Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 72

سورة ص

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۷۲﴾

So when I have proportioned him and breathed into him of My [created] soul, then fall down to him in prostration."

سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ، تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

"So, when I have fashioned him and breathed into him (his) soul created by Me, then you fall down prostrate to him." فَسَجَدَ الْمَلَيِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کے تمام اجزا درست اور برابر کرلوں۔ 72۔ 2 یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کے پھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہوجائے گا۔ انسان کے شرف و عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں و... ہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔ 72۔ 3 یہ سجدہ تحیہ یا سجدہ تعظیم ہے، سجدہ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم (علیہ السلام) کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے (مشکوٰۃ، کتاب النکاح   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا سَوَّيْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِيْنَ۝ ٧٢ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ... ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ سوا ( مساوات برابر) الْمُسَاوَاةُ : المعادلة المعتبرة بالذّرع والوزن، والکيل، وتَسْوِيَةُ الشیء : جعله سواء، إمّا في الرّفعة، أو في الضّعة، وقوله : الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] ، أي : جعل خلقتک علی ما اقتضت الحکمة، وقوله : وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] ، فإشارة إلى القوی التي جعلها مقوّمة للنّفس، فنسب الفعل إليها، وکذا قوله : فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، ( س و ی ) المسا واۃ کے معنی وزن کیل یا مسا حت کے لحاظ سے دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونے کے ہیں التسویۃ کے معنی کسی چیز کو ہموار کرنے ہیں اور آیت : ۔ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ [ الانفطار/ 7] دو ہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور تیرے اعضاء کو ٹھیک کیا ۔ میں سواک سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خلقت کو اپنی حکمت کے اقتضاء کے مطابق بنایا اور آیت : ۔ وَنَفْسٍ وَما سَوَّاها [ الشمس/ 7] اور انسان کی اور اس کی جس نے اس کے قوی کو برابر بنایا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَإِذا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] جب اس کو ( صورت انسانیہ میں ) درست کرلوں اور اس میں ( اپنی بےبہا چیز یعنی ) روح پھونک دوں ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ وقع الوُقُوعُ : ثبوتُ الشیءِ وسقوطُهُ. يقال : وَقَعَ الطائرُ وُقُوعاً ، والوَاقِعَةُ لا تقال إلّا في الشّدّة والمکروه، وأكثر ما جاء في القرآن من لفظ «وَقَعَ» جاء في العذاب والشّدائد نحو : إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] ، ( و ق ع ) الوقوع کے معنی کیس چیز کے ثابت ہونے اور نیچے گر نے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ وقع الطیر وقوعا پر ندا نیچے گر پڑا ۔ الواقعۃ اس واقعہ کو کہتے ہیں جس میں سختی ہو اور قرآن پاک میں اس مادہ سے جس قدر مشتقات استعمال ہوئے ہیں وہ زیادہ تر عذاب اور شدائد کے واقع ہونے کے متعلق استعمال ہوئے ہیں چناچہ فرمایا ۔ إِذا وَقَعَتِ الْواقِعَةُ لَيْسَ لِوَقْعَتِها كاذِبَةٌ [ الواقعة/ 1- 2] جب واقع ہونے والی واقع ہوجائے اس کے واقع ہونے میں کچھ جھوٹ نہیں ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو جب میں اس کو پورا بنا چکوں اور اس میں جان ڈال دوں تو تم سب اس کے رو برو سجدہ میں گر پڑنا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ { فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ } ” تو جب میں اس کو پوری طرح درست کر دوں “ ” تسویہ “ کے معنی کسی تخلیق کو ہر لحاظ سے درست کر کے اس کی تکمیل کردینے کے ہیں۔ انگریزی میں اسے finishing touch دینا کہا جاتا ہے۔ چناچہ ” تسویہ “ کا مرحلہ بنیادی تخلیق کے بعد آتا ہے ‘ جیسا کہ سورة الاعلیٰ میں فرمایا گیا : { سَ... بِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی۔ الَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی۔ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی ‘ جس نے تخلیق کیا ‘ پھر تسویہ کیا “۔ سورة الاعلیٰ کے مطالعہ کے دوران اس موضوع پر ان شاء اللہ تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ { وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ } ” اور میں اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم گرپڑنا اس کے سامنے سجدے میں۔ “ یہاں پر رُوْحِیْ (میری روح) کا لفظ نوٹ کیجیے اور اس نکتے کو ذہن نشین کر لیجیے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا مسجودِ ملائک ہونا اس روح ربانی کی بنیاد پر تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم میں پھونکی تھی۔ اس سے قبل نہ تو وہ مسجودِ ملائک تھے ‘ اور نہ ہی ان کا وہ مقام و مرتبہ تھا جو بعد میں اشرف المخلوقات کی حیثیت سے ان کو ملا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

61 For explanation, see Al-Hijr: 29-30, and E.N. 16 of Surah As-Sajdah. 62 For explanation, sec AI-Baqarah: 34, Al-A'raf :11 and the E.N.'s thereof.

سورة صٓ حاشیہ نمبر :61 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ص 504 ۔ 505 ۔ جلد چہارم ، السجدہ حاشیہ 16 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:72) سویتہ : سویت ماضی واحد متکلم تسویۃ (تفعیل) مصدر سے برابر کرنا ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب اس کا مرجع بشرا ہے۔ (جب) میں اس کو برابر کر دوں یعنی مکمل کر چکوں (ماضی بمعنی مستقبل) نفخت ماضی واحد متکلم نفخ (باب نصر) مصدر۔ پھونکنا۔ پھونک مارنا۔ (جب) میں (اس میں) پھونک دوں (ماضی بمعنی مستقبل) ۔ ون... فخت فیہ من روحی : ای احیینہ بنفخ الروح فیہ اور اس میں جان پھونک کر اسے زندہ کردوں۔ یعنی جب میں اس میں اپنی طرف سے جان ڈال دوں۔ من روحی میں یا تو اضافت تملی کی ہے یعنی ہماری مملوک و مخلوق خاص۔ یا اضافت تشریفی یعنی وہ روح جو ہماری نسبت سے مشرف و مکرم ہے یا تنصیصی یعنی وہ زندگی یا جان جس میں ہمارے سوا کوئی دوسرا تعلق نہیں ہے۔ امام رازی (رح) نے فرمایا ہے :۔ کہ من روحی میں اللہ نے روح کو اپنی جانب نسبت دے کر اس امر کو ظاہر کردیا ہے کہ روح ایک جو ہر شریف و معظم ہے (تفسیر ماجدی سے) اضافت خربیت اور بعضیت کی نہیں بلکہ تشریف کی ہے یعنی وہ روح جس کو میں نے اپنی خاص قدرت سے بنایا ہے۔ (ضیاء القرآن) فقعود : الفاء جواب شرط کے لئے ہے۔ قعوا۔ وقع یقع (مثال وادی۔ باب فتح) وقوع مصدر سے ۔ فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ تم گرپڑنا۔ وقوع کے معنی ثابت اور واجب ہونا۔ عدم سے وجود میں آجانا کے بھی ہیں۔ یہاں گرپڑنا کے معنی میں آیا ہے۔ لہ یعنی اس بشر کے روبرو۔ مساجدین۔ اسم فاعل جمع مذکر بحالت نصب ضمیر فاعل قعوا سے حال ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : یعنی آب و خاک کی نہیں بنی غیب سے آئی۔ ( موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(72) پھرجب میں اس کو پوری پوری درست کردوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گرپڑنا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ایک یہ بھی فرشتوں کی تکرار تھی جو بیان فرمایا۔ اور فرمایا ایک اپنی جان یعنی آب وخاک سے نہیں بنی غیب سے آئی۔