Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 130

سورة النساء

وَ اِنۡ یَّتَفَرَّقَا یُغۡنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیۡمًا ﴿۱۳۰﴾

But if they separate [by divorce], Allah will enrich each [of them] from His abundance. And ever is Allah Encompassing and Wise.

اور اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا ، اللہ تعالٰی وسعت والا حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But if they separate (divorce), Allah will provide abundance for everyone of them from His bounty. And Allah is Ever All-Sufficient for His creatures' needs, All-Wise. This is the third case between husband and wife, in which divorce occurs. Allah states that if the spouses separate by divorce, then Allah will suffice them by giving him a better wife and her a better husband. The meaning of, وَكَانَ اللّهُ وَاسِعًا حَكِيمًا (And Allah is Ever All-Sufficient for His creatures' needs, All-Wise.) is: His favor is tremendous, His bounty is enormous and He is All-Wise in all His actions, decisions and commandments.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

130۔ 1 یہ تیسری صورت ہے کہ کوشش کے باوجود اگر نباہ کی صورت نہ بنے پھر طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔ ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت ناپسند کیا گیا ہے، طلاق حلال تو ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے " اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے اس لئے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ مزکورہ حدیث میں صحت اسناد کے اعتبار سے اگرچہ ضعف ہے تاہم قرآن وسنت کی نصوص سے یہ واضح ہے کہ یہ حق اسی وقت استعمال کرنا چاہیے جب نباہ کی کوئی صورت کسی طرح بھی نہ بن سکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٣] اور اگر ان میں نباہ اور حسن معاشرت کی کوئی صورت نظر نہ آرہی ہو تو اسلام اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ ایک گھرانہ میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہے اور جہنم زار بنا رہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ خواہ مرد طلاق دے دے یا عورت خلع لے لے۔ پھر دونوں کا اللہ مالک ہے وہ ان کے لیے بہت سامان پیدا فرما دے گا۔ اور یہ بات کئی بار تجربہ میں آچکی ہے کہ جن دو میاں بیوی کا آپس میں نباہ ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے نالاں اور ایک دوسرے پر الزام دھرتے تھے جب دونوں الگ ہوگئے تو ان دونوں کو اللہ نے اپنے اپنے گھروں میں سکھ چین سے آباد کردیا اور پھر زندگی بھر ان نئے جوڑوں میں موافقت و موانست کی فضا برقرار رہی اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات میاں اور بیوی دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں دوسرے کے متعلق ایسی بدظنیاں اور بدگمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر سیدھی بات سے بھی غلط نتیجہ ہی اخذ کرتے ہیں۔ پھر جب انہیں نیا ماحول میسر آجاتا ہے جس میں ذہن ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف ہوتے ہیں تو ایسی کوئی کشیدگی پیدا نہیں ہوتی اور ان دونوں کی خوش باش زندگی کا نیا دور شروع ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰهُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِهٖ ۭ : یہ دوسری صورت ہے کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کی کوئی صورت باقی ہی نہیں رہی تو اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ مرد کو دوسری بیوی مل جائے گی، جو اسے پسند ہو اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا جو اس سے محبت کرے اور اس کی ضرورتوں کا خیال رکھے۔ (قرطبی) اس سے اسلام کے احکام کی حکمت، وسعت اور رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعض مذاہب میں طلاق کو حرام قرار دیا گیا ہے، ایک دفعہ جب نکاح ہوگیا اب وہ خواہ ایک دوسرے سے کتنے متنفر ہوجائیں، خواہ ان کی زندگی جہنم کا نمونہ بن جائے، طلاق نہیں دے سکتے۔ نہیں ہرگز نہیں، جب تعلق روگ بن جائے تو اس کا ٹوٹنا ہی اچھا ہے۔ اسلام نے دونوں کے لیے علیحدگی کا راستہ رکھا ہے، جس کے ذریعے سے وہ نئی زندگی شروع کر کے امن و اطمینان سے زندگی بسر کرسکتے ہیں، رہی وہ حدیث جس میں ہے : ( اَبْغَضُ الْحَلاَلِ عِنْدَ اللّٰہِ الطَّلاَقُ ) ( اللہ کے نزدیک حلال میں سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے) تو یہ حدیث صحیح سند سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [ دیکھیے إرواء الغلیل : ٧؍١٠٦، ح : ٢٠٤٠ ] وَكَان اللّٰهُ وَاسِعًا حَكِيْمًا : یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کسی کا رزق میرے ہاتھ میں ہے، اگر میں نہ دوں گا تو وہ بھوکا مرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ رازق مطلق ہے اور اس کے انتظامات انسانی سمجھ سے بالاتر ہیں، اس نے جس طرح ملاپ میں حکمت رکھی ہے، جدائی میں بھی رکھی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّتَفَرَّقَا يُغْنِ اللہُ كُلًّا مِّنْ سَعَتِہٖ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ وَاسِعًا حَكِيْمًا۝ ١٣٠ تفریق والتَّفْرِيقُ أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو : يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] ، ( ف ر ق ) الفرق التفریق اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة/ 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، غنی الغِنَى يقال علی ضروب : أحدها : عدم الحاجات، ولیس ذلک إلا لله تعالی، وهو المذکور في قوله : إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] ، الثاني : قلّة الحاجات، وهو المشار إليه بقوله : وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] ، وذلک هو المذکور في قوله عليه السلام : «الغِنَى غِنَى النّفس» والثالث : كثرة القنيّات بحسب ضروب الناس کقوله : وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] ، ( غ ن ی ) الغنیٰ ( تو نگری ) بےنیازی یہ کئی قسم پر ہے کلی طور پر بےنیاز ہوجانا اس قسم کی غناء سوائے اللہ کے کسی کو حاصل نہیں ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ [ الحج/ 64] اور بیشک خدا بےنیاز اور قابل ستائش ہے ۔ 2 قدرے محتاج ہونا اور یا تیسر پر قانع رہنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَوَجَدَكَ عائِلًا فَأَغْنى[ الضحی/ 8] اور تنگ دست پا یا تو غنی کردیا ۔ میں اغنیٰ سے اس قسم کی غنا مراد ہے اور اس قسم کی غنا ( یعنی قناعت ) کے متعلق آنحضرت نے فرمایا ( 26 ) الغنٰی غنی النفس ۔ کہ غنی درحقیقت قناعت نفس کا نام اور غنیٰ کے تیسرے معنی کثرت ذخائر کے ہیں اور لوگوں کی ضروریات کئے لحاظ سے اس کے مختلف درجات ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَمَنْ كانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ [ النساء/ 6] جو شخص آسودہ حال ہو اس کو ایسے مال سے قطعی طور پر پرہیز رکھنا چاہئے ۔ وُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٠) اور اگر دونوں میاں بیوی طلاق وغیرہ کی بنا پر علیحدہ ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ خاوند کو دوسری بیوی دے کر اور بیوی کو دوسرا خاوند عطا کر کے غنی کر دے گا اور اللہ تعالیٰ نے دنوں کے لیے عدل و انصاف والا راستہ نکال دیا ہے، اسعد بن ربیع (رض) کی ایک بیوی جوان تھیں وہ ان کی طرف زیادہ مائل تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع فرمایا اور جوان اور بوڑھی کے درمیان برابری کرنے کا حکم دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٠ (وَاِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلاًّ مِّنْ سَعَتِہٖ ط) ۔ ہو سکتا ہے کہ اس عورت کو بھی کوئی بہتر رشتہ مل جائے جو اس کے ساتھ مزاجی موافقت رکھنے والاہو اور اس شوہر کو بھی اللہ تعالیٰ کوئی بہتر بیوی دے دے۔ میاں بیوی کا ہر وقت لڑتے رہنا ‘ دنگا فساد کرنا اور عدم موافقت کے باوجود طلاق کا اختیار (option) استعمال نہ کرنا ‘ یہ سوچ ہمارے ہاں ہندو معاشرت اور عیسائیت کے اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہندومت کی طرح عیسائیت میں بھی طلاق حرام ہے۔ در اصل انجیل میں تو شریعت اور قانون ہے ہی نہیں ‘ صرف اخلاقی تعلیمات ہیں۔ چناچہ جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ ) ایسی ہی کوئی بات حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بھی فرمائی تھی کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے کہ معاشرے میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ طلاق شدہ عورت کی دوسری شادی نہ ہونے کی صورت میں اس کے آوارہ ہوجانے کا امکان ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کا وبال اسے بلاوجہ طلاق دینے والے کے سر جائے گا۔ لیکن یہ محض اخلاقی تعلیم تھی ‘ کوئی قانونی شق نہیں تھی۔ عیسائیت کا قانون تو وہی ہے جو تورات کے اندر ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) فرما گئے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ میں قانون کو ختم کرنے آیا ہوں ‘ بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت تم پر بد ستور نافذ رہے گی۔ قانون بہر حال قانون ہے ‘ اخلاقی ہدایات کو قانون کا درجہ تو نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن عیسائیت میں اس طرح کی اخلاقی تعلیمات کو قانون بنا دیا گیا ‘ جس کی وجہ سے بلا جواز پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔ چناچہ ان کے ہاں کوئی شخص اپنی بیوی کو اس وقت تک طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بدکاری کا جرم ثابت نہ کرے۔ لہٰذا وہ طلاق دینے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کر کے بیوی کو پہلے بدکردار بناتے ہیں ‘ پھر اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ‘ تب جا کر اس سے جان چھڑاتے ہیں۔ تو شریعت کے درست اور آسان راستے اگر چھوڑ دیے جائیں تو پھر اسی طرح غلط اور مشکل راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں عدم موافقت کی صورت میں طلاق کے بارے میں ایک طرح کی ترغیب نظر آتی ہے۔ (وَکَان اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیْمًا ) اللہ کے خزانے بڑے وسیع ہیں اور اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

79: مصالحت کی تمام کوششوں کے باوجود ایک مرحلہ ایسا آسکتا ہے کہ اس کے بعد نکاح کا رشتہ میاں بیوی پر تھوپے رکھنا دونوں کی زندگی کو اجیرن بناسکتا ہے، ایسی صورت میں طلاق اور علیحدگی کا راستہ اختیار کرنا بھی جائز ہے، اور یہ آیت اطمینان دلارہی ہے کہ جب خوش اسلوبی سے جدائی عمل میں آجائے تو اللہ تعالیٰ دونوں کے لئے ایسے راستے پیدا کردیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:130) یتفرقا۔ وہ دونوں الگ ہوجائیں۔ یغن اللہ۔ یغن اصل میں یغنی تھا۔ جواب شرط کی وجہ سے ی گرگئی۔ اغنی یغنی اغناء (افعال) اللہ اس کو بےاحتیاض بنا دے گا۔ محتاج نہ رکھے گا۔ بےنیاز کردیگا۔ من سعتہ۔ وسعت بخشش سے۔ یعنی اللہ خود ان کی ضروریات کو پورا کردے گا۔ سعۃ۔ وسعت۔ گنجائش۔ کشائش۔ فراخی۔ وسع یسع (سمع) کا مصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 مردکو دوسری بیوی مل جائے گی جائے گی جو اسے پسند ہو اور عورت کو دوسرا شوہر مل جائے گا۔ جو اس سے پسند ہو اور عورت کو دوسرا زشوہر مل جائے گا جو اسے محبت کرے اور اس کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھے (قرطبی)12 یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کسی کا رزق میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر میں نہ دوں گا تو وہ بھو کا مرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ رازق مطلق ہے اور اور اس کے انتظامات انسانی سمجھ کر بالا تر ہیں۔ اس نے جس طرملاپ میں حکمت رکھی ہے جدائی میں بھی رکھی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اکٹھا رہنے کی کوئی شکل باقی نہ رہے تو جدائی کی صورت میں دونوں کو تسلی دی گئی ہے۔ گھر کی چار دیواری اور میاں بیوی کے تعلقات معاشرے کی اکائی اور بنیادی یونٹ کی حیثیت رکھتے ہیں یہ یونٹ جس قدر خوشحال اور اس کا ماحول جتنا خوشگوار ہوگا۔ اتنا ہی معاشرہ مضبوط اور اچھے خطوط پر استوار ہوگا۔ اس یونٹ کو توڑ پھوڑ سے بچانے کے لیے قرآن مجید نے متعدد ہدایات جاری فرمائی ہیں۔ لیکن بسا اوقات معاملات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان پر قابو پانا کسی کے اختیار میں نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں مرد کو طلاق دینے اور عورت کو خلع لینے کا اختیار دیا ہے۔ یہ انقطاع طلاق کی صورت میں ہو یا خلع کی شکل میں بہتر سے بہتر صورت میں وقوع پذیر ہونا چاہیے۔ یہاں تک فرمایا کہ میاں بیوی کو آپس میں علیحدگی اختیار کرتے وقت سابقہ تعلقات اور محبت کو نہیں بھولنا چاہیے۔[ البقرۃ : ٢٣٧] علیحدگی کی صورت میں فریقین کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ اگر تم نے آپس میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے تو گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے اپنے مقام پر اپنی رحمت سے نوازے گا اور ایک دوسرے سے بےنیاز کر دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ وسعت و کشادگی کا مالک ہے۔ اگر اس نے تمہیں ناگزیر حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہونے کی اجازت عنایت فرمائی ہے تو اس کی حکمت یہ ہے کہ مزید لڑائی جھگڑے سے بچاؤ معاشرے میں تمہاری عزت، خاندان میں بھرم اور اولاد کے مستقبل پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب نہ ہونے پائیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں ثابت بن قیس (رض) کے اخلاق اور دین پر کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تو اس کا باغ اس کو واپس کرے گی ؟ اس نے کہا ہاں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت بن قیس کو فرمایا باغ کو قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو ۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ ] مسائل ١۔ ناگزیر صورت حال میں میاں ‘ بیوی رشتہ توڑ سکتے ہیں۔ ٢۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق ہونے کی صورت میں ہر کسی کا اللہ کفیل ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وان یتفرقا یغن اللہ کلا من سعتہ وکان اللہ واسعا حکیما (٣ : ١٣٠) (اگر زوجین ایک دوسرے سے الگ ہی ہوجائیں تو اللہ اپنی وسیع قدرت سے ہر ایک کو دوسرے کی محتاج سے بےنیاز کر دے گا ۔ اللہ کا دامن بہت کشادہ ہے اور وہ دانا وبینا ہے ۔ ) اللہ تعالیٰ دونوں سے وعدہ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے فضل اور رحمت سے دونوں کو غنی بنا دے گا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی وسعت کرنے والے ہیں اور اپنے حدود و حکمت کے اندر اور بندوں کی مصحت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لئے کشادگی کی حد مقرر فرماتے ہیں ہر شخص کے حالات کے مطابق ۔ اسلام انسانی شعور اور نفس کے پوشیدہ میلانات کے ساتھ جس طرح برتاؤ کرتا ہے اور جس طرح زندگی کے طور طریقوں کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھتا ہے وہ اس قدر حیران کن ہے کہ اگر لوگ رات دن اللہ کا شکر ادا کریں تو بھی ان کے لئے اس کا حق ادا کرنا ممکن نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں انسانی سہولت کا بہت ہی خیال رکھا گیا اور نظر آتا ہے کہ یہ نظام انسانوں کے لئے تجویز ہوا ہے ۔ وہ انسانوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو نہایت ہی گری ہوئی حالت سے اٹھاتا ہے اور انہیں نہایت ہی سربلندی تک لے جاتا ہے اور یہ عمل انسان کی فطرت کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ وہ ان کے لئے بلندی اور رفعت کا کوئی ٹارگٹ اس وقت تک تجویز نہیں کرتا جب تک ان کی فطرت میں اس کے حصول کے لئے داعیہ نہ ہو اور ان کے مزاج میں اس کی کوئی نہ کوئی جڑ موجود نہ ہو ۔ اس طرح اسلام ان کو پھر اس بلند مقام تک لے جاتا ہے جہاں تک انہیں کوئی دوسرا نظام نہیں لے جاسکتا ۔ یہ کام وہ اس طرح مثالی واقعیت پسندی یا ایسی واقعیت کے ساتھ کرتا ہے جس کی کوئی مثال نہ ہو اور پھر ایسی صورت میں کہ اس عجیب مخلوق انسانی کی اصل طبیعت اور مزاج کے مطابق ۔ خاندانی نظم کے یہ احکام جن کا تعلق خاص زوجین کی ازدواجی زندگی سے ہے اسلامی نظام حیات کا ایک حصہ ہیں اور اسلامی نظام حیات اس کائنات کے ناموس اکبر کا ایک حصہ ہے جو اللہ نے اس پوری کائنات کے اندر جاری فرمایا ہے ۔ اس لئے اسلامی نظام بھی اس کائنات کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے جب کہ دوسری طرف وہ انسانی فطرت کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہے۔ اس لئے کہ انسانی بھی اس کائنات ہی کا ایک حصہ ہے اور یہ اسلامی نظام زندگی کا نہایت ہی گہرا راز ہے اس لئے عائلی اور خاندانی نظام کے مسائل کے متصلا بعد اللہ تعالیٰ کائنات کا ذکر فرماتے ہیں جس سے یہ عائلی احکام پوری کائنات کے نظام فطرت کے ساتھ مربوط ہوجاتے ہیں ۔ گویا جس طرح انسانی زندگی میں اللہ کی حاکمیت ہے ‘ اسی طرح اس کائنات میں بھی وہی حاکم ہے ۔ وہی ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے اور یہ وہی ذات ہے جس نے تمہیں یہ احکام دیئے ہیں ۔ وہی ہے جس نے تم سے پہلی امتوں کو یہ احکام دیئے تھے اور یہ تمام احکام اور وصایا ایک ہیں اور ایک ہی منبع سے ہیں اور اسلامی نظام اس پر قائم ہے کہ اس نے نتیجے میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی نصیب ہوتی ہے اور یہ وہ اصول ہیں جو سچائی ‘ عدل اور خدا ترسی پر استوار ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ اِنْ یَّتَفَرَّقَا یُغْنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنْ سَعَتِہٖ ) یعنی اگر دونوں میاں بیوی میں کسی طرح موافقت نہ ہو پائے اور خلع یا طلاق کے ذریعہ آپس میں جدائی ہو ہی جائے تو اللہ اپنی وسعت سے ہر ایک کو ایک دوسرے سے بےنیاز فرما دے گا۔ کوئی فریق یہ نہ سمجھے کہ میرے بغیر اس کا کام چلے گا ہی نہیں اللہ تعالیٰ سب کا کار ساز ہے ہر ایک کے لیے جو مقدر فرمایا ہے وہ اس کے لیے میسر فرمائے گا اس میں فریقین کو تسلی دی ہے کہ آپس میں صلح نہ کرسکیں اور جدا ہی ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ دونوں کے لیے خیر فرمائے گا۔ مرد کو کوئی دوسری بیوی مل جائے گی اور عورت کا بھی کوئی ٹھکانہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بڑی قدرت ہے وہ اپنی وسعت اور قدرت سے دونوں کا کام بنا دے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ جو لوگ دوسری شادی کرلیتے ہیں اور پہلی بیوی کے ساتھ نہ برابری کا برتاؤ کرتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں اور ظلم کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تو ایسے ہی پڑی پڑی سڑتی رہے گی۔ ایسے ظالموں کو ان آیت کے مضامین پر خاص توجہ دینا لازم ہے۔ دنیا میں وہ مظلوم اگر کچھ نہیں کرسکتی تو آخرت تو سامنے ہے اگر انصاف نہیں کرسکتے اور برابری کے ساتھ دونوں کو نہیں رکھ سکتے تو ایک ہی بیوی کے ساتھ گزارہ کریں جیسا کہ سورة نساء کے شروع میں فرمایا (فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ) ۔ دشمنان اسلام نے تعدد ازواج کے بارے میں جو اسلام پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا جواب دینے کے لیے نام نہاد اسلام کے جھوٹے ہمدردوں نے آیت (وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْآ اَنْ تَعْدِلُوْا) کو پیش کر کے یوں کہا ہے کہ تعدد ازواج ممنوع ہے کیونکہ برابری کر ہی نہیں سکتے اس لیے ایک ہی پر بس کرنا لازم ہے۔ ان جاہل خیر خواہوں نے دشمنوں کو جواب دینے کے لیے مسئلہ شرعیہ میں تحریف کردی۔ (و لن تستطیعوا ان تعدلوا) میں فرمایا ہے کہ تم قلبی محبت میں برابری نہیں کرسکتے، جن امور میں اپنے اختیار سے برابری کرسکتے ہیں اس کے لیے (و لن تستطیعوا) نہیں فرمایا اور اسی اختیاری برابری کی بنیاد پر چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے جس کا ذکر سورة نساء کے شروع میں گزر چکا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi