Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 28

سورة ص

اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ ﴿۲۸﴾

Or should we treat those who believe and do righteous deeds like corrupters in the land? Or should We treat those who fear Allah like the wicked?

کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے برابر کر دیں گے جو ( ہمیشہ ) زمین میں فساد مچاتے رہے ، یا پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کر دیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Shall We treat those who believe and do righteous good deeds as those who do mischief on the earth? Or shall We treat Those who have Taqwa as the evildoers? meaning, `We shall not do that.' They are not equal before Allah, and since this is the case, there must inevitably be another realm in which those who obey Allah will be rewarded and the wicked will be punished. This teaching indicates to those of a sound mind and upright nature that there must inevitably be a resurrection and recompense. We see evildoers and criminals are prospering and increasing in wealth, children and luxury, until they die in that state. We see oppressed believers dying of grief and distress, so by the wisdom of the All-Wise, All-Knowing, All-Just who does not do even a speck of dust's weight of injustice, there should be a time when the rights of the oppressed are restored with due justice. If this does not happen in this world, there must be another realm where recompense may be made and consolation may be found. The Qur'an teaches sound aims based on a rational way of thinking, so Allah says: كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا ايَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الاَْلْبَابِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] دوسری دلیل عدل کا تقاضا :۔ یعنی یہ آیت ہر انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دیئے جانے کی ضرورت یا آخرت کے قیام پر ایک عقلی دلیل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اے روز آخرت سے انکار کرنے والو ! کیا تمہارے خیال کے مطابق یہ درست ہے۔ کہ ایک نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی معاوضہ یا بدلہ نہ ملے، نہ بدکار کو اس کی بدکاری کی سزا ملے ؟ اس دنیا میں اگر کوئی شخص ساری زندگی دوسروں کے حقوق غصب کرتا رہے اور ان پر ظلم و زیادتی کرتا رہے پھر مرجائے تو اسے کوئی سزا نہ دی جائے یا ایک انسان خود تکلیف اٹھا کر بھی دوسروں سے بھلائی اور ہمدردی کرتا رہا ہے اور ساری زندگی دکھوں میں گزار کر مرگیا ہے تو اسے اس کے نیک اعمال کا کچھ بدلہ نہ دیا جائے اور انجام کے لحاظ سے دونوں برابر ہوجائیں ؟ ظاہر بات ہے کہ اگر آخرت کا قیام اور انسان کے اعمال کا محاسبہ نہ ہو تو اس سے ایک تو اللہ کی حکمت اور عدل کی نفی ہوجاتی ہے دوسرے یہ کائنات کا پورا نظام ایک بےکار اور اندھا نظام بن کر رہ جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ : یہ یوم حساب حق ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ اگر یوم حساب نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان اور عمل صالح والے اور زمین میں فساد کرنے والے ہمارے ہاں ایک جیسے ہیں، اس طرح ہم سے ڈرنے والے اور ڈھیٹ بن کر نافرمانی کرنے والے دونوں یکساں ہیں۔ خود ہی سوچو، کیا عدل و حکمت کا تقاضا یہ ہے اور کیا ہم ایسا ہونے دیں گے ؟ دنیا میں تو امتحان کی وجہ سے اور مختصر مدت ہونے کی وجہ سے نیک و بد کی جزا و سزا پوری طرح ممکن نہیں، یہ سب کچھ یوم حساب میں ہوگا۔ اس کی ہم معنی سورة جاثیہ کی آیت (٢١) بھی ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 28, it was said: أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْ‌ضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَّارِ‌ (Shall We make those who believe and do righteous deeds equal to those who commit mischief on the earth? Or shall We make the God-fearing equal to the sinners?) - that is, this can never be. In fact, the end of both will be totally different. Right from here, we learn that this difference between a believer and disbeliever is there in terms of the injunctions of the Hereafter. While living in the present world, it is quite possible that a disbeliever has a lot more comforts than a believer. Likewise, it cannot be deduced thereby that the material rights of the disbeliever cannot be equal to the rights of the believer, instead, the truth of the matter is that a disbeliever could be allowed human rights equal to a believer. Accordingly, non-Muslim minorities who live in an Islamic state under mutual pledges shall be given all human rights that will be but equal to those of Muslim.

اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ (تو کیا ہم ایمان لانے والوں اور نیکو کاروں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کے برابر کردیں گے یا پرہیزگاروں کو بدکاروں کے برابر کردیں گے ؟ ) یعنی ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، بلکہ دونوں کا انجام بالکل مختلف ہوگا۔ اسی سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مومن اور کافر کا یہ فرق آخرت کے احکام کے اعتبار سے ہے۔ دنیا میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کافر کو مومن سے بڑھ کر مادی راحتیں مل جائیں۔ نیز اس سے یہ نتیجہ بھی نہیں نکالا جاسکتا کہ کافر کے دنیوی حقوق مومن کی برابر نہیں ہو سکتے۔ بلکہ کافر کو مسلمان کے برابر انسانی حقوق دیئے جاسکتے ہیں۔ چناچہ اسلامی مملکت میں جو غیر مسلم اقلیتیں عہد و پیمان کے ساتھ بستی ہوں، انہیں تمام انسانی حقوق مسلمانوں کے برابر ہی دیئے جائیں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَالْمُفْسِدِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۡاَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ كَالْفُجَّارِ۝ ٢٨ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ فُجُورُ : شقّ ستر الدّيانة، يقال : فَجَرَ فُجُوراً فهو فَاجِرٌ ، وجمعه : فُجَّارٌ وفَجَرَةٌ. قال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ [ المطففین/ 7] ، وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ [ الانفطار/ 14] ، أُولئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ [ عبس/ 42] ، وقوله : بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسانُ لِيَفْجُرَ أَمامَهُ [ القیامة/ 5] ، أي : يريد الحیاة ليتعاطی الفجور فيها . وقیل : معناه ليذنب فيها . وقیل : معناه يذنب ويقول غدا أتوب، ثم لا يفعل فيكون ذلک فجورا لبذله عهدا لا يفي به . وسمّي الکاذب فاجرا لکون الکذب بعض الفجور . وقولهم : ( ونخلع ونترک من يَفْجُرُكَ ) أي : من يكذبك . وقیل : من يتباعد عنك، وأيّام الفِجَارِ : وقائع اشتدّت بين العرب . ۔ الفجور کے معنی دین کی پردہ دری یعنی نافرمانی کرکے ہیں ۔ اس کا باب فجر یفجر فجور ا فھو فاجر ( بدکار ) ہے اور فاجر کی جمع فجار وفجرۃ ہے ۔ قرآن میں ہے : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ [ المطففین/ 7] سن رکھو بدکاروں کے اعمال سجین میں ہیں ۔ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ [ الانفطار/ 14] اور بدکار دوزخ میں ۔ أُولئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ [ عبس/ 42] یہ کفار بدکردار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسانُ لِيَفْجُرَ أَمامَهُ [ القیامة/ 5] مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے ۔ یعنی وہ زندگی اس لئے چاہتا ہے کہ اس میں فسق وفجور کا ارتکاب کرے ۔ بعض نے اس کے معنی لیذنب فیھا ( تاکہ اس میں گناہ کرے ) کئے ہیں اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ انسان گناہ کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ کل توبہ کرلوں گا ۔ لیکن پھر تائب نہیں ہوتا تو یہ سراسر فجور ہے کیو کہ وہ عہد کرکے اسے توڑ ڈالتا ہے اور کاذب کو فاجر کہاجاتا ہے کیونکہ کذب بیانی بھی فجور کی ایک قسم ہے ۔ چناچہ ایک قول ہے (65) ونخلع ونترک من يَفْجُرُكَیعنی جو تجھے جھٹلاتا ہے اسے ہم ترک کرتے ہیں ۔ بعض نے من یفجرک کے معنی من یتباعد عنک کئے ہیں یعنی جو تجھ سے علیحدہ اور دور ہوتا ہے ۔ ایام الفجار خانہ جنگی کے ایام جو عربوں میں واقع ہوی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا ہم لوگوں کو جو کہ رسول اکرم اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے جیسا کہ حضرت علی، حضرت حمزہ، حضرت عبیدہ بن حارث کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو کہ شرک کرتے پھرتے ہیں جیسا کہ عتبہ شیبہ ولید بن عتنبہ اور کیا ہم کفر و شرک اور برائیوں سے بچنے والوں کو کافروں کی طرح کردیں گے۔ غزوہ بدر میں عتبہ، شیبہ، ولید نے حضرت علی، حضرت حمزہ، حضرت عبیدہ سے مقابلہ کیا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت علی نے ولید بن عتنبہ کو اور حضرت حمزہ نے عتبہ بن ربیعہ کو اور حضرت عبیدہ نے شیبہ کو قتل کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨ { اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ } ” کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ زمین میں فساد مچانے والوں کی طرح کردیں گے ؟ “ ظاہر ہے دنیا میں کچھ لوگ نیکو کار ہیں جو اکثر بھلائی کے کاموں میں کوشاں رہتے ہیں ‘ جبکہ کچھ لوگ بدمعاش ‘ ظالم اور شریر ہیں جو ہر وقت بد امنی پھیلانے اور لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر انسان کے لیے اسی دنیا کی زندگی ہی اصل زندگی ہوتی اور آخرت کی زندگی نہ ہوتی تو نیک لوگ اور مجرمین ایک جیسے ہوجاتے۔ یوں نہ تو نیکی کے راستے پر چلنے ‘ غلط کاریوں سے بچنے اور قدم قدم پر مشکلات برداشت کرنے والوں کو کوئی جزا ملتی اور نہ ہی ان ظالموں ‘ قاتلوں اور لٹیروں کو کوئی سزا ملتی جو خلق خدا پر ظلم بھی کرتے رہے اور عیش و عشرت کے مزے بھی لوٹتے رہے۔ بلکہ ایسی صورت میں نیکوں کار لوگ سخت گھاٹے میں رہتے کہ انہوں نے ساری زندگی تکلیفوں اور پابندیوں میں گزاردی اور اس کا کچھ اجر بھی انہیں نہ ملا۔ اس کے برعکس بدکردار اور بد قماش لوگ فائدے میں رہتے کہ انہوں نے عمر بھر جو چاہا کیا ‘ نہ جائز و ناجائز کو دیکھا اور نہ ہی خود کو کبھی قانون اور اخلاقیات (scruples) کا پابند سمجھا اور پھر اس کی پاداش میں انہیں کوئی سزا بھی نہ ملی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوتا کہ یہ دنیا بےکار پیدا ہوئی ہے اور انسان کی جبلت ّمیں جو اخلاقی ِحس اور نیکی و بدی کی جو تمیز پیدا کی گئی ہے وہ بھی بےمقصد اور بےجواز ہے ‘ کیونکہ اس تمیز اور حس کے مطابق تو نیکی کا نتیجہ اچھا اور برائی کا انجام برا ہونا چاہیے۔ اگر نظریاتی طور پر آخرت کی نفی ہوجائے تو یہ سب نتائج الٹے ہوجاتے ہیں۔ { اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ ” کیا ہم متقیوں کو فاجروں کی طرح کردیں گے ؟ “ کیا ہم اپنے متقی بندوں کو ان فاسقوں اور فاجروں کے برابر کردیں گے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 That is, "Do you think it is reasonable and fair that both the pious and the wicked should be treated alike in the end? Do you regard this concept as satisfying that the pious man should not get any reward for his piety and the wrongdoer should not receive any punishment for his sins? Obviously, if there is to be no Hereafter, and there is to be no accountability and no rewards and no punishments for human acts, it negates both Allah's wisdom and His justice, and the entire order of the Universe becomes a blind order. On this assumption there remains no motive for doing good and no deterrent against evil. God forbid, if the Godhead of God should be such a lawless kingdom, the one who leads a pious lift in the face of all kinds of hardships in the world and endeavours to reform the people, would be a foolish person, and the one who gains benefits by committing All kinds of excesses and enjoys sinful pleasures of life, would be a wise man."

سورة صٓ حاشیہ نمبر :30 یعنی کیا تمہارے نزدیک یہ بات معقول ہے کہ نیک اور بد دونوں آخر کار یکساں ہو جائیں؟ کیا یہ تصور تمہارے لیے اطمینان بخش ہے کہ کسی نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی صلہ اور کسی بد آدمی کو اس کی بدی کا کوئی بدلہ نہ ملے؟ ظاہر بات ہے کہ اگر آخرت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی محاسبہ نہ ہو اور انسانی افعال کی کوئی جزا و سزا نہ ہو تو اس سے اللہ کی حکمت اور اس کے عدل دونوں کی نفی ہو جاتی ہے اور کائنات کا پورا نظام ایک اندھا نظام بن کر رہ جاتا ہے ۔ اس مفروضے پر تو دنیا میں بھلائی کے لیے کوئی محرک اور برائی سے روکنے کے لیے کوئی مانع سرے سے باقی ہی نہیں رہ جا تا ہے ۔ خدا کی خدائی اگر معاذاللہ ایسی ہی اندھیر نگری ہو تو پھر وہ شخص بے وقوف ہے جو اس زمین پر تکلیفیں اٹھا کر خود صالح زندگی بسر کرتا ہے اور خلق خدا کی اصلاح کے لیے کام کرتا ہے ، اور وہ شخص عقلمند ہے جو ساز گار مواقع پا کر ہر طرح کی زیادتیوں سے فائدے سمیٹے اور ہر قوم کے فسق و فجور سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: یہ آخرت کے ضروری ہونے کی دلیل ہے، اور پچھلی آیتوں سے اس کا ربط یہ ہے کہ جب ہم نے حضرت داود (علیہ السلام) کو اپنے خلیفہ کی حیثیت میں یہ حکم دیا ہے کہ وہ عدل و انصاف سے کام لیں تو کیا ہم خود انصاف نہیں کریں گے؟ اسی انصاف کے لیے آخرت میں حساب و کتاب ہوگا، ورنہ یہ لازم آئے گا کہ ہم نے نیک لوگوں اور بدکاروں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا، اور دنیا میں چاہے کوئی شخص اچھے کام کرے یا بدکاری کا مرتکب ہو، نہ اس سے کوئی باز پرس ہونی ہے اور نہ نیک آدمی کو کوئی انعام ملنا ہے۔ ایسی بے انصافی اللہ تعالیٰ کیسے گوارا فرما سکتے ہیں؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:28) ام نجعل الذین امنوا وعملوا الصلحت کالمفسدین فی الارض۔ یہاں ام منقطعہ مقدرہ بہ بل والھمزۃ آیا ہے۔ ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے۔ ای بل انجعل المؤمنین المصلحین کالکفرۃ المفسدین فی الارض۔ بلکہ کیا ہم مصلح مؤمنوں کو ان کافروں کے برابر کردیں گے جو دنیا میں فساد کرتے پھرتے ہیں (نہیں یہ نہیں ہوگا) ۔ علامہ پانی پتی رقمطراز ہیں :۔ ام نجعل میں ام بمعنی بل آیا ہے۔ عالم تخلیق کو اگر بےکار مانا جائے تو یہ تسلیم کرنا لازم ہوجائے گا کہ کافرو مومن میں کوئی فرق نہیں ۔ دونوں برابر ہیں اس مساوات کی نفی کے لئے انکاری سوال کیا گیا اور بل کے ذریعہ سے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے اعراض مستفاد ہوگیا۔ ام نجعل المتقین میں سوال انکاری ہے ۔ پہلے مؤمنوں اور کافروں کی مساوات کی نفی کی گئی تھی۔ اب اس جملہ میں مؤمنوں کے خاص درجہ والے لوگوں اور کفر کے اسفل درجہ میں گرنے والے لوگوں یعنی فاجروں کے درمیان برابر ہونے کا خصوصی انکار کیا گیا ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس انکار کو انکار اول کی تکرار قرار دیا جائے اور تقویٰ و فجور کو عدم تسویہ کی علت کہا جائے۔ المتقین۔ اسم فاعل جمع مذکر المتقی مفرد اتقاء (افتعال) سے مصدر ۔ پرہیزگار ۔ تقوی والے۔ الفجار۔ فاجر کی جمع۔ بدکار۔ نافرمان۔ کافر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی کفر و شرک کی راہ پر چلتے رہے۔7 اس سوال سے مقصود آخرت اور اس میں ہونے والے حساب و کتاب کی دلیل پیش کرنا ہے۔ یعنی اگر آخرت اور اس میں اعمال کا محاسبہ نہ ہو تو اس سے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے عدل و انصاف کی نفی ہوتی ہے اور اس سے کائنات کا پورا نظام محض ایک بےمقصد کھیل تماشہ ہو کر رہ جاتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ام نجعل الخ : یہ زجر ہے۔ قیامت کا انکار در اصل جزاء و سزا کا انکار ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایمان والے جن کی زندگی اصلاح وتقوی میں بسر ہو وہ ان فساق فجار کے برابر ہوجائیں جن کی زندگیوں کا مشن ہی شر و فساد بپا کرنا ہے اگر جزاء و سزا نہیں تو متقین جزاء اعمال سے محروم اور مفسدین بد عملی کی سزا سے محفوظ رہیں گے حالانکہ یہ سراسر بےانصافی اور خلاف عقل ہے۔ والمراد انہ لو بطل الجزاء کما یقول الکفار لاستوت احوال من اصلح وافسد واتقی وفجر و من سوی بینہم کان سفیہا ولم یکن حکیما (مدارک) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) تو کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے ایسے حضرات کو ان شریروں اور مفسدوں کے برابر کردیں گے جو زمین میں کفر وشرک پھیلا کر فساد برپا کرتے رہتے ہیں یا ہم متقیوں اور پرہیزگاروں کو بدکاروں اور باجروں کے برابر کردیں گے۔ یعنی قیامت کے نہ آنے کو یہ مستلزم ہے کہ برے بھلوں کو اپنی اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے بھلا ایسا کس طرح ہوسکتا ہے کہ نیکوکاروں کو ان کی نیکی کا صلہ نہ ملے اور بدکاروں اور شریوں کو ان کی بدکاری اور شرارت کی پاداش نہ دی جائے۔ آگے رسالت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے کا اظہار ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔