Commentary In the first verse (36), it was said: أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (Is Allah not sufficient for (the protection of) His slave?). This verse was revealed in the background of an event. The disbelievers had threatened the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his noble Sahabah by saying that, should they act irreverently against their idols, they would never escape the curse of these idols, something very lethal to face. In reply, they were told: Is Allah not sufficient for His slave? Therefore, some commentators have taken: عَبْدَه (abdahu: His slave) here to mean a particular slave of Allah, that is, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Maulana Ashraf ` Ali Thanavi (رح) ، a summary of whose Tafsir appears in the original edition of Ma’ ariful-Qur&an, has also opted for this very Tafsir. Then there are other commentators who have taken abd or slave in its general sense. Another qira&ah (rendition) of this verse as: عِبَادہ (` ibadihi: His slaves) supports this position. And as for the subject itself, it is, after all, general in the sense that Allah Ta’ ala is sufficient for everyone among His slaves. A lesson, and a good counsel In verse 36, it was said: وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ (And they are frightening you of those [ false gods whom they worship ] other than Him.), that is, &the disbelievers frighten you with the displeasure of their false objects of worship&. Readers of this verse generally tend to pass by it thinking that it is talking about a particular event that relates to the threats of disbelievers and to the blessed person of the Holy Prophet t, hence they would not exert enough to find out the guidance that it has for us. Although, it is an open fact that anyone who threatens a Muslim on the ground that, should he not do such and such haram act or sin, his superiors at whose mercy he is, will be displeased with him, and may even hurt him is also included under this verse, even if the person giving a threat is a Muslim, and the person he is being threatened of is also no one else but a Muslim, virtually Muslims on both sides. And these are terrible times for all. This happens all over the world, in most jobs they do. They have to face a dilemma. Are they willing and ready to contravene the Divine laws (they are bound with)? Or else, are they prepared to become targets of the wrath and retribution of their superior officers? This verse gives a guideline good enough for all of them: Is Allah Ta’ ala not sufficient to protect you? Here you are. You make a resolve that you will abstain from committing sins exclusively for the sake of Allah. Then you simply do not care about any officer, any authority asking you to act counter to Divine laws. If you do just that, the help and support of Allah Taala shall be with you. The worst that can happen is that you may lose that job. So, what? Allah Ta’ ala will make some other arrangement for your sustenance. And for that matter, it is typical of a believer that he himself keeps trying to find a suitable job elsewhere after which he is placed in a position of leaving it immediately.
خلاصہ تفسیر کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندہ (خاص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت) کے لئے کافی نہیں (یعنی وہ تو سب ہی کی حفاظت کے لئے کافی ہے تو اپنے محبوب خاص بندے کے لئے کیوں کافی نہ ہوگا) اور یہ لوگ (ایسے احمق ہیں کہ حفاظت خداوندی سے تجاہل کر کے) آپ کو ان (جھوٹے معبودوں) سے ڈرانے والے ہیں جو خدا کے سوا (تجویز کر رکھے) ہیں (حالانکہ وہ خود بےجان عاجز ہیں اور قادر بھی ہوتے تو خدا کی حفاظت کے مقابلہ میں عاجز ہی ہوتے) اور (اصل بات یہ ہے کہ) جس کو خدا گمراہ کرے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں اور جس کو وہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں (آگے خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے ان کی حماقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ) کیا خدا تعالیٰ (ان کے نزدیک) زبردست (اور) انتقام لینے (پر قدرت رکھنے) والا نہیں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت ناصریت بھی کامل اور بندہ کی صلاحیت منصوریت بھی کامل اور جھوٹے معبودوں کا قدرت ونصرت سے عاجز ہونا بھی ظاہر پھر آپ کو ان باتوں سے ڈرانا حماقت نہیں تو کیا ہے) اور (عجیب بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نصرت کے مقدمات کو یہ بھی تسلیم کرتے ہیں چنانچہ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہیں کہیں گے کہ اللہ نے (اس لئے) آپ (ان سے) کہئے کہ بھلا (جب تم اللہ کو تخلیق میں منفرد مانتے ہو تو) یہ بتلاؤ کہ خدا کے سوا جن معبودوں کو پوجتے ہو، اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے، کیا یہ معبود اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں یا اللہ مجھ پر اپنی عنایت کرنا چاہے تو کیا یہ معبود اس کی عنایت کو روک سکتے ہیں (آگے ارشاد ہے کہ جب اس تقریر سے اللہ تعالیٰ کا کمال قدرت ثابت ہوجاوے) تو آپ کہہ دیجئے کہ (اس سے ثابت ہوگیا کہ) میرے لئے خدا کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں (اسی لئے میں بھی اسی پر توکل اور بھروسہ رکھتا ہوں اور تمہارے خلاف وعناد کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اور چونکہ یہ لوگ ان سب باتوں کو سن کر بھی اپنے خیال باطل پر جمے ہوئے تھے اس لئے آپ کو آخری جواب کی تعلیم ہے کہ) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ (اگر اس پر بھی تم نہیں مانتے تو تم جانو تم اپنی حالت پر عمل کئے جاؤ میں بھی (اپنے طرز پر) عمل کر رہا ہوں (یعنی جب تم اپنے طریقہ باطل کو نہیں چھوڑتے تو میں طریقہ حق کو کیسے چھوڑوں) سو اب جلد ہی تم کو معلوم ہوا جاتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جس پر (دنیا میں) ایسا عذاب آیا چاہتا ہے جو اس کو رسوا کر دے گا، اور (مرنے کے بعد) اس پر دائمی عذاب نازل ہوگا (چنانچہ دنیا میں غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کو سزا ملی اس کے بعد آخرت کا دائمی عذاب ہے۔ یہاں تک تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخالفین کے خوف سے تسلی دی گئی۔ آگے آپ کو جو کفار اور عام خلق خدا کے ساتھ شفقت کی بنا پر ان کے کفر و انکار سے غم ہوتا تھا اس پر تسلی دی گئی کہ) ہم نے یہ کتاب آپ پر لوگوں کے (نفع کے) لئے اتاری جو حق کو لئے ہوئے ہے سو (آپ کا کام اس کو پہنچا دینا ہے پھر) جو شخص راہ راست پر آوے گا تو اپنے نفع کے واسطے اور جو شخص بےراہ رہے گا تو اس کا بےراہ ہونا اسی پر پڑے گا اور آپ ان پر مسلط (اس طرح) نہیں کئے گئے (کہ ان کی بےراہی کی آپ سے باز پرس ہو تو آپ ان کی گمراہی سے کیوں مغموم ہوتے ہیں) معارف ومسائل اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ۔ اس آیت کا شان نزول ایک واقعہ ہے کہ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کو اس سے ڈرایا تھا کہ اگر آپ نے ہمارے بتوں کی بےادبی کی تو ان بتوں کا اثر بہت سخت ہے اس سے آپ بچ نہ سکیں گے۔ ان کے جواب میں کہا گیا کہ کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ؟ اس لئے بعض مفسرین نے یہاں بندے سے مخصوص بندہ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مراد لیا ہے۔ خلاصہ تفسیر میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ اور دوسرے مفسرین نے بندہ سے مراد عام لی ہے اور آیت کی دوسری قرات جو عبادہ آئی ہے وہ اس کی موید ہے۔ اور مضمون بہرحال عام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کے لئے کافی ہے۔ عبرت و نصیحت : وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ۔ یعنی کفار آپ کو ڈراتے ہیں اپنے جھوٹے معبودوں کے غصب سے۔ اس آیت کو پڑھنے والے عموماً یہ خیال کر کے گزر جاتے ہیں کہ یہ ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے، جس کا تعلق کفار کی دھمکیوں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس سے ہے، اس طرح دھیان نہیں دیتے، کہ اس میں ہمارے لئے کیا ہدایت ہے۔ حالانکہ بات بالکل کھلی ہوئی ہے کہ جو شخص بھی کسی مسلمان کو اس لئے ڈرائے کہ تم نے فلاں حرام کام کیا یا گناہ نہ کیا تو تمہارے حکام اور افسر یا جن کے تم محتاج سمجھے جاتے ہو تم سے خفا ہوجائیں گے اور تکلیف پہنچائیں گے۔ یہ بھی اسی میں داخل ہے اگرچہ ڈرانے والا مسلمان ہی ہو اور جس سے ڈرایا جائے وہ بھی مسلمان ہی ہو۔ اور یہ ایسا عام ابتلاء ہے کہ دنیا کی اکثر ملازمتوں میں لوگوں کو پیش آتا ہے کہ احکام آلٰہیہ کی خلاف ورزی پر آمادہ ہوجائیں یا پھر اپنے افسروں کے عتاب و عقاب کا مورد بنیں۔ اس آیت نے ان سب کو یہ ہدایت دی کہ کیا اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کے لئے کافی نہیں، تم نے خالص اللہ کے لئے گناہوں کے ارتکاب سے بچنے کا عزم کرلیا اور احکام خداوندی کے خلاف کسی حاکم و افسر کی پرواہ نہ کی تو خدا تعالیٰ کی امداد تمہارے ساتھ ہوگی۔ زائد سے زائد یہ ملازمت چھوٹ بھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ تمہارے رزق کا دوسرا انتظام کردیں گے۔ اور مومن کا کام تو یہ ہے کہ ایسی ملازمت کو چھوڑنے کی خود ہی کوشش کرتا رہے کہ کوئی دوسری مناسب جگہ مل جائے تو اس کو فوراً چھوڑ دے۔