Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 5

سورة ص

اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ ۖ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عُجَابٌ ﴿۵﴾

Has he made the gods [only] one God? Indeed, this is a curious thing."

کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَجَعَلَ الاْلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا ... And the disbelievers said: "This is a sorcerer, a liar. Has he made the gods into One God!" meaning, does he claim that the One Who is to worshipped is One and there is no god besides Him? The idolators -- may Allah curse them -- denounced that and were amazed at the idea of giving up Shirk, because they had learned from their forefathers ... to worship idols and their hearts were filled with love for that. When the Messenger called them to rid their hearts of that and to worship Allah Alone, this was too much for them and they were astounded by it. They said: أَجَعَلَ الاْلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 یعنی ایک ہی اللہ ساری کائنات کا نظام چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی طرح عبادت اور نذر و نیاز کا مستحق بھی صرف وہی ایک ہے ؟ یہ ان کے لئے تعجب انگیز بات تھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا : یعنی کیا ایک ” اللہ “ ہی ساری کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور وہ ایک ہی عبادت کا مستحق ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اس نے تو وہ سارے دیوتا اور داتا و دستگیر ہی ختم کردیے جنھیں دنیا مانتی چلی آئی ہے۔ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ :” عُجَابٌ“ عجیب کے معنی میں ہے، مگ... ر اس میں مبالغہ زیادہ ہے، جیسا کہ لمبے آدمی کو ” طویل “ کہتے ہیں اور زیادہ ہی لمبا ہو تو اسے ” طُوال “ کہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینا ان کی نظر میں حد سے زیادہ عجیب بات تھی، کیونکہ ان کے نزدیک اپنے آباء سے سنی ہوئی بات کے خلاف کوئی بات انتہائی عجیب بات تھی، جیسا کہ ان کی زبانی آگے آ رہا ہے۔ ان لوگوں کو عقیدۂ توحید عجیب معلوم ہو رہا تھا، حالانکہ تعجب کی چیز عقیدۂ شرک ہے، جس پر نہ کوئی عقلی دلیل موجود ہے نہ نقلی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَجَعَلَ الْاٰلِـہَۃَ اِلٰــہًا وَّاحِدًا۝ ٠ ۚۖ اِنَّ ھٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ۝ ٥ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزت... ه، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

انہوں نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود رہنے دیا کہ ہمارے طرف ضروریات کے لیے ایک معبود کافی ہے ان کی یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥ { اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًاج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} ” کیا اس نے تمام معبودوں کو بس ایک معبود بنا دیا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ! “ جیسا کہ قبل ازیں بھی بتایا جا چکا ہے ‘ زیر مطالعہ گروپ کی ان سورتوں کا مرکزی مضمون توحید ہے جو اس آیت میں بڑے موثر اور زوردار انداز میں بیان ہو... ا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:5) اجعل ہمزہ استفہامیہ ہے یہ سوال بطور تعجب ہے۔ اجعل الالہم الھا واحدا۔ کیا بنادیا ہے اس نے بہت سے خداؤں کی جگہ ایک خدا۔ صاحب تفسیر ماجدی اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں :۔ ” پیغمبر حق کا اصلی جرم ان کج فہموں کے نزدیک یہی تلقین توحید تھی۔ وہ کہتے تھے کہ عالم میں قدم قدم پر تو تنوع ، تعدد کا ا... ختلاف ہے اس کثرت کا مصدر و حدت کو فرض ہی کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ رات الگ ہے دن آگے ہے آگ اور شے ہے پانی اور زمین الگ مخلوق ہیں ۔ آسمان الگ۔ ان میں سے ہر ایک کے کاروبار کے لئے ایک مستقل حاکم، متصرف فرماں رواء کی ضرورت ہے اور یہی دیوی دیوتا ہیں۔ سب کو مٹا کر صرف ایک مؤثر حقیقی و فاعل اصلی کو ماننے کے کوئی معنی ہی نہیں “۔ شی عجاب۔ موصوف و صفت۔ عجاب عجب سے فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے بہت عجیب، اچنبھے کی بات۔ بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ :۔ وہ انوکھی بات جس کی نظیر ہو عجیب کہلاتے ہے اور بےنظیر ہو تو اس کو عجاب کہتے ہیں۔ فائدہ : آیت ہذا اور اگلی آیت کو سمجھنے کے لئے ان کا پس منظر ذہن میں رکھنا ضروری ہے جب حضرت عمر (رض) مسلمان ہوگئے تو قریش کو آپ کا مسلمان ہوجانا شاق گزرا۔ ولید بن مغیرہ نے سرداران قریش کی ایک جماعت کو جو تعداد میں پچیس تھے جمع کرکے کہا کہ چلو ابو طالب کے پاس چلیں۔ حسب مشورہ سب لوگ ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ آپ ہمارے بزرگ سردار ہیں اور ان لوگوں (مسلمانوں) کی حرکتوں سے واقف ہیں آپ ہمارا اپنے بھتیجے سے تصفیہ کرا دیجئے۔ ابو طالب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلوایا اور کہا :۔ میرے بھتیجے یہ تمہاری قوم والے تم سے کچھ درخواست کرنا چاہتے ہیں تم اپنی رائے بالکل ہی ان کے خلاف نہ کرلینا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ قریش نے کہا کہ تم ہمارے معبودوں کا ذکر چھوڑ دو ، اور ہم تم کو تمہارے معبود سے نہیں روکیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم لوگ مجھ سے ایک بات کا وعدہ کرتے ہو جس کی وجہ سے تم عرب کے حاکم بن جاؤ گے۔ اور عجمی بھی تمہارے فرمانبردار بن جائیں گے۔ ابوجہل بولا۔ اگر ایسی بات ہے تو ہم ایک نہیں اس جیسی دس باتیں مان لیں گے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو لا الہ الا اللّٰہ کہہ دو ۔ یہ سنتے ہی سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہتے ہوئے چلتے بنے اجعل الالہۃ ۔۔ ء انزل علیہ الذکر من بیننا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ان لوگوں کو عقیدہ توحید عجیب معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ تعجب کی چیز شرک ہے جس پر کوئی بھی عقلی دلیل قائم نہیں ہوسکتی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اجعل الاٰلھۃ۔۔۔۔ الااختلاق (38: 7) کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی خدا بنا ڈالا ؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ یہ بات تو کسی اور ہی غرض کے لیے کہی جارہی ہے۔ یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہی... ں ہے مگر ایک من گھڑت بات “۔ قرآن کریم اسلامی نظریہ حیات سے ان کی دہشت اور بوکھلاہٹ کی خوب تصویر کشی کرتا ہے۔ اجعل الاٰلھۃ الٰھاواحدا (38: 5) ” کیا اس نے تمام الہوں کو ایک الہہ بنا دیا “۔ گویا اسلام کا فطری عقیدہ ایک انہونی اور ناقابل تصور بات ہے۔ ان ھٰذآلشیء عجاب (38: 5) ” یہ تو ایک عجیب نظریہ ہے “۔ لفظ ” عجاب “ یہ بتایا ہے کہ ان کی دہشت زدگی اور بوکھلاہٹ بہت ہی عظیم تھی۔ جمہور کے ذہنوں سے اسلامی عقائد کے اثرات منانے کے لیے وہ جس قسم کی جدوجہد کررہے تھے۔ قرآن کریم اس کی بھی زبردست تصویر کشی کررہا ہے۔ وہ بےحد جدوجہد کررہے تھے کہ لوگ اپنے موروثی عقائد پر جمے رہیں۔ اگرچہ وہ عقائد و نظریات باطل اور سوچ ہوں۔ وہ عوام کو یہ باور کراتے تھے کہ دراصل اس تحریک کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ ہے۔ اور یہ کہ وہ سردار ہیں اور خفیہ سازشوں سے باخبر ہیں۔ اور یہ گہری سازش کی جارہی ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ اجعل الخ : تمام معبودوں کی الوہیت کی یکسر نفی کر کے اس نے الوہیت کو صرف ایک ذات پاک کے ساتھ مختص قرار دے دیا ہے اور کہتا ہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی الہ (معبود) نہیں اور نہ ہی کوئی کارساز ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت اور پکار کے لائق نہیں۔ یہ بات تو نہایت ہی حیرت انگیز اور تعجب افزا ہے۔ عجاب صیغہ م... بالغہ ہے۔ والعجاب الذی قد تجاوز حد العجب (قرطبی ج 15 ص 150) جن لوگوں نے خدا کے علاوہ سینکڑوں ہزاروں معبود اور کارساز بنا رکھے ہوں ان کے لیے مسئلہ توحید واقعی نہایت ہی تعجب انگیز ہے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) کیا اس شخص نے اتنے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود کردیا اور اتنوں کی بندگی کے بدلے ایک ہی کی بندگی کردی۔ بلا شبہ یہ معبودوں کی کاٹ چھانٹ بڑی عجیب بات ہے۔ حضرت نے اپنے چچا ابوطالب سے فرمایا جب چچا نے کہا مکہ والے تمہاری بڑی شکایت کرتے ہیں، اے چچا میں تو صرف ایک کلمہ کہتا ہوں ابوطالب نے لوگوں کو...  جمع کیا اور کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف ایک کلمہ کہتا ہے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا وہ کلمہ کیا ہے آپ نے فرمایا ۔ لاالہ الا اللہ اس پر تمام منکر بگڑ کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کیا ایک معبود اس کی گنجائش رکھتا ہے کہ تمام خلائق کا کام چلا سکے۔ ہم تین سو ساٹھ معبود رکھتے ہیں اور وہ سب مل کر ایک مکہ کا انتظام نہیں کرسکتے تو ایک معبود کو کہتا ہے بھلا وہ تمام دنیا کا کام کیسے چلا سکتے ہے۔  Show more