Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 36

سورة الزمر

اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبۡدَہٗ ؕ وَ یُخَوِّفُوۡنَکَ بِالَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ ﴿ۚ۳۶﴾

Is not Allah sufficient for His Servant [Prophet Muhammad]? And [yet], they threaten you with those [they worship] other than Him. And whoever Allah leaves astray - for him there is no guide.

کیا اللہ تعالٰی اپنے بندے کے لئیے کافی نہیں؟ یہ لوگ آپ کو اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں اور جسے اللہ گمراہ کردے اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah is Sufficient for His Servant Allah says: أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ... Is not Allah Sufficient for His servant? Some of them read it "His servants." It means that Allah is Sufficient for the one who worships Him and relies upon Him. ... وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ ... Yet they try to frighten you with those besides Him! means, the idolators tried to scare the Messenger of Allah with their idols and gods which they called upon besides Allah out of ignorance and misguidance. Allah says: ... وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ وَمَن يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن مُّضِلٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انتِقَامٍ

بھروسہ کے لائق صرف اللہ عزوجل کی ذات ہے ۔ ایک قرأت میں ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 36؀ۚ ) 39- الزمر:36 ) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو کافی ہے ۔ اسی پر ہر شخص کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس نے نجات پالی جو اسلام کی ہدایت دیا گیا اور بقدر ضرورت روزی دیا گیا اور قناعت بھی نصیب ہوئی ( ترمذی وغیرہ ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ تجھے اللہ کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں ۔ یہ ان کی جہالت و ضلالت ہے ، اور اللہ جسے گمراہ کر دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا ، جس طرح اللہ کے راہ دکھائے ہوئے شخص کو کوئی بہکا نہیں سکتا ۔ اللہ تعالیٰ بلند مرتبہ والا ہے اس پر بھروسہ کرنے والے کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور اس کی طرف جھک جانے والا کبھی محروم نہیں رہتا ۔ اس سے بڑھ کر عزت والا کوئی نہیں ۔ اسی طرح اس سے بڑھ کر انتقام پر قادر بھی کوئی نہیں ۔ جو اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں ۔ اس کے رسولوں سے لڑتے بھڑتے ہیں یقینا وہ انہیں سخت سزائیں دے گا ، مشرکین کی مزید جہالت بیان ہو رہی ہے کہ باوجود اللہ تعالیٰ کو خالق کل ماننے کے پھر بھی ایسے معبودان باطلہ کی پرستش کرتے ہیں جو کسی نفع نقصان کے مالک نہیں جنہیں کسی امر کا کوئی اختیار نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے اللہ کو یاد کر وہ تیری حفاظت کرے گا ۔ اللہ کو یاد رکھ تو اسے ہر وقت اپنے پاس پائے گا ۔ آسانی کے وقت رب کی نعمتوں کا شکر گذار رہ سختی کے وقت وہ تیرے کام آئے گا ۔ جب کچھ مانگ تو اللہ ہی سے مانگ اور جب مدد طلب کر تو اسی سے مدد طلب کر یقین رکھ کر اگر تمام دنیا مل کر تجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو وہ سب تجھے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور سب جمع ہو کر تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہیں جو اللہ نے مقدر میں نہ لکھا ہو تو ہرگز نہیں پہنچا سکتا ۔ صحیفے خشک ہو چکے قلمیں اٹھالی گئیں ۔ یقین اور شکر کے ساتھ نیکیوں میں مشغول رہا کر تکلیفوں میں صبر کرنے پر بڑی نیکیاں ملتی ہیں ۔ مدد صبر کے ساتھ ہے ۔ غم و رنج کے ساتھ ہی خوشی اور فراخی ہے ۔ ہر سختی اپنے اندر آسانی کو لئے ہوئے ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) تو کہدے کہ مجھے اللہ بس ہے ۔ بھروسہ کرن والے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ جیسے کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو جواب دیا تھا جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ اے ہود ہمارے خیال سے تو تمہیں ہمارے کسی معبود نے کسی خرابی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ تو آپ نے فرمایا میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے تمام معبودان باطل سے بیزار ہوں ۔ تم سب مل کر میرے ساتھ جو داؤ گھات تم سے ہو سکتے ہیں سب کر لو اور مجھے مطلق مہلت نہ دو ۔ سنو میرا توکل میرے رب پر ہے جو دراصل تم سب کا بھی رب ہے ۔ روئے زمین پر جتنے چلنے پھرنے والے ہیں سب کی چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ میرا رب صراط مستقیم پر ہے ۔ رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص سب سے زیادہ قوی ہونا چاہے وہ اللہ پر بھروسہ رکھے اور جو سب سے زیادہ غنی بننا چاہے وہ اس چیز پر جو اللہ کے ہاتھ میں ہے زیادہ اعتماد رکھے بہ نسبت اس چیز کے جو خود اس کے ہاتھ میں ہے اور جو سب سے زیادہ بزرگ ہونا چاہے وہ اللہ عزوجل سے ڈرتا رہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) پھر مشرکین کو ڈانٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ اچھا تم اپنے طریقے پر عمل کرتے چلے جاؤ ۔ میں اپنے طریقے پر عامل ہوں ۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں ذلیل و خوار کون ہوتا ہے؟ اور آخرت کے دائمی عذاب میں گرفتار کون ہوتا ہے؟ اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

36۔ 1 اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے، تمام انبیاء (علیہم السلام) اور مومنین اس میں شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو غیر اللہ سے ڈراتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب آپ کا حامی و ناصر ہو تو آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ ان سب کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے ۔ 36۔ 2 جو اس گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر لگا دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٢] مشرکوں کا اپنے معبودوں کے انتقام سے ڈرنا :۔ اس جملہ کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں۔ جو اکثر آپ سے کہا کرتے تھے کہ ہمارے معبودوں کی توہین کرنا چھوڑ دو ۔ ان کی شان میں جس کسی نے گستاخی کی وہ تباہ و برباد ہو کے رہ گیا۔ لہذا اگر تم ایسی باتوں سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوگا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ واضح رہے کہ یہ خطاب صرف مشرکین مکہ کے لئے مختص نہیں بلکہ ہر دور کے اور ہر جگہ کے مشرکوں کے لئے ہے۔ دور کیوں جائیں۔ اپنے ہاں کے ہی اولیاء اللہ کے متداول تذکرے ملاحظہ فرما لیجئے۔ ان میں آپ کو ایسا خاصا مواد مل جائے گا کہ فلاں شخص نے فلاں آستانے کی توہین کی تو چند ہی دنوں میں اس کا کاروبار تباہ ہوگیا۔ اور فلاں شخص نے فلاں بزرگ کے حق میں گستاخانہ کلمے کہے تو ایسا بیمار پڑا کہ پھر اٹھ نہ سکا۔ پھر یہ انتقام کا سلسلہ صرف زندہ بزرگوں اور پیروں سے مخصوص نہیں کہ فوت شدہ بزرگوں کے حق میں گستاخی کی جائے تو وہ بھی اپنا انتقام لے کر چھوڑتے ہیں۔ گویا انبیاء کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو صرف اللہ سے ڈرائیں اور ماسوا اللہ سے بےنیاز کردیں جبکہ ان مشرکوں کا مشن انبیاء کے مشن کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ بس اپنے معبودوں اور بزرگوں کے انتقام سے ہی ڈرا ڈرا کر ان کے جال میں پھنسائے رکھتے ہیں۔ پھر ان اللہ کے پیاروں کے ذکر میں اللہ تعالیٰ خود ہی پس منظر میں چلا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ : اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ وہ مومنوں کو جنت میں جو چاہیں گے عطا کرے گا اور ان کے بدترین اعمال دور کرے گا، ساتھ ہی بیان فرمایا کہ دنیا میں بھی وہ انھیں تمام کاموں کے لیے کافی ہوجائے گا اور تمام دشمنوں سے بھی کافی ہوجائے گا۔ اس بات کو نہایت قوت اور زور سے بیان کرنے کے لیے اسے سوالیہ انداز میں بیان فرمایا کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ؟ یعنی یقیناً وہ اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور اپنے ہر بندے کے لیے کافی ہے۔ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ۔۔ : کافر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے معبودوں سے ڈراتے اور کہتے کہ ہمارے معبودوں کی برائی سے باز رہ، ورنہ وہ تجھے نقصان پہنچائیں گے اور تجھے دیوانہ بنادیں گے، جیسا کہ اس زمانے کے مشرک اور قبروں کے مجاور و گدی نشین، جو نام کے مسلمان ہیں اور بزرگوں اور ولیوں کو پکارتے ہیں، ان کی نذریں نیازیں دیتے ہیں، دور دور سے جا کر ان کی قبروں پر میلے لگاتے ہیں، ہاتھ باندھ کر بڑی عاجزی سے ان کے آگے کھڑے ہوتے ہیں، بعض قبروں کے گرد طواف کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں، غرض ہر طرح کی عبادت کرتے ہیں، تو جب کوئی انھیں منع کرے اور ان سے کہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو تو اپنے معبودوں سے ڈراتے ہیں کہ فلاں شخص نے ان کو نہ مانا تو وہ تباہ و برباد ہوگیا، اس کا یہ نقصان ہوگیا۔ ایسی باتوں سے احمق و نادان ڈر جاتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے لگ جاتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ ) یعنی یہ لوگ گمراہ ہیں اور جسے اللہ گمراہ کر دے پھر اسے کوئی راہ پر لانے والا نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In the first verse (36), it was said: أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (Is Allah not sufficient for (the protection of) His slave?). This verse was revealed in the background of an event. The disbelievers had threatened the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Sahabah by saying that, should they act irreverently against their idols, they would never escape the curse of these idols, something very lethal to face. In reply, they were told: Is Allah not sufficient for His slave? Therefore, some commentators have taken: عَبْدَه (abdahu: His slave) here to mean a particular slave of Allah, that is, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) ، a summary of whose Tafsir appears in the original edition of Ma’ ariful-Qur&an, has also opted for this very Tafsir. Then there are other commentators who have taken abd or slave in its general sense. Another qira&ah (rendition) of this verse as: عِبَادہ (` ibadihi: His slaves) supports this position. And as for the subject itself, it is, after all, general in the sense that Allah Ta’ ala is sufficient for everyone among His slaves. A lesson, and a good counsel In verse 36, it was said: وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ (And they are frightening you of those [ false gods whom they worship ] other than Him.), that is, &the disbelievers frighten you with the displeasure of their false objects of worship&. Readers of this verse generally tend to pass by it thinking that it is talking about a particular event that relates to the threats of disbelievers and to the blessed person of the Holy Prophet t, hence they would not exert enough to find out the guidance that it has for us. Although, it is an open fact that anyone who threatens a Muslim on the ground that, should he not do such and such haram act or sin, his superiors at whose mercy he is, will be displeased with him, and may even hurt him is also included under this verse, even if the person giving a threat is a Muslim, and the person he is being threatened of is also no one else but a Muslim, virtually Muslims on both sides. And these are terrible times for all. This happens all over the world, in most jobs they do. They have to face a dilemma. Are they willing and ready to contravene the Divine laws (they are bound with)? Or else, are they prepared to become targets of the wrath and retribution of their superior officers? This verse gives a guideline good enough for all of them: Is Allah Ta’ ala not sufficient to protect you? Here you are. You make a resolve that you will abstain from committing sins exclusively for the sake of Allah. Then you simply do not care about any officer, any authority asking you to act counter to Divine laws. If you do just that, the help and support of Allah Taala shall be with you. The worst that can happen is that you may lose that job. So, what? Allah Ta’ ala will make some other arrangement for your sustenance. And for that matter, it is typical of a believer that he himself keeps trying to find a suitable job elsewhere after which he is placed in a position of leaving it immediately.

خلاصہ تفسیر کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ (خاص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت) کے لئے کافی نہیں (یعنی وہ تو سب ہی کی حفاظت کے لئے کافی ہے تو اپنے محبوب خاص بندے کے لئے کیوں کافی نہ ہوگا) اور یہ لوگ (ایسے احمق ہیں کہ حفاظت خداوندی سے تجاہل کر کے) آپ کو ان (جھوٹے معبودوں) سے ڈرانے والے ہیں جو خدا کے سوا (تجویز کر رکھے) ہیں (حالانکہ وہ خود بےجان عاجز ہیں اور قادر بھی ہوتے تو خدا کی حفاظت کے مقابلہ میں عاجز ہی ہوتے) اور (اصل بات یہ ہے کہ) جس کو خدا گمراہ کرے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں اور جس کو وہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں (آگے خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے ان کی حماقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ) کیا خدا تعالیٰ (ان کے نزدیک) زبردست (اور) انتقام لینے (پر قدرت رکھنے) والا نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت ناصریت بھی کامل اور بندہ کی صلاحیت منصوریت بھی کامل اور جھوٹے معبودوں کا قدرت ونصرت سے عاجز ہونا بھی ظاہر پھر آپ کو ان باتوں سے ڈرانا حماقت نہیں تو کیا ہے) اور (عجیب بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نصرت کے مقدمات کو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہیں کہیں گے کہ اللہ نے (اس لئے) آپ (ان سے) کہئے کہ بھلا (جب تم اللہ کو تخلیق میں منفرد مانتے ہو تو) یہ بتلاؤ کہ خدا کے سوا جن معبودوں کو پوجتے ہو، اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے، کیا یہ معبود اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اللہ مجھ پر اپنی عنایت کرنا چاہے تو کیا یہ معبود اس کی عنایت کو روک سکتے ہیں (آگے ارشاد ہے کہ جب اس تقریر سے اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت ثابت ہوجاوے) تو آپ کہہ دیجئے کہ (اس سے ثابت ہوگیا کہ) میرے لئے خدا کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں (اسی لئے میں بھی اسی پر توکل اور بھروسہ رکھتا ہوں اور تمہارے خلاف وعناد کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اور چونکہ یہ لوگ ان سب باتوں کو سن کر بھی اپنے خیال باطل پر جمے ہوئے تھے اس لئے آپ کو آخری جواب کی تعلیم ہے کہ) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ (اگر اس پر بھی تم نہیں مانتے تو تم جانو تم اپنی حالت پر عمل کئے جاؤ میں بھی (اپنے طرز پر) عمل کر رہا ہوں (یعنی جب تم اپنے طریقہ باطل کو نہیں چھوڑتے تو میں طریقہ حق کو کیسے چھوڑوں) سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر (دنیا میں) ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا، اور (مرنے کے بعد) اس پر دائمی عذاب نازل ہوگا (چنانچہ دنیا میں غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کو سزا ملی اس کے بعد آخرت کا دائمی عذاب ہے۔ یہاں تک تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخالفین کے خوف سے تسلی دی گئی۔ آگے آپ کو جو کفار اور عام خلق خدا کے ساتھ شفقت کی بنا پر ان کے کفر و انکار سے غم ہوتا تھا اس پر تسلی دی گئی کہ) ہم نے یہ کتاب آپ پر لوگوں کے (نفع کے) لئے اتاری جو حق کو لئے ہوئے ہے سو (آپ کا کام اس کو پہنچا دینا ہے پھر) جو شخص راہ راست پر آوے گا تو اپنے نفع کے واسطے اور جو شخص بےراہ رہے گا تو اس کا بےراہ ہونا اسی پر پڑے گا اور آپ ان پر مسلط (اس طرح) نہیں کئے گئے (کہ ان کی بےراہی کی آپ سے باز پرس ہو تو آپ ان کی گمراہی سے کیوں مغموم ہوتے ہیں) معارف ومسائل اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ۔ اس آیت کا شان نزول ایک واقعہ ہے کہ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کو اس سے ڈرایا تھا کہ اگر آپ نے ہمارے بتوں کی بےادبی کی تو ان بتوں کا اثر بہت سخت ہے اس سے آپ بچ نہ سکیں گے۔ ان کے جواب میں کہا گیا کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ؟ اس لئے بعض مفسرین نے یہاں بندے سے مخصوص بندہ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مراد لیا ہے۔ خلاصہ تفسیر میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اور دوسرے مفسرین نے بندہ سے مراد عام لی ہے اور آیت کی دوسری قرات جو عبادہ آئی ہے وہ اس کی موید ہے۔ اور مضمون بہرحال عام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کے لئے کافی ہے۔ عبرت و نصیحت : وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ۔ یعنی کفار آپ کو ڈراتے ہیں اپنے جھوٹے معبودوں کے غصب سے۔ اس آیت کو پڑھنے والے عموماً یہ خیال کر کے گزر جاتے ہیں کہ یہ ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے، جس کا تعلق کفار کی دھمکیوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس سے ہے، اس طرح دھیان نہیں دیتے، کہ اس میں ہمارے لئے کیا ہدایت ہے۔ حالانکہ بات بالکل کھلی ہوئی ہے کہ جو شخص بھی کسی مسلمان کو اس لئے ڈرائے کہ تم نے فلاں حرام کام کیا یا گناہ نہ کیا تو تمہارے حکام اور افسر یا جن کے تم محتاج سمجھے جاتے ہو تم سے خفا ہوجائیں گے اور تکلیف پہنچائیں گے۔ یہ بھی اسی میں داخل ہے اگرچہ ڈرانے والا مسلمان ہی ہو اور جس سے ڈرایا جائے وہ بھی مسلمان ہی ہو۔ اور یہ ایسا عام ابتلاء ہے کہ دنیا کی اکثر ملازمتوں میں لوگوں کو پیش آتا ہے کہ احکام آلٰہیہ کی خلاف ورزی پر آمادہ ہوجائیں یا پھر اپنے افسروں کے عتاب و عقاب کا مورد بنیں۔ اس آیت نے ان سب کو یہ ہدایت دی کہ کیا اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کے لئے کافی نہیں، تم نے خالص اللہ کے لئے گناہوں کے ارتکاب سے بچنے کا عزم کرلیا اور احکام خداوندی کے خلاف کسی حاکم و افسر کی پرواہ نہ کی تو خدا تعالیٰ کی امداد تمہارے ساتھ ہوگی۔ زائد سے زائد یہ ملازمت چھوٹ بھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ تمہارے رزق کا دوسرا انتظام کردیں گے۔ اور مومن کا کام تو یہ ہے کہ ایسی ملازمت کو چھوڑنے کی خود ہی کوشش کرتا رہے کہ کوئی دوسری مناسب جگہ مل جائے تو اس کو فوراً چھوڑ دے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَيْسَ اللہُ بِكَافٍ عَبْدَہٗ۝ ٠ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بِالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖ۝ ٠ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ۝ ٣٦ۚ كفى الكِفَايَةُ : ما فيه سدّ الخلّة وبلوغ المراد في الأمر . قال تعالی: وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] ، إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] . وقوله : وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] قيل : معناه : كفى اللہ شهيدا، والباء زائدة . وقیل : معناه : اكْتَفِ بالله شهيدا «1» ، والکُفْيَةُ من القوت : ما فيه كِفَايَةٌ ، والجمع : كُفًى، ويقال : كَافِيكَ فلان من رجل، کقولک : حسبک من رجل . ( ک ف ی ) الکفایۃ وہ چیز جس سے ضرورت پوری اور مراد حاصل ہوجائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتالَ [ الأحزاب/ 25] اور خدا مومنوں کے لئے جنگ کی ضرور یات کے سلسلہ میں کافی ہوا ۔ إِنَّا كَفَيْناكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ [ الحجر/ 95] ہم تمہیں ان لوگوں کے شر سے بچا نے کے لئے جو تم سے استہزا کرتے ہیں کافی ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے میں بعض نے کہا ہے کہ باز زائد ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی گواہ ہونے کے لئے کافی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ با اصلی ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ گواہ ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ پر ہی اکتفاء کرو الکفیۃ من القرت غذا جو گذارہ کے لئے کافی ہو ۔ ج کفی محاورہ ہے ۔ کافیک فلان من رجل یعنی فلاں شخص تمہارے لئے کافی ہے اور یہ حسبک من رجل کے محاورہ کے ہم معنی ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ خاص محمد کی حفاظت کے لیے یا یہ کہ حضرت خالد بن ولید کی حفاظت کے لیے کافی نہیں۔ اور یہ آپ کو ان جھوٹے معبودوں یعنی لات و عزی وغیرہ سے جو اللہ کے سوا ہیں ڈراتے ہیں۔ چناچہ آپ سے کہتے ہیں کہ ان بتوں کو برا بھلا مت کہو ورنہ آپ کو پریشان کردیں گے اور جسے اللہ تعالیٰ اپنے دین سے گمراہ کرے یعنی ابوجہل وغیرہ اسے کوئی دین خداوندی کا راستہ بتانے والا نہیں۔ شان نزول : وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ (الخ) عبدالرزاق نے محمد سے روایت کی ہے کہ مجھے ایک شخص نے بیان کیا کہ کفار مکہ نے رسول اکرم سے کہا کہ آپ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنے سے باز آجائیں ورنہ ہم اپنے بتوں سے کہہ دیں گے وہ آپ کو پریشان کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی یہ لوگ آپ کو ان سے ڈراتے ہیں جو اللہ کے سوا ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ { اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ } ” کیا اللہ کافی نہیں ہے اپنے بندے کے لیے ؟ “ یہاں بالخصوص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تبعاً اہل ِایمان کی تسلی مقصود ہے کہ آپ لوگ مطمئن رہیں ‘ اللہ آپ کی مدد اور حفاظت کے لیے کافی ہے۔ لیکن بات میں زور پیدا کرنے کے لیے سوالیہ انداز اختیار فرمایا گیا ہے۔ { وَیُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) یہ لوگ آپ کو ڈراتے ہیں ان سے جو اس کے علاوہ (ان کے معبود) ہیں۔ “ یہ لوگ اپنے جھوٹے معبودوں کی طرف سے آپ ( علیہ السلام) کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ آپ پر ان کی کوئی پھٹکار پڑجائے گی۔ اسی طرح سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی آپ ( علیہ السلام) کی قوم نے دھمکی دی تھی کہ آپ نے ہمارے سارے معبودوں کی نفی کر کے انہیں ناراض کردیا ہے ‘ اب آپ پر ان کی پھٹکار پڑے گی اور ان کی طرف سے آپ کی پکڑ ہوگی۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا (الانعام : ٨١) کہ ” میں ان سے کیونکر ڈروں جن کو تم نے شریک ٹھہرایا ہے جبکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اس نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ! “ یعنی بدبختو ! مجھے تم ان پتھر کے ُ بتوں سے کیا ڈراتے ہو ‘ جب کہ ڈرنا تو تم لوگوں کو چاہیے کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہو ! { وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ } ” اور جس کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کے لیے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔ “ جس کی گمراہی پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دے اس کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

55 The disbelievers of Makkah used to say to the Holy Prophet, "You behave insolently in respect of our deities and utter rude words against them : you do not know how powerful they are and what miraculous powers they possess. Anybody who dishonoured them was ruined. If you also do not desist from what you say against them, you too will be annihilated. "

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :55 کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہو اور ان کے خلاف زبان کھولتے ہو ۔ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ کیسی زبردست با کرامت ہستیاں ہیں ۔ ان کی توہین تو جس نے بھی کی وہ برباد ہو گیا ۔ تم بھی اگر اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو یہ تمہارا تختہ الٹ دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ ٣٧۔ جن آیتوں میں مشرکین مکہ کے بتوں کی مذمت ہوتی تھی ان آیتوں کو سن کر یہ مشرک لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ٹھاکروں کی طرف ڈراتے تھے کہ ان مشرکوں کے ٹھاکر آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیویں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر ارشاد فرمایا۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسول کی حمایت کے لئے کافی ہے بغیر مرضی اللہ کی کسی کی کیا مجال ہے جو اللہ کے رسول کو کچھ نقصان پہنچا سکے۔ مکہ کے قحط کے وقت ان مشرکوں کو اپنے ٹھاکروں کی بےبسی معلوم ہوچکی ہے اس پر بھی یہ لوگ اپنے ٹھاکروں کو صاحب اختیار جو گنتے ہیں اس کا سبب یہی ہے کہ اللہ کے علم غیب میں یہ لوگ گمراہ ٹھہر چکے ہیں کیونکہ جو لوگ اللہ کے علم غیب میں راہ راست پر آنے والے ٹھہرے ہیں۔ وہ ایسی نادانی کی باتیں منہ سے نہیں نکالتے پھر فرمایا یہ تو اپنے ٹھاکروں سے ڈراتے ہی رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے کارخانہ میں ان لوگوں کی ایسی باتوں کی سزا کا وقت آجاوے گا تو وہ ایسا زبردست بدلہ لینے والا ہے کہ اس کے بدلہ لینے کے وقت ان کا کوئی ٹھاکر ان کے کچھ کام نہ آوے گا۔ صحیح بخاری ٣ ؎ و مسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ بدر کی لڑائی کے وقت اس طرح کے بدلہ لینے کی آیتوں کا ظہور ہوا کہ ان مشرکین مکہ کے بڑے بڑے بتوں کے حامی و مددگار اس لڑائی میں مارے گئے اور مرتے ہی آخرت کے عذاب میں گرفتار ہوگئے جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول نے ان لوگوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا۔ کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے بدلہ لینے کے وعدہ کو سچا پا لیا۔ (٣ ؎ تفسیر ہذا جلد ہذا ص ٢٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:36) الیس اللّٰہ۔ استفہام انکاری ہے۔ اور انکار نفی پر زور ثبوت پر دلالت کرتا ہے۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ یعنی اللہ اپنے بندے کے لئے (اس کی حفاظت اور نصرت کے لئے) ضرور کافی ہے۔ کاف۔ کفایۃ سے اسم فاعل واحد مذکر کافی۔ کفایت کرنے والا۔ کف مادہ۔ عبدہ میں ہ ضمیر کا مرجع اللّٰہ ہے۔ اس کا بندہ۔ یہاں عبد سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جیسا کہ آگے یخرفونک سے ظاہر ہے۔ اہل قریش و دیگر بت پرست رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں کی ناراضگی سے ڈراتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ تم ان کو برا کہنے سے اپنی زبان کو روک لو ورنہ تمہیں بدحواس اور پاگل بنادیں گے۔ ویخوفونک یخوفون مضارع جمع مذکر غائب۔ تخویف (تفعیل) مصدر سے خوف مادہ۔ وہ ڈراتے ہیں آپ کو ک ضمیر واحد مذکر مفعول۔ منم دونہ۔ اس کے سوا۔ ای من الاوثان التی اتخذوھا الہۃ وہ آپ کو ڈراتے ہیں ان جھوٹے معبودوں (بتوں) سے جو اللہ کے سوا انہوں نے بنا رکھے ہیں۔ یضلل۔ مضارع مجزوم بوجہ شرط۔ واحد مذکر غائب اضلال (افعال) مصدر (جسے) وہ گمراہ کر دے (جس کو) وہ گمراہ چھوڑ دے یہاں گمراہی سے مراد یہ ہے :۔ (1) بےمدد چھوڑ دے۔ (2) بندہ اس امر سے غافل ہوجائے کہ اللہ ہی اپنے بندے کی حفاظت کے لئے کافی ہے۔ (3) بندہ اللہ کے سوا ایسی چیزوں سے ڈرنے لگے جو کہ نہ نقصان پہنچا سکتی ہیں اور نہ فائدہ۔ ھاد۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ ہدایت دینے والا سیدھا راستہ بتانے والا۔ راہ راست پر لانے والا۔ ھدایۃ باب ضرب سے مصدر۔ ھاد اصل میں ھادی تھا۔ ضمہ ی پر دشوار تھا اس کو ساکن کیا اب ی اور تنوین دو ساکن اکٹھے ہوئے تو اجتماع ساکنین کی وجہ سے گرگئی اور تنوین اب دال پر آگئی ھاد ہوگیا۔ فما لہ فاء جواب شرط کے لئے ہے لام استحقاق کا ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع من ہے۔ (جسے اللہ نے گمراہ کردیا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی اگر اسے اللہ تعالیٰ کی حمایت حاصل ہے۔ ( اور ظاہر ہے کہ حاصل ہے) تو کوئی اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔10 کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے کہ ہمارے معبودوں کی شان میں گستاخی نہ کیا کرو اور ان کے خلاف زبان نہ کھولا کرو اور نہ یہ ناراض ہو کر تم پر کوئی آفت نازل کردیں گے۔ اس کے جواب میں فرمایا :” الیس اللہ بکاف عندہ “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق کی تصدیق اور تبلیغ کرنے والوں کے لیے آخرت کے اجر کے ساتھ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستگیری کا اعلان۔ حق بات کو قبول اور اس کا پرچار کرنا بالخصوص توحید باری تعالیٰ کا پرچار کرنا ہمیشہ سے مشکل ترین کام رہا ہے۔ جس شخص نے بھی توحیدِباری تعالیٰ کا پرچار کرنے کی کوشش کی۔ کفر و شرک کے دلدادہ لوگوں نے اس کا جینا دوبھر کردیا۔ اس راستے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا انبیائے کرام (علیہ السلام) کو کرنا پڑا۔ مشرکین نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جسمانی اذّیتوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ انہیں اعصابی اور فکری طور پر توڑے دینے کی کوشش کی۔ ” اللہ “ کی توحید کا پرچار اور حق کے ابلاغ میں سب سے زیادہ تکلیفیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچائیں گئیں۔ جسمانی اور ذہنی تکالیف کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر دبانے کی کوشش کی گئی کہ اگر تو نے ہمارے خداؤں کی مخالفت جاری رکھی تو یہ تجھے تہس نہس کردیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضمانت دی ہے۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ؟ ہجرت کے وقت جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر صدیق (رض) غار ثور میں تھے تو کفار تلاش کرتے کرتے غار کے دہانے پر پہنچ گئے حضرت ابوبکر (رض) گھبراکر کہنے لگے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے ہیں آپ نے فرمایا ابوبکر گھبراؤ نہیں ” اللہ “ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ میرے نبی کی مخالفت کرنے والو ! تم ایڑی چوٹی کا زور لگا لو۔ تم نہ میرے نبی کو گزند پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی دین حق کو دبا سکتے ہو۔ تمہاری مخالفت کرنا انوکھی بات نہیں۔ یہ شروع سے ہوتا آرہا ہے کہ مشرک حق والوں کو اپنے معبودوں سے ڈراتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت پر قائم رکھے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بدلہ لینے میں پوری طرح غالب ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے داعی اور حق کے مبلغ کو ہدایت پر قائم رہنے کی ضمانت دی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات ] ” اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔ “ مسائل ١۔ ١ للہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت پر قائم فرمائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن مشرکین کا انبیاء ( علیہ السلام) کو ڈرانا : ١۔ مشرکوں کی حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔ (الشعراء : ١١٦) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردوں گا۔ (مریم : ٤٦) ٣۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ( المؤمن : ٢٦) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ (ھود : ٩١) ٥۔ فرعون کی ایمانداروں کو دھمکیاں کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ (طٰہٰ : ٧١) ٦۔ مشرکوں کی حضرت لوط (علیہ السلام) کو دھمکی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تمہیں شہر بدر کردیں گے۔ (الشعراء : ١٦٧) ٧۔ مشرکوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ (الاعراف : ٨٨) ٨۔ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی چڑھانے کی کوشش کی۔ (النساء : ١٥٧) ٩۔ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ (الانفال : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 220 ایک نظر میں اس سورت کا یہ سفر تمام اسفار سے زیادہ طویل اور وسیع ہے۔ اس میں عقیدہ توحید کو مختلف زاویوں سے لیا گیا ہے اور اس کے بارے میں نہایت ہی حساس دلائل دیئے گئے ہیں۔ اور یہ نہایت ہی متنوع دلائل ہیں۔ اس سبق کا آغاز ایک سچے مومن کی قلبی کیفیات سے کیا گیا ہے ، جو صرف اللہ پر اعتماد رکھتا ہے۔ اللہ ہی کو بڑی قوت سمجھتا ہے اور اللہ کے سوا تمام حقیر اور کمزور قوتوں کو خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ اس لیے وہ ان تمام قوتوں سے قطع تعلق کرکے اپنے امور اور ان کے امور کا فیصلہ قیامت کے دن پر چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنے راستے پر ثابت قدمی ، اعتماد اور یقین کے ساتھ گامزن رہتا ہے۔ اس کے بعد حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فریضے کا تعین کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ آپ لوگوں کے ذمہ دار اور ٹھیکہ دار نہیں ہیں کہ ضرور ان کو راہ ہدایت پر لانا ہے۔ وہ تو اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ان کی چوٹی اللہ کے ہاتھ میں ، ہر حال اور ہر صورت میں۔ لوگوں کے لیے اللہ کے سوا اور کوئی سفارش بھی نہیں ہے۔ سفارش کے اختیارات تو اللہ کے پاس ہیں۔ زمین و آسمانوں کا مالک ہی وہ ہے۔ اور سب نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ پھر مشرکین کا ذکر کیا جاتا ہے اور ان کی نفسیاتی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر کلمہ توحید کا ذکر ہو تو ان کی طبعیت منقبض ہوجاتی ہے اور اگر شرکیہ کلمہ سنیں تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ اور اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ کلمہ توحید کا اعلان کردیں۔ اور مشرکین کو اللہ پر چھوڑ دیں ۔ اور ان کی ایک تصویر آپ کے سامنے کردی جاتی ہے کہ قیامت کے دن تو یہ چاہیں گے کہ پوری روئے زمین کی دولت اور اس جیسی مزید دولت بھی فدیے میں دے کر جان چھڑا لیں۔ اس لیے کہ وہاں وہ اللہ کی وہ بادشاہت دیکھ لیں گے جس سے وہ حواس باختہ ہوجائیں گے۔ اور ان کی حالت یہ ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو وہ اللہ وحدہ کو پکارتے ہیں اور اگر وہ خوشحالی پا لیں تو پھر اکڑ کر لمبے چوڑے دعوے کرنے لگتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ یہ دولت ہمیں اپنے علم وٹیکنالوجی کی وجہ سے دے دی گئی ہے اور یہ وہی بات ہے جو ان سے پہلے لوگوں نے بھی کہی تھی اور ان کو اللہ نے پکڑا اور وہ اللہ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ بن سکے اور نہ اللہ کو عاجز کرسکے ۔ رہی رزق کی فراخی اور اسکی تنگی تو یہ اللہ کے سنن اور قوانین پر موقوف رکھی گئی ہے اور اللہ کے یہ قوانین قدرت اس کی حکمت کے مطابق چلتے ہیں۔ وہی ہے جو رزق میں کشادگی دیتا ہے۔ اور وہی ہے جو کسی کا رزق تنگ کردیتا ہے۔ ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یومنون (39: 54) ” بیشک اس میں آیات اور نشانیاں ہیں ، ہر اس قوم کے لیے جو مومن ہو “۔ درس نمبر 220 تشریح آیات آیت نمبر 36 تا 40 یہ چار آیات بتاتی ہیں کہ اہل ایمان کا سیدھا سادا استدلال کیا ہوتا ہے ، یہ استدلال کس قدر قدرتی اور زور ہوتا ہے۔ کس قدر واضح اور گہرا ہوتا ہے۔ جس طرح یہ استدلال اور سوچ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہین میں ہے اور جس طرح اسے ہر مومن کے قلب میں ہونا چاہئے۔ جس کا ایمان حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر پختہ ہو۔ اور وہ اسی دعوت پر قائم ہو اور اسی کی تبلیغ کررہا ہو اور دستور ومنشور سمجھتا ہو اور وہ اس کے لیے کافی وشافی ہو۔ اس آیت کے نزول میں ایسی روایات آئی ہیں کہ مشرکین مکہ رسول اللہ کو اپنے بتوں اور ان کے غضب سے ڈراتے تھے۔ جبکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی یہ صفات ان کے سامنے رکھتے تھے اور ان کی بےبسی وبے کسی بیان فرماتے تھے۔ مشرکین مکہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈراتے تھے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں خاموشی اختیار نہ کی تو یہ بت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیں گے۔ لیکن اس آیت کا مفہوم اس مخصوص شان نزول سے زیادہ وسیع ہے۔ مراد ہر وہ دعوت حق ہے جو اس کرۂ ارض پر قیام نظام اسلامی کیلیے اٹھی ہے اور ہر وہ قوت ہے جو اس نظام اور اس دعوت کے خلاف ہے۔ اسلیے کہ یہاں دعوت حق اٹھانے والے اہل ایمان کے مکمل پھر وسے اطمینان اور یقین کا ذکر کیا گیا ہے اور ان مخالف قوتوں کو بھی صحیح طرح تولا گیا ہے کہ انکا وزن کیا ہے۔ الیس اللہ بکاف عبدہ (39: 36) ” کیا اللہ اپنے بندوں کے لیے کافی نہیں ہے “۔ ہاں اللہ کافی ہے ، لہٰذا وہ لوگ کون ہیں جن سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈرایا جارہا ہے۔ اللہ جب اپنے بندے کے ساتھ ہے ، تو ان دوسری مخلوقات کی حیثیت کیا ہے۔ خصوصاً جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب لے لیا ہو اور بندگی کا حق بھی ادا کررہے ہوں۔ اللہ نہایت قوی اور اپنے تمام بندوں پر کنڑول کرنے والا ہے۔ ویخوفونک بالذین من دونه (39: 36) ” یہ لوگ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس طرح ڈرسکتے ہیں ۔ اللہ کے سوا دوسری تمام قوتیں کس طرح ڈراسکتی ہیں ۔ اس شخص کو جس کی حفاظت اللہ کررہا ہو۔ اور تمام روئے زمین پر جو قوتیں ہیں وہ اللہ سے فروترقوتیں ہیں۔ یہ ایک بالکل سادہ واضح مسئلہ ہے۔ یہ کسی بڑی بحث اور مباحثے اور کسی زیادہ سوچ کا محتاج نہیں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر داعی کا حامی تو اللہ ہے اور دوسری تمام قوتیں فروتر ہیں۔ اور جب کوئی شخص یہ موقف اختیار کرے تو پھر کوئی شک اور اشباہ نہیں رہتا کہ اللہ کا ارادہ ہی نافذ ہو کر رہتا ہے اور اللہ کی مشیت ہی غالب رہتی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے فرماتا ہے۔ ان کی ذات کے بارے میں ، ان کے دلوں کے بارے میں اور ان کی سوچ اور شعور کے بارے میں بھی۔ ومن یضلل ۔۔۔۔ من مضل (39: 36 تا 37) ” اللہ جسے گمراہی میں ڈال دے اسے کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہے۔ اور جسے وہ ہدایت دے دے اسے بھٹکانے والا بھی کوئی نہیں ہے “۔ اللہ جانتا ہے کہ ضلالت کا مستحق کون ہے لہٰذا وہ اسے گمراہ کردیتا ہے اور وہ بھی جانتا ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے لہٰذا وہ اسے ہدایت دے دیتا ہے۔ اور وہ جس کے بارے میں جو فیصلہ بھی کردے اس کے فیصلے کو بدلنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ الیس اللہ بعزیز ذی انتقام (39: 37) ” کیا اللہ زبردست اور انتقام لینے والا نہیں ہے “۔ ہاں وہ انتقام لینے والا ہے۔ اور وہ عزیز وقوی ہے۔ اور وہ ان تمام لوگوں کو ان کے استحقاق کے مطابق جزاء دیتا ہے۔ اور جس سے وہ انتقام لیتا ہے۔ وہ مستحق ہوتا ہے کہ اس سے انتقام لیا جائے لہٰذا اس کی بندگی کرنے والے کو کسی چیز کا ڈر نہیں رہتا وہ کافی اور کفیل ہے۔ اس کے بعد خود ان کی منطق اور ان کے زاویہ نگاہ کے مطابق استدلال کرکے یہی نتائج نکالے جاتے ہیں اور اس منطق اور اس طرز فکر کا وہ اقرار کرتے تھے اور اللہ کے بارے میں وہ اس قسم کا تصور رکھتے تھے۔ ولئن سالتھم من۔۔۔۔ المتوکلون (39: 38) ” ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ، تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔ ان سے پوچھو ، جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں ، جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو مجھے اس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچالیں گی ؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکیں گی ؟ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے ، بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں “۔ جب ان لوگوں سے پوچھا جاتا تھا کہ خالق ارض وسما کون ہے ؟ تو وہ اقرار کرتے تھے کہ خالق ارض وسماء اللہ وحدہ ہے۔ کوئی صحیح الفطرت انسان اس کے سوا جواب دے ہی نہیں سکتا ۔ اور کوئی عقلمند زمین و آسمان کی تخلیق کا سبب ایک ذات بلند اور عالی مقام کے سوا کوئی اور نہیں بتاسکتا۔ لہٰذا قرآن ان کو اور تمام عقلاء کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ تمہاری فطرت کے اندر یہ بات بیٹھی ہوئی ہے اور بہت واضح ہے۔ اگر صورت یہی ہے تو پھر کوئی ہے جو اس مصیبت کو روک سکنے والا ہو جو وہ ذات عالی اپنے بندوں پر لانا چاہے ، یا زمین و آسمان میں کون ہے اگر وہ کسی پر رحمت کرنا چاہے تو اس کی رحمت کو روک سکے۔ تو ان سوالات کا قطعی جواب یہ ہے کہ ” نہیں “۔ اگر یہ بات طے ہوجاتی ہے تو داعی الی اللہ کس سے ڈرسکتا ہے۔ وہ کس سے خائف ہوسکتا ہے اور کس سے امیدیں وابستہ کرسکتا ہے۔ کون ہے جو اس کی مصیبتوں کو دور کرسکتا ہے۔ کون ہے جو اللہ کی رحمت کو اس سے دور کرسکتا ہے۔ کون ہے جو اسے بےچین کرسکتا ، اسے ڈرادھمکا سکتا ہے اور اپنے راستے سے ہٹا سکتا ہے ؟ جب قلب مومن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے تو اس کی نسبت سے معاملہ ختم ہوجاتا ہے ، تنازعہ ختم ہے ، غیر اللہ سے تمام امیدیں ختم ۔ صرف اللہ سے امید باقی رہ جاتی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے اور ہمیں اسی پر توکل کرنا چاہئے۔ قل ۔۔۔ المتوکلون (39: 38) ” پس کہہ دو ، اللہ میرے لیے کافی ہے اور بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں “۔ اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ مجھے رب تعالیٰ پر پورا اعتماد ، بھروسہ اور یقین ہے۔ اس قدر بھروسہ جس میں کوئی شک نہیں ۔ ایسا یقین جس میں کوئی تزلزل نہیں ۔ اور اس قدر اطمینان جس میں بےچینی کا شائبہ نہیں۔ اور اس زادراہ کے ساتھ آپ چل پڑیں اور منزل تک پہنچنے سے پہلے دم نہ لیں۔ قل یٰقوم۔۔۔۔ عذاب مقیم (39: 39 تا 40) ان سے صاف کہو کہ ” میری قوم کے لوگو ، تم اپنی جگہ اپنا کام کئے جاؤ، میں اپنا کام کرتا رہوں گا ، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسواکن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں “ سے قوم تم اپنے منہاج کے مطابق کام کرو ، اور میں اپنی راہ پر چل پڑا ہوں ، نہ ڈرتا ہوں اور نہ شک ہے مجھے۔ تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ اسی دنیا میں تم پر کس قدر شرمسار کنندہ عذاب آتا ہے اور پھر آخرت میں تو یہ عذاب دائمی ہوگا۔ اس معاملے کا فیصلہ ہوچکا ، اور اس فطری استدلال کے ذریعہ ہوا جس پر ہر سلیم الفطرت انسان گواہی دیتا ہے اور جس پر یہ کائنات گواہ ہے کہ اللہ خالق سماوات ہے اور خالق ارض ہے۔ اوتمام رسولوں نے آج تک جو دعوت پیش کی ہے یہ دعوت اللہ کی ہے ۔ لہٰذا اللہ کے رسولوں اور داعیان حق کے لیے زمین اور آسمان میں کون ہے جو کوئی اختیار رکھتا ہے۔ کوئی ہے جو ان سے مصائب دور کرسکتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو لوگ غیر اللہ اور ان دنیاوی قوتوں سے ڈرتے کیوں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ واضح ہے اور راستہ صاف ہے اور اب بحث کی مزید کچھ ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ہے تعلق رسولوں اور داعیان حق کا اور ان قوتوں کا جو ان کی راہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں اب سوال یہ ہے کہ دعوت حق کے حوالے سے رسولوں اور داعیانکا فریضہ کیا ہے اور جھٹلانے والوں کے ساتھ وہ کیا رویہ اختیار کریں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بندہ کو اللہ کافی ہے، اللہ کے سوا تکلیف کو کوئی دور نہیں کرسکتا اور اس کی رحمت کو کوئی روک نہیں سکتا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو توحید کی دعوت دیتے تھے وہ لوگ برا مانتے تھے ایک دن ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ دیکھو ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو ورنہ ہم اپنے معبودوں سے کہیں گے کہ تمہیں ایسا کردیں کہ تمہارے ہوش و حواس قائم نہ رہیں، اس پر آیت کریمہ (اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ) نازل ہوئی۔ اور بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن لید (رض) کو بھیجا تھا کہ عزیٰ بت کو توڑ دیں جب یہ وہاں پہنچے تو وہاں کے بت خانہ کا جو ذمہ دار بنا ہوا تھا اس نے کہا دیکھو میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں اس بت کی طرف سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے گی۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے اس کی کوئی بات نہ مانی آگے بڑھے اور جو کلہاڑا لے کر گئے تھے وہ اس بت کی ناک پر مار کر تیا پانچا کردیا اس پر (وَیُخَوِّفُوْنَکَ بالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ) کا نزول ہوا۔ (ذکرھما فی الدر المنثور عن قتادۃ ) مشرکین خود تو اپنے معبودوں سے ڈرتے ہی ہیں مومن بندوں کو بھی ڈراتے ہیں اللہ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا (اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ) (کیا اللہ اپنے بندہ کے لیے کافی نہیں ہے) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی ہے جو ہر شر اور ضرر اور آفت و مصیبت سے بچائے گا بت تو بےجان ہے ان سے کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جو انسان اور جن کچھ اختیار رکھتے ہیں وہ بھی کسی نفع اور ضرر کے مالک نہیں۔ (وَمَنْ یُّضْلِلْ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ھَادٍ ) (اور اللہ جسے گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا ہے ؟ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

37:۔ ” الیس اللہ بکاف عبدہ “ یہ تنبیہہ ہے مشرکین کو جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے معبودوں سے ڈراتے تھے متنبیہ اور خبردار فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ خاص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کافی ہے جو ہر خوف و خطر سے محفوظ رکھے گا۔ ” ویخوفونک الخ “ دلائل، ثمرات اور تنبیہہ کے بعد مشرکین کے خیال خام کا رد فرمایا۔ مشرکین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھمکی دیتے تھے کہ آپ ہمارے معبودوں کی توہین کرتے ہیں۔ آپ اس سے باز آجائیں ورنہ وہ آپ کو تکلیف پہنچائیں گے۔ قالوا : اتسب الھتنا ؟ لئن لم تکف عن ذکرھا لتخبلنک او تصیبنک بسوء (قرطبی ج 15 ص 658) ۔ اس کا تفصیلی رد آگے ثمرہ میں آرہا ہے۔ ” ومن یضلل الخ “ ان کا یہ خیال سراسر گمراہی پر مبنی ہے۔ بھلا یہ عاجز اور خود ساختہ معبود کیا کرسکتے ہیں اور ان کے اختیار میں کیا ہے ؟ لیکن ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے۔ در اصل وہ گمراہ ہیں اور گمراہی کی باتیں ہی ان کے مونہوں سے نکلتی ہیں اور یہ لوگ محض ضد وعناد کی وجہ سے حق کا انکار کرتے ہیں اس لیے ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان کے دلوں پر مہر جباریت لگ چکی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(36) کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کافی اور کارساز نہیں ہے اور اے پیغمبر یہ کافر آپ کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور دوسروں سے ڈراتے ہیں اور جس گم کردہ راہ کو اللہ تعالیٰ بےراہ رکھے اس کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔