Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 84
سورة الصافات
اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾
When he came to his Lord with a sound heart
جبکہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل لائے ۔
اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾
When he came to his Lord with a sound heart
جبکہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل لائے ۔
When he came to his Lord with a Salim heart. Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "This means that he bore witness that none has the right to be worshipped except Allah." Ibn Abi Hatim recorded that `Awf said, "I said to Muhammad bin Sirin, `What is the Salim heart?' He said, `One which knows that Allah is true and that the Hour will undoubtedly come to pass, and that Allah will resurrect those who are in the graves."' Al-Hasan said, "One that is free from Shirk." Urwah said, "One that is not cursed." إِذْ قَالَ لاَِبِيهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ
[٤٨] یعنی اپنے معاشرہ، اپنے ماحول، اپنے گھر والوں سب قسم کے لوگوں کے عقائد و رسومات سے بالکل خالی الذہن ہو کر اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے حوالے کردیا کہ جو کچھ تیری طرف سے ہدایت یا حکم ملے میں اسے بلاچوں و چرا تسلیم کروں گا اور سر تسلیم خم کر دوں گا۔
اِذْ جَاۗءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِـيْمٍ : جب اس نے نوح (علیہ السلام) کی طرح شرک، شک، منافقت، حسد، بغض، سرکشی اور ہر روگ سے پاک دل لے کر نہایت اخلاص اور عاجزی کے ساتھ اپنے رب کی طرف رجوع کیا۔
In verse 84, it was said: إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ (when he came to his Lord with a pure heart). Here, &coming to his Lord& means &to turn to Allah, to zero in one&s attention towards Him and to worship Him.& By placing the restriction of &with a pure heart& it has been indicated that no act of devotion (ibadah) to Allah is acceptable until the heart of the devotee is cleansed pure from false beliefs and ill intentions. If a certain act of devotion is performed while laced with some false belief, then, no matter how hard the devotee has worked in this process, it will still not be acceptable. Similarly, if the main purpose of the devotee happens not to be the seeking of the sole pleasure of Allah - but, is a simple show off or some material gain, then, that act of devotion is not praiseworthy. The passion with which Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) turned towards Allah was free of all such adulterations.
اِذْ جَاۗءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِـيْمٍ ، اس کے ٹھیٹھ لفظی معنی یہ ہیں : ” جبکہ وہ آئے اپنے پروردگار کے پاس صاف دل لے کر “ اور پروردگار کے پاس آنے سے مراد ہے، اللہ کی طرف رجوع کرنا، اس کی طرف متوجہ ہونا اور اس کی عبادت کرنا۔ اس کے ساتھ ” صاف دل “ کی قید لگا کر اشارہ کردیا گیا ہے کہ اللہ کی کوئی عبادت اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے جب تک کہ عبادت کرنے والے کا دل غلط عقیدوں اور برے جذبات سے پاک نہ ہو، اگر غلط عقیدے کے ساتھ کوئی عبادت کی جائے تو خواہ عبادت گزار نے اس میں کتنی محنت اٹھائی ہو وہ قابل قبول نہیں۔ اسی طرح اگر عبادت کرنیوالے کا اصل مقصد اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے دکھلاوا ہو یا کوئی مادی منفعت ہو تو وہ عبادت قابل تعریف نہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا رجوع الی اللہ ان تمام ملاوٹوں سے پاک تھا۔
اِذْ جَاۗءَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِـيْمٍ ٨٤ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔
(٨٤۔ ٨٧) جبکہ ابراہیم اپنے پروردگار کی اطاعت کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوئے جبکہ انہوں نے اپنے باپ آزر اور اپنی بت پرست قوم سے فرمایا کہ تم اللہ کے علاوہ کس بیہودہ چیز کی عبادت کیا کرتے ہو قوم کہنے لگی بتوں کی طرف حضرت ابراہیم نے فرمایا کیا جھوٹ موٹ کے معبودوں کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ سو تمہارا رب العالمین کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جب تم اس کے علاوہ دوسروں کی عبادت کرو گے تو وہ تمہیں کیا بدلہ دے گا۔
آیت ٨٤{ اِذْ جَآئَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ } ” جب وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا قلب ِسلیم کے ساتھ۔ “ توحید کی معرفت کے حوالے سے انسان کی فطر تِ سلیمہ اور عقل سلیم کا ذکر قرآن حکیم کے اس مطالعے کے دوران اس سے پہلے بھی متعدد بار ہوچکا ہے۔ فطرت کا تعلق چونکہ روح سے ہے اور روح کا مسکن قلب انسانی ہے اس لیے یوں سمجھ لیں کہ فطرتِ سلیمہ اور قلب سلیم انسان کی ایک ہی کیفیت کا نام ہے۔ یعنی انسانی دل کی وہ کیفیت جس میں اس کی روح اور فطرت اپنی اصلی حالت میں ہو ‘ اس کے اصل خدوخال صحیح سلامت ہوں ‘ اس پر غفلت اور مادیت کے پردے نہ پڑچکے ہوں اور وہ مسخ (perverted) نہ ہوچکی ہو۔ انسانی فطرت کی اس کیفیت کے لیے صوفیاء ” سیر الی اللہ “ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ایک انسان ایسے قلب سلیم کے ساتھ جب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو عقل سلیم کی روشنی میں اسے توحید کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر وہ اس سے آگے بڑھ کر ” معاد “ یعنی آخرت کے فلسفے کی تہہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں قبل ازیں متعدد بار سورة الفاتحہ کا حوالہ بھی دے چکا ہوں کہ سورة الفاتحہ ایک ایسے ہی انسان کی فطرت کی پکار ہے جو اللہ اور توحید کی معرفت بھی حاصل کرچکا ہے ‘ آخرت کی اہمیت و ضرورت کا بھی قائل ہوچکا ہے اور اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا ہے کہ ” اللہ کی بندگی “ ہی اصل طریقہ زندگی ہے ‘ مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ اللہ کی بندگی کیسے کی جائے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بہت سے ایسے ” موحدین “ مکہ میں موجود تھے۔ مثلاً حضرت عمر کے بہنوئی حضرت سعید (رض) کے والد زید ایک ایسے ہی موحد تھے جو کعبے کے پردوں سے لپٹ کر دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں صرف تیری بندگی کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر میں نہیں جانتا کہ تیری بندگی کیسے کروں۔ سورة الفاتحہ کے نظم پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی فطرتِ سلیمہ ہی کی پکار ہے جس کو قرآن نے { اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } کے الفاظ عطا کیے ہیں۔ یعنی فطرتِ سلیمہ کا حامل ایک انسان اپنی عقل سلیم کی مدد سے { اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } تک پہنچ گیا۔ یعنی اس نے اللہ کو پہچان لیا ہے اور اس کے لیے شکر و ثنا کے جذبات کی کو نپلیں بھی اس کے دل میں پھوٹ پڑی ہیں۔ اس نے اپنے اللہ اور اپنے رب کو ایک { الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ } ذات کے طور پر بھی پہچان لیا ہے ‘ اسے { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ } کا عرفان بھی حاصل ہوگیا ہے۔ گویا اس کی فطرتِ سلیمہ نے نہ صرف اسے آخرت کے احتساب کی ضرورت اور منطق بھی سمجھا دی ہے ‘ بلکہ یہ لطیف نکتہ بھی اس کے دل میں بٹھا دیا ہے کہ وہی اللہ جو ربّ العالمین ہے ‘ جس کی رحمت اور مہربانی سے اس کائنات کی ایک ایک چیز قائم ہے ‘ وہی اللہ احتساب اور بدلے کے دن کا مالک بھی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر گویا اس کی زبان بےاختیار { اِیَّاکَ نَعْبُدُ َواِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } کا اقرار کرتی ہے ‘ مگر اس سے آگے اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اس کی فطرتِ سلیمہ اس راستے پر اسے صرف اسی مقام تک راہنمائی فراہم کرسکتی تھی اور اس کی عقل سلیم کی پرواز بس یہیں تک تھی۔ اس سے آگے نور وحی کی راہنمائی درکار ہے۔ چناچہ اس کے منہ میں یہ دعائیہ الفاظ ڈال دیے گئے : { اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ } کہ اے اللہ ! اے ربّ العالمین ! اب تو خودہماری دستگیری فرما ! ہمیں اپنی بندگی کی ہدایت بھی دے اور اس رستے پر چلنے کے لیے مدد اور توفیق بھی مرحمت فرما ‘ تاکہ ہم تیری بندگی کا حق ادا کرسکیں۔ اس دعا کے جواب میں پھر قرآن کی صورت میں اسے یہ راہنمائی مہیاکر دی گئی۔
44 "Approached his Lord": Turned to his Lord sincerely and exclusively; "with a sound heart": with a heart that was free from all kinds of moral evils and weaknesses of faith, free from every trace of unbelief and shirk, doubt and suspicion, from every feeling of disobedience and rebellion, from every crookedness, confusion and complexity, and free from every evil inclination and desire, and a heart that neither cherished any malice and jealousy and ill-will against anyone, nor had any evil intention.
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :44 رب کے حضور آنے سے مراد اس کی طرف رجوع کرنا اور سب سے منہ موڑ کر اسی کا رخ کرنا ہے ۔ اور قلب سلیم کے معنی صحیح سلامت دل کے ہیں ۔ یعنی ایسا دل جو تمام اعتقادی اور اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو ، جس میں کفر و شرک اور شکوک و شبہات کا شائبہ تک نہ ہو ، جس میں نافرمانی اور سرکشی کا کوئی جذبہ نہ پایا جاتا ہو ، جس میں کوئی ایچ پیچ اور الجھاؤ نہ ہو ، جو ہر قسم کے برے میلانات اور ناپاک خواہشات سے بالکل صاف ہو ، جس کے اندر کسی کے لیے بغض و حسد یا بد خواہی نہ پائی جاتی ہو ، جس کی نیت میں کوئی کھوٹ نہ ہو ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :45 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قصے کی مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، ص 552 تا 560 ۔ جلد سوم ص 69 ۔ 70 ۔ 163 تا 170 ۔ 499 تا 506 ۔ 686 تا 694 ۔
(37:84) اذ جاء ربہ۔ اذ متعلق بہ فعل محذوف ای اذکر اذ جاء ربہ اذ جاء ربہ بمعنی اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا۔ قلب سلیم۔ موصوف وصفت، ایسا دل جو مفسد عقائد، قبیح صفات اور دنیاوی آلائش سے پاک وصاف تھا۔ یاد کرو جب وہ اپنے پروردگار کی طرف قلب سلیم کے ساتھ متوجہ ہوا۔
ف 9 اپنے مالک کے پاس آنے سے مراد ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف متوجہ ہونا ہے اور پاک دل سے مراد ایسا دل ہے جو شرک، کفر، بدعت شکوک و شبہات اور ہر قسم کے اعتقادی یا عملی خرابی سے پاک ہو۔
4۔ صاف دل کا مطلب یہ کہ سوء عقائد دریا وغیرہ سے پاک تھا، جس کا حاصل توحید خالص و اخلاص کامل ہے۔
ابراہیم (علیہ السلام) کی صفات میں قلب کی سلامتی ، عقیدے کی راستی اور خلوص ممتاز صفات ہیں۔ اذ جآء ربہ بقلب سلیم (37: 84) ” جب وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم لے کر آیا “۔ قلب سلیم کیا چیز ہے ؟ پوری طرح اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا۔ اللہ کے ساتھ پوری محبت رکھنا۔ صاف ستھری ، سیدھی روش سلامت قلبی ہے۔ قلب سلیم کی تعبیر نہایت معنی خیز اور اپنے مفہوم کی واضح تصویر لیے ہوئے ہے۔ تعبیر سادہ اور قریب الفہم بھی ہے اور واضح بھی۔ قلب سلیم کے اندر صفائی ، اخلاص ، سیدھا پن اور پاکیزگی کے مفاہیم شامل ہیں۔ یہ لفظ بہت ہی سادہ ہے۔ پیچیدہ نہیں۔ اور مذکورہ تمام معانی پر عادی ہے جبکہ مذکورہ الفاظ کے اندر اس قدر جامعیت نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کا انوکھا انداز تعبیر ہے۔ یہ قلب سلیم ہی تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی قوم کے عقائد کو ناپسند کیا۔ انسان جب صحت مند سوچ رکھتا ہے اور سلیم الفطرت ہوتا ہے تو وہ ازروئے طہارت قلب ناپسندیدہ چیز کو ناپسند کرتا ہے۔ تصور میں بھی اور عمل میں بھی۔
(اِِذْ جَاءَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ ) (جبکہ وہ اپنے رب کے پاس قلب سلیم لے کر آئے) سلیم سالم کے معنی میں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا دل لے کر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوئے کہ عقائد بالکل صحیح تھے، نیت خالص تھی، صفات قبیحہ مثلاً حسد، کھوٹ کپٹ سے خالی تھے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک گفتگو کا تذکرہ فرمایا جو ان کے اور ان کی قوم کے درمیان ہوئی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس چیز کی پرستش کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ ہم بتوں کو پوجتے ہیں، کما ذکر فی سورة الشعراء۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم اللہ کو چھوڑ کر جھوٹ موٹ کے معبودوں کو چاہتے ہو ؟ (فَمَا ظَنُّکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ) سو رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ تم اس کی عبادت بالکل ہی نہیں کرتے یا اس کی عبادت تو کرتے ہو لیکن ساتھ ہی بتوں کو بھی شریک بنا رکھا ہے یعنی ساتھ ہی ان کی بھی عبادت کرتے ہو۔ صاحب روح المعانی نے اس کا ایک یہ مطلب لکھا ہے کہ تمہارا اللہ تعالیٰ کے بارے میں کیا خیال ہے، کیا وہ تمہاری اس جرأت پر عذاب نہ دے گا کہ تم نے جھوٹے معبود بنالیے اور تمہیں کچھ بھی ڈر نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بت پرست تھی اور بت پرست اقوام کی طرح میلے لگتے تھے، ایک مرتبہ قوم اپنے بتوں کے سامنے کھانا رکھ کر میلے میں شریک ہونے کے لیے چلی گئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ تم بھی چلو، چونکہ یہ لوگ ستاروں کی تاثیر کے قائل تھے اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے پیچھا چھڑانے اور ان کے پیچھے ان کے بتوں کی توڑ پھوڑ کے لیے ستاروں کی طرف ایک نظر دیکھا اور فرمایا کہ میں تو بیمار ہونے والا ہوں تمہارے ساتھ کیسے جاؤں، وہ لوگ آپ کو چھوڑ کر چلے گئے آپ نے ان کے پیچھے بت خانہ کا رخ کیا اور وہاں جاکر اول تو ان بتوں کا مذاق بنایا اور فرمایا کیا بات ہے کہ تم کھاتے نہیں ہو ؟ (کھانے کی چیزیں وہاں پہلے سے رکھی ہوئی تھیں، مشرکین وہاں متبرک بنانے کے طور پر رکھ کر گئے تھے تاکہ واپس ہو کر کھائیں) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں سے یہ بھی کہا کیا بات ہے تم بولتے نہیں ؟ بت تو بت ہیں کیا جواب دیتے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان پر کلہاڑا لے کر پل پڑے اور مار مار کر ان کا تیہ پانچہ کردیا اور توڑ کر رکھ دیا۔ اس میں جو لفظ بالیمین وارد ہوا ہے اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں، اول یہ ہے کہ داہنے ہاتھ سے حملہ کیا اور دوسرے یہ کہ پوری قوت کے ساتھ مار بجائی۔ جب وہ لوگ میلہ سے واپس ہوئے اور بتوں کو اس حال میں پایا کہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے گئے ہیں، تو اول تو آپس میں پوچھنے لگے کہ یہ کس نے کیا ہے ؟ پھر کہنے لگے کہ ہاں وہ ایک نوجوان جسے ابراہیم کہا جاتا ہے وہ ایک دن کہہ رہا تھا کہ میں ایک دن ان کے بارے میں ایک تدبیر نکالوں گا، ہو نہ ہو ایسا کام کرنے والا ابراہیم ہی ہوگا، کہنے لگے اسے بلاؤ سب لوگوں کے سامنے بات ہوگی، اس مشورے کے بعد جلدی جلدی حضرت ابراہیم کے پاس دوڑے ہوئے آئے اور آپ سے دریافت کیا کیا تم نے ہمارے بتوں کے ساتھ ایسا کیا ہے ؟ فرمایا یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے انہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں ؟ کہنے لگے تم جانتے ہو یہ تو بولتے نہیں ہیں ! فرمایا تو کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی پوجا کرتے ہو جو تمہیں کچھ بھی نفع اور ضرر نہیں پہنچا سکتے، تف ہے تم پر اور تمہارے معبودوں پر، یہ سوال اور جواب سورة الانبیاء میں مذکور ہے۔ یہاں سورة الصافات میں فرمایا ہے (قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ ) کیا تم ان چیزوں کی عبادت کرتے ہو جنہیں خود ہی تراش کر اور کاٹ چھانٹ کرکے بنا لیتے ہو (وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ) اور حال یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا اور جن چیزوں کو تم بناتے ہو انہیں بھی اسی نے پیدا فرمایا ہے۔ مشرکین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کا دلیل سے تو جواب نہ دے سکے البتہ آپس میں یہ طے کیا کہ ان کے لیے ایک مکان بناؤ یعنی ایک چار دیواری تیار کرو، پھر اس میں بہت زیادہ آگ جلاؤ اور اس شخص کو اس آگ میں ڈال دو ۔ چنانچہ انہوں نے ایک بڑی جگہ بنائی اور اس میں خوب آگ جلائی پھر منجنیق کے ذریعے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ میں ڈال دیا، آگ کو اللہ کا حکم ہوا کہ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا، ابراہیم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، چناچہ آگ اللہ کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بال بھی بیکا نہ ہوا، اب تو دشمنوں نے منہ کی کھائی، سب حیران رہ گئے۔ اسی کو فرمایا (فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاھُمُ الْاَسْفَلِیْنَ ) (سو ان لوگوں نے ابراہیم کو تکلیف پہنچانے کی تدبیر کی سو ہم نے ان لوگوں کو نیچا کردیا) وہ ذلیل ہوئے اور سب نے نیچا دیکھا۔ اس قصہ کی تفصیل سورة الانبیاء (رکوع ٤) میں بھی گزر چکی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو (اِنِّیْ سَقِیْمٌ) فرمایا تھا اس کے بارے میں بھی وہاں ضروری بحث لکھ دی گئی، مطالعہ کرلیا جائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو ستاروں کی طرف دیکھ کر اپنی قوم کو جواب دیا کہ میں بیمار ہونے والا ہوں، تو ستاروں کی طرف کیوں دیکھا اور کیا ستاروں سے انسانوں کے احوال اور امراض اور اسقام کا کوئی تعلق ہے ؟ پہلی بات کا جواب اوپر گزر چکا ہے کہ چونکہ وہ لوگ ستاروں کو مانتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہمارے حالات کا ستاروں سے تعلق ہے اس لیے ستاروں کو بہانہ بنا کر ان لوگوں کو چلتا کردیا اور خود وہیں رہ گئے۔ اب رہا دوسرا سوال تو اس کے بارے میں حضرت حکیم الامت قدس سرہ، ” بیان القرآن “ میں لکھتے ہیں کہ علم نجوم شرعاً مذموم ہے خواہ اس وجہ سے کہ وہ باصلہ باطل ہے اور کواکب میں سعادت و نحوست منفی ہے اور یا اس وجہ سے مذموم ہے کہ کواکب کو سعادت اور نحوست میں گو ثبوت عدم نہ ہو مگر عدم ثبوت ہے اور اس کے قواعد کسی دلیل صحیح کی طرف مستند نہیں اور پھر مفاسد کثیرہ اس پر مرتب ہوتے ہیں اعتقاد قبیح اور شرک صریح اور ضعف توکل علی اللہ اور ترک علوم نافعہ وغیرہ ذلک۔ حاصل یہ ہے کہ علم نجوم مذموم ہے خواہ قبح لعینہ کی وجہ سے مذموم ہو خواہ قبح لغیرہ کی وجہ سے۔ (انتہیٰ ملخصا)
(84) ابراہیم کا وہ واقعہ قابل ذکر ہے جب وہ اپنے پروردگار کی جانب بےعیب اور نروگا دل لے کر متوجہ ہوا اور اس کے روبرو آیا۔ نرد گا حضرت شاہ صاحب (رح) کا لفظ ہے یعنی کوئی روگ حضرت ابراہیم کے قلب میں نہ تھا۔ حضرت شاہ صاحب موضح القرآن میں فرماتے ہیں یعنی گمراہی اور عیب سے پاک۔ خلاصہ : یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک ایسا صحیح اور سالم دل لے کر حاضر ہوئے جو ہر قسم کی آلائش شرکیہ سے پاک وصاف اور توحید ساوج سے لبریز تھا حضرت ابراہیم کے بہت تفصیلی واقعات قرآن کریم میں کسی مقام پر گزر چکے ہیں۔