Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 33

سورة الصافات

فَاِنَّہُمۡ یَوۡمَئِذٍ فِی الۡعَذَابِ مُشۡتَرِکُوۡنَ ﴿۳۳﴾

So indeed they, that Day, will be sharing in the punishment.

سو اب آج کے دن تو ( سب کے سب ) عذاب میں شریک ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then verily, that Day, they will (all) share in the torment. means, all of them will be in Hell, each according to what he deserves. إِنَّا كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 اس لئے کہ ان کا جرم بھی مشترکہ ہے مشرک اور شر و فساد ان سب کا وطیرہ تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنَّهُمْ يَوْمَىِٕذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ : یعنی پیروی کرنے والے بھی اور پیشوا بھی، گمراہ ہونے والے بھی اور گمراہ کرنے والے بھی، سب اپنی اپنی گمراہی کے مطابق عذاب میں شریک ہوں گے، جیسے گمراہی میں شریک تھے۔ کسی کا کوئی عذر قبول کر کے اسے معافی نہیں دی جائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

2. From verse 33: فَإِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِ‌كُونَ (So, this day, they will be sharers in the punishment.), we learn that should a certain person invite someone else to participate in what is impermissible and use his clout to coax him into sin, then, he will certainly incur the punishment of so inviting that person to sin. But, a person who accepts his invitation of his volition and choice, he too cannot be absolved from the sin of his deed. He cannot appear in the Hereafter and get away by saying that he was made to go astray by this or that person. Yes, if he has not committed sin by his volition and choice, instead, has done so under coercion, just to save his life, then, insha&Allah, it is hoped that he will be forgiven.

(٢) (آیت) فانھم یومئذ فی العذاب مشترکون سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ناجائز کام کی دعوت دے اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تو اسے دعوت گناہ کا عذاب تو بیشک ہوگا، لیکن جس شخص نے اس کو دعوت کو اپنے اختیار سے قبول کرلیا وہ بھی اپنے عمل سے بری نہیں ہو سکتا۔ وہ آخرت میں یہ کہہ کر چھٹکارا نہیں پاسکتا کہ مجھے تو فلاں شخص نے گمراہ کیا تھا، ہاں اگر اس نے گناہ کا ارتکاب اپنے اختیار سے نہ کیا ہو بلکہ جبر واکراہ کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لئے کرلیا ہو تو انشاء اللہ اس کی معافی کی امید ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنَّہُمْ يَوْمَىِٕذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ۝ ٣٣ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣{ فَاِنَّہُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ } ” تو اس دن وہ سب کے سب عذاب میں شریک ہوں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 That is, the followers as well as the guides, misleaders as well as the misled, All shall suffer the same torment. Neither will the followers' excuse be heeded that they did not go astray but had been led astray, nor the guides' excuse accepted that the people themselves were not desirous of following the right way.

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :20 یعنی پیرو بھی اور پیشوا بھی ، گمراہ کرنے والے بھی اور گمراہ ہونے والے بھی ، ایک ہی عذاب میں شریک ہوں گے ۔ نہ پیروؤں کا یہ عذر مسموع ہو گا کہ وہ خود گمراہ نہیں ہوئے تھے بلکہ کیا گیا تھا ۔ اور نہ پیشواؤں کی اس معذرت کو قبول کیا جائے گا کہ گمراہ ہونے والے خود ہی راہ راست کے طالب نہ تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:33) فانہم جمع مذکر غائب کی ضمیر ہر دو فریقین کی طرف راجع ہے جو یہ سوال و جواب کر رہے ہوں گے ! یعنی گمراہ کنندگان و گمراہ شدگان۔ یومئذ۔ وہ دن۔ جس دن وہ آپس میں سوال و جواب کرتے ہوں گے : یعنی روز قیامت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی پیروی کرنے والے بھی اور پیشوا بھی گمراہ ہونے والے بھی اور گمراہ کرنے والے بھی سب ہی اپنی اپنی گمراہی کے مطابق عذاب میں شریک ہوں گے جیسے گمراہی میں شریک تھے۔ کسی کا کوئی عذر قبول کر کے اسے معافی نہیں دی جائیگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاغوینکم انا کنا غوین (37: 32) ” سو ہم نے تم کو بہکایا ، ہم خود بہکے ہوئے تھے “۔ اب یہاں اس صورت حال ہر ایک دوسرا تبصرہ آتا ہے۔ یہ گویا عدالت ، کھلی عدالت کا ایک فیصلہ ہے۔ جس کے اندر دلائل بھی موجود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں یہ لوگ ایسے کام کرتے رہے۔ اس لیے آخرت میں ان کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا گیا : فانھم یومئذ فی ۔۔۔۔۔۔ ب (34 – 36) ۔ اور یہ تبصرہ اور یہ فیصلہ ان لوگوں کی سرزنش پر ختم ہوتا ہے جنہوں نے دنیا میں یہ رائے اختیار کی تھی جبکہ یہ رائے نہایت ہی گھٹیا رائے تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اتباع اور تابعین سب عذاب میں مشترک ہوں گے (فَاِِنَّہُمْ یَوْمَءِذٍ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ ) (ارشاد خداوندی ہے کہ وہ سب لوگ تابع اور متبوع، بڑے اور چھوٹے اس دن عذاب میں شریک ہوں گے) (اِنَّا کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بالْمُجْرِمِیْنَ ) (بلاشبہ ہم مجرمین کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں) مشرکوں اور کافروں کے لیے عذاب طے شدہ ہے جس میں وہ ضرور مبتلا ہوں گے۔ (اِِنَّہُمْ کَانُوْا اِِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ) (بےشک جب ان کے سامنے معبود برحق کی الوہیت کی دعوت دی جاتی تھی اور ان کے سامنے مضمون لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ بیان کیا جاتا تھا تو تکبر کرتے تھے یعنی اس کلمہ کے ماننے سے نفرت کرتے تھے اور اس کے قبول کرنے میں اپنی ہتک سمجھتے تھے، اس طرح توحید کا انکار کرتے تھے) (وَیَقُوْلُوْنَ اَءِنَّا لَتَارِکُوْا اٰلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ) (اور یوں کہتے تھے کیا ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ایک شاعر دیوانہ کی وجہ سے) اس میں رسالت کا انکار ہے، انکار توحید اور انکار رسالت دنیا میں دونوں باتوں پر جمے رہتے تھے، اس طرح مجرم بن کر آخرت میں اللہ کے دربار میں پہنچیں گے اور عذاب بھگتیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(33) پس وہ سب کے سب اس دن عذاب میں مشترک ہوں گے۔