Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 5

سورة يس

تَنۡزِیۡلَ الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۵﴾

[This is] a revelation of the Exalted in Might, the Merciful,

یہ قرآن اللہ زبردست مہربان کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Sent down by the Almighty, the Most Merciful. means, this path which you have brought is a revelation from the Lord of might Who is Most Merciful to His believing servants. This is like the Ayah: وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ صِرَطِ اللَّهِ الَّذِى لَهُ مَا فِى السَّمَـوَتِ وَمَا فِى الاٌّرْضِ أَلاَ إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الاٍّمُورُ And verily, you are indeed guiding (mankind) to the straight path. The path of Allah to Whom belongs all that is in the heavens and all that is on the earth. Verily, to Allah all matters return. (42:52-53) لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ ابَاوُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو عزیز ہے یعنی اس کا انکار اور اس کے رسول کو جھوٹا کرنے والے سے انتقام لینے پر قادر ہے رحیم ہے۔ یعنی جو اس پر ایمان لائے گا اور اس کا بندہ بن کر رہے گا اس کے لئے نہایت مہربان۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤] یعنی اس قرآن حکیم کو نازل کرنے والا کوئی کمزور قسم کا ناصح نہیں ہے جس نے کچھ احکام اور نصائح بھیج دیئے ہوں۔ جسے اگر تم قبول کرلو تو اچھا ہے اور اگر نظر انداز کردو تو بھی تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بلکہ اس کا نازل کرنے والا فرمانروائے کائنات ہے جو سب پر غالب ہے۔ اور اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ رحیم اس لحاظ سے ہے کہ اس نے تمہاری رہنمائی کے لئے یہ قرآن اور یہ نبی بھیج کر تم پر بہت مہربانی فرمائی ہے۔ تاکہ تم لوگ گمراہیوں سے بچ کر دنیا و آخرت کی فلاح سے ہمکنار ہوسکو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْم : یعنی یہ کسی بےاختیار اور بےبس شخص کا کلام نہیں جس کے جھٹلانے کی کوئی پروا نہ ہو، بلکہ اس اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے جو سب پر غالب ہے، اس کے مقابلے میں نہ کوئی اپنا کلام لاسکتا ہے نہ اس کے کلام کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک سکتی ہے اور نہ اسے جھٹلا کر کوئی اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی وہ بیحد رحم والا بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت کے لیے رسول بھیجا، کتاب نازل فرمائی، پھر تمہیں مہلت دی اور جھٹلانے پر فوراً نہیں پکڑا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَنْزِيْلَ الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ۝ ٥ ۙ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٦) اور یہ قرآن حکیم خدائے زبردست و مہربان کا کلام ہے۔ تاکہ آپ اس قرآن حکیم کے ذریعے سے قریش کو ڈرائیں جن کے آباؤ اجداد آپ سے پہلے قریب کے کسی رسول کے ذریعے نہیں ڈرائے گئے سو اسی کی وجہ سے یہ آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ { تَنْزِیْلَ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ } ” (اور اس قرآن کا) نازل کیا جانا ہے اس ہستی کی جانب سے جو بہت زبردست ‘ نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 Here, two of the attributes of the Sender of the Qur'an have been mentioned. First, that He is All-Mighty; second, that He, is All-Merciful. The first attribute is meant to impress the reality that the Qur'an is not the counsel of a powerless preacher, which if you overlook or ignore, will not bring any harm to you; but this is the Edict of that Owner of the Universe, Who is All-Mighty, Whose decrees cannot be withheld from being enforced by any power, and Whose grasp cannot be avoided by anyone. The second attribute is meant to make one realize that it is all due to His kindness and mercy that He has sent His Messenger for your guidance and instruction and sent down this great Book so that you may avoid errors and follow the right path which may lead you to the successes of the world and the Hereafter.

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :3 یہاں قرآن کے نازل کرنے والے کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ غالب اور زبردست ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ رحیم ہے ۔ پہلی صفت بیان کرنے سے مقصود اس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ یہ قرآن کسی بے زور ناصح کی نصیحت نہیں ہے جسے تم نظر انداز کر دو تو تمہارا کچھ نہ بگڑے ، بلکہ یہ اس مالک کائنات کا فرمان ہے جو سب پر غالب ہے ، جس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، اور جس کی پکڑ سے بچ جانے کی قدرت کسی کو حاصل نہیں ہے ۔ اور دوسری صفت بیان کرنے سے مقصود یہ احساس دلانا ہے کہ یہ سراسر اس کی مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت و رہنمائی کے لیے اپنا رسول بھیجا اور یہ کتاب عظیم نازل کی تاکہ تم گمراہیوں سے بچ کر اس راہ راست پر چل سکو جس سے تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں حاصل ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥ تا ١١۔ اوپر قرآن شریف کی قسم کھا کر یہ اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ جس قرآن کی قسم کھائی ہے وہ قرآن ایسے اللہ کا اتارا ہوا ہے جو قرآن کے جھٹلانے والوں کو سزا دینے میں بڑا زبردست اور قرآن کے ماننے والوں کے حق میں بڑا صاحب رحم ہے پھر قرآن کے نازل کرنے کا سبب بیان فرمایا کہ قرآن ایسے لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرانے کے لیے اتارا گیا ہے کہ جن میں بہت مدت سے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اس واسطے ان میں موروثی غفلت چلی آتی ہے پھر فرمایا دنیا کے پیدا ہونے سے پہلے جو لوگ اللہ کے علم میں نافرمان ٹھہر چکے ہیں وہ اس قرآن کو نہیں مانیں گے اس لیے اے رسول اللہ کے ایسے لوگوں کے حال پر تم کو کچھ افسوس نہ کرنا چاہئے اب آگے ان نافرمان لوگوں کی مثال بیان فرمائی کہ ان لوگوں کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کی گردن میں طوق ڈال دیا گیا ہو اور اس کا سر آسمان کی طرف اونچا ہو کر رہ جائے اور اس کو زمین پر کی کوئی چیز نظر نہ آوے ‘ گر دن میں طوق اس طرح ڈالا جاتا ہے کہ اس میں دونوں ہاتھ بھی جکڑدئے جاتے ہیں اس لیے جب طوق مع دونوں ہاتھوں کے ٹھوڑی تک ہوا تو ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے پھنس کر گردن اونچی ہوگئی اور آنکھیں آسمان کو لگ گئیں ‘ اس مطلب کو مقمحون کے لفط سے ادا فرمایا گیا ہے اقماح کے معنے سر اونچا کردینے کے ہیں اونٹ جب پانی پر جا کر گردن اونچی کرلیتا ہے اور بانی نہیں پیتا تو ایسے موقع پر عرب لوگ بعیر قامح بولتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کی دوسری مثال یہ بیان فرمائی کہ ان کے آگے پیچھے دیوار اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے یہ لوگ آگے پیچھے کی چیز تو درکنار دیوار پر کی چیز کو ہی نہیں دیکھ سکتے پھر فرمایا کہ ان لوگوں کی گمراہی کا جب یہ حال ہے تو قرآن کی آیتوں میں ان کے بھلے برے کو جو جتلایا گیا ہے اس کو یہ لوگ کسی طرح ماننے والے نہیں اس لیے ان کو عذاب آخرت سے ڈرانا اور نہ ڈرانا یکساں ہے ‘ معتبر سند سے ترمذی اور نسائی کے حوالہ ١ ؎ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے (١ ؎ مشکوۃ باب الاستغفار والتوبۃ مع تنیقح الرواۃ ص ٨٢ ج ٢) کہ گناہوں کی کثرت سے آدمی کے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے جس کے سبب سے اس کے دل پر نیک بات کا اثر نہیں ہوتا ‘ اس حدیث سے وسواء علیھمء انذر تھم ام لم تنذرھم لایومنون کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرانا اور نہ ڈرانا یکساں ہے علم الٰہی میں جن لوگوں کا راہ راست پر آنا قرار یا چکا ہے اب ان کا حال بیان فرمایا کہ اگرچہ انہوں نے بھی عذاب آخرت کو آنکھوں سے نہیں دیکھا (٢ ؎ مشکوۃ باب الاستغفار والتوبہ فصل اول) لیکن اللہ کے کلام کا یقین ان کے دل میں ایسا جم گیا ہے کہ بن دیکھے عذاب کا خوف بھی ان کو نافرمانی کے کاموں سے روکتا ہے اب اس خوف کا نتیجہ بیان فرمایا کہ ایسے لوگوں کے حق میں گناہوں کی معافی کا اور تھوڑی سی نیکی کے بڑے اجر کا اللہ کا وعدہ ہے اے رسول اللہ کے تم اللہ کا یہ وعدہ خوشخبری کے طور پر ایسے لوگوں کو سنا دو ١ ؎ صحیح مسلم میں ابوذر (رض) کی ایک بڑی حدیث قدسی ہے (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٦٥‘ ٥٦٦ ج ٣ و تفسیر الدر المنثور ص ٢٦٠ ج ٥) جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا توبہ استغفار کرنے والے لوگوں کے گناہ معاف کرنے کو اللہ تعالیٰ ہر وقت موجود ہی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی اوپر گزر چکی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت میں وہ نعمتیں رکھی ہیں جو نہ کسی نے دنیا میں آنکھوں سے دیکھیں نہ کانوں سے سنیں نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے ‘ یہ حدیثیں فبشرہ بمغفرۃ واجر کریم کی گویا تفسیر ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:5) تنزیل العزیز الرحیم۔ تنزیل فعل محذوف کا مفعول مطلق (مصدر) ہے ای نزل العزیز الرحیم تنزیلا (مولانا اشرف علی تھانوی ) ای نزل اللہ ذلک تنزیلا (قرطبی) نزل اللہ ذلک تنزیل العزیز الرحیم (شو کافی) خدائے غالب و زبردست اور نہایت مہربان کی اسی تنزیل کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ ای ھذا منزل من اللہ۔ ضمیر مفعول کا مرجع القرآن ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو کفار آپ کے مخالف ہوگئے۔ ان کی مخالفت کا سبب بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں کفار کا پروپیگنڈہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی ہرزہ سرائی کرتے تھے کہ سردار عبد المطلب کا پوتا راہ راست سے بھٹک چکا ہے۔ ان الزامات کی تردید کے لیے آپ کو سردار کے لقب سے پکارتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا حلف دے کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ کو اس لیے صاحب قرآن رسول بنا کر بھیجا تاکہ ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کے انجام سے ڈرائیں جن کے باپ دادا کو متنبّہ نہیں کیا گیا تھا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر آپ کے رب کا فرمان سچ ثابت ہوا کہ ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے ماضی، حال اور مستقبل کا علم ہے اس لیے یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے واضح کردی گئی کہ آپ کا کام لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنا ہے منوانا نہیں۔ جہاں تک ان کے فکر و عمل کا معاملہ ہے ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی اور یہی کچھ ہوا کہ نبوت کے آغاز میں مکہ کے جو سردار آپ کی مخالفت میں پیش پیش تھے آخر دم تک ان کی اکثریت ایمان کی دولت سے محروم رہی اور اسی حالت میں نبوت کے چودھویں سال بدر کے میدان میں قتل کردئیے گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے لوگوں کو ڈرانے والا کوئی رسول نہیں آیا تو پھر وہ ان کے باپ دادا مجرم کیسے ٹھہرے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل مکہ اور اس کے قرب و جوار میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول نہیں آیا لیکن بیت اللہ کی برکت اور اس کی مرکزیت کی وجہ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) کے بعد جو رسول عرب میں مبعوث کیے گئے ان کی تعلیم یقیناً اہل مکہ تک پہنچتی رہی جس میں ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود اہل مکہ نے ملت ابراہیم (علیہ السلام) سے تغافل اختیار کیے رکھا۔ اسی بنا پر یہ الفاظ استعمال ہوئے کہ اہل مکہ کو ان کے برے انجام سے آگاہ کیا جائے کیونکہ ایک مدت بیت چکی ہے کہ ان کے پاس براہ راست ڈرانے والا نہیں آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بارے میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی دعا۔ (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) [ البقرۃ : ١٢٩] ” اے ہمارے رب ! ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کے سامنے تیری آیات پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے۔ اور وہ انہیں پاک کرے یقیناً تو غالب حکمت والا ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو غفلت سے بیدا کرنا ہے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی۔ تفسیر بالقرآن نزول قرآن کا مقصد : ١۔ قرآن مجید شک و شبہ سے بالا تر کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن کریم برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٢۔ قرآن مجید ایمان والوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (النحل : ٦٤) ٤۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٥۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے باعث رحمت اور شفا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٦۔ قرآن حمید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) لوگوں کی اکثریت کا حال : ١۔ اکثر لوگ حقیقت نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ لوگوں کی اکثریت شکر نہیں کرتی۔ (یوسف : ٣٨) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چاہنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ (یوسف : ١٠٣) ٤۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ھود : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تنزیل العزیز الرحیم (36: 5) ” یہ غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے “۔ ایسے مقامات پر اللہ اپنے بندوں سے اپنے آپ کو متعارف فرماتا ہے تاکہ وہ اللہ کے کلام کی حقیقت کو سمجھیں کہ اللہ غالب ہے اور رحیم ہے۔ وہ غالب ہے لہٰذا جو چاہے کرسکتا ہے۔ اور رحیم ہے ، اس لیے اپنے بندوں کے ساتھ رحیمانہ برتاؤ کرتا ہے۔ اس لیے اللہ کے احکام میں رحمت کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس قرآن کے نزول کے مقاصد کیا ہیں اور اس کی حکمت کیا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو انجام بد د سے ڈرایا جائے اور ان تک سچائی کا پیغام پہنچایا جائے۔ خصوصاً لتنذر قوما۔۔۔۔ فھم غفلون (36: 6) ” تاکہ تم خبردار کرو ایسی قوم کو جس کے باپ دادا خبر دار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں “۔ غفلت وہ بڑی بیماری ہے جس کی وجہ سے دلوں میں فساد پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک غافل دل دراصل اپنے فریضہ منصبی کو چھوڑ دیتا ہے ، اس لیے وہ ایک عضو معطل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ ہدایت اخذ کرنا اور اسے قبول کرنا یہ دل کا کام ہے۔ جب انسانوں کے سامنے دلائل ہدایت پیش کیے جاتے ہیں تو انسانی دل یا تو ان پر غافل ہوکر گزر جاتا ہے اور یا ان دلائل کو اخذ کرلیتا ہے۔ لہٰذا ان غافل لوگوں کو ڈرانا مفید تھا۔ کیونکہ نسلیں گزر گئی تھیں اور اس قوم کے پاس کوئی درانے والا نہ آیا تھا۔ نہ کوئی ایسا شخص آیا تھا جو ان کو متنبہ کرتا۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امت اور اولاد میں سے تھے۔ اور ان کے بعد صدیاں گزر گئی تھیں۔ اور ان کے پاس کوئی نبی اور نذیر نہ آیا تھ۔ لہٰذا ایسا ڈرانے والا ان کی ضرورت تھا ، جو ان کو خوب غفلت سے بیدار کر دے کیونکہ آباؤ اجداد کے وقت سے یہ لوگ خواب غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ ان غوفلوں کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ اللہ کے نظام قضاء قدر نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کردیا ہے کیونکہ اللہ کو ان کے قلوب کے بارے میں خوب علم تھا۔ وہ ان سے سرزد ہونے والے امور کو پہلے سے جانتا تھا ۔ انہوں نے جو کیا وہ بھی اللہ کے علم میں تھا اور جو ہونے والا تھا ، وہ بھی اس کے علم میں تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا جو نہایت زبردست نہایت رحم والا ہے۔ کمال قوت کا مالک ہے اس لئے جو احکام چاہے نازل کرسکتا ہے کوئی روکنے والا نہیں اور نہایت مہربان ہے اس ل ئے بندوں کو وہی حکم دیتا ہے اور بندوں کیلئے وہی احکام نازل فرماتا ہے جو بندوں کے دین اور دنیا کے لئے موجب فلاح اور موجب بہبود ہوتے ہیں۔