Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 120

سورة النساء

یَعِدُہُمۡ وَ یُمَنِّیۡہِمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۲۰﴾

Satan promises them and arouses desire in them. But Satan does not promise them except delusion.

وہ ان سے زبانی وعدے کرتا رہے گا اور سبز باغ دکھاتا رہے گا ( مگر یاد رکھو! ) شیطان کے جو وعدے ان سے ہیں وہ سراسر فریب کاریاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He (Shaytan) makes promises to them, and arouses in them false desires; explains the true reality. Surely, Shaytan deceitfully promises his supporters and tempts them into believing that they are winners in this and the Hereafter. This is why Allah said, وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلاَّ غُرُورًا (and Shaytan's promises are nothing but deceptions). Allah states that on the Day of Return, وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الاَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ And Shaytan will say when the matter has been decided: "Verily, Allah promised you a promise of truth. And I too promised you, but I betrayed you. I had no authority over you, until, إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (Verily, there is a painful torment for the wrongdoers). (14:22) Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦١] مثلاً شیطان کا یہ پٹی پڑھانا کہ توحید کے ہوتے ہوئے باقی سب گناہ معاف ہوجائیں گے اور اس طرح گناہوں پر دلیر بنادینا یا اولیاء اللہ کی ان کے مریدوں کے حق میں سفارش کرکے چھڑا لینے کے عقیدہ کو پختہ کردینا، یا یہ کہ ابھی کافی زندگی باقی ہے۔ نیک اعمال کے لئے اور توبہ کے لئے ابھی جلدی بھی کیا پڑی ہے۔ ایسے سب وعدے اور امیدیں شیطان انسان کو فریب میں مبتلا رکھنے کے لئے کرتا رہتا ہے۔ اور اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شیطان انسان کے دل میں بےجا آرزوئیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ جن سے انسان کی حرص اور طول امل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جوں جوں ابن آدم بوڑھا ہوتا جاتا ہے اس کی حرص اور خواہشیں جواں ہوتی رہتی ہیں اور یہی دو باتیں تمام گناہوں کا سرچشمہ ہیں۔ طول امل کی وجہ سے انسان کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اسے کسی وقت اس دنیا سے رخصت بھی ہونا ہے۔ اپنی موت سے بھول سے یاد نہیں آتی۔ حالانکہ ایسی آرزوئیں کسی کو ساری عمر نہ حاصل ہوئی ہیں اور نہ ہوں گی۔ ایسی ہی آرزؤں کی تکمیل لئے وہ کئی قسم کے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور ہوتا رہتا ہے تاآنکہ موت اسے یکدم آکر دبوچ لیتی ہے۔ اور اس کی طویل خواہشات کے سلسلہ کو منقطع کردیتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ابلیس کے پاس جھوٹے وعدوں، غلط آرزوؤں اور وسوسوں کے سوا کچھ نہیں، حالانکہ اس کے سب وعدے جھوٹے اور سراسر دھوکا ہیں، بظاہر خوش نما، اندر سے مہلک ہیں۔ دیکھیے سورة فاطر (٥، ٦) اور سورة ابراہیم (٢٣) اور ظاہر ہے کہ اپنے دشمن کو پہچانتے ہوئے پھر اس کے وعدوں پر اعتبار اور غلط آرزوؤں کو سچ سمجھنے کا نتیجہ جہنم کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَعِدُھُمْ وَيُمَنِّيْہِمْ۝ ٠ۭ وَمَا يَعِدُھُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا۝ ١٢٠ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ تَّمَنِّي : تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] والأُمْنِيَّةُ : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] . ۔ التمنی کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ الامنیۃ کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔ غرر يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ». والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل : فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها . ( غ ر ر ) غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار/ 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران/ 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء/ 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر/ 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام/ 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران/ 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام/ 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب/ 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان/ 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٠ (یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیْہِمْط وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطٰنُ الاَّ غُرُوْرًا ) ۔ شیطان ان کو وعدوں کے بہلاوے دیتا ہے اور آرزوؤں میں پھنساتا ہے ‘ سبز باغ دکھاتا ہے ‘ مگر شیطان کے دعوے سراسر فریب ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

149. Satanic operations are based on making attractive promises and raising high hopes. Whenever Satan wants to mislead men, whether individually or collectively, he tries to inspire them with Utopian expectations. In some he inspires expectations of ecstatic pleasure and outstanding success in their individual lives. He inspires others with prospects for achieving national glory. To still others he promises the well-being of mankind. He makes people feel confident that they can arrive at the ultimate truth without the aid of revealed knowledge. He deludes others into believing that God neither exists nor that there is any Life-after-Death. He comforts others with the belief that even if there is an After-life, they will be able to escape punishment through the intercession of certain persons. In short, Satan extends to different groups of people different promises and expectations with a view to seducing them.

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :149 شیطان کا سارا کاروبار ہی وعدوں اور امیدوں کے بل پر چلتا ہے ۔ وہ انسان کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر جب کسی غلط راستے کی طرف لے جانا چاہتا ہے تو اس کے آگے سبز باغ پیش کردیتا ہے ۔ کسی کو انفرادی لطف و لذت اور کامیابیوں کی امید ، کسی کو قومی سر بلندیوں کی توقع ، کسی کو نوع انسانی کی فلاح و بہبود کا یقین ، کسی کو صداقت تک پہنچ جانے کا اطمینان ، کسی کو یہ بھروسہ کہ نہ خدا ہے نہ آخرت ، بس مر کر مٹی ہو جانا ہے ، کسی کو یہ تسلی کہ آخرت ہے بھی تو وہاں کی گرفت سے فلاں کے طفیل اور فلاں کے صدقے میں بچ نکلو گے ۔ غرض جو جس وعدے اور جس توقع سے فریب کھا سکتا ہے اس کے سامنے وہی پیش کرتا ہے اور پھانس لیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:120) لعدھم۔ وعد یعد وعد وعدۃ سے مضارع کا صیغہ واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب وہ ان سے وعدہ کرتا ہے۔ وہ ان کو ڈراتا ہے۔ یمنیہم۔ اور غلط امیدیں دلاتا ہے جھوٹی آرزوئیں پیش کرتا ہے۔ غرورا۔ دھوکہ۔ فریب۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی شیطان کی مذکورہ بالا تمنائیں اور دعوے سب غرور (خدیعہ) میں بظاہر خوشنما نظر آتے ہیں اندر سے مہلک ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : شیطان گمراہی پر آدمی کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ عمر بھر اس کے پھندے میں پھنسا رہے اور گناہوں میں آگے ہی بڑھتاچلا جائے۔ اسی وجہ سے شیطان انسان کو ہر قسم کی امیدیں دلاتا ہے۔ علامہ عبدالرحمن ابن جوزی (رح) نے شیطان کے پھندوں اور دلفریب وعدوں پر ” تلبیس ابلیس “ کے نام پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے سینکڑوں ایسے واقعات درج کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان آدمی کی طبیعت اور اس کا رجحان دیکھ کر اسے گمراہ کرتا ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ وہ کسی سخی انسان کو کنجوسی کی طرف رغبت دے بلکہ وہ سخی کو فضول خرچی و اسراف پر آمادہ کرتا ہے۔ بخیل کو فقر کا خوف دلا کر مزید کنجوس بناتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسا آدمی اپنے آپ پر خرچ کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ اسی طرح شیطان توحید کے نام پر یہ کہہ کر گناہوں پر دلیری دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ سب کچھ معاف کر دے گا۔ وہ محبت کے نام پر بےحیائی کا سبق دیتا اور بزرگوں کی عقیدت کے ذریعے شرک کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ سراسر دین کے نام پر جھوٹی امیدیں دلانا اور دھوکہ دینا ہے۔ دین کے نام پر دھوکے کو قرآن مجید نے سورة آل عمران میں یوں بیان فرمایا ہے۔ (وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّآ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ ۔۔ ) [ النساء : ٤١] ” اور انہوں نے کہا ہمیں چند گنتی کے دنوں کے علاوہ ہرگز آگ نہ چھوئے گی۔ “ یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم صرف چند دنوں کے لیے جہنم میں جائیں گے۔ اس کے بعد ہمارے لیے دائمی عیش و عشرت ہوگی۔ اسی فریب کے ذریعے عیسائیوں کو شیطان نے عقیدہ سمجھایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سولی پر لٹک کر تمہارے گناہوں کا کفارہ بن چکے ہیں۔ شیطان کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کی غالب اکثریت ابلیس کی فریب کاریوں میں آکر یہ کہتے سنائی دیتی ہے کہ جنت میں جانے کے لیے بزرگوں کی عقیدت اور کسی پیر کا مرید ہونا کافی ہے۔ ایسے لوگ شیطان کی پیروی میں اس عقیدے پر بڑاناز اور فخر کرتے ہیں ‘ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جس طرح زندگی بھر شیطان کے فریب میں مبتلا رہے اور جھوٹی امیدوں میں گھرے رہے اسی طرح جہنم میں ہمیشہ کے لیے گھرے رہیں گے اور ان کے لیے اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ شیطان کا دھوکہ اور فریب : (کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّنْکَ إِنِّیْ أَخَاف اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَآ أَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْہَا وَذٰلِکَ جَزٰؤٓا الظّٰلِمِیْنَ ) [ الحشر : ١٦، ١٧] ” شیطان کی طرح جب اس نے انسان کو کہا کہ کفر کر پھر اس نے کفر کرلیا تو کہنے لگا میں تجھ سے بری ہوں یقیناً میں تو رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ ان دونوں کا انجام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔ “ مسائل ١۔ شیطان کے وعدے مکرو فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ٢۔ شیطان اور اس کے ساتھیوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اس سے کبھی نجات نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنم سے چھٹکارا ممکن نہیں : ١۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٢۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ٣۔ جہنم میں موت وحیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ : ٧٤) ٤۔ دنیا میں لوٹ آنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ (الانعام : ٢٧) ٥۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر : ٣٦) ٦۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان : ٦٥) ٧۔ جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ (آل عمران : ١٩٧) ٨۔ جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ (الفرقان : ٦٥) ٩۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (الہمزہ : ٩٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

شیطان جھوٹے وعدے کرتا ہے اور آرزوؤں پر ڈالتا ہے : پھر فرمایا (یَعِدُھُمْ وَ یُمَنِّیْھِمْ ) کہ شیطان لوگوں سے وعدے کیا کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے۔ اللہ کی رضا مندی کے جو کام ہیں ان کے خلاف ابھارتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا کرو گے تو اس تکلیف میں پڑجاؤ گے اور ایسی ایسی لذت سے محروم ہوجاؤ گے سورة بقرہ میں فرمایا (اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بالْفَحْشَآءِ ) (شیطان تم سے تنگدستی کے وعدے کرتا ہے یعنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ نیک کاموں میں خرچ کرو گے تو تنگدست ہوجاؤ گے اور تمہیں برائیوں کا حکم دیتا ہے) آرزوئیں دلانے کا مطلب یہ ہے کہ جوانوں کو کہتا ہے کہ دل کھول کر گناہ کرلو بڑی زندگی پڑی ہے۔ توبہ کرلینا، کوئی بوڑھا شخص توبہ کرنا چاہے تو اس سے کہتا ہے ابھی تو تمہاری عمر اچھی خاصی ہے، ابھی تھوڑا ہی مر رہے ہو اس طرح سے کوئی حلال کمائی میں لگے تو اس سے کہتا ہے کہ میاں اتنے ذرا سے پیسوں میں کیا ہوگا، دنیا کما اور کھا رہی ہے تم ہی کو تقویٰ سوار ہے، ایسی باتیں سمجھا کر حرام آمدنی اور حرام کاموں کی ترغیب دیتا ہے اور اس میں بڑے بڑے فائدے بتاتا ہے اس کی باتوں میں آکر خدا پاک کا نافرمان بن جانا اپنے کو عذاب دوزخ میں دھکیلنا ہے جب دوزخ میں داخل ہونے لگیں تو کوئی راہ بچنے کی اور فرار کی نہ پائیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور میں یقینا تیرے بندوں کو صحیح راہ سے گمراہ کر دوں گا اور میں ان کو بےبنیاد امیدوں میں الجھائوں گا تاکہ وہ معاصی میں مبتلا ہوگیا اور میں ان کو یہ بھی تعلیم دوں گا کہ وہ چوپایوں کے کانوں کو چیریں اور کاٹیں اور میں ان کو یہ بھی سکھائوں گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خلق میں صورتاً اور ضعتاً تغیر و تبدل کریں اور اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑیں اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنایا اور دوست تجویز کیا یقین جانو ! وہ صریح نقصان اور کھلے ٹوٹے میں جا پڑا اور وہ کھلا دیوالیہ ہوگیا شیطان ان لوگوں سے غلط وعدے کیا کرتا ہے اور ان کو بےبنیاد آرزئوں اور امیدوں میں مبتلا کیا کرتا ہے اور شیطان ان سے جو وعدہ کرتا ہے اور جو توعقات بھی ان کو دلاتا ہے وہ صرف دھوکہ اور فریب ہے۔ (تیسیر) ضلال اور امانی سے ہر قسم کی گمراہی اور امیدیں دلانا مراد لیا جاسکتا ہے لیکن بعض لوگوں نے اضلال سے مراد اعتقاد کی گمراہی اور تمنیت سے گفاہوں پر امیدیں دلانا مراد لیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے امانی کی تفسیر میں توبہ کی تاخیر اور توبہ کو ٹالنا کیا ہے کلبی کا قول ہے کہ امانی کا مطلب یہ ہے کہ نہ دوزخ ہے نہ جنت اور ہ مرنے کے بعد جی اٹھنا بعض نے کہا امانی کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کے ساتھ جنت کی توقع دلائوں گا۔ تبتیک کے معنی ہیں کاٹنا اور پھاڑنا اور چونکہ کفار کا عام طریقہ بھی یہی تھا کہ جانوروں کو اپنے بتوں کے نام پر جب چھوڑتے تھے تو ان کے کان تھوڑے تھوڑے کاٹ دیتے تھے یا بیچ میں سے کان چیر دیا کرتے تھے اور ان کو بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کہتے تھے جس کی تفصیل انشاء اللہ ساتویں پارے میں آجائے گی۔ ہم نے ترجمہ میں دونوں لفظ لکھ دیئے ہیں تغیر فی خلق اللہ بھی عام ہے جس میں ہر قسم کی غیر شرعی تغیر داخل ہے خواہ وہ صورت کی تیغیر ہو مثلاً کسی جانور کی آنکھ پھوڑ دینا یا کسی انسان کا داڑھی منڈانا یا مرد کا عورت کی صورت اور عورت کا مرد کی صورت بنانا بدن کو گدوانا یا کسی جانور اور آدمی کا مثلہ کرنا یا صفت کی تغیر مثلاً چاند سورج کو معبود بنانا یا پتھروں کی عبادت کرنا یا فطرت سلیمہ کو بدلنا یا عورت کا عورت سے بدفعلی کرنا یا مرد کا مرد کو عورت کی جگہ استعمال کرنا وغیرہ یہ سب صورتیں تغیر کو شامل ہیں اسی طرح کسی مرد کو خصی کرنا بلکہ بعض نے تو یہاں تک عموم لیا ہے کہ داڑھی کے خضاب کو بھی شامل کرلیا ہے اور اسی لئے ہمے غیر شرعی تغییر کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ ختنہ کرانا اور ناخن کتروانا اور بڑھی ہوئی داڑھی کو شرعی حد تک کتروانا اور شرعی طور پر خضاب وغیرہ کی چیزیں اس تغییر میں داخل نہ ہوں اور اس تغییر سے وہی تفسیر مراد لی جائے جو شریعت میں ناجائز ہے ہم نے امانی میں جو بےبنیاد کی قید لگائی ہے اس کا منشا بھی یہی ہے کہ شیطان کی وہ تمام توقعات جو وہ دلاتا ہے وہ محض بےبنیاد اور محض سراب ہوتی ہیں۔ غرور کے معنی ہیں دھوکہ، فریب، دغا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام وعدے بظاہر نفع کے ہوتے ہیں لیکن وہ ضرر محض ہوتے ہیں اس لئے اس کے وعدہ کو فریب فرمایا۔ اضلال اور امانی کی جو تفسیر ہم نے کی ہے اس میں ہر قسم کے گناہ آجاتے ہیں خواہ وہ عقائد کے ہوں یا اعمال کے خواہ وہ کفر یہ عقائد و اعمال ہوں خواہ وہ فاسقانہ اعمال ہوں۔ غرض ! یعدھم ویمنیھم اور ولا ضلنھم میں شیطان کے وہ تمام مکائد اور وساوس اور اس کی تمام سیہ کاریاں داخل ہیں جو بنی آدم کی تباہی اور نقصان کا موجب ہیں۔ حضرت شاہ صاحب مبینا پر فرماتے ہیں جانوروں کے کان چیریں یہ کافروں کا دسوتر تھا گائے کا یا بکری کا ایک بچہ بت کے نام کردیا اس کے کان میں نشان ڈال دیتے اور صورت بدلنا یہ کہ لڑکے کے سر میں پوٹی رکھتے بت کے نام کی مسلمانوں کو ان کاموں سے بچنا ضرور ہے اپنے بزرگوں سے یہ معاملت نہ کرے کافر بھی جن سے کرتے تھے بزرگ ہی جان کر کرتے تھے۔ (موضح القرآن) اب آگے شیطان کے وعدوں پر یقین کرنے والوں اور اس کی امید دلانے پر بھروسہ رکھنے والوں کا انجام بیان فرماتے ہیں اور شیطان کے متبعین کے بعد ان لوگوں کا ذکر فرماتے ہیں جو اہل ایمان ہیں اور یہ قرآن کریم کا عام قاعدہ ہے کہ مشرک اور بد اطوار لوگوں کے ذکر کے ساتھ نیک بندوں کا ذکر بھی کرتا ہے تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رہیں اور احکام کا ہر پہلو پیش نظر رہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے رہیں اور احکام کا ہر پہلو پیش نظر رہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔