Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 149

سورة النساء

اِنۡ تُبۡدُوۡا خَیۡرًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ اَوۡ تَعۡفُوۡا عَنۡ سُوۡٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیۡرًا ﴿۱۴۹﴾

If [instead] you show [some] good or conceal it or pardon an offense - indeed, Allah is ever Pardoning and Competent.

اگر تم کسی نیکی کو اعلانیہ کرو یا پوشیدہ ، کسی برائی سے درگزر کرو ، پس یقیناً اللہ تعالٰی پوری معافی کرنے والا اور پوری قدرت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Whether you disclose a good deed, or conceal it, or pardon an evil; verily, Allah is Ever Pardoning, All-Powerful. Meaning when you, mankind, admit to a good favor done to you, or conceal it, and forgive those who wrong you, then this will bring you closer to Allah and increase your reward with Him. Among Allah's attributes is that He forgives and pardons His servants, although He...  is able to punish them. Hence Allah's statement, فَإِنَّ اللّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا (Verily, Allah is Ever Pardoning, All-Powerful). It was reported that some of the angels who carry Allah's Throne praise Him saying, "All praise is due to You for Your forbearing even though You have perfect knowledge (in all evil committed)." Some of them supplicate, "All praise is due to You for Your forgiving even though You have perfect ability (to punish)." An authentic Hadith states, مَا نَقَصَ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ وَلاَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلاَّ عِزًّا وَمَنْ تَوَاضَعَ للهِ رَفَعَهُ الله No charity shall ever decrease wealth, and Allah will only increase the honor of a servant who pardons, and he who is humble for Allah's sake, then Allah will elevate his grade.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

149۔ 1 کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (جسے گالی دی گئی اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ...  معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفو درگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لیے فرمایا " جَزَاۗءُ سَـيِّئَةٍۢ بِمِثْلِهَا " 010:027 (برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے) اور حدیث میں بھی ہے کہ معاف کردینے سے اللہ تعالی عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔ صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٨] عفو و درگزر :۔ اس کے برعکس اے مسلمانو ! اگر تم کسی زیادتی کا جواب بھلائی سے دو یا ظالم کو بددعا کی بجائے دعا دو یا علانیہ یا خفیہ اس کی بھلائی کی کوئی تدبیر سوچو یا اس کا قصور معاف بھی کردو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ کیونکہ تمہارا پروردگار ہر طرح کی قدرت رکھنے کے باوجود ظالموں حتیٰ کہ م... شرکوں اور کافروں کو رزق بھی دیئے جاتا ہے اور انہیں مہلت بھی دیئے جاتا ہے اور ضمناً ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح کسی کی برائی بیان کرنا یعنی غیبت گناہ کبیرہ ہے اسی طرح کسی کے عیب پر پردہ ڈالنا یا پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے اب معافی اور پردہ پوشی کے متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ آپ نے فرمایا & معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھاتا ہے۔ & (مسلم، کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع) ٢۔ پردہ پوشی بہت بڑی نیکی ہے :۔ آپ نے فرمایا & میری تمام امت کو معاف کردیا جائے گا بجز (گناہ) ظاہر کرنے والوں کے، اور وہ گناہ یہ ہے کہ آدمی رات کو کوئی (برا) کام کرے۔ پھر جب صبح ہو تو اگرچہ اللہ نے اس عمل پر پردہ ڈال دیا تھا، وہ کہے & اے فلاں ! میں نے آج رات یہ اور یہ کام کیا تھا۔ اللہ نے تو اس کے عیب پر پردہ ڈالا تھا مگر اس نے اپنے عیب سے اللہ کے پردہ کو کھول دیا۔ & (مسلم، کتاب الزہد، باب النھی عن ہتک الانسان ستر نفسہ۔۔ بخاری کتاب الادب، باب ستر المومن علی نفسہ) ٣۔ ابن عمر (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا & جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔ & (بخاری، کتاب المظالم، باب لایظلم المسلم المسلم) ٤۔ آپ نے فرمایا (& قیامت کے دن) تم میں سے کوئی شخص اپنے پروردگار سے اتنا قریب ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا بازو رکھ دے گا۔ پھر فرمائے گا، & تم نے فلاں فلاں کام کیے تھے & وہ کہے گا & ہاں۔ & پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے & تم نے فلاں اور فلاں کام بھی کیا تھا ؟ & وہ کہے گا & ہاں & گویا وہ ہر جرم کا اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا & میں نے دنیا میں ان پر پردہ ڈال دیا تھا اور آج تجھے معاف کرتا ہوں۔ & (بخاری، کتاب الادب باب ستر المومن علی نفسہ نیز کتاب المظالم، باب قول اللہ تعالیٰ الالعنۃ اللہ علی الظالمین) ٥ سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا شخص اور اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی :۔ سیدنا ابوذر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر جنت میں داخل ہوگا اور سب سے بعد دوزخ سے نکلے گا۔ وہ شخص قیامت کے دن حاضر کیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اس کے ہلکے گناہ پیش کرو، بھاری نہ کرو۔ چناچہ اس کے ہلکے گناہ پیش کر کے اسے کہاں جائے گا۔ کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیے تھے۔ وہ کہے گا ہاں اور انکار نہ کرسکے گا اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا کہ کہیں وہ پیش نہ کردیئے جائیں۔ اس کے لیے حکم ہوگا کہ تیری ہر برائی کے عوض تجھے ایک نیکی دی جاتی ہے۔ یہ سن کر وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! میں نے تو کچھ اور بھی کام کیے تھے جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔ (مسلم کتاب الایمان۔ باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار ان احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کسی شخص کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنی سابقہ زندگی کے عیوب، جن پر اللہ نے پردہ ڈال رکھا تھا لوگوں کی سامنے ظاہر کرے اور نہ ہی توبہ اس بات کی مقتضی ہے کہ کسی کے سامنے اپنا کچا چٹھہ کھولے۔ جیسا کہ عیسائیوں میں یہ دستور ہے کہ توبہ کے وقت پادری کے سامنے گزشتہ عیوب کا اظہار و اقرار کرایا جاتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنْ تُبْدُوْا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا۔۔ : اس آیت میں معاف کردینے کی ترغیب ہے، یعنی اگرچہ ظالم کا شکوہ یا اس کے حق میں بد دعا جائز ہے، تاہم عفو و درگزر سے کام لینا بہتر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود پوری قدرت رکھنے کے باوجود بہت معاف کرنے والا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ف... رمایا : ” مال صدقے سے کم نہیں ہوتا اور معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے اور کوئی شخص اللہ کے لیے نیچا نہیں ہوتا مگر اللہ تعالیٰ اسے اونچا کردیتا ہے۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب العفو والتواضع : ٢٥٨٨ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Out of these verses, the first (148) and the second (149) give a law to eradicate injustice and oppression from the world. But, this is not like the usual worldly laws which are limited to dictatory formulations. This, in turn, is the kind of law which tries a combination of persua¬sion and awe whereby, on the one hand, the victim of injustice has been permitted to protest against the p... erpetrator of injustice, or to go to a court of law to seek redress. All this is nothing but the basic demand of justice and, certainly, a source of eradication of crimes. But, along with this option, there is a restriction on it as mentioned in Surah al-Nahl: وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْ‌تُمْ لَهُوَ خَيْرٌ‌ لِّلصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٢٦﴾. It means: &If a person inflicts injustice on you, you too can retaliate against him for that injustice. But, the condition is that your retaliation should not exceed the unjust aggressive action by him - if so, it is you who would turn into the unjust one.& (16:126) The outcome is that returning an injustice by another injustice is not allowed. Rather, the retaliation to injustice, if any, can be made only through justice. On the other hand alongwith this course of action, comes the instruction that revenge is, though permissible, yet observing patience (Sabr) and forgiving is better. This verse also tells us that for an oppressed person who goes about complaining to people about the injustice done to him or her, this will not be included under backbiting ghibah غِیبہ ، which is Haram (forbidden) - because it is the oppressor who has given the victim the opportunity to complain. Thus, the Holy Qur&an has, on the one hand, allowed the oppressed person to use the option of &even retaliation& against the injustice. On the other hand, by teaching the oppressed to practice high morals and to forgive and forget, and by focusing before him the great gain of the life-to-come, the victim of injustice has been persuaded to do a little sacrifice in this matter of his legitimate right and take no revenge for the injustice inflicted. The Holy Qur&an says: إِن تُبْدُوا خَيْرً‌ا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرً‌ا ﴿١٤٩﴾ If you do good openly or keep it secret or overlook an evil deed, then, Allah is All-Forgiving, All-Powerful - 4:149 It means: If you do a good deed openly or do it secretly or forgive any injustice or evil done by someone, then, this is better, because Allah is All-Forgiving, All-Powerful. Primarily, this verse is concerned with the forgiving of injustice but, by also mentioning the doing of what is good, openly or secretly, the hint given is that this act of over-looking and forgiving is great and anyone who elects to do it shall become deserving of the mercy and forgiveness from Almighty Allah. Towards the end of the verse, by saying فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرً‌ا (Allah is All-Forgiving, All-Powerful), it has been made clear that Allah is powerful in the absolute sense. He can punish whomsoever He wills, yet He is All-Forgiving. Now, a human being, who does not have much of power or choice, were to think of taking revenge, it is quite possible that he may just not have the capability to do that. Therefore, for such a person, overlooking and forgiving is far more desirable. This is the principle which the Holy Qur&an enunciates to eradicate injustice and reform the society. The counsel, befitting of the Sustainer of everything, does, on the one hand permit retaliation in an equal measure, thus upholding justice. On the other hand, it exhorts the aggrieved party to forgive and forgo. The result is what has been described in Qur&an at another place: فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ |"You will see that he with whom you had enmity has become your closest friend|" (41:34). Court decisions and taking of revenge for injustices do play a role in checking injustice. The fact, however, is that the parties to the dispute are usually left saddled with long term grievances and feelings of abhorrence against each other which can result in further disputes in the future. The impeccable lesson in morality, given by Holy Qur&an results in patch up among quarrelling parties such that even old enmi¬ties change into close and lasting friendships. Now, we move on to verses 150, 151 and 152 where the Holy Qur&an has given the clear verdict that anyone who believes in Allah but does not believe in His messengers (علیہم السلام) ، or believes in some of them and does not believe in some others is not a believer in the sight of Allah. He is, rather, an open and avowed disbeliever for whom there is no road to salvation in the Hereafter. Let us examine this aspect of the verses concerned in some detail.  Show more

معارف ومسائل ان آیات میں سے پہلی آیت اور دوسری آیت دنیا سے ظلم و جور کے مٹانے کا ایک قانون ہے، مگر عام دنیا کے قوانین کی طرح نہیں جس کی حیثیت صرف آمرانہ ہوتی ہے، بلکہ ترغیب و ترہیب کے انداز کا ایک قانون ہے جس میں ایک طرف تو اس کی اجازت دے دیگئی ہے کہ جس شخص پر کوئی ظلم کرے تو مظلوم اس کے ظلم کی شک... ایت، یا کسی عدالت میں چارہ جوئی کرسکتا ہے، جو عین عدل و انصاف کا تقاضا اور انسداد جرائم کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ ایک قید بھی سورة نحل کی آیت میں مذکور ہے، وان عاقبتم فعاقیوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین (آیت نمبر ٦٢١) یعنی اگر کوئی شخص تم پر ظلم کرے تو تم بھی اس سے ظلم کا بدلہ لے سکتے ہو، مگر شرط یہ ہے کہ جتنا ظلم وتعدی اس نے کیا ہے بدلہ میں اس سے زیادتی نہ ہونے پائے، ورنہ تم ظالم ہوجاؤ گے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ظلم کے جواب میں ظلم کی اجازت نہیں بلکہ ظلم کا بدلہ انصاف سے ہی لیا جاسکتا ہے، اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت ہے کہ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر صبر کرنا اور معاف کردینا بہتر ہے۔ اور آیت مذکورہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جس پر کسی نے ظلم کیا ہو اگر وہ ظلم کی شکایت، حکایت لوگوں سے کرے تو یہ غیبت حرام میں داخل نہیں، کیونکہ اس نے خود اس کو شکایت کرنے کا موقع دیا ہے، غرض قرآن حکیم نے ایک طرف تو مظلوم کو ظلم کا مساوی بدلہ لینے کی اجازت دے دی اور دوسری طرف اعلی اخلاق کی تعلیم، عفو و درگزر اور اس کے بالمقابل آخرت کا عظیم فائدہ پیش نظر کر کے مظلوم کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے اس جائز حق میں ایثار سے کام لے ظلم کا انتقام نہ لے، ارشاد فرمایا : ان تبدواخیراً اوتخفوہ اوتعفوا عن سوٓء فان اللہ کان عفواً قدیراً ” یعنی اگر تم کوئی نیکی ظاہر کر کے کر دیاخفیہ طور پر کرو، یا کسی کے ظلم اور برائی کو معاف کردو تو یہ بہتر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والے اور بڑی قدرت والے ہیں۔ “ اس آیت میں اصل مقصد تو ظلم کے معاف کرنے سے متعلق ہے، مگر اس کے ساتھ علانیہ اور خفیہ نیکی کا بھی ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ یہ عفو و درگزر ایک بڑی نیکی ہے جو اس کو اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ کے عفو و رحمت کا مستحق ہوجائے گا۔ آخر آیت میں فان اللہ کان عفواً قدیراً فرما کر یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ، قادر مطلق ہیں جس کو جو چاہیں سزا دے سکتے ہیں، اس کے باوجود بہت معاف کرنے والے ہیں تو انسان جس کو قدرت و اختیار بھی کچھ نہیں وہ اگر انتقام لینا بھی چاہے تو بہت ممکن ہے کہ اس پر قدرت ہی نہ ہو، اس لئے اس کو تو عفو و درگزر اور بھی زیادہ مناسب ہے۔ یہ ہے رفع ظلم اور اصلاح معاشرہ کا قرآنی اصول اور مربیانہ انداز کہ ایک طرف برابر کے انتقام کا حق دے کر عدل و انصاف کا بہترین قانون بنادیا، دوسری طرف مظلوم کو اعلی اخلاق کی تعلیم دے کر عفو و درگزر پر آمادہ کیا، جس کا لازمی نتیجہ وہ ہے جس کو قرآن کریم نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : فاذا الذین بینک وبینہ عداوة کانہ ولی حمیم (١٤: ٤٣) یعنی جس شخص کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی اس طرز عمل سے وہ تمہارا مخلص دوست بن جائے گا۔ “ عدالتی فیصلہ اور ظلم کا انتقام لے لینے سے ظلم کی روک تھام ضرر ہوجاتی ہے، لیکن فریقین کے دلوں میں وہ ایک دیرپا اثر چھوڑ جاتے ہیں جو آئندہ پھر باہمی جھگڑوں کا ذریعہ بن سکتے ہیں ........ اور یہ اخلاقی درس جو قرآن کریم نے دیا اس کے نتیجہ میں گہرئی اور پرانی عداوتیں دوستیوں میں تبدیلی ہوجاتی ہیں۔ تیسری اور چوتھی اور پانچویں آیات میں قرآن حکیم نے یہ کھلا ہوا فیصلہ دیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو مانے مگر اس کے رسولوں پر ایمان نہ لائے، یا بعض رسولوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے وہ اللہ کے نزدیک مومن نہیں، بلکہ کھلا کافر ہے جس کی نجات آخرت کی کوئی راہ نہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ تُبْدُوْا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْۗءٍ فَاِنَّ اللہَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيْرًا۝ ١٤٩ بدا بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] ( ب د و ) بدا ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معن... ی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر/ 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٩) اگر تم خوبی اور بھلائی کے ساتھ جواب دو اور اس کو گھٹیا نہ سمجھو یا ظلم پر درگزر کرو تو اللہ تعالیٰ مظلوم کو معاف کرنے والا اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٩ (اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ ) جہاں تک تو خیر کا معاملہ ہے تم اسے بلند آواز سے کہو ‘ ظاہر کرو یا چھپاؤ برابر کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے خیر تو ہر حال میں خیر ہی ہے ‘ عیاں ہو یا خفیہ۔ (اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا ) اپنے ساتھ ہونے والی ... زیادتی کو معاف کردینا یقیناً نیکی کا ایک اونچا درجہ ہے۔ اس لیے یہاں ترغیب کے انداز میں مظلوم سے بھی کہا جا رہا ہے کہ اگرچہ تمہیں چھوٹ ہے ‘ تمہاری بدگوئی کی بھی تم پر کوئی گرفت نہیں ‘ لیکن زیادتی کی تلافی کا اس سے اعلیٰ اور بلند تر درجہ بھی ہے ‘ تم اس بلند درجے کو حاصل کیوں نہیں کرتے ؟ وہ یہ کہ تم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو معاف کر دو ۔ اس کے ساتھ اللہ کی قدرت کا ذکر بھی ہوا ہے کہ انسان تو بسا اوقات بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کے باعث معاف کرنے پر مجبور بھی ہوجاتا ہے ‘ جبکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ قدیر ہے ‘ وہ تو جب چاہے ‘ جیسے چاہے ) (there & then خطاکار کو فوراً سزا دے کر حساب چکاسکتا ہے۔ لیکن اتنی قدرت کے باوجود بھی وہ معاف فرما دیتا ہے۔ آئندہ آیات میں پھر وحدت الادیان جیسے اہم مضمون کا تذکرہ ہونے جا رہا ہے اور اس سلسلے میں یہاں تمام غلط نظریات کی جڑ کاٹی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ بات زیر بحث آچکی ہے کہ فلسفۂ وحدت ادیان کا ایک حصہ صحیح ہے۔ وہ یہ کہ اصل (origin) سب ادیان کی ایک ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ مختلف ادیان کی موجودہ شکلوں میں بھی یک رنگی اور ہم آہنگی ہے تو اس سے بڑی حماقت ‘ جہالت ‘ ضلالت اور گمراہی کوئی نہیں۔ یہاں پر اب کانٹے کی بات بتائی جا رہی ہے کہ دین میں جس چیز کی وجہ سے بنیادی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ اصل میں کیا ہے۔ وہ غلطی یا خرابی ہے اللہ اور رسولوں میں تفریق ! ایک تفریق تو وہ ہے جو رسولوں کے درمیان کی جاتی ہے ‘ اور دوسری تفریق اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علیحدہ علیحدہ کردینے کی شکل میں سامنے آتی ہے ‘ اور یہ سب سے بڑی جہالت ہے۔ فتنۂ انکار حدیث اور انکار سنت اسی جہالت و گمراہی کا شاخسانہ ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اہل قرآن سمجھتے ہیں اور ان کا نظریہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام قرآن پہنچا دینا تھا ‘ سو انہوں نے پہنچا دیا ‘ اب اصل معاملہ ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے۔ اللہ کی کتاب عر بی زبان میں ہے ‘ ہم اس کو خود سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو جو اس کی تشریح سمجھائی تھی اور اس زمانے کے لوگوں نے اسے قبول کیا تھا ‘ وہ اس زمانے کے لیے تھی۔ گویا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریح کوئی دائمی چیز نہیں ‘ دائمی شے صرف قرآن ہے۔ اس طرح انہوں نے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جدا کردیا۔ یہاں اسی گمراہی کا ذکر آ رہا ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

177. This verse embodies a moral directive of very high value to the Muslims. The hypocrites, the Jews and the polytheists were all bent on placing all kinds of obstacles in the way of the spread of Islam: They eagerly persecuted the Muslims and used all possible means, however malicious, against them. Such an attitude inevitably created anger and resentment. It was in the context of this storm of...  bitter feelings that God told the Muslims that He did not consider speaking ill of people as praiseworthy. No doubt the Muslims had been wronged, and if a wronged person speaks out against a wrong-doer, he is quite justified in doing so. Even though this is a person's right, it is more meritorious to continue to do good both in public and in private, and to ignore the misdeeds of others. For one's ideal should be to try to approximate to God's way as far as possible. God with whom one wants to be close is lenient and forbearing; He provides sustenance even to the worst criminals and seeks mitigating circumstances in even the most serious offences. In order to become close to God, one ought to be generous in spirit and full of tolerance.  Show more

سورة النِّسَآء حاشیہ نمبر :177 اس آیت میں مسلمانوں کو ایک نہایت بلند درجہ کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے ۔ منافق اور یہودی اور بت پرست سب کے سب اس وقت ہر ممکن طریقہ سے اسلام کی راہ میں روڑے اٹکانے اور اس کی پیروی قبول کرنے والوں کو ستانے اور پریشان کر نے پر تلے ہوئے تھے ۔ کوئی بدتر سے بدتر تدبیر ایسی...  نہ تھی جو وہ اس نئی تحریک کے خلاف استعمال نہ کر رہے ہوں ۔ اس پر مسلمانوں کے اندر نفرت اور غصہ کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں اس قسم کے جذبات کا طوفان اٹھتے دیکھ کر فرمایا کہ بدگوئی پر زبان کھولنا تمہارے خدا کے نزدیک کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ تم مظلوم ہو اور اگر مظلوم ظالم کے خلاف بد گوئی پر زبان کھولے تو اسے حق پہنچتا ہے ۔ لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ خفیہ ہو یا علانیہ ہر حال میں بھلائی کیے جاؤ اور برائیوں سے درگزر کرو ، کیونکہ تم کو اپنے اخلاق میں خدا کے اخلاق سے قریب تر ہونا چاہیے ۔ جس خدا کا قرب تم چاہتے ہو اس کی شان یہ ہے کہ نہایت حلیم اور بردبار ہے ، سخت سے سخت مجرموں تک کو رزق دیتا ہے اور بڑے سے بڑے قصوروں پر بھی در گزر کیے چلا جاتا ہے ۔ لہٰذا اس سے قریب تر ہونے کے لیے تم بھی عالی حوصلہ اور وسیع الظرف بنو ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

76: اشارہ یہ کیا جا رہا ہے کہ اگرچہ مظلوم کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کی حد تک اس کی برائی کرے، لیکن اگر کوئی شخص مظلوم ہونے کے باوجود خطیہ اور علانیہ ہر حالت میں زبان سے ہمیشہ اچھی بات ہی نکالے، اور اپنا حق معاف کردے تو یہ اس کے لیے بڑے ثواب کا کام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ی... ہی ہے کہ وہ سزا پر قدرت رکھنے کے باوجود کثرت سے لوگوں کو معاف کردیتا ہے  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:149) تبدوا۔ مضارع جمع مذکر حاضر۔ اصل میں تبدون تھا۔ ان کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ ابداء سے۔ تم ظاہر کرو۔ تعفوا عن۔ عفو سے جمع مذکر حاضر۔ یہ بھی اصل میں تعفون تھا۔ ان شرطیہ کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ عقاعن۔ معاف کرنا۔ سزا نہ دینا۔ تعفوا عن۔ تم برائی کو معاف کردو۔ تم دوگزر کرو۔ تم برائی کی سزا ن... ہ دو ۔ عفوا۔ بروزن فعول عفو سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور عفو کے معنی برائی سے یا گناہ سے درگزر کرنے کے ہیں۔ عفوا۔ بہت زیادہ معاف کرنے وعالا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس میں عفو کی ترغیب ہے (قرطبی) یعنی اگرچہ ظالم کا شکوہ یا اس کے حق میں بد دعاجائز ہے تاہم عفو درگزر سے کام لینا بہتر ہے حدیث میں ہے ولا زاد اللہ عبدا بعفوا الا عزا کہ جو شخص معاف کر یتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔ (ابن کثیر) یہ دو جملے برو خیر کے تمام شعبوں پر مشتمل ہیں (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” ان تبدوا خیرا اوتخفوہ اوتعفوا عن سوء فان اللہ کان عفوا قدیرا (٤ : ١٤٩) (لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کئے جاؤ ‘ یا کم از کم برائی سے درگزرکو ‘ تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنیوالا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ “ ) یوں اسلام کا منہاج تربیت نفس مومن اور جماع... ت مسلمہ کو ایک قدم اور بلند کردیتا ہے پہلا مرحلے میں کہا جاتا ہے کہ کسی شریف انسان کیلئے بدگوئی کے ساتھ منہ کھولنا اچھا نہیں ہے۔ اس مرحلے میں ایک استثنائی صورت یہ رکھی جاتی ہے کہ مظلوم بدگوئی کرکے بدلہ بھی لے سکتا ہے اور حصول انصاف کو بھی ممکن بنا سکتا ہے ۔ دوسرے مرحلے پر اہل ایمان کو آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ سب کے سب بھلائی کیلئے ہر وقت کوشاں رہیں اور جس شخص پر ظلم کیا گیا ہے اور وہ بدگوئی کرکے اپنا بدلہ لے سکتا ہے اسے بھی یہ کہا گیا ہے کہ اگر وہ معاف کر دے اور صرف نظر کرے تو یہ نہایت ہی اچھا فعل ہے۔ یہ نہایت ہی بلند اخلاقی ہے ‘ بشرطیکہ وہ انتقام پر قادر ہو اور وہ انتقام کے بجائے عفو و درگزر کو ترجیح دے ۔ کیونکہ قدرت انتقام کے بغیر عفو کیا معنی ؟ گدا گر تواضع کند خوائے اوست۔ اگر عفو و درگزر کی نیکی کھل کر کریں تو معاشرہ میں عفو و درگزر کی رسم چلے گی اور نیکی پھیلے گی اور اگر وہ یہ نیکی خفیہ طور پر کریں گے تو بھی تزکیہ نفوس کا کام ہوگا ۔ بھلائی اگر اعلانیہ کی جائے تو بھی مفید ہے اور اگر خفیہ کی جائے تو بھی مفید ہے ۔ جب لوگوں کے درمیان عفو و درگزر عام ہوگا تو بدگوئی کرنے کے مواقع خود ہی کم ہوتے چلے جائیں گے بشرطیکہ یہ عفو و درگزر وہ شخص کرے جو انتقام پر قدرت رکھتا ہو ۔ لیکن اگر کسی شخص کی کمزوری اسے عفو پر مجبور کر رہی ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوگا ۔ یہ عفو و درگزر اللہ تعالیٰ کے اخلاق کو اپناتے ہوئے ہونا چاہئے ۔ اللہ قدرت کے باوجود عفو سے کام لیتا ہے ۔ (آیت) ”(فان اللہ کان عفوا قدیرا) (٤ : ١٤٩) (اللہ بڑا معاف کرنیوالا ہے حالانکہ وہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے) اس کے بعد بات کا رخ اہل کتاب کی طرف پھرجاتا ہے ۔ پہلے تمام اہل کتاب کے حوالے سے بات ہوتی ہے ۔ اس کے بعد خصوصا یہودیوں کے بعض کارناموں کا تذکرہ ہوتا ہے اور آخر میں نصاری پر تنقید ہوتی ہے ۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہ السلام) کے بارے میں سخت بدگوئی کرتے تھے اور ان کی ذات کے بارے میں بہتان باندھتے تھے ۔ اس حصہ کلام میں ان کی ان بدگویوں کا ذکر بھی ہوتا ہے ۔ اس طرح یہودیوں پر کی جانے والی تنقید کا رابطہ دو سابقہ آیات سے بھی واضح ہوجاتا ہے جن میں بدگوئی کی ممانعت کی گئی ہے ۔ اہل کتاب اور یہود ونصاری پر یہ تنقید بھی اس معرکے کا حصہ ہے جو مدینہ میں جماعت مسلمہ کو اس کے دشمنوں کے ساتھ درپیش تھا جس کا ایک بہت بڑا حصہ اس سورة میں اور سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں تفصیلا بیان ہوا ہے ۔ اس معرکے کی تفصیلات قرآنی ترتیب کے مطابق ملاحظہ ہوں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں فرمایا (اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا) (اگر تم خیر کو ظاہر کرو یا اس کو چھپاؤ یا برائی کو معاف کرو تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا قدرت رکھنے والا ہے) اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ جو بھی خیر کا کام کرو...  گے ظاہراً ہو یا پوشیدہ (عبادت بدنی ہو یا مالی ہو) یا کسی ظلم و زیادتی کو معاف کر دو گے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے۔ قدرت والا ہے وہ تمہارے اعمال کا بدلہ دینے پر قادر ہے اور وہ معاف کرنے والا بھی ہے معاف کرنا بھی بہت بڑا نیک عمل ہے۔ سورة نور میں فرمایا (وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ) (اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر کریں کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے اور اللہ غفور رحیم ہے) جو شخص معاف کردیتا ہے اللہ تعالیٰ شانہ کے یہاں اس کا بڑا مرتبہ ہے۔ یہ دنیا و آخرت میں اس کی عزت بڑھنے کا سبب بن جاتا ہے، حضرت ابو کبشہ انماری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ہیں جنہیں میں قسم کھا کر بیان کرتا ہوں اور وہ تین یہ ہیں کہ صدقہ کی وجہ سے کسی بندہ کا مال کم نہیں ہوگا اور جس کسی بندہ پر کوئی ظلم کیا گیا جس پر اس نے صبر کرلیا تو اللہ اس کی عزت بڑھا دے گا۔ اور جس کسی نے (مخلوق سے) سوال کرنے کا دروازہ کھول دیا اللہ اس پر تنگدستی کا دروازہ کھول دے گا (یعنی وہ ہمیشہ فقیر ہی رہے گا جس قدر بھی مال جمع کرے اس کا فقر ختم نہیں ہوگا) ۔ (رواہ الترمذی وقال حدیث صحیح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ اے رب تیری نزدیک بندوں میں سب سے بڑا عزت والا کون ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مَنْ اِذَا قَدَرَ غَفَرَیعنی جو شخص قدرت ہوتے معاف کر دے وہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا ہے۔ اور حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنی زبان کو محفوظ رکھے اللہ اس کی پوشیدہ چیزوں کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اور جو شخص اپنے غصہ کو روک لے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اپنے عذاب کو روک لے گا اور جو شخص اللہ کی بار گاہ میں عذر پیش کرے اللہ تعالیٰ اس کے عذر کو قبول فرما لیتا ہے۔ (ذکر الروایتین صاحب المشکوٰۃ صفحہ ٤٣٤ عن شعب الایمان)  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

97 یہ خطاب مومنوں سے ہے یعنی اگر تم علانیہ کسی پر احسان کرو یا چھپا کر یا کسی کی غلطیوں سے در گذر کرو تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ باوجودیہ کہ قدرت کاملہ کا مالک ہے مگر پھر بھی گنہگاروں سے عفو و در گذر فرماتا ہے اس لیے بیشک منافقین کافروں سے دوستی رکھتے ہیں لیکن اس بناء پر تم ان کے خل... اف اپنے دلوں میں بغض وعداوت اور انتقام کا جذبہ مت پیدا کرو بلکہ معاف کرو اور در گذر سے کام لو ممکن ہے تمہارا ایسا رویہ ان کے اخلاص کا باعث بن جائے۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہتا پھرے مگر ہاں وہ شخص کہ جس پر ظلم کیا گیا ہو یعنی مظلوم اپنے ظالم کی نسبت کچھ شکایت وغیرہ کا اظہار کرے تو گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ مظلوم کی خوب سننے والا اور ظالم کے ظلم کو خوب جاننے والا ہے اگر تم علانیہ کوئی بھلا کام کرو یا اس...  کو خفیہ کردیا کسی کی برائی کو معاف کردو تو یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ بڑا درگذر اور معاف کرنیوالا اور بڑی قدرت والا ہے۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کسی میں عیب دین یا دنیا معلوم کرے تو اس کو مشہور نہ کرے کیونکہ اللہ سنتا اور جانتا ہے وہ ہر کسی کی جزا دے گا اسی کو غنیب کہتے ہیں اس میں مظلوم کو ردا ہے کہ ظالم کا ظلم بیان کرے اسی طرح اور بھی کئی مقام میں غیبت روا ہے یہ حکم شاید اس پر فرمایا کہ منافق کا نام مشہور نہ کرے جیسے حضرت نے مشہور نہیں کیا اس میں اس کا دل زیادہ ہی بگڑتا ہے مبہم نصیحت کرے منافق آپ سمجھ لے گا اس میں شاید ہدایت پاوے۔ (موضح القرآن) آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند اور اس کے نزدیک مبغوث ہے کہ کسی شخص کی برائی کا تذکرہ اور چرچا کیا جائے اور کسی کی شکایت کی جائے البتہ اگر کوئی مظلوم ہو اور کسی پر زیادتی کی گئی ہو تو وہ اس ظالم اور زیادتی کرنے والے کی شکایت کرسکتا ہے اور اس قسم کی شکایت کرنے الے کو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ سمیعاً علیماً کا مطلب اگرچہ عام ہے مگر موقعہ کی مناسبت سے ہم نے تیسیر میں مظلوم کی بات خوب سنتا اور ظالم کو خوب جانتا ہے کردیا اور چونکہ وہ مظلوم کی بات اور اس کی شکایت کو سنتا ہے تو اس لئے شکایت میں احتیاط کرنی چاہئے اور خلاف واقعہ کی کوئی بات نہیں کہنی چاہئے پھر فمایا کہ ہرچند ظلم و زیادتی کرنیوالوں کی شکایت اور شکوہ روا ہے لیکن اگر تم کوئی نیک کام علانیہ کردیا خفیہ کردیا زیادتی کرنیوالے کی برائی کو معاف ہی کردو تو یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہا للہ تعالیٰ بھی بڑا معاف کرنے والا ہے اور وہ بڑی قدرت رکھنے والا ہے یعنی اپنے مخالف سے انتقام لینے کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردیتا ہے تو تم اللہ تعالیٰ کے اخلاق اور اس کی تہذیب اختیار کرو اگرچہ خیر میں بھی مظلوم سے درگذر کرنا داخل تھا کیونکہ کسی کی زیادتی کو معاف کرنا یہ بھی کار خیر ہی ہے لیکن پھر خصوصیت کے ساتھ فرمایا۔ اوتعفوا عن سوء کہ اگر برائی کو بالکل ہی معاف کردو اور کوئی شکوہ شکایت نہ کرو اور صبر سے کام لو تو یہ اچھا ہے اور جہر بالسوء کا یہ مطلب نہیں کہ شکوہ اور شکایت بلند ہی آواز سے کی جائے بلکہ ہلکی آواز سے کچھ کہا جائے تو اس کا بھی یہ حکم ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے آیت کو غیبت پر حمل کیا ہے شاہ صاحب کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں حصر حقیقی نہیں بلکہ حصر اضافی ہے اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص سے دینی یا دنیوی ضرر پہونچتا ہو تو اس سے بھی لوگوں کو مطلع کردینا چاہئے۔ غرض ! بلا ضرورت شرعی اور بلا کسی مصلحت کے کسی شخص کی بدگوئی اور عیب بیانی جائز نہیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جس مظلوم نے اپنے ظالم کو معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ مظلوم کی عزت اور بلند کر دے گا۔ ابن عمر کی روایت میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی مرتبہ معاف کیا کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر دن میں ستر مرتبہ درگذر کیا کر اس روایت کو ترمذی ابو دائود اور ابو یعلی نے نقل کیا ہے حضرت مقاتل نے کہا یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص حضرت ابوبکر صدیقی (رض) کے روبرو ان کو برا بھلا کہہ رہا تھا حضرت ابوبکر (رض) خاموشی تھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تشریف رکھتے تھے پھر ابوبکر (رض) نے بھی اس کو جواب دینا شروع کیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس سے اٹھ کر چلے گئے بعد میں ابوبکر (رض) نے دریافت کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک میں خاموش سنتا رہا تو آپ تشریف فرما رہے اور جب میں نے مدافعت میں کہنا شروع کیا تو آپ تشریف لے گئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک تو خاموش سنتا رہا تو آپ تشریف فرما رہے اور جب میں نے مدافعت میں کہنا شروع کیا تو آپ تشریف لے گئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک تو خاموش رہا تو ایک فرشتہ تیری طرف سے اس کو جواب دے رہا تھا اور جب تو نے خود جواب دینا شروع کیا تو فرشتہ چلا گیا اس کی جگہ شیطان آگیا اس لئے میں چلا گیا۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ اس مہمان کو حق دیا ہے کہ جس کامیزبان اس کی مہمان نوازی نہ کے تو ایسے مہمان کو یہ حق ہے کہ وہ میزبان کی شکایت کرسکتا ہے ۔ حضرت ابن عباس نے یوں مطلب بیان کیا کہ کوئی شخص کسی شخص کے لئے بد عا نہیں کرسکتا مگر ان مظلوم کو یہ حق ہے کہ وہ ظالم کے لئے بد عا کرسکتا ہے اور صبر کرلینا مظلوم کے لئے بہتر ہے۔ حضرت حسن کہتے ہیں کہ بد دعا کا مطلب یہ ہے کہ یوں کہے اللھم اعنی علیہ اللھم استخرج لی حقی اللھم حل بینی و بین مایریل یعنی یا اللہ فلاں شخص کے مقابلہ میں میری مدد کر یا اللہ فلاں شخص سے میرا حق وصول کرا دے یا اللہ فلاں شخص جو ارادہ کر رہا ہے اس کے ارادے اور میرے درمیان تو روک بن جا اور میرے خلاف اس کے ارادے کو کامیاب نہ ہونے دے۔ حضرت عائشہ کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے کہ جس شخص نے اپنے ظالم کے خلاف بدعا کی تو اس نے اپنا بدلہ لیا۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں مرفوعاً آیا ہے جو دو شخص آپس میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں تو گناہ اس شخص پر ہوتا ہے جو دونوں میں ابتدا کرنے والا ہوتا ہعے۔ بشرطیکہ مظلوم زیادتی نہ کے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص برا کہنے میں پہل کرتا ہے تو جواب دینے والے گناہ بھی اسی پر ہوتا ہے مگر شرط یہ یہ کہ مظلوم جواب دینے میں زیادتی نہ کرے۔ بعض حضرات نے آیت کو اکراہ پر محمول کیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ کفر اور شرک کی بات کا زبان پر لانا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے مگر ہاں جس شخص پر ظلم کیا گیا اور اس نے اپنی جان بچانے کو کوئی بات زبان سے نکال دی اور قلب اس کا محفوظ رہا تو ایسا شخص قابل عفو ہے۔ بعض حضرات نے استثنا منقطع قرار دیا ہے اور ہر طرح معنی کئے ہیں بہرحال ہم نے مشہور کا قول اختیار کیا ہے ہم ین ابھی عرض کیا تھا کہ ان آیات میں کافروں کا ذکر ہے خواہ وہ کھلے کافر ہوں یا منافق ہو یا یہود و نصاریٰ میں سے ہوں چناچہ اب آگے یہود کی شرارتوں کا ذکر ہے۔ اگرچہ حضرت شاہ صاحب (رح) منافقین سے تمام آیات کا ربط بیان فرما رہے ہیں۔ مگر ہم نے ربط آیات کا آسان اور سہل طریقہ اختیار کیا ہے۔ تاکہ پڑھنے والوں کو کوئی الجھائو نہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی منافق کو چاہو کہ صادق کرو تو ظاہر کے طعن سے چھپا سمجھانا بہتر ہے اور درگذر خوب ہے اللہ بھی جانتا بوجھتا بندوں سے در گذر کرتا ہے۔ (موضح القرآن) (تسہیل)  Show more