Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 13

سورة الزمر

قُلۡ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اِنۡ عَصَیۡتُ رَبِّیۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۳﴾

Say, "Indeed I fear, if I should disobey my Lord, the punishment of a tremendous Day."

کہہ دیجئے! کہ مجھے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے بڑے دن کے عذاب کا خوف لگتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Creating Fear of the Punishment of Allah Allah says, قُلْ ... Say, (`O Muhammad, even though you are the Messenger of Allah:') ... إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ Verily, if I disobey my Lord, I am afraid of the torment of a great Day. meaning the Day of Resurrection. This is a conditional sentence, and if what is referred to here applies to the Prophet, it applies even more so to others, قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي

حکم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن عذاب الٰہی سے بےخوف نہیں ہوں ۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو قیامت کے دن کے عذاب سے میں بھی بچ نہیں سکتا تو دوسرے لوگوں کو تو رب کی نافرمانی سے بہت زیادہ اجتناب کرنا چاہئے ۔ تم اپنے دین کا بھی اعلان کر دو کہ میں پختہ اور یکسوئی والا موحد ہوں ۔ تم جس کی چاہو عبادت کرتے رہو ۔ اس میں بھی ڈانٹ ڈپٹ ہے نہ کہ اجازت ۔ پورے نقصان میں وہ ہیں جنہوں نے خود اپنے آپ کو اور اپنے والوں کو نقصان میں پھنسا دیا ۔ قیامت کے دن ان میں جدائی ہو جائے گی ۔ اگر ان کے اہل جنت میں گئے تو یہ دوزخ میں جل رہے ہیں اور ان سے الگ ہیں اور اگر سب جہنم میں گئے تو وہاں برائی کے ساتھ ایک دوسرے سے دور رہیں اور محزون و مغموم ہیں ۔ یہی واضح نقصان ہے ۔ پھر ان کا حال جو جہنم میں ہو گا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اوپر تلے آگ ہی آگ ہو گی ۔ جیسے فرمایا ( لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنْ فَوْقِهِمْ غَوَاشٍ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الظّٰلِمِيْنَ 41؀ ) 7- الاعراف:41 ) یعنی ان کا اوڑھنا بچھونا سب آتش جہنم سے ہو گا ۔ ظالموں کا یہی بدلہ ہے اور آیت میں ہے قیامت والے دن انہیں نیچے اوپر سے عذاب ہو رہا ہو گا ۔ اور اوپر سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کا مزہ چکھو ۔ یہ اس لئے ظاہر و باہر کر دیا گیا اور کھول کھول کر اس وجہ سے بیان کیا گیا کہ اس حقیقی عذاب سے جو یقینا آنے والا ہے میرے بندے خبردار ہو جائیں اور گناہوں اور نافرمانیوں کو چھوڑ دیں ۔ میرے بندو میری پکڑ دکڑ سے میرے عذاب و غضب سے میرے انتقام اور بدلے سے ڈرتے رہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ ۔ : یعنی اے پیغمبر ! کہہ دے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں اور اپنی عبادت اور اطاعت اس کے لیے خالص کرنے کے بجائے تمہاری طرح اس کا کوئی شریک بنا لوں تو میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ مطلب یہ کہ میرے جیسا شخص بھی ( جسے اللہ تعالیٰ نے سید ولد آدم بنایا، جس کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دیے) اگر اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے شرک کا ارتکاب کر بیٹھے، تو اس عظیم دن کے عذاب سے ڈرتا ہے، تو اپنے متعلق تم خود سوچ لو۔ تفصیل سورة زمر (٦٤، ٦٥) اور سورة انعام (١٤، ١٥ اور ٨١ تا ٨٨) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۝ ١٣ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣ { قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ } ” کہہ دیجیے کہ مجھے خود اندیشہ ہے ایک بڑے دن کے عذاب کا اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں۔ “ میں خود بھی تو اللہ کا بندہ ہوں ‘ اور اس حیثیت سے اس کی ُ کلی اطاعت کا پابند ہوں۔ اس ضمن میں میرے لیے کوئی استثناء نہیں ‘ اور اگر بالفرض میں بھی اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بھی اللہ کے عذاب کا اندیشہ ہوگا۔ یہ شرطیہ فقرہ ہے اور یوں سمجھیں کہ اس کے درمیان کا ” اگر “ گویا ایک پہاڑ ہے جسے پھلانگنا ناممکنات میں سے ہے۔ دراصل یہ انداز مخالفین کو معاملے کی سنجیدگی کا احساس دلانے کے لیے اختیار فرمایا گیا ہے ‘ ورنہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس کا ہرگز کوئی امکان نہیں تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:13) ان عصیت ربی جملہ شرطیہ ہے اخاف عذاب یوم عظیم اس کی جزاء یوم عظیم سے مراد روز قیامت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی اگر ان معبودوں کی بندگی کرنے لگے جس کی تم لوگ مجھے دعوت دے رہے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مطلب یہ کہ توحید خالص کا وجوب اور اس کے ترک پر عذاب کا استحقاق ایسا عام ہے کہ معصوم جس میں احتمال معصیت کا ہے ہی نہیں، وہ بھی اس قاعدہ سے مستثنی نہیں، تو غیر معصوم تو کس شمار میں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ “ قل انی اخاف الخ “ تمہارے دل چونکہ خوف خدا سے خالی ہیں۔ اس لیے تم کفر و شرک اور دیگر بد اعمالیوں کا بےمحابا ارتکاب کر رہے لیکن میں تو خدا کے عذاب سے ڈرتا ہوں مجھے تو ڈر ہے کہ اگر میں اخلاص عبادت میں کوتاہی کروں اور تمہاری طرح شرک کی طرف مائل ہوجاؤں تو مجھے وہ عذاب میں گرفتار کردے۔ اس سے مقصود مشرکین سے تعریض ہے۔ کیونکہ آپ معصوم ہیں اور آپ سے معصیت کا صدور محال ہے وھذا شرط و معناہ تعریض بغیرہ بطریق الاولی والاخری (ابن کثیر ج 4 ص 48) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(13) آپ کہہ دیجئے اگر میں اپنے پروردگار کا حکمنہ مانوں تو میں ایک سخت دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ پہلے اخلاص کا حکم دیا گیا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت پر اعتقاد رکھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو یعنی نری اسی کی بندگی ہو اس کی عبادت میں کوئی دوسراشریک نہ ہو نہ تو عبادت میں ریا ہو اور نہ غیر اللہ کی عبادت ہو دوسرے یہ کہ اس امت میں سب مسلمانوں میں سے پہلے میں اسلام کے حق ہونے کو مانوں اور اسلام کے حق ہونے گا اظہار کروں اور اگر بفرض محال مجھ سے اپنے پروردگار کی کوئی نافرمانی ہوجائے تو میں قیامت کے دن کے عذاب اور اس بڑے دن کی پکڑ سے ڈرتا ہوں بڑا دن فرمایا قیامت کو۔