Surat uz Zumur

Surah: 39

Verse: 37

سورة الزمر

وَ مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ مُّضِلٍّ ؕ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِعَزِیۡزٍ ذِی انۡتِقَامٍ ﴿۳۷﴾

And whoever Allah guides - for him there is no misleader. Is not Allah Exalted in Might and Owner of Retribution?

اور جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ۔ کیا ، اللہ تعالٰی غالب اور بدلہ لینے والا نہیں ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And whom Allah sends astray, for him there will be no guide. And whomsoever Allah guides, for him there will be no misleader. Is not Allah Almighty, Possessor of Retribution? meaning, whoever relies on Him and turns to Him, will never be forsaken, for He is the Almighty Who cannot be overwhelmed by another, and there is none more severe than Him in exacting retribution on those who disbelieve in Him, associate others in worship with Him and resist His Messenger. The Idolators admit that Allah is the Sole Creator because their gods are incapable Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 جو اس کو ہدایت سے نکال کر گمراہی کے گڑھے میں ڈال دے یعنی ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس کو چاہے گمراہ کر دے اور جس چاہے ہدایت سے نوازے۔ 37۔ 2 کیوں نہیں، یقینا ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ لوگ کفر وعناد سے باز نہ آئے، تو یقینا وہ اپنے دوستوں کی حمایت میں ان سے انتقام لے گا اور انہیں عبرت ناک انجام سے دو چار کرے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٣] اللہ کی توہین کیسے ؟۔ ان مشرکوں کو اپنے اپنے معبودوں اور بزرگوں کی عزت کا تو بڑا خیال رہتا ہے اور اس غرض کے لئے وہ بہت سے قصے اور افسانے بھی گھڑ گھڑ کر لوگوں میں مشہور کرتے رہتے ہیں۔ مگر اس بات کا انہیں کبھی خیال نہیں آتا کہ ان سب کے اوپر ایک ایسی زبردست ہستی ہے جس کی یہ لوگ، اپنے معبودوں کی عزت بڑھانے کی آڑ میں زبردست توہین کر رہے ہیں۔ اور وہ ان سے پوری طرح انتقام بھی لے سکتی ہے اور انہیں یہ موٹی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ زبردست کے مقابلہ میں ان کے معبودوں کی حقیقت ہی کیا ہے۔ جو اللہ اکیلے کے پرستار کو اسطرح کی گیڈر بھبکیوں سے ہراساں کرنا چاہتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ يَّهْدِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّضِلٍّ : اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے، پھر کوئی اسے گمراہ کرنے والا نہیں۔ شیطان یا اس کے پیروکار اپنے حاجت رواؤں یا مشکل کشاؤں سے اسے جس قدر بھی ڈرائیں وہ کبھی نہ ان سے ڈرتا ہے اور نہ وہ اللہ کے سوا کسی سے امید رکھتا ہے۔ کفار کا اپنے خداؤں سے ڈرانے کے ذکر کے لیے دیکھیے سورة ہود (٥٤) ، انعام (٨٠ تا ٨٢) اور سورة قمر (٩) ۔ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِعَزِيْزٍ ذِي انْتِقَامٍ : کیا اللہ تعالیٰ سب پر غالب نہیں کہ جو اس کی پناہ میں ہو کوئی اس کی ہوا کی طرف بھی نہیں دیکھ سکتا ؟ اور کیا وہ اپنی اور اپنے دوستوں کی خاطر بہت بڑے انتقام والا نہیں ( انْتِقَامٍ کی تنوین تعظیم کے لیے ہے) کہ اس کے اور اس کے دوستوں کے دشمنوں کو اس کے زبردست انتقام سے کوئی نہیں بچا سکتا ؟ یقیناً وہ سب پر غالب بھی ہے اور بہت بڑے انتقام والا بھی ؂ نہ جا اس کے تحمل پر کہ بےڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ يَّہْدِ اللہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّضِلٍّ۝ ٠ ۭ اَلَيْسَ اللہُ بِعَزِيْزٍ ذِي انْتِقَامٍ۝ ٣٧ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ نقم نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ «2» : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] . ( ن ق م ) نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جسے اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ہدایت فرمائے یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور دیگر صحابہ کرام اور کہا گیا ہے کہ اس سے حضور ہی کی ذات بابرکت مراد ہے اس کا کوئی گمراہ کرنے والا نہیں کیا اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہت و سلطنت میں زبردست اور کافر سے انتقام لینے والا نہیں ؟

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ { وَمَنْ یَّہْدِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّضِلٍّ } ” اور جس کو اللہ ہدایت دے دے توا سے گمراہ کرنے والا کوئی نہیں۔ “ { اَلَیْسَ اللّٰہُ بِعَزِیْزٍ ذِی انْتِقَامٍ } ” تو کیا اللہ زبردست ‘ انتقام لینے والا نہیں ہے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

56 That is, "This also is a result of their lack of guidance that the foolish people esteem highly the power and honour of their deities but they never think that Allah also is Almighty and they can also be punished for insulting Him by the shirk they are committing against Him. "

سورة الزُّمَر حاشیہ نمبر :56 یعنی یہ بھی ہدایت سے ان کی محرومی ہی کا کرشمہ ہے کہ ان احمقوں کو اپنے ان معبودوں کی طاقت و عزت کا تو بڑا خیال ہے ۔ مگر انہیں اس بات کا خیال کبھی نہیں آتا کہ اللہ بھی کوئی زبردست ہستی ہے اور شرک کر کے اس کی جو توہین یہ کر رہے ہیں اس کی بھی کوئی سزا انہیں مل سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(39:37) من مضل۔ اسم فاعل واحد مذکر اضلال (افعال) مصدر۔ گمراہ کرنے والا۔ صاحب تفسیر الماجدی (رح) اس آیۃ کی تشریح میں لکھتے ہیں :۔ ہدایت اور ضلالت اپنے اسباب قریب و ظاہری کے لحاظ سے بندہ کے افعال اختیاری میں ہیں اور اسی لئے ان پر ثواب و عذاب مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن اپنے اسباب بعید اور حقیقی کے لحاظ سے تمام تر مشیت تکوینی الٰہی کے ماتحت ہوتے ہیں ۔ اور اسی لئے ان کا انتساب مسبب الاسباب اور علت العلل کی حیثیت سے حق تعالیٰ کی جانب بھی درست ہے۔ الیس اللّٰہ بعزیز ذی انتقام۔ الیس اللّٰہ ملاحظہ ہو 39:36 ۔ متذکرہ بالا۔ عزیز ۔ عزۃ سے فعیل کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے (بحالت جر) بمعنی فاعل۔ غالب ، زبردست ذی۔ صاحب۔ والا۔ ذی انتقام۔ صاحب انتقام۔ انتقام لینے والا ۔ انتقام لینے پر قادر۔ مطلب یہ ہے کہ :۔ اللہ تعالیٰ یقینا غالب ہے (اور اپنے فرمانبرداروں کو نفع بخشتا ہے) اور انتقام لینے پر قادر ہے (اپنے دشمنوں سے انتقام لیتا ہے اور ان کو سزا دیتا ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی یہ کفار جو گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے معبودوں کا خوف دلاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے یہ جھوٹے معبود کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اصل طاقت اللہ تعالیٰ کی ہے وہ اپنے دشمنوں سے جب چاہے اور جس طرح چاہے انتقام لے سکتا ہے۔ (قرطبی) اس زمانہ کے مشرک اور قبروں کے گدی نشین مج اور بھی جو بزرگوں ولیوں کو پکارتے ہیں۔ لوگوں کو ڈراتے ہیں کہ اگر بزرگوں کا انکار کرو گے تو وہ تمہیں تباہ و برباد کردیں گے اور ایسی باتوں سے احمق نادان ڈر جاتے ہیں اور ان کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ سو یہ سب بزرگوں پر افتراء ہے اور یہ لوگ گمراہ ہیں۔ (حلیفہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی اللہ تعالیٰ صفت ناصریت میں کامل اور عبد خاص منصوریت کے قابل اور آلہہ باطلہ قدرت اور نصرت سے عاطل، پھر یہ تخویف عین ضلالت و محض جہالت نہیں تو کیا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَمَنْ یَّہْدِی اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ مُّضِلٍّ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِعَزِیْزٍ ذِیْ انْتِقَامٍ ) (اور جسے اللہ ہدایت دیدے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں۔ کیا اللہ عزت والا بدلہ لینے والا نہیں ہے ؟ ) جو لوگ بت پرست ہیں وہ اپنے معبودوں کے ضرر پہنچانے سے ڈرتے ہیں اللہ کے قادر اور کافی اور عزیز (غالب) ہونے اور انتقام لینے کی قدرت ہونے پر ان کی نظر نہیں، جو باطل نے خود تجویز کر رکھے ہیں اپنی گمراہی سے ان میں نفع و ضرور سمجھتے ہیں اور ان سے خود بھی ڈرتے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈراتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

38:۔ ” و من یھد الخ “ اور جن لوگوں کے سینے اللہ ایمان کے لیے کھول دیتا ہے۔ اور نور ہدایت ان کے گوشت پوست میں سما جاتا ہے وہ کسی کے بہکانے پھسلانے سے ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مہربانی اور توفیق سے راہ ہدایت پر قائم اور ثابت قدم رکھتا ہے۔ ” الیس اللہ الخ “ کیا اللہ تعالیٰ غالب اور انتقام لینے پر قادر نہیں ؟ استفہام انکاری ہے یعنی وہ اپنے دشمنوں پر غالب اور ان سے انتقام لینے پر قادر ہے۔ معاندین کو توفیق ہدایت سے محروم کردینا بھی انتقام میں داخل ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) اور اللہ تعالیٰ جس کی رہنمائی فرمائے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں کیا اللہ تعالیٰ کمال قوت کا مالک اور بدلا لینے والا نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں تجھ کو ڈراتے ہیں یعنی تو بتوں کو نہیں مانتا تو وہ تجھ پر غضب ہوں گے کچھ تیرا کردیں گے سو جس کی مدد پر اللہ ہو ان کا برا کون کرسکے۔ خلاصہ : یہ کہ جس کا کارساز اللہ تعالیٰ ہو اس کو بتوں سے اور مخلوق سے ڈرانا ایک مضحکہ خیز چیز ہے وہ تو رب کے لئے کافی ہے اور بالخصوص آپ سو اس کے پیغمبر ہیں تو کیا آپ کے لئے کافی نہیں ہے۔ بات اصل یہ ہے کہ جو گمراہی کو پسند کرچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ لے ان کو ان کی گمراہی میں چھوڑ دیا ہے تو ان کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جس کی ہدایت پر اللہ تعالیٰ آمادہ ہوجائے اور جس کو وہ ہدایت دیدے تو اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں کیا اللہ تعالیٰ صاحب قوت اور صاحب انتقام نہیں ہے۔ بعض مشرکوں کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنے دیوتائوں کی پھٹکار اور گرفت سے ڈرایا کرتے ہیں ایسا ہی کوئی واقعہ پیش آیا ہوگا جس پر یہ آیت نازل فرمائی ہوئی اور چونکہ مشرکین مکہ بھی اللہ تعالیٰ کو خالق السماوات والارض جانتے تھے اس لئے آگے اس کی تصریح فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے کافی ہونے پر حجت قائم کی۔