Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 55

سورة يس

اِنَّ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ الۡیَوۡمَ فِیۡ شُغُلٍ فٰکِہُوۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾

Indeed the companions of Paradise, that Day, will be amused in [joyful] occupation -

جنتی لوگ آج کے دن اپنے ( دلچسپ ) مشغلوں میں ہشاش بشاش ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Life of the People of Paradise Allah tells, إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ ... Verily, the dwellers of the Paradise, that Day, Allah tells us that on the Day of Resurrection, when the people of Paradise have reached the arena of judgement, and have settled in the gardens of Paradise, they will be too preoccupied with their own victory and new life of eternal delights to worry about anyone else. Al-Hasan Al-Basri and Isma`il bin Abi Khalid said, "They will be too busy to think about the torment which the people of Hell are suffering. ... فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ will be busy with joyful things. Mujahid said: "With the delights which they are enjoying." This was also the view of Qatadah. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "This means that they will be rejoicing."

جنت کے مناظر ۔ جنتی لوگ میدان قیامت سے فارغ ہو کر جنتوں میں بہ صدا اکرام و بہ ہزار تعظیم پہنچائے جائیں گے اور وہاں کی گوناں گوں نعمتوں اور راحتوں میں اس طرح مشغول ہوں گے کہ کسی دوسری جانب نہ التفات ہو گا نہ کسی اور طرف کا خیال ، یہ جہنم سے جہنم والوں سے بےفکر ہوں گے ۔ اپنی لذتوں اور مزے میں منہمک ہوں گے ۔ اس قدر مسرور ہوں گے کہ ہر ایک چیز سے بےخبر ہو جائیں گے نہایت ہشاش بشاش ہوں گے ، کنواری حوریں انہیں ملی ہوئی ہوں گی ، جن سے وہ لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ، طرح طرح کی راگ راگنیاں اور خوش کن آوازیں دلریبی سے ان کے دلوں کو لبھا رہی ہوں گیں ۔ ان کے ساتھ ہی اس لطف و سرور میں ان کی بیویاں اور ان کی حوریں بھی شامل ہوں گی ۔ جنتی میوے دار درختوں کے ٹھنڈے اور گھنے سایوں میں بہ آرام تختوں پر تکیوں سے لگے بےغمی اور بےفکری کے ساتھ اللہ کی مہمانداری سے مزے اٹھا رہے ہوں گے ۔ ہر قسم کے میوے بکثرت ان کے پاس موجود ہوں گے اور بھی جس چیز کو جی چاہے جو خواہش ہو پوری ہو جائے گی ۔ سنن ابن ماجہ کی کتاب الزہد میں اور ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی اس جنت میں جانے کا خواہش مند اور اس کے لئے تیاریاں کرنے والا اور مستعدی ظاہر کرنے والا ہے؟ جس میں کوئی خوف و خطر نہیں ، رب کعبہ کی قسم وہ سرا سر نور ہی نور ہے اس کی تازگیاں بیحد ہیں ۔ اس کا سبزہ لہلہا رہا ہے اس کے بالا خانے مضبوط بلند اور پختہ ہیں اس کی نہریں بھری ہوئی اور بہ رہی ہیں ۔ اس کے پھل ذائقے دار ، پکے ہوئے اور بکثرت ہیں ۔ اس میں خوبصورت نوجوان حوریں ہیں اور ان کے لباس ریشمی اور بیش قیمت ہیں ، اس کی نعمتیں ابدی اور لازوال ہیں ، وہ سلامتی کا گھر ہے ، وہ سبز اور تازے پھلوں کا باغ ہے ، اس کی نعمتیں بہ کثرت اور عمدہ ہیں اور اس کے محلات بلند و بالا اور مزین ہیں ۔ یہ سن کر جتنے صحابہ تھے سب نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم اس کے لئے تیاری کرنے اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں ، آپ نے فرمایا ان شاء اللہ کہو چنانچہ انہوں نے کہا ان شاء اللہ ۔ اللہ کی طرف سے ان پر سلام ہی سلام ہے ۔ خود اللہ کا اہل جنت کے لئے سلام ہے ، جیسے فرمایا ( تَحِيَّتُهُمْ يَوْمَ يَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ ڻ وَاَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِيْمًا 44؀ ) 33- الأحزاب:44 ) ( ترجمہ ) ان کا تحفہ جس روز وہ اللہ سے ملیں گے سلام ہو گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنتی اپنی نعمتوں میں مشغول ہوں گے کہ اوپر کی جانب سے ایک نور چمکے گا یہ اپنا سر اٹھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے اور رب فرمائے گا ( السلام علیکم یا اھل الجنۃ یہی معنی ہیں اس آیت سلام قولا الخ ، کے جنتی صاف طور سے اللہ کو دیکھیں گے اور اللہ انہیں دیکھے گا کسی نعمت کی طرف اس وقت وہ آنکھ بھی نہ اٹھائیں گے یہاں تک کہ حجاب حائل ہو جائے گا اور نور و برکت ان کے پاس باقی رہ جائے گی ، یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے لیکن سند کمزور ہے ابن ماجہ میں بھی کتاب السنہ میں یہ روایت موجود ہے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جب دوزخیوں اور جنتیوں سے فارغ ہو گا تو ابر کے سایہ میں متوجہ ہو گا فرشتے اس کے ساتھ ہوں گے جنتیوں کو سلام کرے گا اور جنتی جواب دیں گے ، قرظی فرماتے ہیں یہ اللہ کے فرمان سلام قولا میں موجود ہے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا مجھ سے مانگو جو چاہو ، یہ کہیں گے پروردگار سب کچھ تو موجود ہے کیا مانگیں؟ اللہ فرمائے گا ہاں ٹھیک ہے پھر بھی جو جی میں آئے طلب کرو ، وہ کہیں گے بس تیری رضامندی مطلوب ہے ، اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ تو میں تمہیں دے چکا اور اسی کی بنا پر تم میرے اس مہمان خانے میں آئے اور میں نے تمہیں اس کا مالک بنا دیا ، جنتی کہیں گے پھر اللہ ہم تجھ سے کیا مانگیں؟ تو نے تو ہمیں اتنا دے رکھا ہے کہ اگر تو حکم دے تو ہم میں سے ایک شخص کل انسانوں اور جنوں کی دعوت کر سکتا ہے اور انہیں پیٹ بھر کر کھلا پلا اور پہنا اڑھا سکتا ہے ۔ بلکہ ان کی سب ضروریات پوری کر سکتا ہے اور پھر بھی اس کی ملکیت میں کوئی کمی نہیں آ سکتی ۔ اللہ فرمائے گا ابھی میرے پاس اور زیادتی ہے چنانچہ فرشتے ان کے پاس اللہ کی طرف سے نئے نئے تحفے لائیں گے ۔ امام ابن جریر اس روایت کو بہت سی سندوں سے لائے ہیں لیکن یہ روایت غریب ہے ، واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

55۔ 1 فَاکِھُونَ کے معنی ہیں فَرِحُون خوش مسرت کے ساتھ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ : یہ ذکر کرنے کے بعد کہ ہر ایک کو اس کے عمل ہی کی جزا ملے گی، پہلے اہل جنت کی جزا ذکر فرمائی کہ آج کے دن وہ ایک عظیم مشغولیت میں خوش ہوں گے۔ ” شُغُلٍ “ کا معنی ایسا کام ہے جو انسان کو دوسرے کاموں سے روک دے۔ اس میں تنوین تعظیم کی ہے، مراد یہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں سے اور جنت کی دوسری نعمتوں سے لذت اٹھانے میں ایسے مگن ہوں گے کہ انھیں کسی اور چیز کا خیال تک نہیں آئے گا، کیونکہ جنت کی وہ نعمتیں ایسی ہوں گی جو انسان کے وہم و گمان سے بھی بالا ہیں۔ دیکھیے سورة سجدہ (١٧) ” الْيَوْمَ “ (آج) کے لفظ سے معلوم ہوا کہ اہل جنت جلد ہی جنت میں چلے جائیں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then, in verse 55, it was said:إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ (The people of the Paradise are engaged today in (their) activities, happily enjoying [ them ]) - 36:55). After having mentioned the worries of the people of Jahannam, described here is the state of the people of Paradise on the day of Qiyamah that they will be enjoying themselves. The word: فَاكِهُونَ (fakihun) is the plural form of: فَاکِہُ (fakih). It signifies happiness of the heart as well as happiness out of one&s surroundings. As for the expression: فِي شُغُلٍ (fi shughul) appearing before it, it could also mean that they will be totally unaffected by the misfortunes afflicting the people of Jahannam (as said by some commentators). And then it is also possible that, at this place, this expression: فِي شُغُلٍ (fi shughul) has been added to remove the thought - when, in Jannah, there will be no religious duty like obligatory or necessary worship, nor the job of earning one&s livelihood, would this lack of activity not leave one uptight or bored? - hence, it was said that their enjoyment itself will be their principal activity, and the question of any boredom simply does not arise.

(آیت) ان اصحب الجنة الیوم فی شغل فاکھون، اصحاب جہنم کی پریشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد قیامت میں اصحاب جنت کا حال ذکر فرمایا کہ وہ اپنی تفریحات میں مشغول ہوں گے۔ فاکہوں فاکہ کی جمع ہے، خوش دل خوش حال کو کہا جاتا ہے، اور اس سے پہلے فی شغل کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اصحاب جہنم کو پیش آنے والی پریشانیوں سے بالکل بےغم ہوں گے۔ (کماقالہ بعض المفسرین) اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ یہ لفظ فی شغل اس خیال کے دفع کرنے کے لئے بڑھایا ہو کہ جنت میں جبکہ نہ کوئی عبادت ہوگی نہ کوئی فرض و واجب اور نہ کسب معاش کا کوئی کام، تو کیا اس بیکاری میں آدمی کا جی نہ گھبرائے گا ؟ اس لئے فرمایا کہ ان کو اپنی تفریحات ہی کا بڑا شغل ہوگا، جی گھبرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْيَوْمَ فِيْ شُغُلٍ فٰكِــہُوْنَ۝ ٥ ٥ۚ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ شغل الشَّغْلُ والشُّغْلُ : العارض الذي يذهل الإنسان . قال عزّ وجلّ : إِنَّ أَصْحابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فاكِهُونَ [يس/ 55] ، وقرئ : وقد شُغِلَ فهو مَشْغُولٌ ، ولا يقال : أَشْغَلَ وشُغُلٌ شَاغِلٌ. ( ش غ ل ) الشغل والشغل ۔ ا یسی مصروفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے کاموں کی طرف توجہ نہ دے سکے قرآن میں ہے َ فِي شُغُلٍ فاكِهُونَ [يس/ 55] عیش ونشاط کے مشغلے میں ہوں گے ۔ ایک قرات میں شغل ہے یہ شغل فھو مشغول ( باب مجرد ) سے آتا ہے اور اشغل استعمال نہیں ہوتا شغل شاغل مصروف رکھنے والا کام ۔ فكه الفَاكِهَةُ قيل : هي الثّمار کلها، وقیل : بل هي الثّمار ما عدا العنب والرّمّان . وقائل هذا كأنه نظر إلى اختصاصهما بالذّكر، وعطفهما علی الفاکهة . قال تعالی: وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] ، وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/ 32] ، وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] ، فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ، وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] ، والفُكَاهَةُ : حدیث ذوي الأنس، وقوله : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1» قيل : تتعاطون الفُكَاهَةَ ، وقیل : تتناولون الْفَاكِهَةَ. وکذلک قوله : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] . ( ف ک ہ ) الفاکھۃ ۔ بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہاجاتا ہے ۔ اور انہوں نے ان دونوں کو اس لئے مستثنی ٰ کیا ہے کہ ( قرآن پاک میں ) ان دونوں کی فاکہیہ پر عطف کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فاکہہ کے غیر ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے وَفاكِهَةٍ مِمَّا يَتَخَيَّرُونَ [ الواقعة/ 20] اور میوے جس طرح کے ان کو پسند ہوں ۔ وَفاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ [ الواقعة/اور میوہ ہائے کثیر ( کے باغوں ) میں ۔ وَفاكِهَةً وَأَبًّا [ عبس/ 31] اور میوے اور چارہ ۔ فَواكِهُ وَهُمْ مُكْرَمُونَ [ الصافات/ 42] ( یعنی میوے اور ان اعزاز کیا جائیگا ۔ وَفَواكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ المرسلات/ 42] اور میووں میں جوان کو مرغوب ہوں ۔ الفکاھۃ خوش طبعی کی باتیں خوش گئی ۔ اور آیت کریمہ : فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ«1»اور تم باتیں بناتے رہ جاؤ گے ۔ میں بعض نے تفکھونکے معنی خوش طبعی کی باتیں بنانا لکھے ہیں اور بعض نے فروٹ تناول کرنا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فاكِهِينَ بِما آتاهُمْ رَبُّهُمْ [ الطور/ 18] جو کچھ ان کے پروردگار نے ان کو بخشا اس کی وجہ سے خوش حال ۔۔۔ میں فاکھین کی تفسیر میں بھی دونوں قول منقول ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٥۔ ٥٦) اور جنتی قیامت کے دن دوزخیوں کا حال دیکھ کر اپنے مشغلوں میں جو ان کو کنواری لڑکیاں ملیں گی خوش دل ہوں گے اور وہ اپنی بیویوں میں درختوں کے سایہ میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٥ { اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰـکِہُوْنَ } ” یقینا اہل ِجنت اس دن مزے کرنے میں مشغول ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 To understand this one should remember that the righteous believers will not be withheld in the Plain of Resurrection, but in the very beginning they will be sent to Paradise without accountability, or after a mild reckoning, because their record will be clean. There will be no need to keep them waiting during the hearing by the Court. Therefore, Allah will tell the culprits, who will be required to render their accounts, in the Plain of Resurrection: "Look ! the righteous people whom you used to mock and regard as foolish in the world, are today enjoying the pleasures of Paradise because of their wisdom, and you, who in your own judgement were very prudent and sagacious, are being condemned to accountability for your misdeeds."

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :51 اس کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب ، یا ہلکی حساب فہمی کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا ، کیونکہ ان کا ریکارڈ صاف ہو گا ۔ انہیں دوران عدالت انتظار کی تکلیف دینے کی کوئی ضرورت نہ ہو گی ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والے مجرموں کو بتائے گا کہ دیکھو ، جن صالح لوگوں کو تم دنیا میں بے وقوف سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے ، وہ اپنی عقلمندی کی بدولت آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں ، اور تم جو اپنے آپ کو بڑا زیرک و فرزانہ سمجھ رہے تھے ، یہاں کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:55) الیوم۔ اس روز۔ قیامت کے دن۔ شغل واحد ہے اس کی جمع اشغال وشغول ہے۔ مشغلہ ایسی مصروفیت جس کی وجہ سے انسان دوسرے کاموں کی طرف توجہ نہ دے سکے شغل تنوین تنکیر اظہار عظمت کے لئے ہے یعنی ایسی عظیم الشان خوشی کہ نہ احاطہ فہم میں آسکے اور نہ الفاظ میں بیان کی جاسکے۔ فکھون۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ فاکھۃ واحد آرام پانے والے۔ راحت پانے والے فرحاں و شاداں۔ فکہ یف کہ (سمع) فکاھۃ مصدر سے۔ ہنسنے ہنسانے خوش طبعی والا ہونا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 شغل دھندے سے مراد وہ لذتیں ہیں جن میں اہل جنت اپنے جی بہلا رہے ہونگے اور ان میں ایسے مگن ہوں گے کہ ” ماسوا “ کا خیال تک نہیں آئے گا۔ حدیث میں ہے ” جنت میں تو وہ وہ نعمتیں حاصل ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزارا ہوگا۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 55 تا 68 :۔ شغل ( مشغلے) فکھون ( دل لگی کرنے والے) متکون (تکیہ لگا کر بیٹھنے والے) یدعون ( وہ پکاریں گے ، خواہش کریں گے) امتازوا ( تم الگ ہو جائو) جبلا ( جماعت ، لوگوں کا گروہ) نختم ( ہم مہر لگا دیں گے) افواہ ( فوہ) (منہ) تشھد ( گواہی دیں گے) طمسنا ( ہم سجھائی دیتے) مضیا (چلنا) نعمرہ ( ہم زیادہ عمر دیتے ہیں اس کو) ننکسہ ( ہم اوندھا کردیتے ہیں اس کو) تشریح : آیت نمبر 55 تا 68 :۔ جہنم والوں کی سزا بیان کرنے کے بعد اب جنت والوں کی جزا اور بدلہ کا بیان کیا جا رہا ہے کہ اہل جنت کس قدر خوش و خرم اور اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے ۔ جنت کیا ہے ؟ اس دنیا میں رہ کر اس کی خوبصورتی اور حسن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کیونکہ اس کو کسی محسوس مثال میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کی خوبصورتی اور راحت و آرام کے متعلق فرمایا ہے کہ جنت اتنی حسین ہوگی کہ کسی آنکھ نے دیکھی نہ ہوگی ، نہ کسی کان نے سنی ہوگی اور نہ کسی کے دل پر اس کا تصور اور گمان بھی گزرا ہوگا ۔ جب اہل جنت میدان حشر میں پہنچیں گے تو ان کو روک کر نہیں رکھا جائے گا بلکہ شروع ہی میں ہلکے پھلکے حساب کتاب کے بعد جنت میں بھیج دیا جائے گا جہاں ہر طرح کی راحتیں ان کی منتظر ہوں گی ۔ تمام پریشانیوں اور مشکلات سے بےغم ہر طرح کے عیش و آرام اور راحت و نعمتوں میں مشغول ہوں گے ۔ ان جنتیوں میں نہ عبادت کی مشقیں ہوں گی نہ پیٹ بھرنے کے لئے بھاگ دوڑ اور محنتیں ہوں گی ۔ ان کی بیویاں اور ہم عمر خوبصورت حوریں ہوں گی جو درختوں کے گھنے سائے میں مسہریوں پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بےغم اور بےفکر اللہ کی مہمان دری سے خوشی اور مسرت محسوس کر رہے ہوں گے ۔ ہر طرح سر سبزی و شادابی ہوگی لہلہاتے کھیت ، خوبصورت و بلند بالا عمارتیں ہر طرف بہتی نہریں ہوگی ، اہل جنت کا بہت قیمتی ریشمی لباس ہوگا وہ ایسا سلامتی کا گھر ہوگا جس میں کوئی لغو ، فضول اور بےہودہ بات نہ سنائی دے گی ، چھلکتے جام ہوں گے ان جسمانی لذتوں کے ساتھ ساتھ روحانی ترقیاں بھی نصیب ہوں گی اور ان کا سب سے بڑا اعزاز واکرم یہ ہوگا کہ ان کو اللہ کی طرف سے سلام پہنچایا جائے گا یا خود اللہ تعالیٰ اہل جنت کو سلام ارشاد فرمائیں گے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کی ابدی راحتوں کا ذکر کرتے ہوئے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی ایسی جنتوں میں جانے کا خواہش مند ہے کیا اس کے لئے تیاریاں کرنے والا ہے ؟ جس میں کوئی رنج و غم اور خوف نہ ہوگا ۔ رب کعبہ کی قسم وہ جنتیں نور ہی نور ہوں گی جن میں بیحد تازگیاں ہوگی ۔ اس کا سبزہ لہلہا رہا ہوگا ۔ اس کے بالا خانے مضبوط و مستحکم اور بلند وبالا ہوں گے ۔ اس میں رواں دواں نہریں ہوگی ، اس کے پھل پکے ہوئے ذائقہ دار ہوں گے اور بہت کثرت سے ہوں گے ۔ اس میں ان کے لئے خوبصورت حوریں ہوں گی ۔ ان کا لباس نہایت قیمتی اور ریشمی ہوگا اور یہ ساری نعمتیں وہ ہوں گی جنہیں کبھی زوال نہ آئے گا ۔ جنت سلامتی کا گھر اور سبزہ اور تازہ پھلوں کا باغ ہوگا ۔ اس کی نعمتیں بہت کثرت سے اور بہتریں ہوگی ۔ اس میں بلند وبالا محل ہوں گے جو زیب و زینب سے آراستہ ہوں گے ۔ یہ سن کر تمام صحابہ کرام (رض) نے فرمایا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم اس کے لئے تیار ہیں اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ انشاء اللہ کہو ۔ سب نے انشاء اللہ کہا ۔ آپ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جنتی اپنی جنتوں کی راحتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے کہ اوپر کی جانب سے ایک نور چمکے گا ۔ یہ سب لوگ اپنا سر اوپر اٹھا کر دیکھیں گے تو اللہ کا نور دیکھنے کا شرف حاصل کریں گے وہ اللہ کو بغیر کسی حجاب اور پردے کے براہ راستہ دیکھیں گے اور اللہ ان کو دیکھے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ” السلام علیکم یا اھل الجنۃ “ اس وقت اہل جنت اس نور کو دیکھنے میں اس طرح محو ہوجائیں گے کہ وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے ۔ یہاں تک کہ ایک پردہ حائل ہوجائے گا اور نور و برکت ان اہل جنت کے پاس رہ جائے گی ۔ ( سنن ابن ماجہ) جب کفار و مشرکین اور اللہ کے فرماں بردار مومنین قبروں سے اٹھیں گے تو سب کے سب ایک ساتھ ہوں گے مگر میدان حشر میں ان دونوں کو اور کفار کی گندگیوں اور مومنین کی نیکیوں کو الگ الگ کردیا جائے گا ۔ یہ دن جہاں اہل جنت کے لئے ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کی خوش خبری اور راحت و آرام کا پیغام ہوگا وہیں کفارو مشرکین کے لئے حسرت و افسوس کا دن ہوگا جب ان کے بنائے ہوئے گھر وندے اور خواب فضاء میں بکھر جائیں گے اور انہیں ہر طرف عذاب ہی عذاب نظر آئے گا ۔ سب سے پہلے کفار و مشرکین مجرمین سے کہا جائے گا کہ آج تم ہمارے فرماں بردار بندوں سے الگ ہو جائو تمہارے اعمال کے مطابق تم سے معاملہ کیا جائے گا اور جنت کی راحتوں اور عیش و آرام میں تمہارا کوئی حصہ نہ ہوگا ۔ اب تمہیں اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ بہت سے لوگ مومن و کافر ہوں گے مگر ان میں رشتہ داریاں بھی ہوں گی فرمایا جائے گا کہ تمہارا رشتہ ناطہ اور دوستیوں کا تعلق دنیا تک تھا اب وہ ختم ہوچکا ہے ۔ تم ایک دوسرے سے الگ ہو جائو تا کہ جنت والے جنت کی راحتوں کا لطف اٹھا سکیں۔ اس کے بعد تمام بنی آدم (علیہ السلام) کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے اپنے رسولوں کے ذریعہ تمہیں پہلے ہی اس سے آگاہ اور خبر دار نہیں کردیا تھا کہ دنیا ایک دن ختم ہوجائے گی اور پھر ہمارے پاس آ کر تمہیں زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا ۔ میں نے تمہیں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اس بات سے بھی آگاہ کردیا تھا کہ تم شیطان کے بہکائے میں آ کر اس کے راستے پر نہ چلنا اور نہ اس کی عبادت ( اطاعت) کرنا مگر تم نے ان باتوں کی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ پیغمبروں اور اصلاح کرنے والوں کی طرف سے تم نے منہ پھیرے رکھا لہٰذ آج تم ان ہی نافرمانیوں کی سزا بھگتو۔ جب میدان حشر میں نیک اور صالح لوگوں سے کفار و مشرکین کو الگ کردیا جائے گا اور وہ کفار و مشرکین اللہ کے خوفناک عذاب کو اپنی طرف آتا ہوا محسوس کریں گے تو کفر و شرک اور جھوٹ کی بھر پور زندگی گزارنے والے اپنی غلط فطرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ الٰہی ! ہم نے شرک نہیں کیا تھا وہ تو ہم وقتی طور پر بہک سے گئے تھے ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کے فرشتوں نے ہمارے اعمال کو کس طرح لکھا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کفار و مشرکین کی زبانوں ، کانوں ، آنکھوں پر مہریں لگا کر خود ان کے اعضاء کو بولنے کی طاقت عطاء فرما دیں گے اور وہی اعضاء جو کل تک اس کے ہر حکم کی تکمیل کرتے تھے اس کے دشمن بن جائیں گے اور ایک ایک عضو یہاں تک کہ ان کی کھال بھی بتا دے گی کہ ان لوگوں نے ان اعضاء کا کس طرح استعمال کیا تھا ۔ بد عمل کفار و مشرکین کو ان کا یہ عذر اور انکار کوئی فائدہ نہ دے گا کیونکہ جن باتوں کو یہ زبان سے جھٹلا رہے تھے ان کے اعضاء ایک ایک بات کو بیان کردیں گے ۔ اصل میں یہ تمام اعضاء جو زندگی بھر اس کے کہنے پر چلتے رہے ہیں یہ اس کے نہیں ہیں بلکہ اللہ کی ایک امانت ہیں زندگی بھر جن اعضاء پر وہ بھروسہ کرتا رہا ہے اللہ جب بھی چاہیں گے ان اعضاء کو اس کے خلاف استعمال فرما لیں گے چناچہ قیامت کے دن یہی اعضاء انسان کی ایک ایک حرکت کو بیان کردیں گے ۔ اور انسان ان باتوں کا انکار نہ کرسکے گا ۔ فرمایا کہ یہ انسان ان اعضاء پر بھروسہ اور اعتماد تو کرتا رہا مگر اس نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اس کے اعضاء میں جو انقلابات آ رہے ہیں وہ خود ایک سبق ہے ، کیونکہ اس کے وہ مضبوط اعضاء جو کبھی اس کو بد مست کردیتے تھے بتدریج کمزور ہوتے جا رہے ہیں ۔ انسان بڑھاپے میں پھر اسی طرح کمزور اور دوسرے کے سہاروں کا محتاج ہوجاتا ہے جس طرح بچپن میں تھا لیکن انسان نے ان اعضاء کے مالک اللہ پر بھروسہ کرنے کی بجائے ان آنکھوں ، ہاتھوں ، پاؤں اور کھالوں پر اعتماد کیا جو قیامت میں خود اس کے خلاف ہو کر اس کے گناہوں کو بیان کردیں گے

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جہنمی حواس باختہ، پریشان اور انتہائی ذلت میں ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں جنتی چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے۔ مجرموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا جن کے لیے اعلان ہوگا کہ آج تم پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ جنتیوں کا ذکر کرتے ہوئے محشر کے دن کے مختلف مراحل کا ذکر چھوڑ کر انہیں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ آج تمہیں جنت میں داخل کیا جاتا ہے جس میں تم ایک دوسرے کے سامنے صوفوں پر خوش و خرم بیٹھے ہوئے خوش گپیاں کرو گے اور جو چاہو گے وہ پاؤ گے۔ قبروں سے نکلتے ہی جہنمیوں اور جنتیوں کے درمیان واضح فرق دکھائی دے گا۔ جہنمیوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست چھائی ہوگی۔ جنتیوں کے چہروں پر نور اور خوشی پھوٹ رہی ہوگی۔ جہنمیوں کو رسوا کرکے محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا۔ ان میں سے کثیر تعداد کو منہ کے بل چلا کر محشر کے میدان میں لے جایا جائے گا اور ان کے پیچھے آگ لگی ہوگی۔ ان کے مقابلے میں جنتیوں کو درجہ بدرجہ سواریاں مہیا کیں جائیں گی۔ ان میں سے ایسے بھی خوش قسمت ہوں گے جو آنکھ جھپکنے سے پہلے محشر کے میدان میں پہنچادیئے جائیں گے۔ جہنمیوں کو دبر کی طرف سے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دئیے جائیں گے جنتیوں کو دائیں ہاتھ میں پیش کیے جائیں۔ جہنمی اپنے اعمالنامے دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹیں گے جنتی اعمالنامے دیکھ کر خوش ہونگے اور اپنے عزیزواقربا کو دکھائیں گے۔ حساب و کتاب کے بعد اعلان ہوگا کہ جنتیوں اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ جنتی جنت میں اپنی بیویوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے۔ ان کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ ان کے دل میں جو بھی چاہت پیدا ہوگی پوری کردی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلامتی نازل ہوگی اور ملائکہ انہیں سلام پیش کریں گے۔ ( عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ خَیْلٍ قَالَ إِنِ اللَّہُ أَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ فَلاَ تَشَاءُ أَنْ تُحْمَلَ فیہَا عَلَی فَرَسٍ مِنْ یَاقُوتَۃٍ حَمْرَاءَ یَطِیرُ بِکَ فِی الْجَنَّۃِ حَیْثُ شِءْتَ إِلاَّ فَعَلْتَ قَالَ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ إِبِلٍ قَالَ فَلَمْ یَقُلْ لَہُ مِثْلَ مَا قَالَ لِصَاحِبِہِ قَالَ إِنْ یُدْخِلْکَ اللَّہُ الْجَنَّۃَ یَکُنْ لَکَ فیہَا مَا اشْتَہَتْ نَفْسُکَ وَلَذَّتْ عَیْنُکَ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ خَیْلِ الْجَنَّۃِ ] ” حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے آپ نے فرمایا اللہ تجھے جنت میں داخل کرے۔ اگر تیری جنت میں یہ چاہت ہوئی کہ تو سرخ یاقوت سے مزین گھوڑے پر سوارہو۔ تو گھوڑے تجھے جنت میں لیے اڑتے پھریں گے تیری یہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ ایک اور آدمی نے پوچھا کیا جنت میں اونٹ ہوں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھی پہلے شخص جیسا جواب دیا اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں داخل کردیاتو تجھے جنت میں وہ کچھ ملے گا جو تیرا جی چاہے گا اور جو تیری آنکھ کو بھائے گا۔ “ مسائل ١۔ جنتی جنت میں ہشاش بشاش اور آپس میں شغل مغل کریں گے۔ ٢۔ جنت میں میاں بیوی صوفوں پر بیٹھے ہوئے جو چاہیں گے وہ پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کو سلامیاں پیش کی جائیں گی : ١۔ جنتی جنت میں آپس میں ملاقات کے وقت اللہ کی تسبیح بیان کریں گے اور سلام کہیں گے۔ (یونس : ١٠) ٢۔ جنتیوں کا ایک دوسرے کو تحفہ سلام ہوگا۔ (الاحزاب : ٤٤) ٣۔ جنتیوں کو بالاخانے ملیں گے اور وہ آپس میں ملتے وقت دعا وسلام کریں گے۔ (الفرقان : ٧٥) ٤۔ ملائکہ جنتیوں کو سلام کہتے ہوئے کہیں گے کہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ۔ (الرعد : ٢٣۔ ٢٤) ٥۔ فرشتے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (النحل : ٣٢) ٦۔ جنت کے دربان کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو مزے سے رہو اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الزمر : ٧٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان اصحب الجنۃ۔۔۔۔۔۔۔۔ من رب رحیم (55 – 58) ” “۔ یہ عیش و عشرت میں مشغول ہوں گے ، ان پر اللہ کے انعامات کی بارش ہوگی اور نہایت ہی خوشگوار چھاؤں میں بیٹھے ہوں گے۔ آمنے سامنے تختوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے اور وہ جنت کے مالک ہوں گے اور ان کا یہ حق ہوگا کہ جو چاہیں گے ، مہیا ہوگا اور ان لذائذ کے اوپر مزید ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ اور ان کی تکریم ہوگی کہ خود اللہ تعالیٰ ان کے نام سلام بھیجے گا ۔ یہ رب کریم کی طرف سے ان کا اعزاز ہوگا۔ سلم قولا من رب رحیم (36: 58) ” رب رحیم کی طرف سے ان کو سلام کہا گیا ہے “۔ رہے کفار تو ان کے ساتھ حساب و کتاب یہاں نہیں دکھایا گیا بلکہ یہاں محض سرزنش اور جھڑکی اور ملامت کردی جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل جنت کی نعمتوں کا تذکرہ، وہ اپنی بیویوں کے ساتھ سایوں میں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے ان آیات میں اہل جنت کی بعض نعمتوں کا تذکرہ فرمایا، اول تو یہ فرمایا کہ یہ لوگ اپنے اپنے مشغلوں میں خوش ہوں گے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں : (والمراد بہ ما ھم فی من النعیم الذی شغلھم عن کل ما یخطر بالبال) یعنی شغل سے وہاں کی نعمتوں میں مشغول رہنا مراد ہے، وہاں کی نعمتیں ہر اس چیز کے تصور سے بےپرواہ کردیں گی جن کا تصور آسکتا ہو۔ (فَاکِھُوْنَ ) کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے یعنی وہ اپنی نعمتوں میں خوش ہوں گے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے تمتع اور تلذذ مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس میوے موجود ہوں گے جن میں سے کھایا کریں گے۔ (روح المعانی) پھر فرمایا کہ اہل جنت اور ان کی بیویاں سایوں میں ہوں گے جہاں ناگوار گرمی ذرا نہ ہوگی (اَراءِکِ ) یعنی مسہریوں پر ہوں گے، یہ (اَرِیْکَۃٌ) کی جمع ہے، (اریکہ) مسہری کو کہتے ہیں۔ (مُتَّکِؤُنَ ) تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ سورة الواقعہ میں فرمایا (عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِءِیْنَ عَلَیْہَا مُّتَقَابِلِیْنَ ) (وہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ ان اصحاب الخ :۔ یہ بشارت اخروی ہے۔ اہل جنت، جنت کی پرسکون فضا میں عیش و طرب کی مصروفیتوں میں خوش وخرم ہوں گے۔ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ ٹھنڈی چھاؤں میں عالیشان تختوں پر تکیہ لگائے آرام کریں گے۔ اور جنت میں انہیں نہ صرف ہر میوہ ملے گا بلکہ ہر وہ چیز جس کی وہ تمنا کریں گے اور جو چیز وہ طلب کریں گے، انہیں ملے گی۔ سلم قولا من رب رحیم۔ سلام خبر مقدم محذوف کا مبتدا ہے ای لہم اور قولا فعل مقدر کا مفعول مطلق ہے اور یہ جملہ سلام کی صفت ہے۔ اہل جنت کا یہ سب سے بڑا اعزاز ہوگا کہ باری تعالیٰ خود انہیں سلام فرمائیگا ای سلام یقال لہم قولا من جہۃ رب رحیم ای بسلام علہم من جہتہ تعالیٰ بلا واسطۃ تعظیما لہم (روح ج 23 ص 38) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(55) بلاشبہ اہل جنت اس دن ایک خاص شغل میں خوش اور لذت اندوز ہیں۔ یعنی اپنی بیویوں سے یا آپس میں ایک دوسرے سے ملاقات یا جنت کے نغمات اور گانے سننے میں لگے ہوئے ہوں گے۔ بہرحال جو شغل اور جو دھندا بھی ہوگا وہ بلا مشقت اور محض خوش طبعی کا شغل ہوگا۔