Surat us Saaffaat
Surah: 37
Verse: 88
سورة الصافات
فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۸۸﴾
And he cast a look at the stars
اب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی ۔
فَنَظَرَ نَظۡرَۃً فِی النُّجُوۡمِ ﴿ۙ۸۸﴾
And he cast a look at the stars
اب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے ایک نگاہ ستاروں کی طرف اٹھائی ۔
Allah says: فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ
بت کدہ آذر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جب اپنے میلے میں چلے جائیں تو یہ ان کے عبادت خانے میں تنہارہ جائیں اور ان کے بتوں کو توڑ نے کا تنہائی میں موقعہ مل جائے ۔ اسی لیے ایک ایسی بات کہی جو درحقیقت سچی بات تھی لیکن ان کی سمجھ میں جو مطلب اس کا آیا اس سے آپ نے اپنا دینی کام نکال لیا ۔ وہ تو اپنے اعتقاد کے موجب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سچ مچ بیمار سمجھ بیٹھے اور انہیں چھوڑ کر چلتے بنے ۔ حضرت فتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں ۔ مطلب یہ ہے کہ غور وفکر کے ساتھ تاروں کی طرف نگاہ اٹھائی ۔ اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں ۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں سقم ہوں یعنی ضعیف ہوں ۔ ایک حدیث میں آیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین ہی جھوٹ بولے ہیں جن میں سے دو تو اللہ کے دین کے لیے ان کا فرمان ( فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ 89 ) 37- الصافات:89 ) اور ان کا فرمان ( قَالَ بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ 63 ) 21- الأنبياء:63 ) اور ایک ان کا حضرت سارہ کو اپنی بہن کہنا ۔ تو یاد رہے کہ دراصل ان میں حقیقی جھوٹ ایک بھی نہیں ۔ انہیں تو صرف مجازاً جھوٹ کہا گیا ہے کلام میں ایسی تعریفیں کسی شرعی مقصد کے لیے کرنا جھوٹ میں داخل نہیں ، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ تعریض جھوٹ سے الگ ہے اور اس سے بےنیاز کردیتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے ان تینوں کلمات میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس سے حکمت عملی کے ساتھ دین اللہ کی بھلائی مقصود نہ ہو ۔ حضرت سفیان فرماتے ہیں میں بیمار ہوں سے مطلب مجھے طاعون ہوگیا ہے ۔ اور وہ لوگ ایسے مریض سے بھاگتے تھے ۔ حضرت سعید کا بیان ہے کہ اللہ کے دین کی تبلیغ ان کے جھوٹے معبودوں کی تردید کے لیے خلیل اللہ کی یہ ایک حکمت عملی تھی کہ ایک ستارے کو طلوع ہوتے دیکھ کر فرمادیا کہ میں مقیم ہوں ۔ اوروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں یعنی یقینا ایک مرتبہ مرض الموت آنے والا ہے ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریض ہوں یعنی میرا دل تمہارے ان بتوں کی عبادت سے بیمار ہے ۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں جب آپ کی قوم میلے میں جانے لگی تو آپ کو بھی مجبور کرنے لگی آپ ہٹ گئے اور فرما دیا کہ میں مقیم ہوں اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے ۔ جب وہ انہیں تنہا چھوڑ کر چل دئیے تو آپ نے بہ فراغت ان کے معبودوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔ وہ تو سب اپنی عید میں گئے آپ چپکے چپکے اور جلدی جلدی ان کے بتوں کے پاس آئے ۔ پہلے تو فرمایا کیوں جی تم کھاتے کیوں نہیں ؟ یہاں آکر خلیل اللہ نے دیکھا کہ جو چڑھا وے ان لوگوں نے ان بتوں پر چڑھا رکھے تھے وہ سب رکھے ہوئے تھے ان لوگوں نے تبرک کی نیت سے جو قربانیاں یہاں کی تھیں وہ سب یونہی پڑی ہوئی تھیں یہ بت خانہ بڑا وسیع اور مزین تھا دروازے کے متصل ایک بہت بڑا بت تھا اور اس کے اردگرد اس سے چھوٹے پھر ان سے چھوٹے یونہی تمام بت خانہ بھرا ہوا تھا ۔ ان کے پاس مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے جو اس اعتقاد سے رکھے گئے تھے کہ یہاں رہنے سے متبرک ہوجائیں گے پھر ہم کھالیں گے ۔ ابراہیم نے اپنی بات کا جواب نہ پاکر پھر فرمایا یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ بولتے کیوں نہیں ۔ اب تو پوری قوت سے دائیں ہاتھ سے مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے ۔ ہاں بڑے بت کو چھوڑ دیا تاکہ اس پر بدگمانی کی جاسکے ، جیسا کہ سورہ انبیاء میں گذر چکا ہے اور وہیں اس کی پوری تفسیر بھی بیان ہوچکی ہے بت پرست جب اپنے میلے سے واپس ہوئے بت خانے میں گھسے تو دیکھا کہ ان کے سب خدا اڑنگ بڑنگ پڑے ہوئے ہیں کسی کا ہاتھ نہیں کسی کا پاؤں نہیں کسی کا سر نہیں کسی کا دھڑ نہیں حیران ہوگئے کہ یہ کیا ہوا ؟ آخر سوچ سمجھ کر بحث مباحثے کے بعد معلوم کرلیا کہ ہونہ ہو یہ کام ابراہیم کا ہے ( علیہ الصلوۃ والسلام ) اب سارے کے سارے مل جل کر خلیل علیہ السلام کے پاس دوڑے ، بھاگے ، دانت پیستے ، تلملائے کوستے گئے ۔ خلیل اللہ کو تبلیغ کا اور انہیں قائل معقول کرنے کا اور سمجھانے کا اچھا موقعہ ملا فرمانے لگے کیوں ان چیزوں کی پرستش کرتے ہو جنہیں خود تم بناتے ہو؟ اپنے ہاتھوں گھڑتے اور تراشتے ہو؟ حالانکہ تمہارا اور تمہارے اعمال کا خالق اللہ ہی ہے ۔ ممکن ہے کہ اس آیت میں ما مصدریہ ہو اور ممکن ہے کہ الذی کے معنی میں ہو ، لیکن دونوں معنی میں تلازم ہے ۔ گو اول زیادہ ظاہر ہے ۔ چنانچہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب افعال العباد میں ایک مرفوع حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اس کی صنعت کو پیدا کرتا ہے ۔ پھر بعض نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ چونکہ اس پاک صاف بات کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا تو تنگ آکر دشمنی پر اور سفلہ پن پر اتر آئے اور کہنے لگے ایک بنیان بناؤ اس میں آگ جلاؤ اور اسے اس میں ڈال دو ۔ چنانچہ یہی انہوں نے کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس سے نجات دی ۔ انہی کو غلبہ دیا اور انہی کی مدد فرمائی ۔ گو انہوں نے انہیں برائی پہنچانی چاہی لیکن اللہ نے خود انہیں ذلیل کردیا ۔ اس کا پورا بیان اور کامل تفسیر سورہ انبیاء میں گذر چکی ہے وہیں دیکھ لی جائے ۔
فَنَظَرَ نَــظْرَةً فِي النُّجُوْمِ : ابراہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ محض زبانی نصیحت سے وہ بتوں کے بےبس اور بےاختیار ہونے کو ماننے کے لیے تیار نہیں بلکہ اس مقصد کے لیے عملاً انھیں توڑنا پڑے گا تو انھوں نے پہلے تو اعلان کیا کہ اللہ کی قسم ! جب تم کہیں گئے تو میں تمہارے بتوں کی کوئی تدبیر ضرور کروں گا۔ (دیکھیے انبیاء : ٥٧) پھر مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے، کیونکہ ان کی موجودگی میں یہ کام نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی دوران ان کی قوم کے ایک جشن یا میلے کا دن آگیا، انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں شرکت کی دعوت دی۔ ابراہیم (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ جب وہ لوگ اپنے میلے میں چلے جائیں اور ان کے بتوں کے پاس کوئی نہ رہے تو اطمینان کے ساتھ انھیں توڑ دیں، اس لیے انھوں نے پہلے تو ستاروں میں ایک نگاہ ڈالی۔ ستاروں میں نگاہ ڈالنے کا مقصد کیا تھا ؟ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ محاورہ ہے جو غور و فکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جب کوئی غور طلب معاملہ سامنے آتا ہے تو آدمی آسمان کی طرف دیکھتا ہے، یعنی ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں میں ایک نگاہ ڈالی، کچھ سوچا اور کہا کہ میں تو بیمار ہوں، اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بتوں کے علاوہ سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش بھی کرتی تھی اور ستاروں کو حوادث زمانہ میں مؤثر سمجھتی تھی، اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں مغالطہ دینے کے لیے کہا کہ میں تو بیمار ہوں، یا بیمار ہونے والا ہوں، تاکہ وہ سمجھیں کہ انھوں نے یہ بات ستاروں کو دیکھ کر معلوم کی ہے۔
In verses 88 and 89, it was said: نَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ. (Then, he cast a look at the stars, and then said, |"I feel indisposed|" 37:88-89). There is a background to these verses. The people of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) used to have a festival on a particular day. When that day came, they invited Sayyidna Ibrahim to go with them and enjoy the festival. Their purpose was that if he accompanies them in the festival, he might be impressed with them and forget about calling them to his faith. (ad-Durr-ul-Manthur, Ibn Jarir and others). But, Sayyidna Ibrahim had something else on his mind. He wanted to make use of this occasion to pursue an agenda of his own. He thought when all these people go to celebrate their festival, he would have the time to go into their temple and break their idols, so that when they returned, they would see the helplessness of their false gods with their own eyes. It was quite possible that this scenario makes someone&s heart lit with the spark of true faith and, may be, he repents and shies away from shirk. This being his aim, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) refused to go with them. But, he chose a particular method of saying &no& to his people when he cast a full, animated look at the stars (expressed in the text by saying: فِي النُّجُومِ fi-n¬nujum: into the stars ] as explained below) and then said that he was indisposed. His people took his excuse to be valid, left him alone and went away to enjoy their festival. Several exegetic and juristic issues are related with this event. A gist is being presented here. The purpose of casting a glance at the stars The first debatable issue is to determine the purpose for which Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) cast a glance at the stars before he could give an answer. Some commentators have said that this happened as a matter of chance. When someone has something important on his mind, there are occasions he would start looking at the sky quite unintentionally. At the time Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was invited to come to the festival, he was left thinking as to how he could excuse himself out of this invitation. It was in this state of indecision that he, quite involuntarily, cast a glance towards the stars and, only after that, came his response. This explanation of casting a glance towards the stars apparently seems to be cloudless. But, in view of the style of the noble Qur&an, it is difficult to call it correct. First of all because the style of the Qur&an is such that it limits itself to the narration of only important and necessary units of events while it leaves off details that are unnecessary. Even in these very verses under study, several units of the events have been elided to the extent that its entire background was also not spelt out. Therefore, it is not possible to believe that the Qur&an would have left out the background of this event, lest it becomes too long while it would take an absolutely involuntary action not even distantly related to the event and describe it in a whole verse. Secondly, if no particular wise consideration was in sight while casting a glance towards the stars, instead, it had happened involuntarily - then, according to the grammatical rules of the Arabic language, one would say: فَنَظَرَ نَظْرَةً اِلَی النُّجُومِ and not: فِي النُّجُومِ as in the text. This tells us that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) did have some particular expedient consideration before him in having a glance at the stars, and that is why the noble Qur&an has mentioned it with such stress on its importance. Now the question is: What was that expedient consideration? In answer, most commentators have said that the people of Ibrahim (علیہ السلام) believed in astrology and used to do everything they had to do by looking at stars. The purpose behind the answer that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) gave by looking at the stars was to let his people understand that the statement being given by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) about his indisposition was not something unfounded, instead, what he was saying was being said on the basis of his assessment of the movement of stars. Although, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was not a believer in astrology personally, but the method he used functionally in order to avoid his participation in the festival was precisely what would appear trustworthy in their sight - and since he made no reference to astrology verbally, nor did he declare that his aim was to seek help from his knowledge of stars - instead, what he did was no more than having looked at the stars rather fully - therefore, this also had no aspect of some lie in it. Here, one may doubt that this act of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) might have encouraged disbelievers who were not only believers in astrology, in fact, took stars to be effective agents in the events of the world. But, this doubt can be answered by saying that the likelihood of an encouragement was possible only when Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) would have not clearly warned them on their erroneous conduct later on. Here, this entire plan was being enacted for the sole purpose that the invitation to pure monotheism be communicated to them in the most effective manner possible. Hence, it was after a short while that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) laid bare every possible error of their conduct before his people. Therefore, there is no question of providing encouragement to disbelievers simply on the basis of this ambiguous act. Here the purpose was to get rid of the compulsion of having to participate in the festival so that effort could be made to create a conducing atmosphere to present the call of true faith. This method of considered ambiguity for the purpose in sight is based on nothing but wisdom - and no reasonable objection can be raised against it. This explanation of casting a glance towards the stars has been reported from most commentators. Maulana Ashraf Thanavi (رح) has also gone by this very Tafsir in Bayan-ul-Qur&an. Astrology: Its status in Islam Another question which comes under this verse relates to the status astrology has in the Shari&ah of Islam. A brief answer to this question is being submitted here. At least this much is a settled matter that Allah Ta’ ala has placed specific properties in the Moon, Sun and the stars that affect human lives. Some of these are such as could be observed by everyone, for instance, the feeling of being hot or cold due to the Sun being near and far or the high and low tides of the seas due to the waxing and waning of the Moon and similar other phenomena. Now, some commentators just limit themselves to saying that the properties of these stars are no more than what we can gather from common observation - while there are others who say that there are some additional and particular properties in the position and movement of stars which affect most human matters. The moving of some star in a particular constellation becomes for some human beings the cause of happiness and success while the cause of sorrow and failure for some others. Then there are some people who believe that stars are the sole effective agents in the case of all successes and failures. And there are still others who say that there is no effective agent but Allah Ta’ ala, however, He has endowed stars with such properties, therefore, very much like other causes, they too serve as yet another cause of human successes and failures. As for those who believe in stars being effective agents, and hold that events and revolutions of the world depend on stars alone, and they alone decide what happens in the world - their notion is wrong and false without any doubt. In fact, this belief takes one to the borderline of shirk (the ascribing of partners to the pristine divinity of Allah). This was the kind of belief the people of Arabia entertained in the matter of rains. According to them, a particular star (called: نَوء : naw& ) brought rains and it was an effective agent as far as rains are concerned. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has strongly refuted this belief the detailed description of which appears in ahadith. Now, there remains the thinking of people who, for all intents and purposes, do believe that Allah Ta’ ala is the ultimate effective agent in world events, yet they also subscribe to the view that the Almighty has endowed stars with such properties which affect human lives in the degree of a general cause. For example, as far as rain is concerned, it is Allah alone who brings it, but clouds happen to be the obvious cause of rains. Similarly, the real fountainhead of all successes and failures is no other but the will of Allah Ta’ ala. But, these stars become the cause of those successes and failures. Hence, this thinking is no shirk - and neither do the Qur&an and Hadith confirm or reject it. Therefore, it is not too far out to think that Allah Ta’ ala might as well have embedded some such effects in the position, movement, rising and setting of stars. But, the acquiring of the knowledge of astrology in order to pursue and discover these effects, and then placing reliance on this knowledge, and then issuing decrees for the future on that basis is, after all, prohibited and impermissible and ahadith forbid it. According to a narration of Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِذا ذُکِرَ القدرُ فَاَمسِکُوا وَ اِذَا ذُکِرَتِ النُّجُومُ فَاَمسِکُوا وَاِذَا ذُکِرَ اَصحَابِی فَاَمسِکُوا (تخریج احیاء العلوم للعراقی بحوالہ طبرانی وھو حدیث حسنہ العراقی) When destiny is mentioned - observe restraint; and when stars are mentioned - observe restraint; and when my Companions are mentioned - observe restraint [ that is, do not deliberate or debate or dwell on differences ]. ` Iraqi on Ihya&-ul-` Ulum, with reference to Tabarani, and rating as &hasan& ) And Sayyidna ` Umar (رض) said: تَعَلَّمُوا مِنَ النُّجُومِ مَا تَھتَدُونَ بِہٖ فِی البَرِّ وَ البَحرِ ثُمَّ امسِکُوا (احیاء علوم الدین للغزالی (رح)) Acquire knowledge of stars to the extent you are guided right on land and at sea - then, stop. (&ihya&-ul-Ulum -Ghazzali) This prohibition does not necessitate rejection of properties and effects of stars. But, any relentless digging into these properties and effects - and wasting precious time while hankering after these is what has been prohibited. Imam al-Ghazali has, while discussing this subject in Ihya&-ul-` Ulum, identified several elements of wisdom behind this prohibition. The first wise consideration under which astrology has been declared as blameworthy and prohibited lies in a person&s accelerated devotion to it. Experience bears out that once this happens, he gradually starts taking stars as the be-all and end-all of everything, and this false perception then drags him on to the polytheistic belief of taking stars as the real effective agents. Then there is yet another wise consideration behind it. Even if Allah Ta’ ala has placed some properties and effects in the stars, we have, on our part, no certain source of knowledge about these, except through wahy or revelation. It appears in ahadith about Sayyidna Idris (علیہ السلام) (Enoch) that Allah Ta’ ala had given him some knowledge of this nature. But, that knowledge based on Divine revelation (wahy) is no more there in this world. Now, whatever the so-called experts of astrology have with them is merely a collection of inferences, conjectures and whims based on which no certain knowledge can be acquired. This is the reason why countless predictions of astrologers keep being proved false. Someone has made a lively comment on this field of knowledge by saying: مفیدہ، غیر معلوم و معلومہ غیر مفید The useful of it is unknown, and the known of it is useless! ` Allamah ` Alusi has, in his Tafsir Ruh-ul-Ma’ ani, has cited several examples from historical events where the way an event should have transpired under the accepted rules of astrology came, in reality, to transpire almost contrarily. Therefore, so many great people that devoted their lives to astrology were finally compelled to confess that the ultimate end of this field of knowledge is no more than conjectures and estimations. A famous astrologer, Koshyar Dailami has written in his book al-Mujmal fi-l-Ahkam: |"Astrology is a field of knowledge not supported by evidence, proof, or argument. It has a lot of leeway for human scruples and conjectures.|" (Rum-ul-Ma’ ani, p. 116, v. 23) ` Allamah &Alusi has also reported similar sayings from several other scholars of astrology. Nevertheless, this much is settled that astrology is not a field of knowledge that could offer any degree of certainty. Countless probabilities of errors lurk behind it. But, what actually happens is that people who pursue this field of knowledge end up giving it status of a science that is absolute and certain. On this very basis they arrive at their decrees for the future, and because of it they go on to entertain good or bad opinions about others. Moreover, far serious is the false pride in this field that, on some occasions, pushes its votaries to start claiming that they have the knowledge of the unseen (al-ghayb). And it goes without saying that everything pointed to here generates all sorts of corruption. There is yet another reason for the prohibition of astrology in that it amounts to allowing dear life to be consumed in a pursuit that has no benefit in the real sense. When one cannot have something certain come out of it, how is it going to be helpful in doing so many things one has to do in this world? Now, running after something useless for no valid reason is totally against the spirit and temperament of the Shari&ah of Islam. Therefore, it has been prohibited. How to explain the &indisposition& of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ? The third problem that emerges from this verse relates to the statement of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . In response to the invitation of his people, he said: اِنِّی سَقِیمُ (I feel indisposed). Now the question is: Was he really sick at that time? In the Qur&an, there is no clarification about it. But, from a Hadith of the Sahih of al-Bukhari it seems that he was not so sick at that time as would make him unable to go with his people. Therefore, we have to determine as to how could he say that. The answer to that, according to the majority of commentators, is that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had really employed the mode of توریہ : tauriyah (equivocation). Tauriyah means: &To say something that is apparently counter to the actual fact, but the speaker means a remote sense in it that matches the actual fact.& Here, the apparent sense of the remark made by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) is that &Right now, I am sick.& But, this is not what he really meant. Now, what did he really mean? About this, commentators have expressed different opinions. Some said that it was prompted by his instinctive aversion at the sight of the polytheistic activities of his people. This view is supported by the fact that the word used here is: سَقِیم (&saqim&: indisposed), a word that is much lighter than: مَرِیض (marid : sick). This sense could be conveyed in English by saying: I am indisposed (as in the translation of the text). It is obvious that this sentence has ample room to incorporate the sense of instinctive aversion alluded to earlier. And some commentators have said that by saying: اِنِّی سَقِیم (inni saqim), Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) intended to convey the sense of &I am going to be sick& for the reason that, in the Arabic language, the form of active participle noun (ism-u-l-fail) is frequently used for the future tense. In the Qur&an itself, it was said while addressing the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ (which can be literally translated in terms of the outwardly apparent words by saying: &You too are dead and they too are dead.& But, as obvious, it means: |"Certainly, you will die and they [ too ] will die - (Az-Zumar, 39:30). Similarly, Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) had said: اِنِّی سَقِیم (inni saqim) only to convey the sense of &I am going to be sick& and he said that because one has to fall sick some or the other time much before death comes. Even if someone does not suffer from a regular sickness, even then, one is temperamentally disturbed before death that is something inevitable. If someone is not satisfied with these interpretations, then the best explanation is that Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) was really somewhat indisposed at that time, but his indisposition was not such as would have prevented him from participating in the festival Actually, he talked about his casual indisposition in a particular setting where his listeners thought he was suffering from some major disease because of which he was really unable to go with them. This explanation of the equivocation used by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) is most reasonable and satisfactory. This explication also makes it clear that the use of the word: کَذِبَہ (kadhibah: lie) for the statement: اِنِّی سَقِیم (inni saqim) uttered by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ، as is reported in the Hadith of Bukhari, actually means تَورِیہ : equivocation) which has the apparent form of a lie but it is no lie in terms of the sense intended by the speaker. In some narrations of this very Hadith, the following words have also appeared: مَا مِنھَا کَذِبَۃُ اِلَّا مَا حَلَّ بِھَا عَن دِینِ اللہِ Out of these, there is no lie that has not been spoken for the sake of defending and supporting the religion of Allah. These words are self-explanatory. They tell us that the word &kadhib& or lie in the Hadith carries a sense that is separate from its common meaning. A slightly detailed discussion regarding this very Hadith has already appeared in the commentary on Surah Al-Anbiya& under the verse: قَالَ بَل فَعَلَہ، کَبِیرُھُم (He said Rather, this is done by this chief of theirs - 21:63). (Ma’ ariful-Qur’ an, volume VI) The Islamic legal ruling on (equivocation) Also from these very verses comes the ruling that resorting to tauriyah on occasions of need is permissible. One form of tauriyah is verbal, that is, saying something the apparent sense of which is counter to the actual fact, while the inward sense corresponds to it. Then there is the practical tauriyah, that is, to act in a manner that makes the onlooker interpret one&s intention in a certain way while, in reality, one&s intention is quite different. This is also known as: (&iham). When Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) cast a glance towards the stars, it was &iham. (as held by most commentators) and calling himself sick was tauriyah or equivocation. On specific occasions of need, resorting to both these kinds of tauriyah stands proved from the Holy Prophet in person. When he was on his journey of hijrah, and the disbelievers were looking for him frantically, someone en route asked Sayyidna Abu Bakr علیہ السلام about the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . He answered by saying: ھُوَ ھَادٍ یَّھدینِی (He is my guide. He shows me the way). From his answer, the listener gathered that he was referring to him as some usual pathfinder or guide (hired for this purpose in travel through unknown desert terrain). Therefore, he did not bother and went his way - although, Sayyidna Abu Bakr (علیہ السلام) had still not surrendered the truth of the matter that he was his religious and spiritual guide or leader. Similarly, says Sayyidna Ka’ b ibn Malik (رض) ‘when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had to go in a certain direction for Jihad, he would, while coming out of Madinah, rather than go in his intended direction, would start marching towards some other direction - so that onlookers do not find out the correct destination towards which he was really headed (Sahih Muslim and others). This was practical tauriyah (equivocation) and &iham. On occasions of good cheer and Iight humor too, tauriyah stands proved from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . According to narration from the Shama&il of Tirmidhi, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) humorously said to an old woman, |"No old woman will go to Paradise.|" That woman became very anxious. Then he explained that he meant that the old women will not go Paradise in the state of their old age - yes, they will go there after having turned young.
فَنَظَرَ نَــظْرَةً فِي النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّىْ سَقِيْمٌ، ان آیتوں کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ایک خاص دن میں تہوار منایا کرتی تھی، جب وہ دن آیا تو اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دعوت دی کہ آپ بھی ہمارے ساتھ جشن میں شرکت کے لئے چلیں مقصد یہ تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس جشن میں ہمارے ساتھ رہیں گے تو شاید ہمارے دین سے متاثر ہوجائیں، اور اپنے دین کی دعوت چھوڑ دیں۔ (درمنثور وابن جریر وغیرہ) لیکن ابراہیم (علیہ السلام) اس موقع سے دوسرا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، آپ کا ارادہ یہ تھا کہ جب ساری قوم جشن منانے چلی جائے گی تو میں ان کی عبادت گاہوں میں جا کر ان کے بتوں کو توڑ ڈالوں گا، تاکہ یہ لوگ واپس آ کر اپنے جھوٹے معبودوں کی بےبسی کا عملی نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، ہوسکتا ہے کہ اپنے بتوں کو بےبس دیکھ کر کسی کے دل میں ایمان پیدا ہو اور وہ شرک سے توبہ کرلے۔ اس غرض سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ جانے سے انکار فرما دیا، لیکن انکار کا طریقہ یہ اختیار فرمایا کہ پہلے نگاہ بھر کر ستاروں کو دیکھا اور پھر کہا کہ ” میں بیمار ہوں “ قوم والوں نے آپ کو معذور سمجھ کر چھوڑ دیا اور جشن منانے چلے گئے۔ ستاروں پر نگاہ ڈالنے کا مقصد : اس واقعے سے متعدد تفسیری اور فقہی مباحث متعلق ہیں، یہاں ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ سب سے پہلی بحث تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دینے سے پہلے جو ستاروں پر نظر ڈالی، اس کا مقصد کیا تھا ؟ بعض حضرات نے تو یہ فرمایا ہے کہ یہ محض ایک اتفاقی عمل تھا، کسی اہم بات کو سوچتے ہوئے انسان بعض اوقات بےاختیار آسمان کی طرف دیکھنے لگتا ہے، جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جشن میں شرکت کی دعوت دی گئی تو آپ اس سوچ میں پڑگئے کہ اس دعوت کو کس طرح ٹلاؤ ں ؟ اسی سوچ کے عالم میں آپ نے بےاختیار ستاروں کی طرف دیکھا اور اس کے بعد جواب دیا ستاروں پر نظر ڈالنے کی یہ تشریح بظاہر بےغبار معلوم ہوتی ہے، لیکن قرآن کریم کے اسلوب کو پیش نظر اسے درست کہنا مشکل ہے۔ اول تو اس لئے کہ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ واقعات کے صرف اہم اور ضروری اجزاء کو بیان فرماتا ہے، اور غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ دیتا ہے، خود انہی آیتوں میں واقعے کے کئی اجزاء محذوف ہیں، یہاں تک کہ اس کا پورا پس منظر بھی بیان نہیں کیا گیا، اس لئے یہ باور کرنا ممکن نہیں کہ قرآن کریم نے واقعے کے پس منظر کو تو تطویل کے خیال سے چھوڑ دیا ہو اور ایک قطعی غیر اختیاری عمل جس کا واقعے سے دور دراز کا بھی تعلق نہ تھا اسے پوری ایک آیت میں بیان فرمایا ہو۔ دوسرے اگر ستاروں کو دیکھنے میں کوئی خاص حکمت پیش نظر تھی، بلکہ یہ ایک غیر اختیاری عمل تھا تو عربی زبان کے قواعد کی رو سے فنظر نظرةً الی النجوم کہنا چاہئے تھا، فی النجوم نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ستاروں کو دیکھنے میں کوئی خاص مصلحت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیش نظر تھی، اسی لئے قرآن کریم نے اہمیت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اب وہ مصلحت کیا تھی ؟ اس کے جواب میں اکثر مفسرین نے یہ فرمایا ہے کہ دراصل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم علم نجوم کی بڑی شیدائی تھی، اور ستاروں کو دیکھ دیکھ کر اپنے کاموں کا تعین کیا کرتی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کی طرف دیکھ کر جو جواب دیا اس کا مقصد یہ تھا کہ قوم والے یہ سمجھیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیماری کے بارے میں جو کچھ فرما رہے ہیں وہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے، بلکہ ستاروں کے چلن پر غور کر کے کہہ رہے ہیں، اگرچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بذات خود علم نجوم کے قائل نہ ہوں، لیکن جشن کی شرکت سے اپنی گلوخلاصی کے لئے آپ نے طریقہ وہ اختیار فرمایا جو ان کی نظر میں زیادہ قابل اعتماد ہو اور چونکہ آپ نے زبان سے علم نجوم کا کوئی حوالہ نہیں دیا، نہ یہ بتایا کہ ستاروں کو دیکھنے سے میرا مقصد علم نجوم سے مدد لینا ہے۔ بلکہ صرف نظر بھر کر ستاروں کو دیکھا، اس لئے اس میں جھوٹ کا بھی کوئی پہلو نہیں ہوا۔ یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس عمل سے ان کافروں کی ہمت افزائی ہوئی ہوگی جو نہ صرف علم نجوم کے قائل تھے، بلکہ ستاروں کو دنیا کے واقعات میں موثر حقیقی مانتے تھے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ہمت افزائی تو تب ہوتی جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بعد میں انہیں صراحت کے ساتھ ان کی گمراہیوں پر متنبہ نہ فرماتے، یہاں تو یہ ساری تدبیر کی ہی اس لئے جا رہی تھی کہ انہیں توحید کی دعوت زیادہ سے زیادہ موثر بنا کردی جائے، چناچہ تھوڑے ہی وقفہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کی ایک ایک گمراہی کو کھول کھول کر بیان فرما دیا، اس لئے محض اس مبہم عمل سے کافروں کی ہمت افزائی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں اصل مقصد جشن کی شرکت سے اپنی جان چھڑانا تھا، تاکہ دعوت حق کے لئے زیادہ موثر فضا پیدا کی جاسکے، اس مقصد کے لئے ایہام کا یہ طریقہ عین حکمت پر مبنی ہے، اور اس پر کوئی معقول اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ ستاروں کی طرف دیکھنے کی یہ تشریح اکثر مفسرین سے منقول ہے، اور حکیم الامت حضرت تھانوی نے بھی بیان القرآن میں اسی کو اختیار فرمایا ہے۔ علم نجوم کی شرعی حیثیت : اس آیت کے تحت دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ علم نجوم کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ یہاں اختصار کے ساتھ اس سوال کا جواب عرض کیا جاتا ہے۔ یہ تو ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج اور ستاروں میں کچھ ایسی خاصیتیں رکھی ہیں جو انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان میں سے بعض خاصیات ایسی ہیں جن کا ہر شخص مشاہدہ کرسکتا ہے، مثلاً سورج کے قرب وبعد سے گرمی اور سردی کا پیدا ہونا، چاند کے اتار چڑھاؤ سے سمندر میں مدو جزر وغیرہ، اب بعض حضرات کا کہنا تو یہ ہے کہ ان ستاروں کی خصوصیات صرف اتنی ہی ہیں جتنی عام مشاہدہ سے معلوم ہوتی ہیں اور بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ ان کے علاوہ بھی ستاروں کی گردش کے کچھ ایسے خواص ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی کے اکثر معاملات پر اثر ڈالتے ہیں۔ ایک انسان کے لئے کسی ستارے کا کسی خاص برج میں چلے جانا مسرتوں اور کامیابیوں کا سبب بنتا ہے، اور کسی کے لئے غموں اور ناکا میوں کا، پھر بعض لوگ تو ان ستاروں ہی کو کامیابیوں اور ناکامیوں کے معاملہ میں موثر حقیقی مانتے ہیں، اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ موثر حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، مگر اس نے ستاروں کو ایسے خواص عطا کردیئے ہیں، اس لئے دنیا کے دوسرے اسباب کی طرح وہ بھی انسان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا ایک سبب ہوتے ہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ستاروں کو موثر حقیقی مانتے ہیں، یعنی یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے انقلابات اور واقعات ستاروں ہی کے مرہون منت ہیں، ستارے ہی دنیا کے تمام واقعات کے فیصلے کرتے ہیں، تو بلاشبہ ان کا خیال غلط اور باطل ہے، اور یہ عقیدہ انسان کو شرک کی حد تک پہنچا دیتا ہے۔ اہل عرب بارش کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ ایک خاص ستارہ (جسے ” نور “ کہا جاتا تھا) بارش لے کر آتا ہے اور وہ بارش کے لئے موثر حقیقی کی حیثیت رکھتا ہے، آنحضرت محمد نے اس عقیدے کی سخت تردید فرمائی ہے، جس کی تصریح احادیث میں موجود ہے۔ رہے وہ لوگ جو دنیوی واقعات میں موثر حقیقی تو اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ نے ستاروں کو ایسے خواص عطا فرمائے ہیں جو سبب کے درجہ میں انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، جس طرح بارش برسانے والا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن اس کا ظاہری سبب بادل ہیں، اسی طرح تمام کامیابیوں اور ناکامیوں کا اصل سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی ہے، لیکن یہ ستارے ان کامیابیوں اور ناکامیوں کا سبب بن جاتے ہیں، سو یہ خیال شرک نہیں ہے، اور قرآن و حدیث سے اس خیال کی نہ تصدیق ہوتی ہے نہ تردید۔ لہٰذا یہ کچھ بعید نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی گردش اور ان کے طلوع و غروب میں کچھ ایسے اثرات رکھے ہوں، لیکن ان اثرات کی جستجو کرنے کے لئے علم نجوم کی تحصیل، اس علم پر اعتماد اور اس کی بنا پر مستقبل کے بارے میں فیصلے کرنا بہرحال ممنوع اور ناجائز ہے، اور احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا : ” جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، (یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو) اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ اور جب میرے صحابہ کا (یعنی ان کے باہمی اختلافات وغیرہ کا) ذکر چھڑے تو رک جاؤ “ اور حضرت فاروق اعظم (رض) کا ارشاد ہے : ” ستاروں کے علم سے اتنا علم حاصل کرو جس کے ذریعہ تم خشکی اور سمندر میں راستے جان سکو اس کے بعد رک جاؤ “ اس ممانعت سے ستاروں کے خواص و آثار کا انکار لازم نہیں آتا، لیکن ان خواص و آثار کے پیچھے پڑنے اور ان کی جستجو میں قیمتی اوقات برباد کرنے کو منع کیا گیا ہے۔ امام غزالی نے احیاء العلوم میں اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس ممانعت کی متعدد حکمتیں بتائی ہیں۔ علم نجوم کے ممنوع و مذموم ہونے کی پہلی حکمت تو یہ ہے کہ جب اس علم میں انسان کا انہماک بڑھتا ہے تو تجربہ یہ ہے کہ وہ رفتہ رفتہ ستاروں ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے، اور یہ چیز اسے کشاں کشاں ستاروں کے موثر حقیقی ہونے کا مشرکانہ عقیدے کی طرف لے جاتی ہے۔ دوسری حکمت یہ ہے کہ اگر ستاروں میں اللہ تعالیٰ نے کچھ خواص و آثار رکھے بھی ہوں تو ان کے یقینی علم کا ہمارے سوائے وحی کے کوئی راستہ نہیں ہے، حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں احادیث میں آیا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس قسم کا کوئی علم عطا فرمایا تھا لیکن اب وہ علم جس کی بنیاد وحی الٰہی پر تھی، دنیا سے مٹ چکا ہے، اب علم نجوم کے ماہرین کے پاس جو کچھ ہے وہ محض قیاسات، اندازے اور تخمینے ہیں، جن سے کوئی یقینی علم حاصل نہیں کیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ نجومیوں کی بیشمار پیشن گوئیاں آئے دن غلط ثابت ہوتی رہتی ہیں، کسی نے اس علم کے بارے میں بہترین تبصرہ کیا ہے کہ : ” یعنی اس علم کا جتنا حصہ مفید ہوسکتا ہے وہ کسی کو معلوم نہیں اور جتنا لوگوں کو معلوم ہے وہ فائدہ مند نہیں “ علامہ آلوسی نے روح المعانی میں تاریخی واقعات کی ایسی متعدد مثالیں پیش کی ہیں جن میں علم نجوم کے مسلمہ قواعد کے تحت ایک واقعہ جس طرح پیش آنا چاہئے تھا حقیقت میں اس کے بالکل برعکس پیش آیا، چناچہ جن بڑے بڑے لوگوں نے اس علم کی تحصیل میں اپنی عمریں کھپائی ہیں وہ آخر میں یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اس علم کا انجام قیاس وتخمین سے آگے کچھ نہیں۔ ایک مشہور منجم کو شیار دیلمی نے علم نجوم پر اپنی کتاب المجمل فی الاحکام میں لکھا ہے : ” علم نجوم ایک غیر مدلل علم ہے، اور اس میں انسان کے وسوسوں اور گمانوں کے لئے بڑی گنجائش ہے “ (روح المعانی، ص ٦١١ ج ٣٢) علامہ آلوسی نے اور بھی متعدد علماء نجوم کے اسی قسم کے اقوال نقل فرمائے ہیں، بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ علم نجوم کوئی یقینی علم نہیں ہے، اور اس میں غلطیوں کے بےحساب احتمالات ہوتے ہیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ اس علم کی تحصیل میں لگتے ہیں وہ اسے بالکل قطعی اور یقینی علم کا درجہ دے بیٹھتے ہیں، اسی کی بنا پر مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں، اسی کی وجہ سے دوسروں کے بارے میں اچھی بری رائیں قائم کرلیتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس علم کا جھوٹا پندار بعض اوقات انسان کو علم غیب کے دعوؤں تک پہنچا دیتا ہے، اور ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر چیز بیشمار مفاسد پیدا کرنے والی ہے۔ علم نجوم کی ممانعت کی تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ عمر عزیز کو ایک بےفائدہ کام میں صرف کرنے کے مترادف ہے، جب اس سے کوئی نتیجہ یقینی طور پر حاصل نہیں کیا جاسکتا تو ظاہر ہے کہ دنیا کے کاموں میں یہ علم چنداں مددگار نہیں ہو سکتا۔ اب خواہ مخواہ ایک بےفائدہ چیز کے پیچھے پڑنا اسلامی شریعت کی روح اور مزاج کے بالکل خلاف ہے، اس لئے اس کو ممنوع کردیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیماری کا مطلب : اس آیت سے متعلق تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی دعوت کے جواب میں جو انی سقیم (میں بیمار ہوں) فرمایا تو کیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس وقت واقعی بیمار تھے ؟ قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں ہے، لیکن صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس وقت ایسے بیمار نہیں تھے کہ قوم کے ساتھ نہ جاسکیں، اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات کیسے ارشاد فرمائی ؟ اس کا جواب جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ درحقیقت ان الفاظ کے ذریعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ” توریہ “ کیا تھا، ” توریہ “ کا مطلب ہے ” کوئی ایسی بات کہنا جو بظاہر واقعہ کے خلاف ہو، لیکن کہنے والے نے اس سے کوئی ایسے دور کے معنی مراد لئے ہوں جو واقعہ کے مطابق ہوں “ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو جملہ ارشاد فرمایا اس کا ظاہری مفہوم تو یہی ہے کہ ” میں اس وقت بیمار ہوں “ لیکن آپ کی اصل مراد یہ نہیں تھی۔ اب اصل مراد کیا تھی ؟ اس کے بارے میں مفسرین نے مختلف رائیں ظاہر کی ہیں، بعض نے فرمایا کہ اس سے آپ کا مقصد وہ طبعی انقباض تھا جو آپ کو اپنی قوم کی مشرکانہ حرکات دیکھ دیکھ کر پیدا ہو رہا تھا، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہاں ” سقیم “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو ” مریض “ کے مقابلہ میں بہت ہلکا لفظ ہے، اور اس کا مفہوم اردو میں اس طرح ادا کیا جاسکتا ہے کہ ” میری طبیعت ناساز ہے “ ظاہر ہے کہ اس جملہ میں طبعی انقباض کے مفہوم کی بھی پوری گنجائش پائی جاتی ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ ” انی سقیم “ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ ” میں بیمار ہونے والا ہوں “ اس لئے کہ عربی زبان میں اسم فاعل کا صیغہ بکثرت زمانہ مستقبل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم ہی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہے : ” انک میت وانھم میتون “ اس کے ظاہری الفاظ کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ ” تم بھی مردہ ہو اور وہ بھی مردہ ہیں۔ “ لیکن ظاہر ہے کہ یہاں مراد یہ معنی ہیں کہ ” تم بھی مرنے والے ہو اور وہ بھی مرنے والے ہیں “ اسی طرح انی سقیم کے معنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ مراد لئے تھے کہ ” میں بیمار ہونے والا ہوں۔ “ اور یہ اس لئے فرمایا کہ موت سے پہلے پہلے ہر انسان کا بیمار ہونا یقینی امر ہے۔ اگر کسی کو ظاہری بیماری نہ ہو تب بھی موت سے ذرا پہلے انسان کے مزاج میں خلل کا واقع ہونا ناگزیر ہے۔ اور اگر کسی کا دل ان تاویلات پر مطمئن نہ ہو تو سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طبیعت اس وقت واقعتا تھوڑی بہت ناساز تھی، لیکن بیماری ایسی تھی جو جشن میں شرکت سے مانع ہوتی، آپ نے اپنی معمولی ناسازی طبع کا ذکر ایسے ماحول میں کیا جس سے سننے والے یہ سمجھے کہ آپ کو کوئی بڑی بیماری لاحق ہے، جس کی وجہ سے آپ واقعی ہمارے ساتھ نہیں جاسکتے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے توریہ کی یہ تشریح سب سے زیادہ معقول اور اطمینان بخش تھی۔ اس تشریح سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ارشاد ” انی سقیم “ کے لئے جو ” کذبة “ (جھوٹ) کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان سے مراد ” توریہ “ ہے جس کی ظاہری شکل جھوٹ ہوتی ہے، لیکن متکلم کی مراد کے لحاظ سے وہ جھوٹ نہیں ہوتا، خود اسی حدیث کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں : ” ان میں سے کوئی جھوٹ ایسا نہیں ہے جو اللہ کے دین کی مدافعت اور حمایت میں نہ بولا گیا ہو “ ان الفاظ نے خود یہ واضح کردیا ہے کہ یہاں ” کذب “ اپنے عام معنی سے جدا مفہوم رکھتا ہے، اس حدیث سے متعلق قدرے تفصیلی بحث سورة انبیاء میں آیت (آیت) قال بل فعلہ کبیرھم کے تحت گزر چکی ہے۔ توریہ کا شرعی حکم : فیصل انہی آیات سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ ضرورت کے مواقع پر توریہ کرنا جائز ہے توریہ ایک تو قولی ہوتا ہے، یعنی ایسی بات کہنا جس کا ظاہری مفہوم خلاف واقعہ ہو، اور باطنی مراد مطابق واقعہ۔ اور ایک توریہ عملی ہوتا ہے، یعنی ایسا عمل کرنا جس کا مقصد دیکھنے والا کچھ سمجھے اور درحقیقت اس کا مقصد کچھ اور ہو۔ اسے ایہام بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ستاروں کو دیکھنا (اکثر مفسرین کے قول کے مطابق) ایہام تھا، اور اپنے آپ کو بیمار کہنا توریہ۔ ضرورت کے مواقع پر توریہ کی یہ دونوں قسمیں خود سرکار عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں، جس وقت آپ ہجرت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، اور مشرکین آپ کی تلاش میں لگے ہوئے تھے، تو راستے میں ایک شخص نے حضرت ابوبکر صدیق سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں پوچھا کہ ” یہ کون ہیں ؟ “ حضرت صدیق اکبر نے جواب دیا : ” ھوھاد تھدینی “ (وہ میرے رہنما ہیں، مجھے راستہ دکھاتے ہیں) سننے والا یہ سمجھا کہ عام راستہ بتانے والے رہنما مراد ہیں، اس لئے چھوڑ کر چل دیا، حالانکہ حضرت ابوبکر کا مقصد یہ تھا کہ آپ دینی اور روحانی رہنما ہیں۔ (روح المعانی) اسی طرح حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہاد کے لئے جس سمت میں جانا ہوتا مدینہ طیبہ سے نکلتے وقت اس سمت میں روانہ ہونے کے بجائے کسی دوسری سمت میں چلنا شروع فرماتے تھے، تاکہ دیکھنے والوں کو صحیح منزل معلوم نہ ہو سکے (صحیح مسلم وغیرہ) یہ عملی توریہ اور ایہام تھا۔ مزاج اور خوش طبعی کے مواقع پر بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توریہ ثابت ہے : شمائل ترمذی میں روایت ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بوڑھی عورت سے مزاحاً فرمایا : ” کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی “ وہ عورت یہ سن کر بہت پریشان ہوئی تو آپ نے تشریح فرمائی کہ بوڑھیوں کے جنت میں نہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہ جائیں گی ہاں جوان ہو کر جائیں گی۔ اس کے بعد کی آیات کا مفہوم خلاصہ تفسیر سے واضح ہے، اور واقعہ کی تفصیلات سورة انبیاء میں گزر چکی ہیں۔
فَنَظَرَ نَــظْرَۃً فِي النُّجُوْمِ ٨٨ۙ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔
(٨٨۔ ٩٣) جب قوم نے میلہ میں چلنے کو کہا تو حضرت ابراہیم نے ستاروں کی طرف ایک نظر بھر کر دیکھی یا یہ کہ ذرا سوچ کر کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں تاکہ قوم کو چھوڑ دے۔ غرض وہ لوگ ان کو چھوڑ کر اپنے میلہ میں چلے گئے تو حضرت ابراہیم ان کے بتوں میں جا گھسے اور مذاق اڑا کر کہنے کہ یہ شہد وغیرہ کے چڑھاوے جو تمہارے سامنے رکھے ہیں یہ کھاتے کیوں نہیں ہو۔ چناچہ وہ جواب کہاں سے یتے تو حضرت ابراہیم نے کہا کہ تمہیں کیا ہوا تم بولتے بھی نہیں ہو پھر ان پر قوت کے ساتھ کدال لے کر جا پڑے اور ان کو مارنا شروع کردیا۔
آیت ٨٨{ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ } ” پس اس نے ایک نظر ستاروں پر ڈالی۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں پر نگاہ ڈال کر گویا یہ تاثر دیا کہ وہ ستارہ شناسی کی مدد سے کچھ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
47 The reference is to a particular incident the details of which have been given in Surah Al-Anbiya': 71-73 and Al-`Ankabut: 16-27 above. 48 Ibn Abi Hatim has cited a saying of the famous commentator Qatadah, an immediate follower of the Companions, to the effect that the Arabic idiomatic expression, cast a glance at the stars," means that he pondered deeply, or that he started thinking seriously. 'Allama Ibn Kathir has preferred this same view, and this is also supported by the common observation: when a person is confronted by a problem that needs serious consideration, he looks upward or to the sky for a while, and then makes a reply, after due consideration.
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :47 اب ایک خاص واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کی تفصیلات سورہ ( آیات 51 تا 73 ) اور سورہ عنکبوت ( آیات 16 تا 27 ) میں گزر چکی ہیں ۔ سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :48 ابن ابی حاتم نے مشہور تابعی مفسر قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اہل عرب نَظَرَ فِی النُّجُوْمِ ( اس نے تاروں پر نگاہ ڈالی ) کے الفاظ محاصرے کے طور پر اس معنی میں بولا کرتے ہیں کہ اس شخص نے غور کیا ، یا وہ شخص سوچنے لگا ۔ علامہ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ویسے بھی یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو وہ آسمان کی طرف ، یا اوپر کی جانب کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے ، پھر سوچ کر جواب دیتا ہے ۔
(37:88) فنظر نظرۃ فی النجوم۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے پھر اس نے ستارون کو ایک نظر بھر کر دیکھا۔ یہاں ایک خاص واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کی تفصیلات سورة الانبیاء (آیات 51:73) اور سورة عنکبوت (آیات 16 ۔ 27) میں گذر چکی ہیں۔ قوم (حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک سالانہ تہوار اور میلہ ہوا کرتا تھا۔ اور قوم کا قاعدہ تھا کہ تہوار کے موقعہ پر بتون کے پاس جا کر ان کے سامنے فرش بچھاتے اور میلے میں جانے سے پہلے ان کے سامنے لذیذ کھانے مختلف قسم کے رکھتے تھے اور اس کو متبرک فعل سمجھتے تھے۔ پھر جب میلہ سے واپس لوٹتے تھے تو بتوں کے سامنے رکھے ہوئے کھانے اور مٹھائیان بطور تبرک خود بھی کھاتے تھے اور یار دوستوں میں بھی تقسیم کرتے تھے۔ یہاں بھی پھر ایک ایسے ہی تہوار کا ذکر ہے قوم کے لوگوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو میلے پر چلنے کے لئے کہا لیکن ان کے دل میں بتوں سے نپٹنے کا ایک منصوبہ تھا لہٰذا انہوں نے معذرت کردی۔ فنظر نظرۃ فی النجوم۔ کے یہ معانی ہوسکتے ہیں :۔ (1) قوم ابراہیم سورج چاند اور ستارون کی پرستش میں مبتلا تھی ان کے عقیدہ کے مطابق جملہ حوادث ارضی ستاروں کی گردش کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوتے تھے۔ لہٰذا جب حضرت ابراہیم نے ستاروں کی طرف دیکھا اور کہا انی سقیم تو انہوں نے خیال کیا کہ حضرت ابراہیم نے بھی ستاروں کے مطالعہ سے یہ نتیجہ لیا ہے لہٰذا انہوں نے یقین کرلیا۔ (2) یہ جملہ بطور محاورہ استعمال ہوا ہے یقال للرجل اذا فکر فی الشیء یدبرہ نظر فی النجوم یعنی جب کوئی آدمی کسی معاملہ پر غور کرتا ہے تو کہتے ہیں نظر فی النجوم اس صورت میں اس کا مطلب ہوگا کہ جب قوم نے میلہ پر جانے کے لئے آپ سے کہا تو آپ نے تدبر کیا اور کہا کہ انی سقیم۔ یہ مؤخر الذکر معنی ہی قابل ترجیح ہے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں :۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ جو شخص کسی امر میں غور و فکر کرے تو عرب کہتے ہیں کہ :۔ اس نے ستاروں پر نظریں ڈالیں۔ مطلب یہ ہے کہ غور و فکر کے ساتھ تاروں کی طرف نظر اٹھائی اور سوچنے لگے کہ میں انہیں کس طرح ٹالوں۔ سوچ سمجھ کر فرمایا کہ میں بیمار ہوں۔ ویسے بھی یہ بات اکثر مشاہدہ میں آتی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے کوئی غور طلب بات آتی ہے تو وہ آسمان کی طرف یا اوپر کی طرف کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے پھر سوچ کر جواب دیتا ہے !
ف 12 یہاں سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے جس واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کی تفصیل سورة انبیاء آیت (51، 73) میں بھی گزر چکی ہے۔13 اکثر مفسرین (رح) نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی قوم کے لوگ بتوں کے علاوہ ستاروں کی بھی پرستش کیا کرتے تھے اور ستاروں کی گردش کی حادث زمانہ میں اور موثر مانتے تھے۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے انہیں مغالطے میں ڈالنے کیلئے ستاروں پر ایک نظر ڈالی تاکہ وہ سمجھیں کہ ستاروں سے اپنا آئندہ حال معلوم کررہے ہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ محاورہ ہے جو غور و فکر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے سوچتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا جیسا کہ ہر شخص جب کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو آسمان کی سمت یا اوپر کی طرف دیکھتا ہے واللہ اعلم۔ ( ابن کثیر)
فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معبودان باطل کے خلاف اقدام۔ نہ معلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کتنا عرصہ باپ اور قوم کو سمجھاتے رہے۔ طویل عرصہ تک سمجھانے کے باوجود جب قوم سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوئی تو آپ نے سوچا کہ اگر دلائل انکی سمجھ میں نہیں آرہے اور یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان مورتیوں پر مرے جا رہے ہیں۔ تو اب ان کے معبودوں کی عملی طور پر خبر لینی چاہئے، تب بلا خوف وخطر فرمایا کہ اللہ کی قسم یہ مجسمے میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ (الانبیاء : ٥٧) اتفاق کی بات دیکھیے اسی کشمکش میں قوم کا میلہ آجاتا ہے۔ مشرک قوم ایسے میلوں میں نہ صرف خود جاتی ہے۔ بلکہ ہر کسی کو ان خرافات میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اسی شوق غلیظ کے ساتھ انہوں نے جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو دعوت دی آئیں آپ بھی چلیں، لیکن انہیں کیا معلوم کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو ایسی خرافات کو مٹانے کے لیے دن رات پیچ و تاب کھا رہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا۔ (فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوم۔ فَقَالَ إِنِّی سَقِیْمٌ)[ الصّٰفٰت ٨٨، ٨٩] ” تاروں کی طرف دیکھا اور کہا میں بیمار ہوں۔ “ اس جملے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ بیمار ہوں یا اس لیے آسمان کی طرف دیکھا ہو کہ اے مالک ! اب میرے اعلان پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے تو میری مدد فرما۔ یا پھر اس حیرانگی سے دیکھا ہو جیسا کہ بعض موقعوں پر آدمی حیران ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ عجب لوگ ہیں میرے عقیدے کو جاننے کے باوجود مجھے دعوت میلہ دے رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ لکھا ہے کیونکہ آپ کی قوم ستاروں سے شگون لیتی تھی اس لئے آپ نے اوپر دیکھ کر ”إِ نِّیْ سَقِےْمٌ“ کہا تاکہ یہ اصرار نہ کریں اور اپنے عقیدہ کے مطابق تاثر لے کر بغیر تکرار کے چلے جائیں (واللہ اعلم) بہرحال وہ آپ کو چھوڑ کر عوامی میلے کی طرف چل دے ئے۔ (فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ )[ الصّٰفٰت : ٩٠] ” چناچہ وہ انہیں پیچھے چھوڑ گئے۔ “ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے اب وہ وقت آیا ہے جو کہا تھا اسے کر دکھایا جائے چناچہ مندر میں گھس گئے اور غیرت و جلال میں آکر فرمانے لگے۔ (فَرَاغَ اِِلٰی آلِہَتِہِمْ فَقَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ ۔ مَا لَکُمْ لاَ تَنْطِقُوْنَ ) [ الصّٰفٰت : ٩١، ٩٢] ” ابراہیم چپکے سے ان کے معبودوں میں جا گھسے اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں ؟ تم بولتے کیوں نہیں ہو ؟ اللہ اللہ ! آپ کی غیرت و جلالت کا عجیب منظر ہوگا۔ معلوم تھا اور خود ہی تو اعلان کیا کرتے تھے یہ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ لیکن آج خود ہی بلائے جا رہے ہیں۔ کبھی مومن پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ غیرت توحید سے لبریز اور دوسروں کو درس توحید دینے کے لیے ایسا بھی کرتا ہے، جیسا کہ فاروق اعظم (رض) نے طواف کعبہ کے وقت حجر اسود کو کہا تھا ” میں جانتا ہوں تیری حقیقت کو کہ تو ایک پتھر کا ٹکڑا ہے۔ میں تو تجھے اس لیے چوم رہا ہوں کیونکہ میں نے سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے چومتے ہوئے دیکھا تھا۔ دیکھتے جائیے اب باطل معبودوں کی شامت آنے والی ہے۔ “ (فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًا بالْیَمِیْنِِ )[ الصّٰفٰت : ٩٣] ” پھر ان کو دائیں ہاتھ سے پھوڑنا شروع کیا۔ “ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ذہین تھے : (فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلَّا کَبِیْرًا لَہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ ) [ اأانبیاء : ٥٨] ” پھر بتوں کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اسکی طرف رجوع کریں۔ “ جتنے بھی نبی اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے ذہین اور فطین تھے۔ دیکھیے ابراہیم (علیہ السلام) کتنے زیرک اور فطین ہیں کہ سب بتوں کو توڑا مگر بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ جب قوم واپس آکر دیکھے گی تو اس حادثے پر غور وفکر کرتے ہوئے یقیناً اس کی طرف رجوع کرے گی۔ اگر ” اِلَیْہِ “ کی ضمیر (اشارہ) بڑے بت کی طرف ہو تو مطلب یہ ہے کہ لوگ واپس آکر سوچیں گے کہ بڑے میاں نے کسی بات پر ناراض ہو کر چھوٹوں کا تیا پانچہ کردیا ہے۔ یا کم ازکم یہ تو ان کے دلوں میں خیال آئے گا کہ واقعی ابراہیم سچ کہتا تھا کہ یہ سب بےکار ہیں۔ نہ انہوں نے اپنے آپ کو بچایا اور نہ یہ بڑے میاں ہی روک سکے ہاں اگر ” اِلَیْہِ “ کا اشارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف ہو تو معنی بالکل صاف ہے کہ جب میرے پاس آئیں گے تو بات کرنے کا مزید موقعہ مل جائے گا۔ میں کہونگا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے عقیدے کے مطابق ان سے پوچھو اگر واقعی بت بولتے ہیں تو ان کا بڑا تو موجود ہے اس سے پوچھ لیجئے۔ (قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا إِنَّہُ لَمِنَ الظَّالِمِیْنَ ۔ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہُ إِبْرَاہِیْمُ )[ الانبیاء : ٥٩، ٦٠] ” کہنے لگے ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کیا ہے ؟ وہ بڑا ہی ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے ہم نے ان کے خلاف ایک ابراہیم نامی نوجوان کو چیلنج کرتے سنا ہے۔ “ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور فرمان : (٢) (عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) أَلاَّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنائز ] ” ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں مجھے علی بن ابی طالب (رض) نے کہا : کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا کہ ہر تصویرکو مٹادے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے برابر کردے۔ “ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے انتہائی نفرت کرنے والے تھے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) میلوں ٹھیلوں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑے بت کے سوا سب کو توڑدیا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر بتوں کو مخاطب کیا حالانکہ ان کا عقیدہ تھا کہ بت نہ سنتے ہیں اور نہ نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑ کر ثابت کردیا کہ یہ اپنے یا کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔
فنظر نظرۃ فی النجوم ۔۔۔۔۔ ضربا بالیمین (88 – 93) “۔ روایات میں آتا ہے کہ اس وقت عید یا میلے کا دن تھا۔ شاید نوروز ہو۔ اس دن لوگ شہر سے باہر چلے جاتے تھے ۔ رواج کے مطابق وہ اپنے الہوں کے سامنے برائے تبرک پھل رکھتے تھے۔ اور سیر اور تفریح کے بعد وہ یہ مبارک کھانے لیتے تھے۔ حضرت ابراہیم نے جب معقول باتوں کے مقابلے میں مایوس کن رویہ پایا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ ان کے عقائد اور نظریات کے اندر اس قدر بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کہ اب ان کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں ہے۔ تو انہوں نے دل میں ۔۔۔۔ ایک فیصلہ کرلیا کہ ان کو ذرا تلخ سبق دیا جائے۔ آپ نے اپنے منصوبے کے لیے اس دن کا انتظار فرمایا۔ کیونکہ اس دن پر یہ لوگ عبادت گاہوں کو خالی چھوڑ کر باہر چلے جاتے تھے۔ اور حضرت کے لیے اپنے منصوبے پر عمل کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔ ان لوگوں کی تنگ نظری اور کج فہمی حضرت ابراہیم کے لیے اب قابل برداشت نہ رہی تھی۔ جب دوسرے لوگوں نے ان سے کہا کہ تم عبادت گاہ کو چھوڑکر ہمارے ساتھ چلو تو آپ نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا کہ میری طبیعت خراب ہے۔ میں سیرو تفریح کے لیے نہیں جاسکتا۔ کیونکہ سیرو تفریح اور میلوں میں تو وہ لوگ جاتے ہیں جو عیش و عشرت کرنا چاہیں ، جن کے دل خالی ہوں اور ان کے لیے کوئی دلچسپی یا اہم کام پیش نظر نہ ہو۔ حضرت ابراہیم تو ہر وقت پریشان تھے۔ اپنی قوم کی اس بیماری کی وجہ سے۔ اس لیے ان کے قلب سلیم کو سیرو تفریح میں خوشی کب نصیب ہوئی تھی۔ بہر حال لوگ جلدی میں تھے تاکہ جائیں اور اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنی عید منائیں۔ اس لیے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی زیادہ فکر نہ کی بلکہ ان کو چھوڑ کر چلے گئے اور اپنی خوشیاں منانے لگے۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو وہ موقعہ مل گیا جس کی تلاش میں تھے۔ حضرت ابراہیم فوراً ان کے نام نہاد الہوں کے پاس پہنچے۔ ان کے سامنے قسم قسم کے کھانے اور تازہ پھل رکھے ہوئے تھے۔ بطور مزاح حضرت نے فرمایا تم کھاتے نہیں ہو ؟ ظاہر ہے کہ بتوں نے اس مزاح کا کیا جواب دیتا تھا ۔ اب آپ نے ذرا غصے اور کھلے مزاح کے ساتھ کہا تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ تم بات کیوں نہیں کرتے ۔ بعض اوقات انسان ایسی چیز سے بطور مزاح ہمکلام ہوتا ہے جس کے بارے میں اس کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ نہیں سنتی اور نہ جواب دے سکتی ہے۔ حقیقت کا علم ہوتے ہوئے بھی انسان ایسی باتیں کرتا ہے۔ یہ بات دراصل حضرت ان لوگوں کے پوچ اور غلط عقائد سے تنگ آکر ، کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ بتوں نے جواب تو نہ دینا تھا اور نہ دیا۔ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زبان کے بجائے آپ کے ہاتھ حرکت میں آگئے۔ فراح علیھم ضرنا بالیمین (37: 93) ” اس کے بعد وہ ان پر پل پڑا اور سیدھے ہاتھ سے خوب ضربیں لگائیں “۔ اب آپ کی بیماری دل کی گرفتگی اور پریشانی دور ہوئی۔ بالفاظ دیکگر آپ کا دل ٹھنڈا ہوا۔
38:۔ فنظر نظرۃ الخ :۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس انتظار میں تھے کہ انہیں کبھی ایسا موقع ہاتھ آئے جس پر وہ معبودانِ باطلہ کی بےبسی اور بیچارگی کو مشرکین پر واضح کرسکیں۔ چناچہ مشرکین کی عید کا دن آگیا جس میں وہ سب شہر سے باہر چلے جاتے۔ اور ایک مخصوص جگہ میں عید مناتے۔ مشرکین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی عید کی خوشی میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ وہ تو ایسے موقع کی تلاش میں تھے کہ یہ مشرکین سب باہر چلے جائیں اور وہ اکیلے شہر میں رہ جائیں تاکہ ان کے ٹھاکروں کو تور پھوڑ سکیں۔ چناچہ انہوں نے غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد یہی فیصلہ کیا کہ انہیں کسی بہانے سے ٹال کر خود شہر ہی میں رہنا چاہئے۔ پھر شاید یہ موقع ہاتھ نہ آئے۔ اس لیے آپ نے ان سے فرما دیا۔ انی سقیم، بھیا میں تو سقیم ہوں اس لیے تمہارے ساتھ عید کی خوشی میں شریک ہونے سے معذور ہوں۔ لفظ سقیم دو معنوں کا حامل ہے۔ اول سقیم النفس یعنی بیزار۔ اراد انی سقیم النفس لکفرکم (مدارک ج 4 ص 19) ۔ دوم، مریض، بیمار۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس لفظ سے دوسرا معنی مراد لیا۔ یعنی میں تمہارے کفر و شرک کی وجہ سے تم سے بیزار ہوں اور تمہاری عید میں شریک نہیں ہوسکتا۔ لیکن مشرکین اس سے پہلا معنی سمجھے۔ اس اسلوب کلام کو تعریض یا توریہ کہا جاتا ہے جو حقیقت میں صحیح اور مطابق واقعہ ہوتا ہے۔ لیکن بظاہر جھوٹ معلوم ہوتا ہے نظر نظرۃ فی النجوم، یہ محاورہ ہے جس کے معنی غور و فکر کرنے کے ہیں۔ قال الحسن المعنی انہم لما کلفوہ الخروج معہم تفکر فیما یعمل الخلیل والمبرد، یقال للرجل اذا فکر فی الشیء یدبرہ، نظر فی النجوم (قرطبی ج 15 ص 92) ، یا اس سے حقیقۃً ستاروں میں غور و فکر کرنا مراد ہے۔ یہ قوم چونکہ ستارہ پرست تھی اور ستاروں کے مختلف احوال و اوضاع کو نظام عالم میں مؤثر سمجھتی تھی اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور ایہام ستاروں میں دیکھ کر جواب دیا تاکہ انہیں یہ گمان ہو کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں میں دیکھ کر جواب دیا تاکہ انہیں یہ گمان ہو کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کا حساب لگا کر جواب دیا ہے اور انہیں جواب کی صحت کا یقین ہوجائے کان قومہ نجامین او ھمہم استدلالہ علی مرضۃ بعلم النجوم (جامع البیان ص 385) ۔