Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 31

سورة يس

اَلَمۡ یَرَوۡا کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿ؕ۳۱﴾

Have they not considered how many generations We destroyed before them - that they to them will not return?

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان کے پہلے بہت سی قوموں کو ہم نے غارت کر دیا کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do they not see how many of the generations We have destroyed before them? Verily, they will not return to them. meaning, `do you not learn a lesson from those whom Allah destroyed before you of those who disbelieved in the Messengers? They came to this world only once, and will not return to it.' It is not as many of those ignorant and immoral people claim that إِنْ هِيَ إِلاَّ حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا ("There is nothing but our life of this world! We die and we live!") (23:37). This was the belief in the cycle of reincarnation; in their ignorance they believed that they would come back to this world as they had been before. But Allah refuted their false belief and said: أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنْ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لاَ يَرْجِعُونَ (Do they not see how many of the generations We have destroyed before them Verily, they will not return to them). Allah's saying: وَإِن كُلٌّ لَّمَّا جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 اس میں اہل مکہ کے لئے تنبیہ ہے کہ تکذیب رسالت کی وجہ سے جس طرح پچھلی قومیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہوسکتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣١] یعنی سابقہ اقوام کے انجام کی طرف نہ دیکھتے ہیں نہ اس میں غور و فکر کرتے ہیں وہ قومیں بھی اپنے رسولوں کا مذاق اڑاتی رہیں۔ اور اس کی پاداش میں انہیں ہلاک کردیا جاتا تھا اور ان کا ایسا نام و نشان تک مٹ گیا کہ ان میں سے کوئی بھی بچ کر ان کے پاس واپس نہیں لوٹا پھر بھی ان کافروں کا یہی دستور رہا کہ جب کوئی نیا رسول آتا تو اس سے اسی طرح تمسخر اور استہزاء شروع کردیتے جو پہلے کفار کی عادت تھی اور کچھ سبق حاصل نہیں کرتے تھے۔ اور آج کفار مکہ کا بھی رسول اللہ کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ : ” اَلَمْ يَرَوْا “ سے مراد ” أَلَمْ یَعْلَمُوْا “ ہے، یعنی سابقہ اقوام کے انجام کی طرف نہ دیکھتے ہیں نہ اس میں غور و فکر کرتے ہیں۔ وہ قومیں بھی اپنے رسولوں کا مذاق اڑاتی رہیں اور اس کی پاداش میں انھیں ہلاک کردیا جاتا تھا اور ان کا نام و نشان تک ایسا مٹا کہ ان میں سے کوئی بھی بچ کر ان کے پاس واپس نہیں لوٹا، پھر بھی ان کافروں کا یہی دستور رہا کہ جب کوئی نیا رسول آتا تو اس سے اسی طرح تمسخر اور استہزا شروع کردیتے جو پہلے کفار کی عادت تھی اور کچھ سبق حاصل نہیں کرتے تھے اور آج کفار مکہ کا بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ (کیلانی) ” لَا يَرْجِعُوْنَ “ (وہ پلٹ کر نہیں آتے) کے لفظ میں ان لوگوں کا رد ہے جو بعض شخصیتوں کے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آنے کے قائل ہیں اور ان ہندؤوں کا بھی جو کہتے ہیں کہ تمام مرنے والے دوبارہ دنیا میں کسی دوسری شکل میں آتے ہیں۔ اگر پہلی زندگی میں انھوں نے اچھے کام کیے ہوں تو پہلے سے اچھی صورت میں اور اگر برے کام کیے ہوں تو پہلے سے بری صورت میں اور اس عقیدے کو تناسخ یا او اگون کہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَہْلَكْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّہُمْ اِلَيْہِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ۝ ٣١ۭ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ كم كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن/ 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة . کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔ هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔ قرن والقَرْنُ : القوم المُقْتَرِنُونَ في زمن واحد، وجمعه قُرُونٌ. قال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] ، ( ق ر ن ) قرن ایک زمانہ کے لوگ یا امت کو قرن کہا جاتا ہے اس کی جمع قرون ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ [يونس/ 13] اور تم سے پہلے ہم کئی امتوں کو ۔ ہلاک کرچکے ہیں رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا کفار مکہ اس پر چیز پر نظر نہیں کی کہ ہم ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کرچکے ہیں کہ پھر وہ قیامت تک ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ { اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّہُمْ اِلَیْہِمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ } ” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی نسلوں کو ہلاک کردیا کہ وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آتے ! “ ایک دفعہ دنیا سے چلے جانے کے بعد کسی کو بھی دوبارہ یہاں آنے کا موقع نہیں ملتا۔ چناچہ ان اقوام کے لوگ نیست و نابود ہو کر ماضی کا حصہ بن چکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 That is, they were annihilated so completely that not a trace of them was left behind them. No one in the world even remembers them today. Their civilization as well as their race has become extinct.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :25 یعنی ایسے مٹے کہ ان کا کہیں نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔ جو گرا پھر نہ اٹھا ۔ دنیا میں آج کوئی ان کا نام لیوا تک نہیں ہے ۔ ان کی تہذیب اور ان کے تمدن ہی کا نہیں ، ان کی نسلوں کا بھی خاتمہ ہو گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:31) کم ۔۔ من القرن۔ کتنی ہی قومیں۔ کتنی ہی امتیں القرن جمع ہے القرن کی جس کے معنی کوئی ایسی قوم یا امت جس کا اپنا مخصوص زمانہ ہو دوسروں سے الگ۔ کم سوالیہ بھی آتا ہے اس صورت میں اس کا ما بعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ہے اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں۔ جیسے کم رضلا ضربت تو نے کتنے آدمیوں کو پیٹا ؟ کم دوسری صورت خبریہ ہے اس صورت میں یہ مقدار کی کمی بیشی اور تعداد کی کثرت کو ظاہر کرتا ہے اور اس کی تمیز ہمیشہ مجرور ہوتی ہے۔ جیسے کم قریۃ اھلکناھا ہم نے بہت بستیوں کو ہلاک کردیا۔ کبھی تمیز سے پہلے من آتا ہے جیسے کم من قریۃ اھلکناھا۔ ہم نے کتنی بستیوں کو ہلاک کردیا (یعنی بہت بستیوں کو) ۔ کم ۔۔ من القرون۔ کتنی ہی قوموں کو، کتنی ہی امتوں کو (یعنی بہت بستیوں یا امتوں کو) ۔ انہم۔ ضمیر ہم جمع مذکر غائب من القرون کی طرف راجع ہے۔ الیہم۔ چونکہ خطاب اہل مکہ سے ہو رہا ہے لہٰذا ہم ضمیر مرجع اھل مکہ ہیں۔ انہم الیہم لا یرجعون۔ کہ ان بستیوں کے باسی پھر لوٹ کر ان کے پاس واپس نہ آئے۔ یا نہ آئیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی ایسے ختم ہوگئے کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہا اور نہ ان کا کوئی نام لیوا رہا۔ یہاں ” لا یرجعوان “ کے لفظ میں ان لوگوں کا رد ہے جو بعض شخصیتوں کے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آنے کے قائل ہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم یرواکم۔۔۔۔۔ لا یرجعون (36: 31) ” کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں اور اس کے بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے “۔ وہ اقوام جو ہلاک کی گئیں اور اس دنیا سے مٹا دی گئیں ، ان کے مٹ جانے میں لوگوں کے لیے سامان عبرت و نصیحت ہے ۔ اور طویل انسانی تاریخ انسانوں کے لیے موضوع غوروفکر و تدبر ہے۔ لیکن یہ بدبخت لوگ انسانی تاریخ پر غور نہیں کرتے۔ حالانکہ اپنی اس لاپرواہی کی وجہ سے وہ ہلاکت اور بربادی کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تو انکی اس افسوسناک حالت پر حسرت کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ ایک حیوان بھی جب دوسرے حیوان کی موت اور ہلاکت اپنے سامنے دیکھتا ہے تو وہ کانپ اٹھتا ہے اور مقدر بھر کوشش کرتا ہے کہ وہ اس انجام سے بچ جائے۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ باوجود اسکے کہ وہ اپنے بھائیوں کو اپنی بےراہ روی کی وجہ سے ہلاک ہوتے دیکھتا ہے اور پھر وہ اسی راہ پر چلتا ہے۔ محض اپنے غرور اور کبر اور لاپرواہی کی وجہ سے ، وہ دھوکہ کھاتا ہے اور دیکھنے کے باوجود اسی راہ پر چلتا ہے۔ انسان کی ایک طویل تاریخ اس کے سامنے اور وہ جانتا بھی ہے کہ انسانوں کی ہلاکت فلاں فلاں اسباب کی وجہ سے ہوئی لیکن وہ پھر بھی اندھوں کی طرح لاپرواہی سے انہی راہوں پر چلتا ہے ۔ اور نہیں دیکھتا۔ جب ہلاک ہونے والے اور نابود کو دئیے جانے والے اب اپنے جانشینوں کے پاس واپس نہیں آسکتے تو یہ جانشین بھی اسی راستے پر جائیں گے۔ یہ ہم سے بچ کر نہ نکل سکیں گے۔ ان سے بھی حساب لیا جائے گا۔ وان کل لما ۔۔۔۔۔۔۔ محضرون (36: 32) ” بیشک ان سب کو ایک روز ہمارے سامنے حاضر کیا جانا ہے “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِنَ الْقُرُوْنِ ) کیا ان لوگوں (یعنی اہل مکہ) نے اس کو نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتیں ہلاک کردیں (جن کا انہیں علم ہے اور اقرار ہے) اسفار میں جاتے ہیں تو ہلاک شدہ قوموں کے کھنڈر دیکھتے ہیں، اگر غور کرتے تو جھٹلانے اور نبیوں کا مذاق بنانے سے بچتے (اَنَّہُمْ اِِلَیْہِمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ ) یہ ہلاک شدگان ان کی طرف لوٹنے والے نہیں ہیں یعنی جنہیں ہلاک کیا گیا وہ ختم ہوگئے دنیا سے چلے گئے اب انہیں واپس آنا نہیں ہے، جو کچھ محل تعمیر کیے، عمارتیں بنائیں، مال جمع کیا سب کچھ دھرا رہ گیا نہ پہلی زندگی میں ان چیزوں نے ان کی جان بچائی نہ واپس آکر ان سے منتفع اور مستفید ہوسکتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ الم یروا الخ، یہ دعوائے سورت پر پہلی عقلی دلیل ہے۔ یہ مشرکین دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے ہم نے مشرکین کے قرنوں کے قرن تباہ و برباد کردئیے جو اپنے مزعومہ معبودوں کو کارساز اور شفیع غالب سمجھتے تھے اور ان کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ مصائب و مشکلات میں وہ ان کے کام آئیں گے۔ لیکن جب ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا تو ان کا کوئی کارساز اور سفارشی انہیں ہمارے عذاب سے چھڑا کر دنیا میں واپس نہ لاسکا انہم الیہم لا یرجعون۔ جملہ ما قبل کے مضمون سے بدل ہے۔ بدل من کم اھلکنا علی المعنی (مدارک ج 4 ص 6) کذا افادہ الشیخ قدس سرہ۔ یا اس سے ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو کہتے تھے۔ انھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا (مومنون رکوع 3) یعنی کوئی قیامت اور جزاء سزا نہیں بس زندگی صرف یہی اس دنیا ہی میں ہے۔ جو مرتا ہے وہ دوبارہ کسی دوسرے قالب میں زندہ ہو کر آجاتا ہے اور یہ مرنے جینے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ یہ عقیدہ تناسخ کے نام معروف ہے۔ ھم القائلون بالدور من الدھریۃ وہم الذین یعتقدون جہلا منہم انہم یعودون الی الدنیا کما کانوا فیہا فرد اللہ تبارک و تعالیٰ تعلیہم باطلہم (ابن کثیر ج 3 ص 570) اس سے روافض کے عقیدہ رجعت کا بطلان بھی واضح ہوگیا جو حضرت علی (رض) اور بعض دیگر ائمہ کی قیامت سے قبل دنیا میں رجعت کے قائل ہیں و رد بالایۃ علی القائلین بالرجعۃ کما ذھب الیہ الشیعۃ (روح ج 23 ص 5) ۔ وفی الایۃ رد علی من زعم ان من الخلق من یرجع قبل القیامۃ بعد الموت (قرطبی ج 15 ص 24) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) کیا ان مکذبین رسالت نے اس امر پر نظر نہیں کی اور انہوں نے نہیں معلوم کیا کہ ہم ان سے پہلے کتنی امتیں اور کتنے طبقات کو ہلاک کرچکے ہیں کہ وہ ہلاک شدگان پھر ان کے پاس لوٹ کر نہیں آتے اور ان ہلاک شدگان کو ان کے پاس لوٹ کر آنا نصیب نہیں ہوا۔ یعنی ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہم اسی بنا پر تباہ و برباد کرچکے ہیں کہ انہوں نے اپنے زمانے کے رسولوں کو جھٹلایا اور جو احکام وہ لے کر آئے ان کو نہیں مانا اور اپنی ضد اور ہٹ پر قائم رہے۔ بالآخر ان کو اس طرح ہلاک کیا کہ ان کو پھر لوٹ کر آنا ہی نصیب نہ ہوا۔ یہ واقعات اول تو مشہور بہت ہیں پھر ان کی تباہ شدہ بستیوں اور آبادیوں کے نشانات اب تک موجود ہیں ان واقعات گزشتہ پر اگر غور کرتے تو انبیاء کی تکذیب سے باز آجاتے اور رسولوں کو جھٹلانا چھوڑ دیتے لیکن انہوں نے ان واقعات سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی یہ تو ان کے ساتھ دنیا میں سلوک ہوا۔ اب آگے جو ہوگا اس کا اظہار فرماتے ہیں۔