Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 7

سورة ص

مَا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِی الۡمِلَّۃِ الۡاٰخِرَۃِ ۚ ۖ اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا اخۡتِلَاقٌ ۖ﴿ۚ۷﴾

We have not heard of this in the latest religion. This is not but a fabrication.

ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الاْاخِرَةِ ... We have not heard (the like) of this in the religion of these later days. means, `we have not heard anything like this Tawhid to which Muhammad calls us in the religion of these later days.' Al-`Awfi reported that Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, said, "We have not heard of this from the religion of these later days (meaning Christianity); if this Qur'an were true, the Christians would have told us about it." ... إِنْ هَذَا إِلاَّ اخْتِلَقٌ This is nothing but an invention! Mujahid and Qatadah said, "A lie." Ibn Abbas said, "A fabrication."

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 پچھلے دین سے مراد تو ان کا دین قریش ہے، یا پھر دین نصاریٰ یعنی یہ جس توحید کی دعوت دے رہا ہے، اس کی بابت تو ہم نے کسی بھی دین میں نہیں سنا۔ 7۔ 2 یعنی یہ توحید صرف اس کی اپنی من گھڑت ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی قریب کے زمانہ میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں یہودی اور عیسائی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں۔ ایران، عراق اور مشرقی عرب مجوسیوں سے بھرا پڑا ہے۔ کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔ اللہ کے پیاروں کے تصرفات کو تو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے فی الواقع لوگوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی ہوجاتی ہے۔ پھر آخر اللہ اکیلے پر کون اکتفا کرتا ہے ؟ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ایک من گھڑت بات ہے اور اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم ان کی تابعداری کریں اور یہ ہمارا حاکم بن جائے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ : آخری ملت سے مراد ان کے قریب کے آبا و اجداد ہیں، کیونکہ اصل دین ابراہیم (علیہ السلام) تو توحید پر قائم تھا۔ یہ عمرو بن لحی خزاعی تھا جس نے عرب میں بت پرستی کو رواج دیا، حتیٰ کہ عین کعبہ میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی مورتیوں کے ہاتھ میں فال کے تیر رکھ دیے گئے۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” پچھلا دین (آخری ملت) کہتے تھے اپنے باپ دادوں کو، یعنی آگے تو سنے ہیں کہ اگلے لوگ ایسی باتیں کہتے، پر ہمارے بزرگ تو یوں نہیں کہہ گئے۔ “ (موضح) بعض مفسرین نے فرمایا کہ آخری ملت سے مراد عیسائی ہیں، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سب سے آخر میں آنے والے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) ہی تھے، یعنی ہم نے نصاریٰ میں بھی توحید کی بات نہیں سنی، بلکہ وہ بھی تین خداؤں کے قائل ہیں۔ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ : ” اخْتِلَاقٌ“ مصدر بمعنی اسم مفعول برائے مبالغہ ہے، یعنی یہ محض گھڑی ہوئی بات ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِي الْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۚۖ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۝ ٧ۖۚ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ ملل المِلَّة کالدّين، وهو اسم لما شرع اللہ تعالیٰ لعباده علی لسان الأنبیاء ليتوصّلوا به إلى جوار الله، والفرق بينها وبین الدّين أنّ الملّة لا تضاف إلّا إلى النّبيّ عليه الصلاة والسلام الذي تسند إليه . نحو : فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ولا تکاد توجد مضافة إلى الله، ولا إلى آحاد أمّة النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، ولا تستعمل إلّا في حملة الشّرائع دون آحادها، ( م ل ل ) الملۃ ۔ دین کی طرح ملت بھی اس دستور نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان پر بندوں کے لئے مقرر فرمایا تا کہ اس کے ذریعہ وہ قریب خدا وندی حاصل کرسکیں ۔ دین اور ملت میں فرق یہ ہے کی اضافت صرف اس نبی کی طرف ہوتی ہے جس کا وہ دین ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْراهِيمَ [ آل عمران/ 95] پس دین ابراہیم میں پیروی کرو ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا کے مذہب پر چلتا ہوں ۔ اور اللہ تعالیٰ یا کسی اذا دامت کی طرف اسکی اضافت جائز نہیں ہے بلکہ اس قوم کی طرف حیثیت مجموعی مضاف ہوتا ہے جو اس کے تابع ہوتی ہے ۔ آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث . - وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع . وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔ خُلُقُ ( جھوٹ) وكلّ موضع استعمل الخلق في وصف الکلام فالمراد به الکذب، ومن هذا الوجه امتنع کثير من النّاس من إطلاق لفظ الخلق علی القرآن وعلی هذا قوله تعالی: إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] ، وقوله : ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص/ 7] ، اور وہ ہر مقام جہاں خلق کا لفظ کلام کے متعلق استعمال ہوا ہے ۔ اس سے جھوٹ ہی مرا د ہے ۔ اس بنا پر الگ اکثر لوگ قرآن کے متعلق خلق کا لفظ استعمال نہیں کیا کرتے تھے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا :۔إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] یہ تو اگلوں کے ہی طریق ہیں اور ایک قراءت میں إِنْ هذا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء/ 137] بھی ہے یعنی یہ پہلے لوگوں کی ایجاد واختراع ہو ما سَمِعْنا بِهذا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هذا إِلَّا اخْتِلاقٌ [ ص/ 7] یہ پچھلے مذہب میں ہم نے کبھی سنی ہی نہیں ۔ یہ بالکل بنائی ہوئی بات ہے ۔ خلق ۔ کا لفظ مخلوق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

یہ بات تو جو محمد کہتے ہیں یہودیت و نصرانیت میں بھی نہیں ان سے بھی نہیں سنا کہ اللہ ایک ہے یہ تو ان کی من گھڑت بات ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ { مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ } ” ہم نے ایسی کوئی بات پچھلے دین میں تو نہیں سنی ہے۔ “ آخر ہمارا بھی اپنا ایک دین ہے جو ہم نے ورثے میں پایا ہے۔ پھر ہمارے باپ دادا کی روایات ہیں جو نسل در نسل ہم تک پہنچی ہیں۔ لیکن ہم نے ایسی باتیں اس سے پہلے نہ تو اپنے باپ دادا کے دین میں سنی ہیں اور نہ ہی پرانی روایات سے ان کی تصدیق ہوتی ہے۔ { اِنْ ہٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ۔ ” یہ تو نہیں ہے مگر ایک گھڑی ہوئی چیز۔ “ اختلاق ” خلق “ سے باب افتعال ہے۔ یعنی یہ کوئی خواہ مخواہ بنائی ہوئی چیز ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 That is, "There have been our own elderly people in the recent past; there arc Christians and Jews also living in our land and in the adjoining lands; and there arc the Zoroastrians abounding in Iran and Iraq and eastern Arabia. None of them has ever preached that man should only believe in One AIlah, Lord of the worlds, and in none else beside Him: no one can remain content with one God only: everyone believes in the beloved ones of Allah also: they arc All paying obeisance to them, making offerings at their shrines and praying for fulfilment of their needs and requirements. From one place people get children and from another provisions of life, and from yet another whatever they. pray for. The whole world believes in their powers and capabilities, and those who have benefited from them tell how the needs of the people are being met and their difficulties being removed through their help and grace. Now this man is telling us a queer thing which we had never heard before. He says that none of these holy men has any share in Godhead and that Godhead wholly belongs only to Allah!"

سورة صٓ حاشیہ نمبر :9 یعنی قریب کے زمانے میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں ، عیسائی اور یہودی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں ، اور مجوسیوں سے ایران و عراق اور مشرقی عرب بھرا پڑا ہے ۔ کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ رب العالمین کو مانے اور دوسرے کسی کو نہ مانے ۔ آخر ایک اکیلے خدا پر کون اکتفا کرتا ہے ۔ اللہ کے پیاروں کو تو سب ہی مان رہے ہیں ۔ ان کے آستانوں پر جا کر ماتھے رگڑ رہے ہیں ۔ نذریں دے رہے ہیں ۔ دعائیں مانگ رہے ہیں ۔ کہیں سے اولاد ملتی ہے ۔ کہیں سے رزق ملتا ہے ۔ کسی آستانے پر جو مراد مانگو بر آتی ہے ۔ ان کے تصرفات کو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے لوگوں کی کس کس طرح مشکل کشائی و حاجت روائی ہوتی ہے ۔ اب اس شخص سے ہم یہ نرالی بات سن رہے ہیں ، جو کبھی کسی سے نہ سنی تھی ، کہ ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصہ نہیں اور پوری کی پوری خدائی بس ایک اکیلے اللہ ہی کی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:7) الملۃ الاخرۃ۔ موصوف وصفت۔ پچھلا مذہب۔ پچھلا دین۔ اس سے مراد ان کا آبائی مذہب بھی ہوسکتا ہے اور عیسائیت بھی۔ ان ھذا الا اختلاق : ان نافیہ ہے۔ ھذا یعنی دین توحید۔ اختلاق بروزن افتعال مصدر ہے بمعنی افترائ، بہتان طرازی۔ من گھڑت بات۔ خلق مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یعنی دین نصاریٰ میں کہ ان کے ہاں بھی اس طرح کی توحید نہیں ہے جیسی یہ شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کررہا ہے وہ بھی تین خدائوں کے قائل ہیں۔ ( کذاقال اکثر السلف) (قرطبی) یا قریب کہہ دین سے مراد خود قریش کے بزرگوں کا دین ہے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں ” یعنی آگے تو سنے ہیں کہ اگلے ایسی باتیں کہتے تھے پر ہمارے بزرگ تو یوں نہیں کہہ گئے۔ ( موضح) یا ہم نے اہل کتاب سے یہ بات نہیں سنی کہ آخر زمانے میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہونگے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ پچھلے مذہب کا مطلب یہ کہ دنیا میں بہت سے طریقہ کے لوگ ہوئے، سب سے پیچھے ہم موجود ہیں اور حق پر ہیں، سو ہم نے اس طریقہ کے بزرگوں سے کبھی یہ بات نہیں سنی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ماسمعنا۔۔۔۔ اختلاق (38: 7) ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات “۔ نزول قرآن کے زمانے میں عیسائیوں کے درمیان عقیدۂ تثلیث عام ہوگیا تھا اور حضرت عزیر کی ابوہیت کا عقیدہ بھی یہودیوں کے درمیان پھیل گیا تھا۔ اکابرین قریش اس طرف اشارہ کررہے تھے اور کہتے تھے کہ ” یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں نہیں سنی۔ یہ خالص توحید تو نہ یہودیت میں ہے اور نہ عیسائیت میں۔ لہذا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ پیش کر رہے ہیں یہ ان کا من گھڑت دین ہے۔ اسلام نے خالص توحید کے قیام کے لئے بہت جدوجہد کی۔ اور عقیدۂ توحید سے ہر قسم کے انسانوں شرک خفی اور شرک جلی اور تمام دوسری بےراہ رویوں اور کج فکریوں کو دور کردیا ۔ یہ اس لیے کہ عقیدۂ توحید وہ حقیقت ہے جس پر یہ پوری کائنات قائم ہے۔ اور اس پر یہ پوری کائنات شہادت دے رہی ہے۔ نہایت ہی واضح انداز میں ۔ پھر انسان کی شخصیت کی اصلاح اس کی ذات میں ، ان کے اصول حیات میں اور زندگی کے فروعی مسائل میں اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ عقیدۂ توحید پر قائم نہ ہو۔ یہاں مناسب ہے کہ اس بات کی تفصیل دے دی جائے کہ قریش عقیدۂ توحید کی کس قدر شدید مزاحمت کررہے تھے ۔ اس عقیدے کی وجہ سے وہ کس قدر زیادہ دہشت زدہ ہوگئے تھے اور وہ بیشمار الہوں واحد کے عقیدے کو کس قدر عجیب اور انوکھا سمجھتے تھے۔ اور یہ بھی بیان کردیں کہ قریش سے قبل انسانی تاریخ میں تمام مشرکین نے کس طرح ہمشہ اس عقیدے کی مخالفت کی اور آدم (علیہ السلام) سے ادھر تمام انبیائے کرام نے کس طرح ہمیشہ اس عقیدے پر اصرار کیا۔ اور اس بات کے لیے ان تھک مساعی کیں کہ لوگ اس عقیدے کو تسلیم کرلیں اور یہ کہ حقیقتاً ان کے ذہنوں میں یہ عقیدہ بیٹھ جائے۔ سب سے پہلے یہ مناسب ہے کہ قارئین عقیدہ توحید کی اہمیت کو سمجھ لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عقیدۂ توحید وہ بنیادی سچائی ہے جس کے اوپر یہ پوری کائنات قائم ہے اور یہ پوری کائنات نہایت وضاحت کے ساتھ وحدت الوہیت پر شہادت دیتی ہے۔ وہ قوانین قدرت جو اس زمین پر لاگو ہیں اپنی حقیقت اور ماہیت کے اعتبار سے بالکل ایک اکائی ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ جس ارادے کے تحت یہ قوانین وجود میں آئے ہیں وہ ایک ہی ارادہ ہے۔ اس کائنات پر مجموعی نظرڈالنے سے یا اس کائنات کے ایک ہی جزء کے مطالعے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر وحدت پائی جاتی ہے۔ اور یہ وحدت بتاتی ہے کہ اس کو وجود میں لانے والا ارادہ ایک ہی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین مکہ نے مزید کہا (مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ ) (ہم نے یہ بات کسی دوسرے دین میں نہیں سنی) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس سے دین نصاری مراد ہے اس وقت تک ادیان سماوی میں وہی آخری دین تھا جس میں نصاریٰ نے تحریف و تغییر کرلی تھی اور مشرکین مکہ نصاریٰ کی باتیں سنتے رہے تھے اس لیے انہوں نے یہ بات کہی، نصاریٰ نے اپنے دین کو بدل دیا تھا توحید سے منحرف ہو کر تین خدا ماننے لگے تھے۔ ان لوگوں نے یہ بھی کہا (اِنْ ھٰذَا اِِلَّا اخْتِلاَقٌ) (یہ جو توحید والی بات کہتے ہیں بالکل ہی گھڑی ہوئی ہے) جس کو انہوں نے اپنے پاس سے بنالیا ہے، اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا (اَوْنُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا) (کیا نصیحت کی بات یعنی قرآن جس کے نازل ہونے کا ان کو دعویٰ ہے ہمارے درمیان سے انہیں پر نازل کیا گیا) ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم لوگ سردار ہیں مال والے ہیں بڑے لوگ ہیں اگر اللہ کی طرف سے کوئی کتاب نازل ہونی تھی تو ہم میں سے کسی پر نازل ہونی چاہیے تھی اس کی کیا خصوصیت ہے جو اس کو نبی بنایا گیا اور اس پر کتاب نازل کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (بَلْ ھُمْ فِیْ شَکٍّ مِنْ ذِکْرِیْ ) (بلکہ بات یہ ہے کہ میرے ذکر کی طرف سے یہ لوگ شک میں ہیں) (بَلْ لَمَّا یَذُوْقُوْا عَذَابِ ) (بلکہ بات یہ کہ انہوں نے میرا عذاب نہیں چکھا) یہ ساری باتیں اور موشگافیاں عذاب آنے سے پہلے پہلے ہیں، جب عذاب آجائے گا تو تصدیق کرنے پر مجبور ہوجائیں گے لیکن اس وقت کی تصدیق فائدہ نہ دے گی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9: ما سمعنا الخ : ھذا سے مسئلہ توحید کی طرف اشارہ ہے اور الملۃ الاخرۃ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دین یا آباء و اجداد کا دین مراد ہے۔ ہم نے آج تک یہ مسئلہ توحید نہ تو دین عیسوی کے عالموں سے سنا ہے بلکہ اس کے برعکس تمام پوپ اور پادری تثلیث کے قائل ہیں اور نہ اپنے باپ دادا ہی سے ہم نے مسئلہ توحید سنا ہے۔ اس لیے لامحالہ یہ مسئلہ توحید خدا کی طرف سے نہیں بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا ساختہ پرداختہ ہے۔ فی ملۃ عیسیٰ التیھی اخر الملل لان النصاری مثلثۃ غیر موحدۃ او فی ملۃ قریش التی ادرکنا علیہا آباءنا (مدارک ج 4 ص 27) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) ہم نے تو ایک معبود والی بات اپنے پچھلے دین میں کبھی نہیں سنی۔ یہ محض افترا اور گھڑی ہوئی بات ہے۔ پچھلا دین یا نصاریٰ کے دین کو کہا کہ اس میں بھی توحید نہ تھی بلکہ وہاں بھی تین خدائوں کا ذکر ہے۔ یا پچھلا دین کہا اپنے باپ دادوں کے دین کو کہ ہم نے ان سے بھی کبھی ایک معبود کی بات نہیں سنی اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہو نہ ہو یہ اس شخص کی من گھڑت ہے۔