Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 31

سورة الصافات

فَحَقَّ عَلَیۡنَا قَوۡلُ رَبِّنَاۤ ٭ۖ اِنَّا لَذَآئِقُوۡنَ ﴿۳۱﴾

So the word of our Lord has come into effect upon us; indeed, we will taste [punishment].

اب تو ہم ( سب ) پر ہمارے رب کی یہ بات ثابت ہوچکی کہ ہم ( عذاب ) چکھنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَغْوَيْنَاكُمْ إِنَّا كُنَّا غَاوِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَحَــقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَآ ڰ اِنَّا لَذَاۗىِٕقُوْنَ : یہ پہلے تینوں جوابوں کے نتیجے میں چوتھا جواب ہے، یعنی ہم نے کفر پر قائم رکھنے کے لیے تم پر کوئی زبردستی نہیں کی، بلکہ اصل میں نہ تم ایمان والے تھے نہ ہم، جیسے ہم مجرم تھے ویسے ہی تم مجرم تھے، لہٰذا یہی انجام ہوا کہ دونوں عذاب کے مستحق ٹھ... ہرے اور کفر و شرک کی جزا کے طور پر ہمارے رب نے جس عذاب کا وعدہ کیا تھا کہ : (لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ ) [ السجدۃ : ١٣ ] ( یقیناً میں جہنم کو جنوں اور انسانوں، سب سے ضرور بھروں گا) وہ وعدہ ہم پر پورا ہوگیا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَحَــقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَآ۝ ٠ ۤۖ اِنَّا لَذَاۗىِٕقُوْنَ۝ ٣١ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ ... مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١۔ ٣٤) ہم سب پر ہمارے رب کا عذاب و ناراضگی ثابت ہوچکی ہے اب ہم سب کو دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھنا ہے۔ ہم نے تمہیں گمراہ کیا اور ہم خود بھی گمراہ تھے۔ وہ سب کے سب قیامت کے دن عذاب میں شریک رہیں گے ہم مشرکین کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١{ فَحَقَّ عَلَیْنَا قَوْلُ رَبِّنَآق اِنَّا لَذَآئِقُوْنَ } ” تو اب ثابت ہوگیا ہے ہم پر ہمارے رب کا قول ‘ اب تو ہمیں (عذاب کا ) مزہ چکھنا ہی ہوگا۔ “ اللہ تعالیٰ نے تو واضح طور پر فرما دیا تھا : { لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ } ( السجدۃ) ” میں بھر کر رہوں گا...  جہنم کو تمام (نافرمان ) جنوں اور انسانوں سے “۔ تو اللہ تعالیٰ کا وہ قول اب ہم پر واقع ہوچکا ہے اور ہم جہنم کے مستحق ہوچکے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:31) فحق علینا قول ربنا۔ پس ہمارے رب کا قول ہمارے خلاف سچ ثابت ہوگیا ہے۔ یا ہم پر لازم آگیا ہے ! حق کی تشریح کرتے ہوئے راغب اصفہانی (رح) تحریر فرماتے ہیں :۔ حق وہ قول یا عمل ہے جو اسی طرح واقع ہو جس طرح پر کہ اس کا واقع ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار اور جس وقت میں اس کا ہونا...  واجب ہے ! (1) چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے قرآن مجید میں ہے کذلک حقت کلمت ربک (10:33) اسی طرح خدا کا ارشاد ثابت ہو کر رہا ۔ (2) الحق۔ وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مثلاً ردوا الی اللہ مولہم الحق۔ (6:62) پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائے جائیں گے۔ (3) نیز ہر وہ چیز جو حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو حق ہے اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے۔ (4) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے حق کہلاتا ہے۔ چناچہ ہم کہتے ہیں کہ قیامت، سزاو جزا ، جنت و دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے قول سے کیا مراد ہے ؟ مندرجہ ذیل آیات پر غور کیجئے ! (1) وقیضنا لہم قرناء فزینوا لہم ما بین ایدیہم وما خلفہم وحق علیہم القول فی امم قد خلت من قبلہم من الجن والانس انہم کانوا خسرین۔ (41:25) اور ہم نے (شیطانوں کو) ان کا ہمنشین مقرر کیا۔ تو انہوں نے ان کے اگلے، پچھلے اعمال ان کو عمدہ کر دکھائے اور خدا کے عذاب کا وعدہ پورا ہوگیا ان پر ان فرقوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گذر چکے بیشک وہ تھے ٹوٹا پانے والے۔ نقصان اٹھانے والے۔ (2) قال الذین حق علیہم القول ربنا ھؤلاء الذین اغوینا (28:63) (اس پر) وہ لوگ کہیں گے جن پر (اللہ کا) قول ثابت ہوچکا ہوگا اے ہمارے پروردگار یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں بہکایا تھا۔۔ (3) ۔۔ ویحق القول علی الکفرین۔ (36:70) اور تاکہ کافروں پر (اللہ کا) قول ثابت ہوجائے۔ (4) فحق علینا قول ربنا (37:31) آیت ہذا۔ سو ہم (سب ) پر ہمارے پروردگار کا قول ثابت ہوگیا ہے :۔ مندرجہ بالا اور اس قبیل کی کئی دوسری آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ القول سے اللہ رب العزت کا کوئی خاص قول مراد ہے۔ اب مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ کریں ! (1) ولکن حق القول منی لاملئن جہنم من الجنۃ والناس اجمعین۔ لیکن میری طرف سے یہ قول قرار پا چکا ہے کہ میں دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھردوں گا۔ (2) قال فالحق والحق اقول لاملئن جہنم منک وممن تبعک منہم اجمعین۔ (38:84 ۔ 85) ۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا :۔ کہ سچ ہے اور میں بھی سچ کہتا ہوں کہ میں تجھ سے اور جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے سب سے میں جہنم کو بھر دوں گا :۔ تو معلوم ہوا کہ القول سے مراد فرمودہ رب العالمین : لاملئن جہنم۔۔ ہے۔ آیت ہذا (37:31) میں بھی قول سے مراد یہی ہے گمراہ کرنے والے پیشوا اور سردار اپنے پیروکاروں سے کہیں گے کہ تم نے بھی خود ہی سرکشی کی اور ہم بھی سرکش و نافرمان رہے۔ لہٰذا جہنم کا عذاب ہمارے اپنے ہی گناہوں کی پاداش میں ہم پر لازم ہوگیا ہے اور اس طرح سرکش وباغی جنوں اور انسانوں سے جہنم کا بھرا جانا ہم پر صادق آتا ہے اس طرح رب تعالیٰ کا قول پورا ہوگیا۔ انا لذائقون۔ لام تاکید کا ہے ذائقون اسم فاعل جمع مذکر ذوق مصدر سے چکھنے والے۔ (جب خداوند تعالیٰ کا قول پورا ہوگیا اور جہنم ہم پر لازم ہوگئی۔ تو اب ہم اس جہنم کے عذاب کا) مزہ چکھنے والے ہیں۔ (یعنی ہم سب گمراہ کرنے والے بھی اور گمراہ ہونے والے بھی  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 مالک کے فرمودہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ قول ہے جو اس نے حضرت آدم ( علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا : (لا ملان جھنم منک و ممن تبعک منھم اجمعین ) (کذافی الموضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فحق علینا ۔۔۔۔۔ کنا غوین (31 – 32) ” لہٰذا ہم لوگ اور تم لوگ دونوں عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ وہ ارادا اب ہم پر حق بن کر آگیا ہے۔ اب ہمارے لیے عذاب کا مزہ چکھنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ تم لوگ ہمارے ساتھ اسلیے آگئے تھے کہ تم ہمارے راتے پر چلنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ تم ہم... ارے پیچھے لگ گئے تھے  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مجرمین کا اقرار کہ ہم عذاب کے مستحق ہیں (فَحَقَّ عَلَیْنَا قَوْلُ رَبِّنَا اِِنَّا لَذَاءِقُوْنَ ) (سو ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوگئی بلاشبہ ہم سب چکھنے والے ہیں) یعنی ہمارے خالق اور مالک نے جو کافروں کے لیے جہنم کا داخلہ طے فرما دیا تھا اسی کے مطابق ہمیں اور تمہیں عذاب چکھنا ہوگا۔ (فَاَغْوَیْنَا... کُمْ اِِنَّا کُنَّا غَاوِیْنَ ) (سو ہم نے تم کو بہکا دیا بیشک ہم بھی گمراہ تھے) تم بھی کافر تھے اور ہم بھی، اب عذاب سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں ہمیں الزام دے کر تمہارا بچاؤ نہیں ہوسکتا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ فحق علینا الخ تم اور ہم چونکہ سب ہی مومن نہیں تھے اس لیے ہم سب کے لیے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ آج ہم لامحالہ اللہ کے عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ ہمارے اور تمہارے لیے آج عذاب خداوندی کا فیصلہ قطعی ہے اس لیے آج ہم کسی طرح بھی تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا کستے۔ کیونکہ ہم خود مستحق عذاب ہیں۔ نیز ... تم ہمیں ملامت نہ کرو کیونکہ تم بھی ہمارے ساتھ برابر کے مجرم ہو۔ انا لذائقون یہ قول ربنا کا بیان ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) سو اب ہم سب پر ہمارے پروردگار کا وہو قول اور وہ کلمہ ثابت ہو کر رہا جس کا خلاصہ اور جس کا ما حاصل یہ سب عذاب کا مزہ چکھنے والے ہیں یعنی وہی ازلی بات کہ لاملئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعین۔ یعنی اس نے اپنے علم ازلی کی بنا پر جو فرمایا تھا کہ میں جہنم کو شیاطین اور انسانوں سے بھردوں گا جس کا خلا... صہ یہ ہے کہ ہم سب خواہ تابع ہوں یا متبوع سب ہی عذاب کا مزہ چکھنے والے ہیں اور اس کے اسباب یوں ہوئے۔  Show more