Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 69

سورة ص

مَا کَانَ لِیَ مِنۡ عِلۡمٍۭ بِالۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰۤی اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ ﴿۶۹﴾

I had no knowledge of the exalted assembly [of angels] when they were disputing [the creation of Adam].

مجھے ان بلند قدر فرشتوں کی ( بات چیت کا ) کوئی علم ہی نہیں جبکہ وہ تکرار کر رہے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

I had no knowledge of the chiefs (angels) on high when they were disputing and discussing. meaning, `were it not for the divine revelation, how could I have known about the dispute of the chiefs on high (the angels)?' This refers to their dispute concerning Adam, peace be upon him, and how Iblis refused to prostrate to him and argued with his Lord because He preferred him (Adam) over him. This is what Allah says: إِن يُوحَى إِلَيَّ إِلاَّ أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 ملاء اعلٰی سے مراد فرشتے ہیں، یعنی وہ کس بات پر بحث کر رہے ہیں ؟ میں نہیں جانتا۔ ممکن ہے، اس اختصام (بحث و تکرار) سے مراد وہ گفتگو ہو جو تخلیق آدم (علیہ السلام) کے وقت ہوئی۔ جیسا کہ آگے اس کا ذکر آرہا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٨] عالم بالا میں فرشتوں کی بحثیں :۔ عالم بالا سے مراد فرشتوں کا مستقر ہے۔ ان میں بھی کبھی کبھار کوئی بحث چھڑ جاتی ہے۔ انہیں میں سے ایک بحث وہ ہے جو سیدنا آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت ہوئی تھی اور جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ اور رسول اللہ سے یہ خطاب ہے۔ کہ آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ عالم بالا میں جو کچھ بحثیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ مجھے ان کا قطعاً کچھ علم نہیں ہوتا صرف اسی بات کا علم ہوتا ہے۔ جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے اور میں چونکہ لوگوں کو ان کے انجام سے خبردار کرنے والا ہوں لہذا مجھے صرف انہی بحثوں کے متعلق وحی کی جاتی ہے جن کا تعلق انسانوں کی ہدایت سے ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍۢ : سب سے اونچی مجلس سے مراد آسمانوں پر فرشتوں کی مجلس ہے۔ ” كَانَ “ ہمیشگی کا معنی دیتا ہے، اس پر نفی آنے سے نفی کی ہمیشگی مراد ہوتی ہے، یعنی فرشتوں کی مجلس میں جو بحث ہوتی ہے مجھے اس کا کبھی کچھ علم نہیں ہوتا، میں عالم الغیب نہیں، اس کے متعلق میں جو کچھ تمہیں بتاتا ہوں وہ وحی الٰہی کے ذریعے سے مجھے معلوم ہوتا ہے اور وہ بھی صرف ان بحثوں کے متعلق کہ جن کا تعلق لوگوں کی ہدایت اور انھیں خبردار کرنے اور ڈرانے سے ہوتا ہے۔ یہ وحی الٰہی میری نبوت کی بھی دلیل ہے، کیونکہ اگر وحی نہ ہوتی تو میں ملأ اعلیٰ میں ہونے والی کوئی بات تمہیں نہ بتاسکتا۔ ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ملأ اعلیٰ کی ایک مجلس کی گفتگو کا ذکر فرمایا، معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے صبح کی نماز سے رکے رہے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیہ دیکھ لیں، پھر آپ جلدی سے نکلے، نماز کی اقامت کہی گئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی اور اس میں اختصار سے کام لیا، جب سلام پھیرا تو آواز کے ساتھ ہمیں فرمایا، اپنی اپنی جگہ اسی طرح بیٹھے رہو، پھر فرمایا : ( أَمَا إِنِّيْ سَأُحَدِّثُکُمْ مَا حَبَسَنِیْ عَنْکُمُ الْغَدَاۃَ إِنِّيْ قُمْتُ مِنَ اللَّیْلِ فَتَوَضَّأْتُ فَصَلَّیْتُ مَا قُدِّرَ لِيْ فَنَعَسْتُ فِیْ صَلاَتِيْ حَتَّی اسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّيْ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی فِيْ أَحْسَنِ صُوْرَۃٍ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ ! قُلْتُ لَبَّیْکَ رَبِّ قَالَ فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی ؟ قُلْتُ لَا أَدْرِيْ قَالَہَا ثَلاَثًا قَالَ فَرَأَیْتُہُ وَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَيَّ حَتّٰی وَجَدْتُّ بَرْدَ أَنَامِلِہِ بَیْنَ ثَدْیَیَّ فَتَجَلّٰی لِيْ کُلُّ شَيْءٍ وَ عَرَفْتُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ ! قُلْتُ لَبَّیْکَ رَبِّ قَالَ فِیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰی ؟ قُلْتُ فِي الْکَفَّارَاتِ قَالَ مَا ہُنَّ ؟ قُلْتُ مَشْيُ الْأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ وَ الْجُلُوْسُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَ إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ فِي الْمَکْرُوْہَاتِ قَالَ ثُمَّ فِیْمَ ؟ قُلْتُ إِطْعَام الطَّعَامِ وَ لِیْنُ الْکَلاَمِ وَ الصَّلاَۃُ باللَّیْلِ وَ النَّاسُ نِیَامٌ، قَالَ سَلْ قُلْتُ اللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَ أَنْ تَغْفِرَ لِيْ وَ تَرْحَمَنِيْ وَ إِذَا أَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِيْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِيْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ وَأَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ إِنَّہَا حَقٌّ فَادْرُسُوْہَا ثُمَّ تَعَلَّمُوْہَا ) [ ترمذي، التفسیر، باب سورة صٓ : ٣٢٣٥ ] ” سنو ! میں تمہیں بتاؤں گا کہ آج صبح مجھے تم سے کس چیز نے روکے رکھا، میں رات کو اٹھا، وضو کیا اور جتنی نماز قسمت میں تھی وہ پڑھی، نماز میں مجھے نیند آگئی، حتیٰ کہ میں بوجھل ہوگیا تو اچانک میں اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھتا ہوں۔ اس نے فرمایا : ” اے محمد ! “ میں نے کہا : ” حاضر ہوں، اے میرے رب ! “ فرمایا : ” ملأ اعلیٰ کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ “ میں نے کہا : ” میں نہیں جانتا۔ “ اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین دفعہ کہی، تو میں نے اسے دیکھا کہ اس نے اپنی ہتھیلی میرے کندھوں کے درمیان رکھی، یہاں تک کہ میں نے اس کے پوروں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی، تو میرے لیے ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی۔ پھر فرمایا : ” اے محمد ! “ میں نے کہا : ” حاضر ہوں اے میرے رب ! “ فرمایا : ” ملأ اعلیٰ کس چیز میں بحث کر رہے ہیں ؟ “ میں نے کہا : ” کفارات کے بارے میں۔ “ فرمایا : ” وہ کیا ہیں ؟ “ میں نے کہا : ” پیدل چل کر جماعت (کے ساتھ نماز) کے لیے جانا اور نمازوں کے بعد مسجدوں میں بیٹھنا اور ناپسندیدہ وقتوں میں وضو کرنا۔ “ فرمایا : ” پھر کس چیز میں ؟ “ میں نے کہا : ” کھانا کھلانے میں اور نرم کلام میں اور رات کو نماز کے بارے میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ “ فرمایا : ” مانگ۔ “ تو میں نے یہ دعا کی : ”( اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ “ سے لے کر ” یُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ “ تک) اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے کا سوال کرتا ہوں اور برائیاں ترک کرنے کا اور مسکینوں کی محبت کا اور یہ کہ تو مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور جب تو کسی قوم میں فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں مبتلا ہوئے بغیر فوت کرلے، اور میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس شخص کی محبت کا جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور اس عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب کر دے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ دعا حق ہے، اسے پڑھو، پھر اسے اچھی طرح سیکھو۔ “ ترمذی نے فرمایا : ” یہ حدیث حسن صحیح ہے، میں نے محمد بن اسماعیل (بخاری) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ “ شیخ البانی (رض) نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In verse 69, it was said: مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَإِ الْأَعْلَىٰ إِذْ يَخْتَصِمُونَ (I had no knowledge of the Heavenly Beings when they were debating (about the creation of &Adam). Means: &It is a clear proof of my prophethood that I am telling you these things from such a high assembly, things that cannot be found out through any medium other than wahy (revelation).& The words &these things& refer to the conversation between Allah Ta’ ala and the angels at the time of the creation of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) and which finds mention in Surah Al-Baqarah where the angels had said: أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (They said, |"Will You create there one who will spread disorder on the earth and cause bloodsheds...? - 2:30). This conversation has been expressed here through the word: اختصام (ikhtisam) which literally means &quarrel& or &debate& - although, the angels never posed that question in terms of some objection or debate, instead, they wanted to find out the wise consideration behind the creation of Sayyidna &Adam (علیہ السلام) ، but the outward pattern of the questions and answers had taken the form of some sort of a debate, therefore, it was alluded to as &ikhtisam& or debate. This is similar to a younger person questioning an elder person, who refers to that question and answer, in a frank and casual manner, as a debate or quarrel.

(آیت) مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍۢ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰٓي اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ ۔ (مجھ کو عالم بالا کی کچھ بھی خبر نہ تھی جبکہ وہ گفتگو کر رہے تھے) یعنی یہ میری رسالت کی واضح دلیل ہے کہ میں تم سے عالم بالا کی ایسی باتیں بیان کرتا ہوں جو وحی کے سوا کسی بھی ذریعہ سے معلوم نہیں ہو سکتیں۔ ان باتوں سے مراد ایک تو وہ گفتگو ہے جو تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کے درمیان ہوئی تھی، اور جس کا تذکرہ سورة بقرہ میں آ چکا ہے۔ فرشتوں نے کہا تھا کہ (آیت) اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء۔ (کیا آپ زمین میں ایسے انسان کو پیدا کر رہے ہیں جو وہاں فساد پھیلائے اور خونریزی کرے ؟ ) اس گفتگو کو یہاں ” اختصام “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں جھگڑا یا بحث و مباحثہ۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سوال کوئی اعتراض یا بحث و مباحثہ کے نقطہ نظر سے نہ تھا بلکہ وہ محض تخلیق آدم کی حکمت معلوم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن سوال و جواب کا ظاہری روکار چونکہ بحث کا سا ہوگیا تھا اس لئے اسے اختصام کے لفظ سے تعبیر کیا گیا۔ اور یہ ایسا ہی ہے جیسے جب کوئی چھوٹا کسی بڑے سے کوئی سوال کرتا ہے تو بعض اوقات بڑا آدمی اس کا ذکر کرتے ہوئے ازراہ تفنن اس کے سوال و جواب کو ” جھگڑے “ سے تعبیر کردیتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍؚبِالْمَلَاِ الْاَعْلٰٓي اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ۝ ٦٩ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف/ 60] ، إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص/ 20] ، قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل/ 29] ، وغیر ذلک من الآیات . يقال : فلان مِلْءُ العیونِ. أي : معظّم عند من رآه، كأنه ملأ عينه من رؤيته، ومنه : قيل شابّ مَالِئُ العینِ «3» ، والملأ : الخلق المملوء جمالا، قال الشاعر : فقلنا أحسني مَلَأً جهيناومَالَأْتُهُ : عاونته وصرت من ملئه . أي : جمعه . نحو : شایعته . أي : صرت من شيعته، ويقال : هو مَلِيءٌ بکذا . والمَلَاءَةُ : الزّكام الذي يملأ الدّماغ، يقال : مُلِئَ فلانٌ وأُمْلِئَ ، والمِلْءُ : مقدار ما يأخذه الإناء الممتلئ، يقال : أعطني ملأه ومِلْأَيْهِ وثلاثة أَمْلَائِهِ. ( م ل ء ) الملاء ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ وقالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ [ الأعراف/ 60] اور قوم فرعون میں جو سر دور تھے کہنے لگے ۔ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ [ القصص/ 20] کہ شہر کے رئیس تمہارے بارے میں صلاحیں کرتے ہیں ۔ قالَتْ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتابٌ كَرِيمٌ [ النمل/ 29] وہ کہنے لگی کہ اے اہل در بار میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے ۔ ان کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ محاورہ ہے : ۔ فلان ملاء العیون یعنی سب اسے عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں گویا اس نے ان کی نظروں کو اپنے جلوہ سے بھر دیا ہے ۔ اسی سے کہا گیا ہے ۔ شاب مللی العین اپنی خوبصورتی سے آنکھ کو بھر دینے والا نوجوان ۔ الملاء اخلاق جو حسن سے بھر پور ہوں کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ( 412 ) فقلنا احسنی ملاء جھینا تو ہم نے کہا کہ اسے چھینہ اپنے اخلاق درست کرو ۔ مالا تہ کے معنی کسی کا معاون بننے اور اس کے گردہ میں شامل ہونے کے ہیں ۔ جیسا کہ شایعتہ کے معنی کسی طرف دراوں میں داخل ہونے کے آتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ ھو ملی بکذا ینعی وہ فلاں چیز سے پر ہے ۔ الملاء زکام جو فضلہ سے دماغ کو بھر دے اور ملی فلان فلان واملا کے معنی زکام زدہ ہونے کے ہیں المل کسی چیز کی اتنی مقدار جس سے کوئی بر تن بھر جائے محاورہ ہے : ۔ اعطنی ملاءہ وملاء بہ وثلاثۃ املائہ مجھے ایک ، دو ، تین پیمانے بھر کر دو ۔ خصم الخَصْمُ مصدر خَصَمْتُهُ ، أي : نازعته خَصْماً ، يقال : خاصمته وخَصَمْتُهُ مُخَاصَمَةً وخِصَاماً ، قال تعالی: وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] ، وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] ، ثم سمّي المُخَاصِم خصما، واستعمل للواحد والجمع، وربّما ثنّي، وأصل المُخَاصَمَة : أن يتعلّق كلّ واحد بخصم الآخر، أي جانبه وأن يجذب کلّ واحد خصم الجوالق من جانب، وروي : ( نسیته في خصم فراشي) «1» والجمع خُصُوم وأخصام، وقوله : خَصْمانِ اخْتَصَمُوا [ الحج/ 19] ، أي : فریقان، ولذلک قال : اخْتَصَمُوا وقال : لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ، وقال : وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ، والخَصِيمُ : الكثير المخاصمة، قال : هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] ، والخَصِمُ : المختصّ بالخصومة، قال : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] . ( خ ص م ) الخصم ۔ یہ خصمتہ کا مصدر ہے جس کے معنی جھگڑنے کے ہیں کہاجاتا ہے خصمتہ وخاصمتہ مخاصمۃ وخصاما کسی سے جھگڑا کر نا قرآن میں ہے :۔ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصامِ [ البقرة/ 204] اور وہ حالانکہ سخت جھگڑا لو ہے ۔ وَهُوَ فِي الْخِصامِ غَيْرُ مُبِينٍ [ الزخرف/ 18] اور جھگڑنے کے وقت بات نہ کرسکے ۔ اور مخاصم کو خصم کہا جات ہے ، اور خصم کا لفظ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر کبھی تثنیہ بھی آجاتا ہے۔ اصل میں خصم کے معنی کنارہ کے ہیں ۔ اور مخاصمت کے معنی ایک دوسرے سے کو کنارہ سے پکڑنے کے ہیں ۔ اور بوری کو کونے سے پکڑکر کھینچنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے :۔ (114) نسی تھا فی خصم فراشی کہ میں اسے اپنے بسترہ کے کونے میں بھول آیا ہوں خصم کی جمع خصوم واخصام آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ اخْتَصَمُوا[ الحج/ 19] دوفریق جھگڑتے ہیں ۔ میں خصما ن سے دو فریق مراد ہیں اسی لئے اختصموا آیا ہے ۔ الاختصام ( افتعال ) ایک دوسرے سے جھگڑنا ۔ قرآن میں ہے :۔ لا تَخْتَصِمُوا لَدَيَّ [ ق/ 28] ہمارے حضور رد کد نہ کرو ۔ وَهُمْ فِيها يَخْتَصِمُونَ [ الشعراء/ 96] ۔۔۔۔ وہ آپس میں جھگڑیں گے ۔ الخصیم ۔ جھگڑا لو بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا جیسے فرمایا :۔ هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ [ النحل/ 4] مگر وہ ( اس بارے میں ) علانیہ جھگڑنے لگا ۔ الخصم سخٹ جھگڑالو جس کا شیوہ ہ جھگڑنا ہو ۔ قرآن میں ہے :َ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ [ الزخرف/ 58] حقیقت یہ ہے ۔ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو، لو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ { مَا کَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍم بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰٓی اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ } ” مجھے کچھ علم نہیں ملااعلیٰ کے بارے میں ‘ جب وہ باہم بحث و تکرار کر رہے ہوتے ہیں۔ “ یہ مضمون سورة الزمر کی آخری آیت میں بھی آئے گا۔ فرشتے چونکہ عاقل ہستیاں ہیں اس لیے تکوینی امور پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً ممکن ہے کسی وقت کوئی فرشتہ کسی ملک یا قوم کے بارے میں کہتا ہو کہ اب تو ان لوگوں پر عذاب آجانا چاہیے اور اس کے جواب میں کوئی دوسرا کہتا ہو کہ نہیں ابھی انہیں کچھ مزید مہلت ملنی چاہیے۔ آخری فیصلہ تو ہر کام میں اللہ تعالیٰ ہی کا ہوتا ہے ‘ لیکن فرشتے بھی مختلف امور کے بارے میں باہم گفتگو کرتے ہیں اور اس طرح ان کی آراء میں کبھی کبھی اختلاف بھی ہوجاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

27: اس سے فرشتوں کی اس گفتگو کی طرف اشارہ ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے وقت ہوئی تھی، اور جو تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ : 31 میں گذر چکی ہے، اور اس کا کچھ حصہ آگے آ رہا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٩۔ ٧٠۔ ترمزی ٢ ؎ مسند امام احمد مسند عبد بن حمید وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور معاذ (رح) بن حبل کی معتبر روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ آج کی رات اللہ تعالیٰ کو میں نے خواب میں دیکھا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو کچھ معلوم ہے کہ یہ آسمان پر فرشتے کس بات پر جھگڑ رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ مجھ کو معلوم نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں شانوں کے بیچ میں رکھا۔ جس کی خنکی میرے سینہ تک پہنچی اور اس اثر سے تمام زمین و آسمان کا حال مجھ پر کھل گیا اور پھر میں نے بتلا دیا۔ کہ جاڑے کے موسم میں وضو کرنے اور مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھنے کے اور جماعت کے لئے قدم اٹھانے کے ثواب کے لکھنے کے باب میں یہ فرشتے جھگڑ رہے ہیں کہ ان نیک کاموں کا ثواب کس قدر لکھا جاوے۔ بعضے مفسروں نے ان روایتوں کو اس آیت کی تفسیر قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ فرشتوں کے جس جھگڑے کا ذکر ان روایتوں میں ہے۔ وہی فرشتوں کا جھگڑا اس آیت میں مختصر طور پر ہے۔ لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر نے یہ فیصلہ کردیا ہے ٣ ؎ کہ اس آیت میں فرشتوں کا وہ جھگڑا مراد ہے جو حضرت آدم کے پیدا کرنے کی صورت میں حضرت حضرت آدم کی اولاد زمین پر طرح طرح کے فساد برپا کرے گی اور جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے آگے کی آیتوں میں حضرت آدم کی پیدائش کے قصہ کو ذکر فرمایا ہے تو قرآن شریف کی تفسیر قرآن شریف کی آگے کی آیتوں کو قرار دینا اصول تفسیر کے موافق ہے اوپر کی روایتوں کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں جو قصہ ہے وہ آنخضرت کے ایک خواب کا قصہ ہے اسی واسطے محدثین کے نزدیک یہ حدیث خواب کی حدیث کے نام سے مشہور ہے ‘ بعضے علما نے اس قصہ کو بیداری کی حالت کا قصہ قرار دیا ہے وہ صحیح ١ ؎ مسلم کی حضرت ابوذر (رض) کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیداری کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن شریف کا ذکر تھا۔ اس لئے ان آیتوں میں فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان منکر قرآن مشرکوں کو یوں قائل کرو کہ پچھلے انبیا اور امتوں کے زمین پر کے صحیح قصوں سے اگر تم قرآن کو کلام الٰہی نہیں مانتے تو بھلا یہ بتلاؤ کہ آسمان پر فرشتوں کا قصہ زمین پر کیوں آگیا۔ یہ تو تم ثابت نہیں کرسکتے کہ اہل کتاب میں کے کسی شخص سے میں نے یہ قصے سیکھ لئے ہیں اس واسطے تم کو اس بات کے مان لینے میں ہٹ دھرمی نہ کرنی چاہئے۔ مجھ کو تو یہی حکم ہے کہ قرآن کو جھٹلانے کے وبال سے میں تم لوگوں کو ڈرا دوں اگر اس ڈر کو تم لوگ نہ مانو گے تو اپنی اس ہٹ دھرمی سے ایسے وقت پچھتاؤ گے کہ اس وقت کا پچھتانا تمہارے کچھ کام نہ آوے گا سورة فرقان کی آیتوں کے حوالہ سے ایسے لوگوں کے بےوقت پچھتانے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ وہی آیتیں آخری آیت کی گویا تفسیر ہیں۔ (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة ص ص ١٧٨ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٢۔ ج ٤) (١ ؎ صحیح مسلم مع شرح نودی باب معنی قولہ عز و جل و لقدراہ نزلۃ اخراے الخ ص ٩٧ ج ١)

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:69) الملا الاعلی : م ل ء مادہ۔ الملا وہ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو نظروں کو ظاہری حسن و جمال سے اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھر دے۔ ملا یملا ملا وملاۃ مصدر (باب فتح) کسی چیز کو کسی چیز سے بھرنا۔ مل پیمانہ یا برتن بھرنے کی مقدار ۔ مثلا قرآن مجید میں ہے فلن یقبل من احدھم مل الارض ذھبا (3:91) سو ان میں سے کسی سے بھی ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا زمین بھر سونا۔ قوم کے سردار اہل الرائے اشخاص اپنی رائے کی خوبی اور ذاتی محاسن سے لوگوں کی خواہش کو بھر دیتے ہیں یا آنکھوں میں روشنی اور دلوں میں ہیبت بھر دیتے ہیں۔ اسی لئے ان کو ملا کہتے ہیں۔ الملا الاعلی موصوف و صفت الملا اسم جمع ہے اس لئے اس کی صفت بھی مفرد آئی ہے۔ الاعلی سب سے اوپر۔ برتر۔ علو سے جس کے معنی بلندو برتر ہونے کے ہیں۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے الملا الاعلی سرداران عالی قدر۔ صاحب ضیاء القرآن تحریر فرماتے ہیں :۔ یہاں ملا اعلی سے مراد فرشتوں کی جماعت ہے جو اپنے شرف و عزت کے علاوہ عالم بالا کے مکین ہیں۔ ان کے ذریعہ سے احکام کو نیہ کی تنقید ہوتی ہے اور تدابیر خداوندی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے اس لئے ان میں اپنے متعلقہ فرائض کو انجام دینے کے لئے قبل و قال اور بحث کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور امور جو وہاں زیر بحث آتے ہیں ان میں تخلیق آدم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی ہے۔ اذ ظرف زمان متعلق کا واقعہ بھی ہے۔ یختصمون مضارع جمع مذکر غائب اختصام (افتعال) مصدر سے وہ جھگڑا رہے تھے۔ (ای اذکانوا یختصمون) وہ بحث و گفتگو کر رہے تھے۔ وہ مستفیدانہ گفتگو کر رہے تھے (جب کہ وہ (تخلیق آدم کے بارے میں جس کی تفصیل آگے آتی ہے مستفیدانہ اللہ تعالیٰ سے) گفتگو کر رہے تھے۔ بیان القرآن) ضمیر جمع ملا کے اسم جمع ہونے کی رعایت سے آئی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی اگر وحی نہ ہوتی تو مجھے کچھ بھی پتہ نہ چلتا کہ ” ملاء اعلی “ کیا تدبیریں کرتے ہیں۔ یہاں اختصام سے مراد وہ اختصام ہے جو آدم (علیہ السلام) کی فضلیت اور ابلیس کے سجدہ نہ کرنے کے بارے میں فرشتوں کے درمیان ہوا۔ ( ابن کثیر) شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں اس مجلس میں جھگڑا نہیں مگر ہر کوئی اپنے کام کے تکرار کرتا ہے۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اللہ تعالیٰ سے ملائکہ کی گفتگو کو مجازا اختصام کہا گیا کہ ظاہرا مشابہ اختصام کے تھی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 69 تا 70 یہاں پھر قصہ انسانیت شروع ہوتا ہے کہ اس بناء عظیم میں انسان کا کیا مقام ہے ۔ اس وقت عالم بالا میں وہ مکالمہ ہوا جس سے انسانی تاریخ کی لائن متعین ہوتی ہے۔ اور انسانی قدریں متعین ہوتی ہیں اور اسی نظریہ اور فلسفہ کی تبلیغ کے لیے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجے گئے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

46:۔ ” مَا کَانَ لِیَ الخ “۔ یہ سوال مقدر کا جواب ہے۔ مشرکین کہتے اگر تو واقعی خدا کا پیغمبر ہے اور تمہارے پاس وحی آتی ہے تو ہمیں بتاؤ جس عذاب سے تو ہمیں ڈراتا ہے وہ کب آئے گا۔ جواب دیا گیا کہ بیشک میں اللہ کا پیغمبر ہوں اور مجھ پر وحی آتی ہے لیکن ملا اعلی میں جو کچھ ہو رہا ہے مجھے اس کا کوئی علم نہیں . اس لیے میں نہیں بتا سکتا کہ عذاب کب آئے گا۔ اور اللہ کی طرف سے مجھ پر وحی اسی لیے نازل ہوتی ہے کہ میں اس کا پیغمبر اور بشیر و نذیر ہوں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(69) مجھے تو عالم بالا کے رہنے والے فرشتوں کی جب وہ آپس میں بحث کررہے تھے اور گفتگو کررہے تھے کچھ بھی خبر نہ تھی۔