Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 82

سورة يس

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾

His command is only when He intends a thing that He says to it, "Be," and it is.

وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے اسے اتنا فرما دینا ( کافی ہے ) کہ ہو جا وہ اسی وقت ہو جاتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Yes, indeed! He is the All-Knowing Supreme Creator. Verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, "Be!"-- and it is! meaning, He only needs to command a thing once; it does not need to be repeated or confirmed. When Allah wants a thing to happen, He only says to it: "Be!" once, and it is. Imam Ahmad recorded that Abu Dharr, may Allah be pleased with him, said that the Messenger of Allah said: إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَقُولُ يَا عِبَادِي كُلُّكُمْ مُذْنِبٌ إِلاَّ مَنْ عَافَيْتُ فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ وَكُلُّكُمْ فَقِيرٌ إِلاَّ مَنْ أَغْنَيْتُ إِنِّي جَوَادٌ مَاجِدٌ وَاجِدٌ أَفْعَلُ مَا أَشَاءُ عَطَايِي كَلَامٌ وَعَذَابِي كَلَامٌ إِذَا أَرَدْتُ شَيْيًا فَإِنَّمَا أَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُون Allah, may He be exalted, says: "O My servants, all of you are sinners apart from those whom I protect from sin. Seek My forgiveness and I will forgive you. All of you are in need except for those whom I make independent. I am Most Generous, Majestic, and I do whatever I will. My giving is a word and My punishment is a word. When I want a thing to happen I merely say to it `Be!' and it is." فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

(1) یعنی اس کی شان تو یہ ہے پھر اس کے لیے سب انسانوں کا زندہ کردینا کون سا مشکل معاملہ ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٧٤] اللہ کے کلمہ کن کہنے کا مفہوم :۔ کن یا && ہوجا && کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے۔ ایسے امور میں بالعموم اللہ کا قانون تدریج کام کرتا ہے جیسا کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام (یا چھ ادوار) میں بنایا۔ اگرچہ اس کی قدرت سے یہ بھی مستبعد نہیں کہ فوراً کسی چیز کو عدم سے وجود میں لے آئے۔ اور اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ نے کسی کام اور جس مقصد کے لئے بنایا ہے وہ چیز فوراً وہ کام شروع کردے۔ اس کے لئے صرف اللہ کے امر کی ضرورت ہے اور وہ کام اسی وقت ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اللہ کے اس امر کو ہم روح بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے کسی کارخانے میں بڑی بڑی دیوہیکل برقی مشینیں نصب ہوتی ہیں۔ مگر وہ اس وقت تک بےحس و حرکت کھڑی رہتی ہیں جب تک ان میں برقی رو نہ گزاری جائے یا سوئچ آن نہ کیا جائے۔ سوئچ آن کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ فوراً متحرک ہو کر اپنا وہ کام کرنا شروع کردیتی ہیں جس کام کے لئے بنائی گئی تھیں۔ بالکل یہی صورت اللہ تعالیٰ کے امر && کن && کی ہے ادھر اللہ نے ارادہ کیا ادھر وہ چیز بن گئی جو مطلوب تھی۔ مقصد یہ ہے کہ تمام انسانوں کی دوبارہ پیدائش بھی فقط اللہ کے ایک اشارے یا ارادے یا امر کن کی محتاج ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ ارادہ کرے گا تو فوراً تمام انسان زندہ ہو کر اللہ کے سامنے حاضر ہوجائیں گے اور انسانوں کے لئے یہ اضطراری امر ہوگا جس کے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا : یہ ایک طرح سے پہلی آیات کا نتیجہ اور خلاصہ ہے کہ اسے پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز بنانے میں دقت ہی کیا ہوسکتی ہے ؟ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس ” كُنْ “ کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 82, it was said: إِنَّمَا أَمْرُ‌هُ إِذَا أَرَ‌ادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (His practice, when He intends to do something, is no more than He says, |"Be|", and it comes to be.). In other words, the verse means that when Allah Ta’ ala intends to create something, He has no need to follow the way things are made by human beings who have to collect raw materials, assemble technicians and work for a certain period of time until the thing is ready. His way, to use an understatement, is different. Whenever, He intends to create something, for Him it is sufficient to give the command: |"Be.|" Right then, the thing so commanded comes into existence. From this, it does not necessarily follow that the creation of everything should invariably be instant. Instead, when the creation of something instantly under the dictate of the wisdom of the Creator is expedient, it stands created on the beam without any gradual mode or respite. And when the creation of something is decreed to be appropriate only as gradual due to some wise consideration, it comes into existence gradually - whether it is destined to be created along with a particular gradual mode in the very first decree, or it is addressed with a separate command of کُن &kun& or &be& at each gradual stage. وَاللہ سبحانہ و تعالیٰ اَعلَم (And Allah, the Pure, the High knows best). Alhamdu1i11ah The Commentary on Surah Y a Sin Ends here

انما امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون، مراد اس آیت کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو پیدا کرنا چاہیں تو انسانی مصنوعات کی طرح ان کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ پہلے مواد جمع فرمائیں پھر اس کے لئے کاریگر بلائیں، پھر ایک مدت تک کام کر کے وہ چیز تیار ہو بلکہ وہ جب اور جس وقت جس چیز کو پیدا فرمانا چاہیں ان کو صرف حکم دے دینا کافی ہوتا ہے کہ ” پیدا ہو جا “ تو جس چیز کو یہ حکم ملتا ہے وہ فوراً اس کے حکم کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر چیز کی تخلیق دفعی اور فوری ہی ہو۔ بلکہ حکمت خالق کے تابع جس چیز کا فوری طور پر پیدا ہوجانا مصلحت ہے وہ فوری طور پر بلا تدریج و مہلت پیدا ہوجاتی ہے اور جس چیز کا پیدا ہونا کسی حکمت و مصلحت کی بنا پر بتدریج مناسب سمجھا گیا وہ اسی تدریج کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے، خواہ اس کی صورت یہ ہو کہ اس کو پہلے ہی حکم میں خاص تدریج کے ساتھ پیدا ہونا بتلایا گیا ہو یا ہر مرحلہ پر اس کو جداگانہ حکم کن کا خطاب ہوتا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ قد تمت سورة یٰسین بحمد اللہ وعونہ لثمانی وعشرین من شہر صفر 1392 ھ یوم الخمیس وبتمامہ تم الحمد للہ الحزب الخامس من الاحزاب السبعة القرانیة فالحمد للہ اولاً واخراً و ظاہرا و باطناً ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَہٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۝ ٨٢ أمر الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته : إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود/ 123] ( ا م ر ) الامر ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔ { وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ } ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ كان كَانَ «3» : عبارة عمّا مضی من الزمان، وفي كثير من وصف اللہ تعالیٰ تنبئ عن معنی الأزليّة، قال : وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] ، وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] وما استعمل منه في جنس الشیء متعلّقا بوصف له هو موجود فيه فتنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له، قلیل الانفکاک منه . نحو قوله في الإنسان : وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] فذلک تنبيه علی أن ذلک الوصف لازم له قلیل الانفکاک منه، وقوله في وصف الشّيطان : وَكانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا [ الفرقان/ 29] ، وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] . وإذا استعمل في الزمان الماضي فقد يجوز أن يكون المستعمل فيه بقي علی حالته كما تقدّم ذكره آنفا، ويجوز أن يكون قد تغيّر نحو : كَانَ فلان کذا ثم صار کذا . ولا فرق بين أن يكون الزمان المستعمل فيه کان قد تقدّم تقدما کثيرا، نحو أن تقول : کان في أوّل ما أوجد اللہ تعالی، وبین أن يكون في زمان قد تقدّم بآن واحد عن الوقت الذي استعملت فيه کان، نحو أن تقول : کان آدم کذا، وبین أن يقال : کان زيد هاهنا، ويكون بينک وبین ذلک الزمان أدنی وقت، ولهذا صحّ أن يقال : كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] فأشار بکان أنّ عيسى وحالته التي شاهده عليها قبیل . ولیس قول من قال : هذا إشارة إلى الحال بشیء، لأنّ ذلك إشارة إلى ما تقدّم، لکن إلى زمان يقرب من زمان قولهم هذا . وقوله : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] فقد قيل : معنی كُنْتُمْ معنی الحال «1» ، ولیس ذلک بشیء بل إنما ذلک إشارة إلى أنّكم کنتم کذلک في تقدیر اللہ تعالیٰ وحكمه، وقوله : وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] فقد قيل : معناه : حصل ووقع، والْكَوْنُ يستعمله بعض الناس في استحالة جو هر إلى ما هو دونه، وكثير من المتکلّمين يستعملونه في معنی الإبداع . وكَيْنُونَةٌ عند بعض النّحويين فعلولة، وأصله : كَوْنُونَةٌ ، وكرهوا الضّمة والواو فقلبوا، وعند سيبويه «2» كَيْوِنُونَةٌ علی وزن فيعلولة، ثم أدغم فصار كَيِّنُونَةً ، ثم حذف فصار كَيْنُونَةً ، کقولهم في ميّت : ميت . وأصل ميّت : ميوت، ولم يقولوا كيّنونة علی الأصل، كما قالوا : ميّت، لثقل لفظها . و «الْمَكَانُ» قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . ( ک و ن ) کان ۔ فعل ماضی کے معنی کو ظاہر کرتا ہے پیشتر صفات باری تعا لےٰ کے متعلق استعمال ہو تو ازلیت ( یعنی ہمیشہ سے ہے ) کے معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً [ الأحزاب/ 40] اور خدا ہر چیز واقف ہے ۔ وَكانَ اللَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيراً [ الأحزاب/ 27] اور خدا ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور جب یہ کسی جنس کے ایسے وصف کے متعلق استعمال ہو جو اس میں موجود ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ وصف اس اسم کے ساتھ لازم وملزوم رہتا ہے اور بہت ہی کم اس علیحدہ ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ كَفُوراً [ الإسراء/ 67] اور انسان ہے ہی ناشکرا ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا [ الكهف/ 54] اور انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑا لو ہے ، میں تنبیہ کی ہے کہ یہ امور انسان کے اوصاف لازمہ سے ہیں اور شاذ ونا ور ہی اس سے منفک ہوتے ہیں اسی طرح شیطان کے متعلق فرمایا : ۔ كانَ الشَّيْطانُ لِلْإِنْسانِ خَذُولًا[ الفرقان/ 29] اور شیطان انسان کی وقت پر دغا دینے والا ہے ۔ وَكانَ الشَّيْطانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً [ الإسراء/ 27] اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا کفران کرنے والا یعنی نا قدرا ہے ۔ جب یہ فعل زمانہ ماضی کے متعلق استعمال ہو تو اس میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ وہ چیز تا حال اپنی پہلی حالت پر قائم ہو اور یہ بھی کہ اس کی وہ حالت متغیر ہوگئی ہو مثلا کان فلان کذا ثم صار کذا ۔ یعنی فلاں پہلے ایسا تھا لیکن اب اس کی حالت تبدیل ہوگئی ہے نیز یہ ماضی بعید کے لئے بھی آتا ہے جیسے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز پیدا کی تھی اور ماضی قریب کے لئے بھی حتی کہ اگر وہ حالت زمانہ تکلم سے ایک لمحہ بھی پہلے ہوتو اس کے متعلق کان کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے لہذا جس طرح کان ادم کذا کہہ سکتے ہیں اسی طرح کان زید ھھنا بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس بنا پر آیت : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا[ مریم/ 29]( وہ بولے کہ ) ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے کیونکہ بات کریں ۔ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ابھی گو د کا بچہ تھا یعنی کم عمر ہے اور یہ بھی کہ جو ابھی گود کا بچہ ہے یعنی ماں کی گود میں ہے لیکن یہاں زمانہ حال مراد لینا بےمعنی ہے اس میں زمانہ قریب ہے جیسے آیت : ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ [ آل عمران/ 110] جتنی امتیں ہوئیں تم ان سب سے بہتر ہو ۔ میں بھی بعض نے کہا ہے کہ کنتم زمانہ حالپر دلالت کرتا ہے لیکن یہ معنی صحیح نہیں ہیں بلکہ معنی یہ ہیں کہ تم اللہ کے علم اور حکم کے مطابق بہتر تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِنْ كانَ ذُو عُسْرَةٍ [ البقرة/ 280] اور اگر ( قرض لینے والا ) تنگ دست ہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں کان کے معنی کسی چیز کا واقع ہوجانا کے ہیں اور یہ فعل تام ہے ۔ یعنی اگر وہ تنگدست ہوجائے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کون کا لفظ کسی جوہر کے اپنے سے پست تر جو میں تبدیل ہونے کے لئے آتا ہے اور اکثر متکلمین اسے معنی ابداع میں استعمال کرتے ہیں بعض علامائے نحو کا خیال ہے کہ کینونۃ کا لفظ اصل میں کو نو نۃ بر وزن فعلولۃ ہے ۔ ثقل کی وجہ سے واؤ سے تبدیل ہوگئی ہے مگر سیبو کے نزدیک یہ اصل میں کیونو نۃ بر وزن فیعلولۃ ہے ۔ واؤ کو یا میں ادغام کرنے سے کینونۃ ہوگیا پھر ایک یاء کو تخفیف کے لئے گرادیا تو کینونۃ بن گیا جیسا کہ میت سے میت بنا لیتے ہیں جو اصل میں میوت ہے ۔ فرق صرف یہ ہے ۔ کہ کینو نۃ ( بتشدید یاء کے ساتھ اکثر استعمال ہوتا ہے المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور وہ تو جس وقت قیامت قائم کرنا چاہے گا تو اس وقت کہہ دے گا کہ ہوجا وہ فورا ہوجائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٢ { اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ } ” اس کے امر کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے۔ “ یہاں پر یہ اہم نکتہ نوٹ کرلیجیے کہ یہ ” عالم امر “ کا معاملہ ہے ‘ جبکہ عالم ِخلق کے قوانین مختلف ہیں۔ قرآن میں یہ آیت متعدد بار آئی ہے اور اسی مفہوم اور انہی الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ عالم امر اور عالم خلق کے بارے میں وضاحت سورة الاعراف کی آیت ٥٤ کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم امر میں چیزوں کو وقوع پذیر ہونے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں ‘ جبکہ عالم خلق میں تخلیق کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں چھ دنوں میں بنایا۔ ان چھ دنوں سے مراد چھ ادوار (Eras) ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ میلینیم (millennlums) کہہ لیں۔ عین ممکن ہے کہ جس عرصہ کو یہاں ” دن “ کا نام دیا گیا ہے وہ لاکھوں برس پر محیط ہو۔ لیکن چھ دنوں کے ذکر سے یہ حقیقت تو بہرحال واضح ہوتی ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں کچھ وقت لگا۔ اس لیے کہ یہ ” عالم خلق “ کی تخلیق ہے۔ اس کے برعکس ” عالم ِامر “ میں ” وقت “ کا ّتکلف نہیں پایا جاتا۔ مثلاً روحِ انسانی اور فرشتوں کا تعلق عالم امر سے ہے ‘ اس لیے روح کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے کوئی وقت درکار نہیں۔ اسی طرح حضرت جبریل امین (علیہ السلام) آنِ واحد میں عرش سے زمین پر آجاتے ہیں اور آنِ واحد میں زمین سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں۔ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں اللہ تعالیٰ کے امر کی خصوصی شان کا ذکر عالم امر کے حوالے سے ہوا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:82) انما۔ بےشک۔ تحقیق، سوائے اس کے نہیں۔ ان حرف مشبہ بالفعل اور ما کافہ ہے (جو حصر کے لئے آتا ہے اور ان کو عمل لفظی سے روک دیتا ہے۔ اور یہ ما ان۔ کان۔ لکن پر بھی آتا ہے اور یہی عمل کرتا ہے) ۔ اذا اراد شیئا۔ ای اذا اراد ایجاد شیء من الاشیاء (یعنی جب وہ کسی شے کو وجود میں لانے کا ارادہ کرتا ہے۔ ان یقول لہ۔ میں ان مصدریہ ہے لہ میں ضمیر واحد مذکر غائب اس شے کی صورت کی طرف راجع ہے جو حق تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے یقول سے مراد وہ بولنا نہیں جو ہم زبان اور لب کی مخصوص جنبش سے ادا کرتے ہیں۔ اس بولنے کی کیفیت اصل کیا ہوتی ہے وہ انسانی سوچ اور فکر سے ماورا ہے۔ کن۔ ہوجا۔ فعل امر واحد مذکر غائب ۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حروف ک اور ن فی الواقع ہماری طرح کی آواز میں بولے جائیں۔ اور نہ ہی ان حروف کا فی الواقع ادا کرنا ضروری ہے۔ وہ تو محض حکم ہے جو وہ خود ہی جانتا ہے کیسے دیا جاتا ہے۔ فیکون۔ الفاء للمفاجاۃ۔ یا عاطفہ سببیہ ہے۔ پس وہ فی الفور ہوجاتا ہے۔ اذا اراد ۔۔ فیکون۔ محض انتہائی سرعت تکوین کا بیان ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انما امرہ ۔۔۔۔ کن فیکون (36: 82) ” وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہوجا اور وہ ہوجاتی ہے “۔ یہ چیز زمین ہو یا آسمان ہوں ، مچھر ہو یا پسو ہو ، یا چیونٹی ، یہ سب چیزیں اللہ کے حکم کے سامنے یکساں ہوتی ہیں۔ کن فیکون۔ اللہ کے سامنے مشکل و آسان کوئی چیز نہیں ہے۔ اللہ کے لیے قریب و بعید یکساں ہیں۔ صرف ارادے کا متوجہ ہونا ہوتا ہے ادھر ارادہ ہوا ادھر وہ چیز ہوگئی۔ وہ جو بھی ہو۔ اللہ اس طرح بیان کرتا ہے کہ لوگ اللہ کے اعمال و افعال کو سمجھ جائیں۔ ورنہ انسان کی محدود قوت مدرکہ کے لیے چیزوں کا سمجھنا ہی مشکل ہے۔ اب اس سورت میں انسان کے قلب و نظر کی تاروں پر ایک آخری ضرب لگائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی ضرب ہے اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ پاک قادر مطلق ہے سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (اِِنَّمَا اَمْرُہُ اِِذَا اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ) (اس کی شان یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمائے تو یوں فرما دیتا ہے کہ ہوجا سو وہ ہوجاتی ہے) سو جب صرف کن فرما دینے سے سب کچھ وجود میں آجاتا ہے تو زندوں کو موت دے کر دوبارہ زندہ فرمانا کیونکر مشکل ہوسکتا ہے ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(82) بس اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس چیز کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے۔ یعنی اس کے ارادے کا تعلق شئی کو وجود میں لے آتا ہے اسی تعلق کو لفظ کن سے تعبیر فرمایا ہے کہ جس طرح تم کو کن کہنے میں دشواری نہیں ہوتی اسی طرح اس کو کسی چیز کو پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ پیدا کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔