Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 150

سورة الصافات

اَمۡ خَلَقۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّ ہُمۡ شٰہِدُوۡنَ ﴿۱۵۰﴾

Or did We create the angels as females while they were witnesses?"

یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or did We create the angels female while they were witnesses! means, how did they decide that the angels are female when they did not witness their creation? This is like the Ayah: وَجَعَلُواْ الْمَلَـيِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَـنِ إِنَـثاً أَشَهِدُواْ خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَـدَتُهُمْ وَيُسْـَلُونَ And they make the angels females who themselves are servants of the Most Gracious. Did they witness their creation Their testimony will be recorded, and they will be questioned! (43:19), which means, they will be questioned about that on the Day of Resurrection.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

150۔ 1 یعنی فرشتوں کو جو یہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں تو کیا جب ہم نے فرشتے پیدا کئے تھے، یہ اس وقت وہاں موجود تھے اور انہوں نے فرشتوں کو عورتوں والی خصوصیات کا مشاہدہ کیا تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٩] قریش کا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینا :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی انکار آخرت کے علاوہ دوسری بڑی گمراہی کا ذکر فرمایا ہے۔ جو شرک فی الذات یا شرک کی سب سے بڑی اور بدترین قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ بھی صاحب اولاد ہے۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے جس کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پھر اس عقیدہ میں بھی وہ کئی طرح کی بےانصافیاں کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ پھر ان کے خیالی مجسمے اور بت بنا کر ان کی پوجا بھی کرتے تھے۔ ان میں تین مجسموں کا ذکر قرآن میں مذکور ہے۔ (١) لات یہ الٰہ کا مؤنث ہے یعنی لات کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنی ثقیف اس کے معتقد تھے، (٢) عزیٰ ۔ عزیز سے مونث ہے بمعنی عزت والی۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حراص کے مقام پر واقع تھا، (٣) منات کا آستانہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنوخزاعہ، اوس اور خزرج اس کے معتقد تھے۔ گویا مشرکین عرب وہ بڑا ظلم ڈھاتے تھے ایک اللہ کی اولاد قرار دینے کا، دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں وہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جبکہ وہ اپنے لئے بیٹیوں کو کبھی پسند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ انہیں زندہ درگور کردیتے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةَ اِنَاثًا وَّهُمْ شٰهِدُوْنَ : اس میں فرشتوں کے مؤنث ہونے کی تردید فرمائی کہ انھیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے مؤنث ہیں، کیا جب ہم نے فرشتوں کو پیدا کیا تو یہ موجود تھے کہ انھوں نے دیکھا ہو کہ ہم نے انھیں مؤنث بنایا ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰۗىِٕكَۃَ اِنَاثًا وَّہُمْ شٰہِدُوْنَ۝ ١٥٠ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ أنث الأنثی: خلاف الذکر، ويقالان في الأصل اعتبارا بالفرجین، قال عزّ وجلّ : وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى [ النساء/ 124] ، ولمّا کان الأنثی في جمیع الحیوان تضعف عن الذکر اعتبر فيها الضعف، فقیل لما يضعف عمله : أنثی، ومنه قيل : حدید أنيث قال الشاعر : عندي ... جراز لا أفلّ ولا أنيث وقیل : أرض أنيث : سهل، اعتبارا بالسهولة التي في الأنثی، أو يقال ذلک اعتبارا بجودة إنباتها تشبيها بالأنثی، ولذا قال : أرض حرّة وولودة . ولمّا شبّه في حکم اللفظ بعض الأشياء بالذّكر فذكّر أحكامه، وبعضها بالأنثی فأنّث أحكامها، نحو : الید والأذن، والخصية، سمیت الخصية لتأنيث لفظ الأنثيين، وکذلک الأذن . قال الشاعر : ضربناه تحت الأنثيين علی الکرد وقال آخر : وما ذکر وإن يسمن فأنثی يعني : القراد، فإنّه يقال له إذا کبر : حلمة، فيؤنّث . وقوله تعالی: إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِناثاً [ النساء/ 117] فمن المفسرین من اعتبر حکم اللفظ فقال : لمّا کانت أسماء معبوداتهم مؤنثة نحو : اللَّاتَ وَالْعُزَّى وَمَناةَ الثَّالِثَةَ [ النجم/ 19- 20] قال ذلک : ومنهم۔ وهو أصحّ- من اعتبر حکم المعنی، وقال : المنفعل يقال له : أنيث، ومنه قيل للحدید الليّن : أنيث، فقال : ولمّا کانت الموجودات بإضافة بعضها إلى بعض ثلاثة أضرب : - فاعلا غير منفعل، وذلک هو الباري عزّ وجلّ فقط . - ومنفعلا غير فاعل، وذلک هو الجمادات . - ومنفعلا من وجه کالملائكة والإنس والجن، وهم بالإضافة إلى اللہ تعالیٰ منفعلة، وبالإضافة إلى مصنوعاتهم فاعلة، ولمّا کانت معبوداتهم من جملة الجمادات التي هي منفعلة غير فاعلة سمّاها اللہ تعالیٰ أنثی وبكّتهم بها، ونبّههم علی جهلهم في اعتقاداتهم فيها أنها آلهة، مع أنها لا تعقل ولا تسمع ولا تبصر، بل لا تفعل فعلا بوجه، وعلی هذا قول إبراهيم عليه الصلاة والسلام : يا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئاً [ مریم/ 42] . وأمّا قوله عزّ وجل : وَجَعَلُوا الْمَلائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبادُ الرَّحْمنِ إِناثاً [ الزخرف/ 19] فلزعم الذین قالوا : إنّ الملائكة بنات اللہ . ( ان ث) الانثی ( مادہ ) بہ ذکر یعنی نر کی ضد ہے اصل میں انثیٰ و ذکر عورت اور مرد کی شرمگاہوں کے نام ہیں پھر اس معنی کے لحاظ سے ( مجازا) یہ دونوں نر اور مادہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔{ وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى } ( سورة النساء 124) ۔ جو نیک کام کریگا مرد یا عورت (4 ۔ 124) اور چونکہ تمام حیوانات میں مادہ منسلک نر کے کمزور ہوتی ہے لہذا اس میں معنی ضعف کا اعتبار کرکے ہر ضعیف الاثر چیز کو انثیٰ کہہ دیا جاتا ہے چناچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع (28) ۔۔۔۔۔ عندی ۔۔ جراز لا افل ولا انیث میرے پاس شمشیر براں ہے جو کند اور کمزور نہیں ہی ۔ اور انثی ٰ ( مادہ) کے ساتھ تشبیہ دیکر نرم اور زرخیز زمین کو بھی ارض انیث کہہ دیا جاتا ہے یہ تشبہ یا تو محض نری کے اعتبار سے ہے ۔ اور یا عمدہ اور پیداوار دینے کے اعتبار سے ہے سے اسے انیث کہا گیا ہے جیسا کہ زمین کو عمدہ اور پیداوار کے اعتبار سے حرۃ اور ولو د کہا جات ہے ۔ پھر بعض اشیاء کو لفظوں میں مذکر کے ساتھ تشبیہ دے کر اس کے لئے صیغہ مذکر استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور بعض کو مؤنث کے ساتھ تشبیہ دے کر صیغہ تانیث استعمال کرتے ہیں جیسے ۔ ید ۔ اذن اور خصیۃ چناچہ خصیتیں پر تانیث لفظی کی وجہ سے انثیین کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( ع وافر) (29) وماذکر وان یسمن مانثی ٰاور کونسا مذکر ہے کہ اگر وہ موٹا ہوجائے تو مؤنث ہوجاتا ہے ۔ اس سے مراد قرا دیعنی چیچر ہے کہ جب وہ بڑھ کر خوب موٹا ہوجاتا ہے تو اسے حلمۃ بلفظ مونث کہا جاتا ہے اسی طرح آیت کریمہ ؛۔ { إِنْ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا } ( سورة النساء 117) وہ خد ا کے سو ا جن کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ مادہ ہیں ۔ میں اناث ، انثی ٰ کی جمع ہے ) بعض مفسرین نے احکام لفظیہ کا اعتبار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مشرکین اپنے بتوں کو جن اسماء سے پکارتے تھے جیسے لات ، عزی ، منات الثالثہ یہ سب مؤنث ہیں اس لئے قرآن نے اناث کہہ کر پکارا ہے ۔ اور بعض نے معنٰی کا اعتبار کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر منفعل اور ضعیف چیز کو انیث کہا جاتا ہے جیسے کمزور لوہے پر انیث کا لفظ بولتے ہیں اسکی تفصیل یہ ہے کہ موجودات کی باہمی نسبت کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں فاعل غیر منفعل ، یہ صفت صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ منفعل غیر فاعل یہ خاصہ جمادات کا ہے ۔ 3 ۔ ایک اعتبار سے فاعل اور دوسرے اعتبار سے منفعل جیس جن دانس اور ملائکہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے منفعل اور اپنی مصنوعات کے لحاظ سے فاعل ہے اور چونکہ ان کے معبود جمادات کی قسم سے تھے جو منفعل محض ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے انہیں اثاث کہہ کر پکارا ہے اور اس سے ان کی اعتقادی جہالت پر تنبیہ کی ہے کہ جنکو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں نہ عقل ہے نہ سمجھ ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ کسی حیثیت سے بھی کوئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے و تو حید کی طرف دعوت کے سلسلہ میں ) اپنے باپ سے کہا ۔ { يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا } ( سورة مریم 42) کہ ابا آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں لیکن آیت کریمہ ؛۔ { وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَنِ إِنَاثًا } ( سورة الزخرف 19) اور انہوں نے فرشتوں کو کہ وہ بھی خدا کے بندہ ہیں ( مادہ خدا کی بیٹیاں ) بنادیا میں ملائکہ کو اناث قرار دینے کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے ۔ شَّهَادَةُ : قول صادر عن علم حصل بمشاهدة بصیرة أو بصر . وقوله : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] ، يعني مُشَاهَدَةِ البصر ثم قال : سَتُكْتَبُ شَهادَتُهُمْ [ الزخرف/ 19] ، تنبيها أنّ الشّهادة تکون عن شُهُودٍ ، وقوله : لِمَ تَكْفُرُونَ بِآياتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] ، أي : تعلمون، وقوله : ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] ، أي : ما جعلتهم ممّن اطّلعوا ببصیرتهم علی خلقها، وقوله : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] ، أي : ما يغيب عن حواسّ الناس وبصائرهم وما يشهدونه بهما الشھادۃ ۔ ( 1 ) وہ بات جو کامل علم ویقین سے کہی جائے خواہ وہ علم مشاہدہ بصر سے حاصل ہوا ہو یا بصیرت سے ۔ اور آیت کریمہ : أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ [ الزخرف/ 19] کیا یہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ۔ میں مشاہدہ بصر مراد ہے اور پھر ستکتب شھادتھم ( عنقریب ان کی شھادت لکھ لی جائے گی ) سے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ شہادت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ [ آل عمران/ 70] اور تم اس بات پر گواہ ہو ۔ میں تشھدون کے معنی تعلمون کے ہیں یعنی تم اس بات کو یقین کے ساتھ جانتے ہو ۔ اور آیت کریمہ ۔ ما أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّماواتِ [ الكهف/ 51] میں نے نہ تو ان کو آسمان کے پیدا کرنے کے وقت بلایا تھا ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ اپنی بصیرت سے خلق آسمان پر مطع ہوجائیں اور آیت کریمہ : عالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهادَةِ [ السجدة/ 6] پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے ۔ میں غالب سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کا ادراک نہ تو ظاہری حواس سے ہوسکتا ہو اور نہ بصیرت سے اور شہادت سے مراد وہ اشیا ہیں جنہیں لوگ ظاہری آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٠۔ ١٥١) کیا بقول تمہارے ہم نے فرشتوں کو عورت بنایا ہے اور ان کے بننے کے وقت موجود تھے۔ بلکہ یہ اپنی سخن تراشی سے کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٠{ اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِکَۃَ اِنَاثًا وَّہُمْ شٰہِدُوْنَ } ” کیا واقعی ہم نے فرشتوں کو مونث بنایا تھا اور وہ اس کے گواہ ہیں ؟ “ کیا یہ آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:150) ام۔ یا۔ خواہ ۔ کیا۔ حرف عطف ہے استفہام کے معنی دیتا ہے اور کبھی بمعنی بل (حرف اضراب) یعنی بلکہ، اور کبھی بمعنی ہمزہ استفہام بھی آتا ہے اور کبھی ام زائدہ بھی ہوتا ہے۔ یہاں آیت ہذا میں بطور حرف اضراب بمعنی بل آیا ہے ۔ تبکیت (جھڑکی، ڈانٹ، سرزنش) سابقہ (آیت 37:11) پر مزید ڈانٹ پلائی گئی ہے پہلے انکار قیامت پر سرزنش تھی۔ اور اب ان کے اس قول پر کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں : ام خلقنا الملئکۃ اناثا :۔ ای بل خلقنا الملئکۃ الذین ہم من اشرف الخلائق واقواہم واعظمہم تقدسا عن النقائص الطبیعیۃ اناثا والانوثۃ من اخص صفات الحیوان۔ کیا ہم نے فرشتوں کو جو اشرف المخلوقات میں سے ہیں اور بڑے طاقت ور ، وعظیم المرتبت اور نقائص طبیعہ سے پاک ہیں مؤنث پیدا کیا۔ حالانکہ تانیث حیوانی صفات کی خسیس ترین صورت ہے۔ وہم شھدون۔ جملہ حالیہ ہے ای وانہم حاضرون حینئذ اور وہ اس وقت جب کہ ہم نے فرشتوں کو مؤنث تخلیق کیا یہ لوگ موجود تھے۔ یہ سوال استہزا آمیز ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یہ بہت ہی زیادہ جاہل ہیں اور انتہائی جہالت کی وجہ سے ایسی بات کہہ رہے ہیں !

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی کیا ان کی پیدائش کے وقت موجود تھے جو آج یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فرشتے عورت ذات اور اللہ کی بیٹیاں ہیں ؟۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی بلا دلیل فرشتوں پر انوثت کی تہمت رکھتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے شرک سے توبہ کی جس کے نتیجے میں عذاب سے بچ گئی۔ اہل مکہ کو اس واقعہ کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ اگر اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو شرک سے توبہ کرلو بصورت دیگر تباہی تمہارا مقدر ہوگی۔ قرآن مجید نے یہ بات واضح نہیں فرمائی کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کس قسم کے شرک میں ملوث تھی۔ تاہم آیات کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی دیگر اقسام کے ساتھ یونس (علیہ السلام) کی قوم میں یہ شرک بھی پایا جاتا تھا کہ وہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں خیال کرتے اور ان کے واسطے اور طفیل دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ جنّات کے بارے میں بھی ان کے ایسے ہی خیالات تھے جس طرح جنات کے بارے میں اہل مکہ کے خیالات تھے۔ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس گئے۔ جن کی اکثریت یا پھر تمام کے تمام لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کے حضور سچی توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔” اٰمَنُوْا “ کا لفظ استعمال فرما کر ثابت کیا ہے کہ شرک کا عقیدہ رکھنے والا شخص ایماندار نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ جنہیں ایک مدت تک مہلت دی گئی۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کے کتنے افراد تھے لیکن بات میں حسن پیدا کرنے کے لیے ” اَوْ یَزِیْدُوْنَ “ کے الفاظ ارشاد فرمائے جس میں حسن ہونے کے ساتھ بلاغت بھی پائی جاتی ہے تاکہ کلام سننے والے کے دل میں جستجو پیدا ہو۔ کلام کا رخ موڑکر اہل مکہ سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا ملائکہ کی پیدائش کے وقت یہ لوگ موجود تھے ؟ کہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مؤنث (FEMAIL) پیدا کیا ہے۔ آگاہ رہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور جو ان کے منہ میں آتا ہے کہے جارہے ہیں۔ حالانکہ کسی کو ” اللہ “ کی اولاد قرار دینا سب سے بڑا جھوٹ اور بہتان ہے۔ کیا یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کی بجائے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں ؟ ظاہر بات ہے کہ اگر اسے اولاد کی محبت اور اپنے لیے معاونین کی ضرورت ہوتی تو وہ بیٹیوں کی بجائے بیٹے پسند کرتا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی طرف سے ہی فیصلے کیے جاتے ہو۔ آخر فیصلہ کرنے کے لیے عقلی یا نقلی دلیل تو ہونی چاہیے۔ ہاں اگر تمہارے پاس عقلی یا مشاہداتی دلیل نہیں تو کسی مستند کتاب سے حوالہ پیش کرو۔ جس سے ثابت ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور کو اپنی اولاد کے طور پر پیدا کیا ہے۔ یہی تمہارا عقیدہ جنّات کے بارے میں ہے جس بنا پر جنات کو اللہ کا رشتہ دار ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ جنّات بھی جانتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کا حسب و نسب جوڑا اسے پوچھاجائے گا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا وہ مارا جائے گا۔ یاد رہے کہ اہل مکہ یہ بھی ہرزہ سرائی کرتے تھے کہ جنات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رشتہ داری ہے۔ جس سے ملائکہ کی شکل میں بیٹیاں پیداہوئی ہیں۔ اس سے اپنے آپ یہ بات نکلتی ہے کہ ” نعوذباللہ “ اللہ تعالیٰ بھی جنسی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ایسی خرافات ہیں کہ جس کے تصور سے ایک شریف آدمی کا دل کانپ جاتا ہے اس لیے معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی پکار اٹھتا ہے کہ سبحان اللہ کہ ہمارا رب ہر خواہش اور کمزوری سے مبرا اور پاک ہے یہ باتیں تو مشرک کیا کرتے تھے۔ جو لوگ عقیدہ اور عمل میں مخلص ہیں یعنی شرک سے نفرت اور اجتناب کرتے ہیں ان سے یہ بات کوئی نہیں کہلواسکتا ایسی باتیں تو وہی لوگ کرتے ہیں جن پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرما دیجیے کہ میری طرف اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک بڑی جماعت نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے پس ہم اس پر ایمان لائے۔ ہم آئندہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہر ائیں گے۔ کیونکہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے۔ اس کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد، یقیناً ہم میں سے بیوقوف لوگ اللہ کے بارے میں غلط باتیں کہتے ہیں۔ “ (الجن : ١ تا ٥) سنگین جرم : ” قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔ “ (٩٠، ٩١، ٩٢) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میری اولاد ہے اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا ہے۔ “ [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ )] جس سے رب ذوالجلال نے سوال کرلیا وہ پکڑا جائے گا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْءًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں کہ ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔ “ مسائل ١۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملائکہ اللہ کی اولاد ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ٢۔ لوگ بلا دلیل جنات اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے رشتہ دار بناتے ہیں۔ ٣۔ ایسا عقیدہ رکھنے والے جہنمی ہیں۔ ٤۔ اللہ کے مخلص بندے ایسی بات نہیں کہتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد اور ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔ (النحل : ١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ شریکوں سے بلند وبالا ہے۔ (النحل : ٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اللہ شریکوں کی شراکت سے بلند ہے۔ (المومنون : ٩٢) ٤۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے بالا ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا، رزق دیا، تمہیں مارے گا اور تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شرکا میں سے بھی کوئی ہے جو یہ کام کرسکے ؟ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (الروم : ٤٠) ٦۔ قیامت کے دن آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (الزمر : ٦٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام : ١٠١) ٨۔ عزیر (علیہ السلام) ” اللہ “ کے بیٹے نہیں اس کے بندے تھے۔ ( التوبۃ : ٣٠) ٩۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) اِلٰہ نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ : ٧٥) ١٠۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : ٩١، ٩٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61:۔ ام خلقنا الخ : کیا فرشتوں کو ہم نے ان کے سامنے مؤنث پید کیا ہے کہ وہ ان کو خدا کی بیٹیاں کہتے ہیں ؟ الا انہم الخ، اصل بات یہ ہے کہ اس پر ان کے پس کوئی دلیل نہیں۔ وہ محض جھوٹ بولتے ہیں۔ اور اللہ کی طرف والد کی نسبت کر کے اس کی ذات پاک پر محض افتراء کرتے ہیں۔ اور وہ اس دعوے میں سراسر جھوٹے ہیں۔ اصطفی البنات الخ، کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کے بجائے بیٹیوں کو منتخب کیا ہے ؟ تمہیں کیا ہوگیا، کیسا بیہودہ حکم لگ رہے ہو ؟ کیا تم سوچ سے ذرا کام نہیں لیتے ؟ ام لکم سلطان الخ، یا تمہارے پاس کوئی واضح دلیل بھی موجود ہے، تو لاؤ اگر تم سچے ہو تو وہ دلیل ہی پیش کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(150) یاہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا ہے اور وہ منکر ان کو بناتے وقت دیکھ رہے تھے یعنی ملائکہ کی انوثت پر ان کے پاس کوئی دلیل عقلی اور نقلی نہیں ہے اور نہ یہ ان کے پیدا کرتے وقت موجود تھے، جو آنکھوں کا دیکھا حال بیان کریں۔