Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 15

سورة ص

وَ مَا یَنۡظُرُ ہٰۤؤُلَآءِ اِلَّا صَیۡحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنۡ فَوَاقٍ ﴿۱۵﴾

And these [disbelievers] await not but one blast [of the Horn]; for it there will be no delay.

انہیں صرف ایک چیخ کا انتظار ہے جس میں کوئی توقف ( اور ڈھیل ) نہیں ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And these only wait for a single Sayhah there will be no pause or ending thereto. Malik narrated from Zayd bin Aslam; "There will none who can avert it," i.e., they will only wait for the Hour that it shall come upon them suddenly while they perceive not. But some of its portents have already come, i.e., it has drawn nigh. This Sayhah is the blast on the Trumpet when Allah will command Israfil to sound a long note, and there will be no one in the heaven or on earth but will be terrified, except those whom Allah spares. وَقَالُوا رَبَّنَا عَجِّل لَّنَا قِطَّنَا قَبْلَ يَوْمِ الْحِسَابِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی صور پھونکنے کا جس سے قیامت برپا ہوجائے گی۔ 15۔ 2 صور پھونکنے کی دیر ہوگی کہ قیامت کا زلزلہ برپا ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] فواق کا لغوی معنی :۔ فواق دراصل دودھ دوہتے وقت گائے کا ایک دفعہ تھن نچوڑنے اور دوسری دفعہ وہی تھن نچوڑنے کے درمیان کے وقفہ کو کہتے ہیں۔ اور اس سے مراد انتہائی قلیل مدت لی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب یہ دھماکہ یا کڑکا ہوگا تو یہ اس وقت تک مسلسل ہوتا رہے گا جب تک سارے مجرم ڈھیر نہ ہوجائیں اور اس میں معمولی سا وقفہ بھی نہ ہوگا۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ انہیں ہلاک کرنے کے لئے ایک کڑکا ہی کافی ہوگا دوسرے کی نوبت یا حاجت ہی پیش نہ آئے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا يَنْظُرُ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً :” يَنْظُرُ “ یہاں ” یَنْتَظِرُ “ کے معنی میں ہے۔ ” صَيْحَةً وَّاحِدَةً “ (ایک سخت چیخ) سے مراد دوسری دفعہ صور کے نفخہ سے پیدا ہونے والی آواز ہے، کیونکہ پہلے نفخہ کے وقت تک زندہ و موجود رہنے کا انتظار تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ ” فَوَاقٍ “ مَا بَیْنَ الْحَلْبَتَیْنِ مِنَ الْوَقْتِ أَوْ مَا بَیْنَ فَتْحِ یَدِکَ وَ قَبْضِھَا عَلَی الضَّرْعِ “ (قاموس) ” دو دفعہ دودھ دوہنے کے درمیان کا وقفہ یا دودھ دوہتے وقت تھن کو پکڑنے اور چھوڑنے کا درمیانی وقفہ۔ “ مراد تھوڑا سا وقفہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والے یہ لوگ ایک سخت چیخ کے انتظار میں ہیں، جو شروع ہوگی تو اس میں اس وقت تک کوئی وقفہ نہیں ہوگا جب تک تمام لوگ زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش نہیں ہوجائیں گے، فرمایا : (اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِيْعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ ) [ یٰسٓ : ٥٣ ] ” نہیں ہوگی وہ مگر ایک ہی چیخ، تو اچانک وہ سب ہمارے پاس حاضر کیے ہوئے ہوں گے۔ “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The word: فَوَاقُ (fawaq) in verse 15: مَّا لَهَا مِن فَوَاقٍ (that will have no pause.) is used in Arabic to convey several meanings. To begin with, &fawaq& is the period of time that intervenes between milking an animal and creation of milk in its teats once again. Then, it also means &comfort.& Whatever the case, the sense is that the Horn صُور (Sur) blown by Sayyidna Israfil (علیہ السلام) would be so continuous that there will be no pause in it. (Qurtubi)

(آیت) مَّا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ ۔ فواق کے عربی میں کئی معنی آتے ہیں۔ ایک تو ” فواق “ اس درمیانی وقفہ کو کہتے ہیں جس میں ایک مرتبہ دودھ دوہنے کے بعد دوبارہ اس کے تھنوں میں دودھ آجائے۔ نیز اس کے معنی ” راحت و آرام “ کے بھی ہیں۔ بہرصورت، مطلب یہ ہے کہ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کا پھونکا ہوا صور اس قدر مسلسل ہوگا کہ اس میں کوئی وقفہ نہ ہوگا۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَنْظُرُ ہٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنْ فَوَاقٍ۝ ١٥ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں صاح الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] ( ص ی ح ) الصیحۃ کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔ فُوَاقُ والْفُوَاقُ : ما بين الحلبتین . وقوله : ما لَها مِنْ فَواقٍ [ ص/ 15] ، أي : من راحة ترجع إليها، وقیل : ما لها من رجوع إلى الدّنيا . قال أبو عبیدة : ( من قرأ : مِنْ فَواقٍ بالضمّ فهو من فُوَاقِ الناقة . أي : ما بين الحلبتین، وقیل : هما واحد نحو : جمام وجمام) وقیل : اسْتَفِقْ ناقتَكَ ، أي : اترکها حتی يَفُوقَ لبنها، وفَوِّقْ فصیلَكَ ، أي : اسقه ساعة بعد ساعة، وظلّ يَتَفَوَّقُ المخض، قال الشاعر : حتی إذا فيقة في ضرعها اجتمعت الافاقتہ ( افعال ) کے معنی نشہ یاغش کے بعد ہوش میں آنے یا مرض کے بعد ہوش میں آنے یاز مرض کے بعد کمزور سے قوت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں نیز افاقتہ کے معنی دودھ دوہنے کے بعد دودھ کا پھر تھنوں میں ض لوٹ آبھی آتے ہیں اور جو دودھ تھنوں میں لوٹتا ہے اسے فوقتہ کہا جاتا ہے اور ایک دفعہ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ما لَها مِنْ فَواقٍ [ ص/ 15] جس میں شروع ہوئے پیچھے ) کچھ وقفہ نہین ہوگا ۔ جس کے معنی راحت کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹنا نہین ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ اگر فواق بضم الفاء پڑھا جائے تو یہ فواق لناقۃ کے محاورہ سے مشتق ہوگا اور بعض نے کہا ہے کہ فتحہ اور ضمہ فاء دونوں کے یاک ہی معنی ہیں جیسے جمام وجمام اور بعض نے کہا ہے کہ استفق ناقتک کے معنی یہ ہیں کہ اپنی اونٹنی کو چھوڑ دو تاکہ اس کے تھنوں میں دودھ اتر آئے اور فوق فصیلک کے معنی ہیں کہ اونٹ کے بچہ کو کچھ وقفہ کے بعد دودھ پلاؤ ظل یتعوق المحض وہ دن دن بھر وقفوں کے ساتھ دودھ بلوتا رہا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 347 ) حتیا فیقۃ فی ضر عھا اجتمعت حتی کہ جب اس کے تھنوں میں دودھ دوبارہ جمع ہوگیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ { وَمَا یَنْظُرُ ہٰٓؤُلَآئِ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً مَّا لَہَا مِنْ فَوَاقٍ } ” اور یہ لوگ بھی اب منتظر نہیں ہیں مگر صرف ایک چنگھاڑ کے جس میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا۔ “ ماضی کی کئی اقوام پر اللہ کا عذاب ایک مسلسل تیز آواز اور چنگھاڑ کی صورت میں بھی آیا تھا۔ چناچہ اگر مشرکین ِمکہ ّاپنی ہٹ دھرمی پر اسی طرح قائم رہے تو ایسا ہی کوئی عذاب ان پر بھی آسکتا ہے۔ آج کی سائنس بھی تصدیق کرتی ہے کہ صوتی لہریں (sound waves) چونکہ انرجی ہی کی ایک قسم ہے ‘ اس لیے ایک انتہائی زور دار آواز کسی بھی مادی نظام کو درہم برہم کرنے اور ماحول میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ اگر کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہے تو یہ کام وہ صرف ایک زور دار آواز سے ہی کرسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 That is, `Only a single blast of the torment will be enough to annihilate them; no other will be needed for the purpose." Another meaning of the sentence can be: "After this they will get no more relief and no more respite. "

سورة صٓ حاشیہ نمبر :14 یعنی عذاب کا ایک ہی کڑکا انہیں ختم کر دینے کے لیے کافی ہو گا ۔ کسی دوسرے کڑکے کی حاجت پیش نہ آئے گی ۔ دوسرا مفہوم اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد پھر انہیں کوئی افاقہ نصیب نہ ہو گا ، اتنی دیر کی بھی مہلت نہ ملے گی جتنی دیر اونٹنی کا دودھ نچوڑتے وقت ایک دفعہ سونتے ہوئے تھن میں دوبارہ سونتنے تک دودھ اترنے میں لگتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: اس سے مراد صور پھونکنے کی آواز ہے جس کے ساتھ ہی قیامت پر آجائے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:15) ما ینظر۔ مضارع منفی واحد مذکر غائب۔ واحد کا صیغہ جمع کے لئے ہے۔ نظر (نصر) مصدر سے بمعنی دیکھنا۔ لیکن یہاں معنی انتظار آیا ہے وہ انتظار نہیں کر رہے۔ ھؤلاء اسم اشارہ جمع۔ یہ سب۔ مشار الیہ کفار مکہ ہیں۔ صیحۃ واحدۃ۔ موصوف و صفت۔ ایک چیخ۔ ایک کڑک ، (مراد صور کے پھونکے جانے کی آواز ہے) منصوب بوجہ ینظر کے مفعول ہونے کے ہے۔ لہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع صیحۃ ہے۔ فواق۔ اسم مصدر۔ واحد ہے اس کی جمع افوقۃ اور افقۃ ہے چناچہ محاورہ ہے فاق المریض۔ جب مریض بیماری سے صحت کی طرف رجوع کرے۔ اسی بناء پر بعض نے تفسیر افاقہ اور استراحت سے کی ہے۔ اگر فواق (فاء کے ضمہ ساتھ) ہو تو اس کا معنی وہ وقفہ ہے جو دو دفعہ دودھ دوہنے کے درمیان ہوتا ہے۔ دوہنے والا ایک مرتبہ دودھ دوھ لیتا ہے پھر بچے کو پینے کے لئے چھوڑ دیتا ہے بچے کے پینے سے جانور کے تھنوں میں دوبارہ دودھ اتر آتا ہے تو پھر دوہنے والا بچے کو ہٹا کر خود دوبارہ دوھ لیتا ہے۔ اس درمیانی وقفے کا نام فواق ہے۔ یہاں مراد سکون افاقہ۔ آرام ہے۔ یعنی جب یہ صور پھونکا جائے گا تو اس میں دم لینے کی بھی گنجائش نہ ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5” جب تک ان کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دے “ یا ” جس کے بعد کوئی دوسری چنگھاڑ نہ ہوگی (قرطبی) ” فواق “ اصل میں اس وقفہ کو کہتے ہیں جو اونٹنی کا دودھ دوہتے وقت ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ کے درمیات ہوتا ہے۔ تو مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہ ذرہ بھر پہلے آئے گی اور نہ بعد میں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 2 ۔ آیات 15 تا 26: اسرار و معارف : انہیں صرف سور اسرافیل کی چنگھاڑ کا انتظار ہے یعنی یہ اپنے جرم کے باعث تباہی کا انتظار کر رہے ہیں کہ ایسی چنگھاڑ واقع ہوگی جس میں کوئی وقفہ بھی نہ ہوگا کہ گستاخی میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہتے ہیں اگر قیامت ہے اور اس روز عذاب ہوگا تو ہمارے حصے کا ہمیں ابھی دے دیا جائے آپ ان کی باتوں پہ صبر کیجیے اور اللہ کے بندے داود (علیہ السلام) کی بات یاد کیجیے کہ اللہ نے انہیں کس قدر قوت عطا کردی تھی اور وہ بہت عبادت کرنے الے تھے ہم نے ان کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا جو صبح و شام ان کے ساتھ ذکر کرتے تھے اور اڑتے پرندے تک ان کے پاس ذکر میں جمع ہوجاتے تھے۔ یوں تو کائنات کی ہر شے اللہ کا ذکر کرتی ہے یہاں بطور خاص اور داود (علیہ السلام) کے معجزہ کے طور پر ارشاد ہے کہ پہاڑ اور پرندے تک ان کے ساتھ صبح و شام ذکر میں شریک ہوتے تھے کہ اجتماعی ذکر اور کسی خاص طریقے سے مل کر ذکر کرنے کی لذت بھی اپنی ہے اور فوائد بھی بہت زیادہ مرتب ہوتے ہیں ہر ذاکر پر اس کی الگ کیفیت وارد ہو کر پھر سب پر تقسیم ہونے لگتی ہیں اور یوں انوکھی فرحت بھی نصیب ہوتی ہے اور ترقی درجات بھی۔ ہم نے انہیں ایک بہت مضبوط سلطنت عطا فرما دی تھی اور جرات خطاب بھی عطا کی تھی کہ بےمثال خطیب بھی تھے۔ یہ سب ارشاد ہورہا ہے کہ آپ کو اس سے بڑھ کر نعمتیں عطا ہوئی ہیں تو سلطنت بھی اس سے بہت بڑی حاصل ہوگی لہذا آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے۔ اللہ قادر ہے اور داود (علیہ السلام) کے پاس بھی کچھ لوگ دعوے لے کر ان کے خلوت کدہ میں جہاں وہ عبادت کیا کرتے تھے دیوار پھاند کر پہنچ گئے حالانکہ ایک مضبوط سلطنت کے مالک کی خلوت گاہ اور باہر کڑے پہرے تھے حضرت داود یہ دیکھ کر پریشان ہوگئے تو انہوں نے کہا آپ گھبرائیں نہیں ہم نہ آپ کے دشمن ہیں نہ کسی نقصان پہنچانے کے ارادے سے آئے ہیں ہاں ایک مقدمہ ہے جس میں آپ کا فیصلہ چاہیے اور آپ سے بھی امید ہے کہ بات انصاف کی کریں گے بےانصافی نہ ہوگی۔ بات یہ ہے کہ میرا یہ بھائی جو ننانوے بھیڑوں کا مالک ہے مھ سے ایک بھیڑ مانگ رہا ہے جبکہ میرے پاس صرف یہی ایک بھیڑ ہے اور باتوں باتوں میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔ زبردستی کا چندہ : یہاں معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع (رح) نے لکھا ہے کہ کسی کا مال دباؤ ڈال کرلینے سے جائز نہیں ہوجاتا خصوصاً چندہ کرنے والے جب کسی کو زچ کرکے چندہ وصول کریں تو وہ جائز نہ ہوگا وہی جائز ہے جو خوش دلی سے دیا جائے تو آپ نے فرمایا یہ تو بہت زیادتی ہے کہ یہ تجھ سے ایک بھیڑ بھی چھیننا چاہ رہا ہے اور لوگوں میں جب شراکت کا معاملہ آئے تو اکثر زیادتی کرجاتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایماندار اور نیک ہوں جو کہ عموماً کم لوگ ہوتے ہیں۔ حضرت داود (علیہ السلام) کا واقعہ : یہاں بعض تفاسیر میں عجیب و غریب قصہ درج ہے کہ حضرت کی ننانوے بیویاں بھیں اور کسی اور یا نام سردار کی ایک بیوی۔ تو آپ نے اسے قتل کروا کر چھین لی وغیرہ۔ یہ سب اسرائیلیات ہیں جن کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسی کوئی بات حدیث شریف میں بھی بیان نہیں ہوئی۔ بےغبار بات یہ ہے کہ اللہ نے اس کڑے پہرے میں بندے بھیج کر بتا دیا کہ حکومت و سلطنت بھی اللہ کے مقابلے میں کسی کو روک نہیں سکتی۔ نیز غریب رعایا پر اقتدار و اختیار ہو تو سلطان یا طاقتور کو زیادتی کرنا زیب نہیں دیتا۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے ایسا کیا ہو مقصد راہنمائی ہے۔ چنانچہ آپ نے یہ بات سمجھ لی کہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی چناچہ اللہ سے بخشش کے طالب ہوئے کہ اگر کوئی ایسا خیال بھی گزرا ہو تو معافی کا طالب ہوں اور فوراً رکوع میں جھک گئے اور اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہم نے انہیں معاف کردیا اور بخش دیا کہ وہ ہمارے نبی تھے ان کا ہمارے نزدیک بڑا مقام و مرتبہ تھا چناچہ ارشاد ہوا کہ اے داود یہ شان و شوکت اور سلطنت تجھے ہم نے دی ہے وار لوگوں پر آپ ہمارے نائب اور خلیفہ ہیں لہذا اپنی پسند سے حکومت نہ کیجیے گا بلکہ ہمارے حکم کے مطابق لوگوں سے سلوک کیجیے گا کہ انسان کی ذاتی رائے اور پسند تو اس کو غلط راستے پر لے جاسکتی ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں انہیں بہت شدید عذاب سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور گمراہی کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں پوری طرح ڈوب جاتے ہیں حتی کہ انہیں آخرت اور یوم حساب یاد تک نہیں رہتا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 15 یعنی جب یہ وقت آئے گا تو اس میں اس قدر تاخیر بھی نہ ہوگی جس قدر اونٹنی کا دودھ دوہنے کے دو اوقات میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دودھ دینے والے جانور کا دودھ وقت مقررہ پر نکالا جاتا ہے جس میں تقدیم و تاخیر نہیں کی جاتی۔ یہ امت آخری امت ہے اور اللہ نے اسے قیامت تک کا وقت اور مہلت دے دی ہے۔ کیونکہ اس امت کو اللہ امم سابقہ کی طرح نیست ونابود نہیں کرتا یہ اللہ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اس امت کو اللہ نے طویل مہلت دے دی ہے لیکن افسوس کہ اہل قریش نے اس کو غنیمت نہ جانا اور اس پر خدا کا شکرادا نہ کیا ۔ الٹا اپنے مقرر انجام کے جلدی آنے کا مطالبہ کرتے رہے ، دعا کرتے رہے کہ اے اللہ تم میں سے جس کا انجام برا ہے جلدی وہ اس تک پہنچ جائے ۔ اور یوم الحساب سے بھی پہلے اسی دنیا میں یہ عذاب آجائے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل مکہ کو جب یہ بات بتائی جاتی تھی کہ انکار اور تکذیب پر عذاب آجایا کرتا ہے اور پہلی قومیں کفر پر جمے رہنے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں تو اس کا مذاق بناتے تھے اور اطمینان کے ساتھ دنیاوی اعمال میں مشغول رہتے تھے اللہ تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا کہ یہ لوگ بس اسی انتظار میں ہیں کہ ایک چیخ آجائے یعنی صور پھونک دیا جائے گا اس وقت جو چیخ ہوگی وہ رکنے والی نہ ہوگی سمجھداری اسی میں ہے کہ قیامت آنے سے پہلے ہی ایمان قبول کرلیں اور اپنا حال درست کرلیں۔ اور علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جسے سورة یٰسین میں فرمایا ہے، (مَا یَنظُرُونَ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً تَاْخُذُھُمْ وَھُمْ یَخِصِّمُوْنَ ) (یہ لوگ ایک ایسی سخت آواز کے منتظر ہیں جو انہیں آکر پکڑے گی اور وہ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے) (فَلاَ یَسْتَطِیعُوْنَ تَوْصِیَۃً وَّلاَ اِِلٰی اَھْلِہِمْ یَرْجِعُوْنَ ) (سو نہ وصیت کرسکیں گے اور نہ اپنے گھر والوں کی طرف جاسکیں گے) علامہ قرطبی سورة ص کی آیت کا مطلب بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اب غزوہ بدر کے واقعہ کے بعد انہیں یہی انتظار ہے کہ قیامت قائم ہوجائے ان کو چاہیے تھا کہ بدر کے واقعہ سے عبرت حاصل کرلیتے اور اہل ایمان کے غلبہ سے سے سبق لے کر خود بھی مومن ہوجاتے قیامت قائم ہوگی تو دم مارنے کی گنجائش نہ ہوگی اور ذرا سی بھی مہلت نہ دی جائے گی، قیامت کو مانتے بھی نہیں اور ڈھنگ ایسا ہے جیسے وہاں کے لیے بہت کچھ کیا ہو اور عذاب کی بھی بد دعاء کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب حساب کے دن سے پہلے ہمارا حصہ ہمیں دیدے۔ ١ ؂ یعنی قیامت کے دن کا انتظار کیوں ہے ہمیں جو عذاب دینا ہے ابھی آجائے، بات یہ ہے کہ انہیں قیامت آنے کا یقین نہیں تھا ورنہ اپنے منہ سے کون عذاب مانگتا ہے۔ ١ ؂ (قولہ تعالیٰ ” ما لھا من فَوَاقٍ “ بفتح الفاء صمھا فی السبعیۃ وھو ما بین الحلبتین لانھام ثم تترک سریعہ یرضعھا الفصیل لتدر ثم تحلب قال الفراء وابو عبیدۃ وغیرھما من فواق بفتح الفاء أی راحۃ لا یفیقون فیھا کما یفیق المریض والمغشی علیہ، من فواق بضم الفاء من انتظار، والقط فی کلام العرب الحظ والنصیب او القط اسم للفطعۃ من الشئ کالقسم والقسم فاطلق علی النصیب والکتاب والرزق لقطعۃ عن غیرہ الا أنہ فی الکتاب اکثر استعمالاً وأقوی حقیقۃ (المتقطا من القرطبی ص ١٥٦: ج ١٥ ص ١٥٧) اللہ تعالیٰ کا ارشاد مالَھَامِنْ فَواقٍ یہ فَوَاق فا کے فتحہ کے ساتھ اس وقفہ کو کہتے ہیں جو دو دفعہ دوہنے کے درمیان ہوتا ہے کہ پہلے دودھ دوھ کر تھوڑا سا چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ بچہ تھنوں کو چوسے تو دوبارہ دودھ اتر آئے اور پھر دوسری دفعہ دوھ لیں فراء اور ابو عبیدہ وغیرہ کہتے ہیں فَوَاق فاء کے فتحہ کے ساتھ یعنی ایسی راحت و سکون جس میں افاقہ نہ ہوگا جیسے مریض کو افاقہ ہوتا ہے یا بےہوش کو، اور فُوَاق فاء کے ضمہ کے ساتھ انتظار کے معنی میں ہے۔ اور ” فط “ کلام عرب میں حصہ اور نصیب کو کہتے ہیں یا ” القط “ کسی شی کے ٹکڑے کو کہتے ہیں القسم اور القسم پھر اس کا اطلاق حصہ پر کیا گیا وہ کتاب اور رزق جو الگ کرلیا گیا ہو ان پر بھی بولا جاتا ہے مگر کتاب کے معنی میں اس کا استعمال زیادہ ہے اور حقیقت کے لحاظ سے قط بمعنی کتاب زیادہ قوی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

16:۔ وما ینظر الخ۔ فواق : اونٹنی کو ایک بار دوہنے کے بعد کچھ دیر کے لیے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ مزید دودھ اپنے تھنوں میں اتار دے اس درمیانی وقفے کو فواق کہا جاتا ہے، والفَواق والفُواق مابین الحلبتین من الوقت، لانہا تحلب ثم تترک سویعۃ یرضعہا الفصیل لتدر ثم تحلب (قرطبی ج 15 ص 156) ۔ یہ کفار مکہ قیامت کے انتظار میں ہیں جب قیامت بپا ہوگی یہ اس وقت ایمان لائیں گے۔ صیحۃ واحدۃ سے نفخہ اولی مراد ہے جو خاصا طویل اور مسلسل ہوگا اور اس کے درمیان معمولی سا وقفہ بھی نہیں ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) اور یہ دین حق کے منکر نہیں انتظار کرتے اور نہیں راہ دیکھتے مگر ایک ہولناک آواز اور چیخ کی جو شروع ہوئے پیچھے ٹھہرے گی اور بیچ میں دم نہ لے گی۔ یعنی نفخہ صور اور صور کی آواز کا انتظار کر رہے ہیں۔ جو شروع ہوئے پیچھے تھوڑی سی دیرکو بھی دم نہ لے گی۔ فواق کے زبر یا پیش سے اس وقفہ کو کہتے ہیں جو دودھ والے جانور کو دودھ دوہتے وقت دودھ اترنے کی غرض سے تھوڑی دیرکو چھوڑ دیا کرتے ہیں تاکہ جانور دودھ اتارلے اس تھوڑے وقفہ کی نفی فرمائی کہ اتنی دیر بھی وہ چنگھاڑ شروع ہونے کے بعد بھی دم نہ لے گی یعنی اس آواز کے تسلسل میں توقف نہ ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی صور کی آواز۔