Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 11

سورة ص

جُنۡدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہۡزُوۡمٌ مِّنَ الۡاَحۡزَابِ ﴿۱۱﴾

[They are but] soldiers [who will be] defeated there among the companies [of disbelievers].

یہ بھی ( بڑے بڑے ) لشکروں میں سے شکست پایا ہوا ( چھوٹا سا ) لشکر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

they will be a defeated host like the Confederates of the old times. meaning, these hosts of disbelievers who are in false pride and opposition will be defeated and overwhelmed and disgraced, just as the Confederates of the old times were disgraced before them. This Ayah is like the Ayah: أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ Or say they: "We are a great multitude, victorious." Their multitude will be put to flight, and they will show their backs. (54:44-45) -- which is what happened on the day of Badr -- بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ Nay, but the Hour is their appointed time, and the Hour will be more grievous and more bitter. (54:46)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اور کفار کی شکست کا وعدہ ہے۔ یعنی کفار کا یہ لشکر جو باطل لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، بڑا ہے، یا حقیر، اس کی قطعًا پروا نہ کریں نہ اس سے خوف کھائیں، شکست ان کا مقدر ہے، ھُنَالِکَ مکان بعید کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر اور یوم فتح مکہ کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں کافر عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے گروہوں میں سے یہ کوئی اتنا بڑا جتھا نہیں ان سے بڑے بڑے جتھے پہلے گزر چکے اور مات کھاچکے ہیں۔ یہ کفار مکہ کی تو ایک معمولی سی جمعیت ہے جو اسی مقام پر یعنی مکہ میں ہی جہاں یہ بیٹھے باتیں بنا رہے ہیں، اپنی مکمل شکست دیکھ لیں گے۔ یہ گویا کفار مکہ کے حق میں ایک پیشین گوئی تھی جو چند ہی سال بعد حرف بحرف پوری ہو کے رہی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ : ” جُنْدٌ“ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے اور ” مَّا “ اس کی مزید تاکید کے لیے ہے، جیسے کہا جاتا ہے : ” أَکَلْتُ شَیْءًا مَا، أَيْ شَیْءًا قَلِیْلًا “ ” میں نے تھوڑی سی چیز کھائی۔ “ ” جُنْدٌ مَّا “ ایک حقیر سا لشکر۔ ” هُنَالِكَ “ وہاں، اس جگہ، یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول کے مقابلے میں۔ ” الْاَحْزَابِ “ ” حِزْبٌ“ کی جمع ہے، یعنی مختلف لشکر، جماعتیں۔ یعنی خدائی اختیارات کی ڈینگیں مارنے والے اور مختلف جماعتوں اور لشکروں سے جمع ہونے والے اس حقیر سے لشکر کی بساط ہی کیا ہے۔ یہ تو جب بھی میدان میں آیا شکست کھانے والا ہے، جیسا کہ سورة قمر میں فرمایا : (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) [ القمر : ٤٥ ] ” عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔ “ بدر کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ “ کہتے ہوئے میدان کی طرف بڑھے، پھر احد، خندق، فتح مکہ ہر موقع پر ایسا ہی ہوا کہ لشکر کفار نے منہ کی کھائی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

جُنْدٌ مَّا ہُنَالِكَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ۝ ١١ جند يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] ( ج ن د ) الجند کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔ هزم أصل الهَزْمِ : غمز الشیء الیابس حتی ينحطم، كَهَزْمِ الشّنّ ، وهَزْمِ القثّاء والبطّيخ، ومنه : الهَزِيمَةُ لأنه كما يعبّر عنه بذلک يعبّر عنه بالحطم والکسر . قال تعالی: فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ [ البقرة/ 251] ، جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ [ ص/ 11] وأصابته هَازِمَةُ الدّهر . أي : کا سرة کقولهم : فاقرة، وهَزَمَ الرّعد : تكسّر صوته، والْمِهْزَامُ : عود يجعل الصّبيان في رأسه نارا فيلعبون به، كأنّهم يَهْزِمُونَ به الصّبيان . ويقولون للرّجل الطّبع : هَزَمَ واهْتَزَمَ. ( ھ ز م ) الھزم کے اصل معنی کسی خشک چیز کو دبا کر توڑ دینے کے ہیں ۔ خشک اور پرانے مشکیزے کو دبا کر توڑڈالنے یا تربوز ککڑی وغیرہ کے توڑنے پر ھزم کا لفظ بولاجاتا ہے اور اسی سے ہزیمت ( بمعنی شکست ) ہے جس طرح حطم ماکسر کا لفظ مجازا شکست کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح ھزم کا لفظ بھی اس معنی میں بو لاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ [ البقرة/ 251] تو طالوت کی فوج نے خدا کے حکم سے ان کو ہزیمت دی جُنْدٌ ما هُنالِكَ مَهْزُومٌ مِنَ الْأَحْزابِ [ ص/ 11] یہاں شکست کھائے ہوئے گروہوں میں سے بھی ایک لشکر ہے ۔ اور فاقرۃ کی طرح ھازمتہ بھی بڑی مصیبت کو کہتے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ اصابتہ ھازمتہ الدمرات بڑی مصیبت پہنچی ۔ ھزمالرعد گرج کی آواز کا شکستہ ہونا المھزام ایک لکڑی جس کے سرے پر آگ لگا کر بچے کھیلتے ہیں ۔ گویا وہ اس سے دوسرے لڑکوں کو ہزیمیت دیتے ہیں اور کمینے ( وفی ) شخص کے متعلق ھزم واھتزم کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ حزب الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ( ح ز ب ) الحزب وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١۔ ١٢) اور وہاں جاکر دیکھیں کہ کیا آپ کو نبوت ملی ہے یا نہیں اور کیا آپ پر قرآن کریم نازل کیا گیا ہے یا نہیں مقام بدر پر جہاں انہوں نے رسول اکرم کے خلاف سازش کی تھی محض ان لوگوں کی ایک بھیڑ ہے اور منجملہ اور کافروں کے یہ کفار مکہ بھی ہیں جو بہت جلد شکست دیے جائیں گے۔ چناچہ سب کے سب بدر کے دن مارے گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ { جُنْدٌ مَّا ہُنَالِکَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ } ” یہ بھی ایک لشکر ہے (پہلے ہلاک کیے گئے) لشکروں میں سے ‘ جواَب یہاں ہلاک ہوگا۔ “ اگلی آیات میں قوم نوح ( علیہ السلام) ‘ قوم ہود ( علیہ السلام) ‘ قوم لوط ( علیہ السلام) ‘ قوم شعیب (علیہ السلام) اور آلِ فرعون کے عبرتناک انجام کا ذکر ہے۔ مطلب یہ کہ جو روش اختیار کر کے ماضی کی یہ اقوام ہلاکت سے دو چار ہوئیں ‘ وہی روش اب قریش ِمکہ ّبھی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی مذکورہ اقوام جیسے انجام سے دو چار ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 "Here" implies the city of Makkah. That is, `The time is coming when these people shall be humbled and routed in the very place where they are opposing and mocking you., Then, they will be standing, with heads hung down, before the same man whom they despise and refuse to recognize as a Prophet of Allah. "

سورة صٓ حاشیہ نمبر :12 اسی جگہ کا اشارہ مکہ معظمہ کی طرف ہے ۔ یعنی جہان یہ لوگ یہ باتیں بنا رہے ہیں ، اسی جگہ ایک دن یہ شکست کھانے والے ہیں اور یہیں وہ وقت آنے والا ہے جب یہ منہ لٹکائے اسی شخص کے سامنے کھڑے ہوں گے جسے آج یہ حقیر سمجھ کر نبی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: مقصد یہ ہے کہ جو بڑی بڑی قومیں پہلے گذری ہیں، ان کے مقابلے میں یہ لوگ ایک چھوٹا سا لشکر ہیں جو خود اپنے وطن میں شکست کھا جائے گا۔ یہ فتح مکہ کی پیشین گوئی ہے، اور واقعہ بھی یہی ہوا کہ یہ سارے بڑے بول بولنے والے فتح مکہ کے موقع پر ایسی شکست کھا گئے کہ مکہ مکرمہ پر ان کا کوئی اقتدار باقی نہیں رہا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:11) جند ما۔ ای ہم جند ۔۔ ما تقلیل و تحقیر کے لئے ہے جیسے کہ کہتے ہیں اکلت شیئا ما میں نے تھوڑا سا کھایا۔ جند مبتدا محذوف کی خبر ہے۔ ھناک ظرف مکان و زمان، وہاں، اس جگہ، اس وقت۔ یہاں مراد بعض کے نزدیک مکہ ہے اور بعض نے اس سے بدر مراد لیا ہے مھزوم اسم مفعول واحد مذکر ھزم (باب ضرب) مصدر سے، شکست خوردہ۔ الاحزاب۔ گروہ۔ ٹولیاں۔ جماعتیں۔ قبیلے۔ عبارت یوں ہوگی :۔ ہم جند من الاحزاب مھزوم ھنالک یہ کفار کی ایک حقیر سی جماعت ہے (جو انبیاء کے مخالف) مختلف قبیلوں سے (جمع کردہ شدہ) ہے جیسے وہاں (بمقام بدر یا مکہ) شکست دی جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی قریش کے یہ کفار آخر ہیں کیا ؟ جس کسی نے پیغمبروں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی منہ کی کھائی۔ ایک وقت آئے گا کہ مکہ کی سر زمین میں انہیں شکست ہوگی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اطاعت سے سر جھکائیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی مکہ میں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس سے پہلی اقوام پر اس لیے عذاب آئے کہ وہ اپنے انبیاء کی تکذیب کرنے والے تھے۔ اہل مکہ ! تم بھی وہی وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہو جب کہ تم ایک جھٹکے کی ما رہو اور ناکامی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل سے مکہ والے اس قدر دلیر ہوچکے تھے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بار بار کہتے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ یہ عذاب کیوں نہیں آتا ؟ وہ لوگ تمرد میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ ایک دن اپنے لیے ان الفاظ میں بد دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب قیامت کی بجائے دنیا میں ہی ہمارا حساب چکادے۔ انہوں نے اس طرح بھی دعا کی کہ ” کافروں نے کہا کہ اللہ اگر یہ قرآن حقیقت میں تیری طرف سے ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دکھ کی مار نازل کر دے۔ “ (الانفال : ٣٢) انہیں ایک بار پھر سمجھایا اور موقعہ دیا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بداخلاقی اور بغاوت کی تمام حدودپھلانگ چکے۔ مگر سوچ لو ! کہ جب اللہ کا عذاب یا قیامت نازل ہوگی تو پھر اس میں نہ کوئی وقفہ ہوگا اور نہ ہی مہلت دی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر شک نہیں۔ انہیں تو یہ شک ہے کہ اس غریب اور یتیم پر وحی کیوں نازل ہوئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں میری قدرت اور انتخاب پر شک کرتے ہیں۔ یہ شک کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے پیچھے ان کا تکبرچھپا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک بیت اللہ کے پڑوسی اور متولی ہونے کی وجہ سے میری نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جوں ہی میرا عذاب انہیں آلے گا تو ان کا سارا غرورخاک میں مل جائے گا۔ یا پھر ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں کہ یہ جسے چاہیں عنایت کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں ؟ یہ اس قدر تکبر کا اظہار کرتے ہیں کیا انہیں زمین و آسمان کی بادشاہت حاصل ہے ؟ کہ جب چاہیں آسمان پر چڑھ جائیں اور جب چاہیں زمین کے خزانے نکال لائیں ؟ ظاہر بات ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ البتہ یہ بزعم خود اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لوگ قوم نوح کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہی ان کی حالت قوم عاد کے مقابلے میں ہے۔ قوم ثمود اور قوم شعیب اہل مکہ سے تعداد اور اسباب میں زیادہ تھیں لیکن جب ربِّ ذوالجلال نے گرفت فرمائی تو انہیں کوئی بچانے اور چھڑانے والا نہ تھا۔ جہاں تک فرعون کا معاملہ ہے وہ اتنے بڑے لاؤ لشکر رکھنے اور ظلم کرنے والا تھا کہ اپنے مخالفوں کو زمین پر لٹاکر ان پر میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔ مظلوم سسکیاں لے لے کر مرجاتے لیکن اسے تر س نہیں آیا کرتا تھا۔ جب اس پر اللہ کی گرفت آئی تو دہائی دیتا رہا ہے کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کا ایمان مسترد کردیا گیا۔ اس موقعہ پر اہل مکہ کے سامنے فرعون اور بڑی بڑی اقوام کا ذکر کرکے انہیں بتلایا گیا ہے کہ سمجھ جاؤ اب بھی موقعہ ہے ورنہ جس عذاب کا تم باربار مطالبہ کرتے ہو جب وہ آجائے گا تو آہ وزاریاں کر وگے لیکن بےسود ثابت ہوں گی۔ اس کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو تسلی دی گئی ہے کہ اطمینان خاطر رکھو۔ اللہ کے ہاں نہ دیر اور نہ اندھیر ہے جب مقررہ وقت آپہنچے گا تو آپ کے مخالفوں کا پورا پورا حساب چکا دیا جائے گا جس طرح فرعون اور اس سے پہلی اقوام کا حساب چکایاجا چکا ہے۔ مسائل ١۔ اہل مکہ غرور کی بنیاد پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر شک کرتے تھے۔ ٢۔ اہل مکہ اپنے سے پہلی اقوام سے بڑھ کر نہیں تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے تکبر کی انتہا کردی تھی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 11 ان کا انجام اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ دور جاکر پھینک دیئے جائیں اور ان کے اس لشکر کو شکست ہوجائے۔ وہ مقام جس کا اپنے لئے یہ دعویٰ کرتے ہیں اس سے بہت دور کسی جگہ ان کا لشکر شکست کھانے والا ہے۔ یہ لشکر اللہ کی مملکت میں دخیل نہیں ہے۔ یہ اللہ کے ارادوں کو نہیں بدل سکتا۔ اور اللہ کی مشیت کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایک مجہول النسب لشکر ہے ، مجہول الشان ہے اور شکست خوردہ ہے۔ گویا شکست اس کی لازمی صفت ہے۔ اس کی شخصیت کا حصہ ہے اور یہ لشکر مختلف احزاب سے بنا ہوا ہے۔ جن کے رجحانات مختلف ہیں اور جن کی خواہشات مختلف ہیں۔ اللہ اور رسول اللہ کے دشمن صرف اسی قدر ترقی کرسکتے ہیں جس کی تصویر کشی قرآن کریم کمزوری ، عجز اور ضعف کے رنگوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اور یہ تاثر دیتا ہے کہ لوگ اللہ کے تصرف اور تدبیر کے دائرے سے بہت ہی دور ہیں۔ اگرچہ دنیا کی نظروں میں وہ جبار وقہار ہوں اور ان کی پکڑ سخت ہو اور کچھ عرصہ کے لیے دنیا میں ان کی بات چلتی ہو۔ پوری تاریخ انسانی میں ایسے جباروں کے بارے قرآن مجید یہ تصویر کشی کرتا ہے۔ جندما ھنالک مھزوم من الاحزاب (38: 11) ” یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(جُندٌ مَّا ھُنَالِکَ مَہْزُوْمٌ مِّنَ الْاَحْزَابِ ) (اس مقام پر ان لوگوں کی ایک بھیڑ ہے جو شکست کھائی ہوئی جماعتوں میں سے ہیں) یعنی یہاں مکہ معظمہ میں ایسے لوگوں کی بھیڑ ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں ان کا لشکر شکست خوردہ جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے، یہ بھی شکست کھائیں گے جیسے ان سے پہلی مخالف جماعتوں نے شکست کھائی، چناچہ اہل مکہ نے بدر میں شکست کھائی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ احزاب سے وہ جماعتیں مراد ہیں جو غزوۂ خندق کے موقع پر چڑھ کر آگئی تھیں انہوں نے بھی شکست کھائی اور بری طرح پسپا ہو کر بھاگے اس مضمون میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ غم نہ کریں فکر مند نہ ہوں دوسری اقوام کی طرح ان کو بھی شکست ہوگی۔ (راجع القرطبی ص ١٥٣: ج ١٥)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

14:۔ جند ما الخ : یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور مشرکین مکہ کے مہزوم و مغلوب ہونے کی پیشگوئی ہے یہ مشرکین کا ایک نہایت ہی حقیر سا لشکر ہے جو عنقریب مغلوب و مقہور ہونے الا ہے۔ یہ بھی ان جماعتوں میں ایک ہے جنہوں نے انبیاء (علیہم السلام) کے خلاف نبرد آزمائی کی اور آخر ذلیل و رسوا ہوئے یہ وعدہ جنگ بدر میں پورا ہوا اور ھنالک سے مشرکین کے قتل ہو کر گرنے کی طرف اشارہ ہے یعنی ان قریشا من جملۃ الجناد الذین تجمعوا تحزبوا علی الانبیاء بالتکذیب فقہروا واھلکوا۔ اخبر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نبیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وھو بمکۃ انہ سیہزم جند المشرکین فجاء تاویلہا یوم بدر وھنالک اشارۃ الی مصارعہم ببدر (خازن ج 6 ص 42) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) منجملہ دیگر مخالفین انبیاء کی جماعتوں کے ان کفار کا بھی ایک معمولی سا لشکر اور بھیڑ ہے جو شکست دے دیا جائے گا۔ یعنی جس طرح دیگر مخالفین انبیاء کے گروہ تھے کہ جب انہوں نے انبیاء کے ساتھ جنگ کی تو ان کی شکست ہوئی انہی گروہوں میں سے ایک چھوٹا سا گروہ اور غول یہاں مکہ میں بھی ہے جو لڑائی کے موقعہ پر شکست دے دیا جائے گا۔ اے پیغمبر تسلی رکھو گھبرانے کی بات نہیں حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ خبر دی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو جب کہ وہ مکہ میں تھے کہ لشکر مشرکوں کا شکست پائے گا چناچہ بدر میں ایس ہی ہوا سورة القمر میں ارشاد ہے۔ سیھزم الجمع ویولون الدبر ۔ عنقریب گروہ شکست پائے گا اور پیٹھ پھیرلے گا۔