Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 32

سورة يس

وَ اِنۡ کُلٌّ لَّمَّا جَمِیۡعٌ لَّدَیۡنَا مُحۡضَرُوۡنَ ﴿٪۳۲﴾  1

And indeed, all of them will yet be brought present before Us.

اور نہیں ہے کوئی جماعت مگر یہ کہ وہ جمع ہو کر ہمارے سامنے حاضر کی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And surely, all -- everyone of them will be brought before Us. means, all of the past nations and those that are yet to come, will be gathered and brought to account before Allah, may He be glorified and exalted, on the Day of Judgement, and they will be requited according to their good and evil deeds. This is like the Ayah: وَإِنَّ كُـلًّ لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ And verily, to each of them your Lord will repay their works in full. (11:111)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 مطلب یہ ہے کہ تمام لوگ گذشتہ بھی اور آئندہ آنے والے بھی، سب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونگیں جہاں ان کا حساب کتاب ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيْعٌ : یہ ” اِنْ “ نافیہ ہے اور ” لَّمَّا “ بمعنی ”إِلَّا “ ہے۔ یعنی جو لوگ پہلے گزر چکے یا موجود ہیں یا آئندہ ہوں گے، وہ سب ہمارے پاس اکٹھے حاضر کیے جانے والے ہیں۔ ” مُحْـضَرُوْنَ “ اسم مفعول ہے، یعنی وہ چاہیں یا نہ چاہیں، اپنے خیال میں جتنے بڑے ہوں، ہر حال میں سب ہمارے پاس اکٹھے حاضر کیے جانے والے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ كُلٌّ لَّمَّا جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْـضَرُوْنَ۝ ٣ ٢ۧ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے لدن لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل . قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] ( ل دن ) لدن ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف/ 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔ حضر الحَضَر : خلاف البدو، والحَضَارة والحِضَارَة : السکون بالحضر، کالبداوة والبداوة، ثمّ جعل ذلک اسما لشهادة مکان أو إنسان أو غيره، فقال تعالی: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] ، نحو : حَتَّى إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ الأنعام/ 61] ، وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] ، وقال تعالی: وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] ، وقال : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] ، وذلک من باب الکناية، أي : أن يحضرني الجن، وكني عن المجنون بالمحتضر وعمّن حضره الموت بذلک، وذلک لما نبّه عليه قوله عزّ وجل : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] ، وقوله تعالی: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آياتِ رَبِّكَ [ الأنعام/ 158] ، وقال تعالی: ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] ، أي : مشاهدا معاینا في حکم الحاضر عنده، وقوله عزّ وجلّ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] ، أي : قربه، وقوله : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] ، أي : نقدا، وقوله تعالی: وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] ، وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] ، شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، أي : يحضره أصحابه، والحُضْر : خصّ بما يحضر به الفرس إذا طلب جريه، يقال : أَحْضَرَ الفرس، واستحضرته : طلبت ما عنده من الحضر، وحاضرته مُحَاضَرَة وحِضَارا : إذا حاججته، من الحضور، كأنه يحضر کلّ واحد حجّته، أو من الحضر کقولک : جاریته، والحضیرة : جماعة من الناس يحضر بهم الغزو، وعبّر به عن حضور الماء، والمَحْضَر يكون مصدر حضرت، وموضع الحضور . ( ح ض ر ) الحضر یہ البدو کی ضد ہے اور الحضارۃ حاد کو فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ آتا ہے جیسا کہ بداوۃ وبداوۃ اس کے اصل شہر میں اقامت کے ہیں ۔ پھر کسی جگہ پر یا انسان وگیرہ کے پاس موجود ہونے پر حضارۃ کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ البقرة/ 180] تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے ۔ وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ [ النساء/ 8] اور جب تم میراث کی تقسیم کے وقت ۔۔۔ آمو جود ہوں ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبائع میں بخل ودیعت کردیا گیا ہے ۔ عَلِمَتْ نَفْسٌ ما أَحْضَرَتْ [ التکوير/ 14] تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے اور آیت کریمہ : وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ [ المؤمنون/ 98] میں کنایہ کہ اے پروردگار میں پناہ مانگتا ہوں کہ جن و شیاطین میرے پاس آھاضر ہوں ۔ اور بطور کنایہ مجنون اور قریب المرگ شخص کو محتضر کہا جاتا ہے جیسا کہ آیت : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق/ 16] اور آیت کریمہ : یوم یاتی بعض ایات ربک میں اس معنی پر متنبہ کیا گیا ہے اور آیت کریمہ ۔ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً [ آل عمران/ 30] کے معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیکی بھی کرے گا ۔ قیامت کے دن اس کا اس طرح مشاہدہ اور معاینہ کرلے گا جیسا کہ کوئی شخص سامنے آموجود ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَسْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كانَتْ حاضِرَةَ الْبَحْرِ [ الأعراف/ 163] اور ان سے اس گاؤں کا حال پوچھ جواب دریا پر واقع تھا ۔ میں حاضرۃ البحر کے معنی دریا کے قریب یعنی ساحل کے ہیں اور آیت کریمہ : تِجارَةً حاضِرَةً [ البقرة/ 282] میں حاضرۃ کے معنی نقد کے ہیں ۔ نیز فرمایا : وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنا مُحْضَرُونَ [يس/ 32] اور سب کے سب ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے ۔ وفِي الْعَذابِ مُحْضَرُونَ [ سبأ/ 38] وی عذاب میں ڈالے جائیں گے ۔ اور آیت کریمہ : شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ، ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہئے میں بانی کی باری کے محتضر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ باڑی والے اس گھاٹ پر موجود ہوں ۔ الحضر ۔ خاص کر گھوڑے کی تیز دوڑے کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے : احضر الفرس گھوڑا دوڑا استحضرتُ الفرس میں نے گھوڑے کو سرپٹ دوڑایا ۔ حاضرتہ محاضرۃ وحضارا باہم جھگڑنا ۔ مباحثہ کرنا ۔ یہ یا تو حضور سے ہے گویا ہر فریق اپنی دلیل حاضر کرتا ہے اور یا حضر سے ہے جس کے معنی تیز دوڑ کے ہوتے ہیں جیسا کہ ۔۔۔۔۔۔ جاریتہ کہا جاتا ہے ۔ الحضیرۃ ُ لوگوں کی جماعت جو جنگ میں حاضر کی جائے اور کبھی اس سے پانی پر حاضر ہونے والے لوگ بھی مراہ لئے جاتے ہیں ۔ المحضرُ ( اسم مکان ) حاضر ہونے کی جگہ اور حضرت ُ ( فعل ) کا مصدر بھی بن سکتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور یہ سب قرن اور بستیوں والے حساب کے لیے ہمارے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ { وَاِنْ کُلٌّ لَّمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ } ” اور وہ سب کے سب ہمارے ہی سامنے حاضر کیے جائیں گے۔ “ اگرچہ دنیا میں واپس آنے کی تو انہیں اجازت نہیں مگر وہ معدوم نہیں ہوئے۔ عالم برزخ میں وہ سب کے سب اب بھی موجود ہیں اور وقت آنے پر ان میں سے ایک ایک کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کردیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:32) وان کل لما جمیع لدینا محضرون۔ ان نافیہ ہے کل مبتدا ہے اس کی تنوین مضاف الیہ کے عوض ہے اصل میں کلہم تھا۔ (ہم سے مراد القرون ہے جن کی ہلاکت کا ابھی ذکر ہوا) لما بمعنی الا ہے جمیع بروزن فعیل بمعنی مفعول ہے ای مجموعون اور یہ خبر ہے لدینا مضاف مضاف الیہ مل کر ظرف مکان ہے۔ محضرون خبر ثانی۔ آیت کا مطلب ہوگا : وما کلہم الا مجموعون لدینا محضرون (للحساب والجزائ) لیکن وہ سب کے سب اکٹھے کر کے ہمارے حضور حاضر کئے جائیں گے (حساب وجزا کے لئے) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَاِِنْ کُلٌّ لَمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ ) (اور یہ سب لوگ مجتمع طور پر ہمارے رو برو حاضر کیے جائیں گے) یعنی جو لوگ کفر کی وجہ سے ہلاک کیے گئے ان کا جو دنیا میں ہلاک کیا جانا اور عذاب دیا جانا ہے اسی پر بس نہیں ہے مزید عذاب آخرت میں دیا جائے گا جو دائمی ہوگا جو لوگ بھی ہلاک کیے جائیں گے وہ سب مجتمع طور پر ہمارے رو برو حاضر ہوں گے، حجتیں قائم ہوں گی پھر دائمی عذاب کی جگہ یعنی دوزخ میں جائیں گے۔ فوائد مستنبطہ از قصہ مذکورہ تین حضرات مذکورہ بستی میں دعوت اور تبلیغ کے کام کے لیے گئے ان کے بارے میں بیان فرمایا کہ پہلے دو حضرات کو بھیجا تھا پھر تیسرا شخص بھی ان کی تقویت کے لیے بھیج دیا، اس سے جماعتی طور پر دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کا ایک طریقہ معلوم ہوا، یوں تو ایک شخص تنہا بھی اپنی بساط کے موافق جتنا چاہے کرسکتا ہے اور بعض مرتبہ مخاطبین کی بدسلوکی کی وجہ سے اسے بہت زیادہ ثواب بھی مل سکتا ہے لیکن جماعت بن کر لوگوں کے پاس جانے اور انہیں حق کی تبلیغ کرنے اور ایمان اور ایمانیات کی دعوت دینے کے لیے نکل کر لوگوں کے پاس پہنچنے سے بعض مرتبہ نفع زیادہ ہوتا ہے اور فی نفسہٖ یہ طریقہ بہت مفید ہے۔ قصہ بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو حضرات دینی دعوت کے لیے کہیں جائیں تو مقامی لوگوں کو بھی ان کی تائید میں کھڑا ہونا چاہیے جیسا کہ مذکورہ بستی کے دور دراز حصہ سے آکر ایک شخص نے اصحاب ثلاثہ کی تائید کی، اس سے دعوت دینے والے حضرات کو تقویت ہوتی ہے۔ ان حضرت کے قصہ سے دو باتیں اور مزید معلوم ہوئیں، اول یہ کہ دور دراز سے جو شخص آیا اس نے خطاب کی ابتداء کرتے ہوئے یا قوم کہا پھر یوں کہا (اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا یَسْءَلُکُمْ اَجْرًا) (کہ اے میری قوم تم ان لوگوں کا اتباع کرو جو کسی معاوضہ یا اجرت کا سوال نہیں کرتے) (وَّ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ ) (اور وہ لوگ خود بھی ہدایت پر ہیں) معلوم ہوا کہ جو لوگ دعوت کا کام کہیں لے کر جائیں وہ بغیر کسی دنیاوی غرض کے دعوت کے کام کے لیے نکلیں اور جن لوگوں کے پاس پہنچیں ان سے کسی قسم کا ذرا سا بھی کوئی لالچ نہ رکھیں نہ دعوت و ضیافت کا نہ روٹی پانی کا نہ بوریا اور بستر کا، اپنا خرچہ خود ہی کریں۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا یہ خاص وصف تھا کہ وہ اپنے دعوت کے کام کا ثواب صرف اللہ تعالیٰ سے چاہتے تھے مخاطبین سے ذرا سی بھی نہ امید رکھتے تھے نہ ان سے کچھ طلب کرتے تھے، ان حضرات کا فرمانا تھا : (وَمَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ الاَّ عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) (اور میں تم سے توحید کی دعوت پر کوئی اجرت طلب نہیں کرتا میرا اجر صرف اللہ کے ذمہ ہے) سورة سبا میں ہے (قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ الاَّ عَلَی اللّٰہِ ) (آپ فرما دیجیے کہ میں نے جو کچھ کوئی عوض تم سے طلب کیا ہو تو وہ تمہارے ہی لیے ہے میرا اجر صرف اللہ پر ہے) سورة ص کے آخر میں فرمایا (قُلْ وَمَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ ) (آپ فرما دیجیے کہ میں تم سے اپنے دعوت کے کام پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا اور میں بناوٹ کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ ) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو لوگ ہدایت کی دعوت دیں وہ خود بھی ہدایت یافتہ ہوں، اگر خود بھی ہدایت پر ہوں گے تو مخاطبین ان کی بات کا اثر جلدی لیں گے اور ان میں سے کوئی شخص یوں نہ کہہ سکے گا کہ نکلے ہو دوسروں کو بتانے اور دینی اعتبار سے تمہارا اپنا حال پتلا ہے۔ داعی حق کو مخاطبین سے بات کرنے کا اسلوب بھی ایسا اختیار کرنا چاہیے جسے ان کے کان خوشی سے سن لیں اور قلوب گوارا کرلیں۔ مذکورہ بالا بستی کا جو شخص دور سے دوڑا ہوا آیا تھا ایک تو بستی والوں کو (یَاقَوْم) کہہ کر اپنایا اور یہ بتایا کہ تم اور میں ایک ہی قوم کے افراد ہیں ان کے ذہنوں کو قریب کرنے کے لیے یہ بتایا کہ میں تمہی میں سے ہوں۔ پھر یہ صاحب جب اصحاب ثلاثہ (تینوں فرستادوں) کی تائید سے فارغ ہوئے تو اپنے اوپر رکھ کر یوں کہا (وَمَا لِیَ لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ ) (اور کیا ہوا کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا فرمایا) وہ شخص خود تو ہدایت پر تھا، موحد تھا اور جو مخاطب تھے وہ مشرک تھے، لیکن بات کرنے میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا کہ مجھے کیا ہوا جو میں اپنے خالق کی عبادت نہ کروں، حالانکہ بظاہر یوں کہنا چاہیے تھا۔ (وَمَا لَکُمْ لاَ تَعْبُدُوْنَ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ ) کہ تمہیں کیا ہوا کہ اس ذات کی عبادت نہیں کرتے جس نے تمہیں پیدا کیا، خطاب ان سے کیا بات اپنے اوپر رکھی اور توحید کی دلیل بھی بتادی اور شرک کی تردید بھی کردی کہ جس نے پیدا کیا ہے صرف وہی مستحق عبادت ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے کیونکہ اس کی صفت خالقیت میں کوئی بھی شریک نہیں اور چونکہ اصل تبلیغ مخاطبین ہی کو کرنی تھی اس لیے آخر میں (وَاِلَیْہِ ارجع) نہیں کہا (کہ میں اس کی طرف لوٹایا جاؤں گا) بلکہ (وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ) کہا کہ تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے، اب تم سمجھ لو کہ تمہارا کیا حال بنے گا، شرک کی پاداش میں سزا بھگتنا ہے تو تم جانو۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے صاحب موصوف نے کہا (اِنِّیْ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ) (اگر میں اپنے خالق کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے لگوں تو کھلی ہوئی گمراہی میں پڑجاؤں گا) یہ بات بھی اپنے اوپر رکھ کر کہی اور مخاطبین کو بتادیا کہ دیکھو تم مشرک ہو اور کھلی ہوئی گمراہی میں ہو۔ آخر میں کہا (اِنِّیْ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ ) (بلاشبہ میں تو تمہارے رب پر ایمان لے آیا سو تم میری بات سنو) اس میں اپنے ایمان کا واضح طور پر اعلان کردیا اور اس میں بھی ان کو ایمان کی دعوت دے دی (اٰمَنْتُ بِرَبِّیْ ) کے بجائے (اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ ) کہا اور یہ بتادیا کہ جو تمہارا پروردگار ہے اسی پر ایمان لانا اور اسی کی عبادت کرنا لازم ہے پرورش تو کرے خالق اور مالک جس میں اس کا کوئی شریک نہیں اور عبادت دوسروں کی کی جائے یہ تو ہلاکت اور ضلالت کی بات ہے۔ بات یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے دعوت و ارشاد کا کام کرتے ہیں، ناصح اور امین ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب میں اس کا طریقہ ڈال دیتے ہیں اور ان کی زبانیں حسن اسلوب، حسن اداء اور عمدہ سلیقہ سے متصف ہوجاتی ہیں۔ (ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ وان کل الخ، مرنے کے بعد نیا میں تو کوئی واپس نہیں آئے گا۔ البتہ ان سب کو قیامت کے دن ہم دوبارہ زندہ کرینگے اور یہ سب حساب کتاب کے لیے ہمارے سامنے پیش کیے جائینگے یہ تخویف اخروی کی طرف اشارہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) اور ان سب میں کوئی ایسا نہیں جو اجتماعی طور پر ہمارے روبرو حاضر نہ کیا جائے۔ یعنی تمام خلائق حشر میں ہمارے روبرو حاضر کئے جائیں گے اور سب اکٹھے ہو کر پیش کئے جائیں گے۔ اجتماعی طور پر مجرمانہ حیثیت سے گرفتار ہو کر ہمارے روبرو حاضر ہوں گے یعنی گناہگاروں کی کیفیت یہ ہوگی احضار کا مطلب یہی ہے کہ گرفتار ہو کر پیش ہوں۔ شاہ صاحب (رح) نے اسی رعایت سے ترجمہ یوں کیا ہے اور حاضر کئے جائیں گے ہمارے پاس پکڑے۔