Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 177

سورة الصافات

فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمۡ فَسَآءَ صَبَاحُ الۡمُنۡذَرِیۡنَ ﴿۱۷۷﴾

But when it descends in their territory, then evil is the morning of those who were warned.

سنو! جب ہمارا عذاب ان کے میدان میں اتر آئے گا اس وقت ان کی جن کو متنبہ کر دیا گیا تھا بڑی بری صبح ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then, when it descends in their courtyard, evil will be the morning for those who had been warned! means, when the punishment comes down to the place where they are, terrible will be the day of their punishment and destruction. As-Suddi said: فَإِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ (Then, when it descends in their courtyard), means, in their homes; فَسَاء صَبَاحُ الْمُنذَرِينَ (evil will be the morning for those who had been warned!) means, how terrible that morning will be for them. It was reported in the Two Sahihs that Anas, may Allah be pleased with him, said, "On the morning of Khyber, when the people came out with their tools (to go about their daily work) and saw the (Muslim) army, they went back and said, `Muhammad by Allah! Muhammad and the army!' The Prophet said: اللهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِين Allahu Akbar! Khyber has been destroyed. Then, when it descends in the courtyard of any people, evil will be the morning for those who had been warned!" وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتَّى حِينٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

177۔ 1 مسلمان جب خیبر پر حملہ کرنے گئے، تو یہودی انہیں دیکھ کر گھبرا گئے، جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ اکبر کہ کر فرمایا (خَربَتْ خیبرُ ، اِنَّا اِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ فَوْمِ فَسَاءَ صَبَاحْ الْمُنْذَرِیْنَ ) (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٧] کفار مکہ پر جو عذاب آتے رہے :۔ جس عذاب کے لئے کفار مکہ جلدی مچا رہے ہیں وہ آئے گا ضرور مگر اپنے مقرر وقت پر آئے گا۔ اور اس طرح آئے گا کہ ان کو یہ بھی معلوم نہ ہوسکے گا کہ کس طرف سے ان کی جڑ کٹ رہی ہے۔ چناچہ جنگ بدر کے موقع پر ابو جہل کے سوا اکثر سرداروں کا یہ خیال تھا کہ ہمارا تجارتی قافلہ محفوظ نکل گیا ہے تو اب ہمیں جنگ نہ کرنا چاہئے مگر ابو جہل اکیلا اس بات پر مصر تھا کہ ہم میدان میں نکل آئے ہیں تو ہمیں اب اسلام کا سر کچل کے دم لینا چاہئے۔ مگر اس کا یہی اصرار اس کی اپنی موت اور کفر کی کمر توڑنے کا سبب بن گیا بالکل ایسی ہی صورت حال جنگ احزاب کے موقع پر پیش آئی اور فتح مکہ تو حقیقتاً کفر کی موت تھی۔ اس کے بعد اعلان براءت نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ اتنی دفعہ تو ان لوگوں پر رسول اللہ کی زندگی میں عذاب آیا اور جوں جوں یہ لوگ عذاب سے دوچار ہوتے گئے۔ عذاب کے لئے جلدی مچانے کی باتیں از خود ہی ان کے دماغوں سے محو ہوتی گئیں۔ پہلا عذاب ہی دیکھنے کے بعد انہوں نے پھر کبھی عذاب مانگنے کا نام نہ لیا۔ پھر آپ کی زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے دین حق کو اور بھی زیادہ فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اور یہ فتح سیاسی بھی تھی اور اسلامی اقدار کی بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ : یعنی یہ عذاب ہر حال میں ان پر آکر رہے گا۔ پھر جب وہ ان کے صحن میں اتر آیا تو جن لوگوں کو عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے اور وہ جھٹلا رہے ہیں ان کی صبح بری ہوگی۔ صبح کا لفظ خاص طور پر اس لیے ذکر فرمایا کہ عرب عموماً صبح کے وقت حملہ کرتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول بھی یہی تھا۔ چناچہ انس (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ خَرَجَ إِلٰی خَیْبَرَ فَجَاءَ ہَا لَیْلاً ، وَ کَانَ إِذَا جَاءَ قَوْمًا بِلَیْلٍ لاَ یُغِیْرُ عَلَیْہِمْ حَتّٰی یُصْبِحَ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ، خَرَجَتْ یَہُوْدُ بِمَسَاحِیْہِمْ وَ مَکَاتِلِہِمْ ، فَلَمَّا رَأَوْہُ قَالُوْا مُحَمَّدٌ وَاللّٰہِ ! مُحَمَّدٌ وَ الْخَمِیْسُ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اَللّٰہُ أَکْبَرُ ، خَرِبَتْ خَیْبَرُ ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب دعاء النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إلی الإسلام۔۔ : ٢٩٤٥ ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خیبر کی طرف نکلے اور رات وہاں پہنچے اور آپ جب کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو صبح ہونے تک حملہ نہیں کرتے تھے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنی بیلچے اور ٹوکریاں لے کر نکلے۔ جب انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو کہنے لگے : ” محمد، اللہ کی قسم ! محمد اپنے لشکر کے ساتھ (آگئے) ۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ اکبر ! خیبر برباد ہوگیا، ہم لوگ جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنھیں پہلے ڈرایا جا چکا ہوتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی عذاب عموماً صبح کے وقت آتا تھا، جیسے قوم لوط کے متعلق فرمایا : (اِنَّ مَوْعِدَهُمُ الصُّبْحُ ۭ اَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيْبٍ ) [ ھود : ٨١ ] ” بیشک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے، کیا صبح واقعی قریب نہیں ؟ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

(آیت) فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَاۗءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ (پس جب وہ عذاب ان کے صحن میں آنا نازل ہوگا تو جن لوگوں کو پہلے ڈرایا جا چکا تھا ان کی وہ صبح بہت بری ہوگی) ساحة کے لفظی معنی صحن کے ہیں اور نزل بساحتہ (اس کے صحن میں اترا) عربی محاورہ ہے، جس کا مفہوم کسی آفت کا سامنے آجانا ہے اور صبح کے وقت کی تخصیص یہ ہے کہ اہل عرب میں دشمن کا حملہ عموماً اس وقت ہوا کرتا تھا۔ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول بھی یہی تھا کہ اگر کسی دشمن کے خطے میں رات کے وقت پہنچتے تو حملے کے لئے صبح کے وقت تک انتظار فرماتے تھے (مظہری) روایات میں ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلعہ خیبر پر صبح کے وقت حملہ کیا تو ارشاد فرمایا ” اللہ اکبر، خربت خیبر، انا اذ انزلنا بساحة قوم نساء صباح المنذرین (اللہ اکبر ! خیبر ویران ہوگیا، بلاشبہ جب ہم کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو جن لوگوں کو پہلے ڈرایا جا چکا تھا ان کی وہ صبح بہت بری ہوتی ہے) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمْ فَسَاۗءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ۝ ١٧٧ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ساح السَّاحَةُ : المکان الواسع، ومنه : سَاحَةُ الدّار، قال : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات/ 177] ، والسَّائِحُ : الماء الدّائم الجرية في ساحة، وسَاحَ فلان في الأرض : مرّ مرّ السائح قال : فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] ، ورجل سائح في الأرض وسَيَّاحٌ ، وقوله : السَّائِحُونَ [ التوبة/ 112] ، أي : الصائمون، وقال : سائِحاتٍ [ التحریم/ 5] ، أي : صائمات، قال بعضهم : الصّوم ضربان : حكميّ ، وهو ترک المطعم والمنکح، وصوم حقیقيّ ، وهو حفظ الجوارح عن المعاصي کالسّمع والبصر واللّسان، فَالسَّائِحُ : هو الذي يصوم هذا الصّوم دون الصّوم الأوّل، وقیل : السَّائِحُونَ هم الذین يتحرّون ما اقتضاه قوله : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج/ 46] . ( س ی ح ) الساحتہ کے معنی فراخ جگہ کے ہیں اسی اعتبار سے مکان کے صحن کو ساحتہ الدار کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے میدان میں اترے گا ۔ اور وسیع مکان میں ہمیشہ جاری رہنے والے پانی کو سائح کہا جاتا ہے اور ساح فلان فی الارض کے معنی پانی کی طرح زمین میں چکر کاٹنا کے ہیں قرآن میں ہے فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ [ التوبة/ 2] تو ( مشرکو تم ) زمین میں چار مہینے چل پھر لو ۔ اور اسی سے ہمیشہ سفر کرنے والے آدمی کو سائح یا سیاح کہا جاتا ہے ۔ اور آیت السَّائِحُونَ [ التوبة/ 112] روزہ رکھنے والے ۔ میں سائحون بمعنی کے ہے ۔ اسی طرح السائحات روازی رکھنے واکئ عورتیں مراد ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ روزہ دوقسم پر ہے ایک حقیقی روزہ جو کھانے پینے اور جماع کو ترک کرنے سے عبارت ہوتا ہے اور دوسرا روزہ حکمی ہے ۔ جو کہ جوارح یعنی انکھ کان ور زبان وغیرہ کو معاصی سے روکنے کا نام ہے ۔ تو سائیحون سے دوسری قسم کے روزہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ سائحون سے وہ لوگ مراد ہیں جو آیت : أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها [ الحج/ 46] . کیا ان لوگوں کے ملک میں سیر نہیں کہ تاکہ ان کے دل ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان ( ایسے ) ہوتے کہ ان سے سن سکتے ۔ کے مقتضیٰ کے تحت زمین میں سفر کرتے ہیں ( یعنی قدرت الہی کے آثار وعجائبات دیکھتے اور ان پر غور وفکر کرتے رہتے ہیں ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ نذر وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذر الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔ النذ یر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٧{ فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمْ فَسَآئَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ } ” تو جب وہ نازل ہوگا ان کے میدان میں تو وہ بہت بری صبح ہوگی ان لوگوں کی جنہیں خبردار کردیا گیا تھا۔ “ ” سَاحَۃ “ خیموں کے درمیان کھلی جگہ یا گھروں کے درمیان کھلے میدان کو کہا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں عام طور پر آبادی کے درمیان میں ایک بڑا پارک ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:177) ساحتہم مضاف مضاف الیہ ساحۃ سوح مادہ سے ہے۔ صحن۔ کھلی جگہ۔ چوک۔ اس کی جمع ساح وسوح وساحات ہے۔ ان کا صحن۔ فاذا نازل بساحتھم۔ جب وہ (عذاب) ان کے گھر کے صحن میں آنازل ہوگا۔ یعنی ان کے روبرو آنازل ہوگا۔ فساء ف ترتیب کا ہے۔ ساء یسوء سواء ۔۔ الشیئ۔ کسی چیز کا قبیح ہونا۔ برا ہونا۔ صباح۔ صبح۔ دن کا ابتدائی حصہ۔ مضاف المنذرین۔ اسم مفعول جمع مذکر جن کو ڈرایا گیا ہو۔ مضاف الیہ۔ فساء صباح المنذرین ۔ سو جن کا ڈرایا جا چکا ہے ان کی وہ صبح بہت بری ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 16 یعنی وہ صبح جس میں ان پر عذاب نازل ہوگا ان کے حق میں انتہائی بری ہوگی۔ عرب عموماً صبح کے وقت دشمن پر حملہ کرتے اس لئے صبح کا لفظ خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ ( قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(177) پھر جب وہ عذاب ان لوگوں کے میدان میں اترآئے گا تو جن کو ڈرایا گیا ہے ان کے لئے وہ وقت بہت برا وقت ہوگا۔ یعنی جب عذاب ان کے سامنے اور ان کے روبرو آنازل ہوگا تو وہ صبح یا وہ دن ان لوگوں کیلئے بہت برا ہوگا جو ڈرائے جاچکے ہیں یعنی منکروں کے لئے چونکہ عام طور سے صبح کے وقت مسلمان حملہ کرتے تھے اس لئے وہی اصطلاح عذاب کے لئے استعمال فرمائی۔ عرب کے لوگ ساحت بول کر قوم مراد لیتے ہیں۔ یعنی عذاب سامنے آموجود ہو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خیبرپر حملہ آور ہوئے تورات ہی کو پہنچ گئے مگر صبح تک انتظار کرتے رہے جب صبح ہوگئی اور لوگ گھروں سے نکلے تو انہوں نے کا قسم خدا کی یہ محمد اور ان کا لشکر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ اکبر خربت خیبرانا اذا انزلنا بساحۃ فساء صباح المنذرین۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے خیبر برباد ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر آتے ہیں تو جو لوگ ڈرائے گئے ہیں ان کے لئے وہ وقت بہت برا ہوتا ہے یعنی نازل شدہ عذاب ٹلتا نہیں۔