Surat us Saaffaat

Surah: 37

Verse: 98

سورة الصافات

فَاَرَادُوۡا بِہٖ کَیۡدًا فَجَعَلۡنٰہُمُ الۡاَسۡفَلِیۡنَ ﴿۹۸﴾

And they intended for him a plan, but We made them the most debased.

انہوں نے تو اس ( ابراہیم علیہ السلام ) کے ساتھ مکر کرنا چاہا لیکن ہم نے انہی کو نیچا کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, they plotted a plot against him, but We made them the lowest.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

98۔ 1 یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکر و حیلے کو ناکام بنادیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] سیدنا ابراہیم کو آگ کے الاؤ میں پھینکنا :۔ سیدنا ابراہیم کے دلائل کا جواب تو کسی کے پاس تھا نہیں۔ لہذا وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے اور کہنے لگے، اپنے معبودوں کے گستاخ کو ایسی قرار واقعی سزا دو جس سے دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ چناچہ بالاتفاق طے ہوا کہ ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا جائے اور اس میں سیدنا ابراہیم کو پھینک کر زندہ جلا دیا جائے۔ چناچہ ان لوگوں نے حسب تجویز بہت بڑا الاؤ تیار کیا اور سیدنا ابراہیم کو اس میں پھینک دیا۔ اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچنے پائے۔ چناچہ آپ صحیح سلامت اس آگ سے باہر نکل آئے۔ اس طرح آپ تو اس بھاری آزمائش میں پوری طرح کامیاب ہوگئے اور قوم کو پہلے سے بھی زیادہ رسوا ہونا پڑا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا : اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة انبیاء (٧٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَرَادُوْا بِہٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِيْنَ۝ ٩٨ رود والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] ( ر و د ) الرود الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب/ 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ كيد الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] ( ک ی د ) الکید ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف/ 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ سفل السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی، ( س ف ل ) السفل یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74]

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٨{ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰہُمُ الْاَسْفَلِیْنَ } ” تو اس طرح انہوں نے اس کے ساتھ ایک دائو آزمایا ‘ لیکن ہم نے ان کو ہی نیچا دکھادیا۔ “ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف کون سا دائو آزمایا تھا ‘ اس کی وضاحت قبل ازیں سورة الانبیاء کی آیت ٧٠ کی تشریح کے ضمن میں ہوچکی ہے۔ دراصل وہ لوگ آپ ( علیہ السلام) کو آگ میں جلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ محض ڈرانا چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب آپ ( علیہ السلام) دیکھیں گے کہ ان کے لیے آگ کا اتنا بڑا الائو دہکایا جا رہا ہے تو سارا نشہ ہرن ہوجائے گا ‘ اور پھر جب انہیں آگ کے دہانے پر لاکر کھڑا کیا جائے گا تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے اور آپ ( علیہ السلام) تائب ہو کر اپنے عقائد سے رجوع کرلیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ ” فتنہ “ دب جائے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ بالکل ہی الٹ ہوگیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو الائو کے دہانے پر لایا گیا تو بقول اقبالؔ: ؎ بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق عقل ہے محو ِتماشائے لب ِبام ابھی ! بہر حال جب ابراہیم (علیہ السلام) نے بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ( علیہ السلام) کے لیے آگ کو گل و گلزار بنا دیا۔ اس طرح وہ لوگ اپنے ارادوں اور منصوبوں سمیت خائب و خاسر ہوگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

53 The words in Surah Al-Anbiya`: 69 are to the effect: "We commanded: O fire, be cool and become safe for Abraham," and in Surah AI'Ankbut: 24, it has been said: "Then Allah saved him from the fire." This proves that those people had actually thrown the Prophet Abraham into the fire, and then Allah had rescued him from it safe and sound. The words of the verse, "They had designed a plan against him, but We defeated them in their plan," cannot be taken to mean that they had only intended to throw the Prophet Abraham into the fire but could not carry their plan into effect; but when these words are read with the verses cited above, the meaning becomes plain that they had wanted to kill him by casting him into the fire but could not do so, and the Prophet Abraham's miraculous escape proved his superiority and the polytheists were humbled by Allah. The real object of relating this incident is to warn the people of the Quraish to this effect: "The way that you have adopted is not the way of the Prophet Abraham, whose descendants you claim yourselves to be, but his way is the one being presented by the Prophet Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings). Now, if you plot against him in order to defeat him and frustrate his mission, as the people of the Prophet Abraham had done against him, you alone will be defeated in the end, because you cannot defeat Muhammad (upon whom be Allah's peace).

سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :53 سورہ انبیا ( آیت 69 ) میں الفاظ یہ ہیں ۔ قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْداً وَّ سَلَاماً عَلیٓ اِبْرَاہیم ( ہم نے کہا ، اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے ) ۔ اور سورہ عنکبوت ( آیت 24 ) میں ارشاد ہوا ہے فَاَنْجٰہُ اللہُ مِنَ النَّارِ ، ( پھر اللہ نے اس کو آگ سے بچا لیا ) ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینک دیا تھا ، اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بسلامت نکال دیا ۔ آیت کے یہ الفاظ کہ انہوں نے اس کے خلاف ایک کارروائی کرنی چاہی تھی مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا اس معنی میں نہیں لیے جا سکتے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکنا چاہا تھا مگر نہ پھینک سکے ۔ بلکہ مذکورہ بالا آیات کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے ان کا صاف مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دینا چاہتے تھے مگر نہ کر سکے ، اور ان کے معجزانہ طریقہ سے بچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کی برتری ثابت ہو گئی اور مشرکین کو اللہ نے نیچا دکھا دیا ۔ اس واقعہ کو بیان کرنے سے اصل مقصود قریش کے لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ جن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے پر تم فخر کرتے ہو ان کا طریقہ وہ نہ تھا جو تم نے اختیار کر رکھا ہے ، بلکہ وہ تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ۔ اب اگر تم ان کو نیچا دکھانے کے لیے وہ چالیں چلو گے جو حضرت ابراہیم کی قوم نے ان کے ساتھ چلی تھیں تو آخر کار نیچا تم ہی دیکھو گے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نیچا تم نہیں دکھا سکتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

17: یعنی جو آگ دہکائی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈا کردیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ انبیاء :32 میں گذر چکا ہے۔ وہیں اس کی تشریح بھی گذری ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(37:98) کیدا خفیہ تدبیر۔ چالاکی۔ دائو۔ کاد یکید (باب ضرب) کا مصدر ہے۔ برا ارادہ کرنا۔ خفیہ تدبیر کرنا۔ الکید (خفیہ تدبیر) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں جسے دوسروں سے مخفی رکھا جائے۔ یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ اچھے معنوں میں فرمایا :۔ کذلک کدنا لیوسف (12:76) اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کے لئے تدبیر کردی۔ اور برے معنوں میں فان کان لکم کید فکیدون (77:39) اگر تم کو کوئی دائو آتا ہے تو مجھ پر کر چلو۔ یا آیت ہذا (37:98) فارادوا بہ کیدا فجعلنہم الاسفلین۔ غرض ان لوگون نے ان کے ساتھ برائی کرنا چاہی سو ہم نے ان کو نیچا دکھا دیا۔ اسفلین۔ اسفل کی جمع ہے اسم تفضیل کا صیغہ ہے سب سے نیچے۔ سفل (باب سمع) اور سفل (باب کرم) سفول وسفال مصدر بمعنی پست ہونا۔ حقیر ہونا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو واقعی آگ میں ڈال دیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ دیکھئے۔ ( سورة انبیاء آیت 69 و عنکبوت آیت 24)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فارادوا بہ کیدا فجعلنھم الاسفلین (98) ” “۔ جب اللہ نہ چاہے تو ضعیف بندوں کی تدابیر کیا کرسکتی ہیں اور اللہ کے معاملے میں ضعیف اور حقیر بندے کر بھی کیا سکتے ہیں۔ دنیا کے سرکش ، جبار ، حکمران ، ڈکٹیٹر اور ان کے اعوان و انصار اللہ کے مقابلے میں ہیچ ہوتے ہیں ۔ جب اللہ کا فضل اللہ کے بندوں کے شامل حال ہو۔ اب قصہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری کڑی شروع ہوتی ہے۔ اپنے باپ اور اپنی قوم کے ساتھ آپ کا تنازعہ ختم ہوگیا۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ ایک خود ساختہ حجیم (آگ) میں آپ کو جلا دیں۔ اور اللہ نے ارادہ کیا کہ وہ گھاٹے میں رہیں ۔ اور حضرت ابراہیم ان کی سازش سے بچ گئے۔ یہاں آکر حضرت ابراہیم نے اپنی سابقہ زندگی کو خیر باد کہا اور زندگی کے نئے مرحلے کا آغاز کیا۔ سابقہ زندگی کا دفتر لپیٹ لیا گیا اور زندگی کے ایک نیئے باپ کا آغاز ہوگیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(98) غرض انہوں نے ابراہیم کے ساتھ ایک برائی اور بدخواہی کا ارادہ کیا مگر ہم نے انہی کو مغلوب اور نیچا کردیا۔ یعنی آگ ٹھنڈی ہوگئی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صحیح اور سلامت نکل آئے اور ان منکروں نے جو دائوں کیا تھا اس دائوں میں انہی کو نیچا دیکھنا پڑا اور ان کا دائوں انہی پر الٹا پڑا اور ہم نے ان کو زیرتر کردیا۔