Surat Suaad

Surah: 38

Verse: 88

سورة ص

وَ لَتَعۡلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعۡدَ حِیۡنٍ ﴿۸۸﴾٪  14

And you will surely know [the truth of] its information after a time."

یقیناً تم اس کی حقیقت کو کچھ ہی وقت کے بعد ( صحیح طور پر ) جان لو گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَأَهُ ... And you shall certainly know the truth of it, means, `you will see confirmation that what he says is true.' ... بَعْدَ حِينٍ after a while. (means, soon). Qatadah said, "After death." Ikrimah said, "It means, on the Day of Resurrection." There is no contradiction between the two views, because whoever dies comes under the rulings of the Day of Resurrection. This is the end of the Tafsir of Surah Saad. All praise and gratitude is due to Allah, and Allah may He be glorified and exalted, knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 یعنی قرآن نے جن چیزوں کو بیان کیا ہے، جو وعدے وعید ذکر کئے ہیں، ان کی حقیقت و صداقت بہت جلد تمہارے سامنے آجائے گی۔ چناچہ اس کی صداقت یوم بدر کو واضح ہوئی، فتح مکہ کے دن ہوئی یا پھر موت کے وقت تو سب پر ہی واضح ہوجاتی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] یعنی قرآن کریم جس بات کی خبر دے رہا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام سر بلند ہو کے رہے گا اور اس کی دعوت کے مخالفوں کو مغلوب اور ذلیل وخوار ہونا پڑے گا۔ کافروں میں سے جو لوگ زندہ رہے وہ تو اپنی آنکھوں سے یہ انجام دیکھ لیں گے اور جو مرگئے ان کو موت کے دروازے سے گزرتے ہی اس حقیقت کا پتہ چل جائے گا کہ قرآن نے جو خبر دی تھی وہ ٹھوس حقیقت پر مبنی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِيْنٍ : یعنی قرآن مجید میں جو وعدے یا وعید آئے ہیں، یا اس نے آئندہ کے متعلق جو کچھ بتایا ہے ان کا حق ہونا کچھ وقت کے بعد دنیا میں دیکھ لو گے، جیسا کہ بدر اور دوسرے مواقع پر کفار نے دیکھ لیا، یا پھر موت کے بعد قیامت کے دن ہر حال میں دیکھ لو گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِيْنٍ۝ ٨٨ۧ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے حين الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] ( ح ی ن ) الحین ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص/ 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ { وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِیْنٍ ” اور تم ضرور جان لوگے اس کی اصل خبر ایک وقت کے بعد۔ “ ان لوگوں تک قرآن کا پیغام پہنچ چکا ہے ‘ انہیں خاطر خواہ طور پر یاد دہانی کرادی گئی ہے ‘ ہر لحاظ سے ان پر حجت قائم ہوچکی ہے۔ اب بہت جلد اس اتمامِ حجت کا نتیجہ ان کے سامنے آجائے گا۔ سورة الطارق میں قرآن کے بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : { اِنَّہٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ۔ وَّمَا ہُوَ بِالْہَزْلِ ۔ یعنی یہ قرآن کوئی بےمقصد کلام نہیں ہے ‘ بلکہ یہ فیصلہ کن قول بن کر آیا ہے۔ اب اس کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت ١٠٥ میں قرآن کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے : { وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰہُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ } کہ ہم نے اس قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے اور یہ حق کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ اب اسی کے ترازو میں قوموں کی تقدیریں تلیں گی اور اسی کی عدالت میں ان کے عروج وزوال سے متعلق فیصلے ہوں گے۔ حضرت عمرفاروق (رض) کی روایت سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ ) (١) ” اللہ تعالیٰ اسی کتاب کی بدولت بعض اقوام کو عروج پر پہنچائے گا اور اس کو ترک کرنے کی وجہ سے بعض کو قعرمذلت میں گرا دے گا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

73 That is, "Those of you who live will see for themselves within a few years that what I am saying is fulfilled; those who die will come to know as soon as they pass through the gate of death that the truth is the same which I am preaching."

سورة صٓ حاشیہ نمبر :73 یعنی جو تم میں سے زندہ رہیں گے وہ چند سال کے اندر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ پوری ہو کر رہی ۔ اور جو مر جائیں گے ان کو موت کے دروازے سے گزرتے ہی پتہ چل جائے گا کہ حقیقت وہی کچھ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(38:88) لتعلمن لام تاکید تعلمن مضارع تاکید بانون ثقیلہ ۔ صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ علم سے۔ تم ضرور جان لو گے۔ تم کو ضرور معلوم ہوجائے گا۔ نبائ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی خبر۔ منصوب بوجہ تعلمن کے مفعول ہونے کے ہے ہ ضمیر واحد مزکر غائب کا مرجع القرآن ہے ولتعلمن نباہ ای ولتعلمن نبأ القران وما فیہ من الوعد والوعید وذکر البعث والنشور۔ یعنی قرآن میں جزا و سزا حشر و نشر کے متعلق جو تعلیمات ہیں تمہیں ضرور معلوم ہوجائیں گی۔ اور اس کی صداقت تم پر عیاں ہوجائے گی۔ بعد حین۔ مضاف مضاف الیہ۔ کچھ عرصہ بعد۔ یعنی مرنے کے بعد حقیقت تم پر کھول جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی تم میں جو زندہ بچیں گے انہیں چند سال میں اور جو مرجائیں گے انہیں مرنے کے فوراً بعد اور پھر قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت وہی ہے جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس سورت میں قرآن کی تین جگہ مدح ہے اور تینوں جگہ اس کو ذکر فرمایا ہے اول میں ذی الذکر وسط میں لیتذکر اخیر میں ذکر للعالمین۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51:۔ ” وَ لَتَعْلَمُنَّ الخ “ ” حین “ سے موت یا قیامت مراد ہے۔ یعنی اب دنیا میں تو نہیں مانتے ہو۔ لیکن ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اپنے کفر و انکار کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ اور قرآن میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کی سائی کا بچشم خود مشاہدہ کرلو گے۔ لیکن اس وقت تلافی کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ سورة صٓ میں آیات توحید اور اس کی خصوصیات 1 ۔ ” اَجَعَلَ الْاٰ لِھَۃَ اِلٰھًا وَّا حِدًا (رکوع 1) ۔ نفی شرک فی التصرف۔ 2 ۔ ” اَمْ عِنْدَھُمْ خَزَآئِنُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ “۔ تا۔ ” قَلْیَرْتَقُوْا فِیْ الْاَسْبَابِ “ نفئ شرک فی التصرف۔ 3 ۔ ” وَ مَا مِنْ اِلٰہٍ “ تا۔ ” اَلْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ “ (رکوع 5) ۔ نفئ شرک فی التصرف و نفئ شفاعتِ قہری۔ سورة صٓ ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(88) اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد تم اس قرآن کی صحیح حقیقت کا حال معلوم کرلو گے۔ یعنی دم نکلتے ہی سب معلوم ہوجائے گا کہ یہ قرآن کریم کیا چیز تھا اور قرآن کریم سے کیا فائدہ پہنچتا اور قرآن کریم پر ایمان نہ لائنے سے کیا نقصان ہوتا ہے۔ سورت کے شروع میں فرمایا والقران ذی الذکر اور آخر میں فرمایا ان ھوالا ذکر للعلمین تم سورة ص ٓ