Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 64

سورة ص

اِنَّ ذٰلِکَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَہۡلِ النَّارِ ﴿٪۶۴﴾  13

Indeed, that is truth - the quarreling of the people of the Fire.

یقین جانو کہ دوزخیوں کا یہ جھگڑا ضرور ہی ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, that is the very truth -- the mutual dispute of the people of the Fire! means, `this that We have told you, O Muhammad, about the dispute among the people of Hell and their cursing one another, is true and there is no doubt concerning it.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 یعنی آپس میں ان کی تکرار اور ایک دوسرے کو مورد طعن بنانا، ایک ایسی حقیقت ہے جس میں تکلف نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٤] اگرچہ روز محشر کی ہولناکیاں اتنی شدید ہوں گی کہ کسی کو دوسرے کی طرف توجہ کرنے کا ہوش تک نہ ہوگا۔ تاہم یہ ایک یقینی بات ہے اور اہل دوزخ ایک دوسرے کے سر الزام دیں گے اور آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے یہ دو قسم کے لوگ ہوں گے۔ ایک بڑے لوگ جن میں حکمران، سیاسی لیڈر، چودھری، رئیس جھوٹے پیشوایان دین اور ہر ایسا شخص شامل ہوگا جس کی دنیا میں کسی نہ کسی رنگ میں اللہ کے مقابلہ میں اطاعت کی جاتی رہی اور دوسرا فریق کمزور یا مرید قسم کے لوگ ہوں گے جو اپنے بڑوں کی اطاعت حتیٰ کہ عبادت کرتے رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ : یعنی اگرچہ یہ بات تمہاری سمجھ میں آنا مشکل ہے کہ اتنے شدید عذاب اور نفسا نفسی میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے، مگر سن لو ! یہ بات بالکل حق ہے کہ آگ میں جلنے والے ایک دوسرے سے سخت جھگڑیں گے اور یہ بھی ان کے عذاب کا ایک حصہ ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَہْلِ النَّارِ۝ ٦٤ۧ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ { اِنَّ ذٰلِکَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَہْلِ النَّارِ } ” یقینا یہ حق ہے اہل جہنم کے مابین جھگڑا ! “ تم لوگوں کو یقین رکھنا چاہیے کہ جیسے ہم یہ سب کچھ بیان کر رہے ہیں ‘ اس روز اہل ِجہنم کے مابین بالکل اسی طرح سے بحث و تکرار ہوگی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:64) تخاصم اہل النار : اہل النار مضاف مضاف الیہ مل کر تخاصم (مضاف) کا مضاف الیہ۔ اہل دوزخ کا باہمی رگڑا جھگڑا۔ تخاصم بروزن تفاعل مصدر ہے۔ ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) اس آیت کی تشریح میں رقمطراز ہیں :۔ ان ذلک بیشک یہ جو کچھ دوزخیوں کے متعلق ہم نے بیان کیا لحق بلاشبہ صحیح ہے وہ ضرور ایسی گفتگو کریں گے۔ تخاصم یہ حق سے بدل ہے یا مبتدا محذوف کی خبر ہے (ای ھو تخاصم) دوزخیوں کے باہم سوال و جواب اور آپس کی گفتگو فریقین معاملہ کی گفتگو کے مشابہ ہوگی۔ اس لئے اس کو تخاصم (باہمی جھگڑا رگڑا) فرمایا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ذلک لحق تخاصم اھل النار (38: 64) ” بیشک یہ بات سچی ہے کہ اہل دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں “ ذرا دیکھئے کہ ان کا انجام اہل ایمان کے انجام سے کس قدر مختلف اور اپنے طور پر کس قدر بھیانک ہے۔ دنیا میں تو اہل جہنم متقین کا مذاق اڑاتے تھے ۔ اور یہ سمجھتے تھے کہ اللہ نے ان پر جو کلام الہٰی نازل کیا ہے۔ یہ اس کے اہل ہی نہیں۔ اور یہی وہ نقشہ عذاب ہے جس کے لیے وہ بچوں کی شتابی مچا رہے تھے۔ اور کہتے تھے۔ وقالو۔۔۔ الحساب (38: 16) ” اے ہمارے رب ہمارا حصہ ہمیں یوم الحساب سے بھی پہلے دے دے “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

43:۔ ” اِنَّ ذٰلِکَ الخ “ اہل جہنم کی یہ گفتگو، راہنمایانِ شرک اور ان کے پیرو وں کا باہمی جھگڑا اور دوزخیوں کا موحدین اور مبلغین توحید کے بارے میں سوال و جواب یہ سب برحق ہے اور ضرور ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(64) بلا شبہ یہ دوزخیوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا بالکل سچی بات اور ایک غیر مشتبہ حقیقت ہے۔ یعنی اہل نار کے اس جھگڑے کا ہونا واجب الوقوع ہے اور یہ جھگڑا ضرور ہونے والا ہے۔