Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 24

سورة الزمر

اَفَمَنۡ یَّتَّقِیۡ بِوَجۡہِہٖ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ قِیۡلَ لِلظّٰلِمِیۡنَ ذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡسِبُوۡنَ ﴿۲۴﴾

Then is he who will shield with his face the worst of the punishment on the Day of Resurrection [like one secure from it]? And it will be said to the wrongdoers, "Taste what you used to earn."

بھلا جو شخص قیامت کے دن ان کے بدترین عذاب کی سپر ( ڈھال ) اپنے منہ کو بنائے گا ( ایسے ) ظالموں سے کہا جائے گا کہ اپنے کئے کا ( وبال ) چکھو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Final Destination of the Disbelievers Allah says, أَفَمَن يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ... Is he then, who will confront with his face the awful torment on the Day of Resurrection? ... وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ... And it will be said to the wrongdoers: He will be rebuked and he and the evildoers like him will be told: ... ذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْسِبُونَ "Taste what you used to earn!" `Is this like the one who comes secure on the Day of Resurrection' as Allah says: أَفَمَن يَمْشِى مُكِبّاً عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن يَمْشِى سَوِيّاً عَلَى صِرَطٍ مُّسْتَقِيمٍ Is he who walks prone on his face, more rightly guided, or he who walks upright on the straight way; (67:22) يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِى النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ ذُوقُواْ مَسَّ سَقَرَ The Day they will be dragged on their faces into the Fire (it will be said to them): "Taste you the touch of Hell!" (54:48) and, أَفَمَن يُلْقَى فِى النَّارِ خَيْرٌ أَم مَّن يَأْتِى ءَامِناً يَوْمَ الْقِيَـمَةِ Is he who is cast into the Fire better or he who comes secure on the Day of Resurrection? (41:40) In each of these Ayat, it was sufficient to refer to one of the two groups. Allah's statement, كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمْ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَشْعُرُونَ

ایک وہ جسے اس ہنگامہ خیز دن میں امن و امان حاصل ہو اور ایک وہ جسے اپنے منہ پر عذاب کے تھپڑ کھانے پڑتے ہوں برابر ہو سکتے ہیں؟ جیسے فرمایا اوندھے منہ ، منہ کے بل چلنے والا اور راست قامت اپنے پیروں سیدھی راہ چلتے والا برابر نہیں ۔ ان کفار کو تو قیامت کے دن اوندھے منہ گھسیٹا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آگ کا مزہ چکھو ۔ ایک اور آیت میں ہے جہنم میں داخل کیا جانے والا بدنصیب اچھا یا امن و امان سے قیامت کا دن گذارنے والا اچھا ؟ یہاں اس آیت کا مطلب یہی ہے لیکن ایک قسم کا ذکر کر کے دوسری قسم کے بیان کو چھوڑ دیا کیونکہ اسی سے وہ بھی سمجھ لیا جاتا ہے یہ بات شعراء کے کلام میں برابر پائی جاتی ہے ۔ اگلے لوگوں نے بھی اللہ کی باتوں کو نہ مانا تھا اور رسولوں کو جھوٹا کہا تھا پھر دیکھو کہ ان پر کس طرح ان کی بےخبری میں مار پڑی؟ عذاب اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل و خوار کیا اور آخرت کے سخت عذاب بھی ان کے لئے باقی ہیں ۔ پس تمہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ اشرف رسل کے ستانے اور نہ ماننے کی وجہ سے تم پر کہیں ان سے بھی بدتر عذاب برس نہ پڑیں ۔ تم اگر ذی علم ہو تو ان کے حالات اور تذکرے تمہاری نصیحت کے لئے کافی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 یعنی کیا یہ شخص، اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو قیامت والے دن بالکل بےخوف اور امن میں ہوگا ؟ یعنی محذوف عبارت ملا کر اس کا مفہوم ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٠] انسان کی عادت ہے کہ جب اس کے بدن پر کوئی ضرب پڑنے والی ہو تو سب سے پہلے وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی روک تھام کرتا ہے یعنی پڑنے والے وار کی ہاتھوں سے مدافعت کرتا ہے۔ اور اگر حملہ شدید ہو اور ہاتھوں سے اسے روکا نہ جاسکتا ہو تو باقی بدن کے ہر حصے پر ضرب پڑنا گوار کرلیتا ہے لیکن جیسے بھی بن پڑے چہرے کو اس ضرب سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ قیامت کے دن ان کے ہاتھ تو بندھے ہوں گے اور بےبسی کا بھی یہ عالم ہوگا کہ اس عذاب کو مجبوراً انہیں اپنے چہروں پر برداشت کرنا پڑے گا۔ پھر ساتھ ہی انہیں یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمہارے ہی اعمال کا بدلہ ہے۔ یہاں پھر سوال کا اگلا حصہ مخدوف ہے اور یہ جملہ یوں مکمل ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص اس مومن کی طرح ہوسکتا ہے جسے آخرت میں کوئی تکلیف اور نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہی نہ ہو بلکہ اسے اس دن ہر طرح سے راحت اور اطمینان میسر ہو ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَمَنْ يَّتَّـقِيْ بِوَجْهِهٖ “ کی خبر محذوف ہے (جیسا کہ اس سے پہلے آیت : ١٩ میں گزر چکا ہے) : ” أَيْ کَمَنْ ھُوَ آمِنٌ مِنَ الْعَذَابِ ، أَوْ کَمَنْ ھُوَ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ “ یعنی تو کیا وہ شخص جو قیامت کے دن اپنے چہرے کے ساتھ بدترین عذاب سے بچے گا، وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو عذاب سے بےخوف ہوگا، یا جو اہل جنت سے ہوگا ؟ جیسا کہ فرمایا : (اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِي النَّارِ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِيْٓ اٰمِنًا ) [ حٰم السجدۃ : ٤٠ ] ” تو کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکا جائے بہتر ہے، یا جو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے ؟ “ مزید دیکھیے سورة قمر (٤٨) اور سورة ملک (٢٢) ۔ 3 دنیا میں آدمی کو آگ یا کسی بھی تکلیف دہ چیز کا سامنا ہو تو وہ اپنے چہرے کو اس سے بچانے کے لیے ہاتھوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ قیامت کے دن چونکہ جہنمیوں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے، اس لیے وہ عذاب سے بچنے کے لیے چار و ناچار چہروں ہی کو ڈھال بنائیں گے، یعنی بد ترین عذاب کے تھپیڑے سیدھے ان کے منہ پر پڑیں گے۔ وَقِيْلَ للظّٰلِمِيْنَ ذُوْقُوْا۔۔ : یعنی وہ اپنے چہرے کے ساتھ عذاب سے بچیں گے، مگر اس سے انھیں کچھ بچاؤ حاصل نہ ہوگا، بلکہ آگ انھیں ہر جانب سے ڈھانپ لے گی۔ آگے یہ کہنے کے بجائے کہ ” ان سے کہا جائے گا “ فرمایا ” ان ظالموں سے کہا جائے گا “ مقصد یہ بات واضح کرنا ہے کہ ان کے عذاب کا باعث ان کا ظلم ہوگا اور ان سے کہا جائے گا کہ اپنی کمائی کا وبال چکھو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Verse أَفَمَن يَتَّقِي بِوَجْهِهِ (Tell Me about the one who tries to save himself from the worst punishment with his face ...) carries a description of the terrifying scenario of Jahannam. If one faces something hurtful in his mortal life, he tries to fight it off by using his hands and feet as defensive shields to protect his face. But, refuge with Allah, the people of Jahannam will not be able to use even their hands and feet to defend themselves. The punishment that comes will fall directly on their faces. Even if he wished to ward off the punishment in defense, he would have no option but to use his very face as the shield, because he would have been thrown in Jahannam with his hands and feet tied. We seek refuge with Allah from such a fate. Out of the authorities of Tafsir, ` Ata and Ibn Zayd said that a person condemned to Jahannam will have his hands and feet tied before being dragged in there. (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر بھلا جو شخص اپنے منہ کو قیامت کے روز سخت عذاب کی سپر بنا دے گا اور ایسے ظالموں کو حکم ہوگا کہ جو کچھ تم کیا کرتے تھے (اب) اس کا مزہ چکھو تو کیا یہ (گرفتار عذاب) اور جو ایسا نہ ہو برابر ہو سکتے ہیں (اور کفار ان عذابوں کو سن کر انکار نہ کریں کیونکہ) جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی (حق کو) جھٹلایا تھا سو ان پر عذاب ایسے طور پر آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا سو اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی دنیوی زندگی میں بھی رسوائی کا مزہ چکھایا۔ (کہ زمین میں دھنس جانے اور چہرہ بگڑ جانے اور آسمان سے پتھر برسنے وغیرہ کے عذاب سے دنیا میں بدنام ہوئے) اور آخرت کا عذاب اور بھی بڑا ہے کاش یہ لوگ سمجھ جاتے (اوپر کی ایک (آیت) افمن شرح اللہ صدرہ، میں یہ بیان ہوا تھا کہ قرآن سن کر بعض لوگ متاثر ہوتے ہیں بعض نہیں ہوتے۔ آگے آیت میں یہ بیان ہے کہ بعض لوگوں کا اس سے متاثر نہ ہونا ان کی اپنی قابلیت و صلاحیت کی کمی کی وجہ سے ہے، ورنہ قرآن فی نفسہ سب کے لئے اثر برابر رکھتا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ تفاوت قابلیت کے اعتبار سے ہے۔ فاعل میں کوئی نقص اور کمی نہیں) اور ہم نے لوگوں (کی ہدایت) کے لئے اس قرآن میں ہر قسم کے (ضروری) عمدہ مضامین بیان کئے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ عربی قرآن ہے جس میں ذرا بھی کجی نہیں (اور یہ مضامین اس لئے لائے گئے) تاکہ یہ لوگ (ان سچے اور صاف مضامین کو سن کر) ڈریں (معلوم ہوا کہ قرآن پاک کے کتاب الہدایة ہونے میں جن صفات کی ضرورت تھی وہ سب اس میں جمع ہیں کہ اس کے مضامین بھی سب سچے اور صاف واضح ہیں اور زبان بھی عربی ہے جس کو موجودہ مخاطب بلاواسطہ سمجھ سکتے ہیں، پھر ان کے ذریعہ سے دوسروں کا سمجھ لینا بھی آسان ہوسکتا ہے۔ غرض اس کتاب ہدایت میں تو کوئی کمی نہیں۔ کسی میں قبول کرنے کی استعداد اور صلاحیت ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے) معارف ومسائل (آیت) اَفَمَنْ يَّتَّـقِيْ بِوَجْهِهٖ ۔ اس میں جہنم کے سخت ہولناک ہونے کا بیان ہے کہ انسان کی عادت دنیا میں یہ ہے کہ کوئی تکلیف کی چیز سامنے آجائے تو اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو چہرہ بچانے کے لئے ڈھال بنا کر دفع کرتا ہے۔ مگر خدا کی پناہ اہل جہنم کو یہ ہاتھ پاؤں سے مدافعت بھی نصیب نہ ہوگی، ان پر جو عذاب آئے گا وہ براہ راست ان کے چہروں پر پڑے گا۔ وہ مدافعت بھی کرنا چاہے تو چہرہ ہی کو ڈھال بنا سکے گا کیونکہ جہنم میں اس کو ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈالا جائے گا۔ نعوذ باللہ منہ۔ ائمہ تفسیر میں سے حضرت عطاء ابن زید نے فرمایا کہ جہنمی کو جہنم میں ہاتھ پاؤں باندھ کر گھسیٹ کر ڈالا جائے گا۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَمَنْ يَّتَّـقِيْ بِوَجْہِہٖ سُوْۗءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ ۭ وَقِيْلَ لِلظّٰلِمِيْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ۝ ٢٤ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ وجه أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] ( و ج ہ ) الوجہ کے اصل معنی چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة/ 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔ ساء ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] ، أي : قبیحا، وکذا قوله : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ، عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] ، أي : ما يسوء هم في العاقبة، وکذا قوله : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] ، وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66] ، وأما قوله تعالی: فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ، ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] ، فساء هاهنا تجري مجری بئس، وقال : وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ [ الممتحنة/ 2] ، وقوله : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، نسب ذلک إلى الوجه من حيث إنه يبدو في الوجه أثر السّرور والغمّ ، وقال : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] : حلّ بهم ما يسوء هم، وقال : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ، وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ «1» . قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] ، لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما [ الأعراف/ 20] . ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ اور آیت :، مَنْ يَعْمَلْ سُوءاً يُجْزَ بِهِ [ النساء/ 123] جو شخص برے عمل کرے گا اسے اسی ( طرح ) کا بدلہ دیا جائیگا ۔ میں سوء سے اعمال قبیحہ مراد ہیں ۔ اسی طرح آیت : زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمالِهِمْ [ التوبة/ 37] ان کے برے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہیں اور آیت : عَلَيْهِمْ دائِرَةُ السَّوْءِ [ الفتح/ 6] انہیں پر بری مصیبت ( واقع ) ہو ۔ میں دائرۃ السوء سے مراد ہر وہ چیز ہوسکتی ہے ۔ جو انجام کا رغم کا موجب ہو اور آیت : وَساءَتْ مَصِيراً [ النساء/ 97] اور وہ بری جگہ ہے ۔ وساءَتْ مُسْتَقَرًّا [ الفرقان/ 66]( دوزخ ) ٹھہرنے کی بری جگہ ہے ۔ میں بھی یہی معنی مراد ہے ۔ اور کبھی ساء بئس کے قائم مقام ہوتا ہے ۔ یعنی معنی ذم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : فَإِذا نَزَلَ بِساحَتِهِمْ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] مگر جب وہ ان کے مکان میں اتریگا تو جن کو ڈرسنایا گیا تھا ان کے لئے برادن ہوگا ۔ وساءَ ما يَعْمَلُونَ [ المائدة/ 66] ان کے عمل برے ہیں ۔ ساءَ مَثَلًا[ الأعراف/ 177] مثال بری ہے ۔ اور آیت :۔ سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ( تو) کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ میں سیئت کی نسبت وجوہ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ حزن و سرور کا اثر ہمیشہ چہرے پر ظاہر ہوتا ہے اور آیت : سِيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود/ 77] تو وہ ( ان کے آنے سے ) غم ناک اور تنگدل ہوئے ۔ یعنی ان مہمانوں کو وہ حالات پیش آئے جن کی وجہ سے اسے صدمہ لاحق ہوا ۔ اور فرمایا : سُوءُ الْحِسابِ [ الرعد/ 21] ایسے لوگوں کا حساب بھی برا ہوگا ۔ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کیلئے گھر بھی برا ہے ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة/ 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة/ 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف/ 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف/ 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ كسب ( عمل رزق) الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی: أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] ، وقوله : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] ( ک س ب ) الکسب ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة/ 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام/ 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة/ 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام/ 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام/ 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

بھلا وہ شخص جو اپنے منہ کو قیامت کے دن سخت عذاب کی سپر بنا دے گا یعنی ابوجہل اور اس کے ساتھی اپنے ہاتھوں کو اپنی گردنوں کی طرف لے جائیں گے اور اس طرح اپنے چہروں کو عذاب کی سپر بنائیں گے اور ابوجہل اور اس کے ساتھیوں سے دوزخ کے داروغہ کہیں گے کہ دنیا میں جو کچھ تم نافرمانیاں اور اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے اس کا عذاب چکھو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ { اَفَمَنْ یَّتَّقِیْ بِوَجْہِہٖ سُوْٓئَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ } ” بھلا وہ شخص جو اپنے چہرے پر روکے گا بدترین عذاب قیامت کے دن ! “ یہ پھر وہی حذف کا اسلوب ہے کہ بھلا ایک شخص جس کا چہرہ قیامت کے دن بدترین عذاب کی زد میں ہوگا اور آگ کے تھپیڑوں کو اپنے چہرے پر روکنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا ‘ کیا وہ اس شخص کے برابر ہوجائے گا جو { فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ ٥ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ } (الواقعہ) کے مزے لے رہا ہوگا ؟ { وَقِیْلَ لِلظّٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ } ” اور کہہ دیا جائے گا ان ظالموں سے کہ اب چکھو مزہ اس کا جو کچھ کمائی تم کرتے رہے تھے۔ “ انہیں جتلا دیا جائے گا کہ یہ تمہارے اپنے اعمال ہی ہیں جنہوں نے آج یہاں آگ کی شکل اختیار کرلی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44 One takes a blow on one's face only when one is absolutely helpless and powerless, otherwise until one has some power to resist, one goes on receiving the blows on the other parts of one's body but saves one's face. Therefore, here the extreme state of helplessness of a person has been depicted, saying that he will receive the severe punishment on his face. 45 The word kasab, in the Qur'anic terminology, implies one's descrying and earning a reward and punishment in consequence of one's actions and deeds. The real earning of a doer of good is that he becomes worthy of Allah's reward, and the earning of the evil-doer is the punishment that he will receive in the Hereafter.

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :44 کسی ضرب کو آدمی اپنے منہ پر اس وقت لیتا ہے جبکہ وہ بالکل عاجز و بے بس ہو ۔ ورنہ جب تک وہ مدافعت پر کچھ بھی قادر ہوتا ہے وہ اپنے جسم کے ہر حصے پر چوٹ کھاتا رہتا ہے مگر منہ پر مار نہیں پڑنے دیتا ۔ اس لیے یہاں اس شخص کی انتہائی بے بسی کی تصویر یہ کہہ کر کھینچ دی گئی ہے کہ وہ سخت مار اپنے منہ پر لے گا ۔ سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :45 اصل میں لفظ کسب استعمال ہوا ہے جس سے مراد قرآن مجید کی اصطلاح میں جزا و سزا کا وہ استحقاق ہے جو آدمی اپنے عمل کے نتیجے میں کماتا ہے ۔ نیک عمل کرنے والے کی اصل کمائی یہ ہے کہ وہ اللہ کے اجر کا مستحق بنتا ہے ۔ اور گمراہی و بد راہی اختیار کرنے والے کی کمائی وہ سزا ہے جو اسے آخرت میں ملنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

12: یہ دوزخ کے ایک خوفناک پہلو کی منظر کشی ہے۔ عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ انسان جب کوئی تکلیف دہ چیز اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں یا پاؤں سے اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن دوزخ میں یہ اس لیے ممکن نہیں ہوگا کہ ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہوں گے، اس لیے جسم سے عذاب کو روکنے کی کوئی اور صورت نہیں ہوگی، سوائے اس کے کہ چہرے ہی کو آگے کر کے اسے ڈھال بنایا جائے، لیکن ظاہر ہے کہ چہرے پر روکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ چہرے کو تکلیف سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں انس (رض) بن مالک سے اور معتبر سند سے ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے اور نسائی ہیں ابوذر (رض) سے جو روایتیں ہیں۔ ان کا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ کے فرشتے نافرمان لوگوں کو ان کے منہ کے بل گھسیٹیں گے اور ان کو اوندھے منہ آگ میں ڈال دیں گے۔ جس سے پہلے پہل ان کے منہ کو دوزخ کی آگ جھلس دے گی۔ آیت میں منہ سے عذاب کے روکنے کا جو ذکر ہے اس کا مطلب ان حدیثوں سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ جس نے منہ کے بل گھسیٹے جانے اور اوندھے منہ آگ میں ڈالے جانے سے اپنے آپ کو بچا کر جنت میں داخل ہونے کی سرخروی حاصل کی وہ بہتر ہے یا جو اس عذاب میں گرفتار ہوا وہ بہتر ہے۔ پھر فرمایا کہ نافرمان لوگ جب اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے تو ان کو ذلیل کرنے کے لئے فرشتے ان سے یہ کہیں گے کہ تم لوگ دنیا میں جیسے کام کرتے تھے ان کی سزا میں اب یہ دوزخ کا عذاب چھکو۔ (١ ؎ صحیح البخاری ج ٢ صد ٩٦٦ ابواب کیف الحشر صیح مسلم ج ٢ ص ٣٧٤ ابواب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار باب فی الکفار واخرج الترمذی عن بھذ بن حکیم عن ابید عن جدہ مرفوعا… وتجرون علی وجھوھکم ثم ثم قال الترمذی ونی الباب عن ابی ہریرۃ ھذا حدیث حسن الترمذی ج ٢ باب ماجاء فی شان الحشر ص ٧٨۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:24) افمن یتقی بوجھہ سوء العذاب یوم القیمۃ : افمن ہمزہ استفہام انکاری ہے یتقی مضارع واحد مذکر غائب اتقاء (افتعال) مصدر سے بمعنی بچنا۔ ڈرنا۔ خوف کرنا۔ اتقی بالشی جعلہ وقایۃ لہ من شیء اخر اس چیز کو کسی دوسری چیز سے بچنے کے لئے ذریعہ بنانا۔ یا بولتے ہیں۔ اتقینا بہ ہم نے دشمن سے بچنے کے لئے اس سے آڑ پکڑی۔ یتقی بوجھہ وہ (سخت عذاب سے) بچنے کے لئے اپنے چہرہ کی آڑ پکڑتا ہے۔ یا بچنے کے لئے اپنے چہرہ کو ڈھال بناتا ہ یا سخت عذاب کی مار اپنے منہ پر لیتا ہے۔ کسی ضرب کو آدمی اپنے منہ پر اس وقت لیتا ہے جب کہ وہ بالکل عاجز اور بےبس ہوجائے۔ اور کوئی دیگر چارہ کار نہ ہو۔ یہاں اس دوزخی کی بےبسی اس وجہ سے ہوگی کہ کافر جب دوزخ میں ڈالا جائے گا تو اس کے ساتھ گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ لہٰذا عذاب کی مار کو ہاتھوں پر لینے کی بجائے لامحالہ اسے منہ پر ہی لینا پڑے گی۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے سورة المومن (40) میں ہے :۔ الذین کذبوا بالکتب وبما ارسلنا بہ رسلنا فسوف یعلمون (70) اذ الاغلال فی اعناقھم والسلاسل یسحبون (71) فی الحمیم ثم فی النار یسجرون (72) ۔ جن لوگوں نے کتاب (خدا) کو اور جو کچھ ہم نے اپنے پیغمبروں کو دیکر بھیجا۔ اس کو جھٹلایا وہ عنقریب معلوم کرلیں گے جب کہ ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہونگی (اور) گھسیٹے جائیں گے۔ آیات (4:50) و (54:48) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ یہ دوزخیوں کی لاچارگی کی انتہاء ہوگی۔ سوء العذاب میں سوء کی العذاب کی طرف اضافت صفت کی موصوف کی طرف ہے۔ بہت بڑا عذاب۔ بہت سخت عذاب۔ سوء العذاب فعل یتقی کا مفعول ہے۔ یوم القیمۃ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر فعل یتقی کا مفعول فیہ ہے۔ افمن ۔۔ یوم القیمۃ کے بعد جملہ محذوف ہے ای کمن امن من العذاب پوری عبارت یوں ہوگی :۔ افمن یتقی بوجھہ سوء العذاب یوم القیمۃ کمن امن من العذاب۔ کیا وہ شخص جو قیامت کے روز شدید عذاب کی مار اپنے منہ پر لے گا اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو عذاب سے بچا رہا۔ فائدہ : اس طرح کا پورے پورے جملوں اور عبارتوں کا محذوف و مقدر رہنا عربی اسلوب انشاء میں منافی بلاغت نہیں بلکہ اپنے موقعہ پر داخل حسن و کمال انشاء ہے۔ (الماجدی) ذوقوا فعل امر جمع مذکر حاضر ذوق باب نصر۔ مصدر سے۔ تم چکھو۔ ذائق اسم فاعل واحد مذکر۔ چکھنے والا۔ اس کی مؤنث ذائقہ ہے ما کنتم تکسبون ۔ ما موصولہ ہے کنتم تکسبون ماضی استمراری کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ کسب باب ضرب مصدر سے۔ جو کچھ تم کمایا کرتے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3” وہ اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو بےفکری سے عیش کر رہا ہوگا “۔ افمن۔۔۔۔۔۔ کا یہ جواب محذوف ہے۔ قیامت کے روز چونکہ دوزخیوں کے ہاتھ گردنوں سے بندھے ہوں گے اس لئے وہ عذاب کو روکنے کیلئے چار و نا چار چہروں ہی کو سیر بنائیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 24 تا 31 :۔ ذوقوا ( چکھو) اذاق ( اس نے چکھایا) الخزی (رسوائی ، ذلت) عوج ( کجی ، ٹیڑھ پن) متشکسون (بد اخلاق لوگ) میت (مرنا) تختصمون (تم جھگڑو گے) ۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 31 :۔ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین جن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر جہنم کی بھڑکتی آگ میں جھونک دیا جائے گا فرمایا ہے کیا وہ قیامت کے دن اپنے چہروں کو اس آگ سے بچا سکیں گے جو ان کو جھلس کر رکھ دے گی جب ان ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب وہ اپنے کئے ہوئے برے اعمال کا مزہ چکھیں ۔ فرمایا جائے گا کہ ان سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے بھی اسی طرح اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اس طرح اچانک عذاب مسلط کیا گیا کہ وہ دیکھتے ہی رہ گئے اور ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ اس طرح اللہ نے انہیں دنیا میں بھی ذلیل و رسوا کیا اور آخرت میں تو ان کو اتنا شدید عذاب دیا جائے گا جس کا وہ اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ کاش وہ دنیا اور آخرت کا عذاب آنے سے پہلے ہی کچھ سوچ لیتے اور توحید خالص کو اختیار کرلیتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم واضح عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جس میں نہ کوئی فلسفیانہ انداز ہے اور نہ کوئی ٹیڑھا پن ہے بلکہ روز مرہ کی صاف صاف مثالوں کے ذریعہ بتا دیا گیا ہے کہ توحید خالص پر نہ چلنے والوں کو دنیا اور آخرت میں ہر طرح کی رسوائی ، ذلت اور عذاب کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کو توبہ اور توحید خالص پر عمل کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو لوگ ایک اللہ کو چھوڑ کر ہر ایک کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں اور ان سے اپنی حاجتوں کے پورے ہونے کی توقع رکھتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں انہیں کبھی سکون قلبی حاصل نہ ہو سکے گا ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص بہت سے ضدی ، بد اخلاق آقاؤں کا غلام ہو ہر آقا اس کو اس طرح اپنی طرف کھینچتا ہوں ، مصروف رکھتا ہو کہ وہ دوسروں کا حق ادا نہ کرسکتا ہو اور ہر وقت ان کی خوشامد میں لگا رہتا ہو کیا یہ غلام اس غلام کی طرح ہو سکتا ہے جس کا ایک ہی مہربان آقا ہو اور وہ ایک ہی آقا کی خدمت میں لگا رہتا ہو ۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ فرمایا اسی طرح جو آدمی ایک اللہ کا غلام بن گیا وہی سکون و اطمینان سے رہے گا اس کو ہر طرح کی نعمتیں حاصل ہوں گی لیکن جو بہت سے آقاؤں کا غلام ہوگا اس کو کبھی سکون و اطمینان حاصل نہ ہو سکے گا ۔ آخر میں فرمایا کہ مکہ کے وہ کفار جو اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ آپ پر موت طاری ہوجائے تا کہ وہ آئے روز کی نصیحتوں سے بچ جائیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر مجھ پر موت طاری ہوجائے تو کیا تم ہمیشہ اسی دنیا میں رہو گے ؟ یقینا موت کے اس دروازے سے سب کو گزرنا ہے البتہ ہر ایک آدمی اپنا اپنا نامہ اعمال ساتھ لے کر جائے گا ۔ سب اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے اپنے حق کے لئے لڑیں گے اور اللہ سب کے درمیان انصاف کر کے نہ صرف فیصلہ فرمائیں گے بلکہ ہر شخص نے جو بھی کیا ہوگا اس کا پورا پورا بدلہ عطاء فرمائیں گے ۔ حضرت زبیر (رض) سے روایت ہے کہ جب آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” انک میت “ وانھم میتون٭ثم انکم یوم القیمۃ عند ربکم تختصمون “ تو میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہمارے وہ جھگڑے جو دنیا میں تھے وہ قیامت میں بھی دہرائے جائیں گے۔ آپ نے فرمایا وہاں وہ ضرور دھرائے جائیں گے اور ہر شخص کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کے ذمے کسی کا حق ہے اس کو چاہیے کہ وہ اسی دنیا میں ادا کر دے یا معاف کرا لے کیونکہ آخرت میں درہم و دینار نہ ہوں گے۔ اگر ظالم اور زیادتی کرنے والوں کے پاس کچھ اعمال صالحہ ہوں گے تو اس ظلم و زیادتی کے بدلے میں اسکے اعمال مظلوم کو دیدئے جائیں گے اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کے گناہ اور برائیں لے کر اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی۔ ( بخاری شریف) صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) سے سوال کیا ، کیا تم جانتے ہو مفلس و غریب کون ہے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تو غریب و مفلس اس شخص کو سمجھتے ہیں جس کے پاس نہ تو نقد رقم ہو اور نہ اس کی ضروریات کا سامان ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اصل میں غریب و مفلس میری امت کا وہ شخص ہوگا جو قیامت میں بہت سے نیک اعمال نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ لے کر آئے گا مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی پر تہمت لگائی ہوگی ، کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھایا ہوگا ، کسی کو قتل کیا ہوگا ، کسی کو ستایا ہوگا یہ سب مظلوم اللہ کی بارگاہ میں اپنے مظالم اور زیادتیوں کا مطالبہ کریں گے۔ اس طرح اس شخص کی نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی ۔ پھر جب اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور مظلوموں کے حق باقی ہوں گے تو مظلوموں کے گناہ اس زیادتی کرنے والے پر ڈال دیئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ اور اس طرح یہ شخص نیکیوں کا بہت سا سامان ہونے کے باوجود قیامت کے دن خالی ہاتھ رہ جائے گا ۔ یوں تو ہر ایک ظلم کا دعویٰ کیا جائے گا اور مظلوموں کی فریاد سنی جائے گی لیکن جس نے کسی مظلوم کو ناحق خون بہایا ہوگا سب سے پہلے اس کا حساب لیا جائے گا چناچہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کے باہمی معاملات میں سب سے پہلے جو ( ناحق) خون بہائے گئے ہوں گے ان کا حساب ہوگا۔ ( بخاری و مسلم)

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ سپر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی عادت ہے کہ جو کوئی اس پر حربہ ضربہ کرتا ہے ہاتھ پر روکتا ہے، مگر وہاں ہاتھ پاوں جکڑے ہوں گے، اس لئے سب منہ ہی پر لے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے ہدایت کے باوجود گمراہی کو پسند کیا ان کا انجام۔ جس شخص نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کیا اس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے قیامت کے دن اسے بد ترین عذاب ہوگا اور انہیں کہا جائے گا کہ ظالمو ! اپنے کیے کا مزہ چکھو۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس پر کوئی چیز سامنے سے حملہ آور ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس سے اپنا چہرہ چھپانے اور بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جہنم کی آگ اس قدر شعلہ فگن ہوگی جس کے شعلے پہاڑوں کی مانند ہوں گے اور جہنمی کا جسم اتنا بڑا گا کہ اس کی زبان تین میل لمبی اور اس کی ایک ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی۔ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق) جب اسے جہنم میں دھکیلا جائے گا تو جہنم کی آگ طوفان کی شکل میں اس کا استقبال کرے گی اور اس کے شعلے اس قدر جوش مارتے ہوئے جہنمی کے چہرے کی طرف لپکیں گے۔ کہ وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اس کا چہرہ بچ جائے لیکن وہ کسی صورت اپنا چہرہ اور جسم نہ بچا سکے گا۔ (کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْحُطَمَۃُ نَار اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْءِدَۃِ اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ )[ الہمزۃ : ٤ تا ٩] ” ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا یقیناً وہ حطمہ میں ڈال دیا جائے گا اور تجھے کیا معلوم حطمہ کیا ہے۔ حطمہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں تک چڑھ آئے گی وہ آگ ان کو گھیرے ہوئے ہے لمبے لمبے ستونوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ “ (لَہُمْ مِنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ ذَلِکَ یُخَوِّفُ اللَّہُ بِہِ عِبَادَہُ یَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ )[ الزمر : ١٦] ” ان کے اوپر اور نیچے سے آگ ہوگی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس اے میرے بندو میرے عذاب سے بچو۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْہِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَسِتِّینَ جُزْءً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری دنیا کی آگ جہنم کی آگ کے ستر درجے کم ہے۔ صحابہ نے عرض کی کیا یہی آگ کافی نہیں تھی۔ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہے اور ہر درجہ دوسرے کے برابر ہے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کی آگ کو ایک ہزار سال تک کو بھڑکا یا گیا تو وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتی کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔ “ مسائل ١۔ جہنمی جہنم کی آگ سے اپنے چہرے بچانے کی کوشش کریں گے لیکن وہ ہرگز نہ بچا سکیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کو ہر صورت اپنے کردار کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی آگ کا جوش : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ : ٢٤) ٢۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ : ٨١) ٣۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٥۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٦۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی چٹخارسنیں گے۔ (الملک : ٧) ٧۔ جہنم کی آگ کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کے برابر بلند ہوں گے۔ ( المرسٰلٰت : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت نمبر 24 انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور اپنے جسم کے ذریعے بھی اپنے چہرے کو بچاتا ہے۔ یہاں دوزخ کے اندر تو وہ اپنے آپ کو کس صورت میں بھی آگ سے نہیں بچاسکتا ۔ نہ ہاتھوں سے ، نہ پاؤں سے۔ لہٰذا وہ یہاں چہرے سے آگ کو دفع کرے گا۔ اور چہرے کے ذریعہ سخت عذاب سے بچنے کی سعی کرے گا۔ یہاں مراد ہے شدید ڈر ، شدیدخوب اور شدید اضطراب۔ اس قسم کی صورت حال میں اب کفار کو سرزنش کیجاتی ہے اور اس کے سامنے اس کی پوری زندگی کی کمائی پیش کی جاتی ہے۔ وقیل للظلمین ذوقوا ماکنتم تکسبون (39: 24) ” وہ ظالموں سے کہہ دیا جائے گا ، اب چکھو مزہ ، اس کمائی کا جو تم کرتے تھے “۔ اب روئے سخن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والے لوگوں سے پھر کر ان اقوام کی طرف چلا جاتا ہے جنہوں نے انسانی تاریخ میں دوسرے نبیوں کی تکذیب کی تاکہ ذراوہ تاریخ سے بھی سبق لیں اور اپنا بندوبست بھی کرلیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(اَفَمَنْ یَّتَّقِی بِوَجْہِہِ سُوءَ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ) کیا جو شخص قیامت کے دن اپنے چہرے کے ذریعے برے عذاب سے بچ جائے، اور جنت میں داخل ہوجائے کیا اس شخص کے برابر ہے جو دوزخ میں داخل کردیا جائے ؟ چہرہ کے ذریعہ بچنے کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اہل عذاب کے چہروں کو آگ پہنچے گی وہ چاہیں گے کہ چہروں کو ڈھال بنالیں اور اپنی جانوں کو عذاب سے بچالیں لیکن ایسا نہ ہوسکے گا بلکہ دوزخ میں داخل ہوں گے اور ہر ہر حصہ عذاب میں ڈالا جائے گا اور طرح طرح کے عذاب میں گرفتار ہوں گے سورة الفرقان میں فرمایا ہے (الَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْھِہِمْ اِِلٰی جَہَنَّمَ اُوْلٰٓءِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضَلُّ سَبِیْلًا) (جو لوگ اپنے چہروں کے بل دوزخ کی طرف لے جائے جائیں گے وہ لوگ جگہ کے اعتبار سے بد ترین ہیں اور بہت زیادہ گمراہ ہیں) چہروں کا گھسیٹا جانا بھی ایک عذاب ہے اسی طرح گھسیٹتے ہوئے اسے دوزخ میں پہنچا دیا جائے گا (وَقِیْلَ للظٰلِمِیْنَ ذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ ) (اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ تم جو عمل کیا کرتے تھے ان کا عذاب چکھ لو)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

28:۔ ” افمن یتقی الخ “ یہ تیسری بار مومن و کافر کے اوصاف میں تقابل کا ذکر ہے۔ انسان ہمیشہ اپنے چہرے کو آفات سے اپنے ہاتھوں کے ذریعے بچاتا ہے لیکن کافروں کو جب جہنم میں پھینکا جائے گا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں کے ساتھ بندھے ہوں گے اس لیے وہ اپنے چہروں کو آگ کے شعلوں سے ہاتھوں کی مدد سے نہیں بچا سکیں گے بلکہ آگ کے شعلوں کو وہ اپنے چہروں پر ہی لیں گے۔ والکافر حین یلقی فی النار تکون یداہ مغلولتیں الی عنقہ فلا یستطیع ان یتقی الا بوجہہ (مظہری ج 8 ص 210) ۔ کیا جہنم کی بھڑکتی آگ کے شعلوں میں گھرا ہوا کافر اس مومن کی مانند ہوسکتا ہے جو عذاب جہنم سے محفوظ و مامون ہو۔ حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں یہاں بھی کمن ھو لیس کذالک مقدر ہے۔ یا کمن اٰمن من العذاب محذوف ہے (معالم، مظہری) ۔ 69:۔ ” وقیل للطلمین الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ قیامت کے دن مشرکین سے کہا جائیگا کہ دنیا میں جو مشرکانہ افعال کرتے رہے ہو آج ان کی سزا کا مزہ بھی چکھ لو۔ ” کذب الذین الخ “ یہ تخویف دنیوی ہے امم سابقہ کے کفار و مشرکین نے توحید و رسالت اور دیگر امور خداوندی کی تکذیب کی تو اچانک ہی انہیں عذاب نے آلیا۔ اور ہمیشہ کے لیے ان کا نام و نشان ہی مٹا دیا۔ ” فاذاقہم اللہ الخ “ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلت و رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھایا اور آخرت کا عذاب اس سے بھی سخت اور ہولناک ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) کیا بھلا وہ شخص جو قیامت کے دن برے اور بدترین عذاب کو اپنے منہ پر روکتا ہو اور اپنے منہ کو قیامت کے دن سخت عذاب کے لئے سپر بنا دے تو کیا یہ معذب اس کے برابر ہوسکتا ہے جو عذاب سے مامون ہو اور ظالموں سے کہا جائے گا کہ جو کمائی تم دنیا میں کرتے رہے ہو اس کے وبال کا مزہ چکھو۔ یعنی جب آگ میں ڈالا جائے گا تو پہلے جس چیز کو آگ لگ گئی وہ منہ ہوگا سورة فصلت میں انشاء اللہ آجائیگا۔ افمن یلقی فی النار خیرام من یاتی امنا یوم القیمۃ یا یہ مطلب ہو کہ تمام بدن طوق وسلاسل میں جکڑا ہوا ہوگا مگر منہ کھلا ہوا ہوگا ہاتھ گردن سے بندھے ہوں گے اس لئے فرمایا۔ افمن یتقی بوجھہ مقصد آگ میں جانا ہے آگے منکرین قیامت اور منکرین عذاب کو تنبیہ ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔