومن کی یہ تعبیر اس کے اس فطری میلان کا ظہور ہے۔ بلاتکلف وہ پکار اٹھتا ہے کہ کیوں میں اس خالق کی بندگی نہ کروں ؟ یہ فطرت سلیمہ یہ بات بھی محسوس کرتی ہے کہ آخر کار انسان نے اپنے خالق ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے والیہ ترجعون (36: 22) ” اور اسی کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے “۔ فطری سوچ یہ ہے کہ جس نے میری تخلیق کی ہے میں اس کی بندگی کیوں نہ کروں ؟ جبکہ تم سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے کیونکہ تمہارا خالق بھی تو وہ ہے ، اور تمہارا حق بھی یہ ہے کہ تم بھی اسی کی بندگی کرو۔ اب یہ رجل ۔۔۔ مخالفانہ رویہ پر بھی تبصرہ کرتا ہے کہ میرا رویہ اور میری سوچ تو معقول اور فطری ہے اور اس کے خلاف اگر میں رویہ اختیار کروں تو وہ خلاف فطرت اور گمراہ نہ ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ وما لی الخ، حبیب نجار نے جب قوم کے سامنے تقریر کی تو انہوں نے کہا اچھا ! تو بھی ان کا ساتھی ان کے عقیدے پر ہے۔ اور ہمارے دین کا مخالف ہے فلما قال ذالک قالوا لہ وانت مخالف لدیننا و متابع دین ھؤلاء الرسل (مظہری ج 8 ص 78) ۔ اس پر اس نے کہا، وما لی لا اعبد الخ، آخر کیا وجہ ہے کہ میں اس ذات پاک کی بلا شرکت غیرے خالص عبادت نہ کروں جس نے مجھے زندگی عطا فرمائی ہے اور آخر کار جزاء و سزا کے لیے قیامت کے دن تم سب اس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے، اس لیے بہتر ہے کہ تم بھی اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور اس کی توحید کو مان لو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ والیہ ترجعون بعد الموت فیجازیکم باعمالکم فاعبدوا انتم ایضا ووحدوہ و صدقوا رسلہ (جامع ص 378) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) اور میرے لئے کون سا عذر ہے کہ جس نے مجھ کو پیدا کیا ہے اور مجھ کو بنایا ہے میں اس کی عبادت اور پرستش نہ کروں اور تم سب اسی کی جانب واپس کئے جائو گے اور تم سب کی بازگشت اسی کی جا ہے۔ یعنی جس کا مجھ پر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس نے مجھ کو عدم سے وجود بخشا میں اس کی عبادت نہ کروں تو مجھ سے زیادہ احسان فراموش کون ہوسکتا ہے۔ یہ بات اپنے پر رکھ کر کہی تاکہ کسی کو ناگوار نہ ہو۔